Novel Ki Dunya
June 12, 2025 at 10:39 AM
ناول۔۔۔۔۔ قسمت سے ہاری میں (پارٹ ٹو) از قلم۔۔۔۔۔ پلوشہ صافی قسط نمبر۔۔۔۔ 06 #dont_copy_paste_without_my_permission مسجد سے نکل کر وہ دونوں یوں ہی بے مقصد سڑک پر مٹر گشتی کر رہے تھے۔ کرن بلکل خاموش سی ہوگئی تھی۔ چلتے چلتے رانا صاحب نے ایک گھوڑا گاڑی روکی۔ کرن اور رانا صاحب بگی میں سوار ہوگئے۔ گھوڑا گاڑی انہیں الگ الگ سڑکوں پر لوگوں کے جشن دکھاتے گزار رہی تھی۔ کرن کا مزید گھومنے پھرنے سے دل اچاٹ ہوگیا تھا لیکن رانا صاحب کی خاطر زبردستی خوش ہونے کی کوشش کرتی رہی۔ ایک پاکستانی ریسٹورنٹ کے سامنے بگی روک کر وہ دونوں لنچ کرنے اترے۔ اس سارے دورانیہ میں کرن بلکل خاموش تماشائی بنی بیٹھی تھی۔ رانا صاحب کچھ پوچھ لیتے تو وہ جواب دیتی ورنہ چپ رہتی۔ عصر کی نماز وہی قریبی مسجد میں ادا کر کے وہ پیدل چلتے اپنی گاڑی تک آئے۔ راستے میں ایک گفٹ شاپ سے رانا صاحب نے روحان نور اور بچوں کے لیے کچھ تحائف بھی لیں لیئے تھے۔ مغرب تک وہ پھر سے اسی مسجد کے سامنے موجود تھے جہاں ان کی گاڑی کھڑی تھی۔ مغرب کی نماز ادا کر کے جب رانا صاحب گاڑی سٹارٹ کرنے لگے تب کرن سے مزید رہا نہیں گیا اور اس نے رانا صاحب کو مخاطب کیا۔ "رانا صاحب ایک بات پوچھوں سچ بتائیں گے۔۔۔۔۔" کرن نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔ "ہاں کیوں نہیں۔۔۔۔ پوچھو۔۔۔۔" رانا صاحب نے گاڑی پارکنگ سے نکالتے ہوئے مصروف انداز میں جواب دیا۔ "آپ نماز کیسے پڑھنے لگ گئے۔۔۔۔" کرن نے سوال بغیر کسی تہمید باندھے پوچھا۔ رانا صاحب ایک گہری نظر کرن کو دیکھا۔ وہ اپنے ڈایریکٹ سوال پر متذبذب سی ہوگئی۔ "ہمممم۔۔۔۔ بہت لمبی کہانی ہے۔۔۔۔۔ سنو گی۔۔۔۔ " انہوں نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔ کرن نے جھٹ سے پلکیں جھپکا کر سر اثابت میں ہلایا۔ رانا صاحب مستحکم بھرے انداز میں مسکرائے۔ "پھر کسی ایسی جگہ جاتے ہیں۔۔۔۔ جہاں رش نہ ہو۔۔۔۔۔ خاموشی ہو۔۔۔۔۔ سکون ہو۔۔۔۔۔ معلوم ہے کوئی ایسی جگہ۔۔۔۔" انہوں نے محظوظ ہوتے ہوئے کہانی سنانے کے نسبت سے پُر سکون جگہ کی خواہش ظاہر کی۔ کرن کچھ لمحے سوچ میں پڑ گئی پھر ایک خیال آتے چہک اٹھی اور رانا صاحب کو اپنے اپارٹمنٹ کے پیچھے سمندر کا ایڈریس بتانے لگی۔ رانا صاحب نے بھی اس کی ہدایت کی پیروی کرتے ہوئے کار چلا دی۔ **************&&&&*************** ساحل سمندر پر پہنچ کر رانا صاحب کو واقعی بہت اچھا محسوس ہورہا تھا۔ وہاں دور دور تک کوئی انسان بشر نظر نہیں آرہا تھا۔ وہاں کرن اور رانا مبشر کے علاوہ صرف سمندر کی لہرے اور آسمان میں چمکتی چاندنی موجود تھی۔ رانا صاحب ایک جگہ ریت پر بیٹھے اور ساتھ ہی ریت پر ہاتھ تھپتھپا کر کرن کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ کرن اس کے سائیڈ پر بیٹھی اور ہواؤں سے اڑتے اپنے بالوں کو وہ بار بار چہرے پر سے ہٹاتی رانا صاحب کو دیکھنے لگی۔ وہ سامنے پانی کی تیز لہروں کو دیکھ رہے تھے۔ ایک سرد آہ بھرتے ہوئے وہ گویا ہوئے۔ "جب قید کی سزا ہوئی اور مجھے سینٹرل جیل میں ڈال دیا گیا تو ایک سال تک میں پاگل سا ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ عادت نہیں تھی نا۔۔۔۔ ایسا لگتا تھا کسی نے آسمان سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا ہو۔۔۔۔۔" اپنی بات پر وہ خود ہی استحزیہ ہنسے۔ کرن دم سادھے کوئی مداخلت کئے بغیر انہیں سن رہی تھی۔ "نہ میرا وہاں کے دوسرے قیدیوں سے رویہ اچھا تھا۔۔۔۔۔ نہ پولیس اہلکاروں سے۔۔۔۔۔ وہ تو اچھا تھا کہ D I G میرا دوست تھا اور کچھ روحان کے بنائے شرائط و ضوابط کے مطابق مجھے مشقت کرنے پر فورس نہیں کیا گیا۔۔۔۔۔۔ " وہ مسلسل لہروں کو دیکھ رہے تھے اور کرن ان کے بے بس تاثرات کو۔ "پر ہمارے ملک کا نظام تو تمہیں پتا ہی ہوگا۔۔۔۔۔ قید خانوں میں برائے نام کوئی سہولت دستیاب نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ نہ سونے کی برابر جگہ ہوتی نہ کھانے پینے کی صفائی۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح ہر سیل میں دو سے تین قیدی ساتھ رکھے جاتے تھے۔۔۔۔۔ دو سال تک میں ضد پر اڑا رہا۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنا سیل کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرنے دیا۔۔۔۔۔۔ میرے اسی مزاج کے چلتے میں بلکل اکیلا ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ کوئی میرے خوف سے مجھ سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا۔۔۔۔۔" وہ سانس لینے کچھ لمحے خاموش ہوئے۔ کرن کو ان کے چہرے پر کرب اور تکلیف کے تاثرات ابھرتے نظر آئے۔ انہیں کرن کو اپنی کہانی بتاتے ہوئے تکلیف ہورہی تھی۔ لیکن زندگی کے ہر موڑ پر واپسی کا موقع نہیں ملتا پر رانا مبشر کو یہ موقع ملا تھا تو اب وہ اس موقع کو قطعی ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ "اکیلے رہتے رہتے میں پوری طرح خاموش ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ حتہ کہ روحان سے بھی ملنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ انسان کو زوال کے دن اکیلے ہی گزارنے چاہیئے۔۔۔۔۔ زوال میں ساتھی مل جائے تو پتا کیسے چلے گا کہ زوال آگیا ہے۔۔۔۔۔۔ میں نے بھی اپنے زوال کے دن اکیلے گزارنے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔۔ دو سال تک میں بلکل اکیلا رہا۔۔۔۔۔ اسی دوران میں نے جیل کے قوائد و ضوابط کے مطابق رہن سہن سیکھ لیا۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد کم سے کم کوئی مجھ سے خوفزدہ نہیں ہوا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔ دو سال بعد جب دوبارہ سیل میں ساتھی رکھنے کی نوبت آئی تو میں نے ضد نہیں کی۔۔۔۔۔۔" انہوں نے رخ موڑ کر کرن کو دیکھا وہ بنا پلک جھپکائے ان ہی کے جانب متوجہ تھی۔ رانا صاحب نے پھر سے نظریں سمندر کے لہروں پر مرکوز کر دی۔ "جنرل صاحب نے مجھے ایک بزرگ شیخ کے ساتھ سیل میں شریک بنا دیا۔۔۔۔۔ وہ شیخ بھی خاموش مزاج تھا۔۔۔۔۔ اپنے آپ میں رہتا۔۔۔۔۔ اور میں بھی۔۔۔۔ ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے مسائل میں دخل اندازی کرنے سے عاری تھے۔۔۔۔۔۔ ایک رات میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔۔ شیخ صاحب جب اپنی عبادت سے فارغ ہوئے تو مجھے مخاطب کیا۔۔۔۔۔۔۔ ############# سات سال قبل############ "نام کیا ہے تمہارا۔۔۔۔۔ "؟ شیخ صاحب نے گفتگو کا آغاز کیا۔ رانا مبشر اکیلے رہ رہ کر اکتا گئے تھے اس وقت انہیں شیخ صاحب کا خود کو مخاطب کرنا بھی غنیمت لگا۔ انہوں نے سپاٹ انداز میں اپنا نام بتایا۔ "کس جرم میں اندر ہوئے ہو۔۔۔۔۔" شیخ صاحب نے اپنی چھٹائی جھاڑتے ہوئے دوسرا سوال پوچھا۔ رانا مبشر کو ان کے دھول اڑانے سے تپ چڑھنے لگی۔ "کوئی ایک ہوتا تو بتاتا نا۔۔۔۔۔ بہت سے ہیں۔۔۔۔ ظالم تھا۔۔۔۔۔ جابر تھا۔۔۔۔۔بے حس تھا۔۔۔۔ تشدد کرتا تھا۔۔۔۔۔ بیوی بچے کی قدر نہیں تھی۔۔۔۔۔" انہوں نے بے زاری سے جواب دیا۔ پہلے انہیں شیخ صاحب کا مخاطب کرنا اچھا لگا تھا لیکن اب بار بار سوال کرنا طیش دلا رہا تھا۔ "کتنا عرصہ ہوگیا ہے یہاں۔۔۔" وہ داہنے سمت میں لیٹے رانا مبشر کے بے تاثر چہرے کو دیکھ رہے تھے۔ "دو سال۔۔۔۔ " رانا مبشر کے جانب سے جواب اب بھی کرہٹ بھرا ملا۔ شیخ صاحب نے رانا صاحب کے بے زاری کو نظر انداز کر کے پھر سے سوالات کا سلسلہ جاری کیا۔ "سب سے زیادہ کس جرم کا دکھ ہے۔۔۔۔ " اب وہ رانا مبشر کے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ رہے تھے۔ رانا صاحب نے ان کے سوال پر غور کیا اور بہت سوچ کر ایک جواب دیا۔ "بیوی اور بچے کو مارنے پر۔۔۔۔۔" ان کی آواز میں افسردگی در آئی تھی۔ شیخ صاحب جو سکون سے رانا مبشر کے چہرے کو دیکھ رہے تھے اس اعتراف پر اٹھ بیٹھے۔ "تم نے اپنے بیوی اور بچے کا قتل کیا ہے۔۔۔۔" باقی قیدیوں کے جیسے انہیں بھی لگا رانا مبشر کوئی بڑا مجرم ہے۔ رانا صاحب کو ان کے ردعمل سے فرق نہیں پڑا وہ پچھلے دو سال سے یہی ردعمل دیکھتے آرہے تھے۔ شیخ کے سوال پر انہوں نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔ "پہلی بیوی نے خود کشی کر لی تھی۔۔۔۔ دوسری گر گئی تھی جس کے نتیجے میں بچہ ضائع ہوگیا اور پھر اس نے مجھے ان سب کا زمہ دار ٹھہرا کر چھوڑ دیا۔۔۔۔" انہوں نے چھت کو گھورتے ہوئے لاپرواہ انداز میں کہا۔ "پر تم قاتل تو نہیں ہوئے۔۔۔۔۔ قتل تو وہ ہوتا ہے جو کسی نے اپنے پورے ہوش و حواس میں اپنے ہاتھوں سے انجام دیا ہو۔۔۔۔۔۔۔ " شیخ صاحب نے حیران ہو کر دیوار سے ٹیک لگا لی۔ ان کا جواب سن کر رانا مبشر کے آبرو پھیل گئے۔ وہ جو سیدھے لیٹے چھت کو دیکھ رہے تھے تیزی سے رخ پھیر کر شیخ صاحب کو دیکھا۔ شیخ صاحب کی روئی کے مانند سفید داڑھی مونچھ پیاری بڑی بڑی آنکھیں لمبی برابر ناک؛ متواست جسامت؛ ان کا چہرہ بہت نورانی تھا اور وہ مستحکم بھرے انداز میں رانا مبشر کو دیکھتے ہوئے مسکرا رہے تھے۔ رانا مبشر کو ان کے پُر کشش صورت پر پیار آنے لگا۔ وہ تہذیب و تمدن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے چھٹائی پر اٹھ بیٹھے۔ اب وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ اس چوکور سے کمرے کے ایک دیوار کے ساتھ رانا صاحب کی جگہ تھی اور دوسرے دیوار کے ساتھ شیخ صاحب کی۔ کونے میں پانی بھرنے کا مٹکا رکھا ہوا تھا۔ "آپ کس جرم میں اندر ہوئے ہو۔۔۔۔" رانا صاحب نے اپنے شخصیت پر مزید سوال اٹھنے سے پہلے موضوع گفتگو بدل دی۔ "میرا اور تمہارا قصہ الٹ ہے۔۔۔۔۔ تم نے تشدد کیا۔۔۔۔۔ اور میں نے تشدد سے روکا۔۔۔۔۔" شیخ صاحب ہاتھوں میں پکڑے تسبیح کے دانوں کو گھماتے ہوئے اپنا جرم سنانے لگے۔ "ہمارے محلے میں ایک پولیس اہلکار کا گھر تھا۔۔۔۔ رتبے اور وردی کی طاقت میں اندھا ہو کر وہ اپنی اہلیہ اور بچوں پر جبر کرتا تھا۔۔۔۔ اس کے بچے میرے پاس قرآن پاک پڑھنے آتے تھے۔۔۔۔۔ ایک دن بچی روتے ہوئے آئی۔۔۔۔ میں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ والد آج پھر آپے سے باہر ہے سب کو ڈانٹ مار رہا ہے۔۔۔۔ بچوں کو جھڑک کر اب باری بیوی کی تھی۔۔۔۔۔ میں اس کو سمجھانے اس کی مدد کرنے اس کے دروازے پر گیا تو دیکھا وہ یزید بنا بیوی پر برس رہا تھا۔۔۔۔ جب ہاتھ اٹھانے لگا۔۔۔۔۔ تو میں نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔ بس اتنا سا تھا میرا جرم۔۔۔۔۔" انہوں نے ہاتھ ہوا میں اٹھا کر لہرائے اور واپس سونے لیٹ گئے۔ رانا صاحب کو اس بزرگ شیخ پر ترس آیا۔ "آپ کو اس کی مزمت کرنی چاہیئے تھی۔۔۔۔۔ اس کے خیلاف کورٹ کیس کرنا چاہیئے۔۔۔۔" ان کو غصہ آنے لگا۔ "میں ٹھہرا غریب آدمی۔۔۔۔۔ میری کہاں حیثیت ہے قانون سے لڑنے کی۔۔۔۔۔ اور پھر اس عمر میں کورٹ کچہری میری کہاں سنے گے۔۔۔۔۔۔ یہاں حکومت پیسے اور رتبے کی چلتی ہے بیٹا۔۔۔۔۔ غریب تو بس پیروں تلے روندتے چلے جاتے ہیں۔۔۔۔" شیخ صاحب نے رخ دیوار کے جانب کئے ہوئے ہی جواب دیا۔ رانا صاحب کا دل افسردہ ہونے لگا لیکن وہ رات کے اس پہر اس بزرگ مرد کو مزید تکلف نہیں دینا چاہتے تھے اس لیے خاموشی سے سونے لیٹ گئے۔ ******************&&&&&****************** بات چیت اور دوستی کا سلسلہ یہی سے شروع ہوا۔ شیخ صاحب زیادہ بولتے نہیں تھے لیکن جب بھی بولتے دین اور اللہ رسول کی باتیں ہی کرتے۔ سب کو نیکی کی تلقین کرتے رہتے۔ اسلام پر قائم رہنے کی ہدایت دیتے۔ دو ماہ تک ان کا یہی کارواں چلتا رہا۔ ایک دن رانا مبشر قیدیوں کا لباس پہنے برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھے سیگریٹ نوشی کر رہے تھے جب شیخ صاحب اس کے پاس میں سے گزرتے ہوئے رک گئے۔ "مبشر آجاو نماز پڑھنے۔۔۔۔۔ اذان ہوگئی ہے۔۔۔۔۔" شیخ صاحب جیل کے چھوٹے سے مسجد میں ظہر کی نماز پڑھنے جا رہے تھے جب رانا مبشر کو سیگریٹ کا دھواں اڑاتے ہوئے دیکھ کر مخاطب کیا۔ "میں نماز نہیں پڑھتا۔۔۔۔" رانا مبشر نے بے پرواہ انداز میں جواب دیا اور پھر سے سیگریٹ کا کش بھرنے لگے۔ "کیوں۔۔۔۔ مسلمان نہیں ہو۔۔۔۔۔ یا اللہ پر ایمان نہیں ہے۔۔۔۔۔" شیخ صاحب وہی سیڑھیوں پر رانا مبشر کے ساتھ بیٹھ گئے۔ "جن کا ایمان ہے۔۔۔۔ جو پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔ انہیں کیا مل گیا۔۔۔۔۔ وہ بھی تو اسی جیل میں سڑ رہے ہے۔۔۔۔۔" رانا مبشر نے تنے ہوئے اعصاب سے کہا۔ شیخ صاحب کو رانا مبشر کی باتوں سے افسوس ہوا۔ انہوں نے نرمی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ "یہ دنیا آزمائش کے لیے بنائی گئی ہیں۔۔۔۔۔ اس دنیا میں انسان اچھے حال میں ہو یا برے حال میں ہو۔۔۔۔ آزمایا ضرور جاتا ہیں۔۔۔۔۔۔ کسی کو دین سے آزماتے ہیں۔۔۔۔۔ تو کسی کو دنیاوی نعمتوں سے۔۔۔۔" شیخ صاحب انہیں نرمی سے سمجھانے لگے اور رانا صاحب بے دلی سے ان کی گفتگو سنتے رہے۔ "لیکن ہمیں اپنے اصل کو نہیں بھولنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔ حالات جیسے بھی ہو۔۔۔۔ نا امیدی اور نا شکری کرنا گناہ ہے۔۔۔۔۔ ہمیں عبادت نہیں چھوڑنی چاہیئے۔۔۔۔۔" انہوں نے بہت ہی نرم لہجے میں کہا۔ رانا مبشر کے تاثرات بگڑنے لگے تو شیخ صاحب اس کے کندھے پر زور دیتے کھڑے ہوئے اور مسجد کے سمت جانے لگے۔ "چل ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ تم سوچ لو۔۔۔۔۔ میں تم سے اس بارے میں تفصیل سے بات کروں گا۔۔۔۔۔" کہتے ہوئے وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر زور دیتے سیڑھیاں اترے اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔ رانا مبشر نے ان کی بات مانو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی۔ وہ دوسری سیگریٹ جلا کر اپنے سیل کے جانب چل پڑے۔ **************&&&&*************** رات تک جب اپنے عبادات سے فارغ ہوکر شیخ صاحب رانا مبشر کے جانب متوجہ ہوئے تو انہوں نے ان کے سوالات سے بچنے آنکھیں موندھ لی اور سونے کی اداکاری کرنے لگے۔ "مجھے پتا ہے۔۔۔۔۔ تم جاگ رہے ہو مبشر۔۔۔۔" شیخ صاحب نے مٹکے سے پانی پیتے ہوئے کچھ چھنٹے ان پر اچھالی۔ وہ ٹھنڈا پانی منہ پر پڑتے جلملا گئے اور منہ بھسورتے ہوئے اٹھ بیٹھے۔ "آپ کوئی پیر بابا ہو کیا۔۔۔۔۔ ہر چیز کا پتا لگ جاتا ہے۔۔۔۔۔ کوئی علم غائب جانتے ہو کیا۔۔۔۔" انہوں نے ہنہ کرتے ہوئے اپنے آپ پر منڈلاتے مچھر ہاتھ جھلا کر دور کئے۔ "ہاہاہا۔۔۔۔ بیٹا غائب کا علم تو صرف ایک ذات کو ہے۔۔۔۔۔ جو سب کو بنانے اور مٹانے والا ہے۔۔۔۔۔ میں تو بس اس کا مومن بندا ہوں۔۔۔۔۔" شیخ صاحب نے روز کی طرح اپنی چھٹائی جھاڑتے ہوئے کہا۔ رانا صاحب نے ان کی اس عادت پر تپ کر دھول مٹھی سے بچنے ناک اور منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ "تمہیں پتا ہے۔۔۔۔۔ کبھی کبھی انا اور غصہ ایسا جن بن جاتا ہے جو دوسروں کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی کھا جاتا ہے اور ہمیں پتا تک نہیں چلتا۔۔۔۔۔۔ تمہیں بھی تمہارے انا اور غصے نے کھوکھلا کر دیا ہے۔۔۔۔ " انہوں نے افسردگی سے سر جھٹکا۔ رانا صاحب دانت پیستے ہوئے انہیں تند و تیز نظروں سے دیکھنے لگے۔ اگر اس وقت یہ بات شیخ صاحب کے بجائے کسی اور نے کہی ہوتی تو رانا صاحب اس پر جھڑپ پڑتے لیکن شیخ صاحب کا لحاظ کرتے وہ چپ رہے۔ "تم زندگی سے اتنے مایوس ہوگئے ہو کہ تمہیں اللہ کے شان پر بھروسہ ہی نہیں ہے۔۔۔۔" شیخ صاحب ہمدردی سے رانا مبشر کو دیکھ رہے تھے اور رانا مبشر اپنے غضب کو قابو رکھنے ان سے نظریں چرا رہے تھے۔ "سب کے دلوں میں ایک مایوسی سی ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ ہمیں یہ یقین ہی نہیں ہے کہ اب کچھ بدلے گا۔۔۔۔۔ کیا مایوسی کے بعد امید آئے گی؟ کیا اندھیرے کے بعد روشنی ہوگی ؟ کیا کھبی ہمارے حالات بدلیں گے؟ کیا کبھی ہماری زندگی بدلے گی؟ کیا کبھی لوگ ہمیں سمجھیں گے؟۔۔۔۔۔۔ " وہ زندگی کے تلخ حقائق بیان کر رہے تھے۔ رانا مبشر کو ان کی باتیں اپنے جانب راغب کرنے لگی۔ وہ اب غصہ چھوڑ کر بغور ان کو سننے لگے۔ ایک عجیب سی کشش تھی ان کے لہجے میں جو ہر کسی کو اپنی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کر دیتی۔ "یہ ایمان کی کمی ہمیں عبادت نہیں کرنے دیتی۔۔۔۔۔ ہمیں اللہ سے دور کر دیتی ہے۔۔۔۔۔ اب سوال یہ ہے کہ امید کہاں سے لائیں۔۔۔۔ جو دنیا نے بجا دی ہے۔۔۔۔۔ وہ یقین کہاں سے لائیں جو حالات کے سختیوں سے کہیں کھو سا گیا ہے۔۔۔۔ اس کا جواب بھی اللہ کے ذات میں ہے۔۔۔۔" شیخ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔ انہیں رانا مبشر کو بغور اپنی باتیں سنتے دیکھ کر اچھا لگا۔ انہیں محسوس ہوا کہ رانا مبشر کے اندر کا اچھا انسان چیخ چیخ کر ان سے مدد مانگ رہا ہے۔ وہ اس ڈھونگ بھری بناوٹ سے تنگ آگیا ہے۔ وہ ہاتھ بڑھا کر اچھائی کو تھامنا چاہتا ہے لیکن سامنے کھڑے برائی کی دیوار اسے ایسا کرنے نہیں دے رہی۔ "مبشر میں سمجھ سکتا ہوں۔۔۔۔۔ تم ابد سے برے نہیں تھے۔۔۔۔۔ تمہیں حالات نے برا بنا دیا تھا۔۔۔۔ لیکن اب تمہیں ان حالات کو بدلنا ہوگا۔۔۔۔۔ اپنے اندر کی اچھائی کو پہچاننا ہوگا۔۔۔۔۔ اور یہ کام تمہیں خود ہی کرنا ہوگا۔۔۔۔۔ میں صرف تمہیں راستہ دکھا سکتا ہوں۔۔۔۔۔ اس پر چلنا تم نے خود ہے۔۔۔۔۔۔۔ اچھائی کا راستہ بلکل آسان نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ اس کے ہر پڑاو کو پار بھی تمہیں خود کرنا ہوگا۔۔۔۔۔ کوئی تمہیں ہاتھ پکڑ کر اس پر نہیں چلا سکتا۔۔۔۔۔" شیخ صاحب کہتے ہوئے اپنی جگہ سے کھسک کر رانا مبشر کے سامنے آئے اور ان کے کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا۔ رانا صاحب بغور ان کے نورانی چہرے کو دیکھنے لگا۔ وہاں نہ کوئی طنز کے ایثار تھے نہ شرمندہ کرانے کا جذبہ۔ کچھ تھا تو صرف اپنائیت ہمدردی رانا مبشر کو اس تکلیف سے نجات دلانے کا عزم جس سے وہ بچپن سے جونجتے آرہے ہیں۔ رانا مبشر زخمی سا مسکرائے۔ "تمہیں اگر کسی پر بھی بھروسہ نہیں رہا تو اللہ پر بھروسہ کرو۔۔۔۔ اس کا دامن تھام کر دیکھو۔۔۔۔۔ وہ تمہیں رسوا نہیں ہونے دے گا۔۔۔۔۔ وہ تمہیں کھبی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔ وہ تمہارا سہارا بنے گا۔۔۔۔" شیخ صاحب اسی طرز میں رانا مبشر کے سامنے بیٹھے ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے گویا تھے۔ رانا مبشر کو لگا کوئی ان کے دل کے کرچیاں اٹھا کر جوڑ رہا ہو۔ شیخ صاحب کی باتیں انہیں مرہم کی طرح لگ رہی تھی۔ "لیکن سارا معاملہ دل کا ہے۔۔۔۔ نیت کا ہے۔۔۔۔ گمان کا ہے۔۔۔۔ اللہ تمہارے گمان کے ساتھ ہے۔۔۔۔ یعنی تم اللہ کے بارے میں جیسا گمان رکھو گے وہ ویسا ہی ہوگا۔۔۔۔ اگر تم یہ گمان کرو گے کہ اللہ تمہیں معاف نہیں کریں گا۔۔۔۔ وہ تمہاری توبہ قبول نہیں کریں گا۔۔۔۔۔ وہ تم سے ناراض ہے۔۔۔۔ تمہاری دعائیں نہیں سنے گا۔۔۔۔ تم ان کے پسندیدہ نہیں بن سکتے۔۔۔۔۔ تم کبھی سچے مسلمان نہیں بن سکو گے تو یقین جانو ایسا ہی ہوگا اور اپنی اس بدگمانی کے باعث تم اللہ سے مزید دور ہوجاو گے۔۔۔۔ لیکن اگر تم اپنے رب سے اچھا گمان رکھو گے۔۔۔۔۔ اور بھلے تم سے جتنا گناہ ہوجائے یا ہوگئے ہو۔۔۔۔۔ تم اپنے خاندان کے سب سے بری اولاد ہو۔۔۔۔ اپنے ملک کے سب سے بدنام آدمی ہو۔۔۔۔ دنیا کے لیے ظالم ہو۔۔۔۔ بھلے تمہاری جیسی بھی شخصیت ہے۔۔۔۔ جیسے بھی اعمال ہے۔۔۔۔۔ اگر تم یہ گمان رکھو گے کہ میرے رب کا دروازہ میرے لیے آج بھی کھلا ہے۔۔۔۔ اور میں جیسے ہی اس کے پاس جاوں گا وہ مجھے سنبھال لے گا۔۔۔۔۔ مجھے اس کے پاس سے معافی مل جائے گی۔۔۔۔ اور پھر میری دعائیں سنی بھی جائے گی اور قبول بھی ہوگی۔۔۔۔ پھر مجھے دنیا بھر کی نعمتیں اسی کے پاس سے ملے گی۔۔۔۔ تو یقیناً ایسا ہی ہوگا۔۔۔۔۔" شیخ صاحب ان کا ہاتھ تھپتھپا کر ان میں نئی امید جگا کر واپس اپنے جگہ پر چلے گئے۔ رانا صاحب گہری سوچ میں ڈوبے تھے۔ شیخ صاحب ان کے جانب سے کسی جواب کے منتظر تھے۔ رانا مبشر کے چہرے پر اضطرابی کیفیت نمایاں واضح تھی۔ جب اتنا بتانے کے بعد بھی وہ خاموش رہے تو شیخ صاحب پھر سے کنکارے۔ "اور اگر تمہارا دل اتنا اداس ہے کہ اس سے اچھا گمان بھی نہیں کیا جا رہا تو ایمان دینے والی ذات بھی اللہ کی ہی ہے۔۔۔۔ ایمان بھی تمہیں اسی سے ملے گا۔۔۔۔ تم اس سے ایمان مانگو کہ اللہ تمہیں ایمان دے۔۔۔۔۔ تمہارے دل پر لگے زنگ کو اتار دے۔۔۔۔۔ تمہارے نظر کے گدلے پن کو دھو دے۔۔۔۔ اسی سے دعا کرو کہ وہ تمہارے دل میں اچھے گمان ڈال دے۔۔۔۔۔ تمہیں سیدھی راہ پر لے آئے۔۔۔۔ " شیخ صاحب نے لیٹتے ہوئے کہا۔ "لیکن یاد رہے۔۔۔۔۔ یہ سب تب ہی ممکن ہوگا۔۔۔۔۔ جب تم واقعی اچھے بننا چاہو۔۔۔۔۔ جب تم سچ میں توبہ کرنا چاہو۔۔۔۔" انہوں نے فوراً سے یاد دہانی کروائی۔ "اب تم سوچو۔۔۔۔۔ تمہیں کونسی راہ چاہیئے نیکی کی یا برائی کی۔۔۔۔۔ شب بخیر۔۔۔۔" انہوں نے رانا صاحب کو ہدایت دی اور رخ پھیر کر سونے لگے۔ ****************&&&&*************** کافی دنوں تک رانا مبشر اسی کشمکش میں مبتلا رہے تھے۔ ان سے فیصلہ نہیں کیا جا رہا تھا۔ اور ان دنوں میں شیخ صاحب نے بھی ان سے دوبارہ کوئی مباحثہ نہیں کیا وہ انہیں حتمی فیصلہ کرنے وقت دے رہے تھے۔ ایک رات رانا مبشر خود شیخ صاحب کے پاس آئے۔ وہ تو خوشی سے پھولے نہیں سماء رہے تھے کہ مبشر نے اچھائی کا راستہ چننے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب رانا مبشر ان کے پاس گئے تو انہوں نے اٹھ کر انہیں آغوش میں لے لیا۔ "میں عشاء کی نماز پڑھنے ہی جا رہا تھا۔۔۔۔۔ تم نیکی کی راہ پر آنا ہی چاہتے ہو تو چلو آغاز ابھی سے کرتے ہیں۔۔۔۔۔ " انہوں نے رانا صاحب کے کندھے کے گرد بازو مائل کرتے ہوئے کہا۔ "لیکن۔۔۔۔ مجھے ٹھیک سے نماز پڑھنی نہیں آتی۔۔۔۔" رانا صاحب نے کچھ جھجکتے ہوئے وضاحت پیش کی۔ "کوئی بات نہیں میں سیکھا دونگا۔۔۔۔۔" شیخ صاحب نے پہلے حیرت سے انہیں دیکھا پھر مسکراتے ہوئے پیشکش کی۔ "یہ میری کوئی عمر ہے نماز سیکھنے کی۔۔۔۔۔ وہ تو بچپن میں سیکھتے ہے۔۔۔۔ " رانا مبشر اپنے آپ پر طنزیہ ہنستے ہوئے ان کے حصار سے الگ ہوگئے اور اپنے چھٹائی پر بیٹھ کر سیگریٹ جلا لی۔ "تو تب کیوں نہیں سیکھا۔۔۔۔ ماں باپ نے کبھی مدرسہ نہیں بھیجا۔۔۔۔" شیخ صاحب کھڑے کھڑے ہی ان سے مخاطب تھے۔ "انہیں بچوں پر دھیان دینے فرصت کہاں تھی۔۔۔۔۔ باپ اپنی عیاشیوں میں لگا ہوا تھا۔۔۔۔۔ اور ماں اپنے۔۔۔۔۔ ان کا فرض بس ہمیں پیدا کر کے چھوڑ دینے تک کا ہی تھا۔۔۔۔" اپنے والدین کے متعلق بتاتے ہوئے رانا صاحب کی آواز میں افسردگی بھرا غصہ در آیا تھا۔ شیخ صاحب سر جھٹکتے ہوئے رانا صاحب کے سامنے جھکے اور ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دلاسہ دینے لگے۔ "اللہ اپنے در پر آنے والے کی عمر نہیں دیکھتا۔۔۔۔ وہ اس کا ارادہ۔۔۔۔ اس کی نیت دیکھتا ہے۔۔۔۔۔ وہ توبہ کرنے والے کا دل دیکھتا ہے۔۔۔۔ کہ کیا واقعی وہ اپنے کئے پر پچھتا رہا ہے۔۔۔۔ کیا وہ واقعی نیکی پر آنا چاہتا ہے۔۔۔۔" ان کے کندھے کو تھپکتے ہوئے وہ اپنے سیل سے باہر نکل گئے۔ **************&&&&*************** ایک ہفتے تک رانا مبشر شیخ صاحب کے زیر نگرانی ان کے سیکھائے طریقہ کار سے سیل کے اندر ہی نماز کی پریکٹس کرتے رہے۔ انہیں دوسرے قیدیوں کے ہمراہ با جماعت نماز ادا کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی تھی۔ دوسرے ہفتے انہوں نے سیل سے نکل کر مسجد میں قدم رکھا۔ پہلے انہیں عجیب سا لگا۔ انہیں ایسا محسوس ہوتا جیسے سب ان ہی کو دیکھ رہے ہیں اور کوئی ایک غلطی بھی ہوئی تو سب مذاق اڑائیں گے طعنے دینگے۔ اسی وہم سے وہ ہر دوسرے دن نماز پڑھنے سے معذرت کر لیتے لیکن دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اس کیفیت میں سدھار آتا گیا اور شیخ صاحب کی حوصلہ افزائی سے ان میں دوبارہ نماز کے جانب آنے کی ہمت پیدا ہوتی۔ تیسرے ہفتے تک وہ نارمل ہوگئے تھے۔ ظہر عصر مغرب کی تو وہ با جماعت ادا کر لیتے لیکن عشاء کے وقت انہیں سستی جکڑ لیتی اور ایسے ہی فجر میں نیند ان پر غلبہ حاصل کر لیا کرتی۔ ایک ماہ تک یہی سلسلہ چلتا رہا۔ ایک صبح شیخ صاحب نے انہیں فجر کے لیے اٹھانے کی کوشش کی۔ "مبشر اٹھ جاو۔۔۔۔۔ نماز قضاء ہوجائے گی۔۔۔۔۔ چل میں وضو کر کے آتا ہوں۔۔۔۔ تب تک تم اٹھ جانا۔۔۔۔" ان کے کندھے پر جنبش دے کر شیخ صاحب سیل سے باہر نکل گئے۔ رانا مبشر بے دلی سے کروٹ بل کر سیدھا لیٹا۔ "اس بابے کی سنگت تمہیں مزید پاگل کر دے گی رانا۔۔۔۔" انہوں نے زبردستی آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتے ہوئے سوچا۔ وہ ابھی پلکیں جھپکا کر نیند سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک جھٹکے سے ان کی واپس آنکھ لگ گئی تھی۔ انہوں نے دیکھا وہ ایک بہت ہی پیارے ہرے بھرے باغ میں اکیلے کھڑے ہے۔ جہاں تک نظر پہنچ پا رہی ہے سبزہ ہی سبزہ ہے۔ سر پر تیز دھوپ چمک رہی ہے۔ درختوں پر پرندے چہچہا رہے ہیں۔ پاس کہی آبشار بہنے کی آواز بھی سماعتوں میں پڑ رہی ہیں۔ اس جگہ کی حسین نظاروں نے انہیں اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ وہ آس پاس دیکھتے ہوئے وہاں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو رہے ہے کہ ان کے آوٹ سے ایک لڑکی چہکتے ہوئے گزری۔ انہیں اس لڑکی کی ہنسی مزید محظوظ کرنے لگی۔ ان کے جانب لڑکی کی پشت تھی۔ وہ سفید لبما میکسی پہنے۔ بال کمر تک آتے۔ پہلوؤں سے دامن اٹھائے ہنستے ہوئے آگے بھاگ رہی تھی۔ انہیں اس لڑکی کو قریب سے دیکھنے کا تجسس ہوا۔ وہ بھی اس کے پیچھے بھاگنے لگے۔ وہ لڑکی محض اسی طرح ہنستی جا رہی تھی۔ وہ اس کا چہرے دیکھنے کبھی دائیں کبھی بائیں سمت سے دیکھنے کی کوشش کرتے لیکن اس کا چہرہ نہ دیکھ سکے۔ ایک جگہ آبشار کے پاس پہنچ کر لڑکی رک گئی اور خاموش ہوگئی۔ وہ اس سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر اسے مشاہدہ کرنے لگے چاروں طرف سب دھندلا سا ہوگیا صرف وہ لڑکی شفاف انداز میں نظر آرہی تھی۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر اس لڑکی کے کندھے پر تھپک کر اپنے جانب متوجہ کیا۔ وہ لڑکی پھر سے کھلکھلا کر ہنسنے لگی اور آہستہ سے پلٹی تو وہ کرن تھی۔ ہنستی کھلکھلاتی چنچل سی۔ سب سے حسین۔ ان کے حیرت سے آبرو پھیل گئے تھے۔ وہ اپنی جگہ جامد ہوگئے۔ کرن نے بانہیں پھیلائے سر کو جنبش دیتے ہوئے انہیں اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے خوشی سے سرشار ہوتے جیسے ہی قدم بڑھایا کرن نیچے بہتے آبشار میں گر گئی۔ "کرن۔۔۔۔۔" اسے پکارتے رانا صاحب کی آنکھ کھل گئی اور وہ وحشت زدہ سے اپنی جگہ پر اٹھ بیٹھے۔ انہوں نے تیز نگاہوں سے آس پاس نظر دوڑائی تو وہ جیل کے سیل میں تھے۔ خواب ٹوٹ چکا تھا۔ لمبی لمبی سانس لیتے ہوئے خود کو نارمل کرتے انہوں نے پیشانی پر نمودار ہوتا پسینہ صاف کیا۔ دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ مانو باہر نکل آئے گا۔ "ڈھائی سال بعد کرن کیسے میرے خواب میں آگئی۔۔۔۔۔ میں نے تو پچھلے ڈھائی سالوں میں اسے یاد تک نہیں کیا۔۔۔۔۔ پھر آج۔۔۔۔ اور وہ بھی ایسا خواب۔۔۔۔" انہوں نے اٹھ کر مٹکے سے پانی پیتے ہوئے سوچا۔ "کہیں وہ کسی مصیبت میں تو نہیں۔۔۔۔۔" انہیں بری طرح کرن کی فکر ہونے لگی۔ "نہیں۔۔۔۔ میں اس کے بارے میں کیوں سوچوں۔۔۔۔۔ اسی کی وجہ سے میں آج اس حال میں ہوں۔۔۔۔۔ ویسے بھی میرا اس سے اب کوئی رشتہ نہیں ہے۔۔۔۔ چھوڑ گئی ہے وہ مجھے۔۔۔۔۔" ان کے تاثرات بدل گئے۔ چہرے پر سختی در آئی۔ دل میں ٹیس سی اٹھتی محسوس ہوئی۔ اسی اثناء شیخ صاحب واپس سیل میں داخل ہوتے دیکھائی دیئے۔ "شاباش۔۔۔۔ اٹھ گئے ہو۔۔۔۔۔ " انہوں نے رانا مبشر کو فجر کے لیے اٹھنے پر سراہا۔ رانا صاحب ان کے کسی بھی سوال کا جواب دیئے بغیر خاموشی سے ان کے ساتھ سیل سے مسجد کے جانب روانہ ہوگئے۔ ***************&&&&*************** اس خواب کی وجہ سے رانا مبشر کافی دنوں تک ڈسٹرب رہے۔ ان کا پھر سے نمازوں سے دل اچاٹ ہوگیا تھا۔ وہ دن کے پہر بھی ایک کونے میں خاموش بیٹھے رہتے۔ اس دن وہ جیل کے کونے میں بیٹھے سیگریٹ کے کش بھر رہے تھے۔ شیخ صاحب قدم قدم چلتے ان کے پاس آئے اور اس کے ساتھ بیٹھ کر صحن میں کام کرتے قیدیوں کو دیکھنے لگے۔ "کیا بات ہے مبشر۔۔۔۔۔ اتنے دنوں سے تم فجر کے لیے بھی نہیں اٹھ رہے اور اکثر عشاء بھی چھوڑ دیتے ہو۔۔۔۔۔ ظہر کی بھی بے دھیانی سے ادا کرتے ہو۔۔۔۔۔" انہوں نے ہمدردی سے پوچھا۔ "پتا نہیں دل نہیں کرتا۔۔۔۔" رانا صاحب نے یک ٹک سیدھا جواب دیا۔ شیخ صاحب کچھ دیر انہیں سیگریٹ نوشی کرتے دیکھتے رہے پھر ان کے ہاتھ سے سیگریٹ اچک لی۔ رانا صاحب کے عصاب تن گئے۔ "اس کی وجہ سے تمہیں سجدے کی توفیق نصیب نہیں ہورہی۔۔۔۔۔ راہ راست پر چلنے کے لیے اپنے نفس کو مارنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔" انہوں نے وہ سیگریٹ بجھا کر دور پھینک دی۔ "میں نے تو سنا تھا اسلام بہت آسان دین ہے۔۔۔۔۔ ایک تو پہلے اتنے مشکلات ہے۔۔۔۔ سب کچھ تو چھوڑ دیا ہے۔۔۔ اب یہ بھی چھوڑنا پڑے گا۔۔۔۔" رانا صاحب اپنی جگہ سے اٹھ گئے اور طیش میں کمر پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا۔ "یہ سب شیطان تمہیں بھٹکا رہا ہے۔۔۔۔۔ وہ انسان کو کبھی آسانی سے نیکی کی راہ پر قائم نہیں رہنے دیتا۔۔۔۔ میں نے پہلے دن بھی کہا تھا۔۔۔۔۔ یہ آسان نہیں ہوگا۔۔۔۔۔ ہر قدم پر تمہارے ارادے کو آزمایا جائے گا۔۔۔۔ لیکن تمہیں ثابت قدم رہنا ہوگا۔۔۔۔۔" شیخ صاحب نے نرمی سے انہیں سمجھایا اور پھر سے انہیں اپنے ساتھ بیٹھا دیا۔ "اچھا یہ بتاؤ۔۔۔۔۔ بہت اچھی تھی وہ۔۔۔۔" شیخ صاحب نے حس و مزاح کرتے بات کا پہلو بدل دیا تھا۔ رانا صاحب نے حیرانگی سے رخ موڑ کر انہیں دیکھا۔ "کون۔۔۔۔" انہوں نے انجان بنتے تعجب سے پوچھا "وہی جس کے بارے میں سوچتے رہتے ہو۔۔۔۔" انہوں نے آبرو اچکا کر اشارہ کیا اور مسکرا دیئے۔ رانا صاحب سپاٹ تاثرات بنائے سامنے دیکھنے لگے۔ "ہمممم اچھی تھی۔۔۔۔" انہوں نے سچ بات کہی۔ وہ جانتے تھے شیخ صاحب سے بہانہ نہیں کر سکتے اور نا ہی جھوٹ بول سکتے ہے۔ "پیار کرتے ہو اس سے۔۔۔۔۔" سوال اب بھی شریر انداز میں ہوا۔ "پیار کا تو پتا نہیں۔۔۔۔ لیکن کئی دنوں سے اس کی بہت یاد ستا رہی ہے۔۔۔۔۔ " رانا صاحب کا لہجہ شکست خوردہ ہوگیا تھا۔ "کوشش کے باوجود اسے بھلا نہیں پا رہا۔۔۔۔ حالانکہ دو دن پہلے تک وہ مجھے بلکل یاد نہیں تھی۔۔۔۔ پر اب سکون نہیں مل رہا۔۔۔۔" انہوں نے بے بسی سے مزید اضافہ کیا۔ شیخ صاحب ہلکا مسکرائے۔ "اللہ نے اس کی محبت ڈال دی ہے تیرے دل میں۔۔۔۔ " انہوں نے مسرور ہوتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ رانا مبشر نے کوئی جواب دینے کے بجائے پھر سے سیگریٹ کا دبہ نکالا لیکن شیخ صاحب نے ان کے ہاتھ سے جھپٹ لیا۔ "ابھی منع کیا ہے نا۔۔۔۔"ان کی آواز میں سختی در آئی تھی۔ "سکون اس میں نہیں۔۔۔۔۔ تلاوت میں ہے۔۔۔۔ آج سے تم روز تلاوت قرآن مجید بھی شروع کرو۔۔۔۔ دیکھنا دل کو بہت آرام آجائے گا۔۔۔۔" انہوں نے اٹھتے ہوئے کہا اور رانا مبشر کو اپنے ساتھ سیل میں لے جانے لگے۔ ***************&&&&*************** رانا مبشر باقی گناہوں اور غلطیوں پر پہلے دن ہی توبہ کر لی تھی۔ اور آج سیگریٹ شراب جیسے کسی بھی منشیات کو دوبارہ ہاتھ لگانے سے بھی توبہ کر لی۔ اس دن کے بعد شیخ صاحب کے کہنے کے مطابق وہ تلاوت بھی کرنے لگے۔ جیسے شروعات میں نماز پڑھنے میں دکت پیش آتی ویسے ہی روانی سے تلاوت قرآن مجید سیکھنے نے بھی ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ آج ایک سال ہوگیا تھا ان کو برائی کی راہ چھوڑ کر نیکی کے راہ پر چلتے ہوئے۔ تلاوت سے ان کے دل کو سکون تو مل جاتا لیکن کرن پھر کبھی ان کے ذہن سے مہو نہیں ہوسکی تھی۔ ان کو بیشک صبر آگیا تھا لیکن اس کی محبت دل میں موجود تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کا سیگریٹ نوشی کرنے کی طلب بڑھتی جاتی۔ جس سے ان کے سر اور پورے جسم میں شدید درد کی لہر دوڑ جاتی۔ اس دن بھی صبح سے ہی وہ سر پکڑ کر درد سے کراہ رہے تھے۔ کوئی pain killer دوائی بھی ان پر اثر کرنے سے قاصر تھی۔ شیخ صاحب کو ان پر ترس آنے لگا وہ ان کی حالت کے ذمہ دار خود کو تصور کرنے لگے تھے اس لیے ایک دوسرے قیدی سے ایک عدد سیگریٹ لے کر ان کے پاس لیں آئے۔ "نہیں شیخ صاحب۔۔۔۔۔ جب توبہ کر لی ہے۔۔۔۔۔ ارادہ بنا لیا ہے۔۔۔۔۔ پھر اب توڑوں گا نہیں۔۔۔۔۔ اپنے ارادے سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے کراہتے ہوئے سر پکڑے ان کے آفر کو رد کر دیا۔ ایک طرف کرن کی محبت دوسری طرف نشے کی لت سے بگڑتی طبیعت۔ رانا مبشر درد کو ہر حد برداشت کرتے دل گرفتہ ہوگئے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے۔ اس بے بسی پر ان کا زور نہیں چل رہا تھا۔ وہ جو کبھی جنگل کا شیر تھا۔ جس کی ایک نظر سے دنیا کانپ جاتی تھی آج وہ اپنے نفس اور روح کے جنگ میں بکھر کر رہ گیا تھا۔ شیخ صاحب نے جنرل کے ذریعے روحان کو کال کروائی اور رانا صاحب کے لیے ڈاکٹر بلاوایا۔ روحان سوٹ بوٹ میں تیار آفس سے فوراً کے پہلے ڈاکٹر کو لیئے جیل پہنچا۔ روحان کے اوسان خطا ہو گئے تھے وہ رانا بھائی کو ایک پرائی لڑکی کے خاطر خود سے دور تو کر چکا تھا لیکن اب کھونا نہیں چاہتا تھا پر ڈاکٹر نے تفصیلی معائنہ کر کے اسے ان کے صحت کے بابت تسلی دلائی۔ ڈاکٹر نے انہیں آرام آور ادویات کے ساتھ منشیات سے نجات دلانے میں مدد کرنے والی کچھ گولیاں بھی لکھ دی۔ ان ادویات کے زیر اثر رانا مبشر کی صحت پھر سے برابر ہونے لگی۔ وہ راتیں رانا مبشر کے لیے ہجر کی راتیں ثابت ہوئی جہاں نہ ان کا اپنے دل پر بس چل پا رہا تھا نہ دماغ پر۔ **************&&&&&*************** جاری ہے
❤️ 👍 🙏 😂 😢 😮 184

Comments