Novel Ki Dunya
June 19, 2025 at 09:20 AM
#ایک_ستم_محبت_کا
#ازقلم_زینب_سرور
#قسط_نمبر_10
اس نے گہرہ سانس بھرتے خود کو کمپوز کیا ۔ پھر ہمت جمع کرتی بالآخر دروازہ کھٹکھٹایا ہی دیا ۔ ہر سو سناٹا تھا ۔ سب سو رہے تھے اور رات کافی گہری ہوگئی تھی البتہ فجر ہونے میں ابھی کافی وقت تھا ۔
' وہ کیا کر رہا ہے اندر ؟ '
کھڑکی میں سے ہنوز پہلے جیسے روشنی جلتی نظر آرہی تھی ۔
' کیا مطلب وہ جب سے سویا نہیں کیا ؟ شاید کام کرتے کرتے سوگیا ہو ۔
کھڑکی سے جھانک لوں کیا ؟ لیکن عجیب نہ لگے ۔۔ '
وہ خود سے بول رہی تھی جب کمرے سے نور کی دھیمی آواز آئی ۔ " مما دیڈی" حرم نے منہ بنا کہ لب بھینچے ۔
" بول تو ایسے رہی ہے جیسے کوئی چیز چاہئیے ہو ۔ مما ڈیڈی ۔ " اس نے چڑ کے نور کی نقل اتاری تھی پھر ایک بار پھر زور سے دروازہ دھڑ دھڑ کر ڈالا ۔
" بدر نور بلا رہی ہے " اور آخر کار اس نے بول ہی ڈالا ۔ وہ بے چینی سے آگے تو کبھی پیچھے اپنے کمرے کی جانب دیکھتی کہ کہیں نور باہر چلتی نہ آجائے ۔
تب ہی دروازہ کھلا ۔ حرم جو پیچھے دیکھ رہی تھی ایک پل کے لئے جم گئی ۔
' افف کتنا آکورڈ لگ رہا ہے ۔ پہلے کمرے سے نکالا اور اب بلا رہی ہوں ۔ لیکن کوئی نہیں نور کے لئے کچھ بھی ۔ '
وہ سانس چھوڑتی ہوئی اسکی جانب مڑی اور نظریں چوکھٹ پر کرلیں ۔ وہ اسے دیکھ نہ رہی تھی نظریں ادھر اُدھر بہک رہی تھیں ۔
" آہ ! وہ ۔ نور رونے لگی تھی اچانک اٹھ کر ۔ اور تمہیں بلا رہی ہے ۔ تو تھوڑی دیر کے لئے تم چل لو ۔۔۔" حرم بول کر فوراً مڑ گئی ۔ پیچھے سے دروازہ بند کرنے کی آواز اور پھر چلنے کی چاپ محسوس ہونےلگی ۔
کچھ عجیب تھا اس پورے منظر میں جو اس نے محسوس کیا ۔ مگر کیا ؟ کیا تھا جو غیر ضروری تھا اس پورے منظر میں ۔
وہ کمرے میں آئی تو نور نے اس کے پیچھے نظروں سے ٹٹولا پھر وہ مسکرانے لگی ۔ مطلب وہ پیچھے ہی کھڑا تھا ۔ حرم پیچھے مڑے بغیر پھرتی سے باتھ روم میں گھس گئی ۔
بدر نے مسکرا کر نور کو دیکھا پھر بالکل کل کی طرح ہی اسے سینے پر لٹا کر سلانے لگا ۔ نور نے ہمیشہ کی طرح اپنے ننھے ہاتھوں سے اسکے چہرے کو چھوا لیکن پھر وہ چونک کہ سر اٹھائے بدر کو دیکھنے لگی ۔
" سو جاؤ نور ڈیڈی یہیں ہیں . " اس نے حد درجہ دھیمی اور نڈھال آواز میں کہا ۔ نور نے آنکھیں پٹپٹائیں اور ایک بار پھر اپنے ڈیڈی بی کے چہرے کو چھوا ۔
" کا وا ڈیدی ؟ ( کیا ہوا ڈیڈی ؟ ) " بدر نے بامشکل مسکرا کر گردن نفی میں ہلائی اور اسکا سر واپس نیچے اپنے سینے پر رکھتا اسکے بال سہلانے لگا ۔
" سو جاؤ بی کی جان ۔ سوجاؤ! "
ایک درد کی لہر اسکے چہرے کو چھو کہ گزری اور بدر نے آنکھیں موند لیں ۔ ایک ہاتھ سے لیمپ لائٹ آن کی جس کے کھلتے ہی کمرے کی وسط میں لگی تمام سفید روشنیاں بجھا گئیں ۔ اب کمرے میں صرف دو لیمپ لائٹ کی پیلی سی زرد روشنی پھیلی تھی ۔ چونکہ لیمپ نارنجی شیڈ کے تھے۔
کوئی دس سے پندرہ منٹ بعد حرم نے باتھ روم سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ آہستہ سے دروازہ کھولا تو کمرے میں نیم روشنی پائی ۔ جبکہ وہ جو بدر کو جاگتا ہوا سوچ کہ رکی ہوئی تھی وہ تو نور کو لئے بظاہر آرام سے سو چکا تھا۔
' میں بلاوجہ ہی اندر رہی .. '
وہ دھیمی چاپ کے ساتھ بیڈ کے کنارے تک پہنچی ۔ بدر کا ایک ہاتھ نور کی پشت پر تھا جبکہ دوسرا بیڈ سے نیچے ڈھلکا ہوا تھا ۔
" بدر " حرم کی آواز اتنی آہستہ تھی کہ بس اس ہی کو معلوم ہوگا کہ وہ بدر کو بلا رہی ہے ۔ ہاتھ مڑوڑتی وہ ناجانے کس کشمکش میں مبتلا تھی ۔
" بدر نور سو گئی اسے لیٹا ۔۔ " بولتے ہوئے وہ پھر چپ ہوگئی ۔ کیونکہ بدر سچ میں سو چکا تھا ۔ اسکا چہرہ دوسری جانب ڈھلکا ہوا تھا ۔
حرم نے بالآخر نور کو اس کے اوپر سے اٹھایا اور گود میں لے کہ جاتی دوسری جانب لیٹا دیا ۔ ایک مسکراہٹ لئے وہ جھکی تھی پھر رک گئی ۔ کیونکہ وہ خود ہی تو کہتی تھی کہ بچوں کو سوتے ہوئے پیار نہیں کرتے ۔
' حرم تم بھی نہ ۔ '
پھر نظر بہک کر واپس بدر کی جانب گئی ۔ اسکا وجیہہ چہرہ بجھا بجھا سا لگ رہا تھا ۔ جبکہ ہاتھ اب بھی نیچے ڈھلکا ہوا تھا ۔ اور حرم نے محسوس کیا تھا کہ وہ اب تک ذرا سا بھی نہیں ہلا وہ نور کو اٹھا کر بھی لے آئی۔
حرم کچھ غلط محسوس کر کے اٹھی اور واپس اسکی جانب کھڑی ہوئی ۔ لیمپ کی دھیمی روشنی اسکے بکھرے بالوں سے ہوتے ہوئے نڈھال وجود تک پڑ رہی تھی ۔
" بدر ! تمہارا ہاتھ ۔۔۔ " وہ اٹکتی ہوئی بولی مگر وہ تو گہری نیند میں تھا شاید ۔ حرم آگے بڑھی اور بدر کا نیچے ڈھلکا ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ وہ چونک گئی ۔
اسنے بڑھ کر بدر کے ماتھے کو چھوا ۔ اسکا پورا جسم بخار میں پھنک رہا تھا ۔ حرم نے ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور اسے پکارا مگر وہ نہیں اٹھا ۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں ۔ وہ کیا کرے گی اس وقت تو پورا گھر سو رہا ہے ۔
" بدر تمہیں ۔۔۔ تھرمامیٹر ہاں چیک کرنا ہوگا پہلے ۔۔۔ " خود سے بڑبڑاتی وہ اسکا ہاتھ آرام سے بیڈ پر رکھتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔ الماری کھولی اور درازیں چھاننے لگی ۔ اسکا سفید ململ کا اسکارف ایک کندھے پر ڈلا پھسلتے جا رہا تھا ۔ ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے ۔ اسنے یہیں کہیں وہ باکس دیکھا تھا کسی دراز میں دیکھا تھا فرسٹ ایڈ باکس ۔ مگر کہاں ؟
پھر یاد آیا سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا تھا نہ وہ تو ۔ وہ جلدی سے واپس بدر کی جانب آئی ۔ گٹھنوں کے بل بیٹھتی دراز کھولی تو وہ باکس سامنے ہی رکھا نظر آیا ۔ دوپٹہ اب کی ڈھلک کر فرش پر گر گیا تھا ۔ وہ تھرمامیٹر لیتی اٹھی اور ٹیمپریچر چیک کیا ۔ دوسرا ہاتھ پھر بدر کے ہاتھوں پر تھا ۔
" ایک سو تین ۔ یا اللّٰہ اتنا تیز ۔۔ " تھرمامیٹر واپس ٹیبل پر رکھتی وہ ٹینشن میں آگئی تھی ۔ دراز کھلی ہوئی تھی ساتھ دوپٹہ اور فرسٹ ایڈ باکس پڑا تھا ۔ وہ بدر کے برابر میں ایک پیر موڑے دوسرا نیچے لٹکائے اسکا ہاتھ پکڑی بیٹھی تھی ۔ کیچر میں مقید بال بکھرے سے تھے ۔
" کیا کروں ۔ دوا بھی کیسے دوں تم تو اٹھ ہی نہیں رہے ۔" اسکے ذرا سے بخار پر حرم کی ساری ناراضگی شکوے سب پس پشت ڈل گئے تھے ۔ یاد رہا تو بس کہ بدر بیمار ہوگیا ہے ۔ اور بخار کتنا خطرناک ہوسکتا ہے یہ وہ اچھے سے جانتی تھی ۔ تیز بخار بہت سی چیزیں ڈیمج کر دیتا ہے انتہاء پر پہنچ جائے تو دماغ کی رگیں پھٹنے کا بھی شبہ ہوتا ہے ۔
حرم نے اب غور کیا اسنے اب تک اپنا صبح سے پہنا سوٹ بھی نہ اتارا تھا ۔ بلیک پینٹ پر پہنی وائٹ شرٹ جس کے اوپری دو بٹن کھلے ہوئے تھے ۔ صرف سیاہ کوٹ تھا جو اس وقت نہ تھا ۔ حرم یونہی دیکھ رہی تھی جب ہاتھ میں پکڑا بدر کا ہاتھ حرکت کیا ۔ اور اس نے سر کو بھی ہلکی سی جنبش دی ۔ حرم بے تابی سی آگے ہوئی ۔ اسے پکارا مگر وہ تو بخار میں جل رہا تھا ۔ شاید دماغ گنودگی میں تھا ۔ دھیمی روشنی میں اسکے بجھے بجھے سے چہرے پر غور کیا تو ہلکی موچھوں تلے لب ہل رہے تھے ۔
وہ بس گنودگی میں کچھ بول رہا تھا ۔ جسم سے گرم گرم بھپکے نکل رہے تھے ۔ حرم کے چہرے پر اسے دیکھ پریشانی بڑھ رہی تھی ۔ رات کے اس پہر وہ کسی کو بلائے بھی کیسے ۔
" ٹھنڈے پانی کی پٹیاں ! ہاں ۔۔۔ " یہ اس کو اب تک یاد کیوں نہ آیا ۔ شاید وہ کچھ زیادہ ہی پریشان ہوگئی تھی جب ہی اتنی عام سی بات یاد نہ رہی ۔
وہ نیچے جانے کے لئے فوراً اٹھی جب بدر کا پکڑا ہاتھ اسے روک گیا ۔
' کیا وہ اٹھا ہوا تھا ؟ نہیں نہیں نہیں ۔۔۔ بدر تو سو رہا تھا نہ ۔۔۔ افف کتنی بے باکی کی تم نے حرم ۔۔ "
خود کو کوستی ہوئی پیچھے دیکھا تو بدر پہلے جیسے ہی آنکھیں موندے ہوا تھا ۔ مطلب وہ سوتے ہوئے ہی ہاتھ پکڑا ہوا ہے ۔ شکر کا سانس لیتی وہ باہر کو آئی سب طرف سناٹا تھا ۔ ہلکی ہلکی روشنیاں تھیں لاونج اور باقی راہدیریوں میں ۔
وہ ننگے پاؤں بغیر دوپٹے کے ہی تیزی سے کچن میں گئی ۔ اسے بس جلد از جلد پانی اور پٹیاں لے کے کمرے میں بدر تک پہنچنا تھا ۔ اس وقت نور اور بدر اسکے مطابق کمرے میں اکیلے ہیں اور حرم کا ہونا ضروری ہے ۔
کچن کے کیبنٹ کھول کر پہلے اس نے پیالہ نکالا ۔ پھر فرج سے آئس کیوبز نکال کر اس میں ڈالے تھوڑا پانی ڈالا اور لے جانے لگی پھر وہ پٹیاں یاد آئیں تو نچلے کیبنٹ میں دیکھنے لگی ۔ خدیجہ نے بتایا تھا اسے سب کچھ کہ کون سی چیز کہاں ملے گی ۔ مگر ابھی اسکی ساری سوچیں منتشر ہوئی پڑی تھیں ۔ ذہن الجھ گیا تھا آخر بدر کو اتنا تیز بخار کیسے ہوا ۔
وہ پیالہ پکڑی باہر کو آئی تو راستے سے جاتے خضر سے ٹکراتے ٹکراتے بچی ۔ وہ کس دھن چلتا جا رہا تھا ؟
پھر اسکی نظر خود پر مرکوز دیکھ وہ خود کو کوستی ہوئی اوپر بھاگی ۔
وہ نیم مسکراہٹ لئے اندر کچن میں چل دیا ۔ حرم نے اوپر سے جھانک کر تسلی کی اور کمرے میں گئی ۔۔ دوپٹہ سامنے ویسے ہی گرا ہوا تھا بدر اور نور اس ہی پوزیشن میں لیٹے تھے سب کچھ ویسا ہی تھا ۔ بس اب حرم کی کیفیت دوسری تھی ۔ اسکو خود پر غصہ آرہا تھا ۔۔
' اتنی بھی کیا فکر میں پاگل ہونا کہ دوپٹہ بھول گئیں ۔ ویسے اسکو بھی نہیں آنا چاہیے تھا ۔۔
مگر نہیں میری ہی غلطی ہے مجھے خود خیال رکھنا چاہیے ۔۔۔' بدر تک پہنچتی وہ یہی سب سوچ رہی تھی ۔
پھر اس کے پاس پہلے جیسے ہی بیٹھی ۔ اسکے سامنے ہو کر بیٹھنے سے بیڈ پر دباؤ ڈلا مگر وہ نہ اٹھا ۔ حرم نے پچھلی سوچیں جھٹک کر اسکا ہاتھ چھوا وہ اب بھی بخار سے اس ہی طرح جل رہا تھا ۔ اس نے کمفرٹر دونوں پر اچھے سے ڈالا جو وہ اب تک ڈال نہ سکی تھی ۔
پھر ایک سانس خارج کرتی اس نے بھیگی ٹھنڈی پٹی نچوڑی اور بدر کی کنپٹی پر رکھ دی ۔ اس نے سسکی جیسی آواز نکالی جو اتنی مدھم تھی کہ بس محسوس ہوئی سنائی نہ دی ۔ مطلب وہ جب سے بخار میں کراہ رہا تھا ۔ اور اب جلتی پیشانی پر ٹھنڈی برف کی پٹی ، بدر نے سوتے میں ہی ہاتھ کی مٹھی بنائی تو حرم کی قمیض کا دامن مٹھی میں آگیا ۔ حرم نے ہاتھ بڑھایا پھر رہنے دیا ۔ ویسے بھی وہ تو سو رہا ہے ۔ اس نے اب وہ پہلے والی پٹی اٹھائی اور دوسری نچوڑ کے رکھ دی ۔ دوسری سے تیسری ، تیسری سے چوتھی پھر پانچویں ۔ اور یہی کرتے کرتے اب اسے گھنٹہ گزرنے کو تھا ۔ ہاتھ سے بدر کا ماتھا چھوا تو بہت فرق پڑا تھا بخار میں ۔ اس نے اب کی پانی بدلنے کے لئے نیچے جانے کا سوچا تو دوپٹہ اچھے سے اوڑھ لیا ۔ پھر پھرتی سے واپس آکر آدھے گھنٹے تک واپس یہی عمل دھرایا۔۔۔
کمر جواب دے چکی تھی مگر وہ لگی ہوئی تھی کہ کسی طرح کچھ کم ہو جائے ۔
تھوڑی دیر میں ہی دور کہیں سے آذان کی آواز بھی آنے لگی تھی ۔
" فجر ہوگئی پتا ہی نہیں چلا ۔۔ " اس نے واپس سے تھرمامیٹر لگایا بخار چیک کیا ۔ شکر تھا کافی بہتر ہوگیا تھا وہ ۔ مگر گرم اب بھی تھا ۔ وہ اٹھی تو ایک پل کے لئے رک گئی ۔ حرم کا ہاتھ ناجانے کس وقت سے اسکے ہاتھ میں گیا ہوا تھا وہ ابھی بھی پکڑتے ہی اٹھ گئی تھی پھر جھک کہ اسکا ہاتھ رکھا۔ ہلکی سی مسکراہٹ لبوں کو چھو کہ گزری ۔ پانی کا پیالہ وہاں سے ہٹا کر وسطی ٹیبل پر رکھ دیا پھر وہ وضو کر آئی ۔۔البتہ نور کی آنکھ آج نہ کھلی تھی شاید وہ کافی تھک گئی تھی تو حرم نے اٹھانا مناسب نہ سمجھا ۔ وہ کافی چھوٹی تھی بچوں پر زیادہ بوجھ بھی نہیں ڈالنا چاہیے ۔۔ جو وہ کر رہے ہیں بس اس ہی میں ترمیم کریں ۔ خود سے زبردستی مسلط نہ کریں ۔
نماز ادا کرنے کے بعد وہ واپس آئی ۔ اسکارف چہرے کے گرد لپٹا ہوا تھا اور اسکے چہرے پر نیند صاف نظر آرہی تھی ۔ حرم نے قرآن مجید اٹھایا اور بدر کے ساتھ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھ گئی ۔ اب اسکا رخ سامنے دروازے کی جانب تھا ۔ جبکہ بدر اسکے دائیں جانب لیٹا تھا ۔ قرآن ہاتھ میں پکڑی وہ کچھ سورتوں کی تلاوت کرنے لگی اس طرح کے بدر کے کانوں تک جائے ۔ اسے شفا ملے ۔ اور دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ قرآنی آیات میں اللّٰہ نے شفا رکھی ہے۔ صرف سننے کی ہی لاکھوں برکتے ہیں ۔ بدر نے کروٹ بدلی تو حرم ٹہری اور اسکی جانب دیکھا اب اسکا ایک دائیاں ہاتھ حرم کے دائیں ہاتھ کو پکڑ چکا تھا ۔ اسے اب بھی ہلکی سردی لگ رہی تھی۔
حرم نے سورۃ مکمل کی ۔ قرآن چومتی اسے ٹیبل پر رکھا کیونکہ حرم کا ہاتھ اب بھی بدر نے پکڑ رکھا تھا ۔ پھر اس نے پاس رکھی تسبیح اٹھائی اور پیر پھیلائے بدر کا ہاتھ اپنی گود میں رکھ لیا ۔ کیونکہ چھوڑ تو وہ رہا نہیں تھا ۔
اس وقت وہ کہیں سے پہلے والی کھڑوس بیوی نہیں لگ رہی تھی جو بدر کو اپنے پاس بھی نہیں بھٹکنے دیتی تھی اس وقت وہ ایک اچھی بیوی بنی ہوئی تھی حالانکہ یہ اسکی قوائد کی خلاف ورزی تھی جو اس نے خود کی تھی ۔ تھوڑا اور سہی سے ٹیک لگاتی وہ آنکھیں موند گئی ۔ اس طرح کے لیٹی ہوئی ہی لگ رہی تھی ۔ اور سہارے کے لئے تو تنکہ بھی کافی ہوتا ہے ۔ حرم کی آنکھ لگتے ہی وہ نیند میں کھو گئی ۔ ایک ہاتھ اسکے ہاتھ میں پھنسا تو دوسرے میں تسبیح پکڑی ہوئی ۔ اسکارف میں لپٹا چہرہ جس پر رات بھر کی تھکان تھی ۔
🖤__________~
صبح صبح کا وقت تھا جب کمرے میں پردوں کو چیرتی ہوئی روشنی تیزی سے آرہی تھی ۔ حرم سوتے سوتے ہی سر بدر کے سر پر رکھ چکی تھی ۔ نور بھی نیند میں گھومتی بدر کے پاس تھی جبکہ پیر کمفرٹر سے باہر بدر کے اوپر تھے ۔ اور دونوں ہاتھ بدر کی گردن کی جانب ۔
کوئی آٹھ سے اوپر کا وقت ہورہا تھا جب دروازہ بجا اور بامشکل بدر کی آنکھ کھلی ۔ پہلے تو سر میں رات والے شدید درد کی ایک لہر دوڑی پھر ختم ہوگئی۔ آنکھیں سہی سے کھلیں تو اپنے اوپر نور کی جگہ اسکے پیر رکھے پائے جبکہ اپنے بائیں جانب ادھ لیٹے وجود پر وہ چونکہ اور اس سے زیادہ تب جب اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ میں پایا۔
کمرے کے باہر خدیجہ تھی جو ان دونوں کو ناشتے کے لئے بلانے آئی تھی۔ رات والے بخار سے ٹوٹتا جسم لیکن وہ اب کافی اچھا محسوس کر رہا تھا اوپر سے حرم کا لمس ۔
لیکن پھر خدیجہ کی آوازوں پر ترس کھاتا وہ کہہ اٹھا ۔۔ " تم جاؤ ڈیڈ کو بولو ہم بعد میں آجائیں گے " اور اندازے کے عین مطابق کچی نیند والی حرم چونک کر ہڑبڑا اٹھی ۔ بدر نے فوراً آنکھیں بند کرلیں ۔۔ معنوں وہ اٹھا ہی نہ ہو ۔
" یا اللّٰہ اتنا وقت ہوگیا ۔۔ ہاں خدیجہ میں آتی ہوں ۔۔ " وہ اٹھ کر سیدھی ہوئی اور بدر کو دیکھا ۔ پھر اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔ بخار بس ختم ہونے پر تھا ۔
' اوہ تو کھڑوس مسز نے ساری رات شوہر کی خدمت کی ہے ۔ ' وہ آنکھیں موندے اسکی حرکتیں جانچ رہا تھا ۔
" بخار تو نہیں ہے شکر ہے ۔ ارے نور پیر کیسے کر رکھے ہیں ۔ " وہ نور کے پیر بدر کے اوپر سے ہٹانے لگی ۔۔ جب بدر نے اسکا ہاتھ مزید بھینچ لیا ۔ اب کی بار حرم نے اسے چھڑایا کیوں کہ اسے جانا تھا ۔
" میرا ہاتھ اکڑا دیا ہے پکڑے پکڑے چھوڑ دو اب۔ " وہ پھسپھسا کر کہہ رہی تھی ۔ جب بدر نے ایک اور چالاکی کی اور اسے کھینچ لیا ۔ حرم نے بظاہر سوتے ہوئے بدر کو گھورا ۔
پھر سانس خارج کرتی ایک آخری بار اسکی پیشانی پر ہاتھ رکھا جس پر بدر نے فٹ سے آنکھیں کھول کر اسکا ہاتھ پکڑا اور حرم کی یہاں آنکھیں نکل آئیں۔
" تم جاگ رہے تھے ؟ "
جاری ہے
❤️
👍
😂
🙏
😢
223