Novel Ki Dunya
June 12, 2025 at 05:18 PM
ناول۔۔۔۔ قسمت سے ہاری میں (پارٹ ٹو)
از قلم۔۔۔۔ پلوشہ صافی
قسط نمبر۔۔۔۔ 08
#dont_copy_paste_without_my_permission
جس وقت روحان اور رانا صاحب کرن کے گھر پہنچے شام ہو چلی تھی۔ دروازے پر دستک سنتے ہی کچن میں کام کرتی انی تیزی سے گئی اور ان کا استقبال کیا۔
ہوٹل سے نکلتے وقت رانا صاحب نے میسج کر کے کرن کو اپنے اور روحان کے آنے کی اطلاع کر دی تھی اس لیے انی مہمانوں کے آنے سے با خبر تھی۔
"خوش آمدید روحان۔۔۔۔۔ کی۔۔۔۔ سے ہیں آپ۔۔۔ " انی نے دروازے پر انہیں اندر آنے کا اشارہ کرتے ہوئے مغربی طرز اردو میں کہا۔
روحان پہلے اس سانولی سے گہرے رنگ کی حامل صحت مند خوش مزاج خاتون کو دیکھ کر پھر ان کے زبانی مغربی طرز اردو سن کر بہت محظوظ ہوا۔
"میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔ آپ کیسی ہے۔۔۔ " روحان نے نظریں گھماتے گھر کے اندرونی حصے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ گھر کا ہر ایک کونا بہت منظم طریقے سے سجایا ہوا تھا۔
"ایک دم فٹ۔۔۔۔۔" انی نے انہیں لاؤنج کے صوفے کے جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا اور خود اوپن کچن کے جانب بڑھ گئی۔
"یہ انہیتا جی ہے۔۔۔۔ کرن کی کیئر ٹیکر۔۔۔۔۔" صوفے پر بیٹھتے ہوئے رانا صاحب نے روحان سے انی کا تعارف کروایا اور انی کو روحان کے بارے یقیناً کرن بتا چکی تھی۔
"بہت خوبصورت گھر ہے۔۔۔۔" روحان نے بالکونی سے باہر نظر آتے سمندر کو دیکھتے ہوئے کہا۔ رانا صاحب اور وہ ساتھ ساتھ بڑے صوفے پر بیٹھے تھے۔
"وہ تو ہے۔۔۔۔۔ کرن کی چوائس ہمیشہ پرفیکٹ ہوتی ہے۔۔۔۔" انی ٹرے میں دو جوس کے گلاس لیئے ان تک آئی پھر روحان اور رانا صاحب کو جوس پیش کیا۔
روحان جوس پیتے پیر جھلا رہا تھا۔ اسے کرن سے جلدی ملنے کی بیتابی ہورہی تھی جبکہ رانا صاحب بے تاثر تھے۔ وہ خاموشی سے جوس نوش فرما رہے تھے جب کرن لکڑیوں کے بنے سیڑھیوں پر اتر کر نیچے آتی دیکھائی دی۔ موقع کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نے ڈیزائنر کشیدہ کاری کے بنے شلوار قمیض زیب تن کئے تھے اور ڈوپٹہ سر پر لیا ہوا تھا۔
کرن کو آتے دیکھ کر روحان احتراماً اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔ اس کی نظریں مسکراتے ہوئے اس سمت آتی کرن پر مرکوز تھی۔ سات سال بعد روحان کرن سے رو بہ رو ہورہا تھا۔ وہ وہی کرن تھی لیکن اس کی نمایاں تبدیلیاں روحان کو مسرور کئے جارہی تھی۔ اس کی چال با اعتماد تھی۔ آنکھوں میں خوف کی جگہ جذبہ تھا اور ہونٹوں پر پر کشش سی مسکراہٹ۔ وہ کہی سے بھی ڈری سہمی پریشان اداس زندگی سے مایوس کرن نہیں لگ رہی تھی۔
"السلام علیکم روحان۔۔۔۔۔کیسے ہے آپ۔۔۔۔"؟ گفتگو میں پہل کرن نے کی۔
روحان کی خیریت دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے پھر سے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی سامنے سنگل صوفے پر تشریف فرما ہوگئی۔
کرن کو دیسی انداز میں تیار دیکھ کر رانا صاحب کی نظریں اس پر سے نہیں ہٹ پا رہی تھی۔
"وعلیکم السلام۔۔۔۔۔۔ مائی گاڈ کرن۔۔۔۔۔ آپ کو اندازہ بھی نہیں ہوگا مجھے اتنے سالوں بعد آپ کو دیکھ کر کتنی خوشی ہورہی ہے۔۔۔۔۔" روحان نے بے یقینی سے ایک مرتبہ پھر سر تا پیر کرن کو دیکھا۔
"مجھے بھی اتنی ہی خوشی ہورہی ہے۔۔۔۔ نور اور بچوں کو کیوں نہیں لائیں۔۔۔۔" کرن نے اپنی خوشی ظاہر کرتے ہوئے روحان سے گلہ کیا۔
"دراصل میرا بھی اچانک ارادہ بنا۔۔۔۔ جب رانا بھائی کی طبعیت کا سنا تو پریشان ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ اور پھر ان کی زبانی آپ کا نام سن کر مجھے مزید شاک لگا۔۔۔۔۔۔ اس لیے معاملے کی جانچ پڑتال کرنے خود یہاں آگیا۔۔۔۔۔" روحان نے مدافعتی انداز میں کہتے ہوئے رانا صاحب کو دیکھا وہ تھیکی نظروں سے اسی کو دیکھ رہے تھے۔ روحان نے رانا بھائی کے ڈانٹ سے بچنے پھر سے کرن کو مخاطب کیا۔
"بہت پیارا گھر ہے آپ کا۔۔۔۔ " روحان نے موضوع گفتگو تبدیل کر دیا۔
"تھینکس۔۔۔۔۔ اوپر بھی دو کمرے ہیں۔۔۔۔ ایک میرا بیڈروم اور ایک سٹوڈیو۔۔۔۔۔۔" کرن نے روحان کو تجسس سے اوپری منزل کی جانب دیکھتے ہوئے پایا تو وضاحت پیش کی۔
"کس چیز کا سٹوڈیو۔۔۔۔؟" روحان نے شاکی انداز میں پوچھا۔
"رائٹنگ کا۔۔۔۔۔۔ کرن اب بہت مشہور مصنفہ بن گئی ہے۔۔۔۔ کافی ناولز اور افسانے لکھے ہیں اس نے۔۔۔" جواب رانا صاحب کے جانب سے فخریہ انداز میں آیا۔ وہ صوفے کے پشت سے ٹیک لگائے ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھے تھے۔ کرن نے سر کو خم دے کر ان کی تعریف وصول کی۔
روحان کے مسرت سے آبرو پھیل گئے۔
"کیا بات ہے۔۔۔۔۔ اور آپ تو جانتی ہے کرن۔۔۔۔۔ مجھے کتابوں سے کتنی محبت ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے ناولز پڑھنے کا کتن شوق ہے۔۔۔۔ پر میں نے آج تک کسی رائٹر کا سٹوڈیو نہیں دیکھا۔۔۔۔ پلیز مجھے اپنا سٹوڈیو دکھائے نا۔۔۔۔۔" روحان خوشی سے سرشار ہوتے درخواست کرنے لگا۔
رانا صاحب روحان کی بے جا ضد پر شرمسار ہونے لگے تھے لیکن کرن ہنستے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"ٹھیک ہے۔۔۔۔ آجائے۔۔۔۔۔ " وہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
روحان بھی جوش و خروش سے اٹھا اور اس نے پیچے ہو لیا۔
"رانا صاحب آپ بھی چلیں گے۔۔۔۔" کرن نے پلٹ کر رانا صاحب کی مرضی جاننا چاہی۔
"نہیں میں یہی ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔ مجھے کمپنی دینے انہیتا جی ہے۔۔۔۔۔ آپ دونوں دیکھ آو۔۔۔۔" رانا صاحب نے مستحکم لہجے میں کہتے ہوئے ہاتھ لہرا کر انی کی طرف اشارہ کیا جو ابھی ابھی کچن میں چاول دم پر رکھ کر صوفے پر آکر بیٹھی تھی۔
کرن سر کو جنبش دیتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ روحان بھی محظوظ ہوتا ہوا اس کی پیروی کرنے لگا۔
****************&&&&**************
دوسرے منزل پر دو آمنے سامنے کمرے تھے۔ ایک کمرے کا دروازہ کھول کر کرن اندر داخل ہوئی اور دروازے پر ہی رک گئی۔ پھر لائٹس آن کر کے روحان کو اندر آنے کا کہا۔
روحان بنا پلک جھپکائے اندر داخل ہوا۔ اس کے بائیں جانب پورے دیوار پر انسان قد جتنی لائبریری نما الماریاں بنی تھی۔ اسی کے سامنے میز اور کرسیاں رکھی گئی تھی۔ میز پر کرن کا لیپ ٹام ایک لیمپ اور بہت سے قلم کاغذ موجود تھے۔
دائیں جانب بالکونی کے سامنے ایک راکنگ چیئر اور چھوٹا سا میز بھی تھا جہاں کرن کام سے تھک کر سستانے بیٹھتی اور نیچے نظر آتے سمندر کو دیکھتی۔
وسطی دیوار پر کرن کے کچھ سرٹیفکیٹس اور اس کے سوشل کاموں کی فریم شدہ تصاویر بھی آویزاں تھی۔ سٹوڈیو کی خوبصورتی بڑھانے کچھ مصنوئی انڈور پودے بھی رکھے ہوئے تھے۔ چھت سے ایک چمکتا فانوس منظر کی خوبصورتی کو مزید بڑھا رہا تھا۔
روحان محظوظ ہوتا الماریوں کے پاس آیا۔ وہاں ہر کتاب A سے Z حرف کے ترتیب سے رکھی ہوئی تھی۔ وہ ساری کتابیں میگزینز ڈائجسٹ وغیرہ مشہور و معروف لکھاریوں کے تھے جو کرن کو اپنے رائٹنگ کے لیے مدد دیتے۔
"بہت پیارا سٹوڈیو ہے۔۔۔۔ its wonderful۔۔۔۔۔" روحان تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکا۔
ٹیبل پر نظر دوڑاتے ہوتے روحان کرن کے اس عمارتی پراجیکٹ کے ڈیزائن کی ایک کاپی کو غور سے دیکھنے لگا۔
"یہ میرا نیا پراجیکٹ ہے۔۔۔۔۔ مظلوم لڑکیوں کے لیے ایک سیف ہاوس بنایا ہے ہم نے۔۔۔۔۔ رانا صاحب نے بہت محنت کی ہے میرے اس پراجیکٹ پر۔۔۔۔۔" کرن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
روحان نے وہ کتابچہ اٹھایا اور صفحہ پلٹتے ڈیزائنر دیکھتے نرمی سے گویا ہوا۔
"رانا بھائی کے زندگی کے اتار چڑھاؤ میں نے دیکھے ہیں کرن۔۔۔۔۔۔ آپ کو پتا ہے۔۔۔۔۔ قید کے دوران اور رِہا ہونے کے بعد بھی کچھ عرصہ تک وہ بہت خاموش ہوگئے تھے۔۔۔۔۔ مجھے ان کی بہت فکر رہتی۔۔۔۔۔ کہیں نا کہیں ان کے اس حالت کا ذمہ دار میں خود کو مانتا تھا۔۔۔۔ ہر طرح سے کوشش کرتا کہ وہ پھر سے زندگی کے جانب لوٹ آئے۔۔۔۔ گھر میں نہ آفس میں ان کا کہی بھی دل نہیں لگتا۔۔۔۔ میں نے پاور آف اٹارنی بھی واپس انہیں دینا چاہی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔۔۔۔۔ خود بھی ان کا دل بہلانے کی کوشش کرتا۔۔۔۔ نور اور بچوں کو ان کے ساتھ وقت بتانے کے تجویز دیتا۔۔۔۔۔ لیکن کچھ حاصل نہ ہو سکا۔۔۔۔۔ وہ ہر وقت اداس رہتے۔۔۔۔" سر جھکائے روحان کی آواز میں افسردگی در آئی تھی۔
کرن خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہی۔
"پھر ایک دن انہوں نے اچانک ورلڈ ٹور کا ارادہ بنایا۔۔۔۔ میں بہت خوش ہوا۔۔۔۔۔ میں نے سوچا چلو اسی بہانے وہ گھر اور آفس کے حدود سے نکلے گے کچھ دنیا دیکھ لیں گے تو پھر سے جینے لگے گے۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔" روحان سانس لینے رکا اور رخ کرن کے جانب کیا۔ اب وہ دونوں ایک دوسرے کے رو بہ رو کھڑے تھے۔
"لیکن ایک خوف بھی تھا۔۔۔۔۔ ڈر لگتا تھا وہ ڈپریشن کا شکار نہ ہوجائے۔۔۔۔۔ یا کسی چادثے کی زد میں نا آجائے۔۔۔۔" روحان کے تاثرات سے اس کی رانا بھائی کے لیے تشویش واضح طور پر چھلک رہی تھی۔
"آپ یونہی ڈر رہے تھے۔۔۔۔۔۔ رانا صاحب بہت مضبوط ہے۔۔۔۔۔ وہ آسانی سے حالت سے ہار نہیں مانتے۔۔۔۔۔ جو ٹھان لیں پھر وہ پا کر ہی رہتے ہیں۔۔۔۔ چاہے کتنی بھی جان لگانی پڑ جائے۔۔۔۔" کرن نے با اعتماد لہجے میں رانا صاحب کی حمایت کی۔
روحان بھی مسکرا دیا۔
"بلکل۔۔۔۔ آج ان سے مل کر میرے سارے وہم و گمان مٹ گئے ہیں۔۔۔۔۔ وہ زندگی کے جانب لوٹ رہے ہیں۔۔۔۔۔" روحان نے کرن کے جانب اشارہ کیا۔ وہ کرن کو رانا مبشر کی زندگی سے مماثلت دے رہا تھ۔
"کرن میں نے اتنے سالوں میں پہلی مرتبہ رانا بھائی کو خوش دیکھا ہے۔۔۔۔۔ اور یہ آپ کے ساتھ کی وجہ ہے۔۔۔۔۔ رانا بھائی کی خوشیاں آپ سے جڑی ہے۔۔۔۔" اس نے پر امید انداز میں کرن کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔
کرن کے تاثرات بدل گئے۔
"چند سال پہلے آپ نے میرے بھروسے ایک قدم اٹھایا تھا کرن۔۔۔۔ آج بھی میں ہی آپ کو یقین دلاتا ہوں۔۔۔۔ رانا مبشر کو ان کی خوشیاں دے دو۔۔۔۔۔ انہیں ان کی زندگی دے دو۔۔۔۔" روحان نے التجائی انداز میں درخواست کی۔
کرن کی دھڑکن تیز ہوگئی تھی۔
"میں جانتا ہوں۔۔۔۔ وہ کبھی زبان سے نہیں کہے گے۔۔۔۔ لیکن وہ یہاں صرف آپکے لیے آئے ہیں۔۔۔۔ بنا کہے بھی ان کی محبت آپ کے سامنے ہیں۔۔۔۔" روحان نے رانا صاحب کی محبت کا اعتراف کرتے ہوئے وہ ڈیزائن کا کتابچہ کرن کے آگے لہرایا۔
"انہیں تھام لو کرن۔۔۔۔ اب کی بار وہ ٹوٹے تو جڑ نہیں پائے گے۔۔۔۔" روحان نے کہتے ہوئے لب مینچھ لیئے تھے۔
کرن نے اپنے جذبات قابو رکھے ہوئے روحان کے ہاتھ سے کتابچہ واپس لیا۔
"میں پوری کوشش کروں گی روحان۔۔۔۔ آپ بے فکر رہیں۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔۔۔" کرن نے روحان کو امید دلاتے ہوئے سر کو خم دیا اور پھر رخ موڑ کر کتابچہ واپس ٹیبل پر رکھنے لگی۔ فِل وقت وہ روحان پر اپنے جذبات عیاں نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"کرن۔۔۔۔ روحان۔۔۔۔۔ نیچے آجاو۔۔۔۔۔ ڈنر لگ گیا ہے۔۔۔۔" انی نے سیڑھیوں کے سرے پر کھڑی ہو کر صدا لگائی۔
روحان بغیر کچھ کہے سٹوڈیو کے دروازے کے پار نکل گیا تو کرن نے سکون کا سانس لیا۔
*************&&&&&*************
تھوڑی دیر بعد کرن سیڑھیاں اترتی نیچے آنے لگی۔ نظریں اس کی رانا صاحب پر ٹکی ہوئی تھی۔ ڈائننگ ٹیبل پر روحان اور انی کسی لطیفے کو انجوائے کرتے ہنس رہے تھے۔ رانا صاحب بھی مسکراتے ہوئے ان کے جانب متوجہ تھے۔
ہم زندگی میں ہمیشہ بہادر رہ تو سکتے ہیں مگر دکھ نہیں سکتے۔ آزمائشیں ہمیں توڑتی ہیں بار بار۔ حوصلہ ہمیں جوڑتا ہے بار بار۔ لیکن شکست دریخت کا یہ عمل چھپائے رکھنے کی لاکھ کوشش کے باوجود بھی کسی اپنے کے سامنے ہمیں موم کر دیتا ہے
اور کرن جمیل کی زندگی میں وہ اپنا بس ایک ہی شخص تھا۔۔۔۔ رانا مبشر۔۔۔۔ اعتراف اظہار اور اعلان کے بغیر۔۔۔ نا جانے کتنی ہی مرتبہ اس نے سخت بننے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ہر بار رانا مبشر کی ان کہی محبت اسے موم کرتی جا رہی تھی۔
وہ ڈائننگ ایریا میں رانا صاحب کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی تو انہوں نے کرن کے جانب رخ کر کے دیکھا۔ کچھ پل دونوں کی نظریں آپس میں ٹکرائی۔ لیکن آج کرن نے نظریں نہیں پھیری۔ وہ ان کے چارمنگ پرسنیلٹی کے ہر نقش کو دل میں اتارنے لگی۔ کرن کے نتھوں میں پڑتی رانا صاحب کی پرفیوم کی مہک اسے ان کے سحرانگیز خصوصیت میں مدہوش کرنے کا کام اچھے سے سر انجام دیں رہی تھی۔
ان دونوں کو اپنے آپ میں ہی مگن دیکھ کر انی اور روحان مسکراتے ہوئے اپنے اپنے لیے کھانا نکالنے لگے۔ برتن کی کڑکڑانے کی آوازیں سن کر رانا صاحب حال میں لوٹ آئے اور نگاہیں جھکا دی پھر سیدھے ہو کر اپنے پلیٹ میں چاول نکالنے لگے۔ کرن بھی ہچکچاتے ہوئے اپنے گلاس میں پانی بھرنے لگی۔
کھانے کے دوران بھی انی اور روحان باتوں میں مصروف رہے ایک آدھ مرتبہ رانا صاحب نے بھی گفتگو میں حصہ لیا پر کرن زیادہ تر خاموش ہی رہی۔
آدھی رات ہونے تک وہ دونوں بھائی کرن کے گھر رہے۔ کھانے کے بعد چائے اور میوے سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے پھر رانا مبشر اور روحان کرن سے رخصت لیتے روانہ ہوگئے۔
***************&&&&*************
ہوٹل پہنچ کر روحان نے شفقت اور مہربانی سے مشکور ہوتے ہوئے رانا بھائی کو گلے سے لگایا۔
"تھینکیو رانا بھائی۔۔۔۔۔" اس نے کرن سے ملوانے پر رانا مبشر کا شکریہ ادا کیا۔
اب اسے اس وقت کا انتطار تھا جب کرن پھر سے ان کی فیملی کا حصہ بنے گی اور وہ دل میں اس وقت کے لیے دھیر ساری دعائیں بھی کر رہا تھا۔
وہی دوسرے جانب کرن اپنے بیڈ پر لیٹی چھت کو گھورتے ہوئے رانا صاحب کے ترکی آنے کے پہلے دن سے اب تک کی ساری رو داد یاد کر رہی تھی۔
رانا صاحب کا لفٹ میں اس کی فکر کرنا۔ اس کی تحفظ کے لیے ہسپتال میں اس آدمی کو جھڑپنا۔ استنبول میں منیسٹر سے خود مصافحہ کرنا۔ مسجد میں رش سے بچانے اس کے آگے آنا۔ اس کے خواب کو پورا کرنے اپنا سکھ چین گنوانا۔ رانا صاحب کے ہر ایک ادا پر کرن کو پیار آنے لگا وہ بلش کرتے مسکرانے لگی۔
"سچ کہا انی نے۔۔۔۔۔۔ سچا ہمسفر ایسا ہی تو ہوتا ہے۔۔۔۔۔" کرن نے کروٹ بدلتے ہوئے سوچا۔
"صحیح کہا روحان نے۔۔۔۔۔۔ بنا اظہار کیئے بھی ان کی محبت صاف ظاہر ہے۔۔۔۔" رخسار کے نیچے ہاتھ رکھے وہ رانا صاحب کو یاد کر کے مسرور ہوتے نیند کی وادیوں میں چلی گئی۔
*****************&&&&&***************
آج نئے عمارت کا افتتاح ہونے کا دن تھا۔ آفس میں طلوع آفتاب کے ساتھ ہی گہما گہمی شروع ہوگئی تھی۔ سب اپنے اپنے حصہ کے کام نپٹانے میں جٹے ہوئے تھے۔
کرن اور رانا مبشر پہلے ہی عمارت کا آخری معائنہ کرنے وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ دوپہر ڈھلنے کے قریب میڈیا رپورٹرز ان کے ادارے سے منسلک خواتین اور ان کے آفس کے اکثرو بیشتر کارکنان تقریب میں شرکت کرنے موجود تھے۔
انی اور روحان نے بھی اس تقریب میں شامل ہونے آئے ہوئے تھے۔
رانا صاحب ہمیشہ کی طرح ہشاش بشاش سے رائل بلیو تھری پیس سوٹ پہنے بال نفاست سے پیچے کو بنائے مہمان خصوصی کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے۔ کرن نے بھی تقریب کے نسبت سے رئل بلیو بلاوز اور بلیک ٹراؤزر کے ساتھ لانگ جیکٹ زیب تن کیا ہوا تھا۔ بالوں کی ہلکی پونی بنائے نفیس سا میک اپ کیئے وہ مہمانوں کا استقبال کرنے لگی تھی۔
چیف منیسٹر صاحب کے آمد کے ساتھ ہی آشیانہ ہوم کے افتتاح کا آغاز ہوا۔ سب منیسٹر صاحب کے پیچھے دائرے کی شکل میں کھڑے ہوگئے اور کرن کے اڈھیر عمر سفید بالوں والے ترکش باس نے منیسٹر صاحب کی رہنمائی کرتے ان کے ہمراہ ربن کاٹا۔ عمارت کی فضاء تالیوں سے گونج اٹھی۔ سب نے ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کی۔ منیسٹر صاحب سمیت بہت سے سرکاری آفسران نے کرن کو اس کے کام کے لیے سراہا۔ کرن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور اسے خوش دیکھ کر رانا صاحب کو بھی بہت خوشی ہورہی تھی۔
ربن کاٹنے کے بعد وہی عمارت کے سامنے اسٹیج بنایا گیا تھا جہاں سے کرن اور باقی آفسران کو میڈیا رپورٹرز سے پریس کانفرنس کرنی تھی۔ اسٹیج کے بیچ ایک مائک نسب کیا گیا تھا اور سامنے ہی میڈیا رپورٹرز کو بیٹھنے کی جگہ فراہم کی گئی تھی۔ سیلان میڈیا رپورٹرز کو ان کی نشستوں پر تشریف فرما کروانے کی ڈیوٹی نبھا رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس نے کرن کو تقریر کی تحریر شدہ الفاظ کا کاغذ بھی تھمایا البتہ انشا گل منظر عام سے غائب تھی۔
کرن اور رانا صاحب ہیڈ آفسر کے ہمراہ اسٹیج پر کھڑے تھے۔ کرن ہاتھ میں پکڑے کاغذ سے تقریر کے نقاط دہرا رہی تھی جب ہمایوں جہانگیر اسٹیج پر آئے۔ کرن نے حیرت سے سوٹ بوٹ میں تیار ہمایوں کو دیکھا۔
"کیسے ہے آپ۔۔۔۔۔ بہت اچھا کیا آپ آئے۔۔۔۔۔" سلام کے بعد کرن نے خوش اخلاقی سے ہمایوں کو خوش آمدید کہا۔
"آتا کیسے نہیں۔۔۔۔۔ مسٹر رانا نے خاص طور پر مجھے منایا اور تقریب کے لیے مدعو کیا۔۔۔۔ پھر نا آنے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا میرے پاس۔۔۔۔" ہمایوں نے رانا صاحب سے گلے ملتے ہوئے کہا۔ رانا صاحب نے خوشدلی سے اس کا کندھا تھپتھپایا۔
کرن نے حیرت سے رانا صاحب کو دیکھا۔
"ہم انسانوں کو زیادہ دیر کسی سے ناراضگی نہیں رکھنی چاہیئے۔۔۔۔ ناراضگی بڑھتے بڑھتے بغض و عناد اور پھر نفرت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔۔۔۔ اور نفرت ہمیں نیکی کی راہ سے بھٹکانے میں ایندھن کا کام کرتی ہے۔۔۔۔ درگزر اور معاف کرنے میں ہی بھلائی ہے۔۔۔۔۔۔ اس سے عزت اور محبت بڑھتی ہے۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے درگزر کا درس دیتے ہوئے سمجھایا۔
"مجھے بہت خوشی ہوئی۔۔۔۔۔۔ تھینکیو سو مچ آنے کے لیے۔۔۔۔" ایک مرتبہ پھر انہوں نے ہمایوں سے مصافحہ کیا۔
کرن محظوظ ہوتی رانا صاحب کی دل کو بھا جانے والی باتیں سنتی انہیں بغور دیکھ رہی تھی۔ رانا صاحب اور ہمایوں آپس میں آشیانہ ہوم پر تبصرہ کر رہے تھے۔ کرن کے باس ہاتھ میں پہنی گھڑی پر وقت دیکھتے کرن کے پاس آئے اور اسے تقریر شروع کرنے کی ہدایت دی۔ ہمایوں سر کو خم دیتا اسٹیج سے اترنے لگا۔ اور کرن مائک کے پاس آکر سیدھی ہو کر کھڑی ہوگئی۔ سب رپورٹرز نے اپنے کیمروں کا رخ کرن پر جما دیا۔ اس نے مائک پر پھونک مار کر آواز چیک کرتے ہیلو کیا۔ رانا مبشر کا اسٹیج پر مزید کوئی کام نہیں تھا وہ کرن کو میڈیا کے ساتھ کانفرنس کرتے دیکھ کر اس کے پہلو سے ہٹنے لگے تھے لیکن کرن نے ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں روک لیا۔
رانا مبشر بے یقینی سے کبھی کرن کے ہاتھ کو دیکھتے تو کبھی کرن کے چہرے کو۔ وہ رانا مبشر کی نظریں نظرانداز کئے سامنے کیمرے میں دیکھ کر میڈیا رپورٹرز کے لیے استقبالیہ کلمات بول رہی تھی۔
"میں آپ سب کی آمد کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔ آپ کی شرکت سے اس کار خیر میں آپ سب کے حصے کی نیکی بھی شامل ہوگئی۔۔۔" کرن مضبوطی سے رانا صاحب کا ہاتھ تھامے با اعتماد لہجے میں مائک پر گویا تھی۔ کچھ رپورٹرز میں کرن اور رانا مبشر کی صحبت دیکھ کر معنی خیز نظروں کا تبادلہ بھی ہوا لیکن کرن کسی کی پروا کیئے بغیر رانا صاحب کو اپنے ساتھ روکے رہی۔ استقبالیہ تقریر کر کے وہ کچھ سانس لینے رکی اور رخ موڑ کر رانا صاحب کے حیران پریشان تاثرات دیکھ کر اپنائیت سے مسکرائی۔
رانا صاحب کو اس کی با اعتماد چمکتی آنکھوں میں دیکھ کر حوصلہ ملا۔ انہوں نے اپنا ہاتھ سیدھا کرتے کرن کے ہاتھ پر گرفت مضبوط کر لی۔ اب وہ بھی کرن کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ہاتھوں میں ہاتھ تھامے با اعتماد شخصیت بنائے کیمرے میں دیکھنے لگے۔
"اس بلڈنگ کا نام آشیانہ ہوم اسی بنا پر رکھا ہے کیونکہ یہاں سب ہی مل جل کر پیار محبت سے رہیں گی۔۔۔ یہاں سارے وسائل فراہم کیئے جائے گے۔۔۔۔۔ ہر لڑکی۔۔۔۔ عورت۔۔۔۔ بچی۔۔۔۔۔ کو اس کے صلاحیتوں کے مطابق اپنا کمانے کا ذریعہ مہیا کیا جائے گا۔۔۔۔۔" کرن باری باری ہر کیمرے کو دیکھتے ہوئے بلند آواز میں گویا تھی۔
کیمروں کے پیچھے سنجیدہ انداز میں کھڑے ہمایوں بغور رانا مبشر اور کرن کو ایک ساتھ دیکھ کر سر جھٹکتے ہوئے پھیکا مسکرایا۔ وہ سمجھ گیا تھا رانا مبشر اور کرن کے مابین کسی تیسرے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
وہی دوسرے سمت مہمانوں کے آخری قطار میں بیٹھے روحان کی مسکراہٹ سب سے نمایاں تھی۔ وہ کرن کی تقریر سننے کے بجائے اس کے حرکات و سکنات مشاہدہ کر رہا تھا۔ کرن کو رانا مبشر کا ہاتھ تھامتے انہیں اپنے پاس روکتے دیکھ کر روحان خوشی سے سرشار ہوتے مشکور ہونے لگا۔ اس کے اندیشوں کو جواب مل گیا تھا۔ کرن رانا مبشر کو تھام چکی تھی۔ وہ اس مرتبہ انہیں ٹوٹنے سے بچا چکی تھی۔
روحان کے بغل میں بیٹھی انہیتا جی کی خوشی بھی کوئی کم نا تھی۔ وہ ہمیشہ سے چاہتی تھی کہ ان کی زندگی رہتے کرن اپنا گھر بسا لیں اور آج کرن کو اپنا درست ہمسفر کا انتخاب کرتے دیکھ کر ان کی آنکھیں بھر آگئی تھی۔
عمر میں اتنا فرق ہونے کے باوجود بھی کرن اور رانا مبشر پرفیکٹ کپل لگ رہے تھے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بہت جچ رہے تھے۔
کرن نے ایک نظر ستائشی انداز میں رانا صاحب کو دیکھا۔
"ایسا ہرگز نہیں ہے کہ آشیانہ ہوم میں پناہ گزین خواتین کا ان کے عزیز و اقارب سے ناتہ ہی ٹوٹ جائے گا۔۔۔۔۔ بلکہ وہ جب چاہے ان سے ملنے آسکتے ہیں۔۔۔۔۔ اور اگر ان کے فیملی ممبر کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوجائے اور پناہ گزین خواتین اپنی رضامندی سے ان کے ساتھ واپس جانا چاہے تو ہمارے ادارے کر دروازے ان کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں۔۔۔۔ کچھ لیگل کاروائی مکمل کر کے خواتین کو فیملی ممبر کے ساتھ جانے کا پورا حق ہوگا۔۔۔۔۔۔" کرن کے اس جملے پر سب نے اسے سراہتے ہوئے تالیاں بجائی۔
رانا صاحب نے شریر انداز میں مسکراتے ہوئے آبرو اچکا کر جتاتے ہوئے کرن کو دیکھا۔ کرن کی نظریں رانا صاحب سے ملی تو شرما کر مسکرا دی۔
پریس کانفرنس مکمل کر کے میڈیا رپورٹرز بلڈنگ کے اندرونی حصے کا تفصیلی جائزہ لینے لگے۔ کرن اور رانا مبشر ان کے ساتھ ساتھ چلتے انہیں لابی کوریڈورز دو عدد بڑے کچن۔ اٹیچ باتھروم سمیت 25 کمروں پر مشتمل اس بلڈنگ کی تفصیلات سے آگاہ کرنے لگے۔
****************&&&&****************
جاری ہے
❤️
👍
😢
😂
😮
🙏
197