Novel Ki Dunya
June 12, 2025 at 02:24 AM
ناول۔۔۔۔ قسمت سے ہاری میں(پارٹ ٹو ) از قلم۔۔۔۔ پلوشہ صافی قسط نمبر۔۔۔۔ 04 #dont_copy_paste_without_my_permission ایک ماہ تک ان کا یہی معمول چلتا رہا تھا۔ اس دن کے بعد ہمایوں پھر وہاں نہیں آئے تھے۔ اس دن کرن کے طرف سے اپنی دفاع دیکھ کر رانا صاحب کے دل کے بھجتے امید کو ایک نئی امنگ مل گئی تھی۔ کرن کے دل میں اپنی اچھائی سے جگہ بنانے کا ان کا ارادہ مزید مضبوط ہوگیا تھا۔ کرن اور رانا صاحب کے ملنے کا وہی دستور بنا رہا بس فرق یہ تھا کہ کہی نہ کہی اب کرن کو رانا صاحب کا آنا برا نہیں لگتا تھا۔ وہ ان سے ہیبت زدہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ اس دن وہ تعمیراتی سائٹ کا جائزہ لیں کر آفس لوٹے تو کرن نے انی کو اپنے کیبن میں منتظر بیٹھے پایا۔ "انی آپ یہاں۔۔۔۔۔ "کرن نے تعجبی انداز میں انہیں مخاطب کیا۔ وہ درمیانہ قد سانولے سے بھی گہرا رنگ بڑی آنکھیں چھوٹی ناک کی حامل صحتمند خاتون صوفے پر سے اٹھی اور ان کے سامنے آئی۔ "یہاں پاس کے مارکیٹ میں سے گروسری کرنے آئی تھی تو سوچا آفس کا چکر لگا لوں۔۔۔۔۔ بہت وقت ہوگیا تھا یہاں آئے ہوئے۔۔۔۔۔" وہ کہتے ہوئے ہشاش بشاش سے تیار رانا مبشر کو بغور مشاہدہ کر رہی تھی۔ رانا صاحب بھی ان کو دیکھ رہے تھے۔ کرن نے ان کا تعارف کروانے لب کھولے تھے کہ انی خود ہی ان کی تعریف کرنے لگی۔ "کرن let me guess۔۔۔۔۔۔ " انہوں نے ہاتھ اٹھا کر کرن کو روکا اور سر تا پیر رانا صاحب کو دیکھ کر مسکرائی۔ "مسٹر رانا مبشر۔۔۔۔۔ بہت خوشی ہوئی آپ سے رو بہ رو ہو کر۔۔۔۔ جنتا سنا تھا آپ اس سے کئی زیادہ کمال کے ہے۔۔۔۔" انی مسرور ہوتے ہوئے ان کی تعریف کرنے لگی۔ رانا مبشر نے حیرت سے انہیں دیکھا۔ "آپ مجھے جانتی ہے۔۔۔۔۔ پر۔۔۔۔ میں تو اس سے پہلے آپ سے کبھی نہیں ملا۔۔۔۔۔" رانا صاحب انی کی گفتگو سن کر حیران ہوگئے تھے۔ کرن نے مداخلت کرنا چاہی لیکن انی پھر سے استحزیہ مسکرا کر گویا ہوئی۔ "ملی تو میں بھی آج پہلی دفعہ ہوں۔۔۔۔۔ لیکن آپ کو تصویروں میں دیکھا ہوا تھا۔۔۔۔ اس لیے رو بہ رو ملنے کا بہت شوق تھا۔۔۔۔" انی نے اپنے چھوٹے کندھوں تک آتے بال ہوا میں لہراتے ہوئے کہا۔ رانا صاحب کو کنفیوز دیکھ کر کرن نے ان سے انی کا تعارف کروایا۔ "رانا صاحب یہ انہیتا ہے۔۔۔۔۔ میری کیئر ٹیکر۔۔۔۔۔ میرے ساتھ رہتی ہے۔۔۔۔ میرا بہت خیال رکھتی ہے۔۔۔۔ میرے لیے بلکل ماں جیسی ہے۔۔۔۔" کرن نے انی کے گرد بازو مائل کرتے ہوئے ان کے گال سے گال ٹکرا کر کہا۔ رانا صاحب محظوظ ہوتے ہوئے مسکرائے۔ "اووو پھر تو میں ان کا بہت مشکور ہوں۔۔۔۔۔ تھینکیو سو مچ انہیتا جی۔۔۔۔" رانا صاحب نے خوش دلی سے انی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ "اوووو مینشن ناٹ مسٹر رانا۔۔۔۔۔ کرن مجھے بہت عزیز ہے۔۔۔۔۔ مسٹر رانا کبھی گھر پر آئیں نا۔۔۔۔۔ ساتھ میں ڈنر کر لینگے۔۔۔۔۔ آج رات کا ہی پراگرام بناتے ہیں۔۔۔۔" انی نے ہاتھ اٹھا کر ہوا میں لہرایا اور پھر ایک تجویز دے کر باری باری ان دونوں کو دیکھا۔ کرن ان کے اچانک دعوت نامہ پر حیران ہوگئی۔ البتہ رانا صاحب بے تاثر رہے۔ "آج نہیں انہیتا جی۔۔۔۔ پھر کبھی۔۔۔۔ اوکے کرن میں چلتا ہوں۔۔۔" رانا صاحب نے ڈنر پر انکار ہوئے مزید مزاحمت بننے سے پہلے ان دونوں سے رخصت لی اور اپنے ہوٹل کے روانہ ہوگئے۔ ابھی وہ آفس کے عمارت سے باہر نکلے ہی تھے کہ ان کا موبائل بجنے لگا کال روحان کی تھی۔ "کیا رانا بھائی۔۔۔۔۔ آپ تو یورپ کے ہی ہوگئے۔۔۔۔۔ پرامس کیا تھا نا روز بات کریں گے۔۔۔۔۔ لیکن اب تو جب تک میں کال نہ کروں۔۔۔۔ آپ پوچھتے بھی نہیں ہو۔۔۔۔" روحان نے رانا صاحب کی آواز سنتے ہی گلے شکوے شروع کر دیئے۔ "ایسی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔ دراصل یہاں آکر ایک پراجیکٹ میں شامل ہوگیا ہوں۔۔۔۔ اس لیے کچھ مصروفیات بڑھ گئی تھی۔۔۔۔۔ نور اور بچے کیسے ہے۔۔۔۔" انہوں نے خوش مزاجی سے ہنستے ہوئے پوچھا۔ انہیں روحان کے پیچھے بچوں کا شور صاف سنائی دے رہا تھا۔ وہی دوسری جانب روحان تینوں بچوں کے بیچ گِھرا ہوا تھا۔ کوئی اس کی قمیض کھینچ رہا تھا تو کوئی بازو۔ سب اپنے بڑے پاپا سے بات کرنے بیتاب ہورہے تھے۔ روحان نے خود رانا صاحب سے رخصت لیتے ہوئے موبائل ذیشان کو تھما دیا۔ اب باری باری کر کے تینوں بچے ان سے بات کرنے لگ گئے تھے۔ *******************&&&&**************** آفس کے اندر کرن انی کے آنے پر خفا ہورہی تھی۔ "گروسری تو آپ کی کہی نہیں دِکھ رہی۔۔۔۔" اس نے طنزیہ انداز میں کمر پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا۔ "وہ تو صرف بہانہ تھا۔۔۔۔ میں نے سوچا۔۔۔۔ تم تو از خود مجھے مسٹر رانا سے ملوانے سے رہی تو میں خود ہی یہاں آکر مل لوں۔۔۔۔" انی پھر سے صوفے پر بیٹھ گئی۔ "ویسے۔۔۔۔۔ دکھنے میں تو اچھے انسان ہے۔۔۔۔۔ " انہوں نے رانا صاحب کے سراپے کو یاد کرتے ہوئے کہا۔ "ہمممم۔۔۔۔ مزاج بھی کافی بدل گئے ہیں ان کے۔۔۔۔" کرن نے اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا "دیکھا۔۔۔۔۔ میں نے کہا تھا نا۔۔۔۔۔ وقت انسان کو بدل دیتا ہے۔۔۔"انی نے فخریہ انداز میں آبرو اچکا کر کرن کو اپنا تبصرہ یاد کروایا۔ کرن نے ایک سرد سانس خارج کی اور وائر لیس سے انشا گل کو چائے اور اسنیکس بھجوانے کی ہدایت دینے لگی۔ ***************&&&&&************** اگلے دن کرن کو دو راتوں کے لیے وزارت ماحولیات سے اجازت نامے پر دستخط کروانے استنبول جانا تھا۔ رانا مبشر نے بھی جانے کا اصرار کیا۔ وہ کرن کا انکار سننے کو راضی نہ تھے اس لیے کرن نے اپنے ہیڈ آفس میں کال ملا کر ان سے رانا صاحب کو روکنے کی درخواست کی۔ " کرن وہ ہمارے سپانسر ہے۔۔۔۔۔ تمہارے برابر کے پارٹنر۔۔۔۔۔ ہم انہیں ناراض نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔ اگر وہ جانا چاہتے ہیں تو ہیڈ آفس کو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ پھر آپ بھی شکایت نہ کریں۔۔۔۔۔" کال پر ہیڈ آفسر نے کرن کے درخواست کو مسترد کر دیا۔ کرن کو مجبوراً خاموش ہونا پڑا۔ اسی شام کی ان کی فلائٹ تھی۔ استنبول ترکی کا سب سے بڑا اور تجارتی شہر تھا۔ انتالیہ کی طرح استنبول بھی روشنیوں اور رونقوں سے بھر پور شہر تھا۔ فلائٹ میں ائیر پورٹ پر ہر جگہ کرن رانا مبشر کو نظرانداز کرتی رہی۔ رانا صاحب بھی خاموش ہی رہے حتہ کہ ہوٹل میں کمرا بک کروانے تک بھی ان دونوں میں کوئی بات چیت نہ ہوئی تھی۔ ساتھ ساتھ دو کمرے بک کروا کر وہ دونوں اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ کرن نے اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی پرس دور اچھال دیا۔ "کیوں کر رہی ہے زندگی میرے ساتھ ایسا۔۔۔۔ کیوں پھر سے رانا صاحب کو مجھ پر مسلط کر دیا ہے قسمت نے۔۔۔۔۔" وہ تنگ آکر سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ اسے رانا صاحب کی موجودگی سے گھٹن محسوس ہوتی۔ پر نا چاہتے ہوئے بھی ان دونوں کو ساتھ کام کرنا پڑ رہا تھا۔ ******************&&&&*************** صبح 9 بجے تک رانا مبشر اور کرن تیار ہوکر وزارت ماحولیات کے دفتر میں موجود تھے۔ ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک ان سے بحث و مباحثہ کر کے ان کی میٹینگ کامیاب رہی۔ "بہت اچھا لگا آپ کے پراجیکٹ کا حصہ بن کر۔۔۔۔۔" منسٹر صاحب نے فائل پر دستخط کر کے کرن کو تھمایا۔ وہ تینوں گول میز کے گرد کھڑے تھے۔ "تھینکیو سو مچ سر۔۔۔۔۔۔ آپ کا تعاون ہمارے لیے باعث فخر ہے۔۔۔۔۔" کرن نے ان کو سراہتے ہوئے مسکرا کر سر کو خم دیتے ہوئے کہا۔ "تکمیلی کا انتظار رہے گا۔۔۔۔" منسٹر صاحب نے کہتے ہوئے مصاحفہ کرنے ہاتھ آگے کیا۔ کرن کے تاثرات بدل گئے اس نے کنکھیوں سے رانا صاحب کو دیکھا۔ رانا صاحب سپاٹ انداز میں منسٹر صاحب کو دیکھ رہے تھے جیسے ان کے حرکات و سکنات بغور مشاہدہ کر رہے ہو۔ کرن نے گلا تر کرتے ہوئے اپنا ہاتھ آگے کیا ہی تھا کہ رانا صاحب نے تیزی سے منسٹر صاحب کا ہاتھ تھام لیا۔ "ضرور۔۔۔۔۔ آپ کو جلد اطلاع مل جائے گی۔۔۔۔۔ once again thank you۔۔۔۔۔" انہوں نے منسٹر صاحب کا ہاتھ تھامے جنبش دیتے ہوئے کہا اور رخصت لینے لگے۔ کرن نے سر جھکا کر اپنا ہاتھ پیچھے کر دیا۔ اسے ہر چیز میں رانا مبشر کی مداخلت سے چڑ ہونے لگی تھی۔ ****************&&&&***************** ہوٹل پہنچ کر رانا صاحب اپنے کمرے میں آئے اور ٹائی کھولنے لگے تھے کہ کمرے کا دروازہ بغیر دستک دیئے کھلا اور کرن تند تاثرات بنائے اندر داخل ہوئی۔ "مسئلہ کیا ہے آپ کو۔۔۔۔۔۔ کیوں میرے کام میں مداخلت کر رہے ہیں۔۔۔۔" اس کی اونچی آواز اور تند و تیز ٹون سے رانا مبشر کے آبرو تن گئے لیکن وہ ضبط کرنے خاموش رہے۔ "میں مداخلت نہیں کر رہا۔۔۔۔۔ ایک مرد ہی دوسرے مرد کی نیت اچھے سے سمجھ سکتا ہے۔۔۔۔ یوں ہی نہیں باپ بھائی یا شوہر اپنے گھر کی عورتوں پر پابندی لگاتے پھرتے۔۔۔۔۔ دوسرا مرد کب کس نیت سے عورت کو چھونے لگا ہے یہ اچھے سے جانچ لیتے ہیں ہم۔۔۔۔۔ " طیش سے ان کے گردن کی رنگیں ابھر گئی تھی لیکن وہ ہر حد امکان اپنا لہجہ ہموار رکھے ہوئے تھے۔ "لیکن نہ آپ میرے باپ بھائی ہے۔۔۔۔ نہ شوہر۔۔۔۔۔۔ پھر کس حق سے یہ سب کر رہے ہیں۔۔۔۔۔"کرن کے غضب میں کوئی نرمی نہیں آئی تھی۔ رانا صاحب کرن کو تندی سے گھورتے اس کے رو بہ رو آئے۔ "غلط فرمایا مس کرن۔۔۔۔۔۔ رانا مبشر کا ہمیشہ سے تم پر حق تھا اور رہے گا۔۔۔۔۔ تم نے دھوکے سے مجھ سے خلا لیا تھا۔۔۔۔۔ میں نے اپنی رضامندی سے نہیں چھوڑا تمہیں۔۔۔۔۔" وہ دبے دبے غصے سے کرن پر غرائے۔ کرن کے آبرو پھیل گئے۔ "اگر میں برا تھا۔۔۔۔۔ تو تم بھی برابر کی غلط تھی۔۔۔۔۔ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا۔۔۔۔۔ تم نے میرا اعتماد توڑا۔۔۔۔۔ تم نے مجھے دھوکا دیا۔۔۔۔۔۔ تم نے میرے ہی بھائی کو میرے خیلاف استعمال کیا۔۔۔۔۔۔" رانا مبشر نا چاہتے ہوئے بھی اپنے دہشت کے روپ میں آگئے تھے۔ اتنے برسوں کا دل میں دبایا غصہ آج کرن کو اپنے لپیٹ میں لے رہا تھا۔ کچھ دیر پہلے کی کرن کی ہمت ہوا بن کر اڑ گئی تھی۔ رانا صاحب کے طیش کے آگے اس سے ہلا تک نہیں گیا۔ "میں نے بہت مواقع دیے آپ کو۔۔۔۔۔ بہت برداشت کیا۔۔۔۔۔۔ آپ نہیں سدھرے۔۔۔۔۔" کرن کی آنکھیں بھر آگئی تھی۔ اس کی آواز کانپنے لگی۔ "آپ اب بھی نہیں سدھرے۔۔۔۔۔" اس نے مایوسی سے رانا صاحب کا یہ پرانا جنونی روپ دیکھ کر گلہ امیز انداز میں کہا۔ "کیا برداشت کیا ہے تم نے۔۔۔۔۔۔ نرم بستر چھوڑ کر زمین پر سوئی ہو۔۔۔۔۔ فائف سٹار کا کھانا چھوڑ کر پھیکی سبزی کھائی ہے۔۔۔۔۔ اپنوں سے الگ ہوکر سالوں سال تنہا رہی ہو۔۔۔۔۔" رانا صاحب کی آواز میں افسردگی در آئی تھی۔ آنکھوں میں زخمی سی ویرانی صاف ظاہر ہورہی تھی۔ کرن کے پاس ان کے شکایات کا جواب نہیں تھا وہ دم سادھے ان کے شکوے سنتی رہی۔ "کیا تھی تم میرے بغیر۔۔۔۔۔ اپنی چچی کی نوکرانی۔۔۔۔۔ تمہارا یہ سٹیٹس۔۔۔۔۔ یہ رتبہ۔۔۔۔۔۔ تمہارا یہ مقام آج میرے ہی بل بوتے پر ہے۔۔۔۔۔ اور تم حق کی بات کر رہی ہو۔۔۔۔۔" انہوں نے بے بسی سے ہنہ کرتے سر جھٹکا اور چند قدم پیچھے ہٹ کر رخ پھیر لیا۔ کرن کو زوروں سے رونا آرہا تھا وہ الٹے قدم کمرے سے باہر بھاگی۔ رانا صاحب نے افففف کرتے لمبی سانس خارج کی اور آنکھیں میچھ لی انہیں ایسے کرن پر غصہ کرنا بہت برا لگا۔ خصوصاً طیش میں رانا مبشر اپنے دل کی وہ باتیں اُگل گئے جو وہ کبھی کسی پر بھی ظاہر کرنے کے حمایت میں نہیں تھے۔ انہوں نے ہوا میں افسوس سے پیر پٹخا۔ لیکن کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلی بات کبھی واپس نہیں پلٹ سکتے۔ اس لیے رانا صاحب کا اب افسوس کرنا بے مول تھا۔ ****************&&&&&************ کرن اپنے کمرے میں بیڈ کے پانیتی سے سر ٹکائے چھت پر لگے جگمگاتے فانوس کو دیکھ رہی تھی۔ آنسو رخسار پر خشک ہوچکے تھے۔ "ہر بار ہر زمانے میں عورت کو ہی کیوں قربانی دینی ہوتی ہے۔۔۔۔۔ کیوں ہر بار عورت ہی ملامت قرار دی جاتی ہے۔۔۔۔۔" اس نے مایوسی سے دل میں سوچا۔ "اگر کوئی عورت ظلم و ستم سہتی رہے تو وہ مظلوم بیجاری لاچار کہلاتی ہیں۔۔۔۔۔ اور اگر اپنے لیے آواز اٹھائے خود پر ظلم ہونے سے روکے تو وہ سر کش باغی بد تہزیب۔۔۔۔۔۔ کیوں عورت ہی ہر تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔۔۔۔۔" اس کی آنکھیں پھر سے بھیگنے لگی۔ "رانا صاحب تب بھی مجھے نہیں سمجھ پائے تھے۔۔۔۔ اب بھی نہیں سمجھ پائے۔۔۔۔۔۔ مانتی ہوں انہوں نے اتنے سال تکالیف میں گزارے ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ قید کی تنہائی میں رہے ہے تو میں دنیا کی بھیڑ میں بھی تنہا رہی ہوں۔۔۔۔" کئی گھنٹوں سے ایک ہی زاوئیے میں بیٹھے رہنے سے اس کی گردن میں ٹیس اٹھنے لگی۔ اس نے گھٹنوں کے گرد بازو مائل کر کے اپنی پیشانی گھٹنوں پر ٹکا دی۔ "میرا کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔ رانا صاحب آپ نے تو اپنا غصہ مجھ پر نکال لیا۔۔۔۔۔ میں کس پر اپنا غصہ نکالوں۔۔۔۔۔ میں کس سے حالِ دل‌ بیان کروں۔۔۔۔۔ کوئی نہیں ہے میرا اپنا۔۔۔۔۔" چند آنسو ٹوٹ کر اس کے رخسار پر بہہ رہے تھے۔ وہ اسی انداز میں بیٹھی بے آواز آنسو بہا رہی تھی جب اس نے دروازے پر دستک سنی۔ ایک جھٹکے سے وہ خیالوں سے باہر آئی۔ تیز تیز آنسو صاف کر کے گھڑی دیکھی جہاں آدھی رات کا ایک بج رہا تھا۔ اس کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ "اس وقت کون ہے۔۔۔۔۔" وہ اپنے سارے حس بیدار کرتے ہوئے اٹھی۔ " اwho is there۔۔۔۔۔" اس نے بلند آواز میں صدا لگائی لیکن کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دروازے پر پھر سے دستک ہوئی۔ کرن نے آہستہ آہستہ چلتے سائیڈ ٹیبل پر پڑا گلدان اس نیت سے اٹھایا کہ دروازے پر موجود خطرے پر وار کر سکے۔ گلدان مضبوطی سے تھامے اس نے دروازہ کھولا تو سامنے رانا صاحب ہاتھوں میں لوازمات سے سجی ٹرے اٹھائے کھڑے مسکرا رہے تھے۔ کرن کے ہاتھ میں گلدان دیکھ کر وہ ٹھٹک گئے۔ شام کے برعکس وہ اس وقت ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں تھے۔ "تم کھانے پر نیچے نہیں آئی تو میں کھانا یہی لے آیا۔۔۔۔" انہوں نے خوش مزاجی سے کہا۔ کرن کے آبرو تن گئے۔ اتنی جلدی وہ ان کے شام کا رویہ بھولی نہیں تھی کہ خوش دلی سے بات کریں۔ "مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔۔" اس نے تمانیت سے جواب دیا اور دروازے بند کرنے لگی لیکن رانا صاحب نے دروازے کے آگے آگئے اور خود ہی دھکیلتے ہوئے کمرے میں اندر داخل ہوئے۔ "لیکن مجھے بہت بھوک لگی ہے۔۔۔۔ اور تمہیں بھی دن بھر اتنا کام کرنے کے بعد بھوکا نہیں سونا چاہیئے۔۔۔۔" وہ جوش و خروش سے کہتے بڑے سینٹرل ٹیبل پر ڈشز سجانے لگے۔ "دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ آج کھانے میں کیا ہے۔۔۔۔۔" وہ ایک ایک کر کے ڈونگے کا ڈھکن ہٹا کر جھانکنے لگے۔ "واو۔۔۔۔ اٹالین میرا فیوریٹ۔۔۔۔۔ اور چائنیز تمہارا فیوریٹ۔۔۔۔۔۔" رانا صاحب تہزیب اپنے آگے نیپکن پھیلا کر پلیٹ میں اٹالین ڈش نکالنے لگے۔ کرن بے زاری سے سینے پر ہاتھ باندھے انہیں دیکھ رہی تھی۔ رانا صاحب کے انداز سے یہ بلکل ظاہر نہیں تھا کہ چند گھنٹے پہلے وہ وحشتناک غصے میں کرن کو جھڑک رہے تھے۔ "وہاں کیوں کھڑی ہو۔۔۔۔ آکر کھانا کھاو۔۔۔۔۔ ٹھنڈا ہورہا ہے۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے کرن کو تپے مزاج میں دیکھ کر مخاطب کیا۔ کرن ان کے مقابل سنگل صوفے پر بیٹھ گئی۔ اسے رانا صاحب کے مزاج سمجھ نہیں آرہے تھے۔ رانا صاحب نے پاستہ منہ میں ڈالتے ہوئے کرن کو دیکھا تو پریشان ہو گئے۔ کرن کی سوجی آنکھیں اور سرخ پڑتی ناک اس کی کیفیت صاف ظاہر کر رہی تھی۔ رانا صاحب اس سے نظریں چراتے اس کے پلیٹ میں چائنیز رائس ڈالنے لگے۔ وہ کرن کو اس حال میں مزید نہیں دیکھ سکتے تھے۔ "رانا صاحب۔۔۔۔۔" کرن نے بے لچک لہجے میں مخاطب کیا۔ "کھانے پر غصہ نہیں نکالتے۔۔۔۔۔ پہلے ڈنر کرو۔۔۔۔ پھر جو کہنا ہوا۔۔۔۔۔ کہہ دینا۔۔۔۔" رانا صاحب نے اپنائیت بھرے لہجے میں کہا۔ "تھوڑی بہت نوک جوک تو سب میں ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔ میرا تم سے اور کوئی رشتہ نہ صحیح۔۔۔۔۔ پر سپانسر اور کلائنٹ کا تو ہے۔۔۔۔۔۔ اس لیے تمہاری مجھ سے زبان لڑانے کی غلطی سے میں درگزر کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔ میرے جھڑک سے تم کر دو۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے معذرت خواہاں انداز میں مزید وضاحت پیش کی۔ کرن کو واقعی بہت بھوک لگ رہی تھی اوپر سے ٹیبل پر پڑے لوازمات کی اشتہا انگیز خوشبو اسے اپنے جانب متوجہ کرنے میں برابر کا کام کر رہی تھی۔ اس نے نظریں گھماتے ہوئے غصہ جھٹکا اور کھانا کھانے لگ گئی۔ رانا صاحب بہ ظاہر تو کرن کو نظر انداز کئے ہوئے تھے لیکن وہ اس کی ساری کاروائی مشاہدہ کر رہے تھے اس لیے محظوظ ہوتے ہوئے مسکرا دیئے۔ جو مرد یہ سمجھ لے کہ عورت کا دل شیشے کی طرح نازک ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ نرمی سے پیش آئے گا، کیونکہ عورت اچھی ہو یا بری۔ عقل مند ہو یا بیوقوف قابو صرف محبت اور عزت سے آتی ہے۔ رانا صاحب کرن کے اچھے سے کھانا کھانے تک وہی رہے پھر ویٹر کو بلا کر برتن واپس کئے اور کرن سے شب بخیر کہتے خود اپنے کمرے میں آگئے۔ کرن جتنی جلدی غصہ ہوتی اتنا ہی فوراً سے مان بھی جایا کرتی تھی۔ رانا مبشر کی تھوڑی سی اپنائیت اور مہربانی نے اس کے دل کی ساری کڑواہٹ دور کر دی تھی۔ ان کے جاتے ہی وہ بھی سب بھلا کر سونے لیٹ گئی۔ ہاں البتہ دل کے شک و شبہات ابھی بھی پوری طرح ختم نہیں ہوسکے تھی۔ ***************&&&&****************** اگلی رات کرن اور رانا مبشر کی واپسی ہوئی۔ ڈرائیور کو چونکہ کرن نے دو دن کی چھٹی دے رکھی تھی اس لیے ایر پورٹ سے انہوں نے ٹیکسی کروائی۔ کرن کے اپارٹمنٹ کے دروازے تک رانا صاحب اس کا بیگ اٹھائے اس کے ساتھ آئے پھر اس سے رخصت لیتے روانہ ہوگئے۔ کرن اندر داخل ہوئی تو پورا گھر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اسے تعجب سا ہوا۔ اس نے انی کو پکارتے لاؤنج کی لائٹس جلائی۔ پھر انی کے کمرے پر دستک دی لیکن انی کہی نہیں ملی۔ کرن وہی صوفے پر بیٹھ کر انی کو کال ملانے لگی پر ان کا نمبر مصروف آرہا تھا۔ اسے مزید شاک سا لگا۔ "اس وقت انی کہاں جا سکتی ہے۔۔۔۔۔" کرن سوچتے ہوئے اپنے کمرے میں فریش ہونے چلی گئی۔ *************&&&&************ رانا مبشر کرن کے اپارٹمنٹ سے اتر کر لابی سے گرز رہے تھے جب انہیں ایک کونے سے کسی نسوانی آواز کا منمنانا سنائی دیا۔ رات کے اس پہر دور دور تک وہاں کوئی بشر موجود نہ تھا۔ رانا صاحب دبے پاوں آواز کا تعاقب کرتے اس بھاری بھرکم سائے کے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ "اوووہووو۔۔۔۔۔ بولا ہے نا۔۔۔۔۔ تھوڑا وقت دو۔۔۔۔۔ ابھی وہ میٹینگ کے لیے گئی ہے۔۔۔۔۔ میں تب تک کچھ کرتی ہوں۔۔۔۔۔" انہیتا جی منہ کے آگے ہاتھ کا پیالہ بنائے موبائل پر سرگوشی کے انداز میں گفتگو کر رہی تھی۔ انہیں اپنے پیچھے کسی کی آہٹ سنائی دی تو بھوکلا کر موبائل نیچے کر لیا اور خوف و ہراس سے دل پر ہاتھ رکھ کر مڑی تھی کہ ٹھٹک گئی۔ رانا صاحب پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے تند تاثرات بنائے یک ٹک اسے دیکھ رہے تھے۔ "ممممم۔۔۔ مسٹر۔۔۔۔ ررر رانا۔۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔۔" انی کی سانس اٹک گئی زبان لھڑکرا گئی۔ "آپ جانتی ہے نا مس انہیتا۔۔۔۔ میں کرن کے معاملے میں کتنا سنجیدہ ہوں۔۔۔۔۔۔ اس لیے اسے کبھی دھوکہ دینے کا سوچنا بھی مت۔۔۔۔" رانا صاحب نے سختی سے تنبیہہ کرتے ہوئے انی کے ہاتھ سے موبائل چھینا اور تندی سے گھورتے ہوئے کال پر موجود شخص سے بات کرنے لگے۔ انی مضطرب سی یہاں وہاں دیکھتی ان سے نظریں ملانے سے کتراتی رہی۔ ************&&&&************ اپنا سامان کمرے میں رکھ کر پھر چینج کر کے کرن کمرے سے باہر آئی تب بھی گھر خالی پڑا تھا۔ اسے انی کی فکر ہونے لگی وہ گھڑی کو دیکھتے ہوئے جو رات کے ساڑھے گیارہ بجا رہی تھی؛ پھر سے انی کو کال ملانے لگی۔ پہلی بیل گئی تھی کہ دروازہ کھول کر انی اندر داخل ہوتی دکھائی دی۔ "انی۔۔۔۔ کہاں چلی گئی تھی۔۔۔۔۔۔ فکر ہورہی تھی مجھے۔۔۔۔۔" کرن نے ان کے پاس آکر ناراض ہوتے ہوئے گلہ کیا۔ "کیا ہوا انی سب ٹھیک تو ہے۔۔۔۔" کرن کو انی کا رنگ اڑا ہوا لگا تو متفکر انداز میں پوچھا۔ "ہاں ہاں مجھے کیا ہونا ہے۔۔۔۔۔ ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔ فرینڈز کے ساتھ پارٹی کرنے گئی تھی۔۔۔۔۔ دیر ہوگئی۔۔۔۔۔ تم بھی تھکی ہوئی ہوگی۔۔۔۔۔ جا کر سو جاو۔۔۔۔۔ میں بھی سونے جا رہی ہوں۔۔۔۔۔" انی اپنی گھبراہٹ چھپانے کی کوشش کرتی جعلی مسکرا کر بے پرواہی سے ہاتھ ہوا میں لہرا کر وضاحت دیتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کرن کو وہ کچھ مشکوک سی لگی لیکن زیادہ سوچے بغیر شانے اچکاتے وہ بھی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ ****************&&&&*************** پچھلے دو دنوں سے کرن کو انی کی حرکات مشکوک سے لگے۔ وہ اکثر بنگالی زبان میں کسی سے کال پر مصروف رہتی کبھی اچانک گھر سے نکل جاتی۔ کرن کے پوچھنے پر بھی انی نے کچھ نہیں بتایا۔ سنڈے کی صبح کرن دیر سے اٹھی۔ حسب توقع انی گھر پر نہیں تھی اور ناشتہ بھی نہیں بنا تھا۔ کرن کو کھٹک محسوس ہوئی وہ معاملے کی جانچ پڑتال کے ارادے سے انی کے کمرے میں داخل ہوئی اور سامنے کا منظر دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ انی کے بیڈ کر بہت سے کاغذات بکھرے پڑے تھے۔ کچھ بینک کے دستاویزات بھی الگ کر کے رکھے گئے تھے۔ وہ قریب آکر بغور ان کاغذات اور دستاویزات کا مشاہدہ کرنے لگی تو بینک کے ایک آدھ دستاویز پر اسے رانا مبشر کا نام دکھائی دیا۔ کرن کے آبرو حیرت سے پیھل گئے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر وہ کاغذ اٹھایا اور اس پر لکھے عبارت پڑھنے لگی۔ پچھلے تین دنوں میں رانا مبشر نے پاکستانی حساب سے تیرا لاکھ روپے انی کے اکاونٹ میں ٹرانسفر کروائے تھے۔ کرن کو مزید شاک لگا۔ "یہ سب کیا ہے۔۔۔۔۔ رانا صاحب نے انی کے اکاونٹ میں اتنے پیسے کیوں بھجوائے ہیں۔۔۔۔۔" اس نے آس پاس ملاتشی نظروں سے دیکھ کر اور ثبوت ڈھونڈنا چاہے۔ اسی اثناء دروازہ کھول کر انی اندر داخل ہورہی تھی اور کرن کو اپنے کمرے میں بینک کے کاغذات ہاتھ میں پکڑے دیکھ کر انی متذبذب سی ہوگئی۔ "کیا چل رہا ہے یہ سب۔۔۔۔۔۔ رانا صاحب نے اتنی رقم کیوں پھیجی ہے آپ کے اکاونٹ میں۔۔۔۔۔ خرید لیا ہے نا انہوں نے آپ کو۔۔۔۔۔" اپنی ماں جیسی انی کو اپنے پیٹھ پیچھے رانا مبشر کے ساتھ ملوث پا کر کرن کا دل بھر آنے لگا۔ "بھیج دیا خود کو آپ نے۔۔۔۔۔۔ ان کے ساتھ مل کر کیا سازش رچ رہی ہے آپ میرے خیلاف۔۔۔۔۔۔ بولیں۔۔۔۔۔۔ چپ کیوں ہے۔۔۔۔۔" کرن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔ وہ بلند آواز میں انی پر چیخ پڑی۔ انی نفی میں سر ہلاتے قریب آئی اور کرن کو اپنے حصار میں لینا چاہا۔ "تم غلط سوچ رہی ہو۔۔۔۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے کرن۔۔۔۔" انہوں نے اداسی سے کہا۔ کرن ان کے رقبت سے دور ہٹ گئی۔ "میں غلط ہوں تو پھر یہ سب کیا ہے۔۔۔۔۔" اس نے ہاتھ میں پکڑے کاغذات ہوا میں لہرائے۔ "کرن۔۔۔۔۔ میری بچی۔۔۔۔۔ میں سب بتاتی ہوں۔۔۔۔۔ مجھے وضاحت کا موقع تو دو۔۔۔۔۔" انی روہانسی ہوگئی۔ کرن کا غصہ ان سے سنبھالا نہیں جا رہا تھا۔ "مسٹر رانا نے وہ پیسے میرے بیٹے کے آپریشن کے لیے دیئے ہیں۔۔۔۔۔" انی نے تند آواز میں جواب دیا۔ کرن پھٹی نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔ انی شکست خوردہ ہوگئی تھی۔ ان کے چہرے سے ان کی بے بسی صاف چھلک رہی تھی۔ "ایک ہفتے پہلے میرے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔۔۔۔۔ اس کے پیر کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔۔۔۔۔۔ فوری طور پر آپریشن کرنے کے لیے پندرہ لاکھ روپے درکار تھے۔۔۔۔۔ اس کے خود کے پاس پچاس ہزار سے زیادہ نہیں تھے تو اس نے مجھ سے درخواست کی۔۔۔" انی کے آنسو جاری ہوگئے تھے۔ "اس نے بھلے مجھ سے تعلق توڑ دیا ہو کرن۔۔۔۔۔ لیکن میں اس کی ماں ہوں۔۔۔۔۔۔ میں اپنے بچے کو تکلیف میں اکیلا کیسے چھوڑ سکتی ہوں۔۔۔۔۔۔" وہ اپنے بیڈ پر سر پکڑ کر بیٹھ گئی اور زار و قطار رونے لگی۔ "میں مشکل سے ڈیڑھ سے دو لاکھ کا ہی بندوبست کر پائی تھی۔۔۔۔ باقی کی رقم کے لیے بہت پریشان تھی جب تمہارے استنبول سے لوٹنے کی رات مسٹر رانا نے مجھے اپنے بیٹے سے کال پر بات کرتے پکڑ لیا۔۔۔۔۔" انی بہتے آنسوؤں سے ساری رو داد سناتی گئی۔ کرن انی کے پاس آکر بیٹھی اور ان کے گرد بازو مائل کرتے ہوئے انہیں دلاسہ دینے لگی۔ "انی آپ مجھ سے کہہ دہتی۔۔۔۔۔۔ میں تھوڑی آپ کو پیسے دینے سے انکار کرتی۔۔۔۔" کرن نے نرمی سے شکوہ کیا۔ "سوچا تو یہی تھا۔۔۔۔۔ لیکن مسٹر رانا نے کہا تمہاری سیونگ اس پراجیکٹ اور تمہاری نئی کتاب کی پبلیشنگ پر لگی ہے۔۔۔۔۔۔ اور جب وہ دیں رہے ہیں تو میں تمہیں اس سب کے لیے پریشان نہ کروں۔۔۔۔۔" انی نے افسوس کرتے ہوئے سر جھٹکا۔ کرن کو رانا مبشر کے اس کے اکاونٹس کے بارے میں اتنی معلومات رکھنے پر شاک لگا۔ "اور ان پیسوں کے بدلے ضرور رانا صاحب نے مجھے طلب کیا ہوگا نا۔۔۔۔۔" کرن نے طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے اپنے آنکھوں کے بھیگے کنارے صاف کیئے۔ اسے قسمت اپنا کھیل ایک مرتبہ پھر دہراتے ہوئے محسوس ہوئی۔ انی نے اپنے جذبات پر قابو پا کر کرن کے جانب افسردگی سے دیکھا۔ "پتا ہے کرن۔۔۔۔۔ تم نے اپنے دماغ میں مسٹر رانا کا ایک خاکہ بنا کر رکھا ہے۔۔۔۔۔۔ جس میں وہ مطلبی۔۔۔۔ خودغرض۔۔۔۔۔۔ ہر طرح کے جذبات سے عاری ظالم شخص ہے۔۔۔۔۔ اور اس خاکے کے آگے تمہیں ان کی نیکیاں۔۔۔۔۔ ان کا اچھا آدمی بننا دکھائی نہیں دے رہا۔۔۔۔۔" انی کے تاثرات سپاٹ ہوگئے لہجے میں سختی در آئی تھی۔ وہ کرن کا بازو جھٹک کر اس کے پہلو سے اٹھ کھڑی ہوگئی۔ "یا پھر یوں کہوں۔۔۔۔۔ کہ تہمارے ضمیر کو ان کا اچھا بننا گوارا نہیں ہورہا۔۔۔۔۔ کہ کہی تم ان کے محبت میں گرفتار نہ ہوجاو۔۔۔۔۔۔یا تمہارا دنیا کے سامنے بنایا ہوا ان کا منفی کردار ختم نہ ہوجائے۔۔۔۔۔" انی نے اپنے بیڈ پر بکھرے کاغذات سمیٹتے ہوئے اپنا فقرہ مکمل کیا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ کرن بے جان سی کافی دیر وہی بیٹھی رہی۔ کہی نا کہی انی کی باتوں نے اس کے اندیشوں کو اس پر ظاہر کر دیا تھا۔ جب وہ انی کے کمرے سے باہر آئی تو انی کچن میں شیلف پر لنچ میں بنانے کے لیے سبزی کاٹ رہی تھی۔ کرن لب کاٹتے ہوئے ان کے پاس آئی اور ان کے گرد بازو مائل کئے۔ "سوری۔۔۔۔ ویسے آپ کا بیٹا کیسا ہے۔۔۔۔۔ آپریشن ہوگیا اس کا۔۔۔۔۔" کرن نے اپنی بات پر معذرت کرتے ہوئے انی کے بیٹے کی عیادت کی۔ "ہاں کل رات آپریشن ہوگیا خیر سے۔۔۔۔ ٹھیک ہوجائے گا کچھ دنوں میں۔۔۔۔۔" انی نے سپاٹ انداز میں قدرے نرم لہجے میں جواب دیا اور کرن کے حصار سے الگ ہوگئی۔ "انی۔۔۔۔۔ آپ چاہے۔۔۔۔۔ تو کچھ دن بنگلہ دیش جا کر اس سے مل آئے۔۔۔۔۔" کرن نے اپنائیت سے تجویز دی۔ اس بات پر انی مسکرا دی اور سر کو خم دے کر اس کی تجویز منظور کی۔ کرن بھی خوشگواریت سے مسکرا دی۔ "کرن۔۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔۔ میری ایک تجویز تم بھی مان لو۔۔۔۔ مسٹر رانا کے لیے اپنا دل صاف کر لو۔۔۔۔۔ انہوں نے فی سبیل اللہ میری مدد کی ہے۔۔۔۔۔ بدلے میں کچھ نہیں مانگا۔۔۔۔۔ یقین کرو میرا۔۔۔۔" انی نے اس کے رخسار پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے سمجھایا۔ کرن زخمی مسکرا دی۔ "میں اپنے دل کو بدلنے کی کوشش کروں گی انی۔۔۔۔" اس نے انی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔ ******************&&&&************** اگلی صبح انی دو ہفتوں کے لیے اپنے بیٹے بہو کے پاس رہنے بنگلا دیش چلی گئی تھی۔ اس دوران کرن اور رانا مبشر کی ملاقاتیں اپنے معمول پر چلتی رہی۔ مگر نہ کرن نے ان سے انی کو دیئے پیسوں کا ذکر کیا اور نہ ہی رانا صاحب نے کرن پر ایسا انکشاف ظاہر کیا۔ ****************&&&&*************** جاری ہے
❤️ 👍 😮 🙏 😢 😂 192

Comments