Novel Ki Dunya
June 20, 2025 at 11:15 AM
#ایک_ستم_محبت_کا
#ازقلم_زینب_سرور
#قسط_نمبر_13
( ✨ Haram badar special ❤️ )
نور جو ان دونوں ( اَن رومینٹک پیرنٹس ) کو نظر انداز کئے واشروم میں گھس گئی تھی ۔ حرم کو اپنے پیچھے پیچھے آتے دیکھ رکی اور گھوم کر اپنی ماں کو بھنویں سمیٹیں ہوئے دیکھا ۔۔ لبوں کو اوپر کئے وہ حرم کو گھور رہی تھی جس پر اسکی ہنسی چھوٹ گئی ۔
" ایسے کیا دیکھ رہی ہے میری بیٹی ۔۔ " اس کو اٹھا کہ اوپر واش بیسن کے سلپ پر بٹھایا جس کے پیچھے سٹینڈ اور دیگر چیزیں رکھی تھیں ۔۔
" ہاں تو نور کو یہ اَن رومینٹک ورڈ کس نے سکھایا ہے ؟ بتاؤ مما کو ۔ " پیچھے شیلف میں سے بے بی فیس واش اٹھا کہ اس نے تھوڑا سا اپنے پوروں پر نکالا اور پھر ٹیوب واپس رکھ دیا ۔ اب وہ نور کے چہرے پر لگا رہی تھی ۔
" بتاؤ بھی نونو ۔۔ " اسکی ناک کو چھیڑتی وہ چپ سادھے بیٹھی نور سے پوچھنے لگی ۔ جو حرم کی اس حرکت پر چوں چاں کرتے ذرا پیچھے ہوئی ۔
" مما دیڈو سے فائت کرتی ہیں ناں ۔ " اسکی بات پر حرم کا چلتا ہاتھ رکا تھا اور حرم نے نور کو جاچتی نگاہوں سے دیکھا ۔
" بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے میری بیٹی ۔۔ لَو یو ڈیڈو کی جان ۔۔ " بدر جو پیچھے کھڑا باتیں سن رہا تھا بولے بغیر نہ رہ سکا ۔ حرم نے شیشے سے ہی اسے گھورا اور پھر نل کھول کر نور کا منہ دھلانے لگی ۔
" جانتی ہوں اچھے سے یہ ساری پٹیاں تم ہی پڑھاتے ہو ۔ "
" نو مما نو ۔۔۔ " نور نے پانی سے بھیگے چہرہ اٹھائے حرم کا ہاتھ پکڑا ۔
" نور چہرہ صاف کرواؤ ۔۔ منع کیا ہے نہ بڑوں کے بیچ میں نہیں بولتے ۔ " اسکا چہرہ واپس جھکاتے وہ پانی ڈالنے لگی ۔۔
" بت مما پیرنتس سے کمونیتیشن کرنی اچّی بات اوتی ناں ۔ ( بٹ مما پیرنٹس سے کمیونیکیشن کرنی اچھی بات ہوتی ہے نہ ) " حرم نل بند کر کے اسکو دیکھتی گئی جسے بولنا نہیں آرہا تھا مگر بولتی بند بھی نہ ہورہی تھی ۔ بدر کا پیچھے سے قہقہ نکلا ۔
" پہلے بڑی ہوجاؤ پھر کرلینا اپنی کمیونیکیشن ہاہاہا ۔۔ " اسکی ناک کو ایک بار پھر کھینچتی وہ نور کو منہ بنانے پر مجبور کر گئی ۔ بدر بھی حرم کی بات پر ہنس دیا ۔۔ اور نور کا " کمونیتیشن " دھرایا ۔
" کیا بولا نور نے کمونیتیشن ہاہاہا کمونیتیشن ۔۔۔ "
" مما ڈیدو دیتھیں ناں ۔۔ ( مما ڈیڈو کو دیکھیں ناں ) " اسکے اس طرح روندتی شکل بنائے شکایت کرنے پر بدر نے حیران ہوتے دیکھا ۔۔۔
" اچھا بچو پہلے ڈیڈو کی سائڈ تھیں اب مما کو میری ہی شکایت لگائی جا رہی ہے ۔ " حرم نے نور کو نیچے اتارا تو اس نے سنجیدگی کے ساتھ نیچی نگاہوں سے بدر کو دیکھا اور پھر سیدھی سیدھی بڑوں کی طرح باہر چل دی ۔ وہ دونوں بس اپنی ہنسی روک سکے ۔۔ ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھا تو حرم نے باہر نکلتے بدلتا منظر مسمار کردیا ۔
" چلو نور ادھر آؤ چینج کروا دوں ۔ " پیچھے سے بدر مسکرا کے سر جھٹک گیا ۔ کچھ تو تھا جو پہلے جیسے نہ رہا تھا ۔۔۔
🖤_________~
رات چاروں اطراف پھیل چکی تھی اور گھر میں گہما گہمی بھی لگ گئی تھی ۔ کل سانیہ کی ڈھولکی تھی ۔ اور پھر لگاتار ہر دن ایک نہ ایک فنکشن ۔۔۔ جبکہ آج رات انہوں نے برائڈل شاور رکھا تھا رات گئے یہ شروع ہونا تھا ۔ برائڈل شاور پر کچھ قریبی کزن اور سانیہ کی دوستیں اکھٹا ہوئیں تھیں ۔۔
حرم نے کپڑے ایک بار پھر مجبوراً موقع دیکھتے تبدیل کئے ۔ اب وہ سیاہ فراک اور پجامے میں ملبوس تھی ۔ فراک جس پر جگہ جگہ ستارے لگے تھے ۔ شفان کا دوپٹہ آج اس نے کندھے پر ڈال رکھا تھا ۔ بال بھی سانیہ کے پرجوش اسرار پر کھول لئے تھے جن کو بیچ کی مانگ نکال کر سائڈ سے ہلکا کرل کرلیا تھا ۔ چہرے کا ہلکا پھلکا میک پک ، گلے میں نازک سی سلور کی چین اور کان میں جگمگاتے نگینے ۔ ہاتھ کی انگوٹھی سے لے کر پیروں میں پہنی ہیلز تک وہ کہیں سے بھی ایک بچی کی ماں نہ لگ رہی تھی ۔ ہاں وہ لگ رہی تھی ایک قابل شخصیت ۔ پھر آخر میں سیدھی کلائی میں ہمیشہ کی طرح وہ گھڑی پہننا نہ بھولی تھی ۔ تب ہی نور دروازے سے اچھلتی کودتی اندر آئی ۔
" مما دیتھیں ۔۔۔ ( مما دیکھیں ۔۔۔ )" اس نے بیڈ پر چڑھتے مزے سے کہا اور ہاتھ میں پکڑا بیگ ایک ہی جست میں بیڈ پر الٹ دیا ۔۔ اور حرم نے اسکی حرکت کو دیکھتے سانس خارج کئے کمر پر ہاتھ دھرا ۔
" یہ کیا ہے نور ؟" حرم کے کہنے پر نور نے دونوں ہاتھوں میں چاکلیٹس پکڑیں اور پھر بغور مطالعہ کن نظروں سے باری باری چاکلیٹس کو دیکھتے حرم کے آگے کیں ۔۔
" مما چاکلیٹ ہی ہے ۔ " اس نے اس طرح کہا جیسے نجانے کیا بتا دیا ہو ۔ حرم نے سر نفی میں ہلایا ۔۔۔
" کہاں ہیں یہ نور کے ڈیڈی ۔۔۔ میں بتاتی ۔۔۔ آہ " وہ جو بولتے ہوئے پیچھے مڑ رہی تھی بدر سے بری طرح جا ٹکرائی ۔
" کہاں جا رہی ہو تہ۔۔۔ " بدر بھی سر پر ہاتھ رکھے بولنے ہی لگا تھا مگر پھر اس پر نظر پڑی تو ٹہر سی گئی ۔ ہاتھ خودبخود ہی سر پر سے نیچے ہوگیا ۔ حرم نے اسکے اس طرح دیکھنے پر چہرے کے تاثرات نارمل کئے ۔۔ بھنویں جو سمٹیں ہوئی تھیں سیدھی ہوگئیں۔
" خوبصورت! " آخر کار اسکے سحر سے آزاد ہوکر بول ہی گیا۔ حرم نے تھوک نگلا اور سانس بھرتی یہاں وہاں دیکھنی لگی ۔ آخر کو تھی تو وہ ایک لڑکی ہی ۔
" آہ وہ میں ۔۔۔ " وہ جو نور کی چاکلیٹ والی بات بولنا چاہ رہی تھی اسکے بڑھتے قدموں سے بوکھلا سی گئی ۔
" ہمم بولو ۔۔ پیچھے مت جاؤ " اسکا ہاتھ پکڑ کر بدر اسے ایک جگہ پر روکتے ہوئے بولا ۔
" میں کہاں گئی ۔ وہ تم نے ۔۔۔ نور کو یہ کیوں دلائیں " حرم نے ایک نظر پیچھے نور کو بھی دیکھا جو چاکلیٹ کھانے میں اس قدر مگن تھی کہ اب اسے کسی " کمونیتیشن " کا خیال نہ تھا ۔
" اس قدر حسین لگنے کے بعد تم مجھ سے یہ سوال کر رہی ہو کہ میں نے ہماری بیٹی کو چاکلیٹ کیوں لا کر دیں ۔۔ " اسکی نظریں اور یہ دھیما لوہ دیتا لہجہ ۔ وہ کہنا کیا چاہ رہا تھا حرم سمھجہ نہ سکی ۔۔ جبکہ گھٹتے ہوئے فاصلے پر حرم نے ایک بار پھر پیچھے بیٹھی نور کو دیکھا جو سر ہلاتے مزے سے چاکلیٹ کھانے میں مگن تھی ۔ اور موقع کی نزاکت نے حرم کو اس طرح جکڑ لیا تھا کہ وہ یہ بھی نہ دیکھ سکی کہ نور نے کپڑوں پر چاکلیٹ لگا لی ۔۔ یقیناً اگر وہ بدر کے قریب نہ ہوتی تو ابھی حرم کا جملہ ہوتا اور نور کا پھولا ہوا منہ ۔
" مجھے سمھجہ نہیں آیا ۔۔ بدر ۔۔" اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ۔۔ وہ کبھی ایک تو کبھی دوسری آنکھ پر نظریں لے جارہی تھی ۔ کوئی شک نہ تھا کہ یہ معصوم انداز میں پلکیں جھپکانا نور نے اپنی ماں سے سیکھا تھا ۔ بدر نے نظروں کے بعد اپنا حصار اس پر ذرا تنگ کیا تو حرم کی سانسیں اٹک گئی ۔۔ بدر اندر ہی اندر سوچ میں بھی پڑ گیا تھا کہ حرم نے آج کوئی ری ایکشن کیوں نہ دیا ۔ ورنہ کل پرسوں تک تو جو حرم دیکھی تھی وہ تو بدر کو دیکھنے پر ہی اس طرح گھورتی تھی جیسے اس نے گناہِ عظیم کردیا ہو ۔
" مطلب یہ کہ ۔۔" اس نے کرل ہوئے بال دائیں جانب سے کان کے پیچھے کئے اور کان پر جھکا ۔ اس طرح کے پیچھے بیٹھی نور صاف واضح تھی ۔ اب کی بار حرم نے آنکھیں اس طرح کھولیں جیسے بھوت دیکھ لیا ہو جبکہ لب آپس میں زور سے پیوست کر لئے تھے ۔
" نور جب چاکلیٹ کھاتی ہے تو وہ دنیا بھول جاتی ہے ۔ اور یہ بھی کہ اسے کوئی کمیونیکیشن کرنی چاہئیے ۔۔ " حرم نے احتیاط سے چہرہ موڑا اور اس سے ذرا دور رکھتے بدر کو ان ہی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھا ۔
" اب بتاؤ ۔ نور کے چاکلیٹ کھانے سے ہمیں کتنا فائدہ ہوگا ۔ " اسکی بات کی نوعیت سمجھتی حرم نے خود پر چڑھا اسکا سحر توڑا اور بدر کو ہاتھ پکڑ کے دور کرنے لگی۔
" میں دور ہونے کے لئے کبھی نہیں آیا حرم ۔ ہاں ہمیشہ تم نے ضرور کیا ہے ۔۔ " حرم نے نظروں کا زاویہ بدلا تو بدر مسکرا گیا ۔ پھر اسکے کان میں پہنے نگینے والے ائیر رنگ کو دھیرے سے چھوا جس پر بدک کر ہلا ۔۔ کان میں جھولتے ائیر رنگ کو محسوس کرتے اس نے ناراضی سے اسے دیکھا ۔ جو اب حرم کی آنکھوں میں نہ دیکھ رہا تھا ۔ مگر حرم نے دیکھا تھا اسکی آنکھوں میں ۔ اسکی آنکھوں میں اپنے لئے وہ محبت جس کی خوشبو اسے خود میں بستی ہوئی محسوس ہورہی تھی ۔
" بدر ! " حرم کی آواز پر بھی اس نے نظریں ائیر رنگ پر سے نہ ہٹائیں ۔ جبکہ انگلی میں لپیٹی لٹ کو چھوڑتے اس نے سانس خارج کی جس سے لٹ مزید جھول گئی۔
" بدر کے آگے بھی بولو ۔ اتنی خوبصورت بیوی کے ہوتے ہوئے کوئی بیوقوف ہی ہوگا جو نہیں سنے گا ۔ " آہ ایک وہ ہے جو بدر سے دور رہنا چاہتی ہے اور ایک وہ جو حرم کو دور نہیں ہونے دیتا ۔ کبھی اپنی باتوں سے تو کبھی عمل سے وہ اسے ہر ممکنہ قریب رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اب وہ ہو بھی رہی ہے ۔۔ لیکن کیسے ؟
" وہ مجھے جانا ہے ۔۔ " اسے الفاظ نہ ملے تو یہی بول گئی ۔ اب کی بار جھولتی لٹیں چہرے پر آگئی تھیں۔
" اگر نہ جانے دیا جائے ۔۔۔ "
" میرا مطلب ہے کہ راستہ چھوڑو میرا ۔ مجھے دیر ہو رہی ہے ۔ " اب کی بار اس نے ذرا اپنے انداز میں بولتے ہوئے تیزی سے بدر کا حصار توڑا تھا ۔
' آہ اچھے سے بات کرتے کرتے یہ کیا کرا حرم ؟ ' دل کے کسی کونے سے جلدی سے سوال آیا تھا ۔ حرم نے نچلا دبائے اسے دیکھا جو واقع ایک پل کے لئے شاک ہوا تھا ۔ پھر نارمل ہوا ۔
" ٹھیک ہے ٹھیک ہے ویسے بھی میں تمہیں منا ہرگز نہیں رہا تھا ۔ " اور یہ وہ جملہ تھا جو وہ چاہتی بھی تھی اور سن کر دل مٹھی میں بھی آجایا کرتا تھا ۔۔ سانس خارج کرتی اس نے نظر نور پر ڈالی ۔ جو انگلی پر لگی چاکلیٹ چاٹ کر حرم کو مسکرا کے دیکھنے لگی ۔
" آہ یہ کیا کرا نور ۔۔ " اسنے نور کی گندی شرٹ دیکھ کر بدر کو خفگی سے دیکھا جس پر اس نے ادا سے مسکرا دیا ۔
" میں کروا دوں گا چینج اپنی جان کو تم جاؤ ۔۔" نور کے پاس بیٹھتے وہ حرم کو تسلی دے کر کہنے لگا ۔ پھر نور کے گال پر لگی چاکلیٹ انگلی سے اٹھائی اور اسکی ناک پر لگا دی ۔۔
" مما ڈیدو کو دیتھیں ۔۔ " اور یہاں ان دونوں کی پھر سے ہنسی نکلی تھی ۔
🖤_________~
نور کو اس نے کپڑے چینج کروا کے سلا دیا تھا جبکہ حرم اور باقی ساری لڑکیاں اوپر برائیڈل شاور کے فنکشن میں مصروف تھیں ۔ یہ تقریب اوپر چھت پر منعقد کیا گیا تھا ۔ سب نے سیاہ تھیم پر کپڑے زیب تن کئے ہوئے تھے جبکہ سجاوٹ بھی تھیم سے ملتی جلتی تھی۔
اس نے زیادہ کسی سے بات نہ کی تھی بلکہ سب نے خود آگے بڑھ کے اس سے بات کی تھی ۔ زارا سے اس نے سلام کے علاؤہ دوسری کوئی بات نہ کی تھی ۔ جو دور رہنا چاہے تو پھر حرم بھی خود سے قریب نہیں آتی ۔ اور ویسے بھی انکی کوئی ذاتی دشمنی نہ تھی ۔۔
وہ جس سے ملتی کوئی نہ کوئی تعریف لیے ہی واپس آتی ۔۔ اس وقت سانیہ اور اسکی دوستیں تصویریں بنوا رہی تھیں جب حرم گرل کے پاس آئی جہاں سے باہر کا مین گیٹ دکھتا تھا ۔ اور اسکے ساتھ بنا خوبصورت گارڈن ۔ جہاں اسے کوئی کھڑا ہوا نظر آیا ۔
" گھر کا تو کوئی فرد نہیں ۔ پھر کون ہے ؟ " سعید صاحب اس وقت سو چکے تھے ۔ حمزہ اور خضر اسکے سامنے ہی گھر سے باہر دوستوں میں نکلے تھے اور بدر نور کے پاس ۔۔۔
" بدر ! " حرم نے غور کیا بدر چلتا ہوا اس شخص تک آیا تھا ۔ پھر شاید اسے پکارا جس پر وہ شخص مڑا اور حرم چونک سی گئی ۔
" سرمد بلوچ ۔۔ یہ یہاں ۔۔ اور بدر کے ساتھ کیا کام ؟ " وہ دونوں کوئی بات کر رہے تھے وہ بدر کے تاثرات نہ دیکھ سکی مگر سرمد کی جلا دینے والی مسکراہٹ کچھ تو غلط تھا مگر کیا ۔۔۔
" بھابھی ۔۔ بھابھی ! آجائیں ۔ " پیچھے سے آتی سانیہ کی آواز پر وہ مڑی ۔۔
" ہاں آرہی ہوں ۔" اس نے دوبارہ نیچے دیکھا تو اب وہ دونوں باہر کی جانب جا رہے تھے ۔ کیا حرم کو دیکھ لیا تھا ؟ اس لئے باہر جارہے تھے ۔۔ نہیں نہیں کوئی اور بات ہوگی ۔۔
" اوہ ہاں میٹنگ ڈسکس کرنی تھی نا انکل نے ۔ میں کیسے بھول گئی وہ بزنس پارٹنر ہے ۔ حرم تم بھی ناں " خیالات جھٹکتے وہ سانیہ کے پاس چل دی ۔
تصویر کے وقت سارا نے بھی اسے گلے لگا لیا حرم بس مسکرا کر رہ گئی ۔۔
کوئی بھی دل سے برا نہیں ہوتا ۔بنا دیا جاتا بن جاتا ہے !
_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_
وہ سانیہ کے ساتھ تصویریں بنوا رہی تھی ۔ جب سامنے سے نور جھانک کر اندر آتی ہوئی نظر آئی ۔ نچلا لب دبائے وہ کسی شرارتی بچے کی طرح ہاتھ کمر پر پیچھے باندھے حرم کے ساتھ آکر کھڑی ہوگئی ۔
" بھاؤ ۔۔ " حرم اسکی جانب مڑی تو نور نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اسے ڈرایا ۔ جبکہ حرم سپاٹ چہرہ لئے دیکھنے لگی۔
" مما بھاؤ ۔۔ " حرم کو پکارتے ہوئے اس نے ایک بار پھر ڈرانے کے لئے ہاتھوں سے اشارا بنایا اور دانت دکھائے ۔ جس پر حرم بازو سینے پر لپیٹ کے سانس بھر گئی۔ نور نے دانت منہ میں بند کر ہاتھ نیچے کئے ۔ اور آنکھیں یہاں وہاں کر کے سب کو دیکھنے لگی ۔ اُس کی اِس حرکت پر آس پاس کھڑی لڑکیوں سمیت سانیہ اور زارا بھی ہنس دیں ۔
" مما بھاؤ ہاہاہا نور کی بھی عجب حرکتیں ہیں ۔ " سانیہ کی بات پر اس نے نظریں گھمائیں اور اپنی حرکت پر تعریف وصول کرتی منہ پر ایک ہاتھ رکھتی کھی کھی کھی کرنے لگی ۔ لیکن حرم کی کھنکھار پر واپس ہاتھ نیچے کرتے سنجیدہ سی اسے دیکھنے لگی۔
" نور کیا ٹائم ہورہا ہے ؟ " حرم کی بات پر اس نے ننھے کندھے آچکا دئیے ۔ اور ایک طرف سے ہونٹ ہلایا ۔
" رات کے بارہ بجنے والے ہیں اور نور سب کو ڈرانے میں مصروف ہے ۔ " اسکی اس بات پر نور نے گہرہ سانس چھوڑا اور مسکین شکل بناتے سانیہ کو دیکھا ۔
" آہ میرا بچہ ۔۔ " اس نے نور کو ہاتھ سے بلایا اور گلے سے لگا لیا ۔ " بھابھی تھوڑی دیر کی ہی تو بات ہے نور کو رہنے دیں ۔ ویسے بھی پھر کہا ملنا ہے اتنا وقت کہ اِس طرح وقت گزار سکوں ۔ "
نور نے شرارت بھری مسکراہٹ لئے سانیہ کو دیکھا جس پر اس نے بھی ایک آنکھ دبائی ۔ حرم سر ہلا کر رہ گئی ۔
" ہمم " حرم کی آواز پر وہ واپس سیدھی ہو کر ماں کو دیکھنے لگی جو اس وقت نور کی طرح آنکھیں چھوٹی کئے اسے دیکھ رہی تھی ۔ " سہی ہے لیکن آدھے گھنٹے بعد نور بیڈ روم میں سوئی ہوئی ملے مجھے ۔ انڈرسٹوڈ ؟ " سانیہ نے نور کی طرح فوراً گردن ہلائی ۔
" چلو میں ذرا کھانے کا دیکھ لوں ۔ " حرم نیچے چل دی اور نور خوشی سے اچھل کر سانیہ سے دور ہوئی ۔
" یا ہو نور اِش دی بیسٹ ۔ " دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بناتے اس نے پر جوش انداز میں ہاتھ ہوا میں بلند کئے۔
" اچھا جی اور آنی کا کوئی کریڈٹ نہیں ہاں۔ " سانیہ نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔ جس پر نور نے بتیسی دکھائی ۔
" آنی بی گریٹ ایں ۔ " وہ بولتی ہوئی اب سانیہ کا ہاتھ پکڑی کارنر پر لے جا رہی تھی ۔ سانیہ نے بیکری کارنر دیکھا تو مسکرا کر رہ گئی۔ پھر اسے ایک کپ کیک اٹھا کر دیا ۔
" جلدی جلدی کھا لو اس سے پہلے تمہاری مما میری بھی شامت بلا لیں ۔ " سانیہ کے کہنے پر اس نے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے ہنسی دبائی ۔ اور پھر وہ مزے سے کپ کیک کھانے لگی ۔
🖤___________~
حرم نیچے آئی تو سب معمول میں تھا ۔ جگہ جگہ پھولوں تو قمقموں سے سجاوٹ کی گئی تھی ۔ وہ کمرے میں گئی تو دیکھا کمرے میں بدر نہ تھا اس نے دونوں کمرے دیکھے وہ واقعی کہیں نہیں تھا ۔
' کیا بات کر رہے ہونگے وہ ساتھ میں کھڑے ؟ ' دل میں سوچتی وہ کچن میں گئی جہاں لذیز پکوان تیار ہوئے رکھے تھے۔ زاہرہ آپا کھڑی کام کر رہی تھیں ۔ تو کبھی کسی کی سے کچھ کروا رہی تھیں۔
" آپ اب تک سوئی کیوں نہیں ؟ " وہ ان تک پہنچتی ہوئی بولی اور ہاتھ سے چمچ لے کر سائڈ میں رکھا ۔
" ارے بیٹا بس یہ دو تین کام رہتے تھے وہی کر رہی ہوں ان سب کو سمجھانا پڑے گا نہ " اسکی فکرمندی دیکھ وہ پیار سے بولیں ۔
" کیٹرنگ سروس بلائی تو ہے آپ جائیے آرام کریں بہت رات ہوگئی ۔ یہ میں دیکھ لوں گی ۔۔ پھر صبح میرے ساتھ ناشتہ بھی تو بنوانا ہے نہ ۔ " آخر میں وہ ہلکا سا ہنس دی ۔ اور زاہرہ آپا بھی سر ہلائے اسکے سر پر ہاتھ رکھتیں باہر چل دیں ۔
" آہ زاہرہ آپا ویسے خدیجہ کدھر ہے ؟ میں نے کہا تھا اسے کہ آجانا ۔ کہاں ہے وہ ؟ " اسکے سوال پر انہوں نے پیچھے مڑ کے دیکھا۔
" وہ تو کمرے میں کھڑی تیار ہورہی تھی اوپر ہی گئی ہوگی اب ۔۔ "
" اچھا میں نے دیکھا نہیں شاید ۔۔ خیر آپ جائیں شب بخیر۔۔ " وہ مسکرا کے چل دیں اور حرم بھی سب کو کام سمجھاتی ہوئی واپس اوپر چلنے لگی ۔ تب ہی اسکے فون پر میسج آیا ۔ بدر نے میسج کیا ہوا تھا ۔
" میں باہر ہوں ذرا تھوڑی دیر تک آؤں گا ۔ " شاید پہلے سگنلز ویک تھے اسلئے دس منٹ پہلے کا میسج اب آرہا تھا اس نے بھی " اوکے ٹائپ کردیا ۔۔ اور فون بند کیا ہی تھا کہ دوبارہ میسج آیا ۔
" تمہارا ہاتھ کیسا ہے اب ؟ " ایک اور سوال حرم نے تیزی سے ٹائپنگ شروع کی ۔
" پوچھ تو ایسے رہے ہو جیسے گھر میں ساتھ نہیں ۔۔۔ " وہ لکھتے لکھتے رکی اور پھر کچھ سوچتے پورا میسج مٹا دیا ۔
" ٹھیک ہے پہلے سے تمہارا بخار کیسا ہے ؟ " اس میسج کو پڑھ کے یقیناً بدر مسکرایا ضرور ہوگا ۔
" میں بھی بالکل ٹھیک ۔ " اگلا میسج ٹن کی آواز سے آیا ۔۔
" ہمم چلو میں اوپر جا رہی ہوں۔۔نور بھی وہی ہیں نیچے کام دیکھنے آئی تھی ۔ " نجانے کیوں اس نے اتنی تفصیل سے لکھ ڈالا تھا جیسے وہ لوگ پہلے باتیں کیا کرتے تھے یونی کے وقت ۔
" خیال رکھنا میں آتا ہوں تھوڑی دیر تک۔ " حرم نے سانس بھرتے میسج دیکھا اور فون بند کردیا۔ اوپر سے نور کے کھلکھلانے کی آواز یہاں تک آنے لگی تھی۔ ضرور مستیاں کر رہی ہوگی ۔
وہ سیڑھیاں چڑھنے لگی جب باہر سے کچھ ہلچل مچتی ہوئی سنائی دی ۔ سامنے کھڑکی کے پار لان کا خوبصورت منظر نظر آتا تھا ۔ کیا کوئی باہر تھا ؟ وہ آگے ہی بڑھتی جب اوپر سے چیخ کی آواز سنائی دی۔
" نور ! " حرم بھی چیختی ہوئی نور کو پکاری اور تیزی سے اوپر بھاگی ۔ باہر لان سے آتی دبی دبی آواز اب مدھم ہوگئی ۔ اور دور سے نظر آتا آنچل غائب ہوگیا ۔۔
🖤___________~
کچھ دیر بعد ۔۔۔
یہ منظر ہے ایک ایسے علاقے کا جہاں عیاش لوگوں کی حکومت چلتی تھی ۔ کوئی کچھ بھی کرے کوئی روکنے ٹوکنے والا ابھی تک پیدا نہ ہوا تھا ۔ پولیس ایک کھلونے کی طرح تھی جسے صرف نوکروں کی طرح رکھا جاتا تھا ۔
وہ بار کے اندرونی حصے کا منظر تھا ۔ نیم وا روشنی میں ڈوبا سماء ۔ آس پاس پھیلی قیامت اور فضاؤں میں جھومتا رقص ۔ وہ ان سب کے بیچ میں ہونے کے باوجود بھی کہیں اور کھویا ہوا تھا ۔ ہاتھ میں پکڑا مشروب ختم ہونے کا تھا ۔ جب کوئی بھاگتا ہوا پاس آیا ۔ اس نے نظریں سامنے چلتے منظر سے نہ ہٹائیں اور ایسے ہی بولنے کا اشارہ کیا ۔
" سردار خضر نے کام کردیا ہے آپ کا ۔ اسکے کارندے کی یہ بولنے کی ہی دیر تھی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔ اور پھر وہ لوگ وہاں سے نکل گئے ۔ سامنے چلتا وہ منظر بے معنیٰ سا ہوگیا ۔
تقریباً بھاگتے ہوئے وہ پیچھے بنے کمروں میں سے ایک میں داخل ہوا اور پھر اپنے پیچھے کھڑے لڑکے کو واپس جانے کا اشارہ کیا ۔ وہ چلا گیا تو سرمد بلوچ مسکراتے ہوئے اس بے حال وجود کے قریب آیا ۔ اسے صرف یہی محسوس ہورہا تھا کہ کوئی زمین پر بیٹھا ہوا ہے ۔ اس وجود کا چہرہ واضح نہ تھا ۔
جاری ہے
❤️
👍
😢
😮
🙏
😂
178