Novel Ki Dunya
June 18, 2025 at 05:53 AM
#ایک_ستم_محبت_کا🖤
#ازقلم_زینب_سرور
#قسط_نمبر_6
۔۔۔۔🔥 New entry new twist
ناشتہ ان لوگوں نے سکون سے سعید صاحب کے ہمراہ کیا تھا ۔ باقی سب کو اتنی صبح اٹھنے کی عادت نہ تھی تو اور کوئی میز پر صبح موجود نہ تھا ۔
" بیٹا کالج سے چھٹیاں لے لو ۔ تم کہو تو میں خود غنی سے بات کرتا ہوں وہ کوئی اور پروفیسر ارینج کردے گا ۔" سعید صاحب کے غنی صاحب ( حرم کے کالج کے پرنسپل ) سے کافی اچھے مراسم تھے یہ بھی اسے بعد میں معلوم ہوا تھا۔
" نہیں انکل میں خود ایپلیکیشن لکھ دوں گی وہ رَد نہیں کریں گے ۔ " وہ جو نور کا یونیفارم ٹھیک کر رہی تھی انکی بات پر دھیمے لہجے میں کہنے لگی ۔
" چلو ٹھیک ہے ۔ بدر آفس آنے سے پہلے شبیر احمد سے فائلز ضرور لے آنا ۔ " پھر وہ پاس میں کھڑے بدر کو کچھ ہدایت دیتے گھر سے روانا ہوگئے ۔
حرم نے لمبی سیاہ فراک کے اوپر سفید اسٹالر سر پر لپیٹے ہوئے تھی جبکہ ہاتھ میں نازک سی گھڑی اور ایک انگوٹھی پہنی ہوئی تھی جو ہمیشہ اسکی انگلی کی زینت بنی رہتی تھی ۔
نور ابھی پِری پرائمری سیکشن میں تھی ۔ سفید یونیفارم جو چھوٹی فراک اور ٹائٹس پر مشتمل تھا ۔ نیچے سفید موزے اور اسکول والے سیاہ چمچماتے جوتے جنہیں وہ دائیں بائیں موڑتے دیکھ رہی تھی ۔
" افف نور ایک تو یہ آپ کے ننھے منے بال بار بار نکل جاتے ہیں ۔ ادھر رکو تو ایک جگہ بیٹا ۔۔" وہ اسکی چھوٹی پونی ٹیل کو سہی کرتے ہوئے کہہ رہی تھی جبکہ نور کبھی ادھر سر گھماتی تو کبھی کہیں گھوم جاتی ۔ ہاں وہ اسے تنگ کر رہی تھی ۔ کیونکہ پیچھے کھڑے بلیک فارمل ڈریس پہنے اسکے ڈیڈو اس کام پر اسے داد دے رہے تھے ۔
" ویری گُڈ میری جان ۔ " بدر نے پیچھے سے نور کو فلائنگ کِس دی ۔
حرم نے منہ بناتے نور کو دیکھا جو پیچھے دیکھتے دانت نکال کہ ہنس رہی تھی ۔ پھر حرم نے بھی سر پیچھے گھمایا جس پر بدر فوراً ہنسی چھپا کر فون میں دیکھنے لگا ۔ وہ یہ ظاہر کر رہا تھا کہ اب اسے حرم میں کوئی دلچسپی نہیں ۔
حرم نے بھی کچھ نہ پاکر چہرہ سیدھا کیا اور پھیکا مسکراتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔ نہ جانے کیوں اسے بدر کی وہ صبح کہی ہوئی باتیں بے چین رکھے ہوئے تھیں ۔
' اففف یہی تو چاہتی تھیں تم اب کیا مصیبت ہے ۔ آہ کالم ڈاؤن حرم ایوری تھنگ اِز فائین ۔ ' دل میں خود سے مخاطب ہوتی وہ نور کا ہاتھ پکڑے باہر لے گئی۔
پیچھے سے بدر بھی نور کا بیگ پکڑے لے آیا اور انکی گاڑی بھی روڈ پر رواں دواں ہوگئی ۔
" واپسی پر میں ڈرائیور بھیج دوں گا اور نور کو خود لے آؤنگا مجھے کہیں جانا ہے اسے لے کر ۔ "
" کہاں جانا ہے نور کو لے کر ۔ " وہ جو پیچھے بیٹھی تھی سامنے لگے شیشے میں دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی ۔
" فن لینڈ بنا ہے ایک نیا ۔ سائٹ پر جہاں جاؤنگا کام کے لئے۔ بس وہیں لے کہ جانا ہے ۔ سانیہ کو تمہارے ساتھ شاپنگ پر جانا ہے آج اس لئے تم ہمارے ساتھ نہیں جا سکتیں ۔ " ڈرائیو کرتا وہ ایک نظر بھی پیچھے نہ دیکھ رہا تھا ۔
" مگر ۔۔ "
" مگر کیا باپ ہوں اسکا خیال رکھ سکتا ہوں اس سے پہلے بھی لے کر گیا ہوں نہ بہت بار ۔ تو آگے سے کوئی سوال کر ہی کیوں رہی ہو ؟ " اتنی جلدی اس نے حرم سے لہجہ بدل لیا تھا ۔ وہ یہ تو نہیں کہنے والی تھی کہ وہ اسکا خیال نہیں رکھا سکتا وہ تو خود انکے ساتھ جانا چاہتی تھی ۔
' کچھ زیادہ ہی کھڑوس بننے کا شوق اٹھ گیا ہے نواب کو ۔ خیر میں بھی کوئی صفائی کیوں دوں ۔ سوچتا رہے جو سوچنا ہے ۔ ' وہ بھی دل میں تہیہ کرتی فون میں سر جھکا گئی ۔ باقی کا سارا راستہ بھی سب چپ ہی رہے ۔
🖤___________~
آج کالج میں اچانک ہی ایک ادارے سے کچھ لوگ آگئے تھے ۔ کوئی فاؤنڈیشن فرم کے لوگ تھے ۔ حرم چونکہ سوشل ڈیپارٹمنٹ کا بھی حصہ تھی تو وہ بھی انکی میٹینگ میں شامل تھی ۔
" ان سے ملئیے ۔ یہ ہیں اس فاؤنڈیشن کے ہیڈ ' مسٹر محمد سرمد بلوچ '... سالوں بعد پاکستان واپس آئے ہیں اپنے ادارے کی نئی برانچ لے کر ۔ اب فارن کنٹریز کے بعد یہاں پاکستان میں بھی انکے فاؤنڈیشن کی شاخ موجود ہے ۔۔۔ "
پرنسپل غنی نے سب ٹیچرز پروفیسر سے سرمد بلوچ کو متعارف کروایا ۔ حرم نے ایک نظر اس پر ڈال کر ہٹا دی ۔ سفید کلف لگی شلوار قمیض پہنے جس پر ایک بازو پر کالی شال ڈلی تھی ۔ چمکتی سیاہ کھیڑیاں اور ہاتھ میں پہنی گھڑی ۔ وہ اپنے نین نقش سے ایک خوبرو نوجوان تو تھا ہی مگر یہ حلیہ حرم کو متاثر نہ کر پایا ۔ جبکہ کچھ دھندلی یاد ضرور حرم کے ذہن میں کھٹکی تھی ۔۔
تھوڑی دیر یونہی باتیں چلیں سرمد بلوچ کی نگاہ اب تک حرم پر نہ گئی تھی مگر قسمت میں لکھا کون روک سکتا ہے ۔ حرم اختتام گفتگو دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور غنی صاحب کے پاس چل دی ۔ اسے ایپلیکیشن آج ہی دینی تھی ۔
" سر مجھے کچھ کام تھا آپ سے ۔ " حرم نے انکے آخری کلمات میں مداخلت کرتے ہوئے غنی صاحب کو پکارا جس پر سرمد کی نگاہیں جو ایک بار اسکی جانب اٹھی تھیں تو پلٹنا بھول گئی تھیں ۔
وہ بات کرتی رہی غنی صاحب سے اور یہاں سرمد بلوچ کی آنکھوں میں ایک کے بعد ایک رنگ آ کر دوسرا جاتا رہا ۔۔
" شکریہ سر ۔ تو میں چلتی ہوں پھر مجھے جلدی جانا ہے ۔ " وہ بات ختم کر کے مسکراتے ہوئے کہنے لگی جب سرمد ہوش میں آیا ۔
" اوکے گُڈ ڈے بیٹا ۔ معزرت سرمد صاحب وہ دراصل یہ سعید آفندی کی بہو ہے آپ تو جانتے ہی ہونگے ۔ " سرمد نے سر ہاں میں ہلاتے ہوئے حرم کی جانب دیکھا جس پر وہ سلام کرکے چلتی بنی ۔ اسے سرمد کا یوں دیکھنا تپا گیا تھا اگر پرنسپل کا مہمان نہ ہوتا تو حرم کی گھوری کے ساتھ ساتھ باتیں بھی سنتا ۔
وہ باہر پارکنگ ایریا میں کھڑی ڈرائیور کا انتظار کر رہی تھی جبکہ پیچھے ڈھیروں پیڑوں میں سے ایک کے ساتھ چھپا ہوا شخص مسکرا اٹھا ۔
آنکھوں میں گہری چمک لئے اس نے فون کان سے لگایا اور لب ہلائے ۔
" بزنس مین سعید آفندی کی بہو ! اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے آگے کا کام تم خود جانتے ہو ۔ " پھر آگے سے مثبت جواب ملنے پر اسکی مسکراہٹ گہری ہوتی ہوئی معدوم ہوگئی ۔
حرم نے سانس بھرا اور گاڑی میں بیٹھ گئی ۔ جبکہ پیچھے پیڑوں میں کچھ سیاہ چیز دھوپ سے چمکی تھی ۔
🖤_______ ~
گاڑیوں اور والدین کا ہاتھ پکڑے بچے ۔ وہ جہاں کھڑا تھا وہاں رش لگا ہوا تھا ۔ پھر دھوپ سے آتا ماتھے پر پسینے کی ننھی بوندوں کو نظر انداز کئے وہ اسکول کے اندر کو چل دیا ۔
اور سامنے ہی سر جھکائے بینچ پر بیٹھی نور اسے نظر آگئی جو دونوں ہاتھوں سے اپنے بیگ کے سٹیپ پکڑے مسلسل پیر ہلا رہی تھی ۔
" ڈیڈو آگئے نور ۔۔۔ " اور بدر کی آواز سنتے ہی اس نے خوشی سے اوپر دیکھا اور بھاگتی ہوئی فاصلے پر کھڑے بدر کے گلے لگ گئی ۔
" ڈیڈی لیٹ تو نہیں ہوئے نہ نور ؟ " اس نے نور کا بیگ اسکے کندھوں پر سے نکالا اور دوسرے ہاتھ میں پکڑا جبکہ ایک ہاتھ سے وہ نور کو گود میں اٹھا چکا تھا۔
" نو ڈیڈی ۔ نونو ڈیدی اِز آن تائم ( ٹائم ) " اسنے ہمیشہ کی طرح بدر کی تھوڑی کو اپنے ہاتھوں سے سہلاتے ہوئے کہا جس پر بدر نے اس کے گال پر بوسہ لے لیا ۔
" میری جان تھک گئی ہوگی نہ ۔ لنچ میں جو دیا تھا وہ کھا لیا نہ ۔ " اسکو گاڑی میں بٹھاتے وہ اس طرح پوچھ رہا تھا جیسے لنچ خود اپنے ہاتھوں سے بنا کر دیا ہو ۔
پھر اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے اس نے نور کی پانی کی بوتل دیکھی جو آدھی بھری ہوئی تھی ۔
نور نے بھانپ لیا کہ اب ڈیڈی نے مما کی طرح ٹریٹ کرنا ہے اس لیے فوراً منہ بناتے ہوئے باہر دیکھنے لگی ۔ جبکہ بدر اسکی اس حرکت پر اپنی ہنسی ضبط کر کے رہ گیا ۔
" نورِ بدر ! پانی تو کم از کم پورا پی لیا کرو نہ ڈیڈو کی جان ۔ " بوتل اس کے آگے کئے وہ پیار سے کہنے لگا ۔ نور نے صرف نگاہوں کو زحمت دی اور بدر کی جانب سیدھا چہرہ کیئے ہی آنکھوں سے دیکھا ۔ پھر زور سے آنکھیں میچ لیں اور ایک لمبی سانس خارج کری ۔
" ڈیڈو یال ۔ نونو تی تمی فُل ہے ۔ ( ڈیڈو یار ۔ نونو کی ٹمی فُل ہے ۔ ) " اس نے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔ اور بدر تو آنکھیں پھاڑے دیکھتا رہ گیا ۔۔ یہ اسکی ہی اولاد تھی نہ ۔
" نورِ بدر پانی پی کہ باٹل سائڈ میں رکھ دینا ۔ " اب کی بار آواز میں رعب تھا اور چونکہ نور کو میری جان کی جگہ نام ( نورِ بدر ) سے پکارا گیا تھا تو پھر تو اس نے چپ چاپ پینا ہی تھا ۔ نور نے مظلوم سا منہ بنائے بوتل اٹھائی اور تھوڑا پانی پی کر رکھ دیا ۔ بدر جانتا تھا نور کو پانی کیسے پلانا ہے ۔ وہ اسکول ہو یا گھر بہت کم پانی پیتی تھی جس کی وجہ سے کبھی کبھی ڈی ہائڈریشن کی شکایت ہوجاتی تھی ۔ حرم بھی اس بات کا بہت خیال رکھتی تھی اور اب چونکہ نور بدر کے پاس ہے اس وقت ۔ تو یہ اسکا فرض تھا ۔
" گُڈ گرل ۔ چلو اب ہم چلتے ہیں کسی بہت خاص سے ملنے کے لئے ۔ " اب کی بار اس نے جھک کہ نور کو پیار کرتے ہوئے بولا پھر سیٹ بیلٹ لگائی اور گاڑی چلا دی ۔
" ہم فَن لیند جا لے ہیں کا ؟ " نور نے سب بھلائے دلچسپی سے پوچھا ۔ بدر نے اسکی بات پر مسکراتے ہوئے سوچا ۔ ' بالکل ماں کی طرح دماغ چلتا ہے مجال ہے جو کوئی بات بھول جائے ۔ '
" نہیں ہم فن لینڈ نہیں جا رہے ہم ایک سپیشل پرسن سے ملنے جا رہے ہیں جو نور سے ملنا چاہتے ہیں "
" وہ تون ہیں ؟ " اس نے اب کی بار رُخ پورا بدر کی جانب کرلیا ۔
" وہ میں وہاں جا کہ بتاؤں گا کہ کون ہیں ۔ اب سفر کی دعا پڑھ لو اور سکون سے بیٹھ کر اپنا لنچ ختم کرو ۔ " نور نے اسکی پہلی بات پر تو سر ہلا دیا اور سیدھی ہو کہ بیٹھ مگر دوسری بات سنتے اسکے وہی ڈرامے شروع ہوگئے تھے ۔
" نورِ بدر! " اور بس پھر بدر کی ایک ہی آواز آئی تھی جس کے بعد نورِ بدر نے چوں چاں کئے بغیر سینڈوچز ختم کیے ۔ بدر مسکرا کے ڈرائیو کرنے لگا ۔
ماں باپ ایسی ہی ہوتے ہیں جنہیں اپنے بچوں کا اچھا برا سب معلوم ہوتا ہے ۔ کب انکو کیا چاہئے کیا دینا ہے کیا کرنا ہے ۔ انکو پڑھانا لکھانا تربیت کرنا پال پوس کر قابل شناخت دلوانا ۔ سب کچھ ماں باپ ہی تو کرتے ہیں ۔ ہمارا سب کچھ ہمارے ماں باپ سے ہی ہے ۔ وہ نہ ہوتے تو ہم کچھ نہ ہوتے ۔ اس ہی لئے تو انکا اتنا بڑا مقام دیا ہے رب نے ۔ اللّٰہ سب بچوں کو انکے والدین کے لئے نیک و فرمانبردار بنائے !
🖤__________ ~
وہ سانیہ اور باقی سب کے ساتھ شاپنگ پر تو آگئی تھی مگر اب زارا کی امی یعنی بدر کی خالہ سلمہ بیگم اور اپنی ساس ممتاز بیگم کی چٹ پٹی گفتگو جو یقیناً حرم کے خلاف ہی ہوتی تھی ۔ وہ چڑ گئی تھی اس ماحول سے ۔
" سانیہ میں اس شاپ پر دیکھ کر آتی ہوں کافی اچھے لگ رہے ہیں ڈریسز ۔ " اس نے فلوقت یہاں سے نکلنے کے لئے بات بنائی ۔
" بھابھی میں بھی ساتھ آتی ہوں ۔ چلیں ۔ " وہ سانیہ کے ساتھ ہی دوسری دکان پر چل دی ۔ سانیہ نے بھی محسوس کرلیا تھا کہ شاید امی اور خالہ کی گفتگو ہی حرم کی کیفیت کی وجہ تھی۔ اس لئے اس نے کچھ نہ بولا اور دونوں چل دیں ۔
یہ بات حقیقت تھی کہ حرم کی خوبصورتی بھی ایک وجہ تھی جو کچھ لوگوں کو بہت کھلتی تھی ۔ زارا بھی اس سے احساسِ کمتری کے شکار میں ہی حسد کرنے لگ گئی تھی کچھ غلطی اسکی ماں کی بھی تھی جو بیٹی کے سامنے اپنی بہن سے یہ کہہ دیتیں کہ ۔
" اب جو بھی کہو حرم سے زیادہ خوبصورت لڑکی بھی تو خاندان میں نہیں نہ ۔ شاید اس لئے بدر کو اپنی بیوی کے سوا اور کچھ نہیں دکھتا ۔ میں تو زارا کو شروع سے کہتی تھی کہ لڑکیوں کی طرح ہی خود کو سنوار کر رکھا کرو مگر اسے کچھ سمھجہ آئے تب نہ ۔ اب دیکھ لو حرم کو کیا ٹھاٹ ہیں اسکے اور ایک تم ہو ۔ "
یہ وہی الفاظ ہیں جو ہمارے گھر کی عموماً مائیں بے دھڑک کہہ دیتی ہیں یہ بھی سوچے بغیر کے کہہ دینے کے بعد ہمارے بچوں پر ان باتوں کا کیا اثر پڑے گا ۔ یہ خوبصورت بدصورتی ۔ رنگ و روپ کے چکر میں اس قدر فتنے فساد پھیلا دئیے ہیں کہ ہر کوئی اپنے اندر عیب ڈھونڈ نکالتا ہے ۔ اللّٰہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے یہ سب بول بول کر احساس کمتری میں تو مبتلا کر ہی دیا جاتا ہے بچیوں کو جبکہ انکے اندر کے حسد کو بھی پروان چڑھا دی جاتی ہے ۔
ہمارے معاشرے کے چند ایسے لوگ اگر زبان کھولنے سے پہلے ایک بار بھی سوچ لیں گے تو بہت سے گھر تباہ ہونے سے بچ جائیں گے بہت سی لڑکیاں احساسِ کمتری سے بچ جائیں گی ۔ اپنے بچوں کی تربیت والدین اور خاص طور پر ماں کو ہی کرنا ہوتی ہے ۔ اور کس نے کہا کہ تربیت صرف چھوٹے بچے کے کی جاتی ہے ۔ نوجوان نسل کے ذہنوں پر یہ رنگ و روپ کا بوجھ ڈال دینا بھی تربیت میں خرابی پیدا کرنا ہے ۔ سمجھانے کہ اور بھی بہت سے طریقے ہوتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ کسی دوسرے کو سامنے رکھ کر ہی اپنی اولاد کو سمجھایا جائے کہ دیکھو ۔ اسکو دیکھو اس سے سیکھو کچھ ۔
یہ الفاظ کبھی کبھی اندر تک جا کر لگتے ہیں ۔ اور پھر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کہ ہم کمتر ہوں ان سے ۔
اس لئے بچے بڑے ہوں یا چھوٹے انکے سامنے سوچ سمجھ کر بولیے ۔ الفاظ کا چناؤ بہت اہم چیز ہے!
" ویسے بھائی کو ریڈ کلر بہت پسند ہے اور آپ پر یہ جج بھی بہت رہا ہے ۔ میں تو کہتی ہوں یہی لے لیں . " وہ ایک سرخ رنگ کا کامدار جوڑا تھا جس پر کہیں کہیں بوٹیاں تھیں آستین آگے سے کھلی ہوئی تھی وہ لمبی میکسی تھی جس کے پیچھے ڈوریاں لٹک رہی تھیں ۔ حرم نے سانس بھرا اور جوڑا سامنے رکھ دیا ۔
" مگر ہم تو تمہارے لئے شاپنگ کرنے آئے ہیں پہلے تمہاری تو کمپلیٹ ہوجائے۔ "
" ارے میری تو پوری ہی ہے وہ تو بس مام کو ہی ناجانے کتنے ڈریسز لینے ہیں میرے لئے۔ انکا تو دل ہی نہیں بھر رہا ۔ مگر کوئی بہانہ نہیں بس میں نے کہہ دیا تو کہہ دیا ۔ اب کیا آپ میری پسند کی ایک چیز بھی نہیں لیں گی ؟ " اور آخر میں سانیہ نے بلیک میل کیا تھا ۔ معصوم سا منہ بناتے وہ اسے نور کی یاد دلا گئی ۔
" اچھا ٹھیک ہے یہی ڈریس پہنوں گی بس اب خوش ! " حرم نے اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا تو سانیہ ہنس پڑی ۔
" جی یہی ڈریس پیک کر دیں ۔ " سانیہ ڈریس پیک کروانے لگی جب حرم جو پیچھے لگے کپڑوں پر نظریں گھما رہی تھی اسے دوکان کے باہر کچھ عجیب محسوس ہوا ۔ جیسے کوئی اسے دیکھ رہا تھا یا کوئی اسکا تعاقب کر رہا تھا ۔ وہ جب سے کالج سے نکلی تھی اب تک اسے یہی محسوس ہوا کے وہ کسی کی نظروں کے حصار میں ہے ۔
' حرم تم بہت زیادہ وہمی ہوگئی ہو ۔ ویسے کھڑوس ٹھیک ہی کہتا ہے پڑھا پڑھا کر دماغ خراب ہوگیا ہے میرا ۔ ' بدر کی باتوں کا سہارا لیتی وہ خود کو کمپوز کر رہی تھی ۔ حالانکہ اسکی چھٹی حِس کبھی غلط نہیں کہتی تھی ۔ مگر یہ وہم ہی ہو سکتا تھا ۔ بھلا اسکا تعاقب کون کر سکتا ہے ؟
وہ دونوں دوکان سے باہر نکلیں اور مال کی ہی دوسری جانب بڑھنے لگیں جب دور کہیں سے کلک کی آواز ابھری تھی ۔ ایک مدھم سی کلک کی آواز کے ساتھ نکلتی روشنی معدوم ہوئی تھی ۔ اور پھر دور کھڑا شخص اپنی فاتحانہ مسکراہٹ لئے وہاں سے چلا گیا ۔
جاری ہے !
❤️
👍
😂
😢
😮
🙏
252