Novel Ki Dunya
June 19, 2025 at 02:01 PM
#ایک_ستم_محبت_کا #ازقلم_زینب_سرور #قسط_نمبر_11 وہ چونک کر بدر کی جانب دیکھ رہی تھی ۔ جو اب بھی گلابی بوجھل ہوئی آنکھیں لئے اسے ہی دیکھتا رہا۔ ' کتنا چالاک انسان ہے یہ جاگ رہا تھا اور مجھے پتا تک نہ چلنے دیا ۔۔ اب اندر ہی اندر خوش ہورہا ہوگا ۔ اونہہ ' دل ہی دل میں کہتی اب وہ پھر سے پہلے والی حرم بن گئی تھی ۔ " بس ابھی ابھی جاگا تمہاری آواز پر ۔ مگر تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟ " بدر کا اشارہ اپنے ساتھ موجود اس وجود پر تھا ۔ جو اب آنکھیں یہاں وہاں کر کے اٹھنے لگی ۔ ' یہ تو کبھی نہیں بتا سکتی کہ رات میں جاگ کہ کیا کرا میں نے ۔۔ ' " پہلے بتاؤ یہاں کیسے آئیں ۔ پھر چلی جانا ۔ " بدر نے اسے اٹھنے سے روکا ۔ اسکی اس حالت سے وہ زندگی میں پہلی بار لطف اندوز ہورہا تھا ۔ " آہ وہ ۔۔۔ " بدر نے آئبرو اچکائی ۔ " وہ میں نور کو تمہارے اوپر سے ہٹا رہی تھی ۔ ہاں ۔۔ " اس نے جلدی سے کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔ بدر نے اب کی آنکھیں چھوٹی کر کے حرم کو دیکھا جو ایک لمبا سانس بھرتی اسکارف کھول رہی تھی ۔ چہرے پر صاف واضح تھا کہ اسکے اندر کچھ ہلچل سی مچ چکی ہے ۔ حرم وہاں سے چل کے واشروم کے دہانے پر رکی پھر کن اکھیوں سے پیچھے دیکھا وہ اب تک اس ہی پر نظریں جمائے ہوئے تھا ۔ بدر کو اب کی مسکراتا دیکھ وہ فٹ سے واشروم میں گھس گئی ۔۔۔ ' افف حرم کیا ضرورت تھی اسے پیچھے مڑ کے دیکھنے کی ۔ ' 🖤_________~ ڈائننگ ٹیبل پر آج گھر کے سب فرزند موجود تھے ۔ خدیجہ اماں کے ساتھ ناشتہ رکھوا رہی تھی جب حرم نیچے آئی اور سب کو سلام کیا ۔۔ اس وقت اس نے پہلے اور سفید امتزاج کے رنگ میں گندے شلوار قمیض پہنا ہوا تھا جس کا ٹشو کا دوپٹہ اس نے بڑی مہارت سے سر پر ٹکایا ہوا تھا ۔۔ " آہ تم یہ کیا کر رہی ہو لاؤ مجھے دو ۔۔ " حرم نے کچن سے نکلتی ہوئی خدیجہ کے ہاتھ سے بریڈ باسکٹ پکڑی اور ٹھیک ممتاز بیگم کے سامنے لا رکھی ۔۔ بدر بھی نور کا ہاتھ تھامے نیچے ہی آرہا تھا ۔ نور نے بھی مما کی طرح آج پیلے رنگ کی فراک پہنی ہوئی تھی ۔ جبکہ بال کھلے ہوئے تھے ۔ اور صرف ایک کلپ کے سہارے ٹکے ہوئے تھے ۔۔ شاید حرم کو نیچے آنے کی جلدی تھی ۔ اور اسکے ڈیڈو نے اس کام میں گھنٹے لگا دینے تھے ۔۔ " یہ اسکا کام ہے اسے ہی کرنے دو ۔ ہم مہمانوں سے کام نہیں کرواتے ۔ " انکی آواز خاموشی کو چیرتی ہوئی سب کی سماعتوں میں یوں گئی کہ سب انہیں کو دیکھنے لگے ۔۔ " تم بیٹھ جاؤ بیٹا ۔۔۔ اور ممتاز ! وہ مہمان نہیں ہے بڑی بہو ہے اس گھر کی ۔ " بدر کے بولنے سے پہلے ہی سعید آفندی صاحب نے انکا اگلا جملہ منہ میں ہی بند کردیا ۔ حرم نے سر ہلایا اور بیٹھ گئی جبکہ خدیجہ واپس چل دی ۔ " باجی رہنے دیں نہ ۔۔ " سلمہ بیگم نے بہن کے ہاتھ پر دباؤ ڈالا ۔۔ جس پر وہ لب بھینچ کر رہ گئیں ۔ وہ چاروں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے ۔ زارا اور خضر نے ایک دوسرے کو دیکھا ٹھیک اس ہی طرح سانیہ اور سارا نے ایک دوسرے دیکھا پھر ان چاروں نے ایک ساتھ ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔ پھر سب نے کندھے اچکائے اور واپس پلیٹوں میں جھگ گئے ۔ کسی کو بھی ممتاز بیگم کی بات میں دلچسپی نہ تھی ۔۔ " گڈ مارننگ ۔ گڈ مارننگ ڈیڈ ۔۔" بدر نے نور کو ایک کرسی پر بیٹھایا اور سب کو دیکھے بغیر ہی بولا ماسوائے سعید صاحب کے ۔۔ " سلام ڈیدی بی کے دیڈو ۔۔ گُد مارننگ ایولی ون ( گڈ مارننگ ایوری ون ) " نور نے بھی اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا ۔ " ہاہاہا وعلیکم السلام میری بچی ۔۔ " جب کہ اسکے آخری جملے پر سب کی ہنسی کے ساتھ ساتھ کسی اور کی ہنسی بھی شامل ہوگئی تھی ۔۔ " گڈ مارننگ چاچو کی جان ۔۔ " یہ ہے حمزہ بدر کا چھوٹا بھائی ۔ جو فلوقت باہر پڑھنے کے لئے گیا ہوا تھا اور آج ہی سانیہ کی شادی کے سلسلے میں واپس آیا ہے ۔ " بدی نونو کے کان دک گئے یال ( بڈی نونو کے کان دکھ گئے یار ) " نور نے منہ بنائے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کیونکہ حمزہ نے اسکے کان کے پاس آکر واقع تیز آواز میں بولا تھا ۔ نور اسے بڈی اس لئے کہتی تھی کیونکہ سانیہ اور بدر کی طرح نور سے خود کو بڈی کہلواتا تھا ۔ " افف باتیں تو دیکھو ذرا اسکی ۔۔ اسلام و علیکم بھابھی اور ٹھیک ہیں آپ ؟ " اس نے نور کے بال بگاڑتے ہوئے اسکے برابر والی سیٹ پکڑی ۔۔ حرم مسکرائی ۔ " میں ٹھیک تم کیسے ہو ؟ " " میں بھی آپ کے سامنے فرسٹ کلاس اور ہمیشہ کی طرح ہینڈسم ۔ " بدر نے اسکی اداکاری پر بھنویں اچکائیں جبکہ حمزہ دانت نکالے ہنس دیا ۔ " ہاں ٹھیک ہے ٹھیک ہے بھائی سے زیادہ ہینڈسم بس ۔۔ اب گھورنا بند کریں۔ " اس نے ہاتھ اٹھائے اور کندھے اچکائے کہنے لگا ۔ حرم ہلکا سا ہنس دی اور سر ہلائے نور کے لئے بریڈ سلائس میں جیم لگانے لگی ۔ " بدمعاش کہیں کے ۔ " بدر نے اشارے سے اسے وارن کیا کہ ' بیٹا ناشتہ کے بعد ملو ' جس پر اس نے نور کو ہائی فائیو دیا اور بدر کی گھوری کو ایسے نظر انداز کیا جیسے شہد میں ہو چینی کا دانا ۔ سانیہ نے دور سے داد دی تو سارا کے ساتھ ساتھ زارا بھی ہنس دی ۔ جبکہ خضر کسی کو خاطر میں نہ لا کر پلیٹ کھسکا کر چلتا بنا ۔ اس کا ناشتہ اتنا ہی ہوتا تھا اب تو سب کو عادت تھی تو کوئی اسکے پیچھے سر نہیں کھپاتا تھا کہ وہ رکے ۔ " بس اب سب سکون کے ناشتہ کرو ۔۔ " اور ممتاز بیگم کی آواز پر سب نے سر ہلایا ۔۔ " کیا ہوا نور منہ کیوں بنا لیا ۔ " کچھ دیر بعد سانیہ نے چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا جس پر سعید صاحب نے اخبار ذرا نیچے کر کے اسے دیکھا ۔ حرم اور بدر نے بھی جو اس کو صرف کھلانے میں لگے پڑے تھے۔ پھولے پھولے گلابی گال گھنی پلکوں کے سائے میں چھپی کانچ سی آنکھیں نیچے کچھ ڈھونڈ رہی تھیں جبکہ لب اداسی کا عنصر لئے ڈھلے ہوئے تھے ۔ وہ ہاتھ باندھے سر جھکائے ہوئی تھی " کیا ہوا ڈیڈو کی جان کو ۔۔ کچھ اور کھانا ہے کیا ۔ " بدر کے کھانے والی بات پر اس نے ہمیشہ کی طرح پہلے باپ کو افسوس سے دیکھا اور ننھا ہاتھ نزاکت سے سر پر دکھ سے مارا ۔ " ڈیڈو یال ہل تائم تھانا نئی اوتا ۔ ( ڈیڈو یار ہر ٹائم کھانا نہیں ہوتا ) " اسکے اس طرح ناک پھلائے کہنے پر حرم کے ساتھ ساتھ باقی سب نے بھی اپنی ہنسی روکی ۔ " تو پھر کیا ہوتا ہے پرنسس۔ " " مجھے لگتا ہے نور کو گھومنے جانا ہے ہیں نہ ۔۔ " بدر کے کہنے پر حمزہ نے منہ چلاتے ہوئے کہا ۔۔ " نو ۔۔ " جبکہ نور کے نو پر اسکا سارا اعتماد منہ میں رہ گیا ۔ بدر نے چھوٹے بھائی کو دیکھے ہنسی اڑائی ۔ " پھر کیا ہوا ہے نور ۔ " سارا نے بھی جاننا چاہا ۔ ممتاز بیگم نے ایک نظر دیکھا نور کا معصوم چہرہ وہ ہلکا سا مسکرا دیں ۔ " مجھے پتا ہے نور کو کیا ہوا ہے ۔ " حرم نے مسکراتے ہوئے نور کو دیکھا پھر اسکا چہرہ اوپر کیا ۔ نور نے زور سے آنکھیں بند کر کے کھولیں اور پٹ پٹ کرتی پلکوں کی بار سے ماں کو دیکھا ۔ " مما نور کو ظہر میں فجر کی قضاء نماز پڑھا دیں گی ۔ اب خوش ۔۔ " حرم کے کہتے ہی آہستگی سے نور کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی ۔ جبکہ سب نے چمکتی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھا تھا ۔ " ماشاءاللہ خوب جیو میری بچی ۔ " سعید صاحب نے دل سے دعا دی ۔ جبکہ بدر نے حرم اور پھر نور کو رشک سے دیکھا ۔۔ ممتاز بیگم کی مسکراہٹ نجانے کیوں مزید گہری ہوگئی ۔ ان کی مسکراہٹ میں کوئی جھول نہ تھا وہ پاک مسکراہٹ تھی ۔۔ " چلو اب جلدی سے یہ ختم کرو ۔ " اس نے نور کا سلائس آگے کیا جس پر وہ سیدھی بیٹھ کر واپس سے کھانے لگی ۔ حرم نے پیار سے اسکے بالوں پر ہاتھ پھیرا ۔ " واقع تربیت ہو تو نور کے جیسی ۔ بھائی واقع لکی ہیں حرم بھابھی نہیں ہیرا ملا ہے آپ کو ۔ " حمزہ نے یاسیت سے کہا جس پر حرم کی مسکراہٹ دھیمے سے غائب ہوئی اور ممتاز بیگم کی چٹکیوں میں ۔ ایک سانس بھر کے دونوں کی نظریں ملیں پھر چرا لیں۔ " یہ تو ہے ۔ " بدر نے دھیمے سے حمزہ کو جواب دیا اور سب ناشتہ کرنے لگے ۔ 🖤________~ دوپہر کا وقت تھا ظہر بھی قضاء ہونے کو تھی جب حرم نے سوتی ہوئی نور کو ایک نظر دیکھا اور پھر تسلی کرتے دروازہ آہستگی سے بند کر کے نیچے جانے لگی ۔ ناشتے کے بعد سے بدر ناجانے کہاں چلا گیا تھا شاید آفس چلا گیا ہو مگر اس نے کچھ بتایا نہیں ۔ حرم بس ایک بار اسکی طبیعت کی بھی تسلی کرنا چاہتی تھی ۔ صبح بخار اتر تو گیا تھا مگر کیا معلوم دوبارہ ہوگیا ہو ۔ وہ نیچے آئی تو ہال کو خالی پایا ۔ کالج سے بھی چھٹیاں لی ہوئیں تھیں اس کے پاس کوئی کام نہ تھا ۔ سانیہ سارا زارا اور سلمہ بیگم بازار نکلی ہوئیں تھیں آج کل یہی روٹین تھی ان سب کی ۔ ممتاز بیگم ہاں آج گھر پر ہی تھیں ۔ حرم کو بھی چلنے کا کہا تھا لیکن آج اسکا نہ ہی دل تھا اور نہ ہی شاپنگ کی اب ضرورت تھی ۔ تو اس نے سانیہ سے نہ جانے کی معذرت کرلی ۔ وہ کچن میں ہی جا رہی تھی جب دروازے پر بیل ہوئی ۔ ہال کا سکوت ٹوٹا جبکہ دیوار میں لگی گھڑی کی سوئیاں تین سے آگے کا وقت دکھا رہی تھیں ۔ چونکہ کوئی اور تو تھا نہیں اس لئے وہ خود ہی باہر تک چلی گئی ۔ جب سامنے سے وہ چلتا ہوا اندر تک آیا ۔ آج بھی کڑک بھوری شلوار قمیض میں ملبوس وہ کوئی زمین دار سے کم نہ لگ رہا تھا ۔ ایک کاندھے پر شال ڈالے کھڑیوں کی ٹک ٹک کے ساتھ وہ شان سے اندر تک آیا ۔ " سرمد بلوچ ؟ " حرم نے جیسے یاد کرتے ہوئے کہا ۔ شاید ایسا ہی کچھ نام لیا تھا نہ پرنسپل نے ۔۔۔ " جی محمد سرمد بلوچ ۔ اندر آنے کا ۔۔۔ " اس نے بولتے ہوئے فوراً ہی احساس دلا دیا کہ وہ راستہ روکی ہوئی ہے ۔۔ " آہ ہاں تو ۔۔ تو کس سے ملنا ہے آپ کو ؟ " وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سوال کر گئی ۔ سرمد بلوچ کے عنابی لب ہلکی مسکان میں ابھرے ۔ " بیٹا یہ ہمارے نئے بزنس پارٹنر ہیں سرمد بلوچ ۔۔ آ ینگ ٹائکون ۔۔ " وہ کچھ بولتا جب سعید صاحب نے سب واضح کردیا ۔۔ حرم ایک نظر دیکھ کر سائڈ سے نکلتی ہوئی کچن تک چل دی ۔ جب اسے کچھ کھٹکھا ۔ کچھ اس طرح واضح ہوا کہ اسکا منہ کھلا رہ گیا ۔ جیسے ذہن میں الجھی ایک گرہ کھل چکی ہو ۔ وہ دروازے کی چوکھٹ تھام کر لمبا سانس بھرنے لگی جب پیچھے سے سرمد کی آواز گونجی ۔ " جی جی میں تو آپ کی بہو پروفیسر حرم کو بھی بہت اچھے سے جانتا ہوں ۔ انکے والد ہمارے ساتھ ہی تو کام کیا کرتے تھے ۔۔۔ " وہ کچھ اور بھی کہہ رہا تھا مگر حرم نے نہیں سنا ۔ اور دھیرے سے پیچھے مڑی ۔۔ ہاں یہ وہی تو چہرہ تھا ۔ وہی جو اسکا تعاقب تک کیا کرتا تھا ۔ حرم نے اب تک پہچانا کیوں نہ تھا اسے ۔ _-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_ حرم کے سامنے لاونج کا وہ منظر دھندلا گیا جہاں سردار بلوچ سعید آفندی صاحب کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا تھا ۔ بلکہ آنکھوں کے پردوں کے آگے دس سال پہلے کا منظر لہرا گیا جب وہ تپتی دھوپ میں کالج سے پہلی بار پیدل واپس آرہی تھی ۔ کیونکہ اس کے بابا آج چھوٹے بھائی کا رزلٹ لینے گئے تھے ۔ " بس ایک بار ۔۔ ایک بار حرم کی اسکالر شپ آجائے پھر تو مجھے اس یونیورسٹی میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ " وہ سفید کالج یونیفارم میں ملبوس تھی سر پر اسکارف لپیٹے اور کندھے پر بیگ لٹکائے ۔ جب ایک گاڑی اس کے پاس آکر رکی ۔۔ اندر بیٹھے شخص نے بغور پہلے حرم کو دیکھا جس پر اس نے گھور کر دیکھا ۔۔۔ " رکو ذرا ۔۔ " وہ آگے بڑھنے لگی جب جوان جہان سرمد بلوچ کی آواز کانوں سے ٹکرائی ۔ وہ رکی اور پھر چہرہ پیچھے کیا جس پر اس نے گاڑی کو پیچھے کر کے اس کے ساتھ کیا ۔ " تم جاوید صدیقی کی بیٹی ہو نہ حرم ۔۔ " وہ ہر لحاظ سے خوبصورت تھا رعب دار ۔۔۔ آس پاس جاتے لوگوں نے بغور ان دونوں کو دیکھا ۔۔ " ہاں ۔۔ اور آپ وہی ٹھرکی ہو نہ جو روز مجھے گھور رہے ہوتے ہیں اور آج روک بھی لیا ۔۔ " حرم کی ناک پر نجانے کیسے غصہ آ چڑھا تھا ۔ سرمد کی مسکراہٹ سمٹی تھی ۔ پھر آنکھیں بند کر کے غصہ پیا اور واپس سے مسکراتے گاڑی سے اترا ۔ " محترمہ ہر چیز کی کوئی وجہ ہوتی ہے ۔ میں روز یہاں ہوتا ہوں آپ کو دیکھنے کے لئے تاکہ کوئی پریشانی نہ ہو ۔۔ گھورنے کے لئے نہیں ۔ اور ہاں اسے ٹھرک نہیں محبت کہتے ہیں ۔ " آخر میں اسکی آواز سے نرمی مٹ گئی تھی ۔۔ حرم نے ناراضی سے دیکھا ۔ " آج تو کہہ دیا آپ نے آئیندہ ایسی کوئی بھی بات منہ سے نہ نکالئے گا۔۔ " بھنویں سمیٹیں وہ آخر میں دانت پیستے کہنے لگی ۔ اسکے ساتھ یہی مسئلہ تھا کب غصہ ہو جائے پتا نہیں چلتا تھا ۔ سرمد پیار سے مسکرا دیا۔۔ پھر اسکی جانب جھکا جس پر حرم نے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھا ۔۔ اور پھر لب بھینچے ۔۔ " توبہ کتنا تیز پرفیوم لگایا ہوا ہے بندہ پرفیوم تو اچھا لگا لیتا ہے ۔۔ " " ہاہاہا جیسا حکم آپ کا ۔۔ اگلی بار آپ کی پسند کا ہوگا ۔۔ " حرم کی بس ہورہی تھی وہ اور برداشت نہیں کر سکتی اب تک تو ابا کے مراسم کا لحاظ کی ہوئی تھی وہ ۔۔ " میں کہتی ہوں میرا راستہ چھوڑیں ورنہ ۔۔ " وہ اور کچھ کہتی مگر سرمد کی انگلی نے اسکی بولتی زباں کو چپ لگا دی ۔۔ " شش میں نے اس لئے روکا ہے کہ تمہیں آگاہ کردوں سرمد بلوچ کو حرم جاوید صدیقی صرف پسند نہیں آئی بلکہ اسکی محبت بن گئی ہے ۔۔ " وہ آگے بھی کچھ کہتا مگر حرم کا ہاتھ اٹھا تو غصّہ سے اسکا گال لال کر گیا۔ اور تھپڑ مارنے کے بعد حرم جیسے غصّہ سے نکل کر ہوش میں آئی اور منہ پر ہاتھ رکھ گئی ۔ سرمد نے کڑے تیوروں کے ساتھ اسے دیکھا جبڑے سختی سے بھینج لئے تھے ۔۔ " سوری مجھے ۔۔ مجھے غصہ آگیا تھا آپ بتائے گا نہیں ابا کو نہ بتانا ۔۔ " بول کر وہ تیزی سے بھاگ نکلی ۔ وہاں اب آس پاس کوئی نہ تھا ۔۔ اور سرمد بلوچ جس کو غصہ سے مرجانا چاہئیے تھا یا حرم جو ماردینا چاہئیے تھا وہ ہولے سے مسکرا دیا ۔ دور جاتی حرم نے اسکارف کا ایک کونا منہ پر یوں رکھا تھا جیسے اسے کوئی نہیں دیکھے ۔ وہ اس بات سے انجان تھی کہ پیچھے کھڑا شاید وہ دنیا کا واحد وڈیرا تھا جو محبت میں پہلی بار مکمل اندھا ہوچکا ہے ۔ یادوں کی ہواؤں نے رخ بدلا تو اس منظر کو غائب کر گئیں اور ایک نیا منظر آنکھوں کے پار لہرایا گیا ۔ جب سردار بلوچ اسکے گھر پہلی بار آیا تھا ۔ ورنہ وہ تو کسی کو کھاتے میں ہی نہ لاتا تھا ۔ حرم جو دروازے کے پیچھے سے چھپ کر لان میں جھانک رہی تھی بے اختیار نظریں اس سے جا ملیں وہ جو بڑے اعتماد سے ایک ہاتھ اپنے برابر میں رکھی کرسی پر پھیلایا ہوا تھا ۔۔ " شٹ کہیں مجھے دیکھ تو نہیں لیا اس پرفیوم کی دکان نے ۔۔ یہ آیا کیوں ہے یہاں کہیں میری شکایت تو لگانے نہیں آیا ۔۔ خیر میرے بابا مجھے کچھ نہیں کہیں گے اونہہ ۔۔" حرم نے تیزی سے خود کو اندر چھپایا گویا وہ دیوار اس کو سرمد کی آنکھوں سے بچا لے گا ۔۔۔ " جی جاوید صاحب بیٹھئے آپ کا ہی گھر ہے ۔ " " کوئی خاص بات جو آج یہاں تک تشریف لے آئے ؟ " جاوید صاحب کی آواز پراعتماد تھی ۔ حرم آوازیں سن کر مسکرا دی ۔۔ اسکے بابا اسکو چلتا کردیں گے ۔ " جی خاص بات تو ہے بہت خاص بات ۔ فرید الدین! " اس نے آخر میں زور سے ہانگ لگائی ۔ " فرید الدین ذرا سامان تو اندر لے آؤ ۔ " لفظ سامان پر حرم نے مڑ کر واپس ان دونوں کی جانب دیکھا جہاں اب یقیناً فرید الدین ہی تھے جو بہت سے ٹوکرے اور دیگر چیزیں وہاں رکھ رہے تھے ۔۔ " رشتہ لینے آئے ہیں ہم ۔ ہاتھ مانگنے آئے ہیں حرم کا ۔" جاوید صاحب کچھ بولنے لگے تو سرمد نے ایک ہاتھ اٹھا کہ ٹہرنے کو کہا اور آگے کو جھکا ۔۔ " ہاں جانتا ہوں گھر کے بڑے لاتے ہیں رشتہ پر ہماری حویلی پر تو کوئی ہے ہی نہیں ۔ آپ جانتے ہی ہیں تو میں ہی آگیا ۔ " " مگر میں حرم کا رشتہ تم سے نہیں کرنا چاہتا ۔ " جہاں وہ سرمد کی بات سن کر بھنویں سمیٹ گئی تھی وہیں بابا کی بات پر وہ مسکرا دی ۔۔۔ آگے کی کوئی بھی بات اسے سننے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اسکے بابا بیوقوف نہیں جو اس سے ڈر کر ہاں کر دیں گے ۔۔ وہ اور ہوتے ہوں گے جو ایک وڈیرے سے ڈر کر اپنی بیٹی بیاہ دیتے ہیں ۔ جاوید صاحب جیسے ہوں تو عزت اٹھا کے ہاتھ میں رکھ دیتے ہیں ۔ بیٹی کا معاملہ ہے کوئی کھیل نہیں ۔۔۔ " حرم ! حرم ! " بدر نے اس کو اب کی بار پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا ۔ " کیا ؟ کون کیا ہوا ۔۔۔ " وہ جو پرانی یادوں میں کھوئی ہوئی تھی چونک کر یہاں وہاں دیکھا ۔ تو سامنے بدر کو کھڑا پایا جو شاید کب سے اسے پکار رہا تھا ۔۔ " کہاں کھوئی ہوئی تھیں ؟ سب ٹھیک ہے نہ ۔ ہاں ! " اس نے کندھوں سے پکڑ کر حرم کو پکارا ۔ وہ پریشان ہوگیا تھا حرم نے پہلی بار یوں کیا تھا ۔ " نہیں ۔۔ کچھ نہیں ٹھیک ہوں ۔ " خود کو کمپوز کرتی بدر کے ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹائے تھے اور پھر ایک نظر خالی لاونج پر ڈالتی اندر کچن میں چل دی ۔ چہرے پر نہ سنجیدگی نہ ہی سہی سے پریشانی کا عنصر نمایا ہورہا تھا ۔ وہ دونوں کیفیت کے بیچ میں ٹہری ہوئی تھی ۔ بدر نے اپنے ہاتھ دیکھے جو ابھی ہی حرم نے خود سے دور کئے اور پھر سر جھٹک دیا ۔ نجانے کب یہ دیوار گرے جو صدیوں سے ان دونوں کے بیچ میں کھڑی ہے ۔ " زاہرہ آپا میرے لئے ذرا ایک کپ چائے کا تو بھجوا دیں پلیز ۔۔ سر درد سے پھٹ رہا ہے ۔۔ " بغیر اس پر نظر ڈالے وہ اوپر کو چل دیا اور حرم نے یہ سن کر چونک کہ پیچھے دیکھا جہاں اب وہ نہیں تھا ۔ ' میں تو بالکل بھول گئی بدر کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ۔۔ ابھی تک اسکی طبیعت معلوم کرنی تھی اور اب بالکل اگنور کردیا وہ تو بس پوچھ ہی رہا تھا افف حرم ۔۔۔' خود کو کوستی وہ خود ہی چائے چڑھانے لگی ۔ شاید وہ یہ بات بھول رہی تھی کہ انکا رشتہ عام میاں بیوی کی طرح نہیں ہے ۔ " آپ رہنے دیں زاہرہ آپا میں کرلوں گی ۔۔ ویسے بھی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔۔ " " شکریہ بچی ۔۔ " جاری ہے _______~
❤️ 👍 😮 😂 😢 🙏 222

Comments