Novel Ki Dunya
June 12, 2025 at 07:28 AM
ناول۔۔۔۔ قسمت سے ہاری میں (پارٹ ٹو) از قلم۔۔۔۔ پلوشہ صافی قسط نمبر۔۔۔۔ 05 #dont_copy_paste_without_my_permission اس دن کرن بہت خوش تھی۔ تعمیراتی کام اپنے تکمیل کی طرف زور و شور سے رواں دواں تھا۔ تین ماہ میں کافی حد تک عمارت بن چکی تھی۔ اس کے اس کار خیر سے سب ہی بہت خوش تھے۔ ہر دوسرے دن اخبارات میں نیوز چینلز پر کرن کے متعلق خبریں چلتی۔ کچھ اسے بہت سراہتے لیکن کچھ اس کا تنقید بھی کرتے۔ رانا صاحب کی موجودگی سے کرن کی بہت مدد ہوگئی تھی۔ انہیں ایسے تعمیراتی منصوبوں میں کرن سے بہتر تجربہ تھا۔ سارا کنسٹرکشن کا کام ان ہی کے زیر نگرانی ہوتا رہا۔ اس دن بھی کرن رانا صاحب کے ہمراہ سائٹ سے واپس آفس لوٹی تو کوریڈور میں ہی اسے ایلف اور اورہان مل گئے تھے۔ ایلف کرن کی ہم منصب تھی اور اورہان ٹیکنیکل ڈائریکٹر تھا حال ہی میں ان دونوں کی شادی ہوئی تھی اور وہ آج ہی اپنے ہنی مون سے لوٹے تھے۔ ایلف کو دیکھ کر کرن کی خوشی دگنی ہوگئی تھی۔ پہلے خود ان سے مل کر پھر کرن نے رانا صاحب کو متعارف کروایا۔ "یہ مسٹر رانا ہے۔۔۔۔۔ میرے۔۔۔۔۔ بہت خاص مہمان۔۔۔۔" اس نے رانا صاحب کے جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "یہ ایلف اور اورہان ہیں۔۔۔۔ میرے بہت اچھے کولیگ۔۔۔۔ دو ماہ پہلے ان کی شادی ہوئی ہے۔۔۔۔" پھر کرن نے رانا صاحب کو دیکھتے ہوئے اس جوڑی کا تعارف بتایا۔ "اووو Congratulations۔۔۔۔۔ " رانا صاحب نے مبارکباد پیش کرتے ہوئے اورہان سے مصافحہ کیا۔ ایلف بھی رانا صاحب کی مبارکباد وصول کرتے ہوئے مسکرائی۔ "یہ میرے ریسپشن پارٹی کا کارڈ ہے۔۔۔۔ آپ کو لازی آنا ہوگا کرن۔۔۔۔" ایلف نے ہینڈ بیگ سے دو عدد کارڈز نکالے۔ "اور مسٹر رانا۔۔۔۔ چونکہ آپ کرن کے خاص مہمان ہے۔۔۔۔ تو آپ ہمارے بھی خاص مہمان ہوئے۔۔۔۔۔ آپ کو بھی لازمی آنا ہے۔۔۔۔" ایلف نے ایک کارڈ رانا صاحب کو بھی پیش کیا۔ رانا صاحب کارڈ تھام کر مشکور ہوتے ہوئے مسکرائے۔ وہ اپنے آنے سے معذرت کرتے لیکن اورہان نے ان کے بازو پر ہاتھ رکھا۔ "پلیز مسٹر رانا۔۔۔۔۔ آپ بہت لطف اندوز ہوجائے گے۔۔۔۔۔ یہ پارٹی کم اور کانسرٹ زیادہ ہے۔۔۔۔ الگ الگ انٹرنیشنل گلوکار بھی اس میں حصہ لینے والے ہے۔۔۔۔ آپ کو آنا ہی پڑے گا۔۔۔ بہت مزا آئے گا۔۔۔۔" اورہان کے ضد کے آگے رانا صاحب نے اس کی پیشکش منظور کرتے ہوئے سر اثابت میں ہلادیا۔ ***************&&&&&************** پارٹی کی شام کرن کے اسرار پر سب سے پہلے اس کا ڈرائیور رانا صاحب کو لینے گیا پھر ان کو لیتے ہوئے وہ کرن کو اٹھانے واپس اس کی اپارٹمنٹ کے سامنے آگئے۔ رانا صاحب پورے بلیک تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھے حتہ کے ٹائی جوتے گھڑی سب بلیک کلر کے تھے۔ بال اور شیو تازہ تراشی ہوئی وہ ہشاش بشاش سے تیار فرنٹ سیٹ پر بیٹھے کرن کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ابھی وہ سر اونچا اٹھا کر اس کے اپارٹمنٹ کے باہری حصے کو مشاہدہ کر رہے تھے جب کرن سیڑھیوں پر سے اترتی دکھائی دی۔ رانا صاحب کی نظریں اس پر آکر رک سی گئی۔ کرن گولڈن کلر کا کام دار فراک اور چوڑی دار پجامہ پہنے ہوئے تھی۔ کھلے بال رول کئے ہوئے تھے نفیس سا میک اپ کیا تھا جو اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہا تھا۔ کانوں میں ڈائمند ٹاپس اور ہاتھوں میں چوڑیاں پہنے وہ بلکل دیسی انداز میں تیار ہوئی تھی۔ فراک کا دامن پہلوؤں سے اٹھائے وہ نیچے آئی۔ کرن کو قریب آتے دیکھ کر رانا صاحب کار سے اترے اور ڈیش بورڈ پر رکھے گلاب کا چھوٹا سا گلدستہ اٹھا کر کرن کو پیش کیا۔ اسی سے کچھ بڑا گلدستہ انہوں نے اس شادی شدہ جوڑے کی تقریب کے مناسبت سے الگ تیار کروایا تھا۔ کرن ان کا پیش کردہ وہ گلدستہ دیکھ کر حیران ہوگئی۔ "راستے میں ایک فلاور شاپ مل گئی تھی تو۔۔۔۔۔ تمہارے لیے لیں لیئے۔۔۔۔" رانا صاحب نے کچھ جھجکتے ہوئے وضاحت پیش کی۔ انہیں کرن کے ساتھ دوستانہ ہونے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوئی۔ کرن نے تسکین سے مسکرا کر وہ گلدستہ تھاما پھر تازہ پھولوں کی خوشبو سے مسرور ہوتے ہوئے اپنے پیچے کھڑے ملازم کو پکڑایا جو کرن کا تحفہ اٹھائے کھڑا تھا۔ "انی سے کہنا میرے سٹوڈیو میں لگا دیں۔۔۔۔۔" اسے حکم صادر کر کے کرن نے اس کے ہاتھ میں سے تحفہ اٹھا کر ڈرائیور کو دیا جو اُس نے پیچے سیٹ پر معظم انداز میں رکھ دیا۔ 'چلیں۔۔۔۔" رانا صاحب کہتے ہوئے کرن کے سامنے سے ہٹے۔ وہ آگے آکر پیچے سیٹ پر اپنا فراک سنبھالتے ہوئے بیٹھ گئی۔ رانا صاحب نے آگے کی سیٹ سنبھالی اور کار تقریب کے جانب روانہ ہوگئی۔ ***********&&&&*************** ہال کے استقبالیہ میں ایلف‌ سلور کلر گاون پہنے اور اورہان گرے کلر سوٹ پہنے تیار کھڑے سب ہی مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے۔ کرن اور رانا صاحب ساتھ چلتے قریب آئے اور ان سے ملے۔ کرن نے تحفہ پیش کیا اور رانا صاحب نے گلدستہ۔ ہال کے اوپن ائیر میں منعقد کردہ وہ تقریب واقعی کانسرٹ نما تھا۔ بڑے سے اسٹیج پر میوزیکل ٹیم موسیقی بجا کر شام کو رنگین بنا رہے تھے۔ اسٹیج کے سامنے ہی قطار سے میز اور کرسیاں لگائی گئی تھی۔ ایلف کرن اور رانا صاحب کی رہنمائی کرتی انہیں اسٹیج کے سامنے دو نفری میز پر لے آئی۔ اس کا شکریہ ادا کرتے ان دونوں نے آمنے سامنے نشست پر سنبھال لی۔ وہاں ان کے آفس کے بہت سے کارکنان تشریف فرما تھے۔ دور ایک میز پر سیلان بھی اپنی منگیتر کے ہمراہ شام کو انجوائے کرتا نظر آرہا تھا۔ البتہ انشا گل کی ساس کی طبعیت ناساز ہونے کے باعث وہ شرکت کرنے سے قاصر تھی۔ ابھی تک کانسرٹ کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ فلحال مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری و ساری تھا۔ جب تقریباً سارے مہمان تشریف لیں آئے تھے اور اکے دکے میز کے علاوہ سارا ہال بھر گیا۔ تب اورہان ایلف کا ہاتھ تھامے اسٹیج پر گیا اور مائک میں گویا ہوا۔ سب سے پہلے وہ سب مہمان گرامی کے آنے سے مشکور ہوا اور پھر ایلف سے اپنی محبت کے اظہار کے طور پر کچھ پیار بھرے کلمات کہے۔ سب ان دونوں کی اس محبت بھری جوڑی کو دعائیں دینے لگے۔ مزید وقت ضائع کئے بغیر اورہان نے کانسرٹ کے پہلے گلوکار کو اسٹیج پر مدعو کیا۔ وہ ترکش سنگر تھا۔ آغاز وہاں کے مقامی موسیقی سے ہوا جس کا سب نے بہت لطف اٹھایا۔ اسی طرح ترکش کے بعد انگلش اور فرینچ سنگرز نے ایک ایک کر کے اپنے ہنر سے مہمانوں کا دل بہلایا۔ ایلف اور اورہان سب میزوں پر جا جا کر مہمانوں کی خیر مقدمی بھی کرتے رہے۔ ایک آدھ مرتبہ وہ کرن اور رانا مبشر کے میز پر بھی آئے تھے۔ شام کی رونق کو مزید بڑھانے ویٹرز الگ الگ لوازمات کی ٹرے اٹھائے میزوں کے گرد چکر کاٹتے رہے۔ فرینچ سنگر کے بعد باری انڈین سنگر کی آئی۔ اس نے اپنے سروں سے جادوئی سماء باندھ دیا تھا۔ ایک گانا ختم کر کے جب اس نے دوسرا شروع کیا تو رانا صاحب کے تاثرات بدلنے لگے۔ وہ گانا اس وقت انہیں اپنے کیفیت پر بنا ہوا لگا۔ Tum mere ho is pal mere ho Kal shayed ye alam na rahy Kuch aisa ho tum tum na raho Kuch aisa ho hum hum na rahy Ye rasty alag hojaye chalty chalty hum kho jaye Mai phir b tum ko chaho ga Mai phir b tum ko chaho ga Is chahat mai mar jao ga Mai phir b tum ko chaho ga. رانا صاحب گانے کے ہر لفظ کو محسوس کرتے ہوئے کرن کو دیکھنے لگے۔ وہ ان کے جذبات سے بے خبر محظوظ ہوتے ہوئے کُہنی میز پر ٹکائے ہاتھ گال کے نیچے رکھے ایلف اور اورہان کے ڈانس کو دیکھ رہی تھی۔ اور سنگر اپنے دھن میں مگن گائیں جا رہا تھا Aise zaruri ho mujh ko tum Jaise hawaien sanso ko Aise talashu mai tum ko Jaise k pair zameeno ko Hasna ya rona ho mujhy pagal sa dhondo mai tujhy کچھ ویٹر ان کے ٹیبل پر آکر لوازمات سجانے لگے۔ کرن نے رانا صاحب کو دیکھا تو ان کی گہری آنکھیں خود پر جمی پا کر متذبذب سی ہوگئی۔ ایک ویٹر نے مشروبات سے سجایا ٹرے کرن کے آگے کیا تو کرن نے پھیکا مسکرا کر نفی میں سر ہلایا۔ ویٹر اس کی مرضی کا احترام کرتے ہوئے سر کو خم دے کر رانا صاحب کے جانب بڑھ گیا۔ کرن بھی اسی طرف متوجہ تھی۔ رانا صاحب نے ٹرے پر ایک نظر دوڑا کر سادا پانی کا گلاس اٹھایا تو کرن کو دھچکا سا لگا۔ وہ شاک کے عالم میں رانا صاحب کو دیکھنے لگی۔ ان کے گلاس اٹھاتے ہی ویٹر سر کو خم دے کر دوسرے سمت روانہ ہوگیا۔ کرن بے یقینی سے رانا صاحب کو بغور مشاہدہ کر رہی تھی۔ جہاں تک اسے یاد پڑتا تھا رانا مبشر سموکنگ اور ڈرنکنگ کے عادی تھے۔ اتنے ماہ سے کرن نے انہیں سیگریٹ نوشی بھی کرتے نہیں دیکھا تھا لیکن آج ڈرنک کرنے سے بھی گریزاں دیکھ کر کرن کے حواس اڑ گئے تھے جبکہ وہاں ایک سے بڑھ کر ایک برانڈ کے انواع و اقسام شراب موجود تھیں ؛ یہ دیکھ کر کرن دنگ رہ گئی تھی۔ رانا صاحب اپنے خیالات مہو کرنے کی کوشش کرتے کرن سے نظریں ملانے سے کتراتے پانی کے گھونٹ پینے لگے۔ پس منظر میں سنگر کا گانا اسی سُر اور تال میں جاری تھا۔ Kal mujh se muhabat ho na ho Kal mujh ko ijazat ho na ho Toty dil k tokre le kar Tere dar par he reh jao ga Mai phir b tum ko chaho ga Mai phir b tum ko chaho ga Is chahat mai mar jao ga Mai phir b tum ko chaho ga۔۔۔۔۔ گانا ختم ہوا تو ہال کی فضاء تالیوں سے گونج اٹھی۔ سب نے تلیاں بجا کر سیٹیاں بجا کر گلوکار کو سراہا۔ رانا صاحب نے تالیاں بجاتے ہوئے کرن کو دیکھا وہ ان سے نظریں چراتی وہاں سے اٹھ کر باہر چلی گئی۔ "کوئی اچھا بننے کی جتنی بھی اداکاری کر لیں۔۔۔۔۔ لیکن برسوں پرانی عادت کو ایسے نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔۔ کیا واقعی رانا صاحب اتنا بدل گئے ہے۔۔۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔۔۔ کوئی سازش چل رہی ہے۔۔۔۔۔" کرن ہال کے باہری حصے میں چکر کاٹتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ ابھی وہ اسی شش و پنج میں مبتلا تھی کہ اس نے اپنے پیچھے رانا صاحب کی پکار سنی۔ "کرن۔۔۔۔۔ سب خیرت۔۔۔۔" انہوں نے متفکر انداز میں پوچھا۔ کرن ایک جھٹکا کھا کر سیدھی ہوئی اور خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ "جی رانا صاحب سب خیریت ہے۔۔۔۔" اس نے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا۔ رانا صاحب نے غور سے کرن کے زرد پڑتے چہرے کو دیکھا۔ "طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تو۔۔۔۔ گھر چلتے ہیں۔۔۔۔" انہوں نے کرن کے مضطرب تاثرات جانچتے ہوئے پیشکش کی۔ "نہیں نہیں رانا صاحب میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔ ایسے بیچ میں سے جائے گے تو ایلف اور اورہان کو بہت برا لگے گا۔۔۔۔۔ فنکشن ختم ہوتے ہی چلیں گے۔۔۔۔ کرن نے تیزی سے وضاحت پیش کی اور سر جھکائے رانا صاحب کے سائیڈ سے گزرتے ہوئے واپس ہال کے اندر آگئی۔ رانا صاحب سپاٹ انداز میں اسے جاتے دیکھتے رہے پھر وہ بھی سر جھٹک کر اندر بڑھ گئے۔ کانسرٹ ختم ہونے کے ساتھ کھانا پیش کیا گیا اور پھر ایلف اور اورہان کے کیک کاٹنے کے بعد فنکشن اختتام پذیر ہوا۔ واپسی پر پہلے رانا صاحب کو ہوٹل پہنچایا پھر کرن اپنے گھر لوٹی۔ **************&&&&&*************** کرن بے دم قدموں سے لاؤنج میں داخل ہوئی۔ انی صوفے پر بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی اور پیر میز پر دراز کر رکھے تھے۔ کرن کو آتے دیکھ کر انہوں نے ٹی وی بند کر دیا اور پیر نیچے کر کے اسے مخاطب کیا۔ "آگئی۔۔۔۔۔ کیسی رہی پارٹی۔۔۔۔۔۔ مسٹر رانا نے انجوائے کیا۔۔۔؟" انی نے ایک کے بعد دوسرا سوال پوچھا۔ کرن اسی فینسی فراک میں ہی انی کے پاس آکر بیٹھی اور انی کے گود میں سر رکھ دیا۔ اس وقت اسے سکون کی تلاش تھی۔ انی نے اپنائیت سے اس کے تھکے تھکے چہرے کو دیکھا۔ "کرن تم کچھ دنوں کی چھٹی لے لو۔۔۔۔۔ کام کا بوج بہت بڑھ گیا ہے تم پر۔۔۔۔۔۔" انی کی آواز میں افسردگی اور فکر در آئی تھی۔ وہ ہلکے ہاتھ سے کرن کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی۔ کرن آنکھیں موندھے ان کے پیار کو محسوس کرتی خاموش رہی۔ اسے خاموش دیکھ کر انی جھجکتے ہوئے کنکاری۔ "ایک بات کہو کرن۔۔۔۔۔۔ ویسے تو یہ تمہارا پرسنل معاملہ ہے۔۔۔۔۔ لیکن میں عمر اور تجربہ میں تم سے بڑی ہوں۔۔۔۔۔ میں نے تم سے زیادہ زندگی کی بہاریں اور طوفان دیکھے ہیں۔۔۔۔۔۔" انی اس کے بالوں کو سہلاتی سامنے غیر مروی نقطہ کو دیکھتے ہوئے گویا تھی۔ کرن نے نظریں اٹھا کر کے ان کے جھریوں بھرے چہرے کو دیکھا۔ "میں نے شوہر کی بےوفائی بھی دیکھی اور اولاد کی جدائی بھی۔۔۔۔۔ پر کیا تم جانتی ہو۔۔۔۔۔ جو مرد اپنے غلطیاں قبول کر کے۔۔۔۔۔۔ انہیں سدھار کر۔۔۔۔۔ عورت کے پاس واپس لوٹے وہ سب سے سچا ہوتا ہے۔۔۔۔۔" انی نے کرن کو نئی امید دلانے کی کوشش کی۔ کرن اٹھ بیٹھی اور اپنی چوڑیاں اتار کر میز پر رکھنے لگی۔ "آپ کا تجربہ اپنی جگہ درست ہے انی۔۔۔۔۔ ہوتے ہونگے ایسے مرد۔۔۔۔۔ لیکن رانا مبشر ایسے مردوں میں سے نہیں ہیں۔۔۔۔۔ " کرن کا دل اب بھی رانا صاحب کی تبدیلیاں قبول کرنے پر راضی نہیں تھا۔ جہاں سے ہمیشہ ٹھوکر ملی ہو اس جگہ پھر سے اعتبار کا دیوار بنانا مشکل ہوتا ہے۔ انی نے ہمدردی سے کرن کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ کرن کے جیولری اتارتے ہاتھ رک گئے۔ "سات سال پہلے تم جس رانا مبشر کو جانتی تھی۔۔۔۔ وہ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔۔۔ لیکن میں جس رانا مبشر سے ملی ہوں۔۔۔۔۔ وہ ایسا ہی ہے۔۔۔۔۔ میں نے ان کی آنکھوں میں تمہاری محبت دیکھی ہے کرن۔۔۔۔۔" انی حقیقی ماں کے جیسے ہی کرن کو سمجھا رہی تھی۔ "اپنا سکھ چین گنوا کر وہ کتنے لگن اور محنت کر کے تمہارے پراجیکٹ کو کامیاب کرنے میں لگے ہیں۔۔۔۔ تم نے پہلے بھی انہیں کتنا برا بھلا کہا لیکن وہ پھر بھی پیچے نہیں ہٹے۔۔۔۔۔۔ ایک سچا ہمسفر ہی اتنا ساتھ دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ ورنہ جعلی دعوے دار تو ایک ہی جھڑک میں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔۔۔۔۔" انی نے ہمایوں کی حرکت کو یاد کرتے ہوئے تندی سے کہا۔ کرن ان کی بحث و مباحثہ سے تنگ ہونے لگی۔ لیکن اس کے لب کھولنے سے پہلے انی نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیئے۔ "تم نے پہلے بھی یک طرفہ فیصلہ کیا تھا کرن۔۔۔۔۔۔ اس بار ایسی بے وقوفی مت کرنا۔۔۔۔۔ تمہیں رانا مبشر کو ان کی سچائی ثابت کرنے کا ایک چانس دینا چاہیئے۔۔۔۔" انی نے کچھ سخت لہجے میں کرن کو تنبہیہ کرتے ہوئے کہا اور اس کا جواب سنے بغیر وہاں سے اٹھ کر روانہ ہوگئی اور کرن مایوسی سے ان کو جاتے دیکھنے لگی۔ ************&&&&***************** زندگی نے کرن کو پھر سے کشمکش میں ڈال دیا تھا۔ اس کا دل سب کاموں سے اچاٹ ہوگیا تھا۔ اس دن وہ اپنے باس سے بات کرنے مین آفس چلی گئی۔ "سر مجھ پر کام بہت زیادہ ہے۔۔۔ اب تو ایلف واپس آگئی ہے۔۔۔۔ آپ یہ پراجیکٹ اس کے تحویل میں دے دیں۔۔۔۔ " کرن نے بے بسی سے اس پراجیکٹ سے دستبردار ہونے کی درخواست کی۔ وہ برف کے جیسے سفید بالوں والے اڈھیر عمر آدمی کرن کے انکشاف پر حیران ہوگئے تھے۔ "یہ کیسی باتیں کر رہی ہو کرن۔۔۔۔۔ اس درجہ پر آکر تم اس پراجیکٹ سے دستبردار نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔۔ یہ پراجیکٹ تمہارا آئیڈیا تھا۔۔۔۔۔ اسے شروع بھی تم نے کیا تھا۔۔۔۔ اب اسے ختم بھی تم کرو گی۔۔۔۔۔۔" باس نے یک ٹک اس کی پیشکش منظور کرنے سے انکار کر دیا۔ "سر۔۔۔۔۔۔ سمجھنے کی کوشش کریں۔۔۔۔۔ میں نہیں کر پا رہی۔۔۔۔" کرن نے انہیں قائل کرنے کی ایک اور کوشش کی۔ "سمجھنے کی کوشش تم کرو۔۔۔۔۔ یہ اکیلے میرے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ مجھے آگے اسمبلی میں درخواست دائر کرنی پڑے گی۔۔۔۔۔ وہ آگے اقوام متحدہ تک رسائی کریں گے۔۔۔۔۔ پھر ان کی کمیٹی بیٹھائی جائے گی۔۔۔۔ اس سب میں دو سے تین ماہ لگ جائے گے۔۔۔۔۔۔ تب تک تو تم اس پراجیکٹ کو مکمل بھی کر چکی ہوگی۔۔۔۔۔ بہتر یہی ہے اسے تم ہی لیڈ کرو۔۔۔۔۔ چاہے تو مزدوروں کی تعداد بڑھا دو۔۔۔۔ انہیں بونس دے کر کام کا دورانیہ بڑھا دو۔۔۔۔ لیکن میں تمہاری عرضی قبول نہیں کر سکتا۔۔۔۔ سوری۔۔۔۔۔" باس نے ہاتھ اٹھا کر اپنا حتمی فیصلہ سنایا۔ کرن پھیکا مسکرا کر ان کا حکم مانتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوگئی۔ ***************&&&&*************** ہیڈ آفس سے کرن سیدھے سائٹ پر ہی آگئی۔ انشا گل اور رانا صاحب پہلے سے وہاں موجود تھے۔ رانا صاحب سر پر پی کیپ پہنے آنکھوں پر گلاسس لگائے آرکیٹکٹ سے کھڑکھیوں کے متعلق مباحثہ کرنے میں مشغول تھے۔ کرن آہستہ آہستہ ان کے سمت آتی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ واقعی اس پراجیکٹ کا سارا ذمہ تو رانا صاحب نے اٹھایا ہوا تھا وہ تو بس دن بھر کے کام کے اخراجات کی رپورٹ بنا کر ہیڈ آفس مہیا کر دیتی۔ رانا صاحب نے کرن کو دیکھا تو آرکیٹیکٹ سے ہوئے مباحثے سے اسے آگاہ کرنے لگے۔ کرن دم سادھے انہیں سن رہی تھی۔ سماعتوں میں کل رات کی انی کی باتیں گردش کر رہی تھی جب اس کے سوچ کا تسلسل موبائل بجنے سے ٹوٹا۔ "ہیلو۔۔۔۔۔ جی کرن بول رہی ہوں۔۔۔۔"کرن کال اٹھا کر لائن پر موجود لڑکی کی بات سننے لگی۔ "کیا۔۔۔۔۔ کب۔۔۔۔۔ کس ہسپتال میں ہے۔۔۔۔۔۔ اوکے میں آتی ہوں۔۔۔۔۔ جی جی بس میں آرہی ہوں۔۔۔۔" کرن نے گھبرا کر موبائل واپس ہینڈ بیگ میں ڈالا۔ رانا صاحب کرن کے چہرے کا بدلتا رنگ دیکھ کر پریشان پوگئے تھے۔ "کرن سب ٹھیک تو ہے۔۔۔۔"انہوں نے کرن کے بازو پر ہاتھ رکھ کر اسے مخاطب کیا۔ اسی دوران انشا گل بھی وہاں بھاگ آئی تھی۔ کرن نے رانا صاحب کے بجائے انشا گل کو مخاطب کیا۔ " انشا وہ ماہ پری بچی ہے نا۔۔۔۔۔ اس کے ہاتھ پر فریکچر ہوگیا ہے۔۔۔۔۔ میں ہسپتال جا رہی ہوں۔۔۔۔۔ تم جلدی سے وکیل اور پولیس کو لے کر پہنچو۔۔۔۔۔ میں تم سے وہی ملتی ہوں۔۔۔۔" کرن نے تیز تیز اپنا دماغ استعمال کرتے ہوئے انشا گل کو آگے کا لائحہ عمل سمجھایا اور اپنے کار کی جانب بھاگی۔ "کرن رکو۔۔۔۔ میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے راستے میں اسے روک کر ساتھ آنے کی پیشکش کی اور کرن کا جواب سنے بغیر خود آگے ہو کر ڈرائیور کو ان کے پاس آنے کا اشارہ کیا۔ کرن اس وقت اس بچی کے بارے میں سوچ رہی تھی رانا صاحب کے پیشکش پر ردعمل دکھانے کا وقت نہیں تھا۔ کار ان کے قریب آئی تو وہ دونوں کار میں سوار ہوگئے اور جائے وقوع کے جانب روانہ ہوگئے۔ *****************&&&&***************** ہسپتال پہنچ کر کرن اور رانا صاحب نے سب سے پہلے ریسپشن پر بچی کی معلومات بتا کر کمرے کا پوچھا۔ پھر تیسرے کوریڈور کے پہلے کمرے میں داخل ہوئے۔ "ماہ پری۔۔۔۔۔" کرن اس بچی کو پکارتے ہوئے اس کے سرہانے آگئی۔ اس کے بائیں بازو پر پٹی لگی ہوئی تھی چہرے پر بھی زخم کے نشان واضح تھے۔ "کرن باجی۔۔۔۔۔ ہم کو بچا لو۔۔۔۔ وہ ہم کو مار دے گا۔۔۔۔" ماہ پری کرن سے لپٹ کر رونے لگی۔ "تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔۔ میں آگئی ہوں نا۔۔۔۔"کرن اسے دلاسہ دیتے ہوئے چپ کروانے لگی۔ ماہ پری چودہ سال کی افغانی بچی تھی۔ اس کے باپ نے افغانستان میں بڑھتے غربت کے باعث اسے چند پیسوں کے بدل بھیج دیا تھا۔ جس آدمی کو وہ بھیجی گئی تھی وہ دو سال پہلے مزدوری کرنے کے سلسلے سے ماہ پری کو لیئے غیر قانونی طریقہ سے ترکی آگیا۔ دو سال سے وہ ماہ پری کے ذریعے مزدوری کرواتا اور خود اس کے پیسوں سے عیاشی کرتا۔ جس دن ماہ پری کی دہاڑی نہیں ہوئی ہوتی اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے تو وہ اسے مارتا اس پر تشدد کرتا۔ ایک دن مزدوری کے دوران کسی خاتون نے ماہ پری کو کرن کے ادارے کے متعلق معلومات فراہم کئے۔ تب ماہ پری نے اپنے مالک سے چپتے چپاتے کرن کے ادارے سے رابطہ کیا اور اپنی آپ بیتی سنائی۔ تب سے ماہ پری کرن کے ادارے کے زیر نظر تھی۔ رانا صاحب کرن اور اس زخمی بچی سے کچھ فاصلے پر کھڑے تھے جب لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ آدمی کمرے کے اندر داخل ہوا۔ کرن نے پلٹ کر غصے سے اسے دیکھا۔ "کیسے انسان ہو تم۔۔۔۔۔ ایک تو تمہیں کما کر لا کر دیتی ہے۔۔۔۔۔ تم اسی کو مار رہے ہو۔۔۔۔۔ چودہ سال کی معصوم بچی ہے وہ۔۔۔۔ ذرا بھی رحم نہیں آیا تمہیں۔۔۔۔ انسان ہو یا جانور۔۔۔۔۔۔۔" کرن نے اسے دبے غصے سے احساس دلانے کی کوشش کی۔ وہ آدمی سب احساسات بالائے طاق رکھے ہوئے تھا۔ اس نے حقارت بھری نظروں سے کرن کو دیکھا۔ "تم کون ہوتا ہے۔۔۔۔۔ نکل جاو۔۔۔۔ ورنہ ادھر ہی تمہارا منہ بھی توڑ دے گا۔۔۔۔" اس آدمی نے ہاتھ کی مٹھی بنائے کرن کے جانب قدم اٹھایا۔ کرن سہم کر ایک قدم پیچھے ہوگئی۔ لیکن اس سے پہلے رانا مبشر نے مضبوطی سے اس آدمی کا کرن پر اٹھتا ہاتھ جکڑ لیا۔ کرن نے رانا صاحب کو دیکھا۔ ان کے کان کے لوہ ضبط سے سرخ پڑ رہے تھے۔ آنکھوں سے انگارے برس رہے تھے۔ رانا صاحب نے دانت پیستے ہوئے دوسرے ہاتھ سے ایک زور دار ضرب لگا کر اس آدمی کو کرن سے دور پٹخ دیا۔ کرن نے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں تھی۔ رانا صاحب تندی سے اس آدمی کو گھورتے کرن کے آگے اس زاویے سے کھڑے ہوگئے تھے کہ کرن کو ان کے دہشت بھرے تاثرات صاف دکھائی دے رہے تھے۔ کرن اسی انداز میں منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے کبھی رانا صاحب کو آگ بگولا ہوتے دیکھتی کبھی زمین بوس ہوئے اس آدمی کو۔ رانا صاحب کا دل کیا اس آدمی کو زندہ گاڑ دے۔ کرن پر وہ صرف اپنا حق سمجھتے تھے۔ ہاں وہ ان کا جنون تھی ان کا فتور تھی ان کے محبت کی انتہا تھی۔ اس پر اٹھتی نظر بھی رانا مبشر کو کبھی گوارا نہ ہوئی تھی پھر آج اٹھتا ہاتھ اور ہاتھ اٹھانے والے کو کیسے بخشتے۔ کرن اچھے حال میں ہو یا برے حال میں لیکن ہمیشہ سے وہ صرف رانا مبشر کی تھی اور یہ بات قدرت نے بھی ثابت کر دی تھی۔ تب بھی کرن کے لیے رانا مبشر کو چُنا گیا تھا اور آج بھی رانا مبشر ہی اس کے تقدیر کا حصہ تھا۔ اس آدمی نے اٹھ کر بدلے میں رانا صاحب پر وار کرنا چاہا۔ رانا مبشر نے خود کو بچاتے ہوئے اس آدمی کی گردن مضبوطی سے اپنے بازو میں جکڑ لی۔ اس اثناء دروازہ کھلا اور انشا گل پولیس کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوئی۔ رانا صاحب نے ایک جھٹکے سے اس آدمی کو پولیس کے طرف دکھیل دیا۔ پولیس اہلکاروں نے پھرتی دکھا کر اسے اپنے حراست میں لے لیا۔ کرن اب بھی بے یقینی سے رانا صاحب دیکھ رہی تھی۔ اسے رانا صاحب آج سات سال پہلے والے جنونی اور دہشت والے رانا مبشر لگے۔ بس فرق یہ تھا کہ آج ان کا یہ جنون یہ دہشت کرن کو مارنے نہیں بلکہ اس کے دفاع کے لیے تھا۔ جب پولیس اہلکار اس آدمی کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ لیں گئے تب رانا صاحب کے طیش میں کمی آئی۔ وہ لمبی سانس لیتے ہوئے خود کو نارمل کر کے کرن کے جانب متوجہ ہوئے تو وہ وحشت زدہ سی انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔ رانا صاحب کو لگا وہ ان سے پھر خوفزدہ ہوگئی ہے لیکن آج انہیں اس آدمی پر ہاتھ اٹھانے کا کوئی افسوس نہ تھا۔ کرن کے معاملے میں ان کے دل میں کسی کے لیے گنجائش نہیں تھی۔ کرن کے تاثرات نظر انداز کرتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گئے اور کرن نے اپنے تصورات جھٹک کر ماہ پری کے جانب رخ کر لیا۔ *****************&&&&***************** اس رات ڈنر کے بعد کرن دیر گئے تک اپنی کتاب کی آخری قسط لکھ رہی تھی جو کہ اسی ماہ پری بچی کی آپ بیتی کی کہانی تھی۔ ماہ پری کی کہانی لکھتے ہوئے کرن کے ذہن کے پردے پر آج کی ساری رو داد لہرا رہی تھی۔ اس کی نظروں میں بار بار وہ منظر آجاتا۔ رانا صاحب کا وہ انداز کرن کے ذہن سے مہو نہیں ہو پارہا تھا۔ اسی کے چلتے بار بار اس سے ٹائپنگ میں غلطی ہوجاتی۔ آخر کار اس نے تنگ آکر لیپ ٹاپ بند کر کے پرے کھسکا دیا۔ کبھی اسے رانا صاحب کی اچھائی پر یقین آنے لگتا کبھی ان کا وہی پرانا مزاج دیکھ کر خوف۔ وہ سچ اور جھوٹ کے مابین فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔ ***************&&&&**************** وہی دوسری جانب رانا مبشر ہوٹل کے کمرے میں بیڈ پر نیم دراز ہو کر بیٹھے ٹی وی اسکرین کو بے دھیانی میں دیکھ رہے تھے۔ جہاں کوئی ترکش ڈرامہ بند آواز میں چل رہا تھا۔ انسان تقدیر کے سامنے بے بس ہوتا ہے۔ اپنے تقدیر کے سامنے بھی۔ اور دوسرے کے تقدیر کے سامنے بھی۔ وہ نہ اپنی بد قسمتی کو خوش قسمتی میں بدل سکتا ہے اور نہ دوسرے کی خوش قسمتی کو بد قسمتی میں۔ اور نہ ہی بے بسی کے اس احساس کو ختم کر سکتا ہے جس سے وہ اس صورتحال میں دو چار ہوتا ہے۔ رانا مبشر کو تو اس بے بسی کا احساس ہوچکا تھا۔ لیکن کرن کو یہ احساس ہونا ابھی باقی تھا۔ **************&&&&*************** انتالیہ کا موسم اس دن بہت خوشگوار تھا۔ آسمان ہلکے بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا اور ٹھنڈی ہواؤں نے اپنا رخ کیا ہوا تھا۔ اس دن ترکی کا یوم آزادی کا دن تھا۔ سب کاروباری مراکز سرکاری اور نجی شعبے بند تھے۔ لوگ سڑکوں پر نکلے خوشیاں منا رہے تھے۔ صبح طلوع آفتاب کے ساتھ ہے گہما گہمی شروع ہوگئی تھی۔ کرن بلیک ٹراؤزر کے ساتھ مکسی پہنے اسکارف گلے میں ڈالے ہوٹل کے ویٹنگ ایریا میں بیٹھی رانا صاحب کی منتظر تھی۔ رانا صاحب ٹریک سوٹ پہنے ورزش سے تھکے ماندے سے ہوٹل میں داخل ہوئے تو ایک ویٹر نے انہیں روک کر کسی لڑکی کے آمد کا بتایا۔ رانا صاحب نے حیرت سے اپنی سمارٹ واچ دیکھی جو صبح کے 8:30 بتا رہی تھی تو حیران رہ گئے۔ ویٹر کو رخصت کر کے وہ خود ویٹنگ ایریا میں آئے تو کرن کو باقی دنوں کے بر عکس آج عام انداز میں دیکھ کر ان کی حیرانگی میں مزید اضافہ ہوا۔ کرن نے رانا صاحب کو آتے دیکھا تو کھڑی ہوگئی۔ "آج یوم آزادی کا دن ہے۔۔۔۔۔ سب اپنے فرینڈز اور فیملی کے ساتھ گھومنے پھرنے گئے ہیں۔۔۔۔۔ انی بھی اپنی ہم عمر سہیلیوں کے ساتھ باہر گئی ہیں۔۔۔۔" ابتدائی حال احوال دریافت کرنے کے بعد کرن نے کچھ جھجکتے ہوئے وضاحت پیش کی۔ "میں نے سوچا۔۔۔۔۔ آپ کا یہاں کوئی دوست ہوگا نہیں جو آپ کے ساتھ گھومنے چلے۔۔۔۔ اور سارا دن ہوٹل میں بیٹھے آپ بور ہوجائے گے تو۔۔۔۔۔ میں آپ کو گھماتی ہوں۔۔۔۔" آخری فقرہ کہتے ہوئے وہ چہک اٹھی۔ رانا صاحب نے آبرو اٹھا کر مسکراتی کرن کو دیکھا۔ نا جانے کتنی مدت سے وہ اس لمحے کو دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کا دل باغ باغ ہوگیا تھا۔ "ٹھیک ہے میں بس 5 منٹ میں تیار ہو کر آتا ہوں۔۔۔۔" تھکے پونے کے باوجود انہوں نے وقت ضائع کئے بغیر ہامی بھری اور تیزی سے کپڑے چینج کرنے چلے گئے۔ انہیں کرن کی اس تبدیلی پر یقین نہیں آرہا تھا لیکن کام کے علاوہ آج دن بھر وہ کرن کے ساتھ رہیں گے؛ یہ احساس ہی انہیں مسرور کرتی جا رہی تھی۔ رانا صاحب بلیو شرٹ اور جینز پہنے تیار ہو کر نیچے آئے اور کرن کے ہمراہ پارکنگ کے جانب روانہ ہوگئے۔ آج کرن کا ڈرائیور بھی چھٹی پر تھا۔ کرن خود ڈرائیو کر رہی تھی۔ گاڑی کے پاس پہنچ کر رانا صاحب نے اپنائیت بھرے لہجے میں کرن کو مخاطب کیا۔ "کرن میں ڈرائیو کرتا ہوں۔۔۔۔۔ تم راستہ گائیڈ کرتی رہنا۔۔۔۔" کرن ان کی پیشکش پر تسکین سے مسکرائی اور سر اثابت میں ہلایا۔ پھر اس نے ڈرائیونگ سیٹ پر رانا صاحب کو آنے کی اجازت دی اور خود فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ *************&&&&************** سب سے پہلے وہ ایک بہت بڑے ترکش ریسٹورنٹ گئے وہاں سے ناشتہ کیا۔ پھر ایک عجائب گھر گئے۔ وہاں مغل بادشاہ کے دورِ سلطنت کے عجائبات اور اس زمانے کے جنگجو کے قدیم ساز و سامان کی نمائش لگی تھی۔ ہر جگہ سیاحوں کا ہجوم لگا ہوتا۔ جس بھی جگہ جاتے کرن وہاں کے متعلق معلومات فراہم کر رہی ہوتی اور رانا صاحب بغور سن رہے ہوتے۔ راستے میں ڈرائیو کرتے ہوئے کسی سگنل پر کوئی غریبا و فقرا مل جاتے تو رانا صاحب ان کی مدد کر دیا کرتے۔ کبھی زیبرا کراسنگ پر اگر کوئی بزرگ عمر سڑک پار کر رہا ہوتا تو رانا صاحب اس کے تسلی سے گزر جانے تک رکے ہوتے۔ کرن کو ہر قدم پر نیاء شاک مل رہا ہوتا تھا۔ وہ تو ہمیشہ سے جس رانا صاحب کو جانتی تھی وہ ہر قسم کے احساس اور جذبات سے عاری تھا۔ مگر آج جس رانا صاحب کو وہ دیکھ رہی تھی وہ کوئی اور ہی شخص ثابت ہو رہا تھا۔ ****************&&&&************** عجائب گھر سے وہ ایک قدیم مسجد میں آگئے۔ مسجد کے احاطے میں داخل ہوتے ہوئے کرن نے ہیل سینڈل اور رانا صاحب نے بوٹ اتار کر جوتوں والے ریک میں رکھ دیئے۔ مسجد کا احترام کرتے ہوئے کرن نے گلے میں لیا اسکارف سر پر پہن کر چہرے کے گرد حجاب کی شکل میں لپیٹ لیا تھا۔ مرات پاشا (muratpaşa) مسجد عثمانیہ سلطنت کے دور میں عثمان بادشاہ کے ریاست میں 1500 صدی میں بنایا گیا تھا۔ اس مسجد کا شمار ترکی کے مشہور اور بڑے مسجدوں میں کیا جاتا ہے۔ انتالیہ شہر کے سب سے خوبصورت مساجد میں سے ایک مرات پاشا مسجد بھی ہے جس کی بناوٹ فن تعمیر کا حسین شاہکار ہے۔ رانا مبشر اور کرن ساتھ ساتھ چلتے لان میں سے گزر کر ایک بڑے سے داخلی ہال میں آئے۔ دیوراوں پر عربی عبارات میں ہمارے رب العالمین اللہ تبارک و تعالی اور خاتمالنَبِیّن ہمارے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات بیان کی گئی تھی۔ ان کے آسما الحسنی نقش گئے تھے۔ کرن اور رانا مبشر کے علاوہ وہاں بہت سے سیاح موجود تھے۔ بچے بڑے بزرگ سب ہی وہاں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے آئے ہوئے تھے۔ اس ہال کے پچھلے حصے میں ایک کوریڈور نماء راستہ تھا جو کے اگلے ہال میں کھلتا تھا۔ کوریڈور میں چلتے وہاں کی ایثار قدیمہ کے دلکشی کو سراہتے رانا صاحب نے مرد اور عورتوں کا جمکٹا بنا دیکھا۔ وہ جس طرف چل رہے تھے ان کے دائیں جانب دیوار تھی اور بائیں جانب کرن۔ کرن کو رش کے جمکٹے سے بچانے کے لیے وہ ایک قدم رکے اور پھر کرن کے بائیں طرف آگئے۔ اب دیوار کے سمت کرن ہوگئی تھی اور جمکٹے کے سمت رانا مبشر۔ کرن اس مسجد کی تاریخ بیان کرتے کرتے رانا صاحب کے اس مہربانی پر خاموش ہوگئی اور تعجبی انداز میں میں انہیں دیکھنے لگی۔ رانا صاحب نے جب کرن کی نظریں خود پر محسوس کی تو اس کے کسی سوال سے بچنے خود ہی سامنے دیوار پر بنی عبارت کے بارے میں سوال کرنے لگے۔ کرن نے آبرو اچکا کر مسکراتے ہوئے رخ پھیر لیا۔ وہ رانا صاحب کا یہ تحفظی بند سمجھ گئی تھی۔ مسجد کا اگلا حصہ بہت بڑا وسیع و عریض ہال تھا جو کے مردوں کے نماز کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ اور اس کے وسطی دیوار سے اوپری منزل پر عورتوں کی نماز پڑھنے کی الگ جگہ تھی۔ اس ہال کا چھت گنبد کے جیسا تھا اور اس کو آخری سطح تک ترکش نقاشی سے دلکش بنایا گیا تھا۔ ابھی کرن اور رانا صاحب وہاں کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ ظہر کی اذان ہونے لگی۔ "واپس باہر چلتے ہیں۔۔۔۔۔ یہاں نمازی نماز کے لیے آئیں گے۔۔۔۔" کرن نے مدافعتی انداز میں کہا اور مڑ گئی۔ رانا صاحب اسی طرح اس کے ساتھ ساتھ چلتے کرن کو کوریڈور پار کروا کے خود پہلے ہال کے سرے تک آکر رک گئے۔ کرن نے حیرانگی سے پیچھے مڑ کر انہیں دیکھا۔ "کرن تم چلو۔۔۔۔۔ میں نماز پڑھ کر آتا ہوں۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے اپنے رکنے کی وجہ بتائی پھر واپس بڑے ہال کے جانب بڑھ گئے۔ کرن جانے کے بجائے وہی کھڑی شاک کے عالم میں انہیں جاتے دیکھ رہی تھی۔ وہ کوریڈور میں چلتے ہوئے اپنے شرٹ کے آستین نیچے کر رہے تھے پھر جھک کر جینز کے پائنچے بھی ٹخنوں سے اوپر کئے۔ جب وہ نظروں سے اوجھل ہوئے تو کرن تیزی سے بڑے ہال میں واپس آئی اور دروازے کے ساتھ ہی بنی سیڑھیاں چڑھ کر اوپری منزل پر آگئی جہاں کچھ عورتیں اپنے نماز کی تیاری کرنے لگی تھی۔ کرن دیوار گیر کھڑکی میں کھڑی ہو کر نیچے دیکھنے لگی۔ رانا صاحب نے جیب سے جالی دار ٹوپی نکال کر پہنی اور تیسری قطار میں اپنی ترتیب بناتے نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ نمازیوں کی قطاریں بن گئی تو امام صاحب نے سب سے آگے کھڑے ہو کر نماز کا آغاز کیا۔ کرن کھڑکی کے پاس ساکت کھڑی رانا صاحب کو نماز ادا کرتے دیکھ رہی تھی۔ کرن نے اپنے ذہن پر زور دے کر یاد کرنا چاہا اس نے رانا صاحب کو نماز کب پڑھتے دیکھا تھا لیکن جواب ندارد۔ اس کے لیے رانا صاحب کے نماز پڑھنے کا انکشاف بھی اتنا ہی حیرت انگیز تھا جتنا ان کا شراب چھوڑنا۔ جب پہلے رکعت پوری کر کے مرد حضرات دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوگئے تب کرن کو اپنی نماز یاد آئی۔ اس نے ملاتشی نظروں سے آس پاس دیکھا تو دیوار سے لگے ریک پر چند بڑی چادریں پڑی ہوئی تھی اس نے ایک چادر اٹھا کر اوڑھی اور وہی کھڑکی کے پاس ہی خود نماز کے لیے کھڑی ہوگئی۔ نماز ادا کر کے جلدی سے دعا کر کے اس نے بیٹھے بیٹھے ہی کھڑکی سے نیچے دیکھا چند مرد حضرات کے علاوہ سب اٹھ کر جا رہے تھے۔ رانا صاحب اسی انداز میں بیٹھے تسبیح پڑھ رہے تھے۔ کرن گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ "کوئی اتنا کیسے بدل سکتا ہے۔۔۔۔۔ چاہے انسان جتنا بھی مکار ہو۔۔۔۔ اگر اس کا ضمیر زندہ ہوگا تو وہ کم سے کم دکھاوے کے لیے اللہ کے حضور نماز پڑھنے کھڑا نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔۔ اداکاری کرنے سموکنگ ڈرنکنگ تو چھوڑ سکتے ہیں۔۔۔۔۔ نرم مزاج بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔۔ لیکن اتنے عقیدت سے عبادت نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔۔ کیا واقعی کوئی اپنے فطرت کو اتنا بدل سکتا ہے۔۔۔۔" کرن نے دل ہی دل میں سوچا۔ رانا صاحب ٹوپی طے کر کے جیب میں رکھتے ہوئے اٹھنے لگے تو کرن بھی خیالات سے بیدار ہوگئی اور تیزی سے اٹھ کر چادر اتاری پھر اسے طے کر کے ریک پر رکھ تیزی سے سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی۔ وہاں باپ بیٹے کا ایک جوڑا نماز پڑھ کر ہال سے آہستہ آہستہ چلتے نکل رہا تھا ساتھ ہی وہ باپ اپنے دس سالہ چھوٹے بیٹے کو اللہ کی شان بیان کر رہا تھا۔ " اور اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔۔۔۔ وہ چاہے تو کچھ بھی کر سکتے ہے۔۔۔۔۔ تمہیں پتا ہے۔۔۔۔ ابلیس فرشتوں کا سردار تھا۔۔۔۔ لیکن اس نے جب سجدہ کرنے سے منع کیا۔۔۔۔ تو اللہ نے اسے شیطان بنا دیا۔۔۔۔۔ اور عمر رضی اللہ عنہ۔۔۔۔ بہت بڑے شرابی تھے۔۔۔۔۔ لیکن جب انہوں نے توبہ کیا اور اسلام قبول کیا تو اللہ نے انہیں خلیفہ اسلام بنا دیا۔۔۔۔۔ یہ ہے ہماری اللہ کی شان۔۔۔۔ کون کتنا گنہگار ہے۔۔۔۔ کون کتنا نیک یہ اللہ کی ذات طے کرتی ہے ہم انسان نہیں۔۔۔۔۔ کسی کے اعمال کو جج کرنے کا ہمیں کوئی حق نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔ یہ صرف اللہ سبحان و تعالی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔" اس آدمی نے نرمی سے اپنے بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ کرن ان کے سامنے کھڑی ان کی گفتگو سن رہی تھی۔ اس آدمی کی نصیحت سن کر کرن کا دل بھرا گیا۔ اس کی آنکھیں بھیگنے لگی۔ کچھ دیر پہلے اس کے دل میں رانا صاحب کے ایمان اور عقیدہ کو لے کر جو شک و شبہات تھے، کرن کو اس کا جواب مل گیا تھا۔ "مجھے کسی کے ایمان پر سوال کرنے سے بچانے کے لیے شکریہ اللہ۔۔۔۔۔ " کرن نے اللہ کے حضور شکر ادا کرتے ہوئے آنکھوں کے بھیگے گوشے صاف کئے ہی تھے کہ اپنے پیچے اس نے ان کی پکار سنی۔ "چلیں۔۔۔۔" رانا صاحب اس کے عین پیچھے کھڑے تھے۔ کرن نے بغیر مڑے سر اثابت میں ہلایا اور آگے بڑھ گئی۔ اس وقت وہ رانا صاحب پر اپنے جذبات ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ******************&&&&************** جاری ہے
❤️ 👍 😢 🙏 😂 😮 207

Comments