Novel Ki Dunya
June 14, 2025 at 03:28 AM
ناول: قسمت سے ہاری میں (پارٹ 2)
از قلم: پلوشہ صافی
قسط نمبر: 12 سیکنڈ لاسٹ
#dont_copy_paste_without_my_permission
صبح 8 بجے کے جو گئے تھے روحان اور رانا مبشر دوپہر ہونے تک بھی نہیں آئے۔ نور اور کرن کال کر کے بھی دیکھتی تو ان دونوں کے نمبر بند موصول ہوتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اضطراب میں اضافہ ہورہا تھا۔ نہ کرن نے صبح سے دانہ پانی چکا اور نہ نور نے۔
ان کو دیکھ کر بچے بھی خاموش ہوگئے تھے یہاں تک کہ سفیان بھی کوئی شرارت کرنے سے گریزاں تھا۔
کرن ابھی عصر کی نماز ادا کر کے رانا صاحب اور روحان کی خیریت کی دعائیں مانگ رہی تھی جب پورچ میں گاڑی رکنے کی آواز آئی۔ وہ تیزی سے نماز کے چادر میں ہی بھاگتی نیچے آئی۔ رانا صاحب اور روحان وکیل صاحب کے ہمرہ تھاکے ماندے لاؤنج میں داخل ہورہے تھے۔
نور نے ملازم سے ان کے لیے چائے اور لوازمات تیار کرنے کی ہدایت دی۔
رانا صاحب نے بیٹھتے ساتھ سر صوفے کے پشت سے ٹکا دیا اور آنکھیں سختی سے مینچھے پیشانی اور کن پٹیاں مسلنے لگے۔ ان کے سر میں شدید درد ہورہا تھا۔
"8 گھنٹے تک انہوں نے رانا بھائی سے تفتیش کی۔۔۔۔۔ ہمیں اندر بھی جانے نہیں دیں رہے تھے۔۔۔۔۔ خوار کر کے رکھ دیا۔۔۔۔۔" روحان نے تپے مزاج سے کہا۔ سفیان تو اس کی گود میں چڑھ کر بیٹھ گیا تھا اس قدر اسے اپنے پاپا کی فکر ہورہی تھی۔ ذیشان اور زینب بھی اس کے پہلو میں کھڑے ہوگئے تھے۔
"تو کوئی نتیجہ حاصل ہوا۔۔۔۔ دوبارہ تو نہیں آئے گے نا۔۔۔۔۔" کرن نے رانا صاحب کے بجائے روحان سے پوچھا۔ وہ اس وقت رانا صاحب کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"باقی جائیداد کی پروفنگ (ثابت کرنا) تو ہوگئی۔۔۔۔ بس اس بنگلے کی نہیں ہوسکی۔۔۔۔۔ کیونکہ رانا صاحب نے یہ بنگلہ بیلا کے وراثت سے ملنے والی کمپنی کو بھیچ کر بنایا تھا۔۔۔۔۔۔ اور بعد میں محمود شاہد کے طرف سے ان پر وہ کمپنی زبردستی قبضہ کرنے کا کیس ہوا تھا۔۔۔۔۔ اس لیے بنگلے کے کاغذات ضبط کر لیئے ہیں۔۔۔۔۔" جواب وکیل صاحب کے جانب سے پروفیشنل انداز میں ملا۔
کرن نے بے بسی سے آنکھیں موندھے سر درد کو برداشت کرتے رانا صاحب کے بجھے بجھے چہرے کو دیکھا۔ وکیل صاحب نے باقی پراپرٹی کے کاغذات ترتیب دے کر روحان کے حوالے کیے اور رخصت لیتے روانہ ہوگئے۔
ان کے جاتے ہی کرن تیزی سے کمرے میں گئی اور ویکس کی ڈبی لیتے واپس آئی اور رانا صاحب کے پیشانی پر مساج کرنے لگی۔
"سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔۔ یہ NAB والے تو کسی کو سکون سے رہنے نہیں دیتے۔۔۔۔۔ آپ پریشان نا ہوں۔۔۔۔ کوئی نا کوئی راستہ نکل آئے گا۔۔۔۔" کرن نے اپنی جانب سے رانا صاحب کی تشویش کو کم کرنے کی کوشش کی۔
رانا صاحب کرن کے تجویز پر پھیکا مسکرائے اور اس کا ہاتھ تھام کر اپنے پاس بیٹھایا۔
"اگلے ہفتے اس بنگلے کی نیلامی ہے۔۔۔۔۔" انہوں نے افسردگی سے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔ روحان نے لب کاٹتے زخمی سانس خارج کی اور نور خاموشی سے ان کی گفتگو سنتی رہی۔
"ہاں تو ہم سب ملا کر اس بنگلے کو واپس خرید لینگے۔۔۔۔۔ اتنی سیونگ تو ہیں ہم سب کے پاس۔۔۔۔" کرن نے پھرتی سے راہ حل نکالا۔
رانا صاحب کرن کی معصومیت پر حیران بھی ہوئے اور افسردہ بھی۔
"میرے وراثت میں آنے والا کوئی بھی اس بنگلے کو نہیں خرید سکتا۔۔۔۔۔ نا ہی میرے روحان اور نور کے اکاؤنٹ کا پیسہ استعمال کر کے کسی اور کے ذریعے خریدا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔ نیلامی ہونے تک انہوں نے ہم تینوں کے بینک اکاونٹس اپنے تحویل میں لیں لیئے ہے۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے مایوسی سے نظریں گھماتے ہوئے اس سنگ مر مر کے بنے خوبصورت بنگلے کو دیکھا۔
"بڑے پاپا۔۔۔۔۔ اب ہم بے گھر ہوجائے گے کیا۔۔۔۔۔" ذیشان نے رانا صاحب کے بازو پر ہاتھ رکھ کر اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
"نہیں میری جان۔۔۔۔۔ F9 Phase میں میرا ایک چھوٹا سا فلیٹ ہے۔۔۔۔۔ ہم وہاں جائیں گے۔۔۔۔۔ وہ اتنا بڑا تو نہیں ہے۔۔۔۔۔ لیکن ہم سب ساتھ رہیں گے۔۔۔۔ اصل بات ہماری فیملی کا اتفاق سے ایک دوسرے سے ساتھ رہنا ہے۔۔۔۔۔ بنگلہ مکان دولت سب آنی جانی چیز ہے۔۔۔۔" رانا صاحب نے محبت سے بچوں کو اپنے حصار میں لے کر سمجھایا۔ روحان بھی رانا بھائی کے قریب کھسکا اور ان کے کندھوں کے گرد بازو مائل کئے۔
************&&&&*************
کرن ان سب سے بہت ڈسٹرب ہوگئی تھی۔ اس سے اپنے کام پر فوکس نہیں کیا جا رہا تھا۔
نور نے تو شفٹ ہونے کی تیاری بھی شروع کر دی تھی۔ ڈرائیور کے ہاتھوں باکس منگوا کر اس نے پیکنگ کا آغاز کیا۔
اس دن لاؤنج کے دیواروں پر فریم کئے تصاویر نکالتے ہوئے نور آبدیدہ ہوگئی۔ بے آواز روتی وہ بچوں سے اور کرن سے اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کرتی رہی لیکن کرن اس کی کیفیت سمجھ گئی تھی۔ اس سے وہ سب دیکھا نہیں گیا اور الٹے قدم اپنے کمرے میں چلی گئی۔
"یا اللہ کیا اس مشکل سے نکلنے کا ایسا کوئی راستہ نہیں جس سے یہ گھر نا چھوڑنا پڑے۔۔۔۔۔ اچھی بری۔۔۔۔ بہت سی یادیں وابستہ ہے اس گھر سے۔۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ کوئی آسان راہ دکھا دو۔۔۔۔" کرن اپنے کمرے میں دائیں سے بائیں چکر کاٹتی دل میں دعائیں کرنے لگی۔
دن بھر کبھی چکر کاٹتے تو کبھی بے مقصد بیٹھے رہتے وہ اپنے کمرے میں ہی بند رہی۔ اسے نور کا سامنا کرنے میں دشواری ہو رہی تھی۔
شام کو بیڈ پر نیم دراز ہو کر بیٹھے پیر جھلاتے اسے ایک خیال کیا اور وہ کرنٹ کھا کر سیدھے ہوکر بیٹھی۔ اس نے اپنے دماغ میں آگے کا لائحہ عمل طے کیا اور خوش ہوتے ہوئے موبائل اٹھا کر ایک کال ملائی۔
**************&&&&&*************
رات کو رانا صاحب جب گھر لوٹے تو کرن بلکل تیار کھڑی اپنا چھوٹا سا سفری بیگ بند کر رہی تھی۔
"کہی جا رہی ہو۔۔۔۔" رانا صاحب نے تعجب سے اس کے حرکات دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ باس کی کال آئی تھی۔۔۔۔ ایک بہت ضروری میٹنگ ہے اقوام متحدہ کے کارکنان کے ساتھ۔۔۔۔۔ جانا بہت ضروری ہے۔۔۔۔۔ آپ کو بتانا چاہتی تھی لیکن۔۔۔۔۔ آپ نیلامی کے مسئلے میں گھیرے ہوئے تھے۔۔۔۔۔ مزید پریشان کرنا ٹھیک نہیں لگا۔۔۔۔" کرن نے ہینڈ بیگ میں دستاویزات رکھتے ہوئے مصروف انداز میں جواب دیا۔
رانا صاحب کے تاثرات سپاٹ ہوگئے۔ ان کا دل کیا وہ اپنا وحشی روم اپنا کر کرن کو زمین بوس کر کے اس کی اوقت دکھا دے۔ اپنے شوہر ہونے کی حاکمیت جتائے۔
"تو میں جاوں۔۔۔ دو تین دن تک واپس آجاوں گی۔۔۔۔" کرن نے خوشگوار مزاجی سے کہا جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔ انہیں کوئی مشکل در پیش ہی نا ہو۔
رانا صاحب نے ضبط کرنے لب مینچھ لیئے۔ انہیں اس وقت کرن کی اس حرکت پر شدید غصہ آرہا تھا لیکن انہوں نے شیطانی خیالات کو جھٹکا اور رخ پھیر کر صرف ہمممم کرتے کرن کو جانے کی اجازت دی اور اپنا طیش قابو کرتے تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئے۔
کرن کے گلے میں آنسووں کا پھندا لگ گیا۔ نکاح کے بعد یہ ان کے مابین پہلی ناراضگی تھی۔
"مجھے معاف کرنا رانا صاحب۔۔۔۔۔ میں جانتی ہوں۔۔۔ اس حال میں میرا آپ کو اکیلے چھوڑ کر جانے سے آپ کو بہت تکلیف ہورہی ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن میرا یہ قدم انتہائی اہم ہے۔۔۔۔۔ یہ میں ہم سب کے بھلائی کے لیے ہی اٹھا رہی ہوں۔۔۔۔" کرن نے اپنے جذبات قابو کرتے ہوئے دل میں سوچا اور بیگ کا ہینڈل پکڑے تیز تیز روانہ ہوگئی۔
*************&&&&************
اگلی صبح گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ سب خاموشی سے اپنے اپنے کام میں جٹے ہوئے تھے۔ روحان نے کل رات سے کرن کو غیر حاضر پایا تو رانا صاحب سے پوچھنے ان کے کمرے میں آیا۔
"رانا بھائی۔۔۔۔ کرن کہاں ہے۔۔۔۔۔ کل سے نظر نہیں آرہی۔۔۔۔" اس نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا اور آس پاس دیکھا تو ان کے روم کا کچھ پیک بھی نہیں تھا جس سے روحان کو مزید شاک لگا۔
"وہ اپنے کسی ضروری کام سے ترکی گئی ہے۔۔۔۔" رانا صاحب نے سرد مہری سے جواب دیا۔
"واٹ۔۔۔۔۔۔ کرن سے ایسے بے وقوفی کی امید نہیں تھی۔۔۔۔۔ سب کچھ اس کے سامنے واضح تھا۔۔۔۔۔ ہم پر یہاں اتنی بڑی پریشانی آن پڑی ہے۔۔۔۔۔ اور اسے اپنے اہم کام یاد آگئے۔۔۔۔۔ ایسے حالات میں اسے آپ کو اکیلے چھوڑ کر جانا نہیں چاہیئے تھا۔۔۔۔۔" روحان کمر پر ہاتھ رکھے ہوئے غصے سے آگ بگولا ہونے لگا۔
"سات سال پہلے وہ مجھے جیل میں چھوڑ کر گئی تھی۔۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
"میں ہی اسے سمجھ نہیں سکا۔۔۔۔ بہت لاپروا ہوگئی ہے وہ۔۔۔۔"روحان کو اب بھی کرن کے کیئے پر یقین نہیں آرہا تھا۔
"سات سال پہلے سمجھ کر بھی کونسا تم نے صحیح کام کیا تھا۔۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے پہلی دفعہ روحان کے کرن اور ان کا خلا کرونے کے غلط فیصلے پر شکایت کی۔ روحان دنگ رہ گیا۔
"آپ نے کیسے اجازت دیں دی۔۔۔۔ اتنی چھوٹ بھی نہیں دینی چاہیئے۔۔۔۔۔۔" روحان کو رانا صاحب پیار میں اندھے ہوتے محسوس ہوئے۔ اس نے پہلے کے نسبت قدرے شکست خوردہ لہجے میں کہا۔
"دیکھو۔۔۔۔ تم اگر ایسی بے تُکی باتیں کر کے میرے اور کرن کے درمیان اختلافات بنانا چاہتے ہو تو بھول جاو۔۔۔۔۔۔ میرا اور کرن کا رشتہ اب ایسے چھوٹی باتوں پر لڑ جھگڑنے سے آگے بڑھ گیا ہے۔۔۔۔ ہم اب ایسی باتوں کو مائینڈ نہیں کیا کرتے۔۔۔۔۔ موت کے علاوہ کوئی دوسری شے ہمیں الگ نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔"رانا صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ وہ سختی سے روحان کو جھڑکنے لگے۔
"ہمارا تعلق اتنا مضبوط ہے کہ بنا کہے بھی ایک دوسرے کی بات سمجھ جاتے ہیں۔۔۔۔۔ ایسے حالات میں بھی اگر اسے جانا پڑا ہے تو واقعی بہت اہم کام ہوگا۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے تنے ہوئے اعصاب سے کہا اور رخ پھیر لیا۔
روحان کو رانا بھائی کا اسے جھڑک کر کرن کی حمایت کرنا برا لگا وہ پیر پٹختا لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
***************&&&&***************
اس صبح نیب کارکنان اور پولیس نفری رانا ہاوس کے سامنے سبزہ میں اسٹیج بنانے اور کرسیاں لگانے میں مصروف تھے۔ شام میں گھر کے نیلامی کی کاروائی شروع کی جانی تھی۔
رانا صاحب مایوسی سے خالی بنگلے میں بیٹھے اپنا گھر بکتے دیکھ رہے تھے۔ روحان کے تند تاثرات کو نظرانداز کرتے ہوئے رانا صاحب نے کرن کے موبائل پر کال کی لیکن اس کا نمبر کل رات سے بند جا رہا تھا۔ دل ہی دل میں وہ واقعی چاہتے تھے کہ اس پل کرن ان کے پاس ہو سچے ہمسفر جیسے ان کا ساتھ دے۔
نور اور بچوں کو کسی بھی ہنگامے سے محفوظ رکھنے روحان نے کل رات انہیں F9 phase کے گھر میں شفٹ کر دیا تھا۔ کاروائی میں صرف رانا صاحب اور روحان شامل تھے۔
ظہر کی نماز کے بعد بڑے بڑے سرمایہ کاروں اور الگ الگ بیوروکریٹس کے آمد کا آغاز ہوا۔ سب اپنے اپنے نشستوں پر تشریف فرما ہونے لگے۔ اور کچھ ہی دیر میں نیلامی کا آغاز ہوا۔
"رائج الوقت کے مطابق اس وقت اس بنگلہ کی قیمت پچپن (55) کڑوڑ ہے۔۔۔۔۔ بولی کا آغاز چھپن (56) کڑوڑ سے کی جائے گی۔۔۔۔۔" پوڈیم پر کھڑے اس آفسر نے مائک میں کاروائی کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔
اسی کے ساتھ بولیاں بلند ہوئی۔
56 کڑوڑ ایک آدمی نے اپنے ٹیبل نمبر کا بورڈ اٹھا کر آفسر کو متوجہ کیا۔
اسی کے بائیں جانب آدمی نے رقم کی تعداد میں اضافہ کرتے 58 کڑوڑ صدا لگائی۔
ہر بولی کے ساتھ رانا صاحب کے دل میں ٹیس اٹھتی۔ اس دن کے جھڑک کے بعد روحان بھی ان سے دوری رکھے ہوئے تھا۔ وہ یک تنہا لکڑی کے کرسی پر کہنیاں گھٹنوں پر ٹکائے بیٹھے تھے۔
5۔58 کڑوڑ
باہر سے آتی ہر صدا پر وہ ہاتھ باہم پھنسائے اس پر پیشانی کو جنبش دے رہے تھے۔
59 کڑوڑ۔
"یہ تیرے اکیلے کی آزمائش ہے رانا۔۔۔۔۔ اسے تم نے خود گزارنا ہے۔۔۔۔۔۔ کوئی روحان۔۔۔۔ کوئی کرن تیرے مدد کو نہیں آئیں گے۔۔۔۔ اس دریا کو تم نے خود پار کرنا ہے۔۔۔۔ صبر سے کام لو۔۔۔۔۔" انہوں نے دل ہی دل میں سوچا۔
انہیں ایسا لگ رہا تھا مانو کوئی ان کے گھر کی نہیں ان کے عزت کی بولی لگا رہا ہو۔
"بیشک عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔۔۔۔ وہ جیسے چاہے عزت بخشے۔۔۔۔۔ جیسے چاہے رسوا کریں۔۔۔۔۔ اور جو نیک بندے اللہ کی رسی پکڑے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ پھر اللہ سبحان و تعالی بھی انہیں رسوا نہیں ہونے دیتا۔۔۔۔۔" رانا صاحب کو شیخ صاحب کے سیکھائے اسباق میں سے ایک سبق یاد آیا۔ آنکھیں موندھے پیشانی مٹھی پر پٹختے بھی ان کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔
انہوں نے توبہ کرنے کے بعد سے اللہ کی رسی پکڑے رکھی تھی۔ اب ان کے عزت کا محافظ بھی وہی ذات تھا۔ اس خیال سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
گیٹ کے باہر بولی اپنے رفتار سے لگتی رہی۔
60 سے 70 اور پھر 72 پر آکر بولی تھم گئی اس سے زیادہ کی بولی نہیں لگائی گئی۔
"ہے کوئی اس سے زیادہ کی قیمت لگانے والا۔۔۔۔۔ کون ہوگا وہ خوش نصیب جس کے نام یہ سنگ مر مر کا شاہکار بنگلہ کیا جائے گا۔۔۔۔۔" آفسر نے بلند آواز مائک میں بولتے ایک آخری کوشش کی۔ جب کسی نے جواب نہیں دیا تو 72 کڑوڑ بولی لگانے والے کا چہرہ چمک اٹھا۔
"تو 72 کڑوڑ ایک۔۔۔۔۔
72 کڑوڑ دو۔۔۔۔۔
72 کڑور۔۔۔۔۔۔۔
تین بولنے سے پہلے فضا میں ایک نسوانی آواز گونجی
80 کڑوڑ۔۔۔۔۔
رانا صاحب کی حیرانگی سے آنکھیں کھل گئی۔ کوئی اور پہچانے یا نہ پہچانے مگر رانا مبشر اس آواز سے خوب واقف تھا۔ وہ جھٹکا کھا کر کرسی سے اٹھے اور لاؤنج کے دروازے پر کھڑے ہو کر سامنے دیکھنے لگے۔ روحان بھی حیرت زدہ سا اسی سمت دیکھ رہا تھا۔
کرن نے بلیک پینٹ اور وائٹ شرٹ پہنے اس پر لانگ کوٹ لیا ہوا تھا۔ بالوں کی ہائی پونی بنائے۔ آنکھوں پر برانڈڈ گلاسس لگائے۔ سرخ رنگ کی لپسٹیک لگائے ہوئے۔ لمبی ہیل میں ترکش انداز میں چلتی اسٹیج پر آئی۔ اس کے پیچھے ایک کالے کوٹ میں ملبوس وکیل بھی چلتا اسٹیج تک آیا
"سوری آفسر مجھے آنے میں زرا دیر ہوگئی۔۔۔۔" کرن نے با اعتماد لہجے میں معروف بزنس وومن کا ہولیہ بنائے ہوئے کہا۔
رانا صاحب کو تفتیش کے لیے لیں جاتے وقت جو آفسر آیا تھا وہ کوئی اور تھا اور آج نیلامی کروانے والا کوئی اور اس لیے یہ آفسر رانا صاحب اور کرن کے ساتھ سے انجان تھا۔
رانا صاحب کو کرن کے اس انداز سے تعجب ہوا۔ وہ اسے پکارنے لگے تھے کہ کرن کے پیچھے کھڑے وکیل نے جعلی کھانستے ہوئے رانا صاحب کو پلکیں جھپکا کر مداخلت نا کرنے کا اشارہ کیا تو رانا صاحب واپس پیچھے ہوگئے۔
وہ سرکاری آفسر کرن کے پیش کردہ دستاویزات پر ایک نظر دوڑا کر پھر سے مائک پر کنکارا۔
"کیا کوئی ہے مزید بولی لگانے والا۔۔۔۔۔" اس نے وہاں بیٹھے سب ہی شخصیات پر نظر گردانی کی۔
جواب میں مکمل خاموشی چھائی رہی تو اس نے
80 کڑوڑ ایک۔۔۔۔
80 کڑوڑ دو۔۔۔۔۔
80 کڑوڑ تین۔۔۔۔۔
کہتے ہوئے ہتھوڑی پٹخی اور وہ سنگ مر مر کا بنگلہ کرن کے نام ہو گیا۔
"مبارک ہو مس کرن جمیل۔۔۔۔۔ یہ گھر آج سے آپ کا ہوا۔۔۔۔" آفسر نے خوشگوار مزاجی سے کرن کو بنگلے کی چابی تھماتے ہوئے کہا۔
"بہت شکریہ آفسر۔۔۔۔ باقی کی کاروائی میرے وکیل صاحب دیکھ لینگے۔۔۔۔ میں زرا بنگلے کا اندر سے جائزہ لیں لوں۔۔۔۔۔" وہ اپنے مخصوص انداز میں سر کو خم دیتی مسکرائی اور پھر گلاسس اتار کر بنگلے کے اندر جانے لگی۔
"ویری نائس۔۔۔۔۔ بہت اچھا ہے۔۔۔۔۔" وہ رانا صاحب اور روحان سے انجان بتنی ستائشی انداز میں بنگلے کی بناوٹ کو سراہنے لگی۔
کاروائی اپنے اختتام کو پہنچی اور سب آفسران چلیں گئے تو رانا صاحب کرن کے سامنے آئے اور سرد مہری سے اسے گھورنے لگے۔
"تمہارے پاس اتنی رقم کہاں سے آئی۔۔۔۔۔" ان کی آواز میں سختی در آئی تھی۔
کرن ان کے غصے پر سر جھٹکتی ان سے ملنے قریب جانے لگی لیکن رانا صاحب دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔ کرن کے ہاتھ ہوا میں بلند رہ گئے۔
"کیا آپ کو لگتا ہے میں نے کچھ غلط کیا ہوگا۔۔۔۔۔" کرن نے گلہ آمیز نظروں سے رانا صاحب کو دیکھا۔
"مجھ پر اعتبار نہیں۔۔۔" وہ منہ بھسورنے لگی۔
"بات اعتبار کی نہیں ہے کرن۔۔۔۔۔ میرا سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی رقم کیسے دی تم نے۔۔۔۔ 72 سے سیدھے 80 کڑوڑ۔۔۔۔۔۔۔" رانا صاحب کا شکوہ بھی بہ جا تھا۔
"میں نے اپنا ترکی والا گھر بھیج دیا۔۔۔۔۔" کرن نے بنا تہمید باندھے سیدھے سیدھے سچ کہا۔
رانا صاحب کے آبرو پھیل گئے اور روحان کے تن گئے۔
"واٹ۔۔۔۔۔۔ پر کیوں۔۔۔۔ اور ایسے کیسے۔۔۔۔" رانا صاحب کو کرن کی پہیلی سمجھ نہیں آرہی تھی۔
کرن نے سر دائیں سے بائیں ہلایا اور ٹہلتے ہوئے شروع سے رو داد سنانے لگی۔
"جب اس گھر کی نیلامی کو لیں کر آپ سب بہت پریشان تھے۔۔۔ اور قانون کے مطابق آپ کے ورثہ میں سے کوئی اس گھر کو واپس خرید بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔۔۔ تو مجھے ایک خیال آیا۔۔۔۔۔" کرن نرمی سے گویا تھی اور رانا صاحب اور روحان دم سادھے اسے سن رہے تھے۔
"رانا صاحب میرا اور آپ کا نکاح ترکی میں ہوا تھا۔۔۔۔ اور خوش قسمتی سے اب تک ہمیں پاکستان میں ہمارا نکاح رجسٹر کروانے کا موقع نہیں ملا تھا۔۔۔۔۔۔ اس لحاظ سے پاکستانی قوانین کے مطابق میرا آپ سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں آپ کے ورثہ میں شمار نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔ اس لیے میں یہ بنگلہ خرید سکتی تھی۔۔۔۔۔" کرن ایک کہانی سنانے کے جیسے ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے انہیں حقیقت سے واقف کرنے لگی۔ کرن کی یہ دلیل سن کر رانا صاحب نے اپنے ذہن پر زور دیا تو واقعی انہوں نے اب تک پاکستان میں نکاح رجسٹر نہیں کروایا تھا۔
"یہ خیال آتے ہی میں نے وکیل صاحب سے مشورہ کیا انہیں یہ ساری دلیل بتائی۔۔۔۔
############## 1 ہفتہ پہلے ############
"بلکل کرن۔۔۔۔۔ میں آپ کے دلیل سے متفق ہوں۔۔۔۔۔۔آپ اپنے ترکش شہری ہونے کے ڈاکیومینٹس اور بینک اکاونٹ کی ڈیٹل پیش کریں گی تو آپ رانا ہاوس اپنے نام خرید سکتی ہے۔۔۔۔۔ آپ بس پیسوں کا بندوبست کیجیئے۔۔۔۔ باقی کی کاروائی میں کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔" وکیل صاحب کی بات سن کر کرن کو ایک نئی امید ملی۔ ان کی مشکور ہوتے ہوئے کرن نے کال کاٹی۔
اب کرن کو پیسوں کا اتنظام کرنا تھا اس لیے اس نے فوراً سے ایک اور کال ملائی۔
"یاد ہے سیلان۔۔۔۔ ایک سال پہلے ایک امیر امریکی ٹورسٹ (سیاح) کو میرا گھر بہت پسند آیا تھا اور وہ مجھے اس کے لیے منہ مانگی قیمت دینے کو بھی تیار تھا۔۔۔۔۔" کرن نے سیلان کو سال پہلے کا ایک واقعہ یاد کروایا۔
"جی یاد ہے۔۔۔۔ آج آپ کو اس کی یاد کیسے آگئی۔۔۔۔" سیلان نے حیرانگی سے پوچھا۔
"میرے ترک نمبر کے کال ریکارڈ نکالو اور اس آدمی سے رابطہ بحال کرو۔۔۔۔۔۔ میں اسے اپنا گھر بھیجنے کو تیار ہوں۔۔۔۔۔" کرن نے تیزی سے ہدایت جاری کی۔
#جاری
❤️
👍
😢
😮
😂
🙏
223