Novel Ki Dunya
June 16, 2025 at 05:02 PM
#ایک_ستم_محبت_کا
#ازقلم_زینب_سرور
#قسط_نمبر_2
آئسکریم پارلر سے نکلتے وقت حرم نے نور کو اپنی گود میں اٹھا لیا تھا اور بدر کو کاؤنٹر پر کھڑا دیکھ موقع غنیمت جان کر پہلے ہی وہاں سے نکل گئی ۔
" مما ڈیڈو کے پاش ۔ " نور نے آدھا جملہ کہا اور آدھا منہ میں دبا گئی ۔ حرم اسے افسوس سے دیکھتے گئی ۔ جب نور نے بھی ماں کا چہرہ پڑھتے منہ سوجا لیا ۔
" نور مما کی پرنسس ڈیڈی سے مل لیں ناں آپ ۔ اب ہمیں گھر جانا ہے ۔ پھر بڑی دادو بھی تو نور کا ویٹ کر رہی ہونگی نہ ڈنر پر ۔ " اس نے باہر لگی ہوئیں میزوں میں سے ایک نور کو بیٹھاتے ہوئے پیار سے سمجھایا ۔ جبکہ نور نے حرم کے دونوں گالوں کو ہاتھ سے چھوتے مصنوعی غصّہ چہرے پر نمایا کیا اور آنکھیں پٹپٹائیں ۔
" میرا چھوٹو سا بچہ ۔ اتنے فنی فیسِس نہیں بنایا کریں مما کو نور پر پیار آنے لگتا ہے کہیں میری ہی نظر نہ لگ جائے ۔۔۔ " اس نے اپنے ہاتھ سے آہستگی سے نور کے ماتھے پر نا ہونے کے برابر بل ختم کئے۔
" جیسے ڈیڈو تو مما پل آتا ہے ۔۔۔۔ ( جیسے ڈیڈو کو مما پر آتا ہے ) " نور نے بڑوں کی طرح مسکراتے ہوئے کہا ۔ حرم کا تو منہ ہی کھلا رہ گیا ۔ وہ تو اتنی چالاک نہ تھی یہ اسکی اولاد کس پر جا رہی تھی۔
" نور بری بات مما نے منع کیا ہے نا بڑی بڑی باتیں کرنے سے ۔ " نور نے پھر سے ویسے ہی بونگا سا منہ بنا لیا ۔ اور آنکھیں چھوٹی کر کے حرم کو دیکھا۔
" یہ اس شخص کا ہی اثر پڑ رہا ہے میری بچی پر ۔ پتا نہیں کون کون سی پٹیاں پڑھاتا رہتا ہے ۔ " منہ میں منمناتی وہ اس بات سے انجان تھی کہ کوئی اس کے بالکل پیچھے کھڑا ہے۔
" ڈیڈو ۔۔ دیڈی ۔۔۔ مما تے ہبی ۔۔ بی ڈیدی ۔۔۔ " نور پیچھے کھڑے بدر کو دیکھ چکی تھی جب ہی چہرہ کھلا اٹھی اور پیار سے اسکو دئیے ہوئے ناموں سے پکارنے لگی ۔۔
" یا اللّٰہ نور یہ کیا بولا بیٹا آپ نے کس نے سیکھایا ہے یہ آپ کو ۔ ہاں بتاؤ مجھے ؟ ڈیڈی نے کہا ہوگا نہ ایسا بولنے کو ؟ ہیں نہ نور " نچلا ہونٹ معصومیت سے باہر کئے آنکھوں کو بار بار جھپکاتی وہ اپنی ماں کے انگنت سوال صرف سن پائی ۔ کیونکہ سمھجہ میں تو ہماری نور بے بی کے آیا نہیں تھا ۔ یہاں پیچھے سے بدر نے بھی اسکی آخری بات پر حرم کو اچھنبے سے دیکھا تھا ۔
مطلب سارا الزام مجھ معصوم پر ؟
" نور پھر سے کہو نہ جو ابھی کہا ۔۔۔ " ذرا سا آگے آتے بدر نور سے گویا ہوا ۔ جس پر وہ ڈیڈی کو دیکھ کہ مسکرائی تھی ۔ حرم نے اپنے دائیں کندھے کے پار سے اسے دیکھا ۔ جو اسے ہمیشہ شوہر تو نہیں جبکہ چپکو زیادہ لگتا تھا۔
" دور ہٹو ۔۔ " حرم کی دبی دبی آواز وہ اچھے سے سن چکا تھا مگر جب بیوی نے ڈھیٹ لقب سے نواز ہی دیا ہے تو پھر شریف کیوں بننا ۔ اس نے بھی دوسرا ہاتھ حرم کے پیچھے سے لے جاتے ٹیبل پر رکھ لیا ۔ اب یقیناً وہ اسے غصہ دلانے کے ساتھ ساتھ اپنی جگہ منجمد بھی کر چکا تھا۔
" واٹ ڈیدی ۔۔ " نور نے فل ایکٹنگ کرتے کندھے اچکائے جس کی وجہ سے حرم کا دھیان بھی اپنی ننھی سی پرنسس پر گیا ۔ جس کے کندھے اچکانے والی ادا پر وہ اپنی ہنسی روک گئی تھی۔
" جو ابھی کہا آپ نے ۔ "
" اممممم بی ڈیدی ! " اس نے ہونٹ دباتے ہوئے سوچ کر کہا ۔ حرم تو بس اسکی شکل دیکھ رہی تھی۔
" نہیں بے بی اس سے پہلے جو کہا وہ ۔۔۔ " بدر نے گردن نفی میں جھلاتے کہا۔
" شو ۔۔۔۔ " سیدھے ہاتھ کی شہادت والی انگلی سوچنے والے انداز میں اپنے گال پر رکھی اور دائیں بائیں آہستہ سے دیکھا ۔۔۔ پھر یکدم آنکھیں بڑی کرتی انگلی کو ہوا میں ایک کے نشان سے دیکھاتے اپنے ڈیڈو کو دیکھا ۔ لگتا تھا جیسے اس نے کوئی بہت بڑا کارنامہ یاد کرلیا ہو ۔
" ڈیڈی ۔۔۔ مائین ڈیدو ۔۔۔ " ہنستے ہوئے وہ شاید جانتی تھی کہ اسکے ڈیڈو کیا سننا چاہتے ہیں ۔ نور کے اس طرح کرنے پر دونوں ہنس دئیے اور ایک نظر ملا کہ چرا لی۔
" آہ نور کو نہیں یاد چلو چھوڑو ۔۔۔ " بدر نے بھی افسوس سے بھری ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا ۔
" چلتے ہیں اب ۔ " اور پھر واپس سیدھا ہو کہ چہرہ دوسری جانب کرلیا جیسے وہ جانے لگا ہے۔
" مما تے ہبی ۔ رتو نا ۔۔ ( مما کے ہبی ۔ رکو ناں ۔۔ ) " اور نور کے اس طرح جلدی جلدی کہنے پر بدر نے مڑ کر اسے گود میں اٹھا لیا تھا ۔ جس پر وہ کھلکھلا اٹھی ۔ اپنے ڈیڈو کی گود میں وہ اس ہی طرح کھلکھلاتی تھی ۔
" حد ہے نور ۔۔۔ " حرم بھی اس پل میں کھو گئی تھی مسکراتے ہوئے اس نے نور کی پیٹ سہلاتے ہوئے کہا ۔ بدر نے بھی اسکی طرح اسے دیکھا جب حرم نے بھاپ لیا اور اسکارف ہاتھ سے سیٹ کرتی ادھر اُدھر دیکھ کہ چہرہ پہلے جیسا کر لیا ۔
' ظالم تھوڑی دیر مسکراتی بھی نہیں ۔ ' حرم کو اپنی آنکھوں میں سموئے وہ دل میں کہنے لگا ۔
" چلو میری جان گھر چلتے ہیں ۔ " بدر نے نور کا سیدھا گال پیار سے چومتے ہوئے کہا ۔
" نہیں میں خود ۔۔ " بدر کی بات پر ابھی وہ کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ بدر نور کے لئے گاڑی کی جانب چل دیا ۔ اس حرکت سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کوئی بحث نہیں چاہتا ۔ ایک منٹ بعد مجبوراً ہارن کی آوازوں پر حرم کو بھی کار میں بیٹھنا پڑا۔ اور یوں وہ لوگ کچھ دیر بعد گھر پہنچ گئے ۔
🖤______~
یہ دوسری منزل پر بنا ایک چھوٹا پلاٹ تھا جس میں چار کمرے ایک کچن ، بالکونی اور بیچ میں بیٹھک جیسی جگہ جہاں ان لوگوں نے ڈائننگ ٹیبل رکھی تھی ۔ بدر نور کو لے کے نصرت بیگم یعنی کے بدر کی دادی اور نور کی پر دادی کے پاس لے گیا ۔ جبکہ حرم انکو سلام کرتی اپنے کمرے میں گئی تھی ۔ بیگ رکھ کر لائٹس آن کی تو کمرہ روشن روشن سا ہوگیا ۔
سامنے رکھا وہ ڈریسنگ کا شیشہ جس میں آج بھی دیکھنے پر وہی حسین منظر آنکھوں کے آگے لہرا جاتا تھا ۔
وہ پندرہ فروری کی رات تھی جب انکا نکاح ہوا اور اس ہی رات وہ رخصت ہو کہ وہاں سے بدر کے ساتھ چلی گئی ۔ ایک نئی زندگی کی شروعات کرنے لیکن وہ یا کوئی بھی کہاں جانتا تھا کہ یہ رات ہے حسین اور دن کا کچھ پتا نہیں ۔
" حرم ! بی کی جانم اب بس رونا بند کرو ۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں ایک دن تمہارے بابا اور ماما خود اپنی خوشی کے ساتھ تم سے ملنے ضرور آئیں گے " سنسان سڑک پر چلتی گاڑی میں بیٹھا وہ اسکو خود میں جذب کئے تسلی دے رہا تھا وعدے کر رہا تھا ۔ حرم کے مطابق محبت کے جھوٹے وعدے !
کچھ وقت بعد جب وہ لوگ فلیٹ تک پہنچے تو انکا فلیٹ دوسرے مالے پر ہونے کے باعث وہ اسے خود اٹھا چکا تھا ۔
" بدر دادی ہونگی تم یہ کیا کر رہے ہو " بدر کو مضبوطی سے کندھوں سے اس ڈر کے ساتھ پکڑے کے وہ گرا نہ دے ۔ وہ دھیمے لہجے میں بھپری تھی ۔
" شوہر بنے دیر ہی کتنی ہوئی ہے جو تم میں بیوی والے جراثیم بھی آگئے ۔ " وہ ایک سیڑھی پر پیر جماتے ہوئے بولا ۔ حرم کی خوبصورتی پر وہ ابھی پگھلنا نہیں چاہتا تھا اس ہی لئے اسکے چہرے کی جگہ نظریں اسکی پیشانی پر کی ہوئی تھیں ۔ جو زرقون والے ٹیکے سے سجا ہوا تھا ۔
" خیر دادی جان نے مجھے خود یہ کہا تھا ، کہتے ہیں کوئی رسم ہوتی ہے ۔ " اس نے دروازے تک لے جاتے ہوئے کہا ۔
" بہت ہی کوئی بے شرموں والی رسم ہے ۔ خیر اب مجھے نیچے اتارو ۔ " حرم پچھلا سب بھلائے رسم پر تنقید کرنے لگی ۔ اس کے لئے تو یہ نامناسب ہی تھا چاہے صرف دادی ہی کیوں نہ دیکھ لیں ۔
" حرم بیل بجاؤ میرے دونوں ہاتھ تمہیں گرنے سے روکے ہوئے ہیں ۔ بے شک ایک مشقت بھری رسم میں مصروف ہیں ۔ " اس نے بھرپور ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا جس پر حرم گھور کر رہ گئی مگر بدر نے اسکی جانب اب تک نہ دیکھا یہ بات وہ نوٹ کر چکی تھی ۔
" حرم جلدی کرو ۔ اپنے تازہ تازہ ملے شوہر پر رحم کرو یار ۔ " اب کی بار اس نے بیل بجا دی اور دادی نے جھٹ سے دروازہ کھول دیا جیسے وہ ان دونوں کے ہی انتظار میں تھیں ۔
" دادی یہ بدر کی خود کی حرکت ہے ۔ اس نے آپ کا نام لے کر کہا کہ یہ کوئی رسم ہوتی ہے اور لازمی کرنی ہے نہیں تو دادی ناراض ہوجائیں گی ۔ " حرم نے فوراً نظریں نیچے زمین پر کیں اور فر فر بولتے گئی ۔ جس پر دادی جان جنہوں نے بنارسی ساڑھی ساتھ میں موتیوں کی مالا پہنے ہوئی تھی ۔ ڈیسنٹ سی دادی جان بھی بدر کے ساتھ ساتھ اسکی تیزی دیکھ کر ہنس پڑیں ۔
" آپ دونوں ہنس کیوں رہے ہیں ؟ " دونوں کو ہنستے دیکھ وہ شرمندگی کے ساتھ الجھے ہوئے لہجے میں دھیرے سے گویا ہوئی ۔
" کچھ نہیں بچے ۔۔ چلو جوان اب بہو کو اندر بھی لے آؤ ۔۔ " انہوں نے اسکے سر پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور پھر بدر کی پیٹ پر بھی چپت لگائی ۔
" ہاں دادی جان ۔ بڑی مشقت بھری رسم پوری کی ہے آپ کے پوتے نے ۔ " وہ پھولوں سے سجے اور مہکتے ہوئے کمرے میں اسے لا کر بیڈ پر بٹھایا ۔۔
" نیک تو بنتا ہے پھر نئی " اور بالآخر اسکو بیٹھاتے ہوئے ایک نظر اسے دیکھ ہی لیا تھا ۔ جھکے جھکے ہی اس نے حرم کی ناک اپنی شہادت کی انگلی سے ہمیشہ کی طرح چھیڑی تھی جس پر وہ دادی جان کی موجودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے بدر کو آنکھیں دکھانے لگی ۔
وہ بھی ڈھیٹوں کا سردار ٹہرا تھا بے جھجک مسکراتے ہوئے سیدھا ہوگیا ۔
" ہٹو پیچھے مجھے اپنی پوت بہو کو نیک تو دینے دو ۔ " وہ بدر کو سائڈ میں کرتی ہوئی حرم کے سامنے بیٹھیں اور اسکے کامدار شرارے کا گھیر ٹھیک کرنے لگیں ۔
" ارے دادی رہنے دیں میں کرلوں گی ۔" اسنے جھجھکتے ہوئے خود ہاتھ بڑھائے ۔
" بیٹا میں جانتی ہوں وہ ارمان جو ایک لڑکی کے اسکی شادی کے لئے ہوتے ہیں وہ تو ہم پورے نہیں سکیں گے ۔ لیکن دیکھنا ایک دن تم اور بدر آفندی ہاؤس میں رہو گے اور تمہارے والدین اپنی پیاری بیٹی سے خوشی خوشی ملنے آئیں گے ۔ " حرم کی آنکھیں ایک بار پھر بھیگ گئیں وہ جو یہاں آتے آتے اپنے آنسوؤں کو ضبط کر گئی تھی دادی کے الفاظ ، وہ جھٹ سے انکے گلے لگ گئی ۔ اور اب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی ۔ یہ تو صرف وہی جانتی تھی نہ کے ماں باپ کی بے رخی نے اسے کس قدر اندر تک گھائل کر دیا ہے ۔
" عورت کو اللّٰہ نے آنسو بہانے کی صلاحیت مرد کے مقابلے زیادہ اس ہی لئے دی ہے تاکہ وہ اپنے غموں کا بوجھ ہلکا کرسکے ۔ " انہوں نے اسے خود سے دور کرتے اسکا آنسوؤں سے تر چہرے کو پوچھتے ہوئے کہا ۔
" دادی ۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا نہ ؟ امی بابا مجھ سے ملیں گے ناں ؟ " سسکتے لہجے میں وہ ناداں سا سوال کر گئی تھی ۔ دادی نے بھی نم آنکھوں سے سر ہلاتے ہامی بھری ۔
( بدر جو پیچھے کھڑا تھا مٹھیاں بھینچ گیا اسکا تو دل لرز رہا تھا حرم کو روتے سسکتے اس حال میں دیکھ ۔
' بس حرم اب تمہاری زندگی میں کچھ برا نہیں ہونے دوں گا سب ٹھیک کردوں گا سب سے چھپا کے رکھوں گا کہ کوئی آنکھ اٹھا کے بھی نہیں دیکھ سکے گا ' دل میں کہتا وہ اسے ایک نظر کے لئے بھی آنکھوں کے حصار سے آزاد نہیں کر رہا تھا ۔ )
" میری بچی بس اب چپ ہو جاؤ جتنا رونا تھا رو لیں ۔ " کافی دیر بعد اسکی سسکیاں کم ہوئیں تھیں آنسو تھم گئے تھے ۔ جب ہوش آیا تو بدر کو دیکھا جو اب تک ویسے ہی کھڑا تھا ۔
" آہ یہ لو ہاتھ آگے کرو ۔۔ " دادی جو نیک دینے آئی تھیں یاد آنے پر اسکے ہاتھوں میں خوبصورت سے کنگن پہنا دئیے ۔
" اپنی تو اولاد بھی نہ تھی جو بہو کو دیتی پھر جب بدر ہوا تو میں نے تب ہی سوچ لیا تھا کہ یہ اپنی ساس سے ملا نیک میں اپنی بدر کی بیوی کو ہی دوں گی ۔ " انہوں نے پیار سے کنگن پہنے ہاتھ دیکھے اور بولیں ۔ دراصل دادی جان بدر کی اصل دادی کی ہی بہن تھیں جن کی کوئی اولاد نہ تھی ۔ پہلے تو کچھ عرصے جب تک بدر بڑا نہ ہوا تو وہ آفندی ہاؤس میں ہی رہیں پھر انکی بہن یعنی آفندی صاحب کی امی کا انتقال ہوگیا ۔ اسکے بعد ممتاز آفندی کا دادی جان سے رویہ بدل گیا انہوں نے ممتاز بیگم کا رویہ ظاہر نہ کرواتے ہوئے بات بنائی اور واپس اپنے فلیٹ میں شفٹ ہوگئیں ۔ ویسے بھی انکے مرحوم شوہر اور دادی جان کی یادیں اس ہی فلیٹ میں بسی تھیں ۔
" دادی جان اور میری جانم اگر آپ دونوں کا ایموشنل سین وائینڈ اَپ ہوگیا ہو تو میں اپنا سین آن کروں ؟ " بدر کی اس قدر بے باکی پر حرم تو شرم سے پانی پانی ہوگئی تھی جبکہ دادی جان سر نفی میں ہلاتے ہوئے کھڑی ہوئیں اور یہ بدر کا کان کھینچا ۔
" دادی یہ کیا ظلم ہے ۔ اور کر بھی اس سرپھری کے سامنے رہی ہیں جو بعد میں بھی یہ عمل یاد رکھے گی اور پوری امید ہے کے دھرا بھی سکتی ہے ۔ " بدر نے اپنا کان چھڑاتے ہوئے کہا ۔ یہاں کا منہ دیکھنے والا تھا ۔
" بدتمیز میرے سامنے ہی میری بیٹی کو سرپھری کہہ رہے ہو ۔ " دادی نے آنکھیں دکھا کر مصنوعی غصّہ کیا ۔
" دادی جان کان تو چھوڑیں ۔ اچھا معاف کردیں میری توبہ جو اب آپکی چہیتی کو کچھ بولا میں نے ۔ میری توبہ ہے " اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا تو دادی ہنس پڑیں ۔
" بدمعاش کہیں کا ۔ چلو میں چلتی ہوں ۔ مگر خبردار جو میری بچی کو تنگ کیا تم نے ۔ حرم بے جھجک شکایت لگانا مجھے اسکی ۔ " حرم نے دادی کی بات مسکرا کر سر ہلایا ۔
" دادی کی فرمانبردار بہو ۔۔ " بدر حرم کی معصوم شکل دیکھتے منمنایا ۔
" ارے دادی آپ بے فکر رہیں ۔ بدر آپکی ننھی بچی کو پھولوں کی طرح رکھے گا ۔ " دروازے تک دادی جان کولے جاتے وہ شرارت بھرے لہجے میں گویا ہوا تھا ۔
" سدھرو گے نہیں نا تم " دادی جان کو بتیسی دکھاتے ہوئے وہ دروازہ آہستہ سے بند کر گیا دادی جان جا چکی تھیں اور یہاں حرم کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی تھیں ۔
جب دروازے کی اوپر والی کنڈی کی کھٹ آواز پورے کمرے میں اشتعال پھیلا گئی تھی ۔ بدر نے چال میں آہستگی بھرتے ہوئے حرم کو اوپر دیکھنے پر مجبور کردیا تھا ۔
" تمہیں پتا ہے میں پورے راستے تم سے نظریں کیوں چرا کے آرہا تھا ؟ " بدر بالکل اسکے سامنے بیٹھ کر بولا ۔ حرم نے نفی میں سر ہلایا اور اسکے پکڑے ہاتھ چھڑانے چاہے مگر اب تو سب کچھ بے سود تھا ۔
" کیونکہ میں تمہیں دیکھ کر ہمیشہ سے پگھل جاتا ہوں اور پھر آج جب تم ہمیشہ کے لئے میری ہوگئی ہو جو کہ میں نے سوچا بھی نہ تھا ۔ ایسے میں تمہیں دیکھ کر میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا ۔ " اسکے ہاتھ میں پہنے کنگن کو چھیڑتے ہوئے وہ اپنے لہجے میں محبت کی دھیمی آنچ جلا چکا تھا ۔
" بدر ہم ہمیشہ دوست رہیں گے ناں " اور اُس کے اس جملے پر بدر کچھ بولے بغیر کچھ دیر آنکھوں میں آنکھیں دئیے دیکھتا رہا ۔ پھر پھیکا سا ہنس کے نظریں جھکا گیا ۔
حرم نے بغور دیکھا وہ سیریس لگا یا شاید اسے یہ جملہ برا لگا کیا ؟ وہ سمھجہ نہ پائی تھی ۔ بدر کی یونیورسٹی کی دوستی حرم کے لئے محبت میں کب بدلی تھی وہ بالکل نہ جانتی تھی ۔ اور پھر قسمت بھی دونوں کو یوں ملا دے گی یہ تو اسنے کبھی نہ سوچا تھا ۔
" حرم یو نو واٹ ۔ " اس نے نگاہیں اٹھائیں اور حرم کے پکڑے ہاتھوں کو اپنی اور کھینچا ۔
" پرسن وِچ مِس ہِز گولڈن نائٹ ۔ اِز دی بگسٹ فولش ایوَر ۔۔ " حرم کے کان میں کی گئی سرگوشی ایک پل کے لئے تو اسے ساکت کر گئی ۔ پیچھے ہوتے ہوئے اسکے ہونٹوں پر ایک مزین مسکراہٹ تھی ۔ حرم اسے تو دیکھ نہ پائی اسلئے نظریں جھکا گئی ۔
" اور ہم تو پھر پہلے سے ہی ایک دوسرے کے سب سے اچھے والے دوست ہیں ۔ " اسکے ماتھے سے وہ زرقون والی بندیا ہٹاتے وہ اب اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔
" لیکن اس سے پہلے شکرانے کے نوافل جو تم نے میرے ساتھ ادا کرنے ہیں ۔ " اور یہاں حرم بدر کی بیوی بننے پر رشک کرنے لگی ۔ اسکا آگے کیا ہوا ہاتھ نرمی سے تھامے وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔ بدر نے اسے نرمی سے تھام لیا ۔
جائے نماز بچھانے کے بعد وہ حرم کی جانب مڑا اور اسکے ڈوپٹہ کی پنیں ہٹانے میں اسکی مدد کی پھر دونوں نے شکرانے کے نوافل ساتھ ساتھ ادا کئے ۔
سلام پھیرنے کے بعد وہ بدر کو دیکھتی رہی جب تک اسنے بھی سلام نہ پھیر لیا ۔
" بس جانم پہلے دعا مانگ لو پھر پوری رات پڑی ہے شوہر کو دیکھنے کے لئے ۔ " اسکے کہنے پر وہ سٹپٹا کر جلدی سے رخ سیدھا کر گئی اور ہاتھوں کو دعا کے لئے اٹھا لیا ۔ بدر بھی ہنسی روکتے ہوئے دعا مانگنے لگا ۔
یہ وہ واحد رات تھی جو ان دونوں کے درمیان کیا کچھ نہ لائی تھی ۔ لیکن ان دونوں کو ایک کر کے یہ رات پھر ہمیشہ کے لئے چلی گئی ۔ اس رات کے بعد اگلے ایک سال تک بدر اور حرم نے ایک دوسرے کو نہ دیکھا تھا ۔ ناجانے وہ صبح ہوتے ہی کہاں غائب ہوگیا تھا ۔ کہاں جا کہ چھپ گیا تھا ۔ حرم کو اس طرح اکیلے چھوڑ کر کہ جب اسکو بدر کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ اور وہ اسکے پاس ہی نہ تھا ۔ نہ دادی جان نہ ہی بدر کے گھر والوں میں سے کسی کو معلوم تھا کہ وہ کہاں گیا ہے ۔ جیسے آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی ہو ۔
اِس رات میں وہ اس سے جتنی محبت کر چکی تھی بس پھر اگلے سال اس نے بدر سے اس سے بھی زیادہ نفرت کی تھی ۔ بدر کو ہمیشہ یہ بات کھٹکتی تھی کہ حرم اسکے بجائے کسی اور کو پسند کرتی ہے جب کہ وہ شخص تو ملنے سے پہلے ہی اسے چھوڑ گیا تھا ۔ اسکے باوجود بھی وہ بدر کی محبت کو وہاں نہ رکھ سکی جہاں اسے ہونا چاہیے تھا۔ حرم کو یہ بات معلوم تھی اور پھر جب بدر پاس نہیں تھا اور اسکے یوں غائب ہوجانے کی وجہ بھی معلوم نہ تھی تو وہ یہی سمجھ بیٹھی کہ بدر نے بھی ایک کم ظرف مرد کی طرح اس سے محبت نہ ملنے کا بدلا لیا ہے ۔ جیسے استعمال کر کے اسنے حرم کو پھینک ڈالا ہو ۔ دادی نے پورے سال اسکی دیکھ بھال کی اسکو سہارا دیا ہمت نہیں ٹوٹنے دی مگر وہ پختہ ہوچکی تھی اس بات پر کہ بدر نے اس سے بدلا ہی لیا ہے محبت نہ کرنے پر ۔
اور وہ دن بھی آگیا جب حرم کی زندگی میں نور نے قدم رکھے ۔ وہ اسکے لئے سب سے خاص دن تھا ۔ وہ نور کے پہلی پہلی آواز ، وہ اسکا پیدائشی پہلی دفعہ رونا ، وہ اسکا نرم و نازک ننھا سا وجود ، وہ حرم کے ماں بن جانے کی خوشی ، دادی جان کی دعائیں مگر ان سب میں بھی جو رہ گیا تھا وہ سب کچھ تھا ۔ اسکے سسرالی اسکے ماں باپ اور خاص کر اسکا شوہر ! جس جس کو لازمی ہونا چاہیے تھا وہ تو کوئی نہ تھا ۔۔۔
اور بس حرم اس دن سے ہی شاید پتھر دل ہوگئی تھی ۔ اب بدر آ بھی جائے تو اسے فرق نہیں پڑے گا ۔ اسے فرق نہیں پڑے گا ۔۔۔۔
" مما مما ۔۔ دیڈو تی وائف ۔ " اس نے نور کی آواز پر بھیگے چہرے کو فوراً صاف کیا ۔ وہ اب تک ڈریسنگ کے سامنے کھڑی تھی یادیں کتنا وقت کھا جاتی ہیں معلوم ہی نہیں چلتا ۔
" جی مما کی جان کیا ہوا ۔ " اسکے ہاتھ پکڑتے ہوئے وہ نیچے کو بیٹھی تو نور کے قد کے برابر ہوگئی ۔
" دادو اِش ویتنگ ۔ ( دادو اِز ویٹنگ ) " انگلی کو دروازے کی جانب دکھاتے وہ ویٹنگ کے ' گ ' پر زور ڈالتے ہوئے بولی ۔
" اچھا چلو چلیں ۔ " حرم نے اسکی انگلی پکڑی اور نور اسے لے کے بڑھ گئی ۔ دادی جان حرم کو بلا رہی ہیں بدر کے سامنے ! خیریت ؟
جاری ہے ۔۔۔
❤️
👍
🙏
😂
😢
😮
235