Novel Ki Dunya
June 17, 2025 at 04:46 PM
#ایک_ستم_محبت_کا #ازقلم_زینب_سرور #قسط_نمبر_5 وہ صبح صادق کا وقت تھا جب بدر کی آنکھ کھلی اور نیم روشن کمرے میں دو جائے نمازوں کو فرش پر بچھا ہوا دیکھا ۔ " نور دعا مانگتے ہوئے سر کو اتنا نہیں ہلاتے ۔ " وہ دھیمے لہجے میں برابر میں اس ہی کے جیسے دعا مانگتی ہوئی نور کو کہہ رہی تھی جس نے سر پر چھوٹا اسکارف اوڑھ رکھا تھا ۔ آنکھیں دونوں کی بند تھیں ۔ بدر دیکھتا ہی رہ گیا اور من ہی من مسکرانے لگا ۔ دادی بالکل ٹھیک کہتی تھیں حرم نور کی ماں ہے وہ اسکی تربیت کرنا اچھے سے جانتی ہے ۔ " مما ! " نور نے ننھے ہاتھوں کو چہرے پر پھیرا اور ہلکے سے ماں کو پکارا ۔ جو اب تسبیح پڑھنے میں مگن تھی ۔ " اللّٰہ تعالیٰ نونو تی دو عا پولی تر دیں گے نہ ؟ ( اللّٰہ تعالیٰ نونو کی دعا پوری کر دیں گے نہ ؟ ) " اس نے آنکھیں جھپکاتے ہوئے پوچھا حرم نے ایک نظر نور کو دیکھا اور آنکھیں جھپکا کر ہی اسکا جواب ہاں میں دے دیا ۔ جس پر مما کی نونو نے بھی مسکرا کر اپنے آگے رکھی چھوٹی تسبیح اٹھائی اور " اللّٰہ ہو " کا ورد پڑھنے لگی ۔ حرم اسے دیکھ مسکرا کر رہ گئی اس بات سے انجان کے بدر ان دونوں کو کتنی دیر سے اپنی نظروں کے حصار میں لئے ہوئے ہے ۔ نور نے جب سے ہوش سنبھالے تھے اور بولنا شروع کیا تھا حرم نے تب سے ہی اسے خود کے ساتھ نماز پڑھنے کی عادت ڈال دی تھی ۔ اسے ساری صورتیں اور تسبیحات تو نہ یاد تھیں مگر حرم کے ساتھ نماز میں کھڑے ہو کر اسکے جیسے ہی پوری نماز ادا کرتی تھی ۔ اِس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ نور کو بچپن سے ہی خود کے ساتھ ساتھ رکھتی تھی ۔ جو حرم کرتی نور وہی دیکھ کر اسکی طرح کرتی ۔ بس اس ہی لئے وہ بھی ماں کے اوپر جا رہی تھی خوبصورتی میں تو تھی ہی حرکتوں اور عادتوں میں بھی حرم کا عکس جھلکتا تھا نور میں ۔ بچے وہی سیکھتے ہیں جو انکے بڑے کرتے ہیں اُس ہی کا سیکھتے ہیں جس کے ساتھ وقت گزارتے ہیں ۔ اِس ہی لئے اپنے بچوں کے سامنے اچھا رویہ رکھیں اچھے کام کریں ۔ عادتیں بچپن سے ڈالی جاتی ہیں ۔ اور اگر بچپن میں ہی بچوں پر بری عادتوں اور صحبتوں کا اثر پڑ جائے گا تو وہ بڑے ہو کر پروان ہی چڑھے گا ختم نہیں ہوگا ! " ماشاء اللّٰہ میری جان نے پوری نماز پڑھی ۔" بس اب وہ اور چپ نہیں رہ سکتا تھا اپنی موجودگی کا احساس دلاتا وہ بھی نور کے پاس جا بیٹھا ۔ نور نچلا ہونٹ دباتی ہوئی مسکرا دی ۔ " ڈیڈو نونو نے دو عا ( دعا ) مانگی ۔ " بدر نے واؤ میں آئبرو اچکائیں ۔ " کیا دعا مانگی پرنسس نے ؟ " بدر نے اسے خود کے ساتھ لگاتے ہوئے پوچھا حرم کی تسبیح ابھی پوری نہ ہوئی تھی اس لئے وہ مزید سیدھی ہو کر آنکھیں بند کئے لب ہلانے لگی ۔ " مما این ڈیڈی تے شات رہنے کی ( مما اینڈ ڈیڈی کے ساتھ رہنے کی ) " بدر جو اسے خود سے لگائے سامنے دیکھ مسکرا رہا تھا ایک پل کے ساکت رہ گیا ۔ جبکہ حرم کے ہلتے لب منجمد ہوئے اور آنکھیں جھٹ سے کھولیں ۔ دونوں نے پہلے نور کی جانب دیکھا جو واپس دل ہی دل میں کچھ زیر لب پڑھتی ہوئی تسبیح کے دانے گرا رہی تھی ۔ پھر نظریں آہستگی سے دو سے چار ہوئیں ایک میں کرب و ناراضگی جھلک آئی تو دوسری میں ندامت و بے بسی ۔ حرم نے خود ہی نظریں جھکا لیں اور زور سے آنکھیں بھینچ لیں جس کے باعث آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کہ گرا تھا ۔ بدر نے گہرہ سانس لیا اور آٹھ کے واشروم میں گھس گیا ۔ تھوڑی دیر میں اس نے بھی نماز ادا کری ۔ اس دوران حرم نے روز مرہ کی طرح قرآن کی تلاوت کی اور نور روزانہ کی طرح وہ سنتے سنتے ہی سو گئی ۔ بدر نے جائے نماز رکھی اور صوفے پر سوئی ہوئی نور پر پہلے کچھ پھونکا اور پھر آہستہ سے اسکے ماتھے پر بوسہ دے کہ پیچھے ہوگیا ۔ " سوتے ہوئے بچوں کو پیار نہیں کرتے ۔ " حرم نے قرآن غلاف میں واپس رکھتے ہوئے کہا ۔ تلاوت سے پہلے کھڑکی سے پردے ہٹا دیئے تھے جہاں سے اب میٹھی دھوپ کی کرنیں اندر کو پھوٹنے لگی تھیں ۔ " کیوں ؟ پیار کرنے سے کیا مسلہ ہے ! " اس نے نور کو صوفے سے اٹھایا اور بیڈ پر لٹا آیا ۔ " کہتے ہیں سوتے ہوئے بچوں کو پیار کرو تو وہ چڑچڑے اور ضدی ہوجاتے ہیں ۔ " بدر نے اس بات پر اسے غور سے دیکھا جو قرآن اپنی جگہ پر رکھ رہی تھی ۔ ( ایک تو حرم کی یہ دادی اماں والی احتیاطی تدابیر کبھی ختم نہیں ہونگی ۔ چاہے وہ پروفیسر سے پرنسپل ہی کیوں نہ بن جائے ) " تم نے تو یہ بھی کہا تھا کہ پتیلی میں کھانے سے شادی والے دن بارش ہوتی ہے جبکہ ایسا تو کچھ بھی نہ تھا ۔ " حرم صوفے پر بیٹھتی ہوئی ٹھٹک کہ دیکھنے لگی ۔ " اور خیر ہو بھی جائے ضدی تو تم ہو نہ اسکی تربیت کے لیے ۔ " بدر مزاح میں کہنے لگا مگر وہ تو لفظ بارش پر ہی رک گئی تھی ۔ اور اس ظالم شخص پر سے نظریں ہٹانا ہی بھول گئی ۔ " بارش نہیں ہوئی تھی ہماری شادی پر مگر اس رات کے بعد میری آنکھوں کو کبھی خشکی بھی نصیب نہ ہوئی ۔ " بدر کو خود کی جانب سوالیہ نگاہیں ڈالتے ہوئے پایا تو اس نے بالآخر لب کھول ہی دئیے ۔ اور ہمیشہ کی طرح بدر کو اندر تک جھنجھوڑ ڈالا اور ہمیشہ کی طرح اسے یہی احساس دلایا کہ وہ ہی حرم کا ستمگر ٹہرا ہے ۔ اور اِس ستمگر نے ہی کیا تھا ایک ستم محبت کا ! " حرم ! " اس نے دو بار حرم کو پکارا جب جا کہ اس نے بھیگی آنکھوں سے ہی بدر کو دیکھا ۔ پھر اپنے ہاتھ پر گرم لمس محسوس کر کے وہ مزید آنکھیں بھیگو گئی ۔ " تم نے کہا تھا نہ کہ جو کام میں چار سال میں نہیں کرسکا وہ چار ہفتوں میں کیسے کروں گا ۔ اِسکا مطلب ہے کہ تم چیلنج تو کر ہی رہی ہو مگر اسکے ساتھ ساتھ تم نے مجھے موقع بھی دے دیا ہے ۔ " حرم کچھ نہ بولی بس اسکے ہاتھ میں سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔ آخر اِس شخص کا لمس ہمیشہ پچھلی باتیں یاد کروا کے تڑپانے کیوں لگتا تھا اسے ... " میں جانتا ہوں منہ سے تو پہلے بھی کبھی اقرار نہیں کیا تھا تو اب کیا کروگی ۔ مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ بدر آفندی سے اسکی مسز کبھی دور نہیں جا سکتی ۔ " وہ کون سے اقرار کی بات کر رہا تھا ؟ حرم نے آنکھیں چرا لیں ۔ ایک تو اِن آنکھوں میں دیکھنا بھی وہ مشکل کردیتا تھا ۔ اسے احساس ہوا کہ جیسے وہ ہولے ہولے اس کے پاس آچکا تھا ۔ " تم سے دور نہیں جاؤنگی کبھی بھی نور کو لے کر ۔ مگر تمہارے قریب . " وہ ایک پل کے لئے ٹہری تھی جب بدر کا سر اسے اپنے کندھے پر محسوس ہوا ۔ اس نے گہری سانس اندر کھینچیں ۔ " تمہاری یہ قربت مجھے اب کبھی برداشت نہیں ہوتی ۔ یہ قربت ہمیشہ مجھے ماضی کی اذیت ناک یادوں میں دھکیل دیتی ہے ۔ " بدر کو اسکا رونا واضح محسوس ہورہا تھا تب ہی اسکا ہاتھ تھام لیا ۔ "بدر میں چاہ کر بھی نہیں چاہتی کہ میں کچھ بھولوں ۔ مجھے جب تک اس ستم کی وجہ نہیں مل جاتی میں اور تم کبھی قریب نہیں ہو سکتے ۔" کہتے ہی لرزتے ہاتھوں سے بدر کا ہاتھ خود پر سے ہٹایا اور دور ہوگئی ۔ جبکہ بدر نے ہمیشہ کی طرح ایک بے بس کی طرح اسے دیکھا تھا ۔ " کیا تم مجھ پر ذرا بھروسہ نہیں کر سکتیں ؟ تمہیں میری محبت پر ہمیشہ سے شک کیوں ہے حرم ؟ " اس نے اپنے جذبات ضبط کرتے ہوئے کہا تو حرم نے رُخ پھیر لیا ۔ " پانچ سال پہلے اپنا دل ایک رات میں ہی تمہارے سپرد کر کے بھروسہ ہی تو کیا تھا میں نے ۔ جسے تم نے صبح ہوتے ہی چکنا چور کردیا ۔ " " کیا تم نے سچ میں مجھ سے کبھی محبت نہیں کی ؟ کیوں تم نے کبھی میری محبت کو نہیں سراہا ؟ حرم جب سوچ آتی ہیں تو میرے دل میں بھی ہزاروں سوال اٹھتے ہیں ۔ مگر میں تو نہیں کہتا کہ تم نے میرے ساتھ یہ کیوں کیا وہ کیوں کیا ۔ کیوں مجھے ایک ایسے انسان کے لئے چھوڑ دیا جو کبھی تمہارا تھا ہی نہیں ۔ اسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ تم اس سے محبت۔۔۔۔ " وہ بول نہ سکا وہ بول بھی نہیں سکتا تھا ۔ وہ اسکی بیوی تھی وہ کیسے یہ بول سکتا تھا جو وہ کبھی سن نہیں سکتا ۔ " وہ سب پہلے کی باتیں تھیں ۔ جب اسکی شادی ہوگئی میں تب ہی اسے بھول گئی تھی مگر تمہیں ہماری دوستی کو محبت میں بدلنا ضروری تھا کیا ؟ " ناجانے کیوں مگر وہ اس سے سوال کر گئی ۔ حالانکہ اب تک اتنے سالوں میں وہ چپ ہی رہی تھی ۔ کہ نہ اسے کچھ پوچھنا ہے نہ ہی کوئی صفائی سننی ہے ۔ مگر آج وہ دونوں ہی بول پڑے تھے ۔ " کیونکہ میں اپنی محبت کو کھونا نہیں چاہتا تھا ۔ تمہیں اپنا بنانا تھا حرم ۔ تو پھر کیوں نہ بتاتا کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں ۔ " وہ اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بولا ۔ " میں نے تم سے شادی کے لئے ہاں بابا کی وجہ سے کی تھی کیونکہ وہ چاہتے تھے ایسا ۔ مگر تم جانتے ہو نہ میرے ماں باپ مجھ سے صرف اس لئے نہیں ملتے کیونکہ انہیں لگتا ہے میں نے محبت کر کے انکی پاک دامنی پر کیچڑ ڈالنا چاہی ۔ کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ کہیں میں بھاگ نہ جاؤں ۔ تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا نہ کہ حرم تم فکر مت کرو دیکھنا اس ہی سال کے اندر اندر امی ابو سے تمہاری صلاح کروا دوں گا ۔ اپنے امی کے سامنے بھی اپنی محبت منوا لوں گا ۔ مگر ہوا کیا ؟ تم نے تو اگلے دن ہی ہاتھ چھڑا لیا بدر ۔ اگلے دن ہی چھوڑ کر چلے گئے ۔ اپنے سارے وعدے توڑ کر ، مجھے توڑ کر چلے گئے تھے تم ۔ مجھے بتائے بغیر دنیا کی بھیڑ میں تنہا چھوڑ کر ۔ اس وقت جب کوئی اپنا نہ تھا میرے پاس تب تم بھی چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔ اور وہ بھی صرف اس لئے کہ میں تم سے محبت نہیں کرتی تھی ۔ تمہیں کیسے بتاؤں کیسے بتاؤں کے نکاح نامے پر دستخط اس بات کی گواہی تھے وہ عہد نامہ تھا کہ میں اپنے شوہر کے علاوہ کسی نامحرم سے کوئی تعلق نہیں رکھتی ۔ نکاح کے وقت میرا ماضی ختم ہوچکا تھا اور جو سفر شروع ہوا تھا اس میں صرف تم تھے بدر صرف تم ! " رو رو کر ، تو کبھی جھنجھوڑ کر وہ بدر کو ساکت کر گئی تھی ۔ ہاں آج وہ اسے یقین دلا رہی تھی ۔ یقین دلا چکی تھی کہ وہ اس سے محبت کے سفر میں ساتھ تھی مگر وہ سال اور وہ رات جس کی صبح بھیانک خواب کی طرح اسکی زندگی پر اثر چھوڑ چکی تھی ۔ " حرم بھول جاؤ نہ اس ستم کو جو میں نے انجانے میں کیا ۔ ایک آخری بار میری محبت پر بھروسہ کرلو ۔ " وہ التجائیں کر رہا تھا جب حرم نے نیچے جھکا ہوا سر اب کی بار غصّہ سے بھری سرخ ڈوروں والی آنکھوں کے ساتھ اٹھایا ۔ " بھول جاؤں ۔ بس یہ بھولنے والا کام ہی اب مجھ سے نہیں ہوگا ۔ " اسکے ہاتھ چھوڑتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔ شاید وہ پہلے رو رو کر سر جھکائے خود کو کمپوز کر رہی تھی جس میں کامیابی مل چکی تھی ۔ " حرم میں تمہاری یہ بے رخی اب اور برداشت نہیں کر پاؤں گا ۔ پلیز اب بس کردو نہ ۔ ختم کردو یہ سزا ۔ " وہ بھی اٹھ کے اس کے پاس جا پہنچا ۔ " تو بتا دو مجھے کہ وہ ایک سال کا ستم کیوں ڈھایا تھا مجھ پر کیوں چھوڑ کر گئے تھے تم مجھے ؟ بولو ! " وہ اب کی دبی دبی آواز میں چیخی تھی ۔ بدر تھوڑی دیر منجمد رہا ۔ پھر سر ہلاتے ہوئے آگے کو مزید آیا ۔ " ٹھیک ہے ۔ تم جاننا چاہتی ہو نہ کہ کہاں تھا سال بھر اور کیوں تھا ۔ میں بتا دوں گا ۔ مگر ابھی نہیں بتا سکتا ابھی وقت نہیں ہے تمہیں بتانے کا ۔ " " کیوں ابھی کوئی کہانی نہیں مل رہی سنانے کے لئے جو وقت نہیں آیا بتانے کا ۔ " حرم نے ہمیشہ کی طرح طنزیہ تیر پھینکا ۔ " حرم تمہاری اِس ہی جزباتی فطرت کی وجہ سے میں اب تک تم سے ایک بہت بڑا سچ چھپاتا آرہا ہوں ۔ اور یقین جانو جس دن تمہیں وہ سچ پتا چل گیا نہ تم پچھتاؤ گی کہ تم نے اس قدر بے رخی اور طنز لہجہ کیوں رکھا ۔ " اب کی بار حرم نے تو نہیں مگر بدر نے خود سے اس کے ہاتھ ضرور چھوڑ دئیے تھے ۔ جسے حرم نے خالی خالی نظروں سے دیکھا ۔ " ک۔۔کون سا سچ ۔ کیوں پچھتانے لگی میں ؟ " اب کی بار جلا دینے والی نیم مسکراہٹ بدر کے چہرے پر تھی اسکا سوال سن کر ۔ " یہی تو نہیں چاہتا کہ تم پچھتاؤ اس ہی لئے سالوں سے سب کچھ برداشت کئے تمہیں منانے میں لگا پڑا ہوں ۔ تمہیں کچھ بتاتا نہیں کیونکہ حرم ! " وہ چل کر دو قدم کا فاصلہ مٹاتے ہوئے ایک لمبی سانس بھر گیا جبکہ حرم کی اپنی سانس جہاں تھی وہیں رک گئی ۔ ( کون سا سچ ہے جو اسے نہیں معلوم ) " حرم ۔۔ بدر کی جانم ! بس اتنا جان لو میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا ورنہ تمہارے مجھ سے دور ہوجانے کہ آج بھی بہت مواقع ہیں ۔ بس میں تمہیں کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا ۔ " یہ بول کر وہ اس سے ایک قدم دور ہوا ۔ اور گہرہ سانس بھرا جو کب سے اٹکا ہوا تھا ۔ " باقی رہی بات منانے کی تو چونکہ اب تمہیں سچ جاننا ہی ہے تو ٹھیک ہے ۔ اب تمہیں پریشان نہیں کروں گا محبت کا اظہار نہیں کروں گا بس جب وقت آ جائے گا تو سچ بتانے میں دیر بھی نہیں کرونگا ۔ " " بدر ۔۔ " وہ جو کچھ کہنے لگی تھی بدر نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے لبوں پر انگلی رکھ دی ۔ " ششش۔ ابھی کہہ رہا ہوں تو سن لو پھر شاید موقع نہ ملے ۔ " اسکے کہنے پر حرم نے اسکی انگلی پکڑ کے نیچے کی ۔ مگر اب کی بار اسکی نظروں سمیت حرکت میں بھی نرمی تھی ۔ " نیا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے تڑپانے کا ۔ اس ایک سال کی ازیت تو اب تک ختم نہیں ہو رہی اور تم نے نیا فن ڈھونڈ نکالا ۔۔ " " حرم ۔۔ " پیچھے سے خود کے گرد حصار باندھتا لمس اسے مجبور کر گیا کہ وہ آنکھیں بند کر لے ۔ جبکہ بدر رکا نہیں۔ " تمہیں تڑپانے کا سوچوں اس سے پہلے مجھے موت نہ آجائے ۔ " اس کی بات سن کر حرم نے خوف سے آنکھیں کھولیں ۔ اور نظریں بے اختیار بیڈ پر سوئی نور پر گئیں ۔ " بدر آفندی ۔ مجھ سے دور تو چلے گئے تھے اس پر کچھ نہیں کہتی مگر میری بیٹی سے اسکے ڈیڈی دور کرنے کی بات بھی کی نہ تو میں بہت برا پیش آؤنگی ۔ " ہائے یہ قاتل حسینہ کا دبا دبا سا غصّہ ۔ وہ غیر ارادی طور پر آگے ہوا تھا جب حرم نے اپنی سانسیں روکے اسے گھورا ۔ " خیر ۔ میں نے کہا ہے اب نہیں مناؤں گا تمہیں اب تو خوش ہو نہ ؟ " اسکی لٹوں کو آہستگی سے کان کے پیچھے کرتا وہ اسکا دل سلگا گیا ۔ لیکن وہ کیوں برا محسوس کر رہی ہے یہی تو چاہتی تھی نہ وہ کہ وہ اسے اب نہ منائے ۔ وہ نہیں ماننا چاہتی ۔ تو پھر اب کیوں دل جل رہا ہے اسکی بات پر ۔ اور اب کیوں وہ اسکا حصار توڑ کر باہر نہیں آرہی ؟ کیوں کھڑی ہے اب تک اسکی قربت کے سائے میں ۔ شاید اس لئے کے اسے وجہ مل گئی ہے ۔ اسکے دل کو وجہ مل گئی ہے بدر کے ساتھ کی کہ جو وہ کہہ رہا ہے وہ سچ ہے ۔ اتنا پراعتماد لہجے میں وہ جو بھی کہہ رہا ہے مطلب کہ وہ صحیح ہے ۔ اور حرم کی سالوں کا تلخ رویہ غلط ؟ " کہاں کھو گئیں ۔ چلو خیر میں فریش ہو لوں ۔ مجھے آفس بھی جلدی جانا ہے ۔ تمہیں اور نور کو آج سے میں ہی ڈراپ کروں گا تو اب اس پر نکھرے نہ دکھانا ۔ یوں سمھجہ لو کہ وہ فرض ہے میں تمہیں منانے کے لئے نہیں کر رہا ۔ " بولتے ہی وہ حصار توڑتے واشروم میں گھس گیا ۔ پیچھے حرم منجمد پیروں میں جیسے بیڑیاں ڈالے کتنی دیر اس جگہ کو دیکھتی رہی جہاں کچھ دیر پہلے وہ کھڑا تھا۔ اتنے سالوں سے وہ یہ تلخ رویہ رکھ کر ایک اور غلطی کر رہی تھی ؟ کیا وہ سچ پتا لگنے پر حرم کا ہی سر جھکنا ہے ؟ نہیں مگر ماں بابا تو بدر کی وجہ سے ہی نہیں ملتے اس سے ۔ مگر ۔۔۔۔ " افف یہ کیسی الجھن میں ڈال کر چھوڑ دیا ہے تم نے مجھے بدر " وہ دل کی سنتی تو دماغ صفائیاں پیش کرنے لگتا ۔ اب یہ الگ سوچ تھی جو اسے تب تک ہلکان کر رکھے گی جب تک سچ پتا نہیں چل جاتا جس کا وقت بدر کے مطابق ابھی نہیں آیا ۔ جاری ہے !
❤️ 👍 😢 😮 🙏 😂 294

Comments