Novel Ki Dunya
June 13, 2025 at 08:48 AM
ناول: قسمت سے ہاری میں (پارٹ 2)
از قلم: پلوشہ صافی
قسط نمبر: 10
#dont_copy_paste_without_my_permission
اس دن صبح سویرے ہی رانا صاحب اور کرن ہسپتال پہنچے ہوئے تھے۔ آج فاطمہ کا آپریشن کیا جانا تھا۔ انشا گل اور یلدز کے والدین بھی موجود تھے۔
وہ سب ہی آپریشن تھیٹر کے انتظار گاہ میں جمکٹا بنائے بیٹھے تھے۔ سب اس معصوم بچی کی زندگی کے لیے دعائیں پڑھ پھونک رہے تھے۔
وقفے وقفے سے ریک اٹکنسن بھی رانا صاحب کو کال کر کے صورتحال دریافت کرتا۔
دو گھنٹے بعد ڈاکٹر اپنا ماسک اتارتا آپریشن تھیٹر سے باہر آیا۔ سب ہی گھر والے خوشی کی خبر سننے دل تھامے اس کے آگے کھڑے ہوگئے۔
"معجزہ ہوتے دیر نہیں لگتی۔۔۔۔۔ یقیناً اللہ کو آپ سب بہت عزیز ہیں۔۔۔۔۔۔ اس نے آپ سب کی دعائیں قبول کر لی ہے۔۔۔۔۔ آپریشن کامیاب رہا۔۔۔۔" ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے انہیں خوشی کی نوید سنائی۔
کرن اور رانا مبشر سمیت سب اللہ کا شکر ادا کرتے ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرنے لگے۔
ایک ہفتے تک فاطمہ وارڈ میں زیر نگرانی رہی۔ آپریشن کے باعث وہ کمزور ہوگئی تھی لیکن وہ بچ گئی تھی۔ وہ ٹھیک ہوگئی تھی۔ اس کے دل کا سراخ بند کر دیا گیا تھا۔
جس دن فاطمہ ہوش میں آئی اور باقاعدہ سب سے باتیں کرنے لگی تو رانا صاحب اور کرن اس کی عیادت کرنے ہسپتال گئے۔
"تھینکیو اینجل۔۔۔۔۔ یہ سب آپ کے بدولت ہو پایا ہے۔۔۔۔" ننھی فاطمہ نے رانا مبشر کا شکریہ ادا کیا۔
اسے اپنی زندگی بچانے کے سبب رانا صاحب لگے کیونکہ ان ہی کے مشورے سے اس کے والدین آپریشن کے لیے تیار ہو سکے تھے۔
"کرن آپی نے شروعات میں آپ کو بہت پریشان کیا۔۔۔۔ جانتے ہے کیوں۔۔۔۔ کیونکہ آپ ان کے پراجیکٹ کے نہیں۔۔۔ میرے آپریشن کے اینجل(فرشتہ) تھے۔۔۔۔" فاطمہ اپنی معصومیت میں بہت بڑی بات کہہ گئی تھی۔
رانا صاحب اسٹول بیڈ کے قریب کر کے فاطمہ کے سراہنے بیٹھے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھے۔
"ہوتا وہی ہے جو قسمت میں لکھا ہو۔۔۔۔۔ بس کبھی کبھار کوئی اس کام کا وسیلہ بن جاتا ہے۔۔۔۔ جیسے آج میں تمہارے لیے اینجل ثابت ہوا ہوں۔۔۔۔ ہوسکتا ہے کل کو تمہاری کوئی نیکی تمہیں کسی کا اینجل بنا دے۔۔۔۔۔ اس لیے ہمیشہ نیکی کرتی رہنا۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے پیار کیا۔
کرن بھی کافی دیر اس فیملی کے ساتھ بیٹھی باتوں میں مشغول رہی۔ ایک آدھ مرتبہ اس نے فاطمہ کے ساتھ باتوں میں مصروف رانا صاحب کے جانب بھی دیکھا۔ اس کے دل میں رانا صاحب کے لیے محبت شدت اختیار کر رہی تھی۔
*************&&&&&************
رات 11 بجے وہ اپنے ہوٹل پہنچے تو کوریڈور میں ایک ویٹر نے انہیں مخاطب کیا۔
"سر آپ کے لیے کورئیر آیا ہے۔۔۔۔" اس ویٹر نے ایک بند لفافہ ان کے ہاتھ میں پکڑایا۔
رانا صاحب نے مشکور ہوتے ہوئے لفافہ لیا اور حیرت سے لفافہ الٹ پلٹ کر دیکھتے اپنے روم میں آگئے۔
فریش ہونے کے بعد جب فرست سے انہوں نے وہ لفافہ کھول کر اس میں موجود خط دیکھا تو ان کے آبرو پھیل گئے۔ چہرے پر مایوسی چھا گئی۔
**************&&&&*************
کرن گہری نیند سو رہی تھی جب اس کے موبائل میں وائبریشن ہونے لگی۔ پہلی رِنگ پر تو اسے محسوس ہی نہیں ہوا۔ دوسری مرتبہ وائبریشن پر اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولی۔ عنودگی میں ہی کال رسیو کر کے اس نے پلکیں جھپکاتے ہوئے ہیلو کہا۔
"کرن۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے نرمی سے مدھم آواز میں مخاطب کیا۔
وہ جو ابھی بھی نیند میں تھی اور اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی خواب دیکھ رہی ہے رانا صاحب کی مدھم آواز سن کر چونک گئی۔ ایک دم سے اس کی نیند اڑ گئی وہ گھڑی پر وقت دیکھتے جہاں آدھی رات کے ڈھائی بج رہے تھے؛ اٹھ بیٹھی
"رانا صاحب۔۔۔۔ سب خیریت۔۔۔۔۔ اس وقت کال کیا۔۔۔۔۔" اسے اتنی رات گئے رانا صاحب کے کال کرنے پر فکر ہونے لگی۔
"مل سکتی ہو۔۔۔۔" رانا صاحب نے اس کے سوال کو نظر انداز کر کے اپنا مطالبہ ظاہر کیا۔
کرن ان کے ایسے کال کرنے پر حیران تو تھی ہی ان کے ملنے کے خواہش پر مزید شاک ہوگئی۔
"اس وقت" اس نے متذبذب ہو کر پوچھا۔
"ہممم۔۔۔۔ میں اس وقت تمہارے اپارٹمنٹ کے پیچھے ساحل کنارے کھڑا ہوں۔۔۔۔" انہوں نے شکستہ لہجے میں جواب دیا۔
کرن نے رخ پلٹ کر بالکونی کے جانب دیکھا۔ اس کے لمبے کھلے بال لہرا کر آگے ہوگئے۔ وہ ہاتھ سے بال پیچھے کرتی سلپر پہن کر تیزی سے بالکونی تک آئی اور پردہ ہٹا کر نیچے دیکھا تو اسے عین سامنے لمبا چوڑا وجود موبائل کان سے لگائے کھڑا دکھائی دیا۔ اس طرف اندھیرا ہونے کے باعث وہ چہرا تو نہیں دیکھ سکی لیکن قد کاٹ سے وہ رانا صاحب ہی تھے۔
رانا صاحب سر اوپر اٹھائے کرن کے بالکونی کے جانب ہی دیکھ رہے تھے۔ کرن کو پردہ ہٹا کر انہیں دیکھتے پا کر انہوں نے کال کاٹ دی اور موبائل جیب میں رکھ دیا۔
کرن کے موبائل کے جانب متوجہ ہونے سے پہلے ہی کال بند ہوچکی تھی۔ وہ جانا تو نہیں چاہتی تھی لیکن اس وقت رانا صاحب کا اس طرح وہاں آنا اسے تجسس میں مبتلا کر رہا تھا اس لیے اس نے نائٹ ڈریس کے اوپر ہی کندھوں پر شال اوڑھا اور ان سے ملنے نکل گئی۔
************&&&&*************
رانا صاحب ہاتھ کمر کے پیچھے باندھے سمندر کے جانب رخ کر کے کھڑے تھے۔ کرن بال کان کے پیچھے اڑسھتی ان کے پہلو میں کھڑی ہوگئی۔
"کیا ہوا۔۔۔۔۔ اس وقت یہاں بلایا۔۔۔۔ میرا مطلب صبح ہی تو ملے تھے۔۔۔۔ نیند نہیں آرہی تھی کیا۔۔۔۔" کرن نے ہنسی مزاق کرتے خوشگواریت سے پوچھا۔
رانا صاحب سر جھکائے پورا پلٹے اور کرن کے رو بہ رو کھڑے ہوئے۔ ان کے سپاٹ تاثرات دیکھ کرن کو اپنی حرکت پر پشیمانی ہوئی۔ رانا صاحب اس وقت بلکل ہنسی مذاق کے موڈ میں نہیں لگ رہے تھے۔ کرن کی مسکراہٹ سمٹ گئی اور اس نے سر جھکا دیا۔
"کرن۔۔۔۔ میں جا رہا ہوں۔۔۔۔" انہوں نے بغیر تہمید باندھے سپاٹ انداز میں کہا۔ ان کے آواز سے تکلیف چھلک رہی تھی۔
کرن کی شاک سے آنکھیں بڑی ہوگئی۔ دل زور سے دھڑکنے لگا۔
"میرا ویزا کافی عرصے سے ختم ہوچکا ہے۔۔۔۔۔ کل مجھے ایمبیسی سے باقاعدہ نوٹس ملا ہے۔۔۔۔۔ اسی ہفتے کے اندر اندر مجھے ترکی سے خارج ہونا پڑے گا۔۔۔۔ ورنہ میرے خیلاف کانونی کاروائی کی جائے گی۔۔۔۔۔" انہوں نے رات کو موصول ہوئے خط کے بارے میں بتایا۔
کرن کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے وہ اداس ہونے لگی۔ رانا صاحب کے بغیر اب اسے اپنی زندگی تصور کرنے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ عادت لگنا محبت ہونے سے زیادہ خطرناک ہے۔ کرن کو رانا صاحب کی عادت لگ چکی تھی۔ وہ انہیں اپنے پاس روکنا چاہتی تھی لیکن اس سے کوئی بھی ردعمل نہیں دیا گیا۔
"مت جائے رانا صاحب۔۔۔۔۔" افسردگی سے وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی۔
"جس مقصد کے لیے آیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ پورا ہوگیا۔۔۔۔۔ آشیانہ ہوم۔۔۔۔۔ بہت اچھے سے بن گیا۔۔۔۔۔۔ اب یہاں رک کر کیا کروں گا۔۔۔۔ لیکن ایک اور ضروری کام۔۔۔۔ جسے تکمیل دیئے بغیر میں یہاں سے جا نہیں سکوں گا۔۔۔۔" رانا صاحب اپنا اگلا جملہ کہنے مناسب الفاظ تلاش کرنے لگے۔ کرن ساکت کھڑی رہی۔
"میں نے تمہیں آج تک جتنے بھی دکھ پہنچائے ہیں۔۔۔۔۔ اس کے لیے میں معذرت چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔۔۔۔ بیلا سے تو اپنے گناہوں کا مداوا نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔ پر تم معاف کرو گی۔۔۔۔۔ تو یوں لگے گا اس نے بھی معاف کر دیا۔۔۔۔۔" رانا صاحب کی آنکھیں بھیگنے لگی تھی۔
کرن سانس لینا بھول گئی تھی۔
"مجھے غرور اور طاقت کی دھند نے اندھا کر دیا تھا۔۔۔۔ نا شکرا ہو گیا تھا۔۔۔۔ اپنوں کی قدر نہیں کر پایا۔۔۔۔۔ لیکن اب سمجھ آگئی ہے تو۔۔۔۔۔ میں اس بوجھ تلے جی نہیں سکوں گا۔۔۔۔۔ مجھے اس بوجھ سے آزاد کر دو کرن۔۔۔۔ آئی ایم سوری۔۔۔۔" رانا صاحب کے چند آنسو ٹوٹ کر رخسار پر بہنے لگے۔ وہ ہاتھ جوڑنے لگے تھے کہ کرن کرنٹ کھا کر حواس میں لوٹ آئی اور تیزی سے رانا صاحب کے ہاتھ تھام لیئے۔
"پلیز رانا صاحب۔۔۔۔۔ مجھے مزید شرمندہ مت کیجیئے۔۔۔۔۔۔ آپ نڈر رعب و دبدبہ کے حامل ہی اچھے لگتے ہیں۔۔۔۔۔ ایسے روتے ہوئے نہیں۔۔۔۔" اس پل کرن کو احساس ہوا وہ دنیا ختم ہوتے دیکھ سکتی ہے لیکن اس شخص کے آنکھوں میں آنسو کبھی برداشت نہیں کر سکتی۔
اور وہ سب کے سامنے آن بان شان سے رہنے والا رانا مبشر آج کرن کے سامنے یوں بکھر رہا تھا۔ یوں ٹوٹ رہا تھا جیسے وہ اس کی ذات کا آئینہ تھی۔ جس کے سامنے ٹوٹ کر بکھرتے ہوئے اسے کوئی شرم نہیں تھی کوئی عار نہ تھا۔
"مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔۔۔۔ کوئی گلہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں آپ کو بہت پہلے ہی معاف کر چکی ہوں۔۔۔۔۔ یوں ہاتھ جوڑ کر مجھے اپنے ہی نظروں میں مت گرائے۔۔۔۔۔نہیں تو میں دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی قابل نہیں رہوں گی۔۔۔۔۔" کرن رانا صاحب کے ہاتھوں پر اپنی پیشانی ٹکا کر رونے لگی۔
بہت سے لمحے یوں ہی خاموشی سے اپنے اپنے اعمال پر آنسو بہاتے گزرے۔
تھک ہار کر وہ وہی ریت پر گھٹنوں کے گرد بازو مائل کر کے بیٹھ گئے۔ دل کی تکلیف جب آنسووں میں بہہ گئی اور کچھ سنبھل گئے تو ایک لمبی سانس لے کر رانا صاحب پھر سے گویا ہوئے۔
"پتا ہے کرن۔۔۔۔۔ مجھے لگتا تھا میں تم سے کبھی معافی نہیں مانگوں گا۔۔۔۔ جب بھی معذرت کرنے کا سوچتا دل کے کئی زخم تازہ ہوجاتے۔۔۔۔" رانا صاحب سمندر کی لہروں کو دیکھتے ہوئے اپنے ہی بات پر استحزیہ ہنسے۔
"اور مجھے لگتا تھا میں آپ کو کبھی معاف نہیں کر پاوں گی۔۔۔۔ مجھے لگتا تھا کہ اب میرے دل میں آپ کے لیے کبھی کوئی گنجائش پیدا نہیں ہوگی۔۔۔۔" کرن نے رانا صاحب کے بازو پر سر ٹکائے ہوئے کہا
"تمہیں غلط لگتا تھا۔۔۔۔۔ کرن کے دل میں رانا مبشر کے لیے ہمیشہ سے گنجائش رہی تھی۔۔۔۔ بس اس پر لگے نفرت کی کڑی کو توڑنا تھا۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے وضاحت دیتے ہوئے اپنے بازو پر سر رکھے کرن کو دیکھا۔
کرن رانا صاحب کے زبانی اپنے دل کا حال سن کے بلش کرنے لگی۔ گیلی سانس اندر کھینچ کر وہ سیدھی ہو کر بیٹھی۔
"اب تو آپ نہیں جائے گے نا۔۔۔۔۔" کرن نے انہیں روکنے کی ایک اور کوشش کی۔
"میں جانا چاہتا تو نہیں ہوں۔۔۔۔ پر جانا تو پڑے گا۔۔۔۔ میرا گھر۔۔۔۔ میرا بزنس۔۔۔۔۔ سب وہاں ہے۔۔۔۔۔" انہوں نے سرد سانس خارج کر کے کہا۔
کرن کا منہ بن گیا وہ اداسی سے سر جھا گئی۔
رانا صاحب نے جھجکتے ہوئے اسے پھر سے مخاطب کیا۔
"تو کیا تم۔۔۔۔۔ میری زندگی میں آنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے جیب سے وہ ڈائمنڈ کی انگھوٹی نکال کر کرن کے سامنے پیش کی۔
کرن ایسے اچانک پروپوزل پر حیرت زدہ ہوگئی۔
"بلکل۔۔۔۔" بنا وقت ضائع کئے اس نے ہامی بھری اور اپنا بایاں ہاتھ سیدھا کر کے آگے کیا۔ اس نے سوچا نہیں تھا کہ رانا صاحب اتنا سب ہونے کے بعد اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہے گے اسی لیے اس نے خود اس موضوع پر کبھی بات نہیں کی تھی اور آج رانا صاحب کے جانب سے پروپوزل پر وہ خوشی سے پھولے نہیں سماء رہی تھی۔
"سوچ لو۔۔۔۔ پھر سے جنون سوار ہوگیا تو۔۔۔۔" رانا صاحب نے انجان سا اندیشہ ظاہر کیا۔
"تو اگلی دفعہ جیل نہیں بھجواو گی۔۔۔۔۔ سیدھے شوٹ کر دوں گی مسٹر مبشر۔۔۔۔۔" کرن نے گردن اکھڑا کر کہا۔
"بہت ہمت آگئی ہے۔۔۔۔۔" رانا صاحب محظوظ ہوتے آبرو اچکاتے ہوئے ہنسے۔
"ہمت تو بہت آگئی ہے۔۔۔۔۔ لیکن آپ کی سچی محبت کے آگے ہار گئی۔۔۔۔" کرن پیار بھرے انداز میں انہیں دیکھنے لگی۔
رانا صاحب خوش ہو کر مسکرائے اور کرن کا ہاتھ پکڑ کر اسے وہ ڈائمنڈ رنگ پہنا دی۔
"منظور ہے۔۔۔۔۔ تمہاری ساری شرطیں منظور ہے۔۔۔۔۔ بس میں اب تمہیں کبھی کسی قیمت کھونا نہیں چاہتا۔۔۔۔" رانا مبشر آج کھلے دل سے محبت کا اظہار کر رہے تھے۔ کرن ہی ان کی وہ ہمسفر تھی جس کے سامنے وہ اپنی سختی نرمی نفرت محبت ہر جذبے کو بے جھجک ظاہر کر سکتے تھے۔
*************&&&&************
آسمان میں ہلکی ہلکی روشنی ہونے لگی تو کرن اور رانا صاحب پرانے سب دکھ بھلا کر نئے زندگی کا آغاز کرنے کے حوالے سے پر امید ہوتے ایک دوسرے سے وداع لیتے اپنے اپنے آرام گاہ کے جانب روانہ ہوگئے۔
کرن دبے پاؤں چلتی گھر کے اندر داخل ہوئی تو اسے انی کچن کے جانب جاتی دکھائی دی۔
انی بھی کرن کو نائٹ ڈریس میں کھلے بکھرے بال سوجی آنکھیں لیئے باہر سے آتے دیکھ کر پریشان ہوگئی۔
"کرن۔۔۔۔ اس وقت باہر کہاں سے آرہی ہو۔۔۔۔ سب خیریت تو ہے نا۔۔۔۔" انی نے متفکر انداز میں پوچھا۔
کرن چہکتے ہوئے ان کے گلے لگی۔
"اب سب ٹھیک ہے انی۔۔۔۔۔ اب سب ٹھیک ہے۔۔۔۔" ان نے مسرور ہوتے ہوئے کہا۔
"انی میں نے رانا صاحب کو اپنا لیا۔۔۔۔۔" کرن نے اپنا بایاں ہاتھ اٹھا کر انی کو رانا صاحب کی پہنائی وہ ڈائمنڈ انگھوٹی دکھائی۔
انی کی آنکھیں چمک اٹھی۔ انہوں نے خوشی سے سرشار ہوتے پھر سے کرن کو گلے لگایا اور مضبوطی سے حصار میں لیا۔
"بہت مبارک ہو۔۔۔۔۔ بہت خوشی ہوئی سن کر۔۔۔۔۔ تم نے درست فیصلہ لیا ہے۔۔۔۔" انی اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دعائیں دینے لگی۔
**************&&&*************
رانا مبشر کی خوشیوں کا بھی ٹھکانا نہیں تھا۔ ہوٹل پہنچ کر سب سے پہلے انہوں نے یہ خوش خبری شیخ صاحب کو سنائی۔
"بہت خوشی ہوئی۔۔۔ بہت مبارک ہو مبشر۔۔۔۔۔ تم نے سیدھے راہ کا انتخاب کیا۔۔۔۔۔ اتنی دشواریاں سہہ کر اپنے دل کو پاک کیا۔۔۔۔ اپنے نفس پر قابو رکھا۔۔۔۔۔ روح کی پاکیزگی کی خاطر سارے برے کام ترک کر دیئے۔۔۔۔۔۔ اور ایمان کی تازگی کے لیے اپنے آپ پر محنت کر کے نماز اور عبادات کی پابندی کی۔۔۔۔ اب اس کا اجر تو تمہیں ملنا ہے میرے بچے۔۔۔۔۔ اللہ کے ہاں دیر ہے لیکن اندھیر نہیں۔۔۔۔ وہ اپنے نیک بندوں کی دعا صحیح وقت پر ضرور قبول فرماتے ہیں۔۔۔۔" شیخ صاحب نے اپنی محسور کر دینے والے لہجے میں اللہ کی شان بیان فرمائی۔
"بلکل شیخ صاحب۔۔۔۔ جلد ہی ملتا ہوں آپ سے۔۔۔۔" رانا صاحب نے ان کی مبارکباد وصول کرتے ہوئے خیر باد کہا اور کال کاٹ دی۔
رانا صاحب کی دوسری کال روحان کو تھی۔ وہ جو ابھی ابھی اٹھا تھا اور سستی سے ہاتھ چلاتے آفس کے لیے تیار ہونے جارہا تھا رانا بھائی کی کال پر چہک گیا۔ ایک نئی تازگی محسوس کرنے لگا۔ حال احوال پوچھ لینے کے بعد رانا صاحب نے اسے کرن کو رنگ پہنا دینے کی خوشخبری سنائی۔
"مجھے پتا تھا۔۔۔۔ i knew it۔۔۔۔۔ آئی ایم سو ہیپی فار یو۔۔۔۔" روحان کے ساتھ ساتھ نور بھی کھڑی تھی۔ اس نے روحان کے ہاتھ سے موبائل جھپٹ کر رانا بھائی کو مبارکباد پیش کی۔
رانا صاحب ان دونوں کی مبارکباد وصول کرتے اللہ کے حضور شکریہ ادا کرنے لگے۔ ان کے گھر پھر سے خوشیوں کی آمد ہوئی تھی۔
انسان کو ہمیشہ برے حال میں صبر اور اچھے حال میں شکر کرتے رہنا چاہیئے۔
**************&&&&*************
رانا صاحب اور کرن کے باہمی فیصلے سے رانا صاحب کو نوٹس میں دیئے گئے آخری تاریخ سے دو دن پہلے یعنی آنے والے جمعہ کو نکاح منعقد کیا گیا۔
نکاح کے حوالے سے جو بھی تیاری درکار ہوتی رانا صاحب اور انی ہی کیا کرتے۔ ان تین سے چار دنوں میں کرن رانا صاحب سے ملنے سے اجتناب کرتی رہی۔ وہ چاہتی تھی اب رانا مبشر اسے اپنی دلہن کے ہی روپ میں دیکھے۔ اسے رانا صاحب کو تنگ کرنے میں مزا بھی آرہا تھا لیکن انہیں تڑپاتے ہوئے برا بھی لگتا لیکن وہ ان کے سامنے نہیں آئی۔
نور روحان اور خاص کر بچوں کا اپنے بڑے پاپا کے نکاح میں شریک ہونے کا بہت دل تھا۔ ان سب نے جمعے سے پہلے ترکی جانے کی بہت کوشش کی لیکن چونکہ روحان ہفتے پہلے ہی لوٹا تھا اس لیے اسے فوراً سے دوسرا ویزا نہیں دیا گیا۔ اور نور خو روحان اور بچوں کو اکیلے چھوڑ کر آنے سے خود رانا صاحب نے منع کیا۔
"کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔ اور ہم نکاح کی رات پاکستان واپسی آرہے ہے نا۔۔۔۔ آپ دونوں پریشان نہ ہو۔۔۔۔۔ مجھے اور کرن کو برا نہیں لگے گا۔۔۔۔۔۔ " رانا صاحب نے نور کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
جب روحان اور نور نہیں آسکے تو رانا صاحب کی فیملی کا کردار نبھانے انشا گل اور یلدز آگے آئے۔
"بے فکر رہیں رانا بے۔۔۔۔۔۔ آپ ہمیں ہی روحان اور نور سمجھے۔۔۔۔ ہم ساری تیاری مکمل کر لیں گے۔۔۔۔" یلدز نے خوش ہوتے ہوئے رانا صاحب کو اکیلے پن کی کمی نہیں ہونے دی۔
*************&&&&*************
جمعرات کی شام کرن کے سب قریبی دوست اس کی مہندی کی رسم کرنے اس کے گھر اکھٹا ہوئے تھے۔ ایلف اور اورہان۔ انشا گل اور یلدز۔ سیلان اور اس کی منگیتر اوزائے۔ سب کی تشریف آوری سے شام رنگین ہو چلی تھی۔
کرن نے موقع کی مناسبت سے پستہ کلر کا کام دار فراک اور چوڑی دار پجامہ زیب تن کیا ہوا تھا۔ بالوں کا جوڑا بنائے نفیس سا میک اپ کئے اور تازہ پھولوں کے بنے زیورات پہنے وہ اپنے حُسن سے محفل میں چار چاند لگا رہی تھی۔
لاؤنج میں کشن پر بیٹھی۔ دونوں ہاتھ پھیلائے وہ آشیانہ ہوم کی دو انڈین پناہ گزین لڑکیوں سے مہندی لگوا رہی تھی۔ پس منظر میں میوزک بھی چل رہا تھا۔
"آپی مجھے کہتی رہی لیکن عین ٹائم پر پارٹی بدل لی۔۔۔۔۔ مسٹر رانا۔۔۔۔ اب رانا بے بن گئے تمہارے۔۔۔۔" کرن نے انشا گل سے جعلی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
"کوئی بات نہیں میم۔۔۔۔ ہونے دیں انہیں دلہے کے سائیڈ۔۔۔۔۔ لیکن دلہن کی سائیڈ اب بھی بھاری ہے۔۔۔۔" سیلان نے انشا گل کو چڑاتے ہوئے کہا۔
"ہاں بلکل۔۔۔۔" انی سمیت سب نے سیلان کا ساتھ دیا۔ ایلف اور اورہان بھی کرن کے سائیڈ ہوگئے تھے۔
"اور نہیں تو کیا۔۔۔۔۔ ہماری ایک انی۔۔۔ آپ تین کے برابر ہے۔۔۔۔" سیلان نے ہنس و مذاق میں انی کے وزن پر تبصرہ کیا۔
وہ جو ہامی بھرنے لگی تھی سیلان کا مذاق سمجھ آنے پر اس کے کندھے پر زور سے تھپکی دیتی ڈانٹنے لگی۔
سیلان اپنا کندھا سہلاتا ان کے پاس سے اٹھ بھاگا اور ماحول میں سب کا قہقہہ بلند ہوا۔
کرن کی خوشیوں کو مزید بڑھانے سب نے خوب ہلہ گلہ کیا۔ باری باری ڈانس کئے۔ انی کو بھی چند قدم جھومنے پر رضامند کر دیا تھا۔ جوانوں کے بیج وہ بھی کھل کر انجوائے کرنے میں مگن تھی۔ ڈنر نوش فرمانے کے بعد بھی وہ سب رات ہونے تک وہی رہیں۔
آدھی رات کو سب کے جانے کے بعد جب کرن بیڈ روم میں آئی تو اس کا موبائل بج رہا تھا۔
"اس وقت کس کی کال ہے۔۔۔۔" اس نے بے زاری سے اپنے مہندی لگے ہاتھوں کو دیکھ کر سوچا۔ وہ کسی بھی قیمت رانا مبشر کے نام کی مہندی خراب نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے ہاتھوں کا بہت احتیاط سے استعمال کر رہی تھی۔
کرن نے موبائل اسکرین کو دیکھا تو کال رانا صاحب کی ہی آرہی تھی۔ اس نے بہت احتیاط سے چھوٹی انگلی کے سوکھے حصہ سے کال اٹھائی اور سپیکر آن کیا۔
"کیسا رہا مہندی کا فنکشن۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے بیڈ پر نیم دراز لیٹے ہوئے خوش مزاجی سے پوچھا۔
"بہت اچھا رہا۔۔۔۔۔ آپ کو بہت مس کیا سب نے۔۔۔۔" کرن بلند آواز میں کہتی بار بار مہندی جلدی سوکھانے ہاتھ ہوا میں لہرا رہی تھی۔
"میں آجاتا تو تمہاری مجھ سے اجتناب کرنے کی قسم ٹوٹ جاتی۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے ہنہ کرتے جتاتے ہوئے کہا۔
"ہاں وہ تو ہے۔۔۔۔۔ مجھے اچھا لگا آپ کو میرے قسم کا اتنا خیال تھا۔۔۔۔" کرن نے اپنی مسکراہٹ دبائے ہوئے سیریس انداز میں جواب دیا۔
"کرن۔۔۔۔۔ آج کے فنکشن کی اپنی کوئی تصویر ہی دکھا دو ۔۔۔۔۔" رانا صاحب دل کے ہاتھوں مجبور ہونے لگے۔ ان سے مزید اپنی دلہن دیکھے بغیر رہا نہیں جا رہا تھا۔
"تھوڑا اور صبر مسٹر رانا۔۔۔۔۔ ایک رات ہی کی تو بات ہے۔۔۔۔" کرن اپنے ہاتھوں میں سجی مہندی دیکھتے ہوئے رانا صاحب کو تنگ کرنے لگی۔
"اففففف مجھ سے تو ایک اور پل بھی انتظار نہیں ہوا جا رہا۔۔۔۔۔ یہ ایک رات مجھے ایک صدی کے مانند لگ رہی ہے۔۔۔۔" انہوں نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا۔
"ہاہاہا۔۔۔۔۔ چلیں اب زیادہ رومانٹیک نہ بنے۔۔۔۔ مجھے ہاتھ دھونے جانا ہے۔۔۔۔۔ آپ کو تو میرا دیدار اب ڈائریکٹ کل نکاح کے بعد ہی نصیب ہوگا۔۔۔۔۔۔" کرن نے ہنستے چہکتے رخصت لیا اور واشروم کے جانب بڑھ گئی۔
جب دوسرے جانب خاموشی ہوگئی تو رانا صاحب نے مسکرا کر سر جھٹکتے کال کاٹ دی۔
**************&&&&*************
ان کا نکاح مرات پاشا مسجد میں ہونا قرار پایا۔ یہ خواہش کرن کی ہی تھی کہ اسی مسجد میں وہ رانا مبشر کے نام ہوجائے جہاں سے اس کی محبت کا آغاز ہوا تھا۔
مسجد کے پہلے ہال کو جگہ جگہ تازہ پھولوں اور چراغوں سے سجایا گیا تھا۔ نکاح کے بابت عورتوں اور مردوں کے حصہ کو الگ کرنے سفید پھولوں کی لڑیوں سے بنایا پردہ لگایا گیا تھا۔ جس کے ایک طرف رانا صاحب نے اور دوسری طرف کرن نے تشریف فرما ہونا تھا۔
نکاح بعد نماز جمعہ کروایا جانا تھا پر رانا صاحب نت نئے سفید قمیض شلوار کے ساتھ سفید کوٹ پہنے۔ شیو اور بال نفاست سے تراشے ہوئے ہشاش بشاش سے تیار ہمیشہ کی طرح محسور کن شخصیت لیئے ظہر سے بھی پہلے مسجد میں موجود تھے۔
ساری تیاری سے مطمئن ہو کے انہوں نے وہی باجماعت جمعہ کی نماز ادا کی اور پھر شکرانے کے نوافل بھی پڑھے۔
"میرے پروردگار۔۔۔۔۔ میں تیری جنتی بڑھائی بیان کروں کم ہے۔۔۔۔۔ جتنا تیرا شکر ادا کروں کم ہے۔۔۔۔۔ تو نے مجھ گنہگار کو راہ راست پر آنے کے توفیق دی۔۔۔۔۔ مجھے نیک بنایا۔۔۔۔۔ مجھے ہمیشہ بہترین سے نوازا ہے۔۔۔۔۔۔ الہی تیرا کرم ہے مجھ پر۔۔۔۔۔ میں چاہے جتنا بھی بڑا بن جاوں۔۔۔۔۔ پھر بھی تیرے در کا فقیر ہوں۔۔۔۔۔ تیرے بخشش کا محتاج ہوں۔۔۔۔ مجھے معاف کر دے۔۔۔۔ اللہ میرا ساتھ دیتے رہنا۔۔۔۔۔ میری ہمت بڑھاتے رہنا۔۔۔۔۔" رانا صاحب ہاتھ اٹھائے دعا میں کھو سے گئے تھے۔
"میری محبت کو میرا بنانے کے لیے بہت بہت شکریہ یا رب۔۔۔۔۔ مجھے حوصلہ دیں کہ میں اپنا یہ فرض بھی اچھے سے نبھا سکوں۔۔۔۔ جو غلطیاں پہلے کی ہے وہ دوبارہ نہ دوہراوں اور ایک اچھا شوہر ثابت ہوسکوں۔۔۔۔ آمین۔۔۔" درود پاک پڑھتے انہوں نے چہرے پر ہاتھ پھیرے۔
اسی کے ساتھ ہی کچھ چند مہمان خصوصی نکاح میں شرکت کرنے آنپہنچے۔
سب سے پہلے انشا گل اور یلدز میزبانی کرنے تشریف لیں آئے تھے۔ اور جو محفل کی جان بن گئی تھی وہ چار سالہ اچھل کود کرتی صحت مند فاطمہ تھی۔ اس نے آج کرن سے میچنگ کرنے سفید کام دار چولی لہنگا زیب تن کیا ہوا تھا ننھے ہاتھوں میں بھر بھر کر چوڑیاں پہنی تھی اور بالوں میں گجرے سے بنا تاج ٹکایا ہوا تھا۔
اسے پاکستانی طرز پوشاک اتنا محظوظ کر رہا تھا کہ وہ سارا وقت گول گول گھومتی اپنے لہنگے کا گھیر پھیلائے ہوئے تھی۔
مسجد کے مین گیٹ کے سامنے گاڑی رکنے کی آواز آئی تو رانا صاحب کی دھڑکن تیز ہوگئی۔
"کرن آگئی۔۔۔۔۔" انشا گل ان کے کان میں سرگوشی کرتے گلاب کے پتیوں سے بھری پلیٹ لیئے کرن کا استقبال کرنے بھاگی۔
رانا صاحب دل کے جگہ سینے کو سہلاتے یک ٹک دروازے کے جانب دیکھ رہے تھے۔
*************&&&&**************
جاری ہے
کہی خوشی کے مارے رانا مبشر کو ہارٹ اٹیک نا ہوجائے🤭🤭 ریڈرز دل دھک دھک ہورہا ہے نا۔۔۔۔😉
❤️
👍
😂
😮
🙏
😢
275