Novel Ki Dunya
June 20, 2025 at 02:54 AM
#ایک_ستم_محبت_کا
#ازقلم_زینب_سرور
#قسط_نمبر_12
تھوڑی دیر بعد ہی حرم نے آہستگی سے دروازہ کھولا تو کمرے کو ویسے ہی سونا پایا ۔ صرف نور بیڈ پر پھیلی سورہی تھی ۔ حرم بے اختیار مسکرا دی ۔۔ اوہ مطلب وہ رات والے کمرے میں ہے ۔۔ حرم نے واپس دروازہ بھیڑا اور چائے کی پیالی تھامے سامنے کمرے کو چل دی ۔
ہاتھ دروازے کو کھٹکھٹانے کے لئے اٹھے لیکن پھر وہ ایسے ہی کھولے اندر آگئی ۔ جب کمرے میں تو کوئی نہ دکھا ۔۔ حرم یونہی واشروم کے دروازے تک گئی پھر کان لگا کر سنا ۔ اندر سے پانی کی آواز نہ آرہی تھی ۔
' وہ اندر ہے بھی یا نہیں ؟ ' حرم نے مزید سر دروازے سے جوڑا کچھ اس طرح کے اب کی وہ دروازے کے سہارے کھڑی ہوگئی تھی اس بات کو بھلائے کے ہاتھ میں گرم چائے کا کپ ہے ۔ تب ہی دروازہ دھب سے کھلا ۔ اور عین وقت پر وہ ٹراؤزر میں ملبوس بدر پر گری جبکہ چائے کی پیالی اسکا ہاتھ جلاتی ہوئی زمین بوس ہوگئی ۔۔ پرچ اور کپ کی کرچیاں کمرے میں دور تک جا پھیلیں ۔ حرم کے منہ سے بے اختیار چیخ نمودار ہوئی مگر چونکہ یہ کمرہ بالکل آخر میں تھا تو آواز زیادہ دور نہیں گئی ہوگی ۔
" یہ کیا ۔۔ حرم ! " گرم چائے اسکے سیدھے ہاتھ کو کلائی تک جلا گئی ۔ بدر نے تڑپ کر پکارا اور اسے کندھوں سے پکڑتے سیدھا کیا ۔ اسکی آنکھوں میں جھلکتی نمی اور دانتوں تلے دبایا ہوا نچلا لب ۔ بدر کے دل کو اندر تک کچھ ہوا ۔
" بیٹھو دکھاؤ مجھے ۔ " بیڈ کراؤن سے ٹیک لگواتا وہ اب اسکا ہاتھ پکڑے معائنہ کر رہا تھا ۔ حرم نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا دھلا دھلا سا شفاف شہرہ بال گیلے تھے جن سے ننھی پانی کی بوندیں ٹپک رہی تھیں ۔ اور آنکھیں شاید ہلکی سرخ ہورہی تھیں ۔ وہ سہی سے دیکھ نہ سکی کیونکہ اسکا سر جھکا ہوا تھا ۔
" پورا لال ہوگیا ہے یہیں بیٹھو میں دوا لے کر آؤں ۔ " وہ اٹھ کر پہلے سامنے والی ڈریسنگ کی دراز میں جھکا ۔ مگر کچھ نہ ملا ۔
" ہمارے کمرے میں ہے فرسٹ ایڈ باکس ۔ " حرم کی دھیمی سی آواز پر اس نے مڑ کے پیچھے دیکھا وہ سر جھکائے بیٹھی تھی سنجیدگی سے ۔
" میں لے کر آتا ہوں ۔ " بدر بھاگتے ہوئے دوسرے کمرے میں گیا جہاں نور سکون سے سو رہی تھی ۔ پھر سائڈ ٹیبل کی دراز کھولی اوپر والی پھر نیچے والی اور باکس نکالتا واپس آیا ۔
وہ اندر سے خوش ہوا حرم نے خود اس سے بولا اور کچھ کہا بھی نہیں ۔۔
" مل گیا ۔ چلو دکھاؤ ۔ " اسکے سامنے بیٹھتے ہوئے ہاتھ پکڑا ۔
" بس ٹھیک ہے باقی ۔ میں کرلوں گی ۔ " اسے ہولے سے کہتی وہ نرمی سے بدر کا ہاتھ پکڑ کے ہٹانے لگی ۔ اسکے ہر عمل آج سختی نہ تھی بلکہ نرمی تھی ۔ بدر نے بغور حرم کا چہرہ دیکھا جو جھکا ہوا تھا ۔ کیا کچھ ہوا ہے جو بدر نہیں جانتا ؟
" جب تم پوری رات میرے سرہانے بیٹھے ٹھنڈی پٹیاں کر سکتی ہو تو میں بھی یہ کام کر سکتا ہوں ۔ " حرم نے لب کھولے مگر بدر نے چپ کروا دیا ۔
پھر وہ کچھ نہ بولی اور بدر نے اسکے واپس جھکی نظروں کو مسکراتے دیکھ مرہم لگانے لگا ۔
" جلن ہورہی ہوگی نہ ۔۔ " مرہم لگی انگلی کو آہستہ آہستہ اسکے ہاتھ پر پھیرتے وہ حرم کو نظروں کے حصار میں لئے کہہ رہا تھا ۔ جبکہ اسکی گھنیں پلکیں ویسے ہی جھکی ہوئی تھیں ۔
" ہمم اتنی نہیں ۔۔ " وہی دھیما لہجہ ۔ بدر کے دماغ میں کھٹک رہا تھا وہ سنجیدہ کیوں ہوگئی ہے یکدم ۔
" چلو تم اب یہیں بیٹھو میں ذرا یہ صاف کروا دوں ۔۔ " کمرے میں پھیلی کرچیوں کو دیکھتے وہ اٹھ کر کہنے لگا ۔
" میں نور کے پاس جا رہی ہوں عصر کی نماز میں بھی کچھ وقت ہی ہے ۔ " وہ اٹھنے لگی تو بدر نے خود ہی ایک ہاتھ کا سہارا دیا ۔
" میری ٹانگیں اور بازو سلامت ہیں بدر ۔ " آہستگی سے کہتے بدر کو یوں لگا جیسے وہ مسکرائی بھی تھی ۔
" آہ کپڑے بھی تو خراب ہوگئے تمہارے میں نکال دیتا ہوں ۔ " بدر کی نظر اسکی پیلی قمیض کے داغ پر پڑی تو بول اٹھا ۔
" میں بدل لوں گی تم چائے منگوا لو ساری گر ہی گئی سوری ۔ " بول کر وہ چلی گئی جبکہ بدر نے حیرت سے اسے جاتے دیکھا کیا واقعی حرم نے اسے سوری کہا تھا ۔
" یہ انقلاب ہے بدر یا تیری آنکھوں کا دھوکا ۔۔ " اس نے مسکراتے ہوئے جھرجھری لی ۔ اور زاہرہ آپا کو بلانے چلا گیا ۔
" آپا دو کپ چائے نکال دیں اور کسی کو بھیج کے اوپر کمرہ صاف کروا لیں ۔۔۔ "
_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_
بدر کمرے میں چائے کے کپ پکڑے ہوئے آیا تو سب سے پہلے انہیں احتیاط سے ٹیبل پر رکھ دیا ۔ حرم شاید واشروم میں کپڑے تبدیل کر رہی تھی ۔ پھر وہ بیڈ پر نور کے پاس جا بیٹھا اور پیار سے بال سہلانے لگا ۔
" میرا چھوٹا بچہ ۔ ڈیڈو کی جان ۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن ڈیڈو کو زندگی کا خوبصورت تحفہ اس طرح ملے گا ۔۔ ڈیڈو کو نور بھی ملے گی ۔ " اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرتے وہ شاید سوتی ہوئی نور سے مخاطب تھا ۔ واشروم کا دروازہ کھٹ کی آواز سے کھلا تو حرم کھلے بالوں کے ساتھ باہر نکلی ۔ پیلا جوڑا اب اس نے سرخ کوہِ نور کے رنگ جیسے جوڑے میں بدل لیا تھا ۔ جس کے گلے پر ایک باریک سی ستاروں کی بیل تھی جبکہ پورا سوٹ سادہ تھا ۔ سادے سرخ جوڑے کے ساتھ سرخ و سنہری دھاریوں والا دوپٹہ تھا ۔ جو فلوقت ہینگر میں ٹنگا صوفے پر رکھا ہوا تھا ۔
حرم نے ایک نظر بیڈ پر دوڑائی تو تصادم بدر کی نگاہوں سے ہوا ۔ جو اس ہی کی طرح دیکھ رہا تھا ۔ سنجیدہ سے چہرے اور آنکھوں میں ایک الگ سی بات تھی ۔
حرم نے نگاہ چرا لی تو بدر سانس بھرتے واپس نور کی جانب ہو لیا ۔ اور اسے جان بوجھ کر پیشانی پر بوسہ دے کر اٹھ کھڑا ہوا جس پر شیشے سے دیکھتی وہ دیکھتی رہی مگر کچھ بھی کہے بغیر نظریں نیچے کر گئی ۔ اور بدر کو ایک بار پھر کھٹکھٹا سا لگا ۔ حرم واقع کسی بات پر چپ ہے یا بدر کچھ زیادہ سوچ رہا ہے ؟
" چائے ! " وہ جو صوفے پر آکے بیٹھی تھی اپنے برابر سے آواز آنے پر چونک کر بدر کو دیکھا ۔ جو اسکے ساتھ ہی بیٹھتے چائے کا کپ آگے کر رہا تھا ۔
" ایسے کیا دیکھ رہی ہو ؟ چائے ٹھنڈی ہوجائے گی نہ ۔۔ " وہ جو ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگی تھی بدر نے اسکی نظروں کا زاویہ بدلا ۔
" نہیں کچھ نہیں ۔ " کپ پکڑتے وہ بس اتنا ہی کہہ گئی ۔ بدر نے ہاتھ میں پکڑے کپ کے اڑتے ہوئے دھوئیں کے پار سے اسے دیکھا ۔۔ وہ آگے ہو کہ بیٹھی ہوئی تھی جبکہ بدر کو صرف اسکے کھلی بال پشت پر پھیلے نظر آرہے تھے ۔ جب اس سیدھے ہاتھ سے تھوڑے بال کان کے پیچھے کئے جس پر نظریں بہک کر اسکے لال ہوتی ہاتھ کی جلد پر گئیں ۔
" اس پر برف کی سکائی کرنے سے یہ جلدی ٹھیک ہو جائے گا ۔ " حرم نے پہلے سر گھوما کر بدر کو دیکھا پھر اپنے ہاتھ کو ۔
" ہمم اچھا ۔۔ " پھر سے وہی چھوٹا سا جواب اور سنجیدہ سادہ لہجہ ۔ بدر سانس بھرتے سیدھا ہو کہ بیٹھا ۔ اور چائے کا اَن چھوا کپ ٹیبل پر واپس رکھا وہ اب بھی ویسے ہی سوچوں میں غرق بیٹھی تھی ۔ بدر نے بیچ سے فاصلہ کم کیا اور آہستہ سے کپ اسکے ہاتھ سے لے لیا ۔ جس پر بغیر کسی مزاحمت کے حرم نے کپ چھوڑ دیا ۔
' اوہ تو واقعی کوئی بات ہے ۔ ' بدر نے دل میں سوچا ۔ حرم کوئی مزاحمت نہیں کر رہی ہر بات پر سر ہلا رہی ہے اور چپ بھی ہے ۔ اسکا ایک کی مطلب ہوتا تھا وہ کسی بات کو پیچیدہ بنا کر سوچ رہی ہے اسکا دماغ الجھنوں کا شکار ہے ۔ اسکا ہاتھ اپنے میں لیتا وہ حرم کو خود کا احساس دلانا چاہتا تھا ۔ حرم کی نظریں ہاتھوں پر گئیں تو وہ بس دیکھتی رہی کچھ نہ بولی ۔
" ویسے تو اس سیچئیویشن میں میرا موڈ کچھ اور بھی ہوسکتا تھا مگر چونکہ تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تو بس اتنا ہی پوچھوں گا ۔۔ " اب کی حرم کا چہرہ اپنے سامنے کیا تھا ۔
" کیا بات ہے حرم ؟ کیا سوچ رہی ہو کب سے ؟ " حرم جو اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی نظریں نور کی جانب کیں جس نے ابھی ابھی کروٹ بدلی تھی اور اب اسکا معصوم چہرہ حرم کی جانب تھا ۔
" سوچ رہی ہوں کہ ۔۔۔ " اور یہاں اسکا صبر لبریز ہوا تھا جبکہ آنکھوں میں نمی چھلکی تھی جس سے نور کا دکھتا چہرہ دھندلا گیا ۔
" ہمم کیا سوچ رہی ہو ؟ " اسکے ہاتھوں پر دباؤ ڈالتا وہ اب اس طرح بیٹھا تھا کہ حرم اسکے سامنے بیٹھی لگتی تھی ۔
" ماں بابا اور سمیر ۔۔۔ کیسے ہوں گے سب ؟ " بول کر اس نے سر جھکا لیا جبکہ لب کاٹ کر آنسوں روکنے کی ناکام کوشش میں ایک دو قطرے بدر کے ہاتھ پر بھی کر گئے تھے ۔
" سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ " بدر نے دھیمی آواز میں کہا جبکہ سمیر کے نام پر اسکا اپنا دل بھی مٹھی میں قید ہوگیا تھا ۔ حرم تک وہ کیسے یہ بات پہنچائے گا کہ اسکا بھائی اب نہیں رہا ؟
" بدر ! " کشمکش میں ڈوبا بدر چونک گیا جب حرم کی روندتی ہوئی آواز میں پہلی بار خود سے اپنا نام سنا ۔ وہ پہلی بار بدر کو خود سے پکار رہی تھی ۔
" بولو ۔ " اسکو پیچھے سے اپنے حصار میں لیتے بدر نے سرگوشی کے انداز میں کہا ۔ جبکہ بدر کے پرفیوم کی اٹھتی خوشبو اسے بہت قریب تر محسوس ہوئی ۔
" تم نے کہا ۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔ " بدر نے اسکا جلا ہوا ہاتھ اپنی گود میں رکھ لیا تھا ۔ جبکہ دوسرا ہاتھ بھی اپنے ہاتھوں میں تھا ۔
" ہاں بالکل سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔ " اسکی انگلیاں اب حرم کی ہتھیلی پر رینگ رہی تھیں ۔ جیسے یہ واحد حل ہو اسے پرسکون کرنے کا ۔
" میرا دل بے چین رہتا ہے بدر ۔ اتنے سال ہوگئے نہ اب تو ۔ " اسکی آواز یکدم بیٹھ گئی تھی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے تھے ۔
" ان کو بھی میری یاد تو آتی ہوگی نہ ۔۔ " اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے چھڑاتی وہ آنسو صاف کرنے لگی ۔ بدر نے ایک بھاری سانس لیا ۔ وہ سب کچھ دیکھ سکتا ہے مگر حرم کو روتا ہوا نہیں دیکھ سکتا ۔
" حرم ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا میں وعدہ کرتا ہوں ۔۔ دیکھنا آنکل آنٹی خود آئیں گے تم سے ملنے ۔ " اسکی انگلیوں کو اپنی انگلیوں سے قید کرتے وہ اس طرح گویا ہوا کہ حرم نے اس بار پلکیں اٹھا کہ اسے دیکھا ۔
" بدر تمہیں پتا ہے اس سال نور کتنے سال کی ہوجائے گی .. " وہ کبھی کبھی عجیب سوال کر جاتی تھی ۔ اسکے اس عجب سے سوال پر بدر نے پہلے نور کو دیکھا جو اب واپس سے سیدھی ہوکر لیٹ گئی تھی ۔۔ کیا وہ بیدار ہورہی ہے یا شاید سو رہی ہے ؟
" پانچ سال کی ۔ " بدر کے جواب پر وہ تلخ سا مسکرائی اور نور کی جانب دیکھتے ہوئے بدر کی جانب جھکی ۔
نور نے ایک بار پھر کروٹ بدلی اور ان دونوں کی جانب پشت کرلی ۔ جبکہ پیر کا انگوٹھا انگلیوں سمیت اب کی واضح طور پر ہل رہا تھا ۔ حرم نے الٹا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا اور کان تلک پاس ہوئی ۔
" اور ان پانچ سالوں میں کبھی انہوں نے پلٹ کر بھی میری خبر نہ لی ۔ نہ ہی میں کبھی دوبارہ ڈھونڈ سکی ۔ اب کچھ ٹھیک نہیں ہوگا بدر کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا ۔ " اسکے کان میں سرگوشی کرتی اب وہ اپنا سر دوسرے کندھے پر ٹکا گئی آنکھوں میں آنسوں نہ تھے چہرے پر رونے کی شبی تک نہ تھی ۔ وہ پھر سے پہلے جیسے ہوگئی تھی ۔
" میں سوچ رہی ہوں نور کی برتھ ڈے کینسل کردیتے ہیں تم کیا کہتے ہو بدر ۔ " بدر جو حرم کے اس عمل پر حیران ہورہا تھا اسے اب سمھجہ آیا کہ اس نے کان میں کیوں بات مکمل کی ۔۔
" ہاں نور کو اس کے بڈی کے پاس چھوڑ کر میں تو کہتا ہوں ہم گھومنے چلتے ہیں ویسے بھی بڈی کے سامنے ہم دونوں کو بھول جاتی ہے نور ۔ " نور کی جانب دیکھتے اس نے حرم کے بالوں میں انگلیاں پھیریں ۔ حرم نے بھنویں سمیٹیں اور نگاہ اوپر کر کے بدر کو دیکھا ۔
" تمہیں اووَر ہونا ضروری ہے ؟ زیادہ چپکو نہیں ۔۔۔ " بدر کے انگلیاں پھیرنے پر حرم نے پھسپھسا کر کہا ۔ جس پر اس نے مزید ہڈ دھرمی دکھائی اور چہرے پر جھولتی لٹ پیچھے کی ۔
" اتنی دیر سے میرے ساتھ کون بیٹھا ہوا تھا اور جب ہاتھ پکڑا تھا ۔۔ "
" اچھا بس بس ہٹو دور ۔۔ " اسکی چلتی زبان کو روک کر وہ سیدھی ہوئی ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان دونوں کے بیچ کوئی پیاری بات ہوجائے ۔ نہیں کبھی نہیں حرم اور چپ رہے گی یہ تو نا ممکن سی بات تھی ۔۔ بدر نے افسوس میں سر ہلایا ۔
" تم کبھی نہیں سدھر سکتیں اونہہ اَن رومینٹک ۔۔ " آخر میں بدر نے منہ ٹیڑھا کر کہ اسے ' اَن رومینٹک ' کہا تھا جس پر حرم نے منہ بسورا ۔۔
" تمہارا تو کام ہی رومینٹک سکریپٹ لکھنا ہے نہ ۔ ( اسکا انداز چڑانے والا تھا ) نور جاگ گئی کچھ شرم کرلو ۔ " بدر نے اس بات معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا تو حرم نے کندھے اچکائے جیسے پوچھ رہی ہو " اس میں ایسی کیا بات ہے " ۔۔۔۔ وہ دونوں دھیرے دھیرے بول رہے تھے ۔
" کچھ نہیں ۔ تم نے ہی کہا نور جاگ گئی اب دوبارہ سوجائے گی تو کنٹینیو کرلیں گے ۔ " اسکی جانب جھکتے نظریں نور کو دیکھتے ہوئے حرم کے کان میں سرگوشی کی جس پر وہ بدک کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی ناراضی چہرے پر عیاں تھی ۔ نور جو کب سے جاگ رہی تھی اب بس اور نہ لیٹ سکی اور انگڑائی لیتی ابھی ابھی اٹھنے کا ناٹک کرنے لگی ۔
" بے شرم ۔۔ " پاس رکھا کشن اسکے اوپر مارتی وہ نور کے پاس چل دی ۔ اور حرم کی اس ادا پر بدر کی مسکراہٹ کم نہ ہوسکی ۔ وہ مانے یا نہ مانے اس نے بدر کو اپنا لیا تھا ۔ وہ بولتی نہیں تھی مگر اس نے بدر پر بھروسہ کرنا شروع کردیا ہے شاید یہ بات وہ خود سے چھپا رہی ہے ۔
" اٹھ گئی میری شہزادی ۔۔ " اسکو خود میں بھینچ کر اس نے نور کا ماتھا چوما تھا ۔ پھر پیار سے اسکے بالوں کو چہرے سے پیچھے کیا ۔ جبکہ نور نے اپنے ننھے بازوؤں کا گھیرا حرم کے گرد باندھ لیا ۔
جبکہ بدر نے چائے کے کپ افسوس سے دیکھے اور اٹھ کھڑا ہوگیا ۔ لگتا ہے آج کی چائے اس کے نصیب میں نہیں ۔ لیکن اسکا درد سے پھٹتا سر حرم نے ٹھیک کردیا تھا ۔ اسکے عمل میں اتنی طاقت تو تھی کہ وہ اسکا سر درد ٹھیک کردے ۔ اس سے بات کر کے تو پہلے بھی سارے درد بھول جایا کرتا تھا شاید ابھی بھی وہ بھوک گیا تھا کہ اس کے سر درد ہورہا تھا ۔
" مما ۔ " نور نے حرم کے چہرے پر ہاتھ رکھتے اتنے پیار سے کہا کہ بدر جو اسکے سامنے بیٹھا تھا مسکرا اٹھا ۔
" جی مما کی نونو ۔ کیا بولنا ہے میری بیٹی کو ۔ " سر کو بیڈ کراؤن سے ٹکائے اسنے انگلیاں نور کے سر میں پھیرتے ہوئے کہا تھا ۔ جبکہ بدر کو اپنے برابر میں بیٹھتے منہ بسورنا نہیں بھولی تھی ۔
" نونو کا بی بد ڈے منائیں ناں ۔ " اسکے کہنے پر ان دونوں کہ ہلکی ہنسی نکلی جسے بروقت چھپا لیا۔
" کس نے کہا کہ نور کا برتھ ڈے نہیں منائیں گی مما ۔ " حرم کے سوال پر نور نے ہونٹوں کو گول کیا اور اوپر چہرہ اٹھایا ۔ بھنویں سمیٹیں اور اپنے انداز آنکھیں جھپکتے ہوئے اپنے مما اور ڈیڈو کو دیکھا ۔۔ نور جانتی تھی مما نے کہا ہے بڑوں کی باتیں سننا بری بات ہے ۔ اب وہ تو یہ بتا نہیں سکتی تھی ۔۔۔
" نونو نے ڈریم دیکا ناں مما ۔ ڈیڈو نے بھی بولا۔ " اور اپنی کی اس چالاکی پر ششدر رہ گئی۔ بدر نے بھی آنکھوں کا زاویہ بدل کے حرم کو واہ کے انداز میں دیکھا ۔
" زیادہ بنو مت تم نے ہی سیکھایا ہے نہ میری بچی کو ۔" بدر کو دیکھتی ہوئی وہ دانت پیس کر آہستہ سے کہنے لگی ۔
" یہ ہر بار مجھ پر کیوں آجاتی ہو ۔۔ اور میری بچی میری بچی کیا ہوتا ہے ۔۔ " بدر نے بھی بھنویں سمیٹیں ۔۔ نور حرم سے دور ہوئی اور دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے پھولا ہوا منہ لیے ان دونوں کو دیکھنے لگی ۔
" اچھا اور ابھی وہاں کون کہہ رہا تھا کہ نور کا برتھ ڈے نہیں ہوگا ۔۔ وہ بڈی کے پاس رکے گی اور گھومنا پھرنا ہاں ۔۔" حرم پوری بدر کی جانب گھوم گئی تھی۔ جبکہ نور کبھی بدر کے تاثرات دیکھتی تو کبھی حرم کے ۔
" شروع تو تم نے کیا تھا نہ ۔ کہ برتھ ڈے کینسل ۔ " بدر نے بھی بدک کر کہا ۔ وہ سب کچھ اس پر کیسے ڈال سکتی تھی ۔۔
" تم نے ہی کہا تھا کہ نور اٹھ گئی ہے ۔۔ " حرم نے دونوں ہاتھ بازوؤں کے گرد باندھے اور منہ ٹیڑھا کر لیا جبکہ اس الزام پر تو بدر کا منہ ہی کھل گیا تھا ۔۔ اس نے نور کے دیکھا جو سنجیدگی سے دونوں کا معائینہ کر رہی تھی ۔۔
" اب یہ زیادتی ہے جانم ۔" اس نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا جبکہ حرم نے جانم کہنے پر عجیب سا منہ بنایا ۔ اور نور نے اپنا ننھا ہاتھ افسوس سے سر پر دے مارا ۔
" جانم کیوں بولا کیوں بولا ہاں ؟ " حرم نے انگلی دکھائی تو نور اٹھ کھڑی ہوگئی لیکن وہ دونوں تو خود میں مصروف تھے ۔
" میں تو بولوں گا جانم جانم جانم ۔۔ " معنوں اس کو چڑایا گیا ہو ۔۔ اور وہ لب کھول ہی رہی تھی بولنے کے لئے کہ ۔
" نونو تے اَن رومینتک پیرنٹس۔۔ ( نونو کے اَن رومینٹک پیرنٹس ) " نور کی آواز پر ان دونوں نے اسکی جانب دیکھا جو اب منہ ٹیڑھا کئے بیڈ سے نیچے سر دائیں بائیں جیسے افسوس میں ہلا کر اتر رہی ہو ۔ پھر ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور بے اختیار ہنس پڑے ۔
نور نے انکی ہنسی پر آنکھیں چھوٹی کئے پیچھے دیکھا اور سانس بھرتے گویا ہوئی ۔۔۔
" ویری ویری ویری اَن رومینتک ۔۔ " بول کر وہ بڑوں کی طرح ہاتھ پیچھے باندھے سر جھکائے کمرے سے واشروم میں چلی گئی ۔۔
" ارے رکو ڈیڈو کی پرنسس ۔۔ " بدر اب بھی ہنس رہا تھا جبکہ حرم بھی مسکراتی ہوئی اسکے پیچھے چل دی ۔
جاری ہے ...
❤️
👍
🙏
😂
😮
😢
227