Novel Ki Dunya
June 14, 2025 at 09:23 AM
ناول: قسمت سے ہاری میں (پارٹ 2)
از قلم: پلوشہ صافی
قسط نمبر: 13 (آخری قسط)
#dont_copy_paste_without_my_permission
سیلان شاک کے عالم میں گنگ ہو کر رہ گیا۔
"میم اگر آپ کو پیسے درکار ہے۔۔۔۔۔ تو میں باس سے بات کرتا ہوں۔۔۔۔۔ یا بینک سے لون لے کر دیتا ہوں۔۔۔۔۔ پر آپ کو گھر بھیجنے کی کیا ضرورت۔۔۔۔۔" اس نے بے یقینی سے جواب دیا۔ اسے کرن کے فیصلے پر یقین نہیں آرہا تھا۔
"جتنی رقم مجھے چاہیئے ہوگی۔۔۔۔۔۔ وہ کسی بینک لون سے پوری نہیں ہوسکے گی۔۔۔۔۔۔ تم سے جتنا کہا اتنا کرو۔۔۔۔۔ اس آدمی سے بات کرو۔۔۔۔۔ ڈیل فائنل کرو پھر مجھے اطلاع دو۔۔۔۔۔ میں بقیہ کاروائی کے لیے آجاوں گی۔۔۔۔" کرن نے سپاٹ انداز میں اپنا فیصلہ سنایا۔
کرن کے حکم کے مطابق سیلان نے ایک دن کے اندر اندر اس امیر امریکی ٹورسٹ سے رابطہ کیا اور اسے ڈیل کے متعلق آگاہ کیا۔ جب وہ مان گیا تو کرن نے اسی رات اپنی ترکی کی فلائٹ کرائی۔
*************&&&&*************
اگلی صبح کرن نے ترکی پہنچ کر سب سے پہلے وکیل صاحب کو کال کر کے وہاں کی صورت حال معلوم کی۔
"کرن گھر کی فروخت 55 کڑوڑ سے شروع ہوگی۔ آپ کے پاس کم سے کم 80 سے 90 کڑوڑ ہونے چاہیئے رانا ہاوس کو بچانے کے لیے۔۔۔۔۔۔" وکیل صاحب نے نیب کے جاری کردہ قیمت کے بارے میں روشناس کروایا۔
"یہ تو بہت زیادہ رقم ہے۔۔۔۔۔ میرا گھر زیادہ سے زیادہ 3 سے 4 لاکھ ڈالر کا ہوگا۔۔۔۔۔۔" کرن کو اپنا یہ آئیڈیا فیل ہوتا نظر آیا۔
"میں جاتنا ہوں۔۔۔۔۔۔ لیکن جیسا کہ آپ نے بتایا۔۔۔۔۔۔ وہ امریکی سیاح منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے تو وہ سر پھرا لگتا ہے۔۔۔۔۔۔ ایسے بہت امیر زادے وہ ہے۔۔۔۔۔۔ جو اپنی پنسدیدہ چیزوں کے لیے جان بھی لگا دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ آپ اس سے 10 ملین ڈالر کی مانگ کرنا۔۔۔۔۔۔ کچھ انٹرنیشنل پیسے کو پاکستانی روپے میں تبدیل کرنے کے ٹیکس میں بھی دینے پڑے گے اور باقی فارمیلٹی مکمل کرنے بھی ہمارے ہاتھ میں رقم ہونی چاہیئے۔۔۔۔" وکیل صاحب کی بات سے کرن مزید پریشان ہوگئی تھی لیکن اسے جلد از جلد پیسے لے کر پاکستان پہنچنا تھا اس لیے وکیل صاحب کی بات مان کر وہ اس امریکی سیاح سے ڈیل کرنے آگے کا لائحہ عمل سوچنے لگی۔
اسی شام وہ آدمی بھی کرن نے ایمرجنسی میں بلائے جانے پر ترکی پہنچا۔
"بہت شکریہ۔۔۔۔۔ آپ اتنے شارٹ نوٹس پر یہاں آنے کو تیار ہوئے۔۔۔۔ گھر تو آپ نے دیکھ لیا ہے۔۔۔۔ باقی کی ڈیل مکمل کرتے ہیں۔۔۔۔۔" کرن نے ان اڈھیر عمر آدمی سے مل کر مشکور ہوتے ہوئے کہا اور اپنے گھر کے لیگل کاغذات دکھانے لگی۔
"10 ملین ڈالرز۔۔۔۔۔" جب وہ کاغذات دیکھ کر محظوظ ہونے لگا تو کرن نے اپنی منہ مانگی قیمت بتائی۔ وہ رقم سن کر امریکی باشندہ ساکت ہوگیا اور کرن کے پہلو میں کھڑا سیلان کی شاک سے آنکھیں بڑی ہوگئی۔
"رقم کچھ زیادہ نہیں ہے۔۔۔۔۔" سامنے بیٹھے آدمی نے ڈٹے آواز میں سگار کا کش لیتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا۔
"یہ بات آپ کو منہ مانگی قیمت دینے کی شرط رکھنے سے پہلے سوچنی چاہیئے تھی۔۔۔۔" کرن نے پر کشش بزنس وومن کے جیسے گردن اکھڑا کر کہا۔
وہ امریکی خاموشی سے سوچ میں ڈوب گیا تھا۔
"سوچ لیں۔۔۔۔ ایک اور پارٹی سے 12 ملین پر نظر ثانی ہورہی ہے۔۔۔۔۔۔ انتالیہ کے بیچو بیچ ایسا شاندار سمندر کنارے اتنا بڑا گھر جس کی ہر بالکونی سے آپ سمندر کا نظارا۔۔۔۔۔ اور تیز گرمی میں بھی ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہوتے رہے۔۔۔۔ رات کے دو بجے بھی شہر کی روشنیاں آپ کو باہر نکلنے پر مجبور کریں۔۔۔۔ کہی اتنا سب آپ کے ہاتھ سے نکل نہ جائے۔۔۔۔۔" کرن اپنی تیز نظریں اس پر مرکوز کئے اسے گھر کی خصوصیات گنوا کر راغب کر رہی تھی۔
اچانک سے وہ آدمی اٹھا تو کرن بھی گھبرا کر اٹھ گئی۔ دوسری پارٹی کا اس نے جھوٹ گڑھا تھا وہ کسی قیمت اس آدمی کو جانے نہیں دے سکتی تھی۔
"منظور ہے۔۔۔۔۔" اس آدمی نے ہامی بھری اور کاغذات پر جھک کر سائن کرنے لگا۔
کرن کی آنکھیں چمک اٹھی۔
"تھینکیو سو مچ۔۔۔۔۔ بہت مبارک ہو۔۔۔۔۔۔" کرن نے مشکور ہوتے ہوئے سر کو خم دیا۔
**************&&&&&*************
انی کی دو ماہ پہلے اپنے بیٹے اور بہو سے صلاح ہوگئی تھی۔ وہ ان کے ہمراہ واپس بنگلہ دیش واپس چلی گئی تھی۔ کچھ سامان تو انی نے فروخت کر دیا تھا باقی ماندہ کرن آج آشیانہ ہوم کے فنڈ میں دیں رہی تھی۔
اس وقت وہ اپنے سٹوڈیو میں کھڑی اپنے فریم شدہ سرٹیفکیٹس اتار رہی تھی اور انشا گل اس کی بقیہ کتابوں کی الماری خالی کر رہی تھی۔
"آپی۔۔۔۔۔ پاکستان میں سب ٹھیک تو ہے۔۔۔۔۔ مسٹر رانا اور آپ۔۔۔۔۔ مطلب اچانک اتنی رقم کی ضرورت کیوں پڑ گئی کہ آپ کو یہ گھر بھیجنا پڑا۔۔۔۔۔۔ کتنے ارمانوں سے آپ نے یہ سٹوڈیو تیار کروایا تھا۔۔۔۔۔" انشا گل نے افسردگی سے نظریں اٹھا کر سٹوڈیو میں دوڑائی۔
"شادی کے بعد ایک لڑکی کا گھر آفس سٹوڈیو۔۔۔۔۔ سب اس کے شوہر کا گھر ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی انی چلی گئی ہے۔۔۔۔۔ اور میں کہاں اب یہاں رہنے آوں گی۔۔۔۔۔ تو بھیجنے میں ہی بہتری تھی۔۔۔۔۔" کرن نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔
*************&&&&**************
قانونی کاغذات کی تکمیل کرتے ہوئے کرن کو مزید دو دن لگے۔ وہ جلدی جانا چاہتی تھی لیکن قسمت ساتھ نہیں دے رہی تھی۔
وہ ائیر پورٹ پر انشا گل سے رخصت لیتے تیز تیز چل رہی تھی جب اس کا موبائل بجنے لگا کال رانا صاحب کی تھی۔
"بس ایک اور دن رانا صاحب۔۔۔۔۔ آئی پرامس۔۔۔۔۔۔ ہمارا گھر ہمارا ہی رہے گا۔۔۔۔۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔۔۔۔۔ میں گھر کی نیلامی نہیں ہونے دوں گی۔۔۔۔۔۔" کرن نے کال کاٹتے ہوئے دل میں سوچا۔ وہ اس وقت رانا صاحب کو اپنے پلان سے آگاہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔
############## موجودہ وقت ###########
پاکستان پہنچ کر سب سے پہلے وہ ائیر پورٹ سے ڈائریکٹ وکیل صاحب کے دفتر گئی۔
"اthat's it۔۔۔۔۔ اب ہمیں وقت رہتے نیلامی میں پہنچنا ہے۔۔۔۔ جلدی چلو۔۔۔۔۔۔" وکیل صاحب اپنے بنائے کاغذات کی فائل اٹھائے کرن کے ہمراہ تیزی سے روانہ ہوگئے۔
**********&&&******************
"اور اس طرح۔۔۔۔۔ وقت رہتے ہم نے گھر لیں لیا۔۔۔۔۔" رو داد سنا کر وہ رانا صاحب کے جانب پلٹی۔
"تم نے ایک مرتبہ بھی مجھے خبر نہیں کی۔۔۔۔۔ کرن میں اتنا پرایا تھا تمہارے لئے۔۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے شکوہ کیا۔
کرن کے تاثرات بدل گئے۔
"رانا صاحب بتا دیتی تو آپ مجھے گھر بھیجنے نہیں دیتے۔۔۔۔" اس نے دفاعی لہجے میں وضاحت پیش کی۔
"گھر تو آپ کو ویسے بھی نہیں بھیجنا چاہیئے تھا۔۔۔۔" روحان کو سیر و تفریح کے لیے کرن کا گھر بہت پسند آیا تھا۔ اسے کرن کے اس گھر کو بھیجنے پر نہایت افسوس ہورہا تھا۔
"اس کے علاوہ اس گھر کو بچانے کے لیے ہمارے پاس کوئی طریقہ نہیں تھا۔۔۔۔۔ اور آپ ہی تو کہتے ہیں رانا صاحب۔۔۔۔ پیسہ مکان آنی جانی چیز ہیں۔۔۔۔۔ سب سے اہم ہم سب کا ساتھ رہنا ہے۔۔۔۔" کرن نے خوشی سے رانا صاحب کو مناتے ہوئے ان کا ہاتھ تھاما۔ وہ پلکیں جھپکاتے ہوئے مسکرائے
"بس روحان۔۔۔۔ اب آپ جلدی سے نور اور بچوں کو واپس لیں آئے۔۔۔۔۔ اور سامان بھی واپس سیٹ کروانے کا انتظام کریں۔۔۔۔۔" کرن نے شانے اچکاتے خوشی سے سرشار ہوتے ہوئے کہا۔
روحان نے اس کی تجویز پر سر اثابت میں ہلایا اور نور کو کال کرنے لاؤنج سے باہر نکل گیا۔
کرن تسکین سے مسکراتے ہوئے اسے باہر جاتے دیکھ رہی تھی۔ رانا صاحب نے اس کے کندھوں کو تھام کر اس کا رخ اپنے جانب کیا اور محبت سے اس کے کمر کے گرد بانہیں ملاتے کرن کو اپنے قریب کیا۔
"تو میرے دل کے ساتھ ساتھ آج تم اس گھر کی بھی ملکہ بن گئی۔۔۔۔" رانا صاحب نے آبرو اچکا کر اسے دیکھا۔
"بادشاہ تو ہمیشہ آپ ہی رہیں گے۔۔۔۔۔۔ میرے دل کے بھی اور اس گھر کے بھی۔۔۔۔۔ میاں بیوی کا ساتھ ایسا ہی تو ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ کبھی بیوی پریشان ہو تو شوہر اس کی حوصلہ افزائی کرے۔۔۔۔ اور شوہر مشکل میں ہو تو بیوی اس کا ساتھ دے۔۔۔۔۔" کرن نے رانا صاحب کے گردن کے گرد بازو مائل کئے ہوئے ستائشی انداز میں جواب دیا۔
رانا صاحب کھل کر مسکرائے اور کرن کو مضبوطی سے حصار میں لے لیا۔
محبت میں سونے کا نوالہ کون مانگتا ہے۔ محبت تو توجہ اور اہمیت چاہتی ہے۔ ہمسفر سچا ہو تو آپ ایک آواز لگائے اور وہ بنا ماتے پر بل ڈالے کہے میں حاضر۔
کرن اپنی ہاری قسمت سے جیت گئی تھی۔ وہ رانا مبشر کے دل کی ملکہ بن گئی تھی اور رانا صاحب اس کے دل کے بادشاہ۔ زندگی میں آنے والی ہر آزمائش کو ان دونوں نے قدم بہ قدم ساتھ مل کر گزارنے کا حلف اٹھا لیا تھا۔
**************&&&&*************
############ تین سال بعد ############
ترکی میں اس شام کرن کے کتاب کی نمائشی تقریب تھی۔ وہ بلیک کلر کا لمبا گاون پہنے سب سے تعریفیں بٹورتی پھولوں کا گلدستہ تھامتی مہمانوں سے رخصت لیتے اس عالی شان ہال سے باہر آنے لگی۔
سامنے اس شخص کو اپنے انتظار میں کھڑا پا کر وہ بلش کرنے لگی۔ رانا مبشر بلیک کلر کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس معزز اور رعب دار شخصیت لیئے دو سالہ عائرہ مبشر کو گود میں اٹھائے کرن کو آتے دیکھ رہے تھے۔ کرن نے قریب آکر عائرہ کے بال سنوارے اور پھر اس کے گال پر بوسہ دیتے پیار کرنے لگی۔ یہاں کرن نے عائرہ کو بوسہ دیا تو رانا صاحب نے تیزی سے کرن کے جانب جھک کر اس کے گال پر بوسہ دیا۔
کرن متذبذب ہو کر سیدھے ہوگئی اور آس پاس دیکھنے لگی۔
"کیا کر رہے ہیں رانا صاحب ۔۔۔۔" کرن دبے دبے لفظوں میں خفہ ہونے لگی۔
"میری غلطی نہیں ہے۔۔۔۔ عائرہ نے کہا تھا مما کو kiss کرنا ہے۔۔۔۔ رائٹ عائرہ۔۔۔۔۔۔"رانا صاحب نے شریر انداز میں پلکیں جھپکاتے ہوئے عائرہ پر بات ڈال دی۔
دو سال کی عائرہ کو باقی باتیں تو سر کے اوپر گزر گئی لیکن ڈیڈ کے زبانی رائٹ عائرہ سن کر پھرتی سے سر اوپر نیچے کر کے اثابت میں ہلایا اور چہکتے ہوئے ہنسی۔
"آپ بھی نا۔۔۔۔ بچی کے ساتھ بچے بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔" کرن نے ہنہ کرتے ہوئے کہا۔
"یہی تو زندگی کا اصل مزہ ہے۔۔۔۔۔ بچوں کے ساتھ بچہ بننا۔۔۔۔ بیوی کا بیسٹ فرینڈ بننا۔۔۔۔" انہوں نے دل فریبی سے کرن کے چہرے پر آتی لٹوں کو پیچھے کیا۔
"اور سب کا ہمدر بننا۔۔۔۔۔" کرن اپنائیت سے رانا صاحب کے بازو میں ہاتھ ڈالے ہال کے کوریڈور میں چلنے لگی جب اس کا موبائل بجنے لگا۔
"جلدی چلیں۔۔۔۔۔ فاطمہ دس کال کر چکی ہے۔۔۔۔ عائرہ سے ملنے بے صبر ہورہی ہے۔۔۔۔۔" کرن نے کال کاٹتے ہوئے سر جھٹکا۔ انہیں انشا گل کے گھر دعوت پر جانا تھا اور عائرہ کے پیدائش کے بعد کرن پہلی مرتبہ انتالیہ آئی تھی اس لیے فاطمہ کو اس کے ساتھ کھیلنے کی جلدی ہورہی تھی۔
"تو گفٹ کب دے رہی ہو۔۔۔۔" رانا صاحب نے شرارتی انداز میں پوچھا۔
"نمائش میرے کتاب کی تھی۔۔۔۔ گفٹ تو مجھے آپ سے لینا ہے۔۔۔۔۔ وہ بھی اچھا خاصا بڑا۔۔۔۔۔۔" کرن نے ان کی شرارت ان ہی پر پلٹا دی۔
"مطلب میرا کارڈ خالی ہونے والا ہے۔۔۔۔۔" رانا صاحب نے مسکراہٹ دبائے ہوئے جعلی پریشان کن تاثرات بنائے۔
"کوئی ایسا ویسا۔۔۔۔۔۔ پچھتائے گے مجھ سے گفٹ مانگ کر۔۔۔۔۔" کرن نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے کہا۔
ماں باپ کو خوش دیکھ عائرہ محظوظ ہوتے ہوئے چہکنے لگی۔
رانا مبشر اور کرن اپنی زندگی کے اتار چڑھاو پار کر کے یوں ہی نوک جوک اور محبت سے اپنے سفر حیات پر گامزن ہوگئے۔
***************&&&&&***************
ختم شد
امید ہے کہانی پسند آئی ہوگی۔۔۔۔۔ ناول شارٹ تھا لیکن سبق آموز تھا۔۔۔۔
جو ایک اہم سبق میں دینا چاہتی تھی وہ توبہ کا تھا۔ اللہ کے طرف لوٹنے کا تھا۔ اور مجھے ایک ایسا کردار چاہیئے تھا جو غرور سے بھرا ہو۔ جو ظلم کی انتہا پر ہو۔ جو نشہ کا عادی ہو سموکنگ ڈرنکنگ اس کے لیے عام سی بات ہو۔ جو حاکمیت اور بربریت کے چوٹی پر کھڑا ہو۔ رانا مبشر کے کردار میں یہ ساری خصوصیات موجود تھی تو میں نے ان کا کردار سدھار کر توبہ کا سبق پیش کیا۔ آسان نہیں ہوتا گناہوں سے توبہ کر کے پھر کبھی نا دہرانے کا عہد کرنا۔ لیکن نا ممکن بھی نہیں ہے۔ رانا مبشر کے کردار میں یہ سب بھی دکھایا گیا۔ وہ نماز کے عادی نہیں بن پا رہے تھے ایک دو پڑھ کر باقی چھوڑ جاتے تھے لیکن اصل بات یہ تھی کوشش کبھی ترک نہیں کی۔ نشہ چھوڑنے کے بعد حالت بد ترین ہوتی گئی لیکن امید نہیں چھوڑی۔ اور کرتے کرتے ایک دن عبادات کے عادی بن گئے حتہ کے بیوی کو بھی نماز کے لیے اٹھانے لگے۔
سب دل پر انحصار کرتا ہے۔ میرے بشمول ایسے بہت سے ہونگے جو روز کسی نا کسی غلطی پر پچھتا کر دوبارہ نا کرنے توبہ کرتے ہیں لیکن عادت سے مجبور وہ ہم سے سر زد ہوجاتا ہے۔۔۔ لیکن مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں بس اللہ کے رحمت سے نا امید نہیں ہونا۔ کوشش جاری رکھنا ہے۔ کچھ گناہ تو ایسے ہوتے ہیں جن کا ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا۔ مثلاً افففففف بجلی نہیں ہے۔۔۔۔۔ کتنی گرمی ہے آہ ہ ہ۔۔۔۔۔ کیا مصیبت ہے نیٹ نہیں چل رہا۔۔۔۔۔۔ ہر مشکل مجھ پر ہی آنی ہوتی ہے۔۔۔۔۔ ہائے سبزی والا نہیں آیا۔۔۔۔۔۔ یہ کیسی روٹی پکائی ہے( منہ بناتے ہوئے) یہ افففف آہ مصیبت مشکل ہائے جیسے الفاظ استعمال کرنا ہمارے معاشرے کا معمول بن گیا ہے۔ کھانا پسند کا نا بنا ہو تو منہ بنانا کھانے سے منع کر دینا۔ افسوس یہ بھی رواج بنتا جا رہا ہے۔ ایسا کرنا نہیں چاہیئے۔
میں خود بھی ایسے الفاظ استعمال کرتی ہوں خاص کر بجلی اور نیٹ کے معاملے میں۔ لیکن یہ الفاظ اور منہ بنانا انڈائریکٹ طور پر ناشکری میں ہی آجاتے ہیں۔ کھانے کے لیے نخرے کرنے پر تو مجھے امی سے اسپیشل ڈانٹ پڑتی ہے🥺🥺
خیر یہ تو ایک معمولی سی مثال تھی اگر ہم غور کریں روزانہ کے معمول پر ہم ایسی کافی غلطیاں کرتے ہیں۔ کوشش کریں زور اپنے اندر ایک نا ایک غلطی سدھارے۔ میں خود بھی جہاد نفس میں لگی ہوتی ہوں اور سب سے اہم اور مشکل بھی اپنے آپ سے لڑنا ہے۔ ظاہری جنگ آسان ہے مگر باطن کا جنگ ہمت حوصلہ برداشت اور صبر مانگتا ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنے اعمال درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔۔۔🤲
ایک تو میں ہر دوسرے پوسٹ پر کرن اور رانا مبشر کے خلا اور دوبارہ نکاح کا مسئلہ بتا بتا کر تھک گئی تھی 😄😄 اتنے وڈے وڈے وضاحتی بیان لکھ کر بھی 🤦♀️۔۔۔۔۔ لیکن کوئی بات نہیں میری کوشش سے اگر ایک ریڈر کی بھی اصلاح ہوجاتی ہے تو یہ میرے لیے صدقہ جاریہ میں شمار ہوگا ورنہ لکھنے کو تو میں بھی بہت کچھ لکھ سکتی ہوں جس سے ہزاروں میں لائکس آجاتے ہیں۔ سمجھ تو گئے ہونگے آپ😉😉 لیکن میں چُن کر ایک ایسے موضوع پر لکھتی ہوں جو کسی کے کام آسکے۔ جس سے کچھ سیکھنے کو ملے۔
ناول عشق ذات میں سبق حادثے کی شکار لڑکیوں کی شادی کا تھا۔
ناول قسمت سے ہاری میں پارٹ ون میں سبق ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا تھا۔
ناول بکھرے رشتے میں سبق سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے غلط راستہ نہ چننے کا تھا۔
اور ناول قسمت سے ہاری میں پارٹ ٹو میں سبق توبہ اور اللہ کے طرف لوٹنے کا تھا۔
اگلے کسی ایسے موضوع پر ناول کے ساتھ پیش خدمت ہونے تک دعاوں میں یاد رکھیں۔
ایک نا چیز سی رائٹر پلوشہ صافی ☺️☺️
❤️
👍
😂
😢
🙏
😮
364