Novel Ki Dunya
June 11, 2025 at 12:40 PM
ناول۔۔۔۔ قسمت سے ہاری میں (پارٹ ٹو )
از قلم۔۔۔۔ پلوشہ صافی
قسط نمبر۔۔۔۔ 03
#dont_copy_paste_without_my_permission
آفس کیبن میں داخل ہوتے ہوئے کرن نے اپنا پروفیشنل انداز اختیار کر لیا تھا۔ کچھ دیر پہلے کے خوف و ہراس پر اس نے غلبہ حاصل کر لیا تھا۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ اپنے سیٹ پر بیٹھی اور رانا مبشر نے میز کے پار اس کے سامنے نشست پر تشریف رکھا۔
دونوں ہی خاموش تھے۔ کرن میز پر رکھے فائلوں کو دیکھ رہی تھی اور رانا مبشر اسے۔ کرن کے سارے حس بیدار تھے وہ جان کر بھی رانا مبشر سے انجان رہنے کی کوشش کرتی رہی۔
انشا گل کرن کے مقابل کھڑے ان دونوں کے کیفیات سمجھنے سے قاصر تھی۔ وہ کبھی کرن کو دیکھتی کبھی رانا مبشر کو۔ آخر اس کا صبر جواب دے گیا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر کرن کے سامنے سے فائل اٹھائی اور خود پراجیکٹ کی تفصیلات بیان کرنے لگی۔
رانا صاحب کو اس کی موجودگی سے تپ چڑھنے لگی۔ پھر وہ ضبط کرتے ہوئے کنکارے۔
"انشا گل۔۔۔۔۔ کیا یہ پراجیکٹ آپ کا ہے۔۔۔؟ " انہوں نے ہر حد کوشش کرتے اپنا رویہ خوشگوار کرتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں کرن میم کا ہے۔۔۔۔" انشا گل اس طرح ڈائریکٹ سوال پر چھنپ سی گئی۔
کرن کو بھی رانا مبشر کا اس کی سیکرٹری سے بے مروتی برتنا پسند نہیں آیا لیکن جوابی کارروائی کے بجائے اس نے خاموشی سے رانا مبشر کو گھورا۔
رانا صاحب گردن اکھڑائے کرن کی نظریں نظر انداز کر کے انشا گل سے مخاطب ہوئے۔
"تو پھر۔۔۔۔۔ انہیں بتانے دیجیئے۔۔۔۔ میں ان کی زبانی سننا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔" انہوں نے طنز و مزاح کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا فقرہ مکمل کیا۔
"ٹھیک ہے۔۔۔۔ پھر میں آپ دونوں کے لیے چائے کا انتظام کر کے آتی ہوں۔۔۔۔۔" انشا گل نے اپنی مخصوص انداز میں سر کو خم کر دے کر کرن سے رخصت چاہی لیکن اس کے جانے سے پہلے رانا صاحب نے اسے دوبارہ مخاطب کیا۔
"میرے لیے بغیر چینی ترکش قہوہ۔۔۔۔۔۔ سنا ہے ترکی کا قہوہ بہت زبردست ہے۔۔۔۔۔" دوستانہ مزاج بنائے وہ آنکھیں چھوٹی کر کے انشا گل کو دیکھنے لگے۔
"بلکل درست فرمایا مسٹر رانا۔۔۔۔۔ آپ ترکی آئے اور قہوہ نہ پیئے تو سمجھو ٹرپ نامکمل رہی۔۔۔۔" انشا گل نے اپنے وطن کی خاص قہوے کی تعریف میں مزید اضافہ کیا۔
"میم آپ بھی قہوہ لینگی۔۔۔۔" اس نے مسکراتے ہوئے کرن کے طرف رخ کر کے پوچھا۔
کرن نے بے زاری سے پہلے رانا صاحب کو دیکھا جو اسی کی جانب متوجہ تھے پھر انشا گل کو دیکھا اور ترکش زبان میں گویا ہوئی۔
"چائے ہی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ اور جلدی لے کر آنا۔۔۔۔" اس نے تنبیہہ کرتے ہوئے کہا اور فائل کھول لی۔
رانا صاحب اس کی گفتگو تو سمجھ نہیں پائے لیکن لہجے کی کرہٹ سے واضح ہوگیا تھا کہ انشا گل کو سختی سے تنبیہہ کیا گیا ہے۔ انشا گل سر کو جنبش دیتے ہوئے تیزی سے باہر نکل گئی۔
انشا گل کے جاتے ہی کرن فائل کے جانب متوجہ ہوئی اور پروفیشنل انداز میں رانا صاحب کو تفصیلات سے آگاہ کرنے لگی۔
"انجینیئرز کے تعاون سے یہ پلاٹ فائنل کیا گیا ہے۔۔۔۔ ہماری ٹیم نے جائے وقوع کا معائنہ بھی کر لیا ہے اور تعمیراتی کام کا آغاز بھی کر چکے ہیں۔۔۔۔۔ یہ بلڈنگ کا ڈیزائن ہے۔۔۔۔۔" کرن نے رانا صاحب سے نظریں ملانے سے کتراتے ہوئے فائل رانا مبشر کے آگے کیا۔
رانا صاحب فائل پر ایک جھوٹی نظر ڈال کر کرسی پر آگے کو ہوئے اور اردو میں کرن کو مخاطب کیا۔
"کیسی ہو کرن۔۔۔۔۔ لگتا ہے۔۔۔۔۔ مجھے آزاد دیکھ کر تم خوش نہیں ہوئی۔۔۔۔" رانا صاحب کا لہجہ اب کی بار نرم اور ہمدردانہ تھا۔
کرن بھی ان کے جیسے کرسی پر آگے ہو کر بیٹھی۔
"کسی کو قید یا آزاد رکھنا حکومت کا کام ہے۔۔۔۔۔ میرا نہیں۔۔۔۔ ویسے بھی میں ماضی بہت پیچھے چھوڑ آئی ہوں۔۔۔۔ میں ان سب سے بہت آگے نکل گئی ہوں۔۔۔۔ اب مجھے ان باتوں سے فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔" کرن نے سپاٹ انداز میں یک ٹک جواب دیا۔
اس کی ہمت سے مسرور ہوتے ہوئے رانا صاحب نے آبرو اچکا کر سر کو خم دیا اور ہاتھوں کی انگلیاں باہم پھنسائی۔
"میرے لیے تو زندگی وہی رک سی گئی ہے۔۔۔۔۔ سب آگے نکل گئے ہیں۔۔۔۔۔ یک تنہا میں آج بھی اسی چوراہے پر کھڑا ہوں۔۔۔۔۔" نظریں گھما کر آس پاس دیکھتے ہوئے وہ استحزیہ ہنسے۔
کرن ان کی کسی بات کا اثر لیئے بغیر سپاٹ انداز میں انہیں دیکھ رہی تھی۔
"پر میں تمہارے لئے بہت خوش ہوں۔۔۔۔ مجھے بہت اچھا لگا یہ سب دیکھ کر۔۔۔۔۔ تم اس سے بھی اونچے مقام کی حقدار ہو۔۔۔۔" ان کے الفاظ دل سے نکل رہے تھے۔ ان کی خوشی ان کے چہرے سے بھی چھلک رہی تھی۔
اسی اثناء دروازے پر دستک ہوئی اور ٹرے اٹھائے ملازم انشا گل کے ہمراہ کیبن میں داخل ہوا۔
"یہ رہی آپ کی چائے۔۔۔۔ اور یہ آپ کا اسپیشل زعفرانی قہوہ مسٹر رانا۔۔۔۔" انشا گل نے ایک ایک کر کپ ان دونوں کے سامنے پیش کیا۔
رانا مبشر نے ترکش انداز میں سر کو خم دے کر اس کا شکریہ ادا کیا اور کرن محض مسکرا دی۔ وہ چاہتی تھی یہ میٹنگ جلد از جلد ختم ہوجائے۔ اسے زیادہ دیر رانا مبشر کے ساتھ بیٹھنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ کئی اندر دل کے زخم ابھر رہے تھے۔
لوازمات پیش کر کے ملازم اور انشا گل واپس نکل گئے۔ ان کے جاتے ہی ابھی کرن نے چائے کا کپ اٹھایا ہی تھی کہ دروازہ پھر سے کھلا اور ایک ننھی گھنگریالے بالوں بڑی بڑی آنکھوں والی ننھی پری ہاتھ ہوا میں لہراتی اندر داخل ہوئی۔
"یہ دیکھو۔۔۔۔ میں آگئی۔۔۔۔" اس نے ترکش میں کہا۔
کرن اس چار سالہ چھوٹی بچی کو دیکھ کر چہک گئی اور اس کا خوشی سے استقبال کیا۔
"فاطمہ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسی ہو۔۔۔۔۔۔۔ کب آئی۔۔۔۔۔۔۔" اس نے بھی اپنی بانہیں پھیلائے اس ننھی پری کو آغوش میں لے لیا تھا اور اسے پیار کر رہی تھی۔
ان دونوں کے گفتگو سے انجان رانا مبشر کا دل ڈگمگانے لگا۔ الگ الگ وسوے ہونے لگے تھے کہ وہ کہی کرن کی بیٹی تو نہیں۔ لیکن پھر اس خیال کو یہ سوچ کر ٹال دیتے کہ انٹرنیٹ پر تو کہی بھی کرن کی شادی کا ذکر نہیں ہوا تھا۔ کرن رانا صاحب کے سوچوں سے انجان کبھی فاطمہ کے بال سنوارتی کبھی اس کے ننھے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے بغور اس کا تبصرہ سن رہی ہوتی۔
رانا مبشر نے جب انتالیہ آنے کا فیصلہ کیا تب ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اگر کرن نے پھر سے شادی کر لی تھی اگر اس کی فیملی تھی تو۔ پر اب اس جگہ بیٹھے یہ خیالات انہیں کھائے جا رہے تھے۔ رانا مبشر کے گلے میں پھندا سا لگنے لگا وہ قہوے کا کپ اٹھا کر پینے لگے۔ بغیر چینی قہوہ انہیں اس وقت گرم زہر کے مانند لگ رہا تھا جو وہ اپنے اندر کے آگ کو بجھانے اس پر انڈیل رہے تھے۔
کرن کے باتوں سے فارغ ہوکر فاطمہ ٹیبل کی آوٹ سے نکل کر رانا صاحب کی طرف آگئی تھی۔
"ہائے۔۔۔۔ میرا نام فاطمہ ہے۔۔۔۔ آپ کا کیا نام ہے۔۔۔۔" ننھی فاطمہ نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اپنا تعارف کرواتے ہوئے مصافحہ کرنے ہاتھ ان کے آگے کیا۔
رانا صاحب نے ایک جھوٹی نظر کرن پر ڈال کر تیزی سے اپنے مزاج خوشگوار بنائے اور فاطمہ کا ننھا ہاتھ تھام کر جنبش دیا۔
"بہت پیارا نام ہے آپ کا۔۔۔۔۔ میرا نام مبشر ہے۔۔۔۔" انہوں نے فاطمہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
کرن رانا مبشر کے یہ بدلے مزاج دیکھ کر دوہری کیفیت کا شکار ہورہی تھی۔ اسے رانا صاحب کے زبان سے نکلنے والے اچھے الفاظ پر یقین نہیں آرہا تھا۔
فاطمہ کھلکھلاتے ہو رانا صاحب کے نام کو ہجے کر کے سیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔
"مو۔۔۔۔۔بہ۔۔۔۔ شر۔۔۔۔۔ آپ کا بھی اچھا نام ہے۔۔۔۔۔" اسے یہ نام تلفظ کرنے میں مشکل کا سامنے کرنا پڑ رہا تھا لیکن پھر بھی ان کے نام کی تعریف کر دی۔
"فاطمہ۔۔۔۔۔ چیک اپ کروا لیا۔۔۔۔" کرن نے اسے رانا صاحب کے ساتھ مزید گفتگو سے روکنے اپنے پاس بلا لیا۔
چیک اپ کا سن کر فاطمہ کا منہ بن گیا اور سر پورا دائیں سے بائیں ہلاتی کرن کے زانو پر بیٹھ گئی۔
"ابھی جانا ہے۔۔۔۔۔ مجھے بلکل نہیں پسند ڈاکٹر کے پاس جانا۔۔۔۔۔" اس نے منہ بھسورتے ہوئے کہا۔
"پسند تو کسی کو نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ لیکن صحت برقرار رکھنے کے لیے چیک اپ تو کروانا پڑتا ہے۔۔۔۔" کرن نرمی سے فاطمہ کو سمجھا رہی تھی۔
رانا صاحب کرن کے زبان سے اتنی صاف ترکش سن کر محظوظ ہو رہے تھے لیکن فاطمہ کو لے کر دل میں اٹھتے سوال ابھی بھی جواب کے تلاش میں تھے۔ اسی دوران دروازے پر دستک دے کر انشا گل پریشان سی اندر داخل ہوئی۔
"آئی ایم سو سوری۔۔۔۔ یہ مجھ سے چھپ کر اندر آگئی۔۔۔۔ فاطمہ چلو ادھر آو۔۔۔۔۔ دیکھو میم میٹنگ میں ہے نا۔۔۔۔۔ تم میرے ساتھ آو۔۔۔" اس نے نرمی سے فاطمہ کو مخاطب کیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کرن کے گود میں سے اتارا اور اپنے ساتھ لے جانے لگی۔
دروازے تک پہنچ کر کرن نے انشا گل کو مخاطب کیا۔
"انشا گل۔۔۔۔ تم بھی ہالف ڈے لے لو۔۔۔۔" پلکیں جھپکا کر اس نے سر کو خم دیا۔ انشا گل بھی اس کے اشارے کو سمجھ کر سر کو جنبش دیتے ہوئے باہر نکل گئی۔
رانا صاحب قہوہ ختم کر کے ہاتھوں کی انگلیاں باہم پھنسائے اپنے اضطراب کو قابو رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
"فاطمہ، انشا گل کی بیٹی ہے۔۔۔۔۔" کرن نے بے تاثر انداز میں وضاحت پیش کی۔
رانا صاحب چاہ کر بھی اس سے اپنی حالت چھپانے میں ناکام رہے تھے یا اتنے سالوں سے سوشلسٹ کا کام کرتے کرتے کرن چہرے پڑھنا سیکھ گئی تھی کہ اس نے رانا صاحب کے سنجیدہ تاثرات سے ان کی دلی کیفیت جانچ لی تھی۔
کرن کا جواب سن کر رانا صاحب کا چہرہ پھر سے کھل اٹھا تھا۔ ان کے دل میں اٹھتے بے یقینی پر مانو گڑھوں پانی گر گیا تھا۔
"اووو ہمممم۔۔۔۔۔ بہت پیاری بچی تھی۔۔۔۔ پہلی ہی ملاقات میں اتنے اپنائیت سے ملی۔۔۔۔ انشا گل خود بھی بہت نیک خاتون ہے۔۔۔۔" رانا صاحب نے خوش مزاجی سے کہا۔
کرن پھیکا سا مسکرائی۔
"وہ تو ہے۔۔۔۔ لیکن کسی کی نیکی۔۔۔۔ کسی کا خلوص۔۔۔۔ اسے آزمائش میں پڑنے سے نہیں روک سکتی۔۔۔۔" اس نے بے بسی سے سر جھٹکا۔ رانا صاحب پر سوچ انداز میں اسے دیکھ رہے تھے۔
"فاطمہ کے دل میں سوراخ ہے۔۔۔۔ ہر ماہ انشا گل اس کے ہزار طریقوں کے چیک اپ کرواتی ہے کہ کہی سوراخ کا سائز بڑھ تو نہیں رہا۔۔۔۔ کیا اس کے جسم کو خون اور آکسیجن مقرر مقدار میں مہیا ہورہا ہے یا نہیں۔۔۔۔ ہر طریقے کار آزما کر وہ فاطمہ کو زندہ رکھنے کی جتن کر رہی ہے۔۔۔۔۔" انشا گل کی تکلیف یاد کرتے کرن کی آواز بھر آنے لگی اس لیے خاموش ہوگئی۔
رانا صاحب لب مینچھے افسردگی سے تھوڑی دیر پہلے ہوئے فاطمہ سے ملاقات کو یاد کرنے لگے۔
ایک گہری سانس لیتے ہوئے کرن نے خود کو نارمل کیا پھر فائل اٹھا کر کام کے جانب متوجہ ہوئی۔
زیر تعمیر عمارت کے ڈیزائن دیکھ کر رانا صاحب سیٹ کے پشت سے ٹیک لگا کر کنکارے۔
"ٹھیک ہے پھر۔۔۔۔ کل آپ سب کے ہمراہ میں بھی سائٹ وزٹ پر چلوں گا۔۔۔۔۔ میں بہ ذات خود انجینئیر اور آرکیٹکٹ سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ تو مس کرن کل ملتے ہیں۔۔۔۔" انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
کرن حیران پریشان سی انہیں دیکھنے لگی۔ وہ رانا صاحب سے مزید ملاقات کی قطعی خواہش مند نہیں تھی۔ لیکن رانا مبشر اسے انکار کرنے کا موقع ہی نہیں دے رہے تھے۔
"آج آپ کا بہت وقت لے لیا۔۔۔۔۔ باقی کی فیصلے کل کریں گے۔۔۔۔ گڈ بائے۔۔۔۔" انہوں نے اپنے سوٹ کی شکن درست کرتے رخصت لیتے ہوئے کہا اور کرن کا جواب سنے بغیر کیبن سے باہر نکل گئے۔
***************&&&&&&*************
اس شام کرن گھر آکر بھی مضطرب تھی۔ اس کے ذہن میں بار بار رانا مبشر کا یہ بدلہ روپ گردش کر رہا تھا۔
"وہ کیوں آئے ہے واپس۔۔۔۔۔ ساری دنیا میں ان کو میرا ہی پراجیکٹ ملا انویسٹ کرنے۔۔۔۔کیا وہ مجھ سے بدلہ لینا چاہتے ہے۔۔۔۔۔ یا وہ واقعی نیک بن گئے ہے۔۔۔۔" بے دلی سے سوچتے ہوئے وہ قدم قدم چلتی لاوئج میں داخل ہوئی۔
انی صوفے پر پیر دراز کئے گود میں چپس کا پیالہ رکھے ٹی وی پر اپنا پسندیدہ ترکش ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔
"کرن۔۔۔ آج آنے میں دیر ہوگئی۔۔۔۔۔" کرن کو لاؤنج میں داخل ہوتے دیکھ کر انہوں نے چپس منہ میں ڈالتے ہوئے پوچھا۔
کرن اپنے خیالات میں گم ان کے سوال کا جواب دیئے بغیر ان کے مقابل صوفے پر آکر ڈھے کر بیٹھ گئی۔ کرن کا بجھا چہرہ دیکھ کر انی پریشان ہوگئی۔ انہوں نے ٹی وی بند کر دیا اور چپس کا پیالہ ہٹا کر پیر نیچے کر کے کرن کو بغور مشاہدہ کرنے لگی۔
"کیا بات ہے کرن۔۔۔۔ کوئی پریشانی ہے۔۔۔۔ کام کا بوج زیادہ ہے کیا۔۔۔۔" انہوں نے متفکر انداز میں اسے مخاطب کیا۔
کرن نے انی کے جانب رخ کیا۔
"انی۔۔۔۔۔ رانا مبشر آزاد ہوگئے ہے۔۔۔۔۔ وہ ترکی آئے ہے۔۔۔۔ میرے پراجیکٹ پر سرمایہ لگا رہے ہے۔۔۔۔" کرن نے دھڑکتے دل کے ساتھ انی کو دن بھر کی رو داد سنائی۔ انی اور کرن ایک دوسرے سے کچھ نہیں چھپاتیں تھیں۔ وہ ایک دوسرے کے بہت قریب تھیں۔ کرن انی کو اپنے ماضی کے بارے میں پہلے سے سب بتا چکی تھی۔
"مجھے ان کا ارادہ سمجھ نہیں آرہا۔۔۔۔۔ میں نہیں جان سکی ان کی نیت کیا ہے۔۔۔۔" اس نے اپنا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے سر پکڑ لیا۔
انی کچھ پل خاموشی سے سوچتی رہی پھر مدھم آواز میں گویا ہوئی۔
"کرن۔۔۔۔ ہوسکتا وہ واقعی اچھے انسان بن گئے ہو۔۔۔۔۔ اتنے سالوں میں تو وقت بھی بدل جاتا ہے۔۔۔۔۔ انسان کیسے نہیں بدل سکتا۔۔۔۔" انہوں نے کرن کو پیار سے سمجھانے کی کوشش کی۔
"کوئی اور ہوتا تو آپ کی منطق کو مان بھی لیتی انی۔۔۔۔ لیکن رانا مبشر۔۔۔۔۔ رانا مبشر بدلنے والوں میں سے کبھی نہیں تھے۔۔۔۔۔" کرن مسلسل نفی میں سر ہلاتی رہی۔ اسے رانا صاحب کے اچھے انسان بننے کا قطعی طور پر یقین نہیں آرہا تھا۔
جب انسان ہمیشہ برائی کی راہ پر چلتا رہا ہو تو اس کی اچھائی دنیا والوں کے لیے سوال بن جایا کرتی ہے۔ کرن کے لیے بھی رانا مبشر کی اچھائی ایک ایسا ہی پیچیدہ سوال بن گئی تھی۔
****************&&&&**************
اگلی صبح اپنے وعدے کے مطابق رانا صاحب دس بجے کرن کے آفس پہنچ گئے تھے۔ بلیک کلر کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس وہ ہمیشہ کی طرح شاندار لگ رہے تھے۔ کرن عام دنوں کے بر عکس آج جینز اور سفید ٹی شرٹ پر لانگ شرگ پہنے بالوں کی اونچی پونی بنائے آنکھوں پر گلاسس پہنے ہوئے تھی۔ اس کے ہمراہ سیلان اور انشا گل بھی کوریڈور میں رانا مبشر سے ملے اور پھر آفس کی vigo کار میں سوار ہو کر وہ سب تعمیراتی سائٹ کا جائزہ لینے روانہ ہوگئے۔
وقفے وقفے سے انشا گل رانا صاحب کو راستے میں نظر آتے نئے ترقیاتی منصوبوں کی مختصر تفصیلات سے آگاہ کرتی رہی۔ ایک آدھ مرتبہ سیلان نے بھی اپنی معلومات بتا کر گفتگو میں حصہ لیا جب کہ کرن خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہی۔ رانا صاحب نے بات کرتے کرتے کنکھیوں سے ایک آدھ مرتبہ اسے دیکھا لیکن وہ سپاٹ تاثرات بنائے کھڑکی سے باہر گزرتے ٹریفک کو دیکھتی رہی۔ کرن کے جانب سے نظر انداز کئے جانے پر رانا صاحب کو دل میں ٹیس سی اٹھتی محسوس ہورہی تھی لیکن وہ اپنے جذبات ضبط کرنے کے پابند تھے اس لیے توجہ انشا گل پر مرکوز کر دی تھی۔
**************&&&&*************
دو تین دن تک ان کا یہی معمول چلتا رہا۔ رانا صاحب کرن اور اس کے ٹیم کے ساتھ سائٹ پر جاتے پھر شام تک انہیں ہوٹل ڈراپ کر کے کرن گھر آجاتی اور اپنے کتاب کے کام میں مصروف ہوجاتی۔
اس دن رانا صاحب تھری پیس سوٹ کے بجائے جینز اور چیک شرٹ پہنے ہوئے تھے۔ انتالیہ کا موسم اس دن بہت خوشگوار تھا۔ آسمان ہلکے بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ سائٹ پر رانا صاحب اور کرن آرکیٹیکٹ کے ساتھ مباحثے میں لگے تھے جب ہمایوں بھی وہاں آن پہنچا۔ کرن بہ یک وقت رانا مبشر اور ہمایوں کو دیکھ کر مضطرب ہونے لگی۔
ہمایوں کچھ فاصلے پر کھڑے سیلان سے مل کر مسکراتے ہوئے کرن کے جانب آیا۔ کرن کے ساتھ ساتھ اس نے رانا صاحب سے بھی مصافحہ کیا۔
ہمایوں نے پر سوچ انداز میں رانا صاحب کے سراپے کو سر تا پیر دیکھا۔
"مسٹر ۔۔۔۔ رانا مبشر۔۔۔۔۔ آپ تو اپنے دور کے بہت جابر بزنس مین رہے ہیں۔۔۔۔۔ بہت نام سنا ہے آپ کا۔۔۔۔۔ کافی پاپولر تھے آپ۔۔۔۔۔ پھر کسی فیملی وجوہات کی بنا پر آپ کو جیل ہوگئی تھی۔۔۔۔ وہی رانا مبشر ہے نا آپ۔۔۔۔" ہمایوں نے طنزیہ انداز میں آبرو اچکا کر پوچھا۔
ہمایوں کے زبانی رانا صاحب کے شخصیت پر طنز کرنا کرن کو قطعی مناسب نہیں لگا وہ سخت تاثرات بنائے اسے گھورنے لگی۔ جبکہ اس کے بر عکس رانا صاحب اپنے بارے ہمایوں کے ایسے تبصرے پر ہنسنے لگے۔
"بلکل درست کہا۔۔۔۔ میں وہی رانا مبشر ہوں۔۔۔۔۔ مجھے خوشی ہوئی اچھے انداز میں نہ صحیح۔۔۔ پر کم از کم میں ابھی بھی لوگوں کو کسی لحاظ سے یاد تو ہوں۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے کنکھیوں سے کرن کے بگڑے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا۔
ان کے حس و مزاح پر ہمایوں بھی ہنس دیا اور پھر کرن کو مخاطب کیا جو تنے ہوئے اعصاب سے ہاتھ سینے پر باندھے اسے دیکھ رہی تھی۔
"کرن یہاں پاس میں ایک بہت اچھا پاکستانی ریسٹورینٹ ہے۔۔۔۔ ویسے بھی لنچ کا وقت ہورہا ہے۔۔۔۔ چلو۔۔۔ وہاں چل کے لنچ کرتے ہیں۔۔۔۔" ہمایوں نے جوش و خروش سے اسے کھانے کی آفر کی۔
کرن نے ہمایوں سے اپنی پہلی شادی کا ذکر ضرور کیا تھا لیکن اپنے سابقہ شوہر کے بارے میں کبھی نہیں بتایا تھا کہ وہ کون تھے کیا کرتے تھے۔ اس لیے ہمایوں رانا مبشر اور کرن کے سابقہ رشتے سے انجان ان دونوں کو محض بزنس کولیگ سمجھ رہا تھا۔
کرن رانا صاحب کے موجودگی میں ہمایوں کے اس آفر پر گھبرا گئی۔ اس نے متفکر انداز میں رانا صاحب کے جانب دیکھا وہ خود کو ان کی گفتگو سے انجان رکھتے ہوئے سامنے زیر تعمیر عمارت میں کام کرتے مزدوروں کو دیکھ رہے تھے۔
کرن نے لبوں پر زبان پھیر کر تر کیا اور معذرت خواہ تاثرات سے ہمایوں کو دیکھا۔
"آئی ایم سوری ۔۔۔۔ میں نہیں آسکتی۔۔۔۔ یہاں اتنا کام ہے۔۔۔۔ اور ابھی ہمیں انجینئر صاحب کے آفس بھی جانا ہے۔۔۔۔ ڈیزائن میں کچھ تبدیلی کروانی ہے۔۔۔۔" کرن نے یک کے بعد دیگر کاموں کی فہرست گنوائی اور ہمایوں کا جواب سنے بغیر انشا گل کو پکارتی تیزی سے روانہ ہوگئی۔
رانا مبشر کے جبڑے سخت ہوگئے تھے۔ ایک خاموش اور تند نظر سے ہمایوں کو دیکھ کر وہ جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کرن کے پیچھے ہو لیے۔ اندر سے ان کے جنون کو آج بھی کرن کا کسی غیر مرد کے ساتھ بات کرنا بھی گوارا نہیں تھا لیکن اپنے اور کرن کے مابین کسی شرعی رشتے کے نہ ہونے کے بابت وہ ضبط کرنے پر مجبور تھے ورنہ ان کا دل تو کیا وہ یہی ہمایوں کو ڈھیر کر دیں۔
******************&&&&****************
جب کرن نے ساتھ لنچ کرنے سے انکار کر دیا تو ہمایوں سائٹ سے ان کے ساتھ انجنیئر آفس آگیا۔ وہ کرن کے ساتھ وقت بِتانے کا یہ موقع گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ کرن کار میں مضطرب سی بیٹھی کبھی رانا صاحب کو دیکھتی جو پورا راستہ سنجیدہ بیٹھے تھے اور کبھی ہمایوں کو دیکھتی۔ ان دونوں مردوں کے مابین وہ دوہری کیفیت کا شکار ہورہی تھی۔
انجیئر صاحب کا آفس بلڈنگ کے اٹھارویں منزل پر تھا۔ وہاں کے جدید لفٹ سسٹم کے مطابق دو بندوں سے زیادہ اندر جانے کی گنجائش نہیں تھی۔ وہ سب قطار سے بنے لفٹ کے لائن میں آگئے۔ پہلی لفٹ آکر رکی تو کرن اندر داخل ہوگئی۔ ہمایوں نے اندر جانے قدم بڑھائے ہی تھے کہ رانا صاحب پھرتی سے اس کے آوٹ سے گزر کر لفٹ میں داخل ہوگئے اور ان کے داخل ہوتے ہی لفٹ کا دروازہ بند ہوگیا۔
کرن کا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔ رانا صاحب ہمایوں کو کرن کے ساتھ اکیلے جانے سے روکنے خود لفٹ میں داخل تو ہوگئے تھے لیکن انہیں کرن کے چہرے پر ایک رنگ چڑھتا اور دوسرا اترتا محسوس ہورہا تھا۔ ابھی وہ اسی کشمکش میں مبتلا تھے کہ وہ دونوں ڈگمگا گئے اور ایک جھٹکے سے بارہویں منزل پر آکر لفٹ اچانک رک گئی۔
کرن کے اوسان خطا ہو گئے تھے اس نے بے یقینی سے رانا صاحب کو دیکھا وہ بھی در پیش مسئلے کو بغور مشاہدہ کرنے لگے تھے۔
کرن ہیبت زدہ سی ہوگئی وہ ایک کے بعد دوسرا لفٹ کے بٹن دبانے لگی۔ پھر اپنے ہاتھ دروازے کے پھٹ میں پھنسا کر زور لگانے لگی لیکن لفٹ ایک جگہ ساکت ہو گئی تھی نہ وہ حرکت کر رہی تھی نہ ہی دروازہ کھل کے دے رہا تھا۔ اس کے اضطراب میں اضافہ ہونے لگا وہ دروازہ بجانے لگی۔
"کرن ریلکس panic مت کرو۔۔۔۔ کوئی ٹیکنیکل خرابی ہوگی ابھی چل جائے گی لفٹ۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے ہمدردی سے کرن کو سمجھانے کی کوشش کی اور اس کا خوف کم کرنے، اسے تھامنے قریب جانے لگے کہ کرن نے ان کے ہاتھ پرے دھکیل دیئے۔
"پاس مت آنا میرے۔۔۔۔۔۔ ہاتھ مت لگاو مجھے۔۔۔۔۔ بہت اچھے سے جانتی ہوں۔۔۔۔۔ یہ سب آپ نے کیا ہے۔۔۔۔۔ مجھ سے بدلہ لینے آئے ہے نا آپ۔۔۔۔۔ مجھے جان سے مارنا چاہتے ہے نا آپ۔۔۔۔۔ یہ اچھا بننے کا ڈھونگ کسی اور کے سامنے کرنا۔۔۔۔۔ مجھے آپ پر بلکل بھی بھروسہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔" کرن لفٹ کے وسطی دیوار سے لگ کر لرزتی آواز میں رانا صاحب پر چِلا اٹھی تھی۔
رانا صاحب کے ہاتھ ہوا میں ہی رہ گئے وہ بے یقینی سے بنا پلک جھپکائے یک ٹک اسے دیکھے جا رہے تھے۔
"لیکن یہ پاکستان نہیں مسٹر رانا مبشر۔۔۔۔۔ اور مجھے اب کمزور مت سمجھنا۔۔۔۔ میں اینٹ سے اینٹ بجا دونگی آپ کی۔۔۔۔۔ مجھ پر پھر سے تشدد کرنے کا سوچنا بھی مت۔۔۔۔۔ " کرن نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کرتے ہوئے کہا اور پھر سے خود کو وہاں سے نکالنے کے جتن کرنے لگی۔
رانا صاحب خاموشی سے کرن کے لفظوں کے کڑوے گھونٹ اپنے اندر اتارتے رہے پھر اس کے پلٹتے ہی انہوں نے کرب سے آنکھیں میچھ لی۔ انہیں کرن کی باتوں سے بہت تکلیف ہوئی تھی پر انہوں نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔
کرن نے ایک خیال آتے ہی لرزتے ہاتھوں سے پرس سے اپنا موبائل نکالا اور انشا گل کو کال ملانے لگی۔ لیکن لفٹ کے اندر ٹھیک سے سگنل نہیں آرہے تھے۔ وہ اففف کر کے سر پکڑ کر رونے لگی۔
رانا صاحب بے بسی سے کرن کو پاگل پن کرتے دیکھتے رہے لیکن دوبارہ اسے دلاسہ دینے کی کوشش نہیں کی۔ وہ سمجھ گئے تھے کرن لفٹ میں پھنسنے سے نہیں بلکہ ان کی موجودگی سے خوفزدہ ہورہی ہے۔
جب سب کچھ آزما کر بھی لفٹ پھنسی رہی تو کرن ہار مان کر دیوار سے سر ٹکا کر کھڑی ہوگئی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تنگ جگہ پر ہپس بڑھنے لگا۔ رانا صاحب نے پیشانی پر نمودار ہوتا پسینہ صاف کیا اور شرٹ کے اوپری بٹن کھول دیئے۔ کرن آنکھیں موندھے لمبی سانس لیتے ہوئے خود کو نارمل کرتی رہی۔
کوئی بیس منٹ بعد جا کر لفٹ میں حرکت شروع ہوئی اور لفٹ تیزی سے واپس نیچے گراونڈ فلور پر آ رکی۔
مین فلور پر لفت کے سامنے انشا گل اور سیلان متفکر انداز میں کھڑے تھے۔ ہمایوں کے چہرے سے بھی فکرمندی کے ایثار چھلک رہے تھے۔ ان کے علاوہ وہاں کے سٹاف ممبران بھی انگشت بہ دندان تھے۔
لفٹ کا دروازہ کھلتے ہی کرن باہر کو بھاگی اور سامنے کھڑی انشا گل سے لپٹ گئی۔ اس کے کند ھے سے سر لگائے وہ خود کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگی۔
"آپی۔۔۔۔ آپ ٹھیک تو ہے۔۔۔۔" انشا نے کرن کے کندھوں اور کمر کو سہلاتے ہوئے پوچھا۔
رانا مبشر اپنی رعب دار شخصیت کو برقرار رکھتے ہوئے سپاٹ انداز میں لفٹ سے باہر آئے اور سائید پر کھڑے ہوگئے۔
"سر آپ ٹھیک تو ہے۔۔۔۔" سیلان نے رانا صاحب کو پانی کی بوتل تھماتے ہوئے ان کی طبیعت کی تصدیق کرنا چاہی تو انہوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے دباؤ دے کر تسلی دی اور پھر دو زانو بیٹھ کر پانی پینے لگے۔
دوسرے جانب انشا گل اور آفس کے سٹاف ممبران کرن کو پانی پیلانے میں مصروف تھے۔ ہمایوں نے ایک مرتبہ کرن کی حالت دیکھی پھر مشکوک نظروں سے رانا مبشر کو۔ اسے ان دونوں کے بیچ کسی حساس حالت کا خدشہ محسوس ہوا تھا۔
آفس کے ٹیکنیکل آفسران شرمسار ہوتے ہوئے کرن کے پاس آئے۔
"ہم بہت معذرت چاہتے ہیں میم۔۔۔۔۔ جنریٹر میں خرابی آگئی تھی اس لیے کچھ دیر کے لیے بجلی منقطع ہوگئی اور لفٹ پھنس گیا۔۔۔۔" اس اڈھیر عمر آدمی کا احساس ندامت سے چہرہ سرخ پڑنے لگا تھا۔ در پیش واقع کا سن کر انجینئر صاحب بھی تیزی سے وہاں پہنچ گئے اور اپنے سٹاف کو جھڑکنے لگے۔
کرن کی حالت سنبھلی تو اس نے انجینئر صاحب کو انہیں مزید ڈانٹنے سے روک لیا۔
"انجینیئر صاحب کوئی بات نہیں۔۔۔۔ حادثات ہوجاتے ہے۔۔۔۔ غلطی ہوگئی ان سے۔۔۔۔ جانے دیں۔۔۔۔۔ مجھے دراصل بند جگہ کا فوبیا ہے۔۔۔۔ اس لیے حالت غیر ہوگئی تھی۔۔۔۔۔ پر اب ٹھیک ہوں۔۔۔۔" کرن نے معاملہ سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے وضاحت پیش کی۔
انجینئر صاحب نے سٹاف ممبران کو دفع ہونے کا کہہ کر کرن سے میٹنگ اگلے دن کی رکھ لی اور فِل وقت اسے گھر جا کر آرام کرنے کی تجویز دی۔ کرن کو بھی یہی مناسب لگا اس نے ان سے رخصت لی اور گھر کے لیے روانہ ہوگئی۔
**************&&&&***************
اس رات رانا صاحب اپنے شب خوابی کے کپڑے پہنے ہوٹل کے کمرے کے بالکونی میں کھڑے ہو کر ریلنگ پر مضبوطی سے ہاتھ جمائے ہوئے کبھی تاریک آسمان میں چمکتے چاند اور تاروں کو دیکھتے کبھی انتالیہ شہر کے روشنیوں کو۔ دل اداس اور چہرہ مایوس تھا۔ جا جا کر کرن کا وہ خوفزدہ چہرہ، اس کا وہ دھمکی دینا، ان کے آنکھوں کے پردوں پر اور اس کی وہ وحشت زدہ آواز رانا صاحب کے سماعتوں میں گردش کر رہی تھی۔
"کیا ملا یہاں آکر رانا۔۔۔۔۔ اسے تمہاری اچھائی پر یقین ہی نہیں ہے۔۔۔۔" انہوں نے دور افق میں دیکھتے ہوئے سوچا۔
"کیا اعتراف کرو گے تم اس سے۔۔۔۔۔ وہ تو تیرے وجود سے بھی ڈرتی ہے۔۔۔۔" ان کے دل میں شیطانی وسوسے امڑ رہے تھے۔
انہوں نے اففففف کر کے لمبی سانس خارج کی۔
"اچھائی کا راستہ آسان نہیں ہے۔۔۔۔ لوگ قدم قدم پر آزمائے گے۔۔۔۔ ثبوت چاہے گے۔۔۔۔ لیکن تمہیں ثابت قدم رہنا ہوگا۔۔۔۔" رانا صاحب کے سماعتوں میں اب ایک اور مردانہ آواز گونجنے لگی۔
رانا صاحب نے سر جھٹک کر اپنے خیالات مہو کئے اور وضو کرنے کے نیت سے واشروم چلے گئے۔ سنک پر جھکے ہوئے وہ ایک ایک کر وضو کرنے لگے۔ جب چہرے پر پانی ڈالا تب وہ مردانہ آواز پھر سے اجاگر ہونے لگی۔
"پہلے جبر اور زبردستی کر کے نتیجہ دیکھ لیا نا۔۔۔۔۔ اب صبر اور پیار سے کام لو۔۔۔۔" اس مردانہ آواز نے نرم لہجے میں ہدایت دی۔
رانا صاحب نے پھر سے ہاتھوں کا پیالہ بنا کر پانی بھرا اور چہرے پر ڈالا۔ پانی کے ساتھ وہ خیالات بھی بہہ گئے۔ وضو مکمل کر کے وہ واشروم سے باہر آئے۔ ٹیبل پر سے جائے نماز اٹھا کر قبلہ رخ بچھایا اور صلوت حاجت کے نوافل پڑھنے لگے۔ نماز مکمل کر کے انہوں نے دعا میں ہاتھ اٹھائے تو اپنے آپ ان کا دل بھر آنے لگا۔
"اے سب کے بگڑی بنانے والے بادشاہ۔۔۔۔۔ تو رحیم ہے۔۔۔۔ تو کریم ہے۔۔۔۔۔۔ میرے ارادوں کو کمزور مت ہونے دینا۔۔۔۔۔۔ مجھے میرے حاصل تک پہنچا۔۔۔۔۔ جیسے مجھ گہنگار کے دل کو صاف کر دیا تو نے۔۔۔۔۔۔ ویسے ہی اس کے دل میں میرے لیے رحم ڈال دیں۔۔۔۔۔ بیشک تُو ہر چیز پر قادر ہے رب العالمین۔۔۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے کرن کے دل میں اپنے لیے رحم کی دعا کر کے ہاتھ چہرے پر پھیرے اور جائے نماز اپنی جگہ پر رکھ کر وہ بیڈ پر نیم دراز ہو کر لیٹ گئے۔ آنکھوں میں نیند کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ اپنے دلی سکون کے خاطر وہ غیر مروی نقطہ کو دیکھتے ہوئے زیر لب زبانی سورہ یاسین کی تلاوت کرنے لگے۔
**************&&&&&************
کرن آرام کرنے کی نیت سے گھر تو آگئی تھی لیکن سکون پھر بھی نہیں مل سکا تھا۔
رات دیر گئے تک وہ اپنے سٹوڈیو میں کتاب لیئے بیٹھی رہی۔ سر درد کو کم کرنے وہ کافی پر کافی پیتی رہی لیکن نہ سر کا درد کم ہو کے دے رہا تھا نہ کچھ پڑھ پا رہی تھی اس لیے مضطرب سی ہو کر کتاب میز پر پٹخ دی۔ اسے پھر لفٹ کا وہ سانحہ یاد آنے لگا۔ اس ٹیکنیکل ممبر کی وضاحت یاد کرتے ہوئے کرن کو رانا صاحب کے جانب اپنے تلخ روئیے پر شرمندگی ہونے لگی۔
"افففف کرن۔۔۔۔۔ کیا کچھ کہہ دیا تم نے ان سے۔۔۔۔۔ اتنی بدتمیزی تو تم نے آج تک کسی کے ساتھ نہیں کی۔۔۔۔۔ کیا سوچ رہے ہونگے وہ۔۔۔۔۔ کتنی بے مروت ہوگئی ہوں میں۔۔۔۔۔" اس نے شرمساری سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے مایوسی سے سوچا۔
"ماضی میں وہ جیسے بھی تھے۔۔۔۔۔ اس وقت وہ میرے کلائنٹ ہے۔۔۔۔۔ اور اتنے دنوں سے انہوں نے ایسی کوئی غیر جانب دار حرکت بھی نہیں کی۔۔۔۔۔ مجھے از خود ان کے بارے میں برا نہیں سوچنا چاہیے۔۔۔۔۔ کل سب سے پہلے مل کر ان سے اپنی بد سلوکی پر معافی مانگوں گی۔۔۔۔" ٹیبل پر ہاتھ پھیلائے اور ہاتھوں کے پشت پر اپنی پیشانی ٹکائے اس نے دل ہی دل یہ فیصلہ کیا اور پھر دراز سے سر درد کی گولی نکال کر کچن میں پانی لینے چلی گئی۔
****************&&&&**************
اگلے دن انجینئر صاحب کے آفس جانے سے قبل کرن کافی دیر تک رانا صاحب کا انتظار کرتی رہی۔ لیکن وہ نہیں آئے تو کرن بے دلی سے ان کے بغیر ہی میٹنگ کے لیے چلی گئی۔
دو گھنٹے بعد جب کرن واپس اپنے آفس آئی تو اس نے اپنے کیبن میں رانا صاحب کو ٹہلتے ہوئے اس کی لکھی ہوئی کتابوں میں سے ایک کتاب پڑھتے ہوئے پایا۔
رانا صاحب نے کرن کو اندر داخل ہوتے دیکھا تو اس کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔
"ویلکم بیک۔۔۔۔۔ کیسی رہی میٹنگ۔۔۔۔۔۔ اور ہاں۔۔۔۔ سوری۔۔۔۔ میں نے اجازت کے بغیر تمہاری کتاب اٹھا لی تھی۔۔۔۔ ویسے تم بہت اچھا لکھتی ہو۔۔۔۔" انہوں نے ہاتھ میں پکڑی کتاب ہوا میں لہرا کر معذرت چاہی۔
کرن اپنے تاثرات خوشگوار بنانے کی جتن کرتی اپنا بیگ اور ہاتھ میں پکڑی فائل میز پر رکھتے ہوئے کنکاری۔
"آپ میٹنگ کے لیے کیوں نہیں آئے۔۔۔۔۔ انجینئر صاحب آپ کا پوچھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔" کرن ان سے سیدھے سادے غیر حاضر ہونے کی وجہ پوچھنے کی ہمت نہ کر سکی اس لیے بات انجینئر صاحب پر پلٹا دی۔
رانا صاحب نے کرن کے سوال پر مسرور ہوتے ہوئے اس کے جانب دیکھا وہ ان سے نظریں چراتی میز پر بکھرا سامان درست کر رہی تھی۔
"صبح فجر کے بعد آنکھ دیر سے کھلی۔۔۔۔ اور پھر میں نے سوچا۔۔۔۔ آج کی میٹنگ میرے بغیر بھی ہوسکتی ہے۔۔۔۔" رانا صاحب واپس بک شیلف تک گئے اور کتاب اس کی اپنی جگہ پر ٹکا دی۔
کرن کو اپنی کل کے حرکت پر معذرت کرنے کا یہ صحیح موقع لگا۔ وہ میز کے آوٹ سے گزر کر رانا صاحب کے سامنے آگئی۔
"رانا صاحب۔۔۔۔۔ آئی ایم سوری۔۔۔۔۔ میں نے کل آپ سے بہت مس بہیو کیا۔۔۔۔۔ پتا نہیں اضطراب میں آپ کو کیا کچھ کہہ دیا۔۔۔۔۔ میں اپنے روئیے پر معذرت خواہ ہوں۔۔۔۔ " کرن نے ایک ہی سانس میں وضاحت پیش کی اور پُر امید انداز میں رانا صاحب کو دیکھا۔
رانا مبشر ہلکا مسکرائے۔
"کوئی بات نہیں مجھے برا نہیں لگا۔۔۔۔۔۔ بس افسوس اس بات کا ہے کہ تم مجھ سے اس قدر بد گمان ہو۔۔۔۔۔" رانا صاحب کے تاثرات ہمدردانہ ہوگئے تھے۔
"اور تم یہ کیوں سوچتی ہو میں تمہیں مارنے آیا ہوں۔۔۔۔۔ کرن تم نے کبھی غور کیا ہے۔۔۔۔۔ میں نے کسی پر کتنا ہی ظلم کیوں نہ کیا ہو۔۔۔۔۔ کسی پر کتنا بھی تشدد کیا ہو۔۔۔۔۔ لیکن کبھی کسی کو جان سے نہیں مارا۔۔۔۔" وہ سنجیدگی سے گویا تھے اور ان کے حقائق سن کر کرن کی آنکھیں بے یقینی سے پھیل گئی۔
بد گمانی میں اتنی طاقت ہے کہ یہ انسان کا ذہنی سکون برباد کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے جڑے تعلق کو منٹوں میں تباہ کر دیتی ہے۔ رانا صاحب اس مرتبہ کرن کو کسی بدگمانی میں نہیں پڑنے دینا چاہتے تھے۔
"بیلا کی خودکشی کرنے کا فیصلہ اس کا اپنا تھا۔۔۔۔۔ میں نے اسے نہیں مارا تھا۔۔۔۔۔ میں نے تو صرف اس کی خودکشی کی پردہ پوشی کی تھی۔۔۔۔۔" رانا صاحب کرن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نرمی سے وضاحت کر رہے تھے۔
کرن کو لگا مانو کسی نے اسے ابلتے لاوا کے تالاب میں پھینک دیا ہو۔ وہ اپنی جگہ ساکت کھڑی ہوگئی تھی۔
"تمہارا مس کیرج ایک حادثہ تھا۔۔۔۔۔۔ میں نے اس بچے کو نہیں مارا تھا۔۔۔۔۔ وہ دن مجھ پر بھی اتنا ہی گراں گزرا تھا۔۔۔۔۔ صرف میں نے اپنے احساسات تم سب پر ظاہر نہیں کئے تھے۔۔۔۔" انہوں نے ایک کے بعد ایک کرن کی غلطیوں سے اسے آشنا کرتے ہوئے کہا۔ وہ قدم قدم چل کر کرن کے قریب آئے تو کرن کا دل ڈوبنے لگا۔
"میں کتنا بھی گھمنڈی۔۔۔۔۔ گھٹیا۔۔۔۔۔ کمینہ۔۔۔۔۔ ظالم۔۔۔۔ بےحس کیوں نہ ہوں۔۔۔۔۔۔ لیکن کرن۔۔۔۔۔ میں قاتل نہیں ہوں۔۔۔۔۔ پھر اب تمہیں کیسے جان سے مار سکتا ہوں۔۔۔۔۔" اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے رانا صاحب کے تاثرات میں سختی در آئی تھی۔ انہوں نے کرن کے چہرے کے پاس جھکے ہوئے آخری فقرہ کہا اور پھر زخمی سانس لیتے ہوئے خود کو نارمل کرتے ایک قدم پیچھے ہوگئے۔ کرن کا دل کیا وہ وہی دفن ہوجائے۔ اس نے واقعی کبھی ان نقاط پر غور ہی نہیں کیا تھا۔
کرن نے لب کھولے لیکن حلق سے آواز نہیں نکل سکی تھی۔ وہ رانا صاحب کو تھامنا چاہتی تھی لیکن ہاتھوں میں حرکت نہیں ہو سکی تھی۔ اسی اثناء کیبن کا دروازہ کھول کر ہمایوں اندر داخل ہوتا دکھائی دیا۔ اسے اندر آتے دیکھ کر رانا صاحب کے آبرو تن گئے۔ وہ ضبط کرتے ہوئے کرن سے فاصلے پر ہوگئے اور کرن رخ پھیر کر آنکھوں کے بھیگے گوشے صاف کرنے لگی۔
ہمایوں نے اندر داخل ہوتے ہوئے ان دونوں کی رقبت دیکھ لی تھی۔ وہ اپنے سارے آداب اور احترام بالائے طاق رکھ کر رانا صاحب پر چھڑپ پڑا۔
"یہ سب کیا چل رہا ہے۔۔۔۔ اور تم۔۔۔۔۔ کیا کر رہے ہو یہاں۔۔۔۔۔۔" ہمایوں تند و تیز آواز میں تُو تڑاک کہتے ہوئے رانا صاحب سامنے آگیا۔
رانا صاحب نے صرف اسے غصیلی نظروں سے دیکھا۔
"یہ ہمارے بیچ کا معاملہ ہے۔۔۔۔۔ آپ اس میں دخل اندازی نہ کریں۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے احتراماً نرم لہجے میں جواب دیا۔
"میں تیری عمر دیکھ کر چپ ہوں۔۔۔۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم کچھ بھی کرتے جاو۔۔۔۔۔ تمہارا کام پیسہ دینا ہے۔۔۔۔۔ پھر روز روز یہاں آنے کا کیا جواز ہے۔۔۔۔" ہمایوں اب بھی انگلی اٹھائے کرہٹ بھرے انداز میں بول رہا تھا۔
کرن کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ ہمایوں کو کیسے روکے۔
رانا صاحب تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنجیدہ کھڑے تھے۔
"یہی سوال میں آپ سے بھی پوچھ سکتا ہوں۔۔۔۔" اب کی بار رانا مبشر کی آواز میں بھی سختی در آئی تھی۔
"بس بہت ہوا۔۔۔۔ کرن کل لفٹ میں بھی اسی نے کچھ کیا ہوگا۔۔۔۔ تمہیں کوئی فوبیا ووبیا نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔۔" ہمایوں نے کرن کو مخاطب کرتے ہوئے رانا صاحب کا کالر جھکڑا اور ان پر ہاتھ اٹھانے لگا تھا کہ کرن کے پیروں میں حرکت شروع ہوگئی وہ تیزی سے ان دونوں کے بیچ آگئی اور ہمایوں کو پرے دکھیل دیا۔
"خبردار جو انہیں ہاتھ بھی لگایا۔۔۔۔۔ جانتے بھی ہے کون ہے یہ۔۔۔۔ رانا صاحب میرے۔۔۔۔۔" کہتے ہوئے اس کی زبان لرزنے لگی لیکن اس نے ہمت کر کے اپنا فقرہ مکمل کیا۔
"میرے ex husband ہے۔۔۔۔۔ انہیں میں نے اجازت دی ہے۔۔۔۔ وہ جب چاہے یہاں آسکتے ہے۔۔۔۔ وہ جو بھی کریں یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے۔۔۔۔ آپ کو کوئی حق نہیں ہے ان سے اس طرح پیش آنے کا۔۔۔۔" کرن نے اپنی پوری طاقت سے غراتے ہوئے کہا۔
ہمایوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی وہ تعجب سے کبھی کرن کو دیکھتا کبھی اس نے پیچھے رانا صاحب کو۔
وہی دوسری جانب رانا صاحب کے تاثرات بھی کچھ کم حیرت زدہ نہ تھے۔ وہ ٹکٹکی باندھے کرن کو دیکھے جا رہے تھے جو ان کی بے حرمتی کرنے والے کو بھوکی شیرنی کے مانند کھا جانے والے انداز سے جھڑک رہی تھی۔
*****************&&&&&**************
رانا صاحب کے اعتراف نے کرن کو بہت پریشان کر دیا تھا۔ وہ بے دم قدموں سے گھر کے اندر داخل ہوئی۔ انی رات کے کھانے کا انتظام کرنے لگی ہوئی تھی۔
"انی میں ڈنر نہیں کروں گی۔۔۔۔ بہت کام ہے آج۔۔۔۔۔ سٹوڈیو میں جا رہی ہوں۔۔۔۔۔ پلیز مجھے ڈسٹرب مت کرنا۔۔۔۔" اس نے اونچے آواز میں اعلانیہ صورت میں صدا لگائی اور انی کا جواب سنے بغیر لکڑیوں کی بنی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئی۔ سٹوڈیو کا دروازہ لاک کر کے وہ وہی فرش پر سمٹ کر بیٹھ گئی اور سر گھٹنوں میں چھپا کر رونے لگی۔ جن نقاط پر اس نے تب غور نہیں کیا تھا وہ اب کر رہی تھی۔ اج کے واقعے نے اس کے دل کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
**************&&&&************
جاری ہے
❤️
👍
😢
😮
🙏
😂
213