Novel Ki Dunya
June 19, 2025 at 03:34 AM
#ایک_ستم_محبت_کا #ازقلم_زینب_سرور #قسط_نمبر_9 حرم کا ہاتھ کسی ڈوری کی طرح بدر اور اسکے درمیان حائل تھا ۔ جبکہ وہ ایک لمبی سانس بھر کے پیچھے مڑی ۔ بدر اب اس ہی کو دیکھ رہا تھا ۔۔ " میرا ہاتھ چھوڑو ! " اسکی سرخ لمبی میکسی جو پاؤں تک آرہی تھی ۔ کھلے بال جو صرف ایک کیچر سے ٹکے تھے ۔ میک اپ سے پاک نکھرا نکھرا چہرہ ، گھنی پلکوں کے سائے میں بیٹھے یہ گہرے نین ، اور پھر وہ لب ۔۔ کیا وہ کچھ کہہ رہی تھی ؟ مگر بدر نے سنا نہیں ۔۔ " بدر آفندی میرا ہاتھ چھوڑئیے! " اب کی بار اس نے اونچا بولا جس پر وہ ہوش میں آیا ۔ مگر گرفت ڈھیلی نہ کی ۔ پھر ایک نظر سامنے کھڑی نور کو دیکھا ۔۔ جو اپنی ماں کی آواز پر ساکت ہو کر ان دونوں کو دیکھ رہی تھی ۔ شاید اسے سمھجہ نہ آئی تھی کہ وہ لوگ کوئی پیار سے بات نہیں کر رہے ۔ ( بچوں پر ماں باپ کے درمیاں ہوئی لڑائی کا کبھی اچھا اثر نہیں پڑتا! ) " نور آپ بیڈ پر جاؤ اور صوفوں کی طرف منہ کر کے سو جاؤ ۔ گو بے بی ! " بدر کی آواز پر نور نے سر ہلایا اور ہاتھ پیچھے باندھتی بار بار ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے بیڈ تک چل دی ۔۔ بدر کی گرفت میں اس کی کلائی مچلی تھی مگر اس نے نہ چھوڑا ۔ جب بدر نے نور کی طرف سے تسلی کرلی تو واپس چہرہ حرم کی جانب موڑا جس نے تیوری چڑھا رکھی تھی ۔ نور کی اب ان دونوں کی جانب پشت تھی جبکہ وہ آنکھیں میچ کر سونے کی کوشش میں تھی۔ " چھوڑو میرا۔۔ " اس کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے ۔ بدر نے اسے اپنے ساتھ لگا کہ اسکا چہرہ سامنے شیشے کی جانب کیا ۔ " حرم ! " اسکی آواز حرم کو بہت قریب سے سنائی دی ۔ " سامنے تو دیکھو " بدر کے کہنے پر آنکھیں اٹھائیں تو ایک پل کے لئے وہ بھی ٹہر سی گئی ۔ وہ بالکل اسکے پیچھے کھڑا تھا اس طرح کے وہ دونوں ایک ہی وجود لگ رہے تھے بدر کا ہاتھ اب اسکے گرد حصار باندھے ہوئے تھا ۔ بدر کا رنگ حرم سے تھوڑا سانولا تھا ۔ اگر یہ کہیں کہ وہ ٹال ، ڈارک اینڈ ہینڈسم ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ یونیورسٹی میں بھی اکثر لوگ اسے یہی لقب سے نوازتے تھے ۔ سوائے حرم کے ! " آہ رونا نہیں حرم ۔ " اسکی آنکھوں میں جھلکتی نمی دیکھ وہ بول پڑا ، جبکہ حرم اسکی دھڑکن سنتی اپنی سانسیں روکنے میں لگی تھی ۔ " کتنے اچھے لگتے ہیں نہ ہم دونوں ساتھ ۔ مگر افسوس تم ہمیں ساتھ دیکھنا تک نہیں چاہتیں اور پھر ماشاء اللّٰہ قسمت بھی ایک ہونے نہیں دے رہی ۔ " انگلیوں کو اسکے ہاتھ کی انگلیوں میں پھنسا لیا گیا تھا ۔ " تم اپنے گناہ میرے سر نہ ڈالو مسٹر بدر ۔ یاد رکھو یہ سب اس ایک سال کا ہی نتیجہ ہے جو مجھے تمہارے ہجر میں گزارنا پڑا تھا ۔ جب تم مجھے اور میرے اندر پلتے وجود کی خبر بھی لینا بھول گئے تھے جب تم مجھے اکیلا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ " حرم کی ایک تلخ سی مسکراہٹ شیشے میں بنتے عکس پر ابھری۔ بدر نے آنکھیں بند کیں اور ایک لمبی سانس اندر کھینچی ۔ " تم جزباتی ہو حرم اس لئے تمہیں آج تک کچھ نہیں بتایا ۔ اور افسوس کہ تم نے پھر مجھ بے گناہ کو بھی کبھی نہیں بخشا ۔ " حرم نے اس ظالم " بے گناہ " کا چہرہ دیکھنا چاہا جو سیاہ بالوں میں چھپا ہونے کے باعث دیکھ نہ سکی ۔ " میں جزباتی ہی سہی مگر تمہیں بخشوں گی نہیں بدر ۔ میں ان لڑکیوں میں سے نہیں ہوں جو پہلے عزیتیں سہہ لیتی ہیں اور پھر بآسانی سب معاف کردیتی ہیں ۔ میں نہیں بھول سکتی سب پھر چاہے تم بے گناہ ہی کیوں نہ ہو ۔ " بدر نے چہرہ اٹھا کے اس پتھر دل کو دیکھا جو شاید اتنی سنگ دل اب ہی ہوئی تھی ۔ شاید وہ ٹھیک کہتی ہے اس ایک سال نے حرم کو بے حِس بنا ڈالا ہے ۔ " خیر تم پریشان نہ ہو اس قربت سے ۔ صبح ہی تو کہہ چکا ہوں کہ تمہیں اب مناؤں گا نہیں ۔ " بدر کی مسکراہٹ نے اسکے دل پر بہت زور سے وار کیا تھا ۔ ناجانے کیا تھا اس لہجے میں جو دل کو چبھ سا گیا تھا ۔ " بدر آفندی مر تو جائے گا حرم مگر اب اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹے گا ۔ اب کبھی مناؤں گا نہیں تمہیں ۔۔ " ایک آخری بار اسے جی بھر کے دیکھ کر وہ یکدم دور ہوگیا ۔ حرم نے نظریں نیچے کر اپنا ہاتھ دیکھا جو اب اسکی گرفت سے آزاد تھا پھر خود کو کمپوز کرتی سانس خارج کی اور کچھ بولے بغیر باتھ روم کی جانب چل دی جب بدر کی ایک آخری آواز آئی ۔ " میں دوسرے کمرے میں جا رہا ہوں نور سو گئی ہے تم بھی آرام کرو ۔ " وہ یونہی ساکت کھڑی رہی ۔ کمرے کا دروازہ کھلا اور کھٹ سے بند بھی ہوگیا ۔ اسے ایسا کیوں لگا جیسے بدر اس پر ہنس کر گیا ہو ۔ اسکی تذلیل ہوئی ہو جیسے ۔ حرم تیزی سے باتھ روم میں گھس گئی کپڑے چینج کئے اور باتھ روم میں لگے بڑے سے آئینہ کے سامنے کھڑی منہ پر پانی ڈالنے لگی ۔ پانی کی چھینٹیں چہرے سے ٹکرا کر آس پاس گرتی جا رہی تھیں ۔ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ رو رہی ہے یا یہ صرف پانی کی چند بوندیں ہی ہیں جو پلکوں تلے گر رہی ہیں۔ اس نے آنکھیں کھولیں جو سرخی مائل رنگ میں ڈھل چکی تھیں ۔ شیشے میں اپنا بھیگا چہرہ دیکھتی دیکھتی وہ وقت میں بہت پیچھے چلی گئی ۔ اب شیشے میں اسے چھ سال پرانی حرم کا چہرہ ابھرتا محسوس ہوا ۔ سب کچھ بدلا اور وقت پیچھے جا کر یونیورسٹی کے باتھ روم میں رک گیا ۔ جہاں حرم کھڑی روتی ہوئی اپنے چہرے پر پانی مار رہی تھی ۔ چہرے کے گرد لپٹا اسٹالر بھی بھیگ رہا تھا ۔ وہ اس وقت کوٹ میں ملبوس تھی ۔ پانی بہنے کی آواز زیادہ تیز تھی یا حرم کے آنسوؤں کی رفتار ۔۔ سمھجہ نہیں آرہا تھا ۔ " حرم دروازہ کھولو یار ۔ اس طرح مت کرو ۔ " دروازے کے پار کھڑا بدر کب سے اسے پکار رہا تھا مگر وہ بس روئے چلی جا رہی تھی ۔ آج مرتضیٰ بیگ ( جس سے حرم کو یکطرفہ محبت ہوچلی تھی ) اسکی شادی تھی ۔ تقریباً پوری یونیورسٹی کے سٹوڈینٹس کو مدعو کیا گیا تھا ۔ آخر کو وہ ایک کامیاب بزنس مین جو بن چکا تھا ۔ " حرم پلیز نہ۔۔۔۔۔مجھے یوں مت تڑپاو ۔ " اس نے نل بند کیا اور دروازہ ان لاک کر کے دیوار کے ساتھ نیچے بیٹھتی چلی گئی ۔ بدر تیزی سے اندر آیا ۔ وہ اس وقت ٹین ایج سٹوڈنٹ کی طرح پینٹ پر پولو کی شرٹ پہنا ہوا تھا ۔ جبکہ کندھے پر لٹکا بیگ سائڈ میں پھینک چکا تھا۔ " حرم یہ ۔۔ یہ کیا حال بنا لیا ہے ۔۔ " بدر اسکے پاس گٹھنوں کے بل بیٹھ گیا ۔ اسکا دل کٹ کر رہ گیا تھا حرم کو یوں روتا دیکھ ۔ " وہ تو سب جانتا تھا نہ ! یہ بھی کہ میں حرم صدیقی جس نے آج تک کسی کو دیکھنا گورا نہیں کیا تھا وہ اس سے کس قدر محبت کرنے لگی ہے ۔ پھر بھی اس نے ایک بار بھی میرا نہ سوچا اور ۔۔۔ " اس نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہتے بدر کو مزید تڑپا دیا ۔ " حرم بس ایک پل لگے کا صبر آنے میں ۔ بس اس ایک پل کے آنے تک خود کو سنبھال لو برداشت کرلو ۔ میں ہوں نہ تمہارے ساتھ ۔ " بدر نے حرم کا ہاتھ پکڑنا چاہا مگر وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی ۔ ہاتھ اٹھا کر ہی اسے دور رہنے کا اشارہ کیا ۔ " نہیں لگاتا تمہیں ہاتھ ۔ مگر یوں جو تم نے اپنے دل کو توڑ لیا اس نا محرم کے لئے ! کیا وہ ٹھیک ہے حرم ؟ " بدر کے الفاظ ! وہ کرب سے آنکھیں بند کر گئی ۔ " ہاں بس یہی تو گناہ ہوگیا ہے مجھ سے ۔ بس یہی گناہ ہوگیا ہے مجھ سے " وہ روتے ہوئے سر گٹھنوں میں چھپا گئی ۔ " کاش تم نے کبھی میری محبت کو دیکھا ہوتا ۔ " " اپنا محبت نامہ اس وقت بند رکھنا بدر ۔ میرا سر پھٹ رہا ہے درد سے " بدر تلخی سے مسکرا دیا ۔ " تمہیں اپنا درد دکھائی دینے لگا اور میرے درد کا کیا ؟ تمہاری محبت تمہیں مل جائے اور میری محبت کا کیا؟ تمہیں اپنا محبوب عزیز تر اور مجھے میرا نہیں ہوگا کیا ؟ محبت میں انسان اندھا نہیں ہوتا ڈھیٹ بن جاتا ہے اور حرم " وہ بیگ اٹھائے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔ حرم نے آہستگی سے جھکا ہوا سر اٹھایا ۔ اور بھیگی آنکھوں سے اسکے جوتوں کی جانب دیکھا ۔ " اب میں بھی تمہیں ڈھیٹ بن کر دکھاؤں گا ۔ اپنی محبت کو پا کر دکھاؤں گا میں تمہیں ۔ کیونکہ بدر حرم سے ناراض تو ہو سکتا ہے مگر کبھی دور نہیں جا سکتا " وہ بول کر چلتا چلا گیا اور حرم کو وہ آواز بھی خود سے دور جاتی محسوس ہوئی ۔ ایک آخری بار منہ پر پانی کا چھینٹا پڑا اور ماضی کا وہ دھندلا سا منظر مکمل غائب ہوگیا۔ اس وقت وہ بدر آفندی کے گھر میں تھی ۔ اسکے کمرے کے باتھ روم میں شیشے کے سامنے کھڑی ۔ پانی سے بہتا نل یونہی کھلا ہوا تھا ۔ وہ سانس بھر کر رہ گئی ۔۔ " آہ نجانے تم کیا چاہتے ہو بدر میں آج تک شاید تمہیں نہیں سمھجہ سکی ۔ " ( حرم تم مجھے کبھی سمجھنا ہی نہیں چاہتیں) تب ہی بدر کی ڈوبتی ہوئی آواز اسکے کانوں میں گونجی ۔ کیا واقعی میں وہ اسے کبھی نہیں سمھجہ سکی ؟ کیا بدر سچ کہہ رہا ہے کہ وہ اس کو پچھتاتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا اس لئے اب تک کچھ نہیں بتایا ۔۔ ؟ حرم نے ہاتھ بڑھا کے نل بند کر دیا ۔۔ " مگر ایسا بھی کیا ہے جو میں پچھتاؤں گی ؟ چھوڑ کر تو وہ گیا تھا نہ ۔ اور میں نے تو سب بھلا کہ نئی زندگی شروع کی تھی ۔ سب بھلا کر خود کو اس کا کردیا تھا ۔ وہ تو پھر بھی چلا گیا ۔ بھلے سے بتا کر ہی چلا جاتا ۔ " وہ شیشے میں دیکھ کر روتی ہوئی کہہ رہی تھی ۔ پھر کچھ پل لگا کر اس نے خود کو پرسکون کرنا چاہا آنسو روکے ۔ اور پھر آستین سے منہ رگڑتی باہر کو چل دی ۔ وہ کمرے میں کہیں بھی نہیں تھا ۔ حرم نور کے پاس جا بیٹھی جو ہنوز یونہی سو رہی تھی ۔ اسکے سر پر دھیرے سے پیار کرتے حرم نے نور کو سہی سے بیڈ پر لیٹایا اور کمفرٹر ڈال دیا ۔ کراچی میں سردی تو نہ تھی مگر کمرے کے اے سی کو دیکھتے ہوئے اس نے نور کو کمفرٹر میں لپیٹ دیا ۔ پھر اٹھی سائڈ ٹیبل سے گلاس اٹھایا اور سر پر دوپٹہ جماتے نیچے کو چل دی ۔ جہاں چند ایک لائٹس آن ہونے کی وجہ سے نیم اندھیرہ چھایا ہوا تھا ۔ اس نے اسٹڈی روم کی طرف جاتے ہوئے باہر سے جھانکا جو صاف نظر آرہا تھا یعنی بدر اوپر والے کمرے میں ہے ۔ پھر سر جھٹکتی وہ گلاس کچن میں دھو کہ رکھ آئی ۔ کہ اس کو یوں گندا گلاس صاف ستھرے کچن میں رکھ دینا گوارا نہیں گزرا ۔ پھر وہ تھکان زدہ سی اوپر کو جانے لگی ۔ ایک سیڑھی دوسری پھر تیسری جب نیچے بنے ایک کمرے سے کچھ سنائی دیا ۔ زارا اور اسکی امی شاید ساتھ بیٹھی گفتگو میں مصروف تھیں ۔ وہ نظر انداز کرتی اوپر کو جانے کے لئے بڑھانے ہی لگی تھی جب سلمہ بیگم کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی ۔ " بیٹا میں نے یہ کب کہا کہ تم بری ہو میں تو بس یہ کہتی ہوں کہ اسکے جیسے بننے کی کوشش کرو کیا پتا اس طرح بدر تمہارے بارے میں سوچنا تو شروع ہوگا ۔ ویسے بھی جب آپا ہی نہیں چاہتیں تو ان دونوں کا رشتہ زیادہ دیر نہیں ٹکے گا ! " وہ الٹے قدم ایک سیڑھی مزید نیچے اتری ۔ " امی آپ کو صرف خوش فہمی ہی ہے ۔ یہ سب ہونا ہوتا تو بہت پہلے ہوجاتا ۔ وہ اپنی بچی اور بیوی کو کبھی نہیں چھوڑے گا ۔ اور ویسے بھی ہم شادی پر آئیں ہیں نہ تو شادی گزار لینے دیں ۔ " دوسری سیڑھی بھی عبور ہوگئی ۔ حرم کا دل بچی کے نام پر مٹھیوں میں جکڑ گیا تھا ۔ نہیں وہ خود کے حق کی پرواہ نہیں کرتی مگر نور کا حق نہیں لینے دے گی ۔۔۔ " نور کو تو وہ کبھی نہیں چھوڑے گا ۔ اب اتنا تو تم کر ہی سکتی ہو نہ ۔ " " امی حرم نور کو نہیں چھوڑے گی اور اس وجہ سے بدر کبھی حرم سے دور نہیں ہوگا آپ مجھے بخش دیں ۔ جب وہ مان جائے تو بتا دینا ۔ مگر میرا موازنہ بھی نہ کریں حرم سے ۔ " وہ شاید جھنجھلائے ہوئے انداز میں کہہ رہی تھی ۔ حرم شاکڈ میں تھی جب دروازے کے کھلنے کی آواز آئی شاید کوئی باہر نکلا تھا ۔ اسکا ایک پیر آخری سیڑھی پر تھا جبکہ ایک اوپر ۔ " امی کو ناجانے کب سمھجہ آئے گا ۔ ہر وقت ایک ہی بات ۔ حرم کو دیکھو ویسے کرو یہ نہ کرو ۔ افف " زارا نیلا سلیپنگ گاؤن پہنے ہاتھ میں فون پکڑی بڑبڑاتی ہوئی آرہی تھی ۔ وہ شاید باہر جانے کا ارادہ رکھتی تھی جب نظر حرم پر پڑی ۔ " اونہہ " وہ بے زاری اور غصے کے تاثرات لئے واپس پلٹ گئی ۔ حرم نے پھر پیر کی بیڑیاں کھولیں اور فوراً اوپر کو چل دی ۔ ناجانے کیسی ماں ہیں دوسرے کے لئے اپنی بچی کو ڈی گریڈ کرنا ۔۔ اسطرح تو وہ ہمیشہ حرم سے نفرت ہی کرے گی ۔ وہ کمرے تک آئی پھر دائیں جانب دیکھا جہاں کمرہ روشن تھا یعنی بدر جاگ رہا ہے ! اس نے آہ بھر کہ قدم اندر بڑھائے جب پیچھے سے پیروں کی چاپ سنائی دی اور منہ سے آتی سیٹی کی آواز ۔ وہ بے زار سی آنکھیں بند کر کے اندر آئی اور پلٹ کے دروازہ زور سے بند کردیا ۔ بند کرتے ہوئے وہ دیکھ سکتی تھی زارا کا بھائی خضر اوپر کو ہی آرہا ہے ۔ پھر حرم نے نا چاہتے ہوئے بھی اندر سے دروازہ لاک کردیا ۔ اور بیڈ پر آکر لیٹ گئی ۔ اب کمرے میں صرف نیم اندھیرا تھا کھڑکی کے آگے ڈلے پردے لہرا رہے تھے ۔ یونہی دیکھتے دیکھتے حرم کی آنکھ لگ گئی ۔ وہ زیادہ دیر ذہن کو الجھا نہ سکی ۔ 🖤______~ رات کا کوئی پہر تھا جب حرم کو نیند کی گنودگی میں رونے کی آواز سنائی دی ۔ پھر خود پر ہاتھ چلتے محسوس ہوئے ۔ ننھے ہاتھ حرم کو جھنجھوڑ رہے تھے ۔ وہ نیم دراز آنکھیں کھول کر دیکھنے لگی تو واضح ہوا نور بیٹھی رو رہی ہے ۔ حرم کرنٹ کھا کر اٹھ بیٹھی ۔۔ " کیا ہوا نور ۔ رو کیوں رہی ہو ۔۔ بس چپ کیا ہوا ؟ " اس نے گھبرا کر نور کو گلے سے لگایا ۔ اچھی خاصی تو سوئی تھی ۔ " مما دیڈی بی ۔ نور تے ۔ ڈیدی " وہ سوں سوں کرتی بول رہی تھی تب حرم کو سمھجہ آیا ۔ وہ بدر کو بلا رہی ہے ۔ " مما ہیں نہ نور کے پاس سو جاؤ ڈیڈو کو کام ہیں ناں چلو۔۔ " نور نے اسکی بات پر نفی میں سر ہلایا ۔ یعنی نور ایسے نہیں مانے گی افف اب کیا وہ اسکے پاس جائے گی ۔ " اچھا نہ رونا تو بند کرو ۔ میں بلاتی ہوں ہاں آپ یہیں بیٹھو۔۔ " اسکو پیار کرتی وہ لائٹ آن کرکے باہر نکل گئی ۔ انگلیاں مڑوڑتی وہ بدر کے دروازے کے سامنے تھی ۔ اسنے ہاتھ بڑھایا پھر روک کہ واپس نیچے کرلیا ۔ یہ سب اتنا مشکل کیوں تھا ۔ اوپر سے اسے نور کی بھی پریشانی ستا رہی تھی ۔ جاری ہے !
❤️ 👍 😢 😂 😮 242

Comments