Novel Ki Dunya
June 18, 2025 at 02:04 PM
#ایک_ستم_محبت_کا #ازقلم_زینب_سرور #قسط_نمبر_7 وہ ایک چھوٹا سا گھر تھا ۔ دو مالے پر مشتمل باہر سے گندمی رنگ میں رنگا ہوا ۔ بدر نے گاڑی روک کر نور کو اتارا جو تھکی تھکی لگ رہی تھی ۔ ( شاید اسکول کی تھکن ہوگی ۔ ) " ہم آگئے ڈیڈو کی جان ۔ " آس پاس ایک محتاط نگاہ ڈالتے ہوئے اس نے نور کو باخبر کیا ۔ " ہم کاں آئے ہیں ؟ ( ہم کہاں آئے ہیں ؟ ) " وہ جو گاڑی لاک کر رہا تھا نور نے اسکا کوٹ کھینچتے ہوئے کہا ۔ " چلو تو اندر نونو پھر بتاتے ہیں ۔ " نور نے بدر کی بات پر سر ہلایا اور چلتی بنی ۔ مگر چونکہ گاڑی روڈ کے دوسری جانب تھی تو گھر اور بدر کی گاڑی کے درمیان ایک چوڑی سڑک کا فاصلہ تھا ۔ بدر سے گاڑی دوسری باری میں جا کر لاک ہوئی پھر وہ کچھ سامان اٹھانے لگا جب اسے احساس ہی نہ ہوا کہ نور سڑک کے بیچ و بیچ کھڑی ہے ۔ تبھی ایک گاڑی نور کی جانب رش ڈرائیونگ کرتے ہوئے آرہی تھی ۔ بدر پیچھے مڑا اور زور سے چیخا جبکہ نور کو گاڑی لگنے سے پہلے ہی کسی نے پیچھے کو کھینچ لیا ۔ بدر سارا سامان سب کچھ وہیں پر چھوڑتا نور کی جانب لپکا اور اسے چیک کرنے لگا ۔ " نور ۔ کہیں لگی تو نہیں ناں ۔۔ہاں ؟ چوٹ تو نہیں لگی نہ ہاں؟ میرا بچا ۔ " گھبرائی ہوئی آواز میں کہتا وہ روہانسا ہوگیا تھا ۔ ساتھ کھڑے جاوید صاحب نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی ۔ " بیٹا بچوں میں ایسا ہوجاتا ہے ۔ اور فکر نہ کرو میں نے بروقت پیچھے کرلیا تھا ۔ " نور بھی ڈر کر بدر سے چپک کر کھڑی تھی ۔ اور پھر بدر کا ردعمل دیکھ وہ بھی گھبرا گئی تھی ۔ سمھجہ تو اسکے چھوٹے دماغ میں کچھ آیا نہیں تھا کہ ہوا کیا ہے بس اپنے ڈیڈو کو پریشان ہوا دیکھتی وہ بار بار پلکیں جھپکاتی منہ بنا گئی ۔ " السلام و علیکم انکل ۔ " " وعلیکم السلام چلو اندر چلیں ۔ کچھ نہیں ہوا چھوٹی حرم کو " جاوید صاحب نے شفقت سے ہاتھ پھیرتے نور کا ہاتھ پکڑا ۔ بدر بھی خود کو کمپوز کر چکا تھا پھر نور کو جاوید صاحب کو دیتا وہ نیچے پھینکا سامان اٹھا کر اندر لے جانے لگا ۔ " ہو آڑ یو وائت موچوں والے انکل ؟ ( ہو آر یو وائٹ موچھوں والے انکل ) " اندر جاتے ہوئے ایک نظر اس نے اپنے ڈیڈی کو دیکھا تھا جو پہلی بار اسکا ہاتھ کسی اور کے ہاتھ میں دے کر سکون سے تھے ۔ پھر ساتھ میں چلتے جاوید صاحب سے آنکھیں تفتیش کار کی طرح چھوٹی کرتے ہوئے پوچھنے لگی ۔ " آپکے ڈیڈو نے بتایا نہیں کیا ؟ " انہوں نے اندر آتے بدر کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔ جس پر نور نے نچلا ہونٹ باہر کرتے نفی میں سر ہلا دیا ۔ " نور کا سرپرائز تھا نہ اس لئے نہیں بتایا ۔ نور پتا ہے یہ کون ہیں ؟ " بدر اور وہ سب باہر لان میں لگی کرسیوں پر بیٹھ گئے تھے جبکہ سامان ٹیبل پر رکھتے اس وقت اس نے نور سے ائبرو اُچکا کے سوال پوچھا تھا جس پر نور نے اپنا ہاتھ افسوس سے سر پر مارا ۔ " دیڈو یال ۔ نونو تو نئی نہ پتا پھر ایشے کیشے بولوں ( ڈیڈو یار ۔ نونو کو نہیں ناں پتا پھر کیسے بولوں ) " اپنے باپ کی یاداشت پر افسوس کرتی وہ اپنی تیز آواز میں کہتی ، ان دونوں کے ساتھ ساتھ لان میں آتیں شمائلہ بیگم کو بھی ہنسا گئی ۔ " ارے نانو کی گڑیا یہ آپ کی مما کے ڈیڈی ہیں ۔ " شمائلہ بیگم نے اسکے گالوں پر پیار کرتے ہوئے کہا ۔ بدر نے کھڑے ہو کہ سلام کیا پھر وہ لوگ دوبارہ بیٹھ گئے جب کہ نور جو بدر اور شمائلہ بیگم کے بیچ میں بیٹھی تھی جاوید صاحب کو غور سے دیکھنے لگی ۔ " ادھر آؤ میرے پاس " جاوید صاحب نے نور کو اپنے پاس بلایا جس پر اس نے پہلے بدر کو دیکھا ۔ بدر نے اشارے سے جانے کا کہا تو وہ اٹھ کے انکے پاس چلی گئی ۔ نور کو انہوں نے اپنے پاس بیٹھا لیا جبکہ جذبات سے انکی آنکھیں بھر آئیں تھیں ۔ " اتنے سالوں بعد ہمیں لگ رہا ہے کہ ہم اپنی بچی سے مل رہے ہیں ۔ شمائلہ اس میں سے حرم کی خوشبو آرہی ہے ۔ " جاوید صاحب کی بھیگی آواز انکے رونے کا ثبوت تھی ۔ بدر نے انکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا ۔ " انکل آپ بولیں تو سہی میں حرم کو ابھی اور اس ہی وقت آپ کے پاس لے آؤں گا ۔ " " اگر اسے یہاں لا سکتے تو میں کبھی اسے خود سے دور بھیجتا ہی کیوں ۔ کون باپ اپنی بیٹی سے دور رہ سکتا ہے ۔ " انکے دو آنسو ٹوٹ کے نور کے چہرے پر گرے تھے ۔ اس نے چہرہ اوپر کر کے اپنے ننھے ہاتھوں سے انکے آنسوؤں کو صاف کیا ۔ " آپ مما تے ڈیدو ہیں کا ؟ ( آپ مما کے ڈیڈو ہیں کیا ؟ )" نور کی بات پر انہوں نے بھیگی آنکھوں سے سر ہلایا اور پھیکا سا مسکرا دئیے ۔ نور نے حیرت سے انہیں دیکھا ۔ " دیڈو! دیڈو ۔۔۔ مما تے ڈیدی مل گئے " پھر اسنے یکدم تھوڑی تیز آواز میں بدر کی آستین کھینچ کر کہا ۔ " مما تے ڈیڈی مما پاش چلو نہ ۔ مما ڈیڈو تو مِس کلتی ہیں ۔ " نور کے معصومیت سے کہنے پر انہوں نے اسے گلے سے لگا لیا ۔ " ایسا مما نے کہا نور سے کیا ؟ کہ وہ یاد کرتی ہیں " جاوید صاحب نے خوش ہوتے ہوئے پوچھا جس پر اس نے نفی میں سر ہلایا ۔ " نونو نے رات تے ٹائم مما تو دیکھا ناں ۔ نونو تی مما رو ری تیں ۔ " انکی آنکھوں سے گرتے آنسو نور کے کپڑوں اور چہرے میں جذب ہوتے جا رہے تھے ۔ " کیا ۔۔ کیا کہہ رہی تھیں نونو کی مما " آواز رونے کے باعث دب گئی تھی ۔ بدر کی آنکھیں بھی بھیگ گئی تھیں جبکہ شمائلہ بیگم منہ پہ دوپٹہ رکھے آنسو چھپا رہی تھیں ۔ " مما رو تے کے رئیں تیں ۔ سوری نہ بابا حرم تو واپش بلا لیں ناں ۔ حرم تو یاد آ لی اے ۔ ( مما رو کے کہہ رہیں تھیں ۔ سوری نہ بابا حرم کو واپس بلا لیں ناں ۔ حرم کو یاد آرہی ہے ۔ ) " اس بات پر تو انہوں نے ہچکی بھری تھی ۔ " بس انکل آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی ۔ نور بس چپ ۔ " بدر کے کہنے پر نور نے آنکھیں چھوٹی کر کے بدر کو دیکھا ۔ " انکل اب تو اُس وڈیرے کا راج بھی نہیں رہا ۔ آپ ہی تو کہہ رہے تھے سال بھر ہونے کو ہے اور اس نے کوئی رکاوٹ نہیں کی مطلب وہ بھول چکا ہے ۔ تو چل لیں ناں آپ دونوں اب اور کتنی تسلی کریں گے ۔ " بدر نے سمجھاتے ہوئے کہا ۔ " بیٹا کھو چکا ہوں پہلے ہی بیٹی کو کھونے کا ڈر اب تک نہیں جاتا ۔ تمہیں بھی ہمیشہ اس معاملے سے اس ہی لئے دور رکھتا آیا ہوں کیونکہ اگر تمہیں بھی کچھ ہوجاتا تو حرم کا کیا ہوتا ۔ پہلے ہی اس ایک سال کا تنازعہ اب تک برقرار ہے ۔۔" شمائلہ بیگم چہرہ خشک کئے اٹھیں اور نور کو جاوید صاحب کی گود سے لئے اندر چل دیں ۔ ویسے بھی نور کا یہ ساری باتیں سننا ٹھیک نہیں تھا ۔ " انکل لیکن اب کس چیز کا انتظار ہے ۔ حرم کا بھی تو حق ہے نہ کہ اسکو سب سچ معلوم ہو ۔ وہ آج تک مجھ سے صرف اُس ایک سال کا جواب نہ ملنے پر خفا ہے ۔ " " میں صرف تسلی کرنا چاہتا ہوں کہ آیا اُن لوگوں نے ہمارا پیچھا چھوڑ دیا ہے یا نہیں ۔ اور تم فکر مت کرو بس یہ ہفتہ اور اگلے مہینے کی پہلی تاریخ کو ہی ہم حرم سے ملنے آئیں گیں اور دیکھنا جب اسے سب سچ پتا چلے گا تو ناراضگی جھاگ بن کر اڑ جائے گی ۔ " انہوں نے بدر کے کندھے پر ہاتھ رکھے اسے تسلی دلائی ۔ " انکل ! مجھے اسکی اِس ناراضگی سے اتنا فرق نہیں پڑتا جتنا اسکی ندامت پر پڑے گا ۔ کہ جب اسے سچ پتا چلے گا ۔ تو میں نہیں چاہتا کہ وہ شرمندہ ہو ۔ " انکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس نے محبت سے کہا تھا ۔ " اس ہی جزباتی فطرت کے باعث تو اس سے سب کچھ چھپایا ہے آج تک ۔ اگر اسے معلوم ہوتا ہے کہ وجہ یہ ہے ہم سب کی دوری کی تو وہ تو ایک کہرام مچا دیتی کہ بابا آپ ڈر رہے ہیں ایسے لوگوں کو پولیس کے حوالے کریں ۔ اب اسکو میں معاملے کی سنگینیاں کیسے سمجھاتا۔ یا اگر وہ کبھی تحمل سے کچھ سمھجہ لیتی تو آج دور نہ ہوتی ۔ " اپنی بیٹی کی فطرت پر وہ افسوس سے کہہ رہے تھے ۔ " خیر آپ اب آئیں گے ضرور ۔ اب سب ٹھیک ہے تو کوئی بہانہ نہیں ۔ " بدر کی بات انہوں نے ہاں میں ہلایا تھا جس پر وہ مسکرا گیا ۔ ⚜️____________________⚜️ وہ کوئی گودام تھا ۔ بہت ہی وسیع اور تاریک ۔ چاروں اور بڑے بڑے کارٹن اور چیزیں رکھی ہوئیں تھیں ۔ یہ سب وہ ہی چیزیں ہیں جو باہر سمگلنگ کردی جاتی تھیں ۔ ایسے میں گودام کے بیچ و بیچ بنے کمرے میں کوئی چئیر پر بیٹھا آگے پیچھے ہورہا تھا ۔ پرسوچ نگاہیں لئے وہ کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہا تھا ۔ " کب تک بھاگیں گے بیٹی لو کر ۔ انہیں لگتا ہے کہ میں بھول گیا ہوں ۔ اپنے بھائی کی موت کا بدلا ! اور میں بھول جاؤں گا ؟ " باہر سے آتی نیم روشنی میں اسکی آنکھوں میں اترتا خون صاف ظاہر تھا ۔ وہ کوئی نوجوان تھا ۔ سفید رنگت کا حامل چوڑا اور طاقت والا ۔ " پہلے تو محبت تھی تو عزت سے دینے کو کہہ رہا تھا مگر اب تو انتقام ہے انتقام ۔ سردار بلوچ کا انتقام ! " وہ دل و نین میں کرب لئے کہہ رہا تھا جب اسکے موبائل فون کی سکرین چمکی ۔ کوئی واٹس ایپ میسج تھا جو ایک بار پھر فون کو روشن کر گیا ۔ اس نے ٹیبل پر رکھا فون اٹھایا اور میسج کھولتے ہی کچھ دیر ساکت رہ گیا ۔ ایک تصویر تھی جس میں وہ شاپنگ بیگ اٹھائے کہیں جا رہی تھی ۔ ساتھ ایک اور لڑکی بھی تھی جو ہنستے ہوئے اسے شاید کچھ کہہ رہی ہوگی ۔ تصویر کے ساتھ ایک میسج تھا جس میں اسکی تفصیل لکھی ہوئی تھی مگر اسے اِس لڑکی کو پہچاننے کے لئے کسی تفصیل کی ضرورت نہ تھی ۔ دیکھتے ہی اسے کچھ بیتے لمحے یاد آگئے جب وہ گاؤں سے پہلی بار آرہا تھا اور راستے میں اسے دیکھ کر ٹہر سا گیا ۔ وہ جو شاید کالج جا رہی تھی گھور کر سردار کی گاڑی کو دیکھا اور آگے بڑھ گئی ۔ وہ فون میں تصویر کو دیکھتے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا جب ایک اور یاد نے ذہن پر ڈاکہ ڈالا ۔ جب وہ اس سے روز روز گھوریاں کھا کر تھک گیا تو پہلی بار اسکا راستہ روک لیا ۔ اور ہمت کر کے دل کا حال بتایا جس پر سردار بلوچ کو رکھ کر ایک چماٹ رسید کیا گیا تھا اسکی بے باقی پر ۔ اس نے یکدم آنکھیں کرب سے بند کیں تھیں ۔ اور ذہن سے فوراً اس تلخ یاد کو مٹایا ۔ " میں نے تو کبھی اس تھپڑ کا بدلہ بھی نہیں لیا تم سے ۔ تم نے باہر جاتے ہی میری جگہ کسی اور سے محبت کر لی میں نے تو اسکا بدلہ بھی نہیں لیا تم سے ۔ تم نے اس بے شرم سے محبت کر کے خود کا دل دکھایا ۔ یعنی میری محبت کا دل توڑا میں نے تو اس بات کا بھی بدلا نہ لیا تم سے ۔ " آخر میں وہ چیخ پڑا تھا فون کو قریب کر کے جیسے وہ اس تصویر میں دکھتی لڑکی کو اپنے سامنے کھڑا کر کے کہہ رہا ہو ۔ " اپنے بھائی کی موت کا بھی نہ سوچا اپنی انا کو بھی چھوڑ کر تمہارے باپ کے پاس آیا اور اس نے بھی مجھے دھتکار کر تمہارا ہاتھ کسی اور کے ہاتھ میں دے دیا ۔ میں پھر بھی چپ رہا مگر اب ۔ " اسکی آواز کمرے میں گونج رہی تھی ۔ وہ چیخ چیخ کر آنکھیں نکالے کہہ رہا تھا ۔ " مگر اب نہیں چھوڑوں گا ۔ تم لوگ کیا سمجھتے ہو چپ ہوگیا ہوں تو کیا بھول گیا ہوں سب کچھ ۔ پہلے تو کسی چیز کا حساب نہ لیاتھا ۔ مگر اب چن چن کر بدلے لوں گا ۔ اور اس تھپڑ کا بھی ۔ " کہتے ہی اس نے فون ٹیبل پر پٹخا تھا ۔ اور ہاتھوں کو بالوں میں پھنسا کر اپنا سانس ہموار کرنے لگا جو تیز ہو رہا تھا ۔ " شیر دو قدم پیچھے ڈر کر نہیں ہوا بلکہ ایک بڑے حملے کے لئے ہوا ہے ۔ " اسکی آواز معدوم ہوئی تھی ۔ جبکہ گلاس میں بھرتے مشروب کی دھار گھٹ گھٹ گلاس میں بھر رہی تھی ۔ شیر دوبارہ جاگ اٹھا تھا ! ⚜️________________________⚜️ حرم گھر آکر سب کے ساتھ نہ بیٹھی تھوڑی دیر بعد ہی وہ اوپر کمرے میں چلی آئی ۔ بار بار گھڑی میں نگاہیں گاڑے وہ نور اور بدر کے انتظار میں تھی ۔ " پتا نہیں کون سے فن لینڈ میں لے گیا ہے یہ شخص میری بچی کو ۔ کچھ کھاتی بھی نہیں ہے وہ اسکول میں بھی جلدی ۔ " ٹہلتی ہوئی وہ خود سے بڑبڑا رہی تھی ۔ جب دروازہ کھلا اور حرم جو تیزی سے یہاں وہاں چکر کاٹ رہی تھی اندر آتے بدر سے ٹکرا گئی ۔ " سنبھل کر جانم ! اتنی جلدی ہے کیا میرے پاس آنے کی ۔ " اسکو بازوؤں سے تھامے بدر نے مسکراتے ہوئے حیرت سے کہا جس پر حرم نے گھور کر بھنویں اچکائیں ۔ " ایک تو یہ تمہاری خوش فہمیاں ناجانے کب ختم ہوں گی ۔ افف میرا بازو ۔ " اس سےدور ہوتی وہ کراہ گئی ۔ " اب اپنے سکس پیک والے شوہر کے آگے گرو گی تو یہ تو ہوگا ہی نہ نونو کی مما ۔ " آخر میں ' نونو کی مما ' اس نے لاڈ سے کہا تھا جس پر حرم نے منہ ٹیڑھا کیا ۔ " مما ۔۔ مما ! نونو آگئی ۔ " نور پیچھے سے آتی اسکی جانب لپکی ۔ حرم نے گود میں اٹھاتے ہوئے اسے گلے سے لگا کہ پیار کیا ۔ " نونو تو آگئی ساتھ میں اپنے تنگ کرنے والے ڈیڈو کو بھی لے آئی ۔ " حرم نے اسکی پونی ٹیل کھولتے ہوئے کہا جس پر بدر جو کوٹ اتار کے رکھ رہا تھا ٹہر سا گیا ۔ " اوہ تو میں تنگ کرتا ہوں ۔ پھر بھی میڈم کو گرنا میرے اوپر ہی ہے ۔ " اس نے بھی جوابی کاروائی کرتے ہوئے کوٹ ہینگ کیا اور اب والٹ وغیرہ ڈریسنگ پر رکھنے لگا ۔ " خوش فہمی ہے تمہاری مجھے کوئی شوق نہیں تم سے اپنے بازو تڑوانے کا ۔ خود ہی بٹن لگی آنکھوں کے ساتھ اندر آئے تھے ۔ " نور کو واشروم میں لے جاتی اس نے زور سے بدر کے کان میں کہا اور فوراً آگے کو چل دی ۔ بدر نے حیرت سے دیکھا ۔ یہ اسے کب سے بحث کرنے کا شوق اٹھ گیا ؟ " میرے پاس ہزاروں کان نہیں ہیں یہ بھی خراب کردوگی تو بہرا کہلاؤں گا ۔ " " میں تو کہتی ہوں ساتھ میں گونگے بھی ہوجانا ۔ " حرم نے اندر سے ہی ہانگ لگائی تھی ۔ " جو حکم جانم ۔ " اور بدر جانتا تھا اسکے بعد وہ کچھ نہیں بولے گی ۔ کیونکہ جانم لفظ سے وہ بہت چڑتی ہے ۔ بدر اب کی بار مسکرا دیا ۔ " لگتا ہے صبح والی بے رخی کا سہی سے اثر ہوا ہے مسز پر ۔ " خود سے کہتا وہ صوفے پر پرسکون سا ڈھ گیا ۔ جاری ہے !
❤️ 👍 😂 😢 🙏 😮 209

Comments