Novel Ki Dunya
June 18, 2025 at 04:54 PM
#ایک_ستم_محبت_کا
#ازقلم_زینب_سرور
#قسط_نمبر_8
یہ رات کا وقت تھا جب حرم نیچے کچن میں کھڑی نور کے لئے دودھ گرم کر رہی تھی ۔ جبکہ نور اور بدر اوپر کمرے میں ہی تھے ۔ گھر میں کچھ مزید مہمان بھی آن پہنچے تھے سانیہ کی شادی کی تقریبات میں بس ایک ہفتہ ہی رہ گیا تھا ۔
وہ صبح والے سیاہ کپڑوں میں ہی ملبوس تھی ۔ کچن میں پھیلی ابلتے دودھ کی خوشبو اور آنچ کی تپش ، حرم کو گرمی لگنے لگی ۔ دودھ کو یوں چولہے پر چھوڑ کے بھی نہیں جا سکتی تھی ۔ اس نے چہرے کے گرد لپیٹا اسکارف کھولا تو تھوڑا سکون ہوا ۔ ویسے بھی کچن میں تو کوئی مرد نہیں آتا تھا ۔
" ابھی ابل کے نہیں دے رہا اور میں ذرا سا دھیان ہٹاؤں گی تو سارا ابل کر بہہ جائے گا ۔" اس نے دودھ کو دیکھتے ہوئے منہ بنائے کہا ۔ دادو کے ساتھ ہوتی تھی تو دادو دیکھ لیا کرتی تھیں ۔ کیونکہ حرم کو دودھ ابالنا سب سے زہر کام لگتا تھا شروع سے ہی ۔ تیز آنچ کرتی تو ابل کر گر جاتا تھا ۔ اور اگر آنچ دھیمی ہو تو وہ رکھ کے بھول جاتی جس سے دودھ جل جاتا ۔ ابھی درمیانی آنچ تھی مگر وہ یہاں سے ہلنے کا خطرہ نہیں مول لینا چاہتی تھی ۔ خدیجہ کی امی جو یہاں کی ملازمہ ہیں انکی بھی طبیعت ذرا خراب تھی اور خدیجہ سے زیادہ کام کروانا اسے اچھا نہ لگتا تھا ۔ اس کے پڑھنے کے دن تھے وہ پڑھتے ہوئے ہی اچھی لگتی تھی حرم کو ۔
" جلدی سے ابل جاؤ پیارے ۔ میری نونو کو سونا بھی ہے پھر ۔ " وہ چولہے پر رکھے دودھ کو دیکھ اس طرح کہہ رہی تھی جیسے وہ اسکی باتیں سن سکتا ہو ۔
وہ یونہی کھڑی تھی جب پیچھے جلتی روشنی کی وجہ سے اسکے سامنے دیوار پر ایک ہیولا سا سایہ ابھرا ۔ کیا کوئی پیچھے کھڑا تھا ؟ ہیولا نزدیک آرہا تھا اور پرچھائی بڑ رہی تھی ۔ وہ فوراً پیچھے مڑی اور ڈر کے ایک قدم پیچھے ہوئی ۔ پھر ایک ہاتھ سینے پر رکھے وہ سانس نارمل کرنے لگی۔
" سوری میرا مقصد ڈرانا نہیں تھا ۔۔ " یہ ہے بدر کا خالہ زاد بھائی ۔۔ خضر ! زارا کا بھائی ۔ جو اپنے لمبے دراز قد ، بکھرے بال ، پینٹ پر پہنی شرٹ جس کے بٹن اوپر سے کھلے ہونے کے باعث اسکا کسرتی جسم نمایا ہورہا تھا ۔ اور گلے میں ڈلی لمبی بال بیرنگ جیسی چین نظر آرہی تھی ۔ ہاتھ میں پہنے بے شمار بینڈز اور چھلا وغیرہ ۔ آئی برو کٹ ، ایک کان کی بالی ۔ وہ بدر سے کئی گناہ زیادہ خوبصورت تو تھا مگر شخصیت کی آوارگی بھی صاف جھلک رہی تھی ۔ جو ہر کسی کی پرسنیلٹی کو ماند کر ہی جاتی ہے ۔
( نیو جنریشن کے آوارہ امیر زادے ۔۔ ) وہ ایک نظر میں معائنہ کر کے یہی لقب دے سکی ۔
" آپ کو کچھ چاہیئے ؟ " حرم نے اب سنبھل کر دوپٹہ سر پر اوڑھا ۔۔ جبکہ اسکی نظریں اور وہ مسکراہٹ حرم کو اس وقت زہر لگ رہی تھی ۔۔
" ہاں وہ ۔ ایکچیولی مجھے .. " وہ بولتے ہوئے دو قدم آگے بڑھا ۔ حرم نے آنکھیں کھول کے اسکے ہاتھ کا تعاقب کیا جو حرم کے برابر سے گزرا اور پیچھے دیوار میں نسب سٹینڈ میں سے لائیٹر اٹھا گیا ۔
( سگریٹ نوشی کے لئے ہی چاہیئے ہوگا ۔۔ )
" یہ چاہئیے تھا ۔ " وہ پیچھے ہوا تو حرم نے سانس بھرتے سر ہلا دیا ۔ جبکہ نظر دودھ کے چولہے پر گئی تو وہ جلدی سے آگے بڑھی ۔ اور فلیم بند کردی ۔
" شکر بچ گیا ۔ " اس نے سانس خارج کی جبکہ وہ پیچھے اب بھی شاید یونہی کھڑا تھا ۔
" اور کچھ بھی چاہئیے ؟ "
" نہیں نہیں اور فلحال کچھ نہیں ۔ آپ حرم ہیں ناں ؟ بدر کی ۔۔ " اس نے جملہ ادھورا کیوں چھوڑا ؟ حرم نے لب بھینچے سر ہاں میں ہلادیا ۔۔ اور گرم گرم دودھ گلاس میں انڈیلنے لگی ۔ کیونکہ خضر صاحب شاید یہیں رکنے کا ارادہ کر چکے تھے تب ہی پاس رکھی کرسی کھینچ کہ اس پر بیٹھ گیا ۔
" گریٹ ۔ ویسے بدر کی چوائس کو ماننا پڑے گا ۔ ڈھونڈا کہاں سے آپ کو اس نے ؟ " حرم نے ایک پل کے لئے ہاتھ روکے اسے دیکھا ۔ چہرے کے آثار تو نارمل تھے لیکن یہ اسکا لہجہ اتنا عجیب کیوں لگا تھا۔
" یونی فرینڈز ۔ " وہ مختصر سا کہہ کر چپ ہوگئی ۔ اب دودھ کو ڈھکتے ۔ گلاس کو ٹرے میں رکھ رہی تھی ۔
خضر نے لائیٹر گھماتے اسکا معائنہ کیا اور مسکراتے ہوئے کچھ گنگناتے باہر نکل گیا۔ بیٹھا اور اٹھ گیا ؟
" شکر ہے گیا ۔۔ بڑ بڑ کیا کر رہا تھا ویسے ؟ خیر مجھے کیا کچھ بھی بولے ۔ چلو حرم نور انتظار میں ہے ۔۔۔"
شکر کا سانس لیتی وہ اوپر آگئی ۔
" ڈیڈو نونو ہئیرز ، ڈیدی ۔۔۔ تھل دئیے ناں ۔۔ " نور بدر کے آگے کھڑی اپنے کھلے بال پکڑے کھڑی تھی ۔ جبکہ بدر لیپ ٹاپ پر کچھ میلز چیک کر رہا تھا۔ آج آفس سے بھی وہ جلدی آگیا تھا اب اسے کچھ کام کرنا تھا۔
" ڈیڈی کی جان مما سے بولنا ۔ ڈیڈی بزی ہیں ۔۔ "
حرم کھلے دروازے سے اندر آئی اور سائڈ ٹیبل پر ٹرے رکھی ۔ پھر وہیں بیڈ کے کنارے پر بیٹھی تو بدر نے ایک نظر اسکے ہاتھ کو ہی دیکھ کے واپس نظریں سکرین پر جمع لیں ۔ ان دونوں کی شام کے بعد سے اب تک کوئی بات نہیں ہوئی تھی ۔
" مما ۔ مما نونو ہئیرز ۔۔ " نور نے ماں کو دیکھا تو فوراً بیڈ کے سائڈ سے چلتی ہوئی اس تک پہنچی ۔
" اپنے بال کیوں بکھیر لئے نور ۔۔ " حرم نے لب بھینچے کہا اور اسے اپنے آگے اس طرح بٹھایا کہ نور کی پشت حرم کے سامنے ہوگئی تھی ۔
حرم اب اسکے بالوں پر برش پھیر رہی تھی جو پکڑے نور کب سے بدر کے سامنے کھڑی تھی ۔
" نونو نے نئی کی یہ " اس کی بات پر حرم ہلکا سا ہنس دی ۔
" پھر کس نے تنگ کیا مما کی نونو کو ۔۔ " اس نے نور کو پیچھے کر کے پیار سے خود میں سموتے ہوئے پوچھا ۔ وہ ابھی نیچے جانے سے پہلے ہی تو نور کے بال باندھ کر گئی تھی اب کس نے کھول دئیے ؟
نور نے ایک نظر اپنے باپ کو دیکھا ۔ جو اس بات پر اسے نفی میں سر ہلاتے کچھ اشارے کررہا تھا ۔ حرم نے بھی بروقت اسے دیکھا اور پھر آنکھیں چھوٹی کیں ۔ بدر نے خود پر اسکی نگاہیں محسوس کیں تو فوراً سے واپس لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلانے لگا ۔۔
" اوہ ۔ تو نور کے گندے ڈیڈی بی نے تنگ کیا ہے ۔ " حرم نے سر ہلاتے ہوئے نور سے کہا مگر نظریں ہنوز بدر پر تھیں ۔ وہ جب سے اب تک تین بار نور کے بال باندھ چکی تھی ۔ نور اس طرح کبھی کبھی خود بھی کھول دیتی مگر اب دال میں ضرور کچھ کالا تھا جو کہ پکڑا جا چکا تھا ۔
" نو مما ڈیڈی بی گننے نئی ایں ۔ ( نو مما ڈیڈی بی گندے نہیں ہیں ) " حرم کی بھنویں تنیں ۔
( ایک تو پتا نہیں کون سا جادو کر دیا ہے میری بچی پر اس کے ہی گن گاتی رہتی ہے ۔ ) اس نے بدر کو کاٹ دار نگاہوں میں لیتے ہوئے کہا ۔ بدر نے بھی اس ہی کی طرح بھنویں سمیٹیں ۔۔
" ایسے کیا گھور رہی ہو نظر لگانی ہے ؟ " بدر نے ٹیک لگاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔
" خوش فہمیاں ۔۔ " حرم نے ناک سے مکھی اڑائی ۔۔ اور پھر برش بدر کی جانب اچھالا ۔ جو اسکے پیر کی ران سے ٹکرایا تھا ۔
" کیا ؟ " اسے سمھجہ نہیں آیا وہ برش کا کیا کرے گا ؟...
" ایسے معصوم مت بنو ۔۔ نور چلو اٹھو اور ڈیڈی کے سامنے جا کہ بیٹھو آج وہ بال بنائیں گے نور کے ۔۔ " نور اسکے سامنے سے فوراً اٹھ گئی جبکہ حرم نے تھوڑا آگے جھک کر بدر کے آگے سے لیپ ٹاپ گھسیٹا ۔۔ اور سائڈ میں رکھ دیا ۔ اب لیپ ٹاپ کی جگہ نور مزے سے بدر کی جانب پشت کئے بیٹھی تھی ۔ اور بدر کا فق ہوا چہرہ دیکھنے لائق تھا۔۔
" یار مجھے نہیں آتے بال باندھنا میں صرف ہئیر بینڈ لگا دوں گا ۔۔ " اس نے برش کو منہ کے عجیب زاویے بناتے ہوئے تھاما ۔
" کوئی نہیں سوتے وقت بال باندھنے چاہئیں ۔۔ اور ماشاءاللہ سے میری نور کے بال بھی مجھ پر گئے ہیں ایک دم لمبے ۔۔ " وہ بیڈ سے اٹھتی اور صوفوں پر پڑے شاپنگ بیگز تک گئی ۔ سانیہ کے ساتھ کی گئی شاپنگ اب تک وہیں پڑی تھی ۔
" ہاں چڑیلوں جیسے ۔۔ " بدر نے برش پھیرتے منہ میں بڑبڑاہٹ کی ۔۔
" مجھے سب سنائی دے رہا ہے ۔ اور تم کیا اب نور کے بالوں پر بھی طنز کرو گے ؟ " بدر نے اسکے اس طرح بات پکڑنے پر منہ پھلائے دیکھا ۔
" بات پکڑنا کوئی تم سے سیکھے ۔ اور بال ہی تو باندھنے ہیں ۔ باندھ دوں گا ۔ اونہہ ۔۔ " بدر نے ایک ہاتھ جھلایا جبکہ حرم نے اس پر مسکراہٹ اچھالی ۔ اور پھر وہ جوڑا نکال کر دیکھنے لگی ۔
' بول تو دیا ہے اب باندھوں گا کیسے ۔۔۔'
" آہ نور ۔ ڈیڈو آپکے پونی ٹیل باندھ دیں ؟ اچھی ہوتی ہے نہ ۔" اس نے آسانی پیدا کری ۔ جبکہ نور نے نفی میں گردن ہلائی ۔ وہاں صوفے کے ساتھ کھڑی حرم بھی ہنسی تھی ۔۔
" نو ڈیدی ۔ نونو تے بریڈز بنائے ناں ۔۔ ( نو ڈیڈی نونو کے بریڈ بنائیں ناں ۔ ) " حرم کی ہنسی ، اور نور کی فرمائش ۔۔ اب تو کرنا ہی تھا ۔۔ مگر وہ بنائے گا کیسے یہ کام تو کبھی اس نے حرم کے لئے بھی نہیں کرا ۔ حالانکہ فیوچر گولز میں اس نے یہی شامل کر رکھا تھا ۔۔
( شکر ہی ہے جو موقع نہیں ملا ۔ اور اب تو حرم ہاتھ بھی نہ لگانے دے۔ )
" بناؤ بناؤ ہاتھ چلاؤ ۔۔ بولنا تو بہت آتا ہے ۔ ڈیڈی بی کی جان ۔۔ " اس نے بدر کی نقل اتارتے ہوئے کہا اور جوڑا لئے ڈریسنگ کے سامنے آئی ۔۔
" زیادہ نہ بولو ۔ اٹھ کے آگیا نہ تو تم نے بولنا بھول جانا ہے۔ جانم !۔۔ " اور بدر کا یہ تیر تو ہمیشہ کی طرح نشانے پر لگ چکا تھا ۔ حرم نے غصے سے جوڑا ڈریسنگ پر ہی رکھا اور باتھ روم میں گھس گئی ۔۔
" جب دیکھو بے ہودہ باتیں ۔ بے شرم انسان ۔۔ " منہ میں منمناتی وہ بدر کو مسکرانے پر مجبور کر گئی ۔۔
" چلو جی نور کی مما تو گئیں ۔۔ اب ان بالوں کو کیسے باندھوں ۔۔ " بولتے ہوئے اسکی نظر لیپ ٹاپ پر گئی اور پھر اگلے ہی لمحے وہ خوشی سے چہکتے چہرے کے ساتھ کچھ ٹائپ کرنے لگا۔۔
" یہ تا کر ریے ہیں دیڈی ۔۔ " نور نے سکرین میں جھانکا ۔ وہاں بے شمار ہیئر اسٹائلز کی ویڈیوز سکرین پر دکھ رہی تھیں۔
" اب بنائیں گے ڈیڈی بی نونو کا پیارا سا ہئیر اسٹائل ۔ " اسکی بات پر نور نے مزے سے سر ہلایا اور واپس سے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی ۔
( اسے کہتے ہیں موقع پر چونکا ۔۔ اب میری جانم نے رونے والی شکل نہ بنا دی تو کہنا .. ) اب وہ فخریہ انداز میں ویڈیو کو دیکھتے ہوئے عمل دھرا رہا تھا ۔ سادی چوٹی تھی جو اب تکمیل تک پہنچنے والی تھی ۔ اور بدر کے چہرے کی چمک یقیناً حرم کو جلانے کے لئے کافی تھی ۔۔
کچھ دیر بعد حرم باہر نکلی تو اسکی چالاکی پر دیکھتی ہی رہ گئی ۔۔
" دیکھو باندھ لئے بال اور اتنی پرفیکشن تو تمہارے ہاتھ میں بھی نہیں ہوگی ۔ " وہ آئبرو اچکاتے ہوئے حرم سے کہنے لگا ۔۔ نور اٹھی اور شیشے کے سامنے سٹول پر جا کہ کھڑی ہوگئی ۔ کیونکہ ڈریسنگ اونچی تھی اور نور کا قد چھوٹا ۔
" واؤ! مما مما ۔۔ لُک ایت می ۔ " وہ دائیں بائیں گھوم کر اپنی ننھی چوٹی دیکھ رہی تھی ۔ جو بدر نے دیکھ کر بڑی مہارت سے باندھ دی تھی۔
" شروع سے چیٹر ہی ہو ۔ " بدر کو منہ چڑاتی وہ ڈریسنگ پر رکھا ڈریس اٹھائے کبرڈ تک بڑھ گئی ۔
" اور تم بس مجھ سے جیلس ہوتی رہنا ۔ کیسا زمانہ آگیا ہے عورتیں بھی اپنے شوہر سے ہی جلیں گی . چچ چچ " اس نے افسوس سے کہا ۔ حرم نے کن اکھیوں سے دیکھا ( ڈرامے باز انسان ) ۔۔۔ پھر اس نے مٹھی بھنچ لی اور واپس کبرڈ کے جانب رُخ کیا ۔
نور بدر کے پاس آئی جس پر اس نے اسے دودھ کا نیم گرم گلاس تھمایا ۔ دودھ اب ٹھنڈا ہو چکا تھا جب سانیہ حرم کو پکارتی ہوئی اندر آئی ۔ " بھابھی بھابھی .. "
" خیریت تمہیں اتنی رات کو ڈرنے کا کیوں شوق اٹھ گیا ۔ " بدر کا طنز سانیہ کے تو سر پر سے گزر گیا جبکہ حرم کے سمھجہ آیا تو سختی سے لب بھنچ گئی ۔۔
' اب اس شخص کے منہ کون لگے ۔ '
" تم بولو سانیہ کیا کام ہے ؟ "
" کوئی کام نہیں ہے ۔ پوچھنے آئی ہوں آپ نے ڈریس ٹرائے کیا ۔ وہاں بھی نہیں کیا تھا اب کر لیں یہ نہ ہو پھر اینڈ ٹائم پر کوئی مسلئہ ہو جائے ۔ "
' کون سا ڈریس ؟ ' بدر نے سوچا پھر لب اوہ میں کھلے ۔ 'وہی جو وہ ابھی کمرے میں لے کر گھوم رہی تھی ۔'
نور گلاس لبوں سے لگائے آہستہ آہستہ گھونٹ گھونٹ بھر رہی تھی ۔ جبکہ آنکھیں سامنے کھڑی حرم اور سانیہ پر تھیں۔
" اسکی ضرورت نہیں سانیہ میں نے چیک کر کے ہی لیا تھا ۔ " وہ وضاحت دیتی جب سانیہ نے بات کاٹی ۔
" بھابھی پلیز پلیز ۔ " حرم نے سر ہلائے دیکھا ۔ کیا بچوں کی طرح ضد تھی۔
" پلیز بابھی پلیز . " وہ سانیہ کو دیکھ رہی تھی جب گلاس پکڑی نور نے بھی سانیہ کی بات دھرائی۔ اور واپس گلاس لبوں سے لگا لیا۔ وہ تینوں نور کی بات پر ایک ساتھ ہنسے تھے۔
" لیں اب تو آپ کی بچی نے بھی کہہ دیا ۔ چلیں اب بہانے نہیں۔ " اس نے حرم کو پکڑتے باتھ روم میں کیا ۔
" اچھا ٹھیک ہے آتی ہوں ۔۔ " وہ ہار مانتی ہوئی ڈریس لے کے باتھ روم چل دی ۔
" بھابھی جلدی آجائیں اب ۔ " سانیہ نے معنیٰ خیز انداز میں بدر کو دیکھتے ہوئے کہا جو گاہے بگاہے نظریں دروازے پر ہی کررہا تھا۔ سانیہ کی بات پر جلدی سے لیپ ٹاپ پر نظر جمائ ۔ ' اونہہ مجھے نہیں دیکھنا اسے ۔ '
" بھابھی آ بھی جائیں ۔ " وہ آ کیوں نہیں رہی تھی ۔۔؟
" بھابی آ جائیں یال ۔۔ " دودھ کا گلاس بدر کو دیتی نور نے دوبارہ سانیہ کی بات دھرائی تھی ۔
" سب جانتی ہوں بچے ۔ نقل اتار رہی ہو آنی کی ہاں " سانیہ کے کہنے پر نور منہ پر ہاتھ رکھ کے ہنسی ۔ بدر نے ایک نظر نور کو دیکھا ۔ وہ بالکل حرم کی طرح تھی ، اسکی آنکھیں یہ نقوش اسکی باتیں اسکی حرکتیں اور اسکی یہ ہنسی سب کچھ حرم کی طرح ہی تھا ۔
' مگر دونوں میری ہیں ۔ جانم بھی اور جان بھی ۔۔ '
کلک کی آواز پر تینوں نے ایک ساتھ نظریں دروازے پر کر لیں ۔ بدر نے اپنا دل ٹٹولا ۔۔ آہ ابھی تو سلامت ہی تھا بعد اسکو دیکھنے کے بھی رہے گا؟ ۔
دروازہ آہستہ سے کھلا ۔ جب بدر نے ناجانے کیوں نگاہیں وہاں سے ہٹا لیں ۔ اور لیپ ٹاپ بند کئے اٹھ گیا ۔ وہ دیکھ سکتا تھا اسکے گلابی ایڑیوں والے سفید پیر جو کسی بھی جوتے چپل سے پاک تھے ۔ اور پیر کے ذرا اوپر وہ سرخ رنگ کا جوڑا ۔۔۔۔
" واؤ بھابھی میں نے کہا تھا نہ آپ پر یہ بہت جچے گا ۔ ماشاءاللہ نظر نہ لگے ۔۔ " سانیہ کی آواز سنائی دی مگر وہ نہیں پلٹا بلکہ ٹیبل کے پاس کھڑا لیپ ٹاپ پکڑے ناجانے کیا کرنا چاہتا تھا ۔
" مما ۔ پریٹی لد رئی ہیں ناں ( مما پریٹی لگ رہی ہیں ناں ۔ ) " نور کے کہنے پر حرم نے پیار سے اسے دیکھا ۔۔۔
" شکریہ ۔۔۔ "
تب ہی کمرے میں رنگ ٹون کی آواز گونجی اور سانیہ نے شرما کر اجازت چاہی ۔۔
" ڈیدو نونو تی مما لُک ۔۔ " بدر نے اب بھی نہ دیکھا ۔۔۔ حرم نے سانس بھری اور ڈریسنگ کی جانب نظر گھمائی بدر کی پشت صاف دکھ رہی تھی ۔۔
' وہ دیکھنا نہیں چاہتا یا پھر ایسے ہی ۔۔
خیر مجھے کیا ' ۔ حرم نے سر جھٹکتے نور کو سر ہلا کر اوکے کا سائن دیا ۔ اور پھر باتھ روم کی جانب مڑی ۔۔ وہ اندر قدم ہی رکھ رہی تھی جب پیچھے سے ہاتھ کھینچا گیا ۔۔
ایک پل کے لئے حرم کا دل تھم گیا ۔۔ وہ ۔۔۔
" یونہی جانے کی اجازت کس نے دی ہے ؟ " بدر کی بھاری آواز کمرے میں گونجتی ہوئی محسوس ہوئی تھی ۔۔
جاری ہے ۔۔
❤️
👍
😂
😢
😮
🙏
225