Novel Ki Dunya
June 12, 2025 at 01:20 PM
ناول۔۔۔۔ قسمت سے ہاری میں پارٹ ٹو از قلم۔۔۔۔ پلوشہ صافی قسط نمبر۔۔۔۔ 07 #dont_copy_paste_without_my_permission روحان اور اپنے وکلاء کے ٹیم کی مدد سے رانا صاحب نے شیخ صاحب کے طرف سے اس پولیس اہلکار پر کورٹ کیس کروایا اور دو ماہ کے اندر ہی ان کی رہائی کی عرضی بھی قبول ہوگئی بلکہ اس پولیس اہلکار کو اپنے پاور کا غلط استعمال کرنے پر بھاری جرمانہ ادا کرنے کی سزا ہوئی۔ جس رات شیخ صاحب کی جیل میں آخری رات تھی وہ دونوں تقریباً ساری رات بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ "میں آپ سے ہمیشہ رابطے میں رہوں گا۔۔۔۔ میں نے روحان کو کہہ دیا ہے وہ ہر ہفتے مجھے آپ کی خبر لا کر دیتا رہے۔۔۔۔" رانا صاحب نے مستحکم بھرے انداز میں مسکرا کر کہا۔ "مبشر تم بھی رِہا ہو کر۔۔۔۔۔ اس کے پاس ضرور جانا۔۔۔۔۔ اس سے اعتراف کرنا۔۔۔۔ اسے اپنا نیک ہونا ضرور دکھانا۔۔۔۔" شیخ صاحب نے پیار سے مشورہ دیا۔ "شیخ صاحب مجھے نہیں معلوم وہ کہاں ہے۔۔۔۔ اب تو 3 سال گزر گئے ہیں۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے اس نے شادی کر لی ہو۔۔۔۔ اس کی فیملی ہوگئی ہو۔۔۔۔۔" رانا صاحب کی آواز سے نا چاہتے ہوئے بھی مایوسی چھلک رہی تھی۔ "اگر وہ تمہارے قسمت میں ہے۔۔۔۔ تو یقین جانو۔۔۔۔۔ وہ آج بھی دنیا کے کسی نہ کسی گوشے میں تمہاری منتظر ہے۔۔۔۔۔" شیخ صاحب نے انہیں امید دلاتے ہوئے کہا۔ رانا صاحب تعجب سے انہیں دیکھے جا رہے تھے۔ "ہوسکے تو اس سے مل کر معافی بھی مانگ لینا۔۔۔۔۔ چاہے تمہاری غلطی نہ بھی ہو۔۔۔۔۔ معذرت چاہنے سے کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہوجاتا۔۔۔۔ درگزر کرنے سے دل کی میل نکل جاتی ہے اور ایمان تازہ رہتا ہے۔۔۔۔" وہ اسی نرم لہجے میں گویا تھے۔ "ایسا کرنے سے کیا وہ میری زندگی میں واپس آجائے گی۔۔۔۔۔" رانا صاحب متفکر انداز میں پوچھا۔ "پتا نہیں۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے تمہاری معافی قبول بھی نہ کریں۔۔۔۔۔ تم پر چیخیں چلائے۔۔۔۔۔ تمہیں جھڑکیں۔۔۔۔۔ لیکن تمہیں خاموشی سے برداشت کرنا ہوگا۔۔۔۔ ایک کامیاب زندگی کا دار و مدار ہی صبر اور برداشت پر ہے۔۔۔۔۔" شیخ صاحب نے مستقبل کے اندیشوں سے روشناس کرایا۔ "پھر کیا فائدہ۔۔۔۔۔ پھر ایسا کرنے سے کیا مل جائے گا۔۔۔۔" رانا مبشر نے ہنہ کرتے ہوئے سر جھٹکا "تسکین۔۔۔۔۔ کم سے کم تمہارے دل کو تسلی ہوجائے گی۔۔۔۔۔۔ یہ سکون مل جائے گا کہ تم نے کوشش کی تھی۔۔۔۔۔ تم گئے تھے اس کے پاس۔۔۔۔۔ لیکن وہ نہیں آئی۔۔۔۔۔ تم نے اپنا کام کر دیا۔۔۔۔ آگے اللہ کی مرضی۔۔۔۔۔۔" شیخ صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا۔ "ایک دفعہ جبر اور زبردستی کر کے نتیجہ دیکھ لیا ہے نا۔۔۔۔۔۔ اس مرتبہ پیار اور صبر سے کام لینا۔۔۔۔ میں بھی دعا کروں گا تم اپنی محبت کو پانے میں کامیاب ہوجاو۔۔۔۔۔" انہوں نے رانا صاحب کو تنبہیہ کرتے ہوئے کہا اور سیل سے باہر نکل گئے۔ رانا صاحب آگے کا لائحہ عمل سوچ رہے تھے۔ "مگر میں چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ میں ہمیشہ اس کے پاس رہوں۔۔۔۔۔ بے شک وہ مجھے کبھی معاف نہ کریں۔۔۔۔۔۔ اس کا ساتھ ہی میرے زندہ رہنے کے لیے کافی ہوگا۔۔۔۔۔" انہوں نے بے بسی سے لب مینچھے سوچا۔ محبت کی شدت پر ان کا زور نہیں چل رہا تھا۔ انہیں اپنی کیفیت سے بے چینی ہونے لگی۔ وہ کبھی نا ہارنے والا شخص کبھی کسی کے آگے نا جھکنے والا آج اپنی قسمت کی بے بسی اور ایک لا حاصل محبت کے روگ میں مبتلا ہوگیا تھا۔ خواہش اور چاہ میں بڑا فرق ہوتا ہے۔۔۔۔ خواہش انسان کو گھمنڈی کر دیتی ہے۔۔۔ چاہت انسان کو مٹی کر دیتی ہے۔۔۔۔ کرن کی جدائی نے اس کی چاہت نے رانا مبشر جیسے لوہے کو پگلا دیا تھا انہیں مٹی کر دیا تھا۔ آج انہیں کرن کو پانے کی خواہش نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ کی چاہ تھی۔ ***************&&&&**************** شیخ صاحب کے آزاد ہونے کے بعد بھی پچھلے چار سالوں سے رانا صاحب میں وہ نمایاں تبدیلیاں آگئی تھی جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ وہ اب پوری طرح پاپندی سے نمازیں ادا کرتے تلاوت کرتے۔ سب کے ساتھ اچھے سے رہتے۔ ان کی نیک اور با خلوص شخصیت نکھر گئی تھی۔ برائی چھوڑ کر نیکی پر چلتے وہ کئی مرتبہ لڑکھڑائے۔ گر پڑے۔ ٹوٹ کر بکھر گئے۔ شیطان کے بہکاوے اور نفس کے لالچ نے انہیں راہ راست سے ہٹانے کی پوری جتن کیے لیکن ان سب کے باوجود بھی ان کا حوصلہ نہیں ڈگمگایا۔ وہ اپنی اصل کو پانے کے لیے محنت کرتے رہے۔ اور اللہ رحیم و کریم جسے چاہے ہدایت دے۔۔۔۔ کبھی کبھی حالات ایسے ہوجاتے ہیں جس کو کسی بھی زبان میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اور وہ حالات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کو اس عمر اور زندگی کے اس مرحلے پر آکر زیر کر دیتے ہیں جب انسان خود کو صراط مستقیم کے دوسرے سرے پر پہنچا ہوا محسوس کرتا ہے۔۔۔ اور تب پہلی بار یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ ساری عمر جس راستے کو صراط مستقیم سمجھ کر چلتے رہے وہ نہ راستہ تھا نہ سیدھا۔۔۔ وہ صرف آپ کا نفس تھا یا آپ کا گمان۔ قید کے ان سالوں میں رانا صاحب بھی یہ سارے جوابات سمجھ گئے تھے۔ اس دن کے بعد رانا صاحب نے یہ عزم بھی کر لیا تھا کہ زندگی میں ایک مرتبہ کرن سے ضرور ملیں گے پھر چاہے وہ انہیں معاف نہ بھی کریں لیکن وہ اپنے تسکین کے لیے کوشش ضرور کریں گے۔ ############# موجودہ دن ############# "بس وہ دن تھا اور آج کا دن۔۔۔۔ مجھے تم مل گئی کرن۔۔۔۔۔۔ آج اس پہر تم میرے ساتھ ہو۔۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے اپنی داستان مکمل کی اور رخ پھیر کر کرن کو دیکھا تو اس کے رخسار آنسوؤں سے تر ہوچکے تھے۔ رانا صاحب اپنا سفر حیات بیان کرتے اتنے مگن ہوگئے تھے کہ کرن کب رونے لگی انہیں پتا ہی نہ چلا۔ رات گہری ہوچکی تھی چاند تارے یوں ہی اپنی مقرر رفتار سے رواں دواں تھے۔ تیز ہوائیں اور سمندر کی لہریں بھی اسی انداز میں بہہ رہی تھیں۔ پھر بھی بہت کچھ تھا جو بدل گیا تھا۔ کوئی سنبھل چکا تھا تو کوئی بکھر چکا تھا۔ کرن نے رانا صاحب کی نظریں خود پر پائی تو رخ دوسری جانب پھیر کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس وقت اس کے پاس اپنے جذبات بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں تھے۔ آنسو صاف کرتے ہوئے وہ اٹھی اور بنا کچھ کہے اپنے اپارٹمنٹ کے سمت تیزی سے چلنے لگی۔ رانا صاحب بھی اٹھ کھڑے ہوگئے لیکن انہوں نے کرن کو نہیں روکا وہ اسے جاتے دیکھتے رہے۔ وہ کرن کو ساری حقیقت سمجھنے کے لیے وقت دینا چاہتے تھے۔ جب کرن پوری طرح آنکھوں سے اوجھل ہوگئی تب وہ سر جھٹک کر، جینز کے جیبوں میں ہاتھ ڈالے، بادلوں کے پیچھے چھپتے چاند اور تاروں کو دیکھتے ساحل پر چہل قدمی کرنے لگے۔ *****************&&&&**************** کرن گھر آکر سیدھے اپنے بیڈروم میں چلی گئی۔ اس کے آنکھوں میں نمی تھی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ۔ اسے رانا صاحب کے نیک بننے پر بے حد خوشی ہورہی تھی۔ اسے کوئی بے یقینی کوئی بدگمانی نہیں تھی۔ وہاں فقت سچ ہی سچ تھا۔ اسے رانا صاحب کی کہی ہر ایک بات پر مکمل یقین تھا۔ بِن کہے بھی رانا صاحب کے محبت کے اظہار سے وہ بلش کرنے لگی تھی۔ زندگی میں کچھ چیزیں آپ کی قسمت ہوتی ہیں اور ان کو آپ بدل نہیں سکتے۔ ان کے ساتھ کمپرومائز ضروری ہوتا ہے۔ ان کو اللہ کا فیصلہ سمجھ کر قبول کرنا ہی ہوتا ہے۔ جب رانا مبشر برے تھے تب بھی وہ کرن کی قسمت تھے اور آج اچھے ہے تو تب بھی وہ کرن کی قسمت ہے۔ ****************&&&&***************** دو دنوں سے انتالیہ شہر پر بادل اپنے پورے تاب سے برس رہے تھے۔ شدید بارشوں کے باعث موسم میں خنکی بڑھ گئی تھی۔ کرن کے بشمول کچھ شہریوں نے ہلکے جیکٹ اور جرسی کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ کرن کے پراجیکٹ کا کام پایا اختتام کو پہنچ چکا تھا بس افتتاح کرنے کی دیر تھی۔ انہیں اس دن چیف منسٹر کے دفتر جا کر پراجیکٹ کے تکمیلی کاغذات پر ان کے دستخط درکار تھے۔ رانا صاحب آفس پہنچے تو ناک سرخ پڑ رہی تھی آواز بھی دبی دبی سی محسوس ہوئی۔ "آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے رانا صاحب۔۔۔۔" کرن نے متفکر انداز میں پوچھا۔ "ہاں۔۔۔۔ بس ہلکا سا موسمی زکام ہے۔۔۔۔ ٹھیک ہو جاوں گا۔۔۔۔" انہوں نے نرمی سے کہتے کرن کو تسلی دی۔ کرن نے خود کو لاپروا دکھانے کے لیے مزید مباحثہ نہیں کیا لیکن منسٹر صاحب سے دوران میٹنگ بھی وہ بار بار کھانستے چھینکتے رانا صاحب کو دیکھ کر پریشان ہوتی رہی۔ چیف منسٹر کے دفتر سے واپسی کرن نے رانا صاحب کو اپنے ساتھ چلنے کی پیشکش کی۔ "رانا صاحب آپ چاہے تو میرے گھر چلیں۔۔۔۔۔ ہوٹل میں آپ کی طبیعت مزید بگڑ سکتی ہے۔۔۔۔ آپ کو اس وقت دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔۔۔۔ " شام تک رانا صاحب کے زکام میں تیزی سے اضافہ ہوتے دیکھ کر کرن تشویش میں مبتلا ہوگئی تھی۔ رانا صاحب خود دار آدمی تھے وہ بغیر کسی جائز رشتے کے کرن کے گھر کے دہلیز پر قدم نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ "فکر مت کرو۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔ اپنا خیال رکھ سکتا ہوں۔۔۔۔ کمرے میں جاتے ہی دوائی لیں لوں گا۔۔۔۔۔" انہوں نے فوراً کرن کے آفر سے انکار کیا اور اپنے ہوٹل چلے گئے۔ اگلے دن انہیں پھر سے منسٹر کے آفس جانا تھا۔ دن پورا چڑھنے تک بھی جب رانا صاحب آفس نہیں آئے تو کرن کو پریشانی لاحق ہوگئی۔ "انشا۔۔۔۔ رانا صاحب ابھی تک نہیں آئے۔۔۔۔" خود کو انجان رکھتے ہوئے کرن نے انشا گل سے پوچھا۔ "نہیں آپی ابھی تک تو نہیں آئے۔۔۔۔ میں نے کال کی تھی پر ان کی طرف سے جواب موصول نہیں ہوا۔۔۔۔۔" انشا گل نے فائل ہاتھوں میں تھامے وضاحت پیش کی۔ "پھر سے کال ملاوں۔۔۔؟" انشا گل نے اجازت چاہی۔ "نہیں ان کا ہوٹل راستے میں ہی آتا ہے۔۔۔۔ جاتے ہوئے خود جا کر دیکھ لینگے۔۔۔۔ " کرن نے بار بار کال کرنے کے بجائے ہوٹل جا کر معلوم کرنا مناسب سمجھا۔ ******************&&&&************** کرن آج بلیک پینٹ شرٹ اور بلیک ہی جیکٹ پہنے ہوئے تھی۔ وہ ہوٹل پہچ کر تیزی سے ریسپشن پر رانا مبشر کا نام اور کمرا نمبر بتا کر معلومات کرنے لگی۔ حسب معمول انشا گل اور سیلان بھی اس کے ہمراہ تھے۔ "میم وہ آج صبح سے کمرے سے باہر نہیں آئے۔۔۔۔۔ روم سروس ناشتہ لیں کر گیا تو بھی انہوں نے کوئی رسپانس نہیں دیا۔۔۔۔۔ میں کمرے میں کال ملا کر دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔" ریسپشن میز پر کھڑے ترکش نوجوان نے پروفیشنل انداز میں رو داد سنائی اور لوکل فون کا رسیور اٹھا کر کال ملانے لگا۔ "سوری میم۔۔۔ وہ کال رسیو نہیں کر رہے۔۔۔۔" اس لڑکے نے معذرت خواہاں انداز میں وضاحت دی۔ "انشا گل موبائل پر کوشش کرو۔۔۔۔۔" کرن انشا گل کے جانب مڑی اور اسے رانا صاحب کے موبائل پر کال کرنے کا کہا۔ انشا گل نے کرن کی ہدایت کی پیروی کرتے ہوئے فوراً سے کال ملائی لیکن وہاں بھی جواب ندارد رہا۔ کرن کا دل دہل گیا۔ "کل ان کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی۔۔۔۔۔ کہی کچھ۔۔۔۔۔" اس نے آگے کرن خواب میں بھی نہیں سوچنا چاہتی تھی۔ اسے ٹھنڈ میں بھی پسینے آنے لگے۔ " کیا آپ کے پاس ان کے کمرے کی اضافی چابی ہے۔۔۔۔۔" کرن نے کانپتے ہوئے پوچھا تو لڑکے نے اثابت میں سر ہلاتے ہوئے دراز سے کارڈ کی شکل چابی نکال کر کرن کے آگے رکھی۔ کرن نے ایک جھٹکے سے چابی اٹھائی اور تیزی سے لفٹ کو لپکی۔ سیلان اور انشا گل بھی متفکر تاثرات بنائے اس کے پیچھے ہو لیئے۔ مندرجہ منزل پر لفٹ رکتے ہی کرن کوریڈور میں بھاگی اور رانا صاحب کے کمرے کے سامنے آئی۔ خوف و ہراس سے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اس سے کارڈ درز میں نہیں دیا جارہا تھا۔ سیلان نے مدد کرنے اس کے ہاتھ سے کارڈ لیا اور تیزی سے درز میں دے کر دروازے کا ناب گھمایا۔ اندر داخل ہوتے ہی کرن دروازے پر ٹھٹک گئی۔ رانا مبشر کل کے ہی سوٹ اور جوتوں سمیت اوندھے منہ بیڈ پر لیٹے تھے۔ کرن ہمت کر کے آگے آئی اور انہیں پکارتے ہوئے جھنجوڑنے لگی۔ "رانا صاحب۔۔۔۔۔۔ یا اللہ یہ تو بخار سے تپ رہے ہے۔۔۔۔۔" ان کے پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہی کرن کو لگا اس نے دہکتے ہوئے کوئلے کو چھو لیا ہو۔ "سیلان جلدی ایمبولینس منگواو۔۔۔۔" وہ روہانسی ہو کر دھاڑی تھی۔ سیلان موبائل پر نمبر ملاتا کمرے سے باہر نکل گیا۔ انشا گل گلاس میں پانی بھر لائی تھی۔ "رانا صاحب۔۔۔۔۔ پلیز آنکھیں کھولیں۔۔۔۔۔ ہوش میں آئے رانا صاحب۔۔۔۔" کرن رانا صاحب کے منہ پر پانی کی چھنٹے ڈالتی انہیں پکارنے لگی۔ حد سے زیادہ تیز بخار کے باعث رانا مبشر کے حسات کام کرنے سے قاصر تھے۔ وہ بے جان سے کرن کے بازووں میں تھے حتہ کہ ان کی دھڑکن بھی کم ہورہی تھی۔ کرن نے ابتدائی طبی امداد کے طور پر ان کی ٹائی کھول کر اتار دی جوتے جراب اتار دیئے۔ پھر اس نے کھڑکیاں دروازے بھی کھول دیئے تا کہ تازہ ہوا آسکے۔ لیکن رانا مبشر اب بھی بے حس و حرکت تھے۔ *******************&&&&**************** ایمبولینس عملہ کی مدد سے رانا صاحب کو اسٹریچر پر ڈال کر ہسپتال لے جایا گیا۔ ہسپتال کے چمکتے فرش پر کرن ان کے سپیڈ سے قدم ملاتی تیز تیز چل رہی تھی۔ ہاتھ اس کا متواتر رانا مبشر کے دل کے حصہ پر رکھا ہوا تھا۔ ان کی ہر اٹھتی دھڑکن کے ساتھ کرن کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوتا۔ داکٹرز نے پھرتی سے رانا صاحب کو I C U میں داخل کیا اور سارا سٹاف ان کے علاج میں جھٹ گیا۔ کوئی آکسیجن ماسک لگا رہا تھا کوئی انجیکشن تیار کر رہا تھا ڈاکٹر ان کی کلائی پکڑے گھڑی کو دکھتے ہوئے نبض دیکھ رہا تھا کوئی ان کے شرٹ کے بٹن کھول کر سینے سے الگ الگ مشینوں کے تار چسپاں کر رہا تھا۔ کرن کے اضطراب میں ہر گزرتے پل کے ساتھ اضافہ ہورہا تھا وہ دائیں سے بائیں چکر کاٹ رہی تھی۔ "نہیں رانا صاحب۔۔۔۔ آپ ایسے مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔۔۔۔۔۔ ابھی بہت سے حساب باقی ہے۔۔۔۔۔ میں نے ابھی تک آپ کو معاف نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ ابھی تو آپ کو مجھے بہت سی صفائیاں دینی ہے۔۔۔۔۔۔ آپ کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔۔ آپ کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔پلیززز پلیزززززز۔۔۔۔۔" کرن شیشے کے سامنے کھڑی دل میں اٹھتے وسوسوں کو دبانے کی کوشش کرتی رونے لگی۔ "آپی۔۔۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔۔ ہمت سے کام لیں۔۔۔۔۔" انشا گل کے لیے کرن کو اکیلے سنبھالنا مشکل ہورہا تھا اس لیے اس نے انی کو کال کر کے بلایا۔ انی آدھ گھنٹے میں ہسپتال پہنچ گئی تھی۔ انی کو دیکھتے ہی کرن روہانسی ہوگئی اور مزید زار و قطار رونے لگی۔ "حوصلہ رکھو کرن۔۔۔۔۔ مسٹر رانا کو کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔" انی نے اسے خود سے لگا کر دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔ "انی اگر انہیں کچھ ہوگیا۔۔۔۔ میں زندہ نہیں رہ سکوں گی۔۔۔۔۔ میں خود کو معاف نہیں کر پاوں گی۔۔۔۔۔ انی پلیز کچھ کریں۔۔۔۔۔۔ انہیں کچھ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔ رانا صاحب کو بچا لیں۔۔۔۔۔ " کرن چاہ کر بھی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکی تھی اور انی اسے خاموش کرواتی اسے دلاسہ دیتی پریشان ہوتی رہی۔ انشان گل بھی اشک بار آنکھوں سے کرن کو امید دلانے کی کوشش کرتی رہی جبکہ سیلان ڈاکٹرز کے حکم کے تابعداری کرتا رہا۔ *****************&&&&**************** ڈاکٹرز کی مسلسل کوششوں اور کرن کے متواتر دعاوں سے رانا صاحب کو پورے دو دن بعد ہوش آگیا۔ کرن کو ان کے بیدار ہونے کی خبر ملی تو وہ بھاگتے ہوئے I C U کے کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ دو دن پہلے کے ہی لباس میں خستہ حال میں تھی۔ اس کے پژمردہ چہرے سے صاف واضح تھا کہ وہ دو دنوں سے جاگتی اور روتی رہی ہیں۔ "کیسے ہے رانا صاحب۔۔۔۔۔" کرن نیم دراز لیٹے رانا مبشر کے پہلو میں بیٹھ کر ان سے مخاطب ہوئی۔ "پہلے سے بہتر ہوں۔۔۔۔ سوری میں نے تمہیں بہت پریشان کر دیا۔۔۔۔" رانا صاحب نے گلا صاف کرتے ہوئے کہا۔ انہوں نے کرن کی حالت سے اس کی کیفیت کا اندازہ لگا لیا تھا۔ "پریشان۔۔۔۔۔ جان نکال دی تھی میری۔۔۔۔۔۔ کہا تھا نا میرے گھر چلیں۔۔۔۔ پر نہیں آپ کو تو اپنی من مانی کرنی ہوتی ہے ہمیشہ۔۔۔۔۔ بہت برے ہو آپ۔۔۔۔ بہت اچھا لگتا ہے نا آپ ک مجھے ستانا۔۔۔۔۔ " کرن نے منہ بھسورتے ہوئے ہنہ کرتے ہوئے کہا۔ رانا مبشر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔ وہ کرن کی جھڑک میں چھپے اس کی محبت سے خوش ہونے لگے تھے۔ "ایسا نہیں ہے۔۔۔۔ بس اندازہ نہیں تھا کہ اتنا سیریس ہوجاوں گا۔۔۔۔" رانا صاحب نے دفاعی لہجے میں وضاحت دینا چاہی۔ "میں ڈاکٹر سے بات کر کے آتی ہوں۔۔۔۔۔ آپ ابھی آرام کریں۔۔۔۔" کرن نے نرمی سے ان کے بازو پر ہاتھ رکھ کر تجویز دی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ وہ رانا صاحب پر غصہ کر کے ان کی طبیعت پھر سے ناساز نہیں کرنا چاہتی تھی۔ رانا صاحب محبت اور اپنائیت سے اس کے متفکر تاثرات یاد کر رہے تھے جب سرہانے ٹیبل پر پڑا ان کا موبائل بجنے لگا۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھایا اور کال پک کر کے ہیلو کہتے ساتھ ہی انہیں کھانسی ہونے لگی۔ وہ موبائل فون کان سے ہٹا کر کھانسنے لگے۔ وہی دوسری جانب پاکستان میں روحان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ جہاں وہ رانا صاحب کے اتنے دن کال نہ کرنے پر خفا ہونے لگا تھا ان کے بیمار ہونے کا جانچ کر وہ مضطرب سا موبائل کان سے لگائے اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔ اس کے تاثرات بدلتے دیکھ کر نور بھی فکرمند ہونے لگی۔ کھانسی رکنے پر رانا صاحب نے موبائل پھر سے کان سے لگایا "ہیلو۔۔۔ روحان۔۔۔۔۔" دوسری طرف مکمل خاموشی سن کر انہوں نے اپنے جانب سے روحان کو مخاطب کیا۔ "رانا بھائی are you alright " روحان نے پریشان کن آواز میں پوچھا۔ "ہاں ٹھیک ہوں۔۔۔۔ بس فلو ہوگیا ہے۔۔۔۔ اور۔۔۔۔" "واٹ۔۔۔۔۔ رانا بھائی۔۔۔۔۔ آپ کہاں ہے۔۔۔۔۔ کس ملک میں ہے۔۔۔۔۔ ڈاکٹر کو دکھایا۔۔۔۔۔ میری ہوٹل مینیجر سے بات کروائیں میں اس سے آپ کے لیے ڈاکٹر منگوانے کا کہتا ہوں۔۔۔۔۔" رانا صاحب کی بات مکمل سنے بغیر روحان نے روہانسی ہوکر ایک کے بعد دوسرا سوال شروع کر دیا۔ رانا صاحب سر جھٹکتے رہ گئے۔ "روحان۔۔۔۔۔ میری بات سنو۔۔۔۔ میں ترکی میں ہوں۔۔۔۔ اور اس وقت ہسپتال میں ہی ہوں۔۔۔۔۔ تم فکر مت کرو میں اب بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔ کرن ہے میرے ساتھ۔۔۔۔۔ وہ میرا پورا خیال رکھ رہی ہے۔۔۔۔" رانا صاحب نے خراش زدہ آواز میں بھی تیز تیز رو داد بتا کر روحان کی تشویش ختم کرنے کی کوشش کی ۔ روحان رانا بھائی کے زبانی کرن کا نام سن کر ٹھٹک گیا۔ حیرت سے اس کے آبرو پھیل گئے۔ "کیا۔۔۔۔۔ کون ہے آپ کے ساتھ۔۔۔۔۔" روحان نے حیرانگی سے پوچھا۔ اسے لگا شاید اس سے رانا بھائی کی بات سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ یا رانا مبشر تیز بخار کے باعث صدمے میں ہے اور تصوراتی دنیا میں چلے گئے ہیں۔ "میرے ساتھ کرن ہے۔۔۔۔۔ کرن جمیل۔۔۔۔۔ نور کی کزن۔۔۔۔۔" رانا مبشر نے مستحکم بھرے انداز میں تصدیق کروائی۔ روحان جواب میں خاموش رہا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ "اچھا روحان ڈاکٹر آرہا ہے۔۔۔۔۔ میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے دروازے پر کرن کے ہمراہ ڈاکٹر کو بھی نمودار ہوتے دیکھا تو روحان کی کال کاٹ دی۔ *****************&&&&***************** "کیا ہوا روحان۔۔۔۔۔ رانا بھائی ٹھیک تو ہے نا۔۔۔۔۔" نور نے روحان کے بازو کو جھنجوڑ کر متوجہ کیا۔ "ہاں بس فلو ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ وہ ترکی میں ہے۔۔۔۔۔ اس وقت ہسپتال میں تھے۔۔۔۔" روحان نے کھوئے کھوئے انداز میں جواب دیا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔ "انہوں نے کہا کرن ان کے ساتھ ہے۔۔۔۔" روحان کے سماعتوں میں اب بھی رانا مبشر کا وہ جملہ گردش کر رہا تھا۔ "ہوسکتا ہے کوئی اور کرن ہو۔۔۔۔۔" نور نے روحان کے ساتھ بیٹھ کر اس کی غلط فہمی دور کرنی چاہی۔ "نہیں نور۔۔۔۔۔ انہوں نے پورا تعارف بتایا۔۔۔۔ کرن جمیل۔۔۔۔ نور کی کزن ۔۔۔۔۔۔" روحان نے رانا بھائی کے کلمات دوہرائے۔ نور کے تاثرات بدل گئے۔ "کرن ترکی میں ہے۔۔۔۔۔ پر رانا بھائی کو کیسے ملی۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ اگر کرن کو دیکھ کر رانا بھائی پھر سے جنون میں آگئے تو۔۔۔۔" نور نے دھڑکتے دل کے ساتھ اندیشہ ظاہر کیا۔ "نہیں اس دفعہ میں ایسا کچھ نہیں ہونے دونگا۔۔۔۔۔ اصل ماجرہ کیا ہے۔۔۔۔ یہ ترکی جا کر ہی پتا لگے گا۔۔۔۔" روحان حتمی فیصلہ کرتے ہوئے صوفے پر سے اٹھا۔ "نور۔۔۔۔۔ میرا بیگ تیار کرو۔۔۔۔۔ میں ٹریول ایجنٹ سے بات کر کے آتا ہوں۔۔۔۔۔۔ مجھے رانا بھائی کو لینے ترکی جانا ہوگا۔۔۔۔۔" روحان نے لاؤنج میں سے نکلتے ہوئے نور کو آواز لگائی۔ پھر کار میں سوار ہو کر تیزی سے کار چلا دی۔ ایک مرتبہ پھر کرن ان دونوں کی خوشیوں میں خلل بن گئی تھی۔ نور بے دلی سے اپنے کمرے میں جا کر روحان کی پیکنگ کرنے لگی۔ *****************&&&&************** رانا مبشر اگلے روز ہسپتال سے رخصت ہوئے۔ کرن اس وقت ان کی ادویات اور ڈاکٹر سے بقیہ ہدایات پوچھ کر کمرے میں داخل ہوئی تو رانا مبشر سفید شرٹ اور بلیو پینٹ پہنے جانے کے لیے تیار تھے۔ صحت میں کساہلت اب بھی موجود تھی۔ ہلکا ہلکا بخار برقرار تھا۔ البتہ کھانسی میں کچھ بہتری آگئی تھی۔ کرن کے حرکات سے یہ واضح ظاہر تھا کہ وہ ہرگز رانا مبشر کو ہوٹل جانے کی اجازت نہیں دیں گی پھر بھی رانا صاحب نے انکار کی کوشش کی۔ "بلکل نہیں۔۔۔۔ جب تک آپ پوری طرح تندرست نہیں ہوجاتے آپ میرے گھر ہی رہیں گے۔۔۔۔۔ اور اب میں کوئی بحث نہیں سنو گی۔۔۔۔" کرن نے سختی سے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کرتے ہوئے کہا۔ رانا مبشر کو مجبوراً اس کے ضد کے آگے ہار ماننی پڑی۔ وہ اس کے ساتھ گھر چلنے پر راضی ہوگئے تھے۔ کرن کے گھر پہنچ کر انی نے خوش دلی سے ان کا استقبال کیا۔ کرن رانا صاحب کو سیدھے گیسٹ روم میں لیں آئی جو انی نے ان کے آنے سے پہلے ہی تیار کر دیا تھا۔ کرن رانا صاحب کو آرام کرنے کا کہہ کر خود کچن میں آگئی جہاں انی لنچ کی تیاری کر رہی تھی۔ کرن کو بالوں کو باندھے آستین اوپر چڑھا کر برتن نکالتے دیکھ کر انی حیران پریشان ہوگئی تھی۔ "کرن۔۔۔۔" انہوں نے شاک سے کرن کو مخاطب کیا۔ "جی انی۔۔۔۔" کرن نے سوپ کے لیے اجزاء برابر کرتے ہوئے مصروف انداز میں جواب دیا۔ "کیا تمہیں مسٹر رانا سے محبت ہوگئی ہے۔۔۔۔۔" انی نے بنا تہمید باندھے سیدھے سیدھے پوچھا۔ کرن کے تیزی سے چلتے ہاتھ رک گئے۔ وہ انی کے اس ڈائریکٹ سوال پر گڑبڑا گئی۔ "نہیں وہ۔۔۔۔۔ دراصل۔۔۔۔۔ میرے موجودگی کے پچھلے پانچ سالوں میں تم پہلی بار کچن میں کام کرنے آئی ہو۔۔۔۔۔ خود اپنے ہاتھوں سے کوکنگ کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔ وہ بھی مسٹر رانا کے لیے۔۔۔۔۔ پچھلے تین چار دنوں سے تم نے دیسی بیوی جیسے ان کی خدمت گزاری میں دن رات ایک کر دیا ہے۔۔۔۔۔ اور اب یہ سب۔۔۔۔ تم کہی سے بھی کوئی پروفیشنل رائٹر یا سوشل اکٹوسٹ نہیں لگ رہی۔۔۔۔۔ البتہ معشوقہ ضرور لگ رہی ہو۔۔۔۔" انی نے کرن میں نمودار ہوئی تبدلیوں سے روشناس کروایا۔ کرن ان کے بیان کردہ حقائق سے واقف تھی لیکن پھر بھی تاثرات سپاٹ رکھے انجان بن رہی تھی۔ "ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ رانا صاحب ایک اسپیشل سوپ پینا پسند کرتے ہے۔۔۔۔۔۔ وہ آپ کو بنانا نہیں آتا تو میں نے سوچا میں خود ہی بنا دوں۔۔۔۔۔۔۔آپ کو سیکھانے لگی تو ٹائم لگ جائے گا۔۔۔" کرن انی سے نظر ملانے سے کتراتی رہی۔ "کرن۔۔۔۔۔ یہ جھوٹ۔۔۔۔۔ مجھ سے کہہ رہی ہو یا۔۔۔۔۔ اپنے آپ سے۔۔۔۔۔ " انی نے اس کے گڑھے بہانے پر سر جھٹکتے ہوئے کہا اور کرن کو اکیلے کام کرتے چھوڑ کر کچن سے باہر نکل گئی۔ کرن کچھ دیر ساکت کھڑی تھی لیکن انی کے روئیے کا کڑوا گھونٹ اپنے اندر اتار کر وہ پھر سے سوپ بنانے لگی۔ ****************&&&&&************** کرن سوپ کا پیالہ ٹرے میں رکھے آہستہ سے گیسٹ روم میں داخل ہوئی تو رانا صاحب بیڈ پر نیم دراز لیٹے ہوئے تھے اور آنکھوں پر بازو رکھا ہوا تھا۔ انہیں مخاطب کرنے کے بجائے کرن نے ان کے پہلو میں بیٹھ کر اپنے ہاتھ کی پشت سے ان کے رخسار پر بخار چیک کرنا چاہا۔ رانا صاحب نے نرم لمس محسوس کیا تو آنکھوں پر سے بازو ہٹا کر کرن کے چہرے کو دیکھ کر اٹھ بیٹھے۔ "سوری ڈسٹرب کر دیا آپ کو۔۔۔۔۔ میں سوپ لائی تھی آپ کے لیے۔۔۔۔۔" کرن متذبذب ہوتی ان سے کچھ فاصلے پر ہوگئی اور ٹرے ان کے آگے کیا۔ "کوئی بات نہیں۔۔۔۔ میں سو نہیں رہا تھا۔۔۔" رانا صاحب سوپ پینے لگے۔ پہلا گھونٹ لیتے ہی انہوں نے حیرت سے کرن کو دیکھا۔ اتنے ماہ سے ہوٹل کا کھانا کھا کھا کر وہ اکتا گئے تھے۔ اور اس وقت کرن کا اتنے اپنائیت سے بنایا سوپ انہیں بہت لزیز لگا۔ وہ پھرتی سے پورا سوپ پی گئے۔ کرن لنچ ہوتا یا ڈنر رانا صاحب کے پورا کھا لینے تک ان کے پاس بیٹھی رہتی اور پھر اپنی نگرانی میں ہی دوائی کھلا کر اپنے کمرے میں جاتی۔ انی کی باتوں نے اسے بہت ڈسٹرب کر دیا تھا۔ وہ بہ ظاہر تو نارمل رہتی لیکن اس کے اندر بھوچال سا برپا تھا۔ "کیا واقعی اس نے رانا مبشر کو معاف کر دیا ہے۔۔۔۔۔ کیا سچ میں اسے رانا مبشر سے محبت ہوگئی ہے۔۔۔" یہ سوالات سوچ سوچ کر اس کے سر میں درد ہونے لگا۔ "نہیں میں تو یہ سب ہمدردی اور انسانیت کے خاطر کر رہی ہوں۔۔۔۔" اس نے سٹوڈیو میں دائیں سے بائیں چکر کاٹتے ہوئے خود کلامی کی۔ "لیکن میں اس انسان سے اتنی ہمدردی کیوں کر رہی ہوں۔۔۔۔۔ جس نے مجھے سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی ہے۔۔۔۔" اس کے تاثرات سپاٹ ہوگئے۔ "بس کچھ دنوں میں بلڈنگ کی افتتاح ہوجائے پھر رانا مبشر اپنے راستے اور میں اپنے راستے۔۔۔۔۔ پھر میں ان سے کبھی نہیں ملوں گی۔۔۔۔۔ میں ان سے کہہ دوں گی۔۔۔۔ میری زندگی میں اب ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔۔۔۔۔" اپنے دلی کیفیت کو دفناتے ہوئے اس نے حتمی فیصلہ کیا۔ "جب تک وہ یہاں ہے۔۔۔۔ میں اچھے بزنس پارٹنر کی طرح ان کی ہر طرح سے آہو بگت کروں گی۔۔۔۔۔ لیکن پھر دوبارہ مڑ کر بھی نہیں دیکھوں گی۔۔۔۔" کرن نے رانا مبشر کے نیکی اور اچھائی کو بالائے طاق رکھ کر ایک نتیجہ اخذ کیا۔ لیکن اسے معلوم نہیں تھا بہت جلد اس کا یہ فیصلہ خاک میں ملنے والا تھا۔ *******************&&&&**************** کرن کی خدمت گزاری سے رانا صاحب کی صحت پھر سے بحال ہوگئی۔ تین دن کرن کے گھر رہ کر آج رانا صاحب واپس ہوٹل آگئے تھے۔ ہوٹل آنے سے پہلے بھی کرن ان کے ساتھ ہسپتال جا کر ان کا دوبارہ معائنہ کروانا نہیں بھولی تھی۔ ڈاکٹرز کے یقین دہانی کروانے کے بعد ہی کرن ان کی طبیعت سے مطمئن ہوسکی تھی۔ ***************&&&&************** مزید ایک ہفتے بعد جب رانا مبشر پوری طرح تندرست ہوگئے تو سنڈے کو کرن ان کی گائیڈ بن کر ایک اور مشہور اور تاریخی مسجد دکھانے لیں گئی۔ ابھی وہ دونوں مسجد کا دورا کر کے باہر نکل ہی رہے تھے جب رانا مبشر کا موبائل بجنے لگا۔ "ہاں روحان۔۔۔۔۔ کیسے ہو۔۔۔۔" رانا صاحب نے کال اٹھاتے اسے مخاطب کیا۔ کرن ان کے سائیڈ پر خاموش کھڑی تھی روحان کا نام سن کر اس کے دل میں پھر سے ماضی کے زخم تازہ ہونے لگے تھے۔ "رانا بھائی کہاں ہے آپ ۔۔۔۔۔۔ " روحان نے ان کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔ وہ سرخ ہائی نیک اور بلیک ٹراؤزر پہنے بال نفاست سے بنائے ہشاش بشاش تیار ہوئے ترکی کی ائیر پورٹ پر کھڑا اپنے بیگ کا انتظار کر رہا تھا۔ چونکہ اس نے رومنگ سسٹم کے ذریعے رانا بھائی کو واٹس اپ کال کی تھی اس لیے رانا صاحب اس کے لوکیشن کی تبدیلی جانچ نہیں سکے تھے۔ رانا مبشر روحان کے سوال پر حیران ہوئے انہوں نے حیرت سے آبرو اچکائے۔ "میں ترکی میں ہوں روحان۔۔۔۔۔ بتایا تو تھا۔۔۔۔۔" انہوں نے سپاٹ انداز میں جواب دیا۔ انہیں روحان کی پہیلی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ "ترکی میں کہاں رانا بھائی۔۔۔۔۔ کس شہر میں۔۔۔۔۔" روحان نے اپنا بیگ اٹھائے چیک آوٹ کرواتے ہوئے ہوچھا۔ رانا مبشر کو پس منظر میں کافی شور سنائی دے رہا تھا۔ ان کی چھٹی حس انہیں بار بار خدشے کا اشارہ دے رہی تھی۔ "انتالیہ میں۔۔۔۔" جواب اب بھی سپاٹ تھا۔ کرن نے تعجب سے رانا صاحب کو دیکھا۔ وہ جتنے بھی سخت مزاج میں ہوتے لیکن روحان سے کبھی اس ٹون میں بات نہیں کی تھی۔ اس لیے پہلی مرتبہ کرن کو رانا صاحب کو روحان سے اس طرح بات کرتے دیکھ کر شاک لگا۔ "پھر guess what۔۔۔۔۔ میں بھی انتالیہ میں ہوں۔۔۔۔۔ ابھی ابھی لینڈ کیا ہے۔۔۔۔۔ آدھے گھنٹے تک ہوٹل پہنچ جاوں گا آپ بھی جہاں ہے فوراً سے ہوٹل پہنچے۔۔۔۔ " روحان نے رانا بھائی کے انداز کو نظرانداز کرتے ہوئے جوش و خروش سے کہا۔ رانا مبشر کے آبرو پھیل گئے۔ "واٹ تم یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔۔۔" ان کا لہجہ مزید سخت ہورہا تھا۔ کرن کو اب پریشانی ہونے لگی تھی۔ "رانا بھائیییییی۔۔۔۔۔۔ مل کر بتاتا ہوں نا۔۔۔۔۔۔ میں ابھی ٹیکسی لے رہا ہوں۔۔۔۔۔ بائے بائے۔۔۔۔" روحان نے تیزی سے کہا اور رانا صاحب کا جواب سنے بغیر کال کاٹ دی۔ رانا صاحب نے سر جھٹکتے ہوئے لمبی سانس خارج کی اور موبائل جیب میں رکھا۔ کرن نے مضطرب تاثرات بنائے رانا صاحب کو مخاطب کیا۔ " رانا صاحب۔۔۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے۔۔۔۔۔" وہ دونوں مسجد کے عمارت کے سامنے رو بہ رو کھڑے تھے۔ "ہاں سب ٹھیک ہے۔۔۔۔ روحان انتالیہ آیا ہے۔۔۔۔۔ مجھے ہوٹل بلایا ہے۔۔۔۔۔ " کال کے بہ نسبت کرن سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا لہجہ نرم تھا۔ "مجھے جانا ہوگا۔۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔۔ " انہوں نے مدافعتی انداز میں رخصت لیتے ہوئے کہا اور کرن سے اس کے آگے کا لائحہ عمل پوچھا۔ "میں بھی گھر ہی جاوں گی۔۔۔" کرن نے تسلی بخش جواب دیا۔ رانا صاحب نے سر کو جنبش دیا اور دونوں پارکنگ کے جانب روانہ ہوگئے۔ ***************&&&&************** رانا صاحب جیسے اپنے کمرے میں پہنچے اور جیکٹ اتاری ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ انہوں نے آگے آکر دروازہ کھولا تو روحان بیگ کا ہینڈل چھوڑ کر ان سے لپٹ گیا۔ "اووو رانا بھائیییی۔۔۔۔۔۔ کتنا مس کیا میں نے آپ کو۔۔۔۔۔" روحان نے رانا بھائی سے الگ ہوتے ہوئے کہا۔ اتنے ماہ بعد اپنے لخت جگر کو دیکھ کر رانا مبشر بھی خوشی سے سرشار ہوگئے تھے۔ رانا صاحب نے روحان کا استقبال کیا اسے خوش آمدید کہا۔ روحان اپنے بیگ کو دھکیلتا بیڈ تک آیا اور سستانے بیٹھ گیا۔ بہت سے عادات کے جیسے ہر چیز ترتیب اور نفاست سے رکھنا اب بھی رانا مبشر کے شخصیت کا حصہ تھی۔ ان کے کمرے کی ہر چیز بہت ترتیب سے رکھی گئی تھی جیسے وہاں کوئی رہتا ہی نا ہو۔ رانا صاحب سائید ٹیبل پر پڑے لوکل فون کے پاس جھکے تاکہ روم سروس کے ذریعے روحان کے لیے کھانے پینے کو منگوا سکے کہ روحان نے انہیں مخاطب کیا۔ "رانا بھائی۔۔۔۔۔ کرن کہاں ہے۔۔۔۔" اس نے محظوظ ہو کر پوچھا۔ رانا مبشر رسیور اٹھاتے اٹھاتے ٹھٹک گئے۔ انہوں نے حیرت سے روحان کے جانب دیکھا۔ "وہ اپنے گھر میں ہوگی۔۔۔۔ پر تم کیوں پوچھ رہے ہو۔۔۔۔" انہوں نے بے پروا انداز میں جواب دیا۔ وہ یہ بات چھپا گئے تھے کہ کچھ دیر پہلے وہ کرن کے ساتھ ہی تھے۔ "چلیں نا مجھے کرن سے ملنا ہے۔۔۔۔" روحان ان کے سامنے کھڑے ہو کر ضد کرنے لگا۔ "روحان۔۔۔۔ ابھی تم آرام کرو۔۔۔۔۔ بعد میں مل لینا۔۔۔۔" رانا صاحب نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے ضد پر اڑا رہا۔ "میں بلکل فریش ہوں رانا بھائی۔۔۔۔۔ فلائٹ میں آرام ہی کرتا ہوا آیا ہوں۔۔۔۔۔ ابھی چلتے ہیں۔۔۔۔ پلیزززز" روحان معصوم بچوں کے جیسے اصرار کر رہا تھا۔ رانا صاحب کے تاثرات سپاٹ ہوگئے لیکن ان کے سامنے روحان تھا رانا مبشر کے جگر کا ٹکرا۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی رانا صاحب روحان کے اصرار کے آگے ہار گئے تھے۔ "ٹھیک ہے چلتے ہیں۔۔۔۔۔ بچے کے بچے ہی رہو گے تم۔۔۔۔۔ اپنی بات منوا کر ہی رہتے ہو۔۔۔۔۔ " رانا صاحب نے طنز و مزاح میں روحان کے سر پر تھپکی دے کر پھر سے اپنا جیکٹ اٹھاتے ہوئے کہا۔ "آپ ہی کا بھائی ہوں نا۔۔۔۔۔" روحان کھلکھلا کر ہنسا اور روانہ ہونے کے لیے تیاری کرنے لگا۔ ******************&&&&**************** جاری ہے Next Episode After 200 Likes
❤️ 👍 😢 😂 🙏 😮 347

Comments