Novel Ki Dunya
June 13, 2025 at 03:10 AM
ناول: قسمت سے ہاری میں (پارٹ 2)
از قلم: پلوشہ صافی
قسط نمبر: 09
#dont_copy_paste_without_my_permission
تقریب کی رات ہی روحان کی پاکستان واپسی تھی۔ کرن نے اصرار کر کے اس رات رانا صاحب اور روحان کو ڈنر پر مدعو کیا اور وہی سے روحان کو خود ائیر پورٹ چھوڑنے کی پیشکش کی۔
رانا صاحب کرن کو کوئی تکلف نہیں دینا چاہتے تھے لیکن روحان کرن کی دعوت ایک ہی دفعہ میں مان گیا۔
"ویلکم ویلکم۔۔۔۔۔" دروازے پر انہیں خوش آمدید کہتے انی نے روحان کے گال سے گال ٹکرا کر استقبال کیا۔ رانا صاحب نے سر کو خم دے کر مسکراتے ہوئے ان کی سروس قبول کی۔ رانا صاحب ہائی نیک شرٹ اور جینز میں ملبوس تھے اور روحان ٹی شرٹ اور بلیک پینٹ میں۔
اپنا سفری بیگ اس نے دروازے کے پاس دیوار کے ساتھ ٹکا دیا۔
گھر کے فضاء میں الگ الگ پکوانوں کی اشتہا انگیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی جس میں دیسی بریانی کی مہک سب سے برتر تھی۔
"یہ آپ کے لیے۔۔۔۔۔" ان کے لاؤنج میں داخل ہوتے کرن بھی ملنے آگئی تو روحان نے ہاتھ میں پکڑا رنگ بہ رنگی چجوٹے بڑے تازہ پھولوں کا گلدستہ کرن کو پیش کیا۔
"تھینکیو سو مچ۔۔۔۔۔۔۔ بہت خوبصورت ہے۔۔۔۔" کرن نے گلدستہ تھام کر تازہ مہک سے محظوظ ہوتے ہوئے پھولوں کے انتخاب کی تعریف کر دی۔ دعوت کے مناسبت سے کرن نے آج گرین کلر کُرتی اور پلازو پہنا تھا۔ بالوں کو باندھے کچھ لٹیں چہرے پر رہنے دی تھی۔
"ہاں بلکل۔۔۔۔۔ رانا بھائی کی چوائس ہے۔۔۔۔" روحان نے گلدستہ انتخاب کرنے کا کریڈٹ رانا صاحب کو دیا۔ وہ جو روحان کی اس شرارت سے انجان کھڑے تھے یک ٹک بے یقینی سے اسے دیکھنے لگے۔ کرن بلش کرتی ایک نظر رانا صاحب کو دیکھ کر وہ گلدستہ دائننگ ٹیبل پر رکھے گلدان میں سجانے لگی۔
"جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔" بڑے صوفے پر بیٹھتے ہوئے رانا مبشر نے روحان کے قریب ہو کر سرگوشی کی۔
"اووو رانا بھائی۔۔۔۔۔ دیکھا نہیں وہ کتنا خوش ہورہی تھی آپ کے نام سے۔۔۔۔" روحان نے لاپرواہی سے ہاتھ لہرا کر جواب دیا۔
"لیکن جھوٹ بول کر کسی کو دھوکا دینا۔۔۔۔ یہ ٹھیک بات نہیں۔۔۔۔" رانا صاحب روحان کے جھوٹ بولنے پر غصہ ہورہے تھے۔
"انی کیا پکا رہی ہے آج۔۔۔۔۔" روحان نے رانا بھائی کے مزید ڈانٹ سے بچنے کیلئے انی کو مخاطب کیا اور اٹھ کر کچن کے جانب بڑھ گیا جہاں کرن اور انی الگ الگ ڈشز بنانے میں مصروف تھی۔
وہ کرن کے ساتھ مدد برتن نکالنے میں مدد کرنے لگا اور رانا صاحب سر جھٹکتے رہ گئے۔
ایک گھنٹہ بعد ڈنر کا اہتمام پورا ہوچکا تھا۔ ویسٹرن کھانے انی نے بنائے تھے اور کچھ دیسی پکوان کرن نے۔ جس میں سے بریانی تخت کا تاج اپنے نام کر گئی تھی کیونکہ رانا صاحب اور روحان دونوں کو ہی کرن کی بنائی بریانی پسند تھی۔ کھانے کے بعد چائے کی نوبت آئی تو رانا مبشر شرٹ کے آستین اوپر چڑھا کر کچن میں بڑھ گئے۔
"رانا صاحب۔۔۔۔۔ کچھ چاہیئے۔۔۔۔۔" کرن نے استفسار کیا۔
"ہاں۔۔۔۔ ایک پتیلی۔۔۔۔۔ چائے کی پتی دودھ چینی۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ چار کپس۔۔۔" رانا صاحب نے چولہا آن کرتے ہوئے چائے کے اجزاء گنوائے۔
"رانا صاحب انی بنا رہی ہے نا چائے۔۔۔۔۔ اگر آپ کو ان کے ہاتھ کی نہیں پینی تو میں بنا دیتی ہوں۔۔۔۔۔" کرن کو رانا صاحب کا کچن میں کام کرنا مناسب نہیں لگا۔ اس نے خود چائے بنانے کی پیشکش کی۔
"کوئی شک نہیں انہیتا جی بہت اچھی چائے بناتی ہے۔۔۔۔۔۔ اور تمہاری کوکنگ کی صلاحیت بھی کمال کی ہے۔۔۔۔۔ لیکن آج میرا خود چائے بنانے کا دل کر رہا ہے۔۔۔۔" وہ پروفیشنل انداز میں اپرن پہن کر الماری سے اجزاء نکالنے لگے۔
کرن پھر بھی منع کرنے لگی تھی لیکن روحان نے ٹوک دیا۔
"بنانے دو کرن۔۔۔۔ رانا بھائی کے ہاتھ میں بہت ذائقہ ہے۔۔۔۔۔ مجھے آج بھی یاد ہے۔۔۔۔۔ میرے میٹرک کے امتحانات ہونے والے تھے۔۔۔۔ میں رات رات بھر پرھائی کرتا تھا۔۔۔۔۔ آخری مرتبہ تب میں نے رانا بھائی کے ہاتھ کی چائے پی تھی۔۔۔۔۔۔ آج اتنے سالوں بعد پھر سے وہ یادیں تازہ ہوجائے گی۔۔۔۔" روحان غیر مروی نقطہ کو دیکھتے ہوئے ماضی میں کھو گیا تھا۔
رانا مبشر بھی اس وقت کو یاد کرتے پھیکا مسکرائے۔ کرن نے روحان کی فرمائش پر خاموشی اختیار کر لی اور رانا صاحب کے ساتھ چائے بنانے کے اجزاء نکالنے میں مدد کرنے لگی۔
رانا صاحب پروفیشنل کُک کے جیسے ہر چیز برابر مقدار پتیلے میں شامل کرنے لگے۔
"اور کیا کیا بنانا آتا ہے۔۔۔۔" کرن ان کے پاس ہی شلیف سے ٹیک لگائے کھڑی ہوگئی تھی۔ جبکہ روحان لاؤنج میں آکر انی کے ساتھ ان کا من پسند ترکش ڈرامہ دیکھنے لگا۔
"ہمممم چائنیز رائس۔۔۔۔۔ اٹالین پاستہ۔۔۔۔ مٹن کڑاہی۔۔۔۔ آملیٹ۔۔۔۔ فرائز۔۔۔ چائے کافی وغیرہ۔۔۔۔۔ ایک انسان کو زندہ رہنے کے لیے جتنی کوکنگ درکار ہو۔۔۔۔ اتنی کر لیتا ہوں۔۔۔۔" رانا صاحب نے ابلتے پانی میں چائے کی پتی ڈالتے ہوئے خواب دیا۔
"یہ سب کب سیکھا۔۔۔۔۔" کرن ان کے اس نئے انداز سے محسور ہونے لگی۔
"ماں باپ کے مابین اختلافات کے باعث مجھے اکثر تین ماہ کی چھٹیاں بھی بورڈنگ اسکول میں گزارنی پڑتی تھی۔۔۔۔ خاص کر کرسمس کے دوران تو وہاں کے ملازمین بھی گھومنے چلے جایا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔ اسکول میں میرے علاوہ کوئی نا ہوتا۔۔۔۔ میں یک تہنا اسکول اور ہاسٹل میں منڈلاتا پھرتا۔۔۔۔۔ لیکن بھوک کو تھوڑی سمجھا سکتا تھا کہ میرے لیے پکانے والا کوئی نہیں ہے۔۔۔۔" چائے میں ابال آیا تو رانا صاحب دودھ شامل کرنے لگے۔ کرن ان کی آپ بیتی سنتی گم سم سی ہوگئی تھی۔
"کبھی کبھار تو کئی راتیں صرف پانی اور بسکٹ کھا کر مداوا ہوجاتا لیکن۔۔۔۔۔ جب اکیلا پن زندگی کا معمول بننے لگا۔۔۔۔۔ اور پھر روحان کی بھی ذمہ داری مجھ پر آگئی۔۔۔۔۔ تو مجبوراً خود پکانا سیکھنا پڑا۔۔۔" انہوں نے زخمی مسکرا کر کرن کے جانب دیکھا۔
کرن کا دل افسردہ ہونے لگا تھا اس سے تو مسکرایا بھی نہیں گیا۔
چائے بن گئی اور رانا صاحب نے کپنس میں ڈالی تو کرن نے آگے بڑھ کر ٹرے خود اٹھا لیا۔ اس نے چائے بنانے تو دے دی تھی۔ لیکن رانا صاحب کے ٹرے اٹھانے پر اس کا ضمیر کبھی راضی نہ ہوتا۔ اس لیے اس نے تیزی سے خود اٹھا لیا۔
"کرن۔۔۔۔" کرن کچن سے نکلنے لگی تو رانا صاحب نے اسے مخاطب کیا وہ رخ موڑ کر انہیں دیکھنے لگی۔
"وہ فلاورز۔۔۔۔ میں نے پسند نہیں کئے۔۔۔۔ وہ گلدستہ روحان لایا ہے۔۔۔۔" رانا صاحب نے دھیمی آواز میں روحان کے جھوٹ کی وضاحت پیش کی۔
کرن کھل کر مسکرائی۔ اسے رانا صاحب کا سچ کا اعتراف کرنا اچھا لگا گو کہ وہ پہلے ہی روحان کی شرارت سمجھ گئی تھی۔
"مجھے پتا ہے۔۔۔۔" اس نے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا۔ رانا صاحب اس کی معلومات پر حیران ہوگئے۔
"کیسے۔۔۔۔" انہوں نے تجسس سے پوچھا۔
"آپ کو ٹیولپ کے پھول نہیں پسند۔۔۔۔ اگر آپ گلدستہ بنواتے تو یقیناً ٹیولپ نہیں ڈلواتے۔۔۔۔" کرن نے آبرو اچکا کر چہکتے ہوئے جواب دیا اور کچن سے نکل گئی۔
رانا صاحب نے بے یقینی سے ڈائننگ ٹیبل پر پڑے گلدستے کے جانب دیکھا جس میں ٹیولپ کے بڑے بڑے پھول واضح نظر آرہے تھے۔ کرن کی اس حاضر دماغی پر وہ مسرور ہوتے ہوئے مسکرائے اور پھر سر جھٹک کر لاؤنج کے جانب بڑھ گئے۔
*************&&&*************
رات 1 بجے تک وہ سب بیٹھے باتیں کرتے رہے پھر ائیر پورٹ کے لیے نکلنے لگے۔ روحان نے انی کے کرد بازو مائل کرتے ہوئے اچھے سے رخصت لیا۔
ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کر کے وہ ائیر پورٹ پہنچے روحان کو ائیر پورٹ چھوڑنے کرن بھی ساتھ آئی تھی۔
"خیر سے جائیگا۔۔۔۔۔ اور پہچ کر اطلاع ضرور دینا۔۔۔ نور اور بچوں کو میرا بہت زیادہ پیار کہنا۔۔۔۔ اللہ حافظ۔۔۔۔" کرن نے خوش دلی سے الوداعی کلمات کہے۔
"شیور۔۔۔۔۔ اور اتنی خاطر داری کرنے کے لیے بہت شکریہ۔۔۔۔۔ پھر ملتے ہیں۔۔۔۔ بائے۔۔۔۔" کرن سے رخصت لے کر روحان چند قدم آگے کھڑے رانا صاحب کے پاس آئے۔
"جلدی آنا رانا بھائی۔۔۔۔۔ i will miss you۔۔۔۔" روحان نے رانا صاحب کے گلے ملتے ہوئے۔ رانا صاحب نے اسے مضبوطی سے اپنے حصار میں لے لیا۔
"اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔۔ دھیان سے جانا۔۔۔۔" اس کا کندھا تھپتھپا کر رانا مبشر ہدایت دی۔
روحان نے ان سے الگ ہوتے ہوئے اپنی جیب سے ایک عدد چھوٹی ڈائمنڈ کی انگھوٹی نکال کر رانا صاحب کے ہاتھ میں تھما دی اور فوراً سے مٹھی بند کر دی۔
رانا صاحب نے آبرو ریزی سے پہلے انگھوٹی کو دیکھا پھر روحان کو۔ اس نے شریر انداز میں چند قدم پیچھے کھڑی کرن کے جانب آبرو اچکا کر اشارہ کیا اور پھر رانا صاحب کو آنکھ مار دی۔
رانا صاحب روحان کا اشارہ سمجھ گئے اور کرن کے جانب مڑے بغیر رِنگ واپس کرنے لگے تھے۔
"ویسے میں یہاں آیا تو آپ کو اپنے ساتھ واپس لے جانے کے لیے تھا۔۔۔۔۔۔ ڈر رہا تھا کہیں کرن کے ملنے سے آپ کو پھر سے نہ کھو دوں۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔ یہاں آ کر معلوم ہوا۔۔۔۔۔ آپ کی خوشی اسے سے جڑی ہے۔۔۔۔ رانا بھائی اپنی خوشیاں لیتے ہوئے آنا۔۔۔۔۔۔۔" روحان نے پیار سے رانا صاحب کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے دباؤ دے کر کہا۔
"اall the best رانا بھائی۔۔۔۔ مجھے انتظار رہے گا۔۔۔۔۔" روحان نے انگھوٹی رانا صاحب کے ہاتھ میں پھر سے تھمائے ہوئے ان کے کان کے پاس سرگوشی کی۔
رانا صاحب لا جواب پوگئے تھے۔
"بائے کرن۔۔۔ " پھر اس نے رانا صاحب کا جواب سنے بغیر ہوا میں ہاتھ لہرا کر کرن کو پکارا اور اپنے بیگ کا ہینڈل پکڑے تیز قدموں سے روانہ ہوگیا۔
رانا صاحب نے لمبی سانس لیتے سر جھٹکا اور انگھوٹی جیب میں چھپا دی۔ اس وقت وہ کرن سے اس کا ذکر کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
"چلیں۔۔۔۔" جب روحان سیکیورٹی گیٹ عبور کر کے بورڈنگ کی قطار میں کھڑا ہوگیا تو کرن نے رانا صاحب کا کندھا تھپتھپا کر متوجہ کیا۔
"ہممم" وہ کرن سے نظریں چراتے پلٹے اور ائیر پورٹ سے باہر نکلنے لگے۔
***********&&&&***********
رات کا آخری پہر ہونے کو تھا۔ سب نیند کی آغوش میں بے خبر سو رہے تھے۔ لیکن رانا مبشر کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔
وہ انگلیاں باہم پھنسائے ہاتھ سر کے نیچھے رکھے سیدھے لیٹے تھے۔ پیروں کی کھینچی بنائے وہ مسلسل جھلاتے جا رہے تھے۔
ایک مرتبہ پھر دل اور دماغ کے کشمکش میں جونجھتے ان کے اضطراب میں اضافہ ہورہا تھا۔
آخر کار تنگ ہو کر وہ اٹھ بیٹھے۔ گھڑی پر وقت دیکھا اور موبائل اٹھاکر ایک کال ملائی۔
"السلام و علیکم۔۔۔۔" وہ کال پر موجود شخص پر سلامتی بھیجتے بالکونی میں جا کھڑے ہوئے۔
"وعلیکم السلام۔۔۔۔۔۔ مبشر۔۔۔۔۔ کیسے ہو۔۔۔۔۔" شیخ صاحب نے گرم جوشی سے ان کا حال دریافت کیا۔ شیخ صاحب ہر فرد کو اس کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔ کون رانا کون خان کون راچپوت یا بٹ۔ خواہ سامنے والے کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو شیخ صاحب کو کسی کے ذات پات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ وہ تو بس ہر مسلمان کو راہ راست پر لانے کی ایک ناچیز سی کوشش کیا کرتے تھے۔
رانا صاحب جانتے تھے۔ اس پہر شیخ صاحب تہجد پڑھنے ضرور اٹھے ہونگے اور اس وقت سب سے زیادہ انہیں شیخ صاحب کی ہی ضرورت محسوس ہورہی تھی اس لیے انہیں کال ملائی۔
"کیا دل بھی تھک جاتا ہے شیخ صاحب۔۔۔۔" سوال مایوس کن تھا لیکن جواب امید سے بھرا ملا۔
"ہاں بلکل۔۔۔۔ دل بھی تھک جاتا ہے۔۔۔۔۔ دنیا کی آزمائش سے۔۔۔۔ اس کے روئیے۔۔۔۔ اس کی بے رخیاں۔۔۔۔ اس کی بد سلوکیاں۔۔۔۔ اس کے بدلے ہوئے لہجے۔۔۔۔ اس کی اذیتیں۔۔۔۔۔ ماضی کے پیچھا نہ چھوڑنے والے غم۔۔۔۔۔ یہ سب دلوں کو تھکا دیتے ہیں۔۔۔۔۔" شیخ صاحب کا وہی مرہم کی مانند نرم لہجہ تھا البتہ ڈھلتی عمر کی وجہ سے آواز میں لرزش محسوس ہوا کرتی تھی۔
"مگر ان تھکے ہوئے دلوں سے کہہ دو۔۔۔۔۔۔ اللہ موجود ہے۔۔۔۔۔ وہ بے نیاز ہے۔۔۔۔۔ وہ نہیں تھکتا۔۔۔۔ اس کا سہارا ہو تو کوئی بھی پڑاو پار کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔" شیخ صاحب کی بات سن کر رانا صاحب کو واقعی بہت اچھا محسوس ہورہا تھا۔
"کبھی کبھی سب کچھ ختم ہوتا محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔ اپنا آپ پھر سے راستے سے بھٹکا ہوا لگتا ہے۔۔۔۔ کوشش کے باوجود بھی صحیح یا غلط طے نہیں کر پا رہا۔۔۔۔۔" رانا صاحب چلتے ہوئے بیڈ تک آئے اور سائیڈ ٹیبل پر رکھی اس ڈائمنڈ انگھوٹی کو اٹھا کر دیکھا۔
افتتاحی تقریب میں کرن کا ان کی جانب مہربانی سے رانا مبشر یہ تو سمجھ گئے تھے کہ کرن کے دل سے ان کے لیے نفرت ختم ہوچکی ہے لیکن وہ یہ طے نہیں کر پا رہے تھے کہ انہیں کرن کو پروپوز کرنا بھی چاہیئے یا نہیں۔ کیا وہ ان کی ہمسفر بننا چاہتی بھی ہے یا نہیں۔
"اللہ تعالی ہمارا فاطر ہے۔۔۔۔ اسی نے ہماری فطرت بنائی ہے۔۔۔۔ کسی کو نرم بنایا ہے تو کسی کو قدرے سخت۔۔۔۔۔ لیکن ساتھ میں شعور بھی دیا ہے۔۔۔۔ تا کہ انسان اپنے اچھے برے کو پرکھ سکے۔۔۔۔ یہ نا شکری کرنا۔۔۔۔ ناامید ہونا۔۔۔۔ اپنے زندگی کو کوسنا۔۔۔۔۔ خود کو برا بھلا کہنا۔۔۔۔ یہ اللہ کی بنائی فطرت نہیں ہے۔۔۔۔ اگر ہمیں اپنی ذات کو پہچاننا ہے تو اس فطرت کو پہچاننا ہوگا جس پہ اللہ نے ہمیں بنایا ہے۔۔۔۔۔۔ انسان کو اپنی ذات کو بہتر بنانے کے لیے ہر وقت محنت کرنی پڑے گی ورنہ یہ دنیا کی آلائشیں اسے اپنے لپیٹ میں لیں لیتی ہے۔۔۔۔۔ اسے اپنے آپ کو ہر وقت صاف کرنا ہوگا۔۔۔۔ اور پاکی صرف اللہ سبحان و تعالی کے ذکر میں ہے۔۔۔۔" شیخ صاحب نے ایک نئی امید دلاتے ہوئے کہا۔
رانا صاحب سمجھنے کے انداز میں سر کو اثابت میں جنبش دیتے مسکرانے لگے۔
"شکریہ شیخ صاحب۔۔۔۔۔ آپ سے بات کر کے بہت انرجی ملتی ہے۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے مشکور ہوتے ہوئے شیخ صاحب کا شکریہ ادا کیا۔
"چلو تم بھی جا کر ذکر کرو۔۔۔۔۔ اللہ تہماری ہر مشکل آسان کریں۔۔۔ اللہ حافط۔۔۔۔ میرے عبادت کا وقت ہورہا ہے۔۔۔۔" شیخ صاحب نے دعا دیتے ہوئے کال کاٹ دی۔
رانا صاحب کچھ پل اسی جگہ کھڑے سوچتے رہے۔
"صحیح کہا شیخ صاحب نے رانا۔۔۔۔۔ تم نے یہی تو چاہا تھا کہ کرن کے دل میں رحم آجائے وہ تجھ سے خوف زدہ ہونا چھوڑ دیں۔۔۔۔ وہ تجھے معاف کر دیں۔۔۔۔۔۔ پھر اب نا شکری نہیں کرنی چاہیے۔۔۔۔ جب اللہ نے تجھے یہاں تک آنے میں مدد کی ہے۔۔۔۔ تو اس کے آگے بھی کریں گے۔۔۔۔ تھینکیو اللہ۔۔۔۔ تھینکیو یو شیخ صاحب۔۔۔۔ لو یو۔۔۔۔" رانا صاحب کو نئے سرے سے امید مل گئی تھی۔ وہ خوش دلی سے مسکراتے وضو کرنے کے نیت سے واشروم چلے گئے۔
**************&&&&**************
نور اور تینوں بچے بے صبری سے روحان اور رانا صاحب کے لوٹنے کے لیے چشم بہ راہ تھے۔
پورچ میں گاڑی رکنے کی آواز آئی تو بچے تیزی سے بھاگے اور پاپا پاپا کہتے روحان سے لپٹ گئے۔ روحان نے باری باری سب کو پیار کر کے خود سے لگایا۔ نور بھی اس کے استقبال کے لیے اپنی نوبت کا انتطار کرنے لگی۔
بچوں سے فارغ ہو کر روحان نے نور کو بانہوں میں لے لیا اور اس کے پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے حال احوال دریافت کرنے لگا۔
نور نے روحان کے حصار سے ہی سر اٹھا کر گاڑی میں جھانکا۔
"روحان رانا بھائی نہیں آئے۔۔۔۔" اس نے حیرت سے روحان کو دیکھا۔ روحان نے رانا بھائی کی ساتھ نا آنے کی خبر راز رکھی تھی۔ اس نے اسی انداز میں ہی نفی میں سر ہلایا۔
"اور تم نے۔۔۔۔۔ میری بات کیوں نہیں کرائی کرن سے۔۔۔۔ کتنی دفعہ بولا کال پر بات کرواو۔۔۔۔" نور نے اس سے الگ ہوتے ہوئے لاؤنج میں داخل ہوتے منہ بناتے ہوئے گلہ کیا۔
"رانا بھائی تو اب کرن کو لے کر ہی آئے گے۔۔۔۔ تو جب وہ آئے گی پھر مل کر جتنی چاہو باتیں کر لینا۔۔۔۔" روحان نے صوفے پر بیٹھ کر ملازم کے ہاتھوں سے پانی کا گلاس تھامتے ہوئے وضاحت دی۔
"کیا۔۔۔۔۔ مطلب ان کی صلاح ہوگئی۔۔۔۔" نور نے تجسس لیے روحان کے بازو پر ہاتھ رکھ پوچھا تو روحان نے مسکرا کر سر اثابت میں ہلایا۔
"یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔۔ اب رانا بھائی پھر سے سیٹل ہوجائے گے۔۔۔۔" نور خوشی سے چہک اٹھی تھی۔
"ہاں بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔۔" روحان گلاس ٹیبل پر رکھ کر اپنی چہکتی بیوی کو بانہوں میں لیتے اس پر جھک گیا۔
نور روحان کے اس حملے کے لیے تیار نہیں تھی وہ اس کے اچانک رقبت سے کسمسا سی گئی۔
"کیا کر رہے ہو روحان۔۔۔۔۔۔ کوئی دیکھ لے گا۔۔۔۔۔۔۔" نور نے اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن روحان کی شدتوں نے اسے اپنے حصار میں جکڑا ہوا تھا وہ مزید کچھ کہہ نا سکی۔ روحان اپنے لب اس کے لبوں میں پیوست کیئے اس پر اپنی محبت لٹا رہا تھا۔
*************&&&&*************
کرن آفس کے کیبن میں آشیانہ ہوم میں داخل ہوئی نئی لڑکیوں کی فہرست مطالعہ کر رہی تھی جب سیلان کچھ خالی آسامیوں کی فائل پکڑے اندر داخل ہوا۔ فائل میں آشیانہ ہوم میں قیام پذیر خواتین کے عمر کے مطابق کام دیئے جانے کی لسٹ بھی تھی۔
"سیلان۔۔۔ انشا گل کہاں ہے۔۔۔۔ دو دن سے نظر نہیں آئی۔۔۔۔۔ تقریب میں بھی نہیں آئی تھی۔۔۔۔" کرن نے متفکر انداز میں انشا گل کے بارے میں پوچھا۔
کرن کے سوال پر سیلان لب کاٹتے ہوئے کنکارا۔
"میم وہ۔۔۔۔۔۔ فاطمہ کی طبیعت ناساز ہے۔۔۔۔ وہ دو سے ہاسپٹلائز ہے۔۔۔۔" سیلان نے افسردگی سے کرن کو انشا گل کے در پیش مشکل سے روشناس کرایا۔
کرن فاطمہ کی طبیعت کا سن کر مزید پریشان ہوگئی۔
"واٹ۔۔۔۔۔ بتایا کیوں نہیں۔۔۔۔۔ کس ہسپتال میں ہے۔۔۔۔" کرن اپنی سیٹ پر سے اٹھی اور تیز تیز اپنا بیگ سمیٹنے لگی۔
"آپ تقریب کے لیے بہت خوش تھی اس لیے انشا نے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہا۔۔۔۔" سیلان نے ہسپتال کا ایڈریس بتاتے ہوئے انشا گل کے جانب سے حمایت کی۔
کرن ایک گلہ آمیز نظر سیلان پر ڈال کر کیبن سے نکل گئی۔ لفٹ کا بٹن دباتے ہوئے اس نے ساتھ ساتھ رانا صاحب کو بھی کال ملائی اور انہیں فاطمہ کے متعلق آگاہ کیا۔
"کرن تم ہسپتال پہنچو۔۔۔۔۔ میں تم سے وہی ملتا ہوں۔۔۔۔" رانا صاحب اس وقت ہوٹل روم میں آئینہ کے سامنے کھڑے اپنا کوٹ پہن رہے تھے۔ کرن کو دلاسہ دیتے انہوں نے اپنی بقیہ تیاری مکمل کی اور ہوٹل سے سیدھے کرن کے بتائے ایڈریس کے لیے کیب لیں لی۔
***************&&&&*************
کرن ہسپتال کے چمکتے فرش پر بھاگتی دل کے امراض سے متعلقہ وارڈ میں داخل ہوئی۔ انشا گل بیڈ پر آکسیجن ماسک لگائے خون کی ڈرپ لگے بے جان پڑی فاطمہ کے آگے بیٹھی تھی۔
"انشی۔۔۔۔" کرن نے ہمدردی سے انشا گل کو اس کے گھر کے نام سے مخاطب کیا۔
"آپی۔۔۔۔" انشا گل نے اپنا گھریلو نام سنتے سر اٹھایا تو کرن کو اپنے سرہانے پا کر جذباتی ہوگئی اور اس سے لپٹ کر رونے لگی۔
"آپی کہتی ہو۔۔۔۔۔ بہن کا درجہ بھی دیتی ہو۔۔۔۔ لیکن ساری تکالیف اکیلے برداشت کرنے چلی تھی ہممم۔۔۔۔" کرن اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے اسے دلاسہ دینے لگی۔ اسی اثناء رانا صاحب بھی پہنچ گئے تھے۔
"سب ٹھیک ہوجائے گا انشا۔۔۔۔۔ ہمت سے کام لو۔۔۔۔۔ ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں۔۔۔۔" رانا صاحب نے اسے تسلی دینا چاہی۔
انشا گل کا شوہر یلدز (yildiz) بھی فاطمہ کے رپورٹ کارڈز لیئے وہاں آنپہنچا۔
"ڈاکٹرز کا کہنا ہے سراخ کا سائز بڑھ گیا ہے۔۔۔۔ فاطمہ کی باڈی کو پورے مقدار میں آکسیجن مہیا نہیں ہو پا رہی۔۔۔۔۔ اس لیے جلد از جلد آپریشن کروانا پڑے گا۔۔۔۔۔" یلدز نے بے آواز آنسو بہاتی انشا گل کو کندھے سے تھام کر رانا صاحب اور کرن کو صورتحال سے آگاہ کیا۔
"لیکن۔۔۔۔۔" لمبے چوڑے یلدز کو اپنی بچی کا حال بیان کرتے تکلیف ہورہی تھی۔
"لیکن یہ بہت رسکی آپریشن ہے۔۔۔۔ 100 میں سے صرف 2 بچے ہی زندہ بچ پاتے ہے۔۔۔" اس نے اففف کرتے بے بسی سے سانس خارج کی۔
"میں آپریشن کے لیے راضی نہیں ہوں۔۔۔۔۔ میں اپنے ہی ہاتھوں اپنی بیٹی کو موت کے کنویں میں کیسے دھکیل سکتی ہوں۔۔۔۔" انشا گل نفی میں سر ہلاتے فاطمہ کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گئی۔
رانا صاحب نے بے حس و حرکت پڑی فاطمہ کو دیکھا۔ ان کی یادوں کے پردے پر فاطمہ سے ہوئی پہلی ملاقات لہرا گئی جس میں وہ چہکتے ہنستے ان سے ملی تھی۔ انہیں بہت افسوس ہورہا تھا۔
"کرن۔۔۔ میرا ایک اسکول میٹ امریکی دوست ہے۔۔۔۔ وہ اب ورلڈ ٹاپ ٹین ہارٹ اسپیشلسٹس میں سے ہے۔۔۔۔ اس نے ایسے کئی کیسس دیکھے ہیں۔۔۔۔ میں اس سے بات کر کے فاطمہ کا کیس بتاتا ہوں۔۔۔۔ ہوسکتا ہے کوئی تسلی بخش راستہ مل جائے۔۔۔۔" انہوں نے اپنے دوست کے متعلق تجویز دیتے ہوئے کہا۔ کرن نے پھیکا مسکرا کر سر کو خم دیا۔ رانا صاحب ریک اٹکنسن کو کال کرنے کے لیے وارڈ سے باہر نکل گئے۔
**************&&&&*************
دس سے پندرہ منٹ بعد وہ کال سے فارغ ہوئے تو کرن ان کے پاس آئی۔
"کیا کہا آپ کے دوست نے۔۔۔۔" کرن نے رانا صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر متوجہ کیا۔
"ریک کا بھی یہی کہنا ہے۔۔۔۔ معاملہ ہاتھ سے نکل چکا ہے۔۔۔۔۔۔ آپریشن ہی آخری راستہ ہے ہمارے پاس۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے اداسی سے سر جھٹکا۔
"لیکن انشا گل بہت جذباتی ہورہی ہے۔۔۔۔۔ وہ آپریشن کے لیے نہیں مانے گی۔۔۔۔۔" کرن نے تشویش سے لب کاٹتے انشا گل کو دیکھا۔
رانا صاحب نے بھی اسی سمت رخ موڑ کر انشا گل کو دیکھا لیکن وہ جانتے تھے اس سے بات کرنا بیکار ہے تو انہوں نے یلدز سے مشورہ کرنا مناسب سمجھا۔ وہ یلدز کو اپنے ساتھ وارڈ سے باہر لیں آئے اور ویٹنگ ایریا میں لمبے بینچ پر دونوں ساتھ ساتھ بیٹھ گئے۔
"یلدز۔۔۔۔۔ تم فاطمہ کے باپ ہو۔۔۔۔۔ ہم میں سے کوئی کچھ بھی کہے لیکن فاطمہ کی زندگی کا حتمی فیصلہ تم نے ہی کرنا ہے۔۔۔۔۔۔ تم مجھے بتاو۔۔۔۔۔ تم کیا چاہتے ہو۔۔۔۔" رانا صاحب نے اس کے کندھے کو تھپکتے ہوئے بڑے بھائی جیسے پوچھا۔
"میں بس اپنی بچی کو اس تکلیف سے نجات دلانا چاہتا ہوں۔۔۔۔ وہ ہمیشہ میرے پاس آکر روتی تھی کہ بابا۔۔۔۔۔ مجھے روز روز کی ان ہیوی ادویات کھانے سے۔۔۔۔۔ روز روز انجیکشن لگانے سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔۔۔۔۔ دل کے سراخ سے بچ بھی جاوں تو اس درد سے ضرور مر جاوں گی۔۔۔۔" یلدز کی فاطمہ کی کہی بات یاد کر کے آنکھیں بھر آگئی تھی وہ رخ پھیر کر آنکھوں کے بھیگے کنارے صاف کرنے لگا۔
"میں سمجھ سکتا ہوں۔۔۔۔۔ یہ وقت بہت سخت ہے۔۔۔۔۔ پر یلدز۔۔۔۔۔۔ ہم سب مسلمان ہے۔۔۔۔ اللہ پر ایمان رکھتے ہے۔۔۔۔ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔۔۔۔ اگر اس نے فاطمہ کی مزید زندگی لکھی ہے تو اس آپریشن سے سو میں سے جو دو بچے بچ پاتے ہیں۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے ان میں سے ایک فاطمہ ہو۔۔۔۔" رانا صاحب نے نرمی سے سمجھاتے ہوئے یلدز کو امید دلائی۔
اس نے زخمی مسکرا کر سر کو اثابت میں خم دیا۔
"تم انشا گل سے بات کرو۔۔۔۔۔ میں ڈاکٹر کو آپریشن کی تیاری کرنے کا کہہ کر آتا ہوں۔۔۔۔" رانا صاحب نے ہمت دلانے اس کے کندھے کو تھپتھپایا۔
رانا صاحب کا مشورہ مان کر یلدز وارڈ میں واپس آیا جہاں کرن اور انشا گل متفکر بیٹھے تھے۔ اس نے قریب آکر فاطمہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور رخسار پر بوسہ دے کر پیار کیا۔ انشا گل کو اس کی حرکات مشکوک لگی وہ کرسی پر سے اٹھ کر یلدز کے پاس آئی۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتی رانا صاحب ایک فائل تھامے اندر داخل ہوئے اور یلدز کو دستخط کرنے کا کہا۔
"یلدز یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔۔ کس چیز کے کاغذات ہے یہ۔۔۔" اشنا گل روہانسی ہوگئی۔
"میں ڈاکٹرز کو آپریشن کرانے کی اجازت دیں رہا ہو انشی۔۔۔۔۔ یہ اجازت نامہ کے پیپرز ہیں۔۔۔۔" یلدز نے سپاٹ انداز میں جواب دیا اور جیب سے قلم نکال کر دستخط کرنے لگا۔ اس نے اپنا لہجہ بے لچک بنا دیا تھا تاکہ انشا گل کے آنسو اسے کمزور نہ کر سکے۔
"نہیں یلدز مت کرو سائن۔۔۔۔۔ ہماری بیٹی۔۔۔۔۔" انشا گل نے روتے ہوئے وضاحت دینا چاہی پر یلدز نے اسے ٹوک دیا۔
"ہماری بیٹی کے لیے ہی کر رہا ہوں یہ سب۔۔۔۔۔ تم کیا چاہتی ہو انشی۔۔۔۔ فاطمہ ایسے بے جان سی مشینوں میں جکڑی رہے۔۔۔۔۔ زندگی بھر وہ ادویات اور علاج کی محتاج رہے۔۔۔۔۔" یلدز نے گلہ آمیز انداز میں کہا۔ اس کی آواز بلند ہونے لگی تھی۔ نا چاہتے ہوئے بھی اسے غصہ آنے لگا۔
یلدز کو غصہ ہوتے اور سب کے سامنے خود کو جھڑکتے دیکھ کر انشا گل چپ ہوگئی۔ لیکن وقت رہتے یلدز نے اپنے طیش کو قابو کیا اور پر امید نظروں سے انشا گل کو دیکھا
"اس طرح مشینوں کے ذریعے تم اسے کتنے سال زندہ رکھ پاو گی۔۔۔۔۔ میں روز روز اس تکلیف کی وجہ سے ہماری بیٹی کو گھٹ گھٹ کر مرتے نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔۔ اور زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔۔۔۔ اگر اس نے فاطمہ کی مزید زندگی لکھی ہے تو سو میں سے جو دو بچے بچ پاتے ہیں۔۔۔۔ ان میں سے ایک ہماری فاطمہ بھی تو ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔" یلدز نے رانا صاحب کا جملہ دوہرا کر انشا کو امید دلانے کی کوشش کی۔
"انشی۔۔۔۔ یلدز بے (بھائی) ٹھیک کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔ تمہارے تھوڑی ہمت کرنے سے فامطہ بچ سکتی ہے تو پلیز۔۔۔۔۔ انہیں اجازت دینے دو۔۔۔۔" کرن نے انشا گل کو بازووں میں تھام کر التجائی انداز میں کہا۔
انشا گل نے ان سب کے چہروں پر امید کی لہر دیکھی تو آنسو صاف کرتے سر اثابت میں ہلایا۔ یلدز نے بیوی کی رضامندی ملتے ہی سائن کئے اور فائل رانا صاحب کو تھما دی۔
"سب ٹھیک ہوجائے گا بس تم دعا کرو۔۔۔۔" یلدز نے انشا گل کو بانہوں میں لے لیا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے لگا۔
***********&&&***********
جاری ہے
❤️
👍
😢
🙏
😂
😮
216