Novel Ki Dunya
June 13, 2025 at 12:33 PM
ناول: قسمت سے ہاری میں (پارٹ 2) از قلم: پلوشہ صافی قسط نمبر: 11 #dont_copy_paste_without_my_permission اور بالآخر رانا صاحب کا انتظار ختم ہوا۔ کرن نے سفید اور گولڈن کلر کے کام دار شرٹ اور شرارا پہنے ڈوپٹہ سر پر لیا ہوا تھا۔ نفیس زیورات۔ پیارا میک اپ۔ اور پھولوں کے گجرے سے سجے ہاتھوں میں شرارا پہلووں سے اٹھائے وہ انی اور ایلف کے ہمراہ سر جھکائے ہال میں داخل ہوئی۔ رانا صاحب کے محبت جیسے اس کی مہندی کا رنگ بھی بہت گہرا چڑھا تھا۔ رانا صاحب سر تا پیر اس کی تیاری سے محظوظ ہوتے ہوئے مسکرائے۔ رانا صاحب تک آکر وہ سب رک گئے اور ان سے ملنے لگے۔ کرن کی رانا صاحب سے نظریں ملی تو انہوں نے سراہتے ہوئے ستائشی انداز میں آبرو اچکائے۔ کرن بلش کرتے رخ پھیر گئی۔ "آپی یہ دیکھو۔۔۔۔۔ میں نے آپ کے جیسے ڈریسنگ کی ہے۔۔۔۔" فاطمہ کرن کو اپنا لہنگا چوڑیاں تاج دکھاتی پھر گول گول گھومنے لگی۔ "بہت خوبصورت لگ رہی ہو ماشااللہ سے۔۔۔۔۔" کرن نے اس کے رخسار پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ مسجد کے قاری صاحب کے آتے ہی سب اپنی اپنی جگہ پر تشریف فرما ہوگئے۔ پھولوں کے پردے کے آر پار کرن اور رانا مبشر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تھے۔ سب سے پہلے قاری صاحب نے نکاح کا خطبہ پڑھا پھر انہوں نے کرن کو مخاطب کیا۔ "کرن جمیل۔۔۔۔۔ ولد جمیل الرحمان۔۔۔۔۔ آپ کا نکاح۔۔۔۔ رانا مبشر۔۔۔۔۔۔ ولد رانا نذیر۔۔۔۔۔ سے سکہ رائج الوقت کے تحت پانچ لاکھ پاکستانی روپے حق مہر۔۔۔۔۔ کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ کیا آپ کو قبول ہے۔۔۔۔" قاری صاحب نے سر جھکائے ٹہر ٹہر کے واضح طور پر نکاح کے کلمات بولے۔ رانا مبشر تیز دھڑکن کو قابو رکھتے کرن کے جانب متوجہ تھے۔ انی اور باقی سارے دوست و اقارب خاموشی سے کرن کے جواب کے منتظر تھے۔ سیلان روحان کو ویڈیو کال کے ذریعے تقریب میں شریک کئے ہوئے تھا۔ ایک موبائل پر لڑنے سے بچنے روحان نے لاؤنج کے ٹی وی اسکرین سے سکائپ کھولا ہوا تھا اور وہ پوری فیملی دلچسپی سے نکاح کی رسم ہوتے دیکھ رہے تھے۔ کرن نے گھونگھٹ کے نیچے سے پلکیں اٹھا کر رانا صاحب کو دیکھا۔ "قبول ہے۔۔۔۔" اس نے دل فراخی سے رانا مبشر کو اپنا محرم قبول کیا۔ سب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ رانا مبشر پورے دل سے مسکرا دیئے۔ قاری صاحب نے اپنے الفاظ دوہرائے تب بھی کرن نے بے جھجک قبول ہے قبول ہے کہہ کر اس رشتے پر رضامندی دی۔ قاری صاحب نے سر کو خم دے کر رخ رانا صاحب کے جانب کیا اور ان کی رضامندی پوچھی۔ "رانا مبشر۔۔۔۔۔ ولد رانا نذیر۔۔۔۔۔۔ آپ کا نکاح رائج الوقت کے تحت پانچ لاکھ پاکستانی روپے حق مہر کے عوض۔۔۔۔۔ کرن جمیل۔۔۔۔ ولد جمیل الرحمان۔۔۔۔ سے کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ کیا آپ کو کرن جمیل اپنے نکاح میں قبول ہے۔۔۔۔" قاری صاحب نے اسی انداز میں اپنا جملہ دوہرایا۔ رانا صاحب نے چند لمحے خاموشی سے سفید جوڑے میں سجی اپنی دلہن کے سراپے کو دیکھا۔ "الحمداللہ۔۔۔۔۔۔ قبول ہے۔۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے مشکور ہوتے ہوئے ہامی بھری۔ قاری صاحب نے پھر سے کلمات دوہرائے تو انہوں نے وقت ضائع کئے بغیر اس رشتے پر اپنی مُہر لگا دی۔ مبارک ہو۔۔۔۔" قاری صاحب نے مبارکباد پیش کرتے ہوئے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ ان کے ہمراہ تقریب میں موجود سب نے دعا میں ہاتھ اٹھا کر ان دونوں کی آنے والی خوشحال زندگی کے لیے بھرپور دعائیں دی۔ رانا صاحب اورہان یلدز اور سیلان سے گلے ملے۔ کرن بھی شرماتی اپنی سہیلیوں کی مبارکباد وصول کرتی سر کو خم دینے لگی۔ سب سے ملتے اور مبارکباد وصول کرتے ہوئے کرن اور رانا مبشر ایک دوسرے کے سامنے آئے۔ "مبارک ہو مسزز مبشر۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے آبرو اچکا کر ہلکے آواز میں کہا۔ "آپ کو بھی مبارک ہو۔۔۔۔۔" کرن نے بھی انہیں مبارکباد کہا۔ ساتھ ساتھ اپنے ہاتھوں سے کرن اور رانا مبشر نے وہاں آنے جانے والے سیاحوں میں اور نمازیوں میں اور مدرسہ میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات کو مٹھائی کے ڈبے بانٹے۔ سب نے ان کی جوڑی کو سلامتی کی دعائیں دی۔ *************&&&&************** مسجد سے وہ سب ایک فائف سٹار ہوٹل گئے جہاں رانا صاحب نے سب کو نکاح کی دعوت کھلائی۔ "مزا آگیا۔۔۔۔۔ مسٹر رانا ماننا پڑے گا۔۔۔۔ ترکی کا قہوہ اور پاکستان کی بریانی کا کوئی جوڑ نہیں۔۔۔۔۔" اورہان نے ہوائی بوسہ اڑاتے تھیکی بریانی کے مزے لیتے ہوئے کہا۔ "ہاں۔۔۔۔ بس مرچیں کچھ کم کر دینی چاہیئے۔۔۔۔" ایلف سی سی کرتے تھیکی بریانی کھانے میں مصروف تھی۔ "تو زبردستی تھوڑی ہے۔۔۔۔ کچھ اور کھا لو۔۔۔۔۔" انشا گل نے ایلف کے بگڑتے تاثرات پر ہنستے ہوئے میز پر سجے بقایہ لوازمات کے جانب اشارہ کیا۔ "ایسی گیدرنگ میں پاکستان کی مشہور ڈش کھانے کا موقع پھر نہیں ملے گا۔۔۔۔۔" ایلف نے کرن اور رانا مبشر پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ وہ دونوں ساتھ ساتھ بیٹھے سب کا ہلہ گلہ انجوائے کرتے اپنا کھانا ختم کر رہے تھے۔ کھانے کے بعد میٹھے میں کھیر اور گاجر کا حلوہ منگوایا گیا جسے ترکی قہوے کے ساتھ نوش فرمایا گیا۔ دونوں ہی میٹھے اتنے لزیز تھے کہ سب اپنے ساتھ پیک کر کے بھی لیں گئے۔ "اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔ ہمیں بھول مت جانا۔۔۔۔۔ آتی رہنا۔۔۔۔۔ اور کانٹیکٹ میں رہنا۔۔۔۔" انشا گل نے اشک بار آنکھوں سے کرن کو رخصت کرتے ہوئے کہا۔ "آپ سب میری زندگی کا سب سے اہم حصہ ہو۔۔۔۔۔ میری ترک فیملی ہو۔۔۔۔۔ کیسے بھول سکتی ہوں۔۔۔۔۔ سب سے کانٹیکٹ میں رہوں گی انشاءاللہ۔۔۔۔" کرن نے انشا گل سے گلے ملتے ایلف کو بھی حصار میں لے لیا تھا۔ رانا صاحب بھی مرد حضرات سے رخصت لیتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ اسی ہوٹل سے ہی سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے لگے۔ اپنی کار میں سوار ہو کر کرن نے خوشی سے پہلو میں بیٹھے سفید قمیض شلوار میں ملبوس اس شخص کو دیکھا جس کے بغیر اب اسے جینے کی خواہش نہیں تھی۔ رانا صاحب نے کرن کی محبت بھری نگاہ خود پر جمی محسوس کی پر ڈرائیور کے ساتھ والے سیٹ پر بیٹھی انی کا لحاظ کرتے ہوئے خود کو کمپوز رکھے رہے۔ صرف ہلکے سے اپنا ہاتھ بڑھا کر کرن کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا مگر نظریں ونڈ اسکرین کے باہر ہی رکھی۔ کرن ان کے اس خاموش اظہار سے محظوظ ہوتے اپنی مسکراہٹ دبائے ہوئے شیشے کے پار انتالیہ شہر کے روشنیوں کو جی بھر کر دیکھنے لگی۔ جس شہر سے اسے اتنا پیار ملا سچے رشتے ملے۔ اسے آج وہ خیر باد کہنے والی تھی۔ وہ ہر دکان ٹھیلے سڑک کوچے کو دل میں اتارنے لگی۔ "الوداع انتالیہ۔۔۔۔ الوداع ترکی۔۔۔۔۔ بہت مس کرو گی آپ کو۔۔۔۔۔۔ میرے بغیر اداس مت ہونا۔۔۔۔ جلد ہی واپس ملنے آوں گی۔۔۔۔۔" ایک لمبی سانس لیتے اس نے دل میں سوچا۔ ************&&&&************* اسی رات رانا صاحب کی پاکستان واپسی تھی۔ کرن نے بھی ان کے ساتھ اپنے جانے کی ٹکٹ کروائی تھی۔ گھر لوٹنے کے بعد اس نے ڈریس بدلا اور زری کے کام والا سرخ رنگ کے قمیض شلوار پہن لیئے۔ اس وقت وہ اپنے بیڈ روم میں پیکنگ کرنے میں مصروف تھی۔ رانا صاحب کا اپنا تو ایک چھوٹا سا بیگ تھا جس میں تین سے چار سوٹ اور دیگر ضرورت کے اشیاء تھے۔ جبکہ کرن نے دو بڑے بیگز تیار کئے تھے اور ان میں سے آدھے سے زیادہ تو صرف کتابیں تھیں۔ "پوری لائبریری ہی شفٹ نہ کر دیں۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے بغور کتابوں سے بھرے ان دونوں بیگز کو دیکھا۔ "ہیں نا۔۔۔۔ لیکن فلائٹ میں اس سے زیادہ کا وزن نہیں چھوڑتے۔۔۔۔۔ پر میں نے باقی کتابیں ایک باکس میں پیک کر کے رکھ دی ہے۔۔۔۔ انی بعد میں کارگو کروا دیں گی۔۔۔۔" کرن نے رانا صاحب کی بات کو طنز میں لیئے بغیر معصومیت سے آنکھیں جھپکاتے ہوئے وضاحت دی۔ کرن کی پیش گوئی سن کر رانا صاحب تھوک نگل کر پھیکا مسکرائے۔ "لگتا ہے تجھے یہ سب کتابیں رکھنے ایک اور بنگلہ بنانا پڑے گا رانا۔۔۔۔۔۔" انہوں نے سر جھٹکتے ہوئے سوچا۔ "سنیئے۔۔۔۔" کرن نے رانا صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ وہ اپنی خیالوں سے نکل کر کرن کے اس بدلے لہجے پر حیران ہو کر اسے دیکھنے لگے۔ "یہ بیگ بند نہیں ہورہا۔۔۔۔ زرا مدد کر دینگے۔۔۔۔۔" وہ جو زبردستی بیگ کی زپ بند کرتے شش و پنج میں مبتلا تھی آخر ہار مانتے رانا صاحب کو مدد کے لیے بلانے لگی جب اچانک انگلی زپ میں پھنسنے سے اس نے اسسسسس کرتے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچا۔ "کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔ آرام سے۔۔۔۔ ابھی فلائٹ میں ٹائم ہے۔۔۔۔۔تسلی سے کام کرو۔۔۔۔" رانا صاحب گھبرا کر اس کے قریب آئے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر چھوٹ کی نوعت دیکھنے لگے۔ کرن کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔ وہ اپنائیت سے رانا صاحب کے تشویشناک تاثرات دیکھ رہی تھی جو اسے تکلیف میں دیکھ کر ان کے چہرے پر در آئے تھے۔ رانا صاحب نے اس کی انگلی سہلاتے ہوئے اس پر سرد مہری سے تند نظر ڈال کر اسے سائید پر بیٹھایا اور خود بیگ پر زور دے کر بند کرنے لگے۔ "اور کیا کرنا ہے۔۔۔۔" راناصاحب نے بیگ بند کر کے دوسرے بیگ کے ساتھ ٹکا دیا۔ اور ملاتشی نظروں سے آس پاس دیکھنے لگے۔ کرن مسکراہٹ دبائے ہوئے اٹھی اور رانا صاحب کا بازو میں بانہیں ڈال کر انہیں اپنے جانب متوجہ کیا۔ "اور بس ہمیشہ میرا ایسا ہی خیال رکھنا ہے۔۔۔۔" اس نے آبرو اچکا کر فرمائش کی۔ رانا صاحب کے سنجیدہ تاثرات میں کمی آگئی وہ پکلیں جھپکاتے ہوئے مسکرائے۔ "تیار ہو کر نیچے آجاو۔۔۔۔ میں بیگز ڈرائیور کو دیں کر آتا ہوں۔۔۔۔" کرن کے رخسار پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے ہدایت دیتے وہ ایک ایک کر کے بیگ اٹھائے باہر نکل گئے۔ ************&&&&************** تیاری سے مطمئن ہو کر وہ دونوں لاؤنج کے سرے میں انہیتا سے رخصت لینے لگے۔ " انی۔۔۔۔ آپ ہی تو چاہتی تھی میں شادی کروں۔۔۔۔ سیٹل ہوجاوں۔۔۔۔ پھر شادی کر کے لڑکی کو اپنا گھر چھوڑ کر جانا تو ہوتا ہے نا۔۔۔۔۔" کرن روتی انی کو چپ کروانے کی کوشش کرنے لگی۔ انہیتا جی ڈرائیور کے ساتھ انہیں چھوڑنے ائیر پورٹ جانا چاہتی تھی لیکن کرن نے ان کے صحت کا دھیان رکھتے ساتھ چلنے سے منع کر دیا۔ "تمہارے بغیر انتے بڑے گھر میں اکیلے کیا کروں گی۔۔۔۔۔" انی چاہ کر بھی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکی تھی۔ "انی۔۔۔۔۔ میں کانٹیکٹ میں رہوں گی نا۔۔۔۔۔ اور میں نے انشا اور ایلف کو بھی تردید کر رکھی ہے۔۔۔۔ وہ ہر ہفتے آپ سے ملنے آیا کریں گیں۔۔۔" کرن نے ان کے حصار سے الگ ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں کے بھیگے کنارے صاف کئے۔ انی کرن کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے رانا صاحب کے جانب متوجہ ہوئی۔ "میں نے پچھلے پانچ سالوں سے کرن کو اپنی بیٹی جیسے رکھا ہے۔۔۔۔۔۔ اس کا دل مت دکھانا۔۔۔۔۔" انی نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کرتے ہوئے کہا۔ "بے فکر رہے۔۔۔۔ اس بار شکایت کا کوئی موقع نہیں ملے گا۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے انی کے ہاتھ تھامے ان کے ہاتھوں کو تھپتھپاتے ہوئے یقین دہانی کروائی۔ انی سے مل کر وہ دونوں ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہوگئے۔ ************&&&&************* رانا ہاوس میں آج فجر سے پہلے کے سب اٹھے ہوئے تھے۔ نور تیز تیز بچوں کو تیار کروانے میں لگی تھی۔ روحان اپنی تیاری میں جھٹا ہوا تھا۔ حالانکہ اس نے نور اور بچوں کو گھر پر ان کا استقبال کرنے کی تجویز کی تھی لیکن کسی نے اس کی بات نہ مانی۔ ائیر پورٹ پر استقبالیہ گیٹ کے پاس وہ سب کھڑے رانا مبشر اور کرن کے منتظر تھے۔ سفیان کو پہلی مرتبہ اتنا بڑا اور چمکتا ہال دیکھنے کو ملا تھا۔ وہ تو برق رفتاری سے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھاگنے میں مشغول تھا۔ رانا صاحب بیگز کے ٹرالی کو دھکیلتے گیٹ سے باہر آتے دیکھائی دیئے تو ذیشان اور زینب اچھلنے لگے۔ "وہ رہے بڑے پاپا۔۔۔۔۔۔" دونوں جڑوا بہن بھائی نے ایک ساتھ آواز لگائی۔ نور نے پھرتی سے سفیان کا ہاتھ جکڑ لیا اور تہذیب سے کھڑے ہونے کی ہدایت دی۔ رانا صاحب نے روحان کو پوری فیملی سمیت گیٹ کے پار کھڑے دیکھا تو ہوا میں ہاتھ بلند کر کے لہرایا۔ کرن اور نور سات سال بعد ایک دوسرے سے رو بہ رو ہورہی تھی۔ کرن کا دل دھڑکنے لگا۔ ماضی کی کچھ تلخ یادیں اس کے ذہن میں گردش کرنے لگی۔ گیٹ عبور کر کے وہ دونوں باہر آئے تو سب سے پہلے تینوں بچے رانا صاحب کے جانب لپکے۔ رانا صاحب نے پہلے ذیشان اور زینب کو گود میں اٹھا کر پیار کیا اور پھر سفیان کو۔ نور تو روتے ہوئے کرن سے لپٹ گئی تھی۔ جانے کتنی دیر وہ کرن کے کندھے پر سر رکھے روتی رہی۔ کرن بھی آبدیدہ ہوگئی تھی لیکن ہونٹوں پر مسکان لیئے وہ نور کو اپنے حصار میں لیئے ہوئے تھی۔ "کیسی ہے۔۔۔۔" کرن نے نور کے بھیگے رخسار سے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا۔ "میں ٹھیک ہوں۔۔۔ تم کیسی ہو۔۔۔"نور نے اس کے حصار سے الگ ہوتے ہوئے سر تا پیر کرن کو دیکھا۔ "میں بلکل ٹھیک۔۔۔۔" کرن نے نور کے گال پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔ "تمہیں پتا ہے کرن۔۔۔۔۔" نور بھرائی آواز میں کچھ کہنے لگی تھی لیکن روحان نے ہنس و مذاق کرتے ہوئے اسے ٹوکا۔ "لو جی۔۔۔۔ ہوگئی شروع۔۔۔۔۔ چلو رانا بھائی۔۔۔۔ ہم بیٹھ کر آرام کرتے ہیں۔۔۔۔ یہ تو اب پورے سات سال کی داستان سنا کر ہی دم لیں گی۔۔۔۔" روحان نے رانا بھائی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سر جھٹکتے ہوئے کہا۔ نور کو روحان کا تبصرہ برا لگا اس نے منہ بھسورتے ہوئے روحان کے بازو پر تھپکی ماری۔ روحان ہنستا ہوا اس کے قریب ہوا اور اسے تسلی دینے خود سے لگایا۔ "نور۔۔۔۔ ابھی ابھی آئے ہیں وہ۔۔۔۔۔ گھر چل کر آرام تو کرنے دو۔۔۔۔۔ بعد سے تسلی سے باتیں بھی کر لینا۔۔۔۔۔" روحان نے نرمی سے اس کے کندھوں کو تھام کر کہا۔ "کرن کے چکر میں تم سفیان کو تو بھول ہی گئی۔۔۔۔" روحان نے نور کا دھیان بٹانے سفیان کے جانب متوجہ کیا جو منظر عام سے غائب تھا۔ "یا اللہ۔۔۔۔۔ یہ لڑکا کب بڑا ہوگا۔۔۔۔" نور نے پیشانی پر ہاتھ رکھتے ملاتشی نظروں سے آس پاس دیکھا اور ساتھ ساتھ ذیشان کو اسے ڈھونڈنے بھیجا۔ "رانا بھائی۔۔۔۔ کرن۔۔۔۔ آپ چلیں۔۔۔۔ یہ لوگ آجائے گے۔۔۔۔۔" روحان نے بیگز کی ٹرالی رانا صاحب سے لے کر خود دھکیلتے ہوئے کہا۔ رانا صاحب نے پکلیں جھپکاتے ہوئے کرن کو چلنے کا اشارہ کیا تو وہ نور کو سفیان کو ڈانٹتے ہوئے دیکھ کر محظوظ ہوتی ائیر پورٹ سے باہر نکلنے لگی۔ ************&&&&************* گھر میں داخل ہو کر کرن کو نیا احساس ہورہا تھا۔ وہ ساری تبدیلیوں کو مشاہدہ کرتے رانا صاحب کے بیڈ روم میں آئی۔ اس کا دل بھر آنے لگا۔ وہ آنکھیں بند کر کے ماضی کے خیالات مہو کرنے کی کوشش کر رہی تھی جب اسے اپنے عقب میں کسی کے کھڑے ہونے کا احساس ہوا۔ اس نے تاثرات نارمل کرتے ہوئے پیچھے رانا صاحب کو دیکھا۔ "ویلکم بیک ہوم۔۔۔ مسزز رانا۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے پیار سے کرن کو دیکھا۔ "وقت بھی کتنی جلدی گزر جاتا ہے نا۔۔۔۔۔ لیکن پیچھے بہت سی یادیں چھوڑ جاتا ہے۔۔۔۔" کرن نے کھڑکی کے پار سبزہ زار میں دیکھتے ہوئے کہا۔ رانا صاحب نے ایک لمبی سانس لی اور کرن کو کندھوں سے تھام کر اس کا رخ اپنے جانب کیا۔ "بری یادوں کو بھلانے میں ہی ہماری بھلائی ہوتی ہے۔۔۔۔ اگر انسان ہر تلخ واقعہ دل میں بیٹھائے رکھے گا تو جی نہیں سکے گا۔۔۔۔" انہوں نے اپنائیت سے سمجھایا۔ کرن نے سر کو اثابت میں خم دیا۔ "کرن۔۔۔۔ آج میں حق مہر کے طور پر۔۔۔۔۔۔ اپنی سانسیں تمہارے نام کرتا ہوں۔۔۔۔۔ جب تک زندہ ہوں۔۔۔۔۔ تمہیں پیار کرتا رہوں گا۔۔۔۔" رانا صاحب نے کرن کے چہرے کے گرد ہاتھوں کا پیالہ بناتے ہوئے کہا۔ "اور میں بھی جب تک زندہ ہوں۔۔۔۔ آپ سے وفا نبھاتی رہوں گی۔۔۔۔" کرن نے بھی اسی انداز اپنی محبت کا اظہار کیا۔ رانا صاحب نے اس کے گرد بازو مائل کرتے ہوئے اسے بانہوں میں لے لیا۔ کرن اور رانا مبشر کے درمیان اب ماضی کے دیوار کی گنجائش نہیں تھی۔ وہ اپنے ہینڈسم اور مضبوط شوہر کے بانہوں میں پورا سماء گئی۔ اس نے آنکھیں بند کر کے ان کے گرد اپنی گرفت مضبوط کر دی۔ جگہ وہی تھی۔ انسان وہی تھا لیکن احساس نیاء تھا۔ رانا مبشر کرن کی کمر سہلاتے اس کے رخسار اور گردن کو چومنے لگے۔ ان کی محبت کی شدت سے کرن کے جسم میں کرنٹ سا دوڑ گیا وہ ضبط کرنے اپنا نچھلا لب دانتوں میں دبا گئی۔ اس کی دھڑکن بے ترتیب ہونے لگی اور سانسیں تیز ہوگئی۔ لمس وہی تھا۔ محرم وہی تھا پر جذبات نئے تھے۔ وہاں پانے کی حسرت نہیں تھی۔ حوس کی بھوک نہیں تھی۔ صرف محبت تھی اور اپنانے کا خلوص تھا۔ *************&&&&************** زندگی کی خوشحالی نے رانا ہاوس کا رخ کر لیا تھا۔ کرن اور نور بچھڑی بہنوں جیسے گھل مل گئی تھی۔ دونوں ہر وقت ساتھ باتوں میں مصروف رہتی۔ ذیشان اور زینب کا کرن کے ساتھ دل لگ گیا تھا البتہ سفیان کچھ دوری بنائے ہوئے تھا۔ رانا صاحب نے اپنے آفس جانا شروع کر دیا تھا اور کرن کے لیے گھر سے ہی اپنی لکھائی اور سوشلسٹ کا کام جاری رکھنے کے وسائل فراہم کیئے۔ انہوں نے اپنے بیڈروم کے وسطی گوشے میں میز اور کرسی کا بندوبست کروایا اور دیوار پر باکس نما شیلف بنا کر کرن کے کتابوں کے لیے چھوٹی لائبریری بنا کے دی۔ انی اور اپنے سارے دوستوں سے کرن روز کال پر بات کیا کرتی۔ اکثر شام کو وہ نور اور بچوں کے ہمراہ قریب کے پارک بھی چلی جایا کرتی۔ وہ اپنی مرضی سے اٹھتی بیٹھتی۔ پوشاک بھی اپنی پسند کا پہنتی کسی چیز پر رانا صاحب کے جانب سے پابندی نہیں تھی۔ زندگی مکمل ہوتی لگی رہی تھی لیکن زندگی کا اصول ہے انسان کی آزمائش کبھی نہیں رکتی۔ *************&&&&*********** سوتے ہوئے کرن کو اپنے رخسار پر ٹھنڈا لمس محسوس ہوا تو اس کی نیند کھل گئی۔ رانا صاحب تازہ تازہ گیلے ہاتھ منہ وضو کر کے نکلے تھے اور اب فجر کے لیے کرن کو بیدار کر رہے تھے۔ "میں چاہتا ہوں۔۔۔۔ میری بیوی جنت میں بھی میرے ساتھ ہو۔۔۔۔" انہوں نے معصوم تاثرات بنائے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ "جنت میں تو آپ کو ستر حوریں ملیں گی۔۔۔۔۔ مجھے کیا کرنا ہے آپ نے۔۔۔۔" کرن نے جمائی روکتے ہوئے کہا۔ "لیکن مجھے میری کرن چاہیئے۔۔۔۔ چلو شاباش اٹھو۔۔۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے کرن کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا۔ وہ نیند میں جکڑی ہوئی زبردستی اٹھی اور وضو کرنے واشروم چلی گئی۔ نماز سے فارغ ہو کر کرن نے گہری نظروں سے رانا صاحب کو دیکھا اور ان کے سینے سے جا لگی۔ رانا صاحب اس کے گرد بازو مائل کرتے ہوئے حیران ہوگئے۔ "اتنی محبت کرتے ہیں مجھ سے۔۔۔۔" کرن نے ان کی دھڑکن محسوس کرتے پیار سے پوچھا۔ "نہیں میں تم سے محبت نہیں کرتا۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے سپاٹ انداز میں جواب دیا۔ کرن ایک دم سے ان کے حصار سے الگ ہوئی اور بے یقینی سے ان کے بے تاثر چہرے کو دیکھنے لگی۔ "میں تم سے عشق کرتا ہوں۔۔۔۔" انہوں نے شریر انداز میں مسکراتے ہوئے کرن کو کھینچ کر اپنے بانہوں میں جکڑ لیا۔ "محبت بھلائی جا سکتی ہیں۔۔۔۔۔ لیکن عشق نہیں۔۔۔۔۔ عشق حقیقی میرا رب سے ہے۔۔۔۔۔ اور عشق مجازی تم سے۔۔۔۔" انہوں نے کرن کے سر کو پھر سے اپنے سینے سے لگا لیا۔ کرن نے سکون کا سانس لیا اور رانا مبشر کے گرد گرفت مضبوط کر لی۔ **************&&&&************** چھ ماہ تک زندگی خوشحال اور مستحکم چلتی رہی۔ رانا صاحب اپنے دفتر جاتے رہے اور کرن انلائن کتاب لکھتی رہی جب آزمائش نے ان کے دروازے پر دستک دی۔ موسم سرما کا آغاز تھا صبح سویرے رانا ہاوس میں سب اپنے اپنے آرام گاہ میں آرام کر رہے تھے جب بھاری قدموں کی چھاپ سنائی دی اور ساتھ ہی زور سے گیٹ پیٹا گیا۔ رانا صاحب کے اوسان خطا ہو گئے وہ ہڑبرا کر اٹھے اور دیکھنے کے لیے کمرے سے باہر جانے لگے۔ کرن نے گھبرا کر ان کا بازو تھام لیا لیکن رانا صاحب اسے دلاسہ دیتے اٹھے اور کمرے سے باہر نکل گئے۔ کرن بھی بال سمیٹتی شبخوابی کے ڈریس پر شال لیتے ان کے پیچھے نکل آئی وہ ابھی سیڑھیوں کے سرے پر پہنچی تھی کہ اس نے لاؤنج کے دروازے پر پولیس کی نفری رانا صاحب سے بات کرتے دیکھی۔ نور کے گرد بچے دڑے سہمے کھڑے تھے۔ روحان تنے تاثرات سے پولیس اہلکاروں سے مباحثہ کرنے میں مشغول تھا۔ کرن کی دھڑکن تیز ہوگئی وہ بھاری قدموں سے چلتے ان کے قریب آئی اور معاملہ پوچھنے لگی۔ "۔NAB سے ہے۔۔۔۔ مجھ سے منسلک پراپرٹی کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے آئے ہیں۔۔۔۔" رانا صاحب نے اپنے بازو پر کرن کے ہاتھ کو تھپتھپا کر دلاسہ دینےکی کوشش کی۔ "مسٹر رانا آپ کو ہمارے ساتھ بیورو چلنا پڑے گا۔۔۔۔ باقی کے کلیرفیکیشن ہمارے ہیڈ آفسر کو دینا ہوگا۔۔۔۔" پولیس اہلکار نے بے لجک لہجے میں ڈٹے آواز میں کہا۔ کرن کا دل دہل گیا اس نے دونوں ہاتھوں سے رانا صاحب کے بازو کو مضبوطی سے جکڑ لیا اور مسلسل نفی میں سر ہلاتے انہیں جانے سے روکنے لگی۔ "ایسے کیسے لیں جا سکتے ہیں آپ۔۔۔۔ کوئی عدالتی نوٹس ہے آپ کے پاس۔۔۔۔۔" روحان نے تند و تیز آواز میں کہا۔ سفیان نے پاپا کو بلند آواز میں گویا دیکھ کر نور کے کندھے پر سر چھپا لیا تو ذیشان اور زینب اس کے پہلوں میں کھڑے خوف سے ماں کا آنچل مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے۔ "ہم انکم ٹیکس شعبے سے ہے مسٹر روحان۔۔۔۔۔ ہمیں کسی کے گھر چھاپا مارنے کے لیے عدالتی حکم کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔۔۔" سامنے کھڑے توانا مرد نے روحان سے بھی بلند آواز میں جواب دیا۔ روحان کے آبرو تن گئے وہ مزید بحث کرتا لیکن رانا صاحب نے معاملہ سنبھالنے ان کے بیچ مداخلت کی۔ "میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں آفسر۔۔۔۔۔ چلیئے۔۔۔۔" انہوں نے ہاتھ بڑھا کر آفسر کو چلنے کی پیشکش کی۔ "نہیں رانا صاحب مت جائے۔۔۔۔۔" کرن بہت روہانسی ہو گئی تھی اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے۔ "رانا بھائی۔۔۔۔" روحان نے بے یقینی سے رانا صاحب کو دیکھا۔ "کرن۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔ میں تھوڑی دیر تک آجاو گا۔۔۔۔" رانا صاحب کرن کی گرفت سے اپنا بازو چھڑانے لگے۔ وہ متواتر آنسو بہاتی ان کا ہاتھ چھوڑے کو تیار نہ تھی لیکن رانا صاحب کے طاقت کے آگے اس کا کتنا زور چل پاتا۔ ان کا بازو کرن کی گرفت سے آزاد ہوگیا تو وہ تیزی سے پورچ کی سیڑھیاں اترتے پولیس اہلکاروں کے پیچھے بڑھ گئے۔ "رانا صاحب مت جائے۔۔۔۔۔" وہ روتے بلکتے لاؤنج کے دہلیز پر کھڑی انہیں پکارنے لگی۔ رانا صاحب کرن کے آہ و پکار نظر انداز کرتے ہوئے پولیس جیپ میں سوار ہوگئے اور گاڑی زن کر کے روانہ ہوگئی۔ کرن کو اپنا گھر پھر سے نازک موڑ پر آکر ہاتھ سے پھسلتا محسوس ہوا۔ اس نے برق رفتاری سے اپنا دماغ استعمال کرنا شروع کیا۔ "روحان کچھ کریں۔۔۔۔ رانا صاحب کو واپس لائے۔۔۔۔" کرن اتنی پریشان تھی کہ اس سے خود کچھ سوچا نہیں گیا۔ اس نے روحان کا ہاتھ جھنجوڑ کر فریاد کی۔ "کچھ نہیں ہوگا رانا بھائی کو۔۔۔۔۔۔ نور کرن کو سنبھالو۔۔۔۔ میں وکیل صاحب سے ملنے جارہا ہوں۔۔۔۔" روحان نے کرن کو حوصلہ دلاتے نور کو ہدایت دی اور اپنی کار کی جانب بھاگا۔ "کرن۔۔۔ پلیز حوصلہ رکھو۔۔۔۔" نور نے آگے آکر روتی کرن کو اٹھایا اور صوفے پر بیٹھانے لگی۔ "ممی۔۔۔۔۔ بڑے پاپا کو پھر سے جیل ہوجائے گی۔۔۔۔" ذیشان نے اپنا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے نور کو مخاطب کیا۔ نور ایک نظر اسے دیکھ کر خاموش ہوگئی۔ کرن بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔ ذیشان کے اس سوال کا ان دونوں کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ *************&&&&*************** جاری ہے
❤️ 👍 😢 😮 😂 🙏 219

Comments