Novel Ki Dunya
June 20, 2025 at 03:54 PM
#ایک_ستم_محبت_کا
#ازقلم_زینب_سرور
#قسط_نمبر_14
" کتنا انتظار کیا ہے تم سے ملنے کے لئے جانتی ہو ۔ " اسکے پاس زمین پر بیٹھتا وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا ۔ جبکہ وہ بے جاں سی زمین پر ڈھ گئی تھی ۔
" میں یہ کرنا نہیں چاہتا تھا مگر پھر مجھے اکسایا گیا۔ اور وہ کسی اور نے نہیں کیا تمہارے شوہر نے کیا ۔ " اسکے چہرے کو محسوس کرتے چہرے پر بکھرے بال آہستگی سے پیچھے کئے ۔
" کاش کہ تم وہ سب نہ کرتیں اور تمہارا باپ تمہیں مجھ سے دور نہ کرتا ۔ ونی کرنا تو ایک بہانا تھا تمہیں پاس بلانے کا ۔ مقصد تو صرف دنیا والوں کو دکھانا تھا کہ خیر اب تو رات گئی بات گئی ۔ " اب کی بار وہ مسکراتے ہوئے ہاتھ پہ جھکا ہی تھا کہ دروازہ دھاڑ سے کھلا اور پیچھے سے آتی ہوئی روشنی میں جیسے ہی وہ چہرہ واضح ہوا سرمد چونک کہ اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
" یہ ۔۔ یہ کون ہے ؟ کس کو اٹھا لائے ہو تم لوگ ۔۔ " پیچھے سے ایک بندہ خضر کو پکڑے اندر لایا جو اسے خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا ۔
" بد بخت انسان یہ کیا حرکت کی ہے تم نے ۔" سرمد نے نگاہ نیچے پڑی ہوئی خدیجہ سے ہٹائی اور خضر کا گریبان پکڑ ڈالا ۔
" سرمد صاحب آپ نے یہی کہا تھا کہ اس گھر کی کسی بھی لڑکی کو لے آؤں ۔ تو لے آیا اس کو ویسے بھی حرم بھاگی بھاگی چلی آئے گی اس کا سن کر آپ کو وہی چاہیے نہ ۔۔ تو یہ بس پلان کا حصہ ہے۔ " اس نے کندھے جھٹک کر گریبان چھڑوایا سرمد نے غصے سے یہاں وہاں دیکھا ۔
" اور اگر وہ یہاں نہیں آئی تو یاد رکھنا تم تو مروگے ہی مگر پہلے میں نے تمہیں تمہارے گھر والوں کے سامنے رسوا کر کے مارنا ہے ۔ " اسکی آنکھوں میں گھورتے وہ دانت پیس کر بولا ۔
" کچی گولیاں خضر کھیلتا نہیں ۔ خیر میرا قرضہ ختم ہوا اب میرا اور آپ کا کوئی تعلق نہیں ۔ آپ مجھ سے پیسے نہیں مانگے گے۔ " بولتے ہوئے وہ جانے لگا ۔ پھر پیچھے مڑا ۔ خدیجہ نیچے پڑی ہوئی دکھی۔
" کچھ الٹا سیدھا مت کرنا نہیں تو پھر تم لوگوں کا انجام بدر تو بعد میں حرم پہلے کردے گی ۔ خیر چلتا ہوں ۔ "
" اور اگر وہ یہاں نہ آئی تو تمہارا کام میں کرونگا۔ " سرمد نے پیچھے سے ہی بولا اور زور سے دیوار میں ٹھوکر ماری۔
اس نے خضر کا فایدہ اٹھا کر حرم کو اغواء کرنا چاہا تھا مگر ایسا ہو نہ سکا۔ نہ ہی خضر کر سکتا تھا ۔ لیکن اپنا قرضہ ختم کروانے کے لئے اس نے یہ چال چل دی اور خدیجہ جس میں اب حرم کی آدھی جان بند ہے وہ ضرور یہاں آ جائے گی ۔ یہی سوچتے وہ اسے اٹھا لایا ۔
_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_
وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اوپر چھت تک آئی ۔ سامنے سب نے ایک جم غفیر لگا رکھا تھا اور ان سب کے بیچ سے نور کے رونے کی آواز آرہی تھی ۔ سماعتوں سے ٹکراتا میوزک ، آس پاس پھیلی روشنیاں وہ پھولوں کی مہک سب بے سود لگا ۔۔
" بھابھی بھابھی نور کے خون نکل رہا ہے بھابھی ۔۔ " سارا کی آواز پر وہ ہوش میں آئی تھی ۔ اور راستہ بناتی ہوئی اس تک پہنچی جو سانیہ کی خود میں سر رکھے رو رہی تھی ۔ جبکہ گٹھنے سے بل بل خون بہہ رہا تھا جس کو سانیہ نے اپنے دوپٹہ سے روک رکھا تھا ۔
" خون !" حرم تو ہمیشہ خون دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتی تھی ناں ۔ بچپن سے لے کر لڑکپن تک اسے جب بھی کہیں خون نظر آتا وہ دور بھاگ جایا کرتی تھی ۔ کسی کے چوٹ لگنے کے دوران خون نکل جاتا تو وہ گھر کے کونے میں جا کر رویا کرتی تھی ۔ وہ حساس سی تھی لیکن !
" بھابھی ۔۔ " سانیہ کی آواز سنتی اس نے سر ہلایا اور نور کے پاس آئی ۔۔
لیکن وہ اب پہلے والی حساس لڑکی نہیں رہی ۔ اب وہ صنفِ نازک سے صنفِ مضبوط بن چکی ہے اور خاص یہ کہ وہ ایک ماں بن چکی ہے ۔
" بس نور کچھ نہیں ہوا ۔ چپ ہوجاؤ مما ہیں ناں ۔ " اس نے نور کو گود میں بیٹھا کر چپ کروایا جو ماں کو دیکھ کر مزید رونے میں اضافہ کر گئی تھی ۔ چہرہ آنسوؤں سے بھیگا لیا تھا ۔
" فرسٹ ایڈ باکس لائیں ۔ خدیجہ کہاں ہیں ؟ " اس نے آس پاس دیکھتے ہوئے کہا تو زارا نے فرسٹ ایڈ باکس پکڑایا ۔ اس کے چہرے پر پہلے والی انا یا سختی نہ تھی بلکہ ماتھے پر بے شمار شکن لئے شاید وہ بھی سب کی طرح بہتے خون کو دیکھ کر پریشان ہوگئی تھی ۔
" خدیجہ کا تو نہیں معلوم میں لے آئی ہوں ۔ " حرم نے زارا کے کہنے پر سر ہلایا اور نور کا پیر سیدھا کیا ۔ چوٹ بہت زیادہ نہ تھی مگر کانچ کافی حد تک گٹھنے کو کاٹ چکا تھا تبھی خون رک نہیں رہا تھا ۔
" گلاس ٹوٹا اور نور اس ہی پر گر گئی ۔۔ بھابھی سٹیچس لگوانے ہونگے کیا ؟ " سانیہ نے فکر مندی سے کہا ۔ اسکا تو منہ ہی اتر کر ذرا سا ہوگیا تھا ۔ آخر کو نور کو کچھ ہوجائے وہ کیسے برداشت کرتی ۔
" نہیں نہیں ۔ بہت زیادہ نہیں ہے ۔ میں یہ کر رہی ہوں نہ ۔ خون رک جائے گا تو ٹھیک ہو جائے ایک دو دن میں ۔۔ " حرم نے پہلے خون صاف کیا اب وہ رک گیا تھا مگر پٹی کرتے ہوئے لال داغ واپس نمایا ہوگیا تھا۔ گٹھنے کے بالکل نیچے کٹ لگا تھا ۔ وہاں پر چوٹ لگنے سے اکثر خون زیادہ بہتا ہے ۔
" بس کچھ نہیں مما کی جان چپ ہوجاؤ ۔۔ دیکھو بینڈج کردی نہ مما نے ۔ بس چپ .. " اسکی چوٹ پر نظریں کئے وہ نور کو سینے سے لگائے چپ کروا رہی تھی جو اب سوں سوں کی آواز سے تو رہی تھی ۔
" سانیہ ! کچھ نہیں ہوا جاؤ ۔۔ فنکشن بھی بیچ میں چھوڑ دیا ۔" نور کے بالوں کو سہلاتی اب وہ پاس بیٹھی سانیہ سے کہہ رہی تھی ۔ باقی لڑکیاں بھی چپ سادھے ادھر اُدھر بیٹھی نظر آرہی تھیں ۔ ایک دم سے ہی ماحول سناٹے کی زد میں آگیا تھا ۔ سارا نے تیز چلتا میوزک بھی پٹی بندھنے کے دوران بند کردیا تھا ۔
" بھابھی مگر نور ۔ "
" میں کہہ رہی ہوں نہ جاؤ ۔ تم سب لوگ بھی چپ کر کے بیٹھ گئے ۔ کیوں ؟ " اس نے آس پاس نظر دوڑاتے کہا ۔ " چلو سب اٹھو کھانا کھاؤ ۔ بچوں کو چوٹے لگ جاتی ہیں یہ نارمل ہے کل تک نور بھی ٹھیک ہو جائے گی ۔ ابھی تازہ چوٹ ہے نہ اسلئے اتنا رو رہی ہے " اب وہ نور کو احتیاط سے گود میں اٹھا چکی تھی ۔ جو ماں کے گلے سے لگی کچی نیند میں ڈیڈو ڈیڈو پکار رہی تھی ۔
" اچھا پھر نور کو کمرے میں لٹا دیتے ہیں ۔ " اس نے نور کے گال پر بوسہ دیتے کہا۔
" تم سب کیری آن کرو ۔ میں نور کو لے جاتی ہوں ویسے بھی اب یہ سوئے گی ۔ "
" جی بھابھی ۔ میں نے بھائی کو بھی بول دیا ہے وہ آرہے ہیں ۔ " سارا نے اسکی بات پر فون میں دیکھتے ہوئے کہا ۔ حرم دھیرے مسکرا کر آگے چل دی ۔
" اللّٰہ بچی کو کتنا درد ہورہا ہوگا مجھ سے تو بالکل یہ خون وغیرہ نہیں دیکھا جاتا ۔ " پیچھے سے زارا کی آواز پر وہ صرف مسکرا کر رہ گئی ۔ کہاں پہلے یہ جملہ وہ بولا کرتی تھی اور اب وقت نے اسے کس طرح بدل ڈالا ہے ۔
وقت سب بدل دینے کی طاقت رکھتا ہے ۔ وقت سب کچھ سیکھا دیتا ہے سب کچھ بتا دیتا ہے ۔ وقت ہی ہے جو زندگی میں ہر طرح کے زخم بھرنے کی سکت رکھتا ہے !
وہ کمرے تک آئی تو دروازہ بند تھا ۔ اب وہ دروازہ کیسے کھولے نور تو گود میں ہے ۔ وہ تو چہرہ ہی اسکی آغوش سے باہر نہ نکال رہی تھی جبکہ دونوں ہاتھ حرم کے گرد مضبوطی سے حائل کئے ہوئے تھے ۔
" بھابھی نور کیسی ہے زارا نے بتایا وہ دوا لینے آئی تھی جب ۔ " پیچھے سے حمزہ کی آواز ابھری۔ وہ شاید اوپر لڑکیوں کی وجہ سے نہ آسکا ۔
" ارے ٹھیک ہے بس گٹھنے پر کٹ لگ گیا تھا بھاگتی بھی تو اتنا ہے یہ ۔۔ "
" ہاں ۔ چوٹیں لگ جاتی ہیں آپ باہر کیوں کھڑی ہیں اندر لیٹا دیں اسے بھائی آتے ہونگے میں فون کرتا ہوں . "
وہ فون نکالتے ہوئے بولنے لگا۔
" ارے نہیں سارا نے کردیا ہے فون آتے ہونگے ۔ وہ تم ذرا یہ دروازہ کھول دو ۔ " اس نے اپنے ہاتھوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں نور کے علاؤہ فون اور بیگ بھی تھا ۔ حمزہ نے سمھجتے ہوئے بڑھ کر دروازہ کھولا ۔
" امی لوگ تو سو چکے ہیں ان کو صبح بتا دیں گے۔ " حمزہ نے اندر آتے لائٹس آن کی جبکہ حرم نے نور کو بیڈ پر لٹایا جس پر وہ نہ لیٹی ۔
" ہاں ابھی نہ کرو پریشان چھوٹی سی چوٹ ہے بس ۔ نور تنگ نہیں کرو لیٹو ۔۔ " اس نے افسوس سے دیکھتے ہوئے کہا مگر نور اس سے دور نہ ہورہی تھی ۔
" بڈی کی نور مما کو تنگ مت کرو آپ کے چوٹ لگی ہے نہ درد ہوگا اس میں اس طرح ۔ " حمزہ نے اس کا چہرہ دیکھنے نا کام سی کوشش کی چونکہ چہرہ تو وہ ماں میں چھپائی ہوئی تھی ۔۔۔
" خیر اسکو چھوڑو تم نے کھانا کھا لیا حمزہ ؟ یا لگواؤں" نور تو اس سے دور ہو نہیں رہی تھی وہ اسکو گود میں لیئے ہی بیڈ پر بیٹھ گئی ۔ اور سر دوپٹہ ٹھیک کیا ۔
" ہاں میں باہر تھا دوستوں کے ساتھ وہی کھا لیا ۔ "
" سہی تم جا کہ آرام کرو کافی وقت ہوگیا ہے اب ہاں ۔ " وہ آخری بار نور کے بالوں کو چھیڑتا ہوا اٹھا ۔۔
" یہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔۔ " مسکرا کر کہتی وہ نور کو دیکھنے لگی ۔
" ہاں چلتا ہوں گڈ نائٹ نونو ۔۔ " دھیمے سے ہنستے وہ چلا گیا ۔ حرم نے جوائی لی ۔ جس سے آنکھوں میں پانی سا آگیا ۔
" مما ۔ " اسے دھیرے سے نور کے پکارنے کی آواز آئی ۔
" جی مما کی جان ۔ کیا ہوا نور کو کچھ چائیے کیا ؟ " اس نے سانس بھرتے ہوئے کہا ۔ اور چہرے پر آتی لٹوں کو پیچھے کیا ۔
" نونو اینکل اش ہلتنگ ۔ ( نونو اینکل اِس ہرٹنگ ) " ۔۔۔ اس کے روتے ہوئے کہنے پر حرم کا دل لرز گیا تھا ۔ اس کے سر پر بوسہ دیتی وہ اب اسے سائڈ میں لٹا چکی تھی ۔
" بس نور ۔ ٹھیک ہو جائے گا ۔ آنکھیں بند کرو ۔ مما نور کے پاس ہیں ناں بس ٹھیک ہوجائے گا درد بھی ۔ " اسکے سر کو سہلاتی وہ دھیرے سے کہہ رہی تھی ۔ جبکہ یہ صرف وہ جانتی ہے کہ اس نے اب تک خود کے آنسوؤں کو کیسے روکا ہوا ہے ۔ وہ تو نور کو خود سے ذرا دیر کے لئے بھی الگ نہیں ہونے دیتی ۔ اسکول میں بھی اسکی ٹیچر کے پاس ہر کلاس کے بعد حرم کا فون آرہا ہوتا ہے ۔ اسکو ایک کھروچ بھی نہیں آنے دیتی ۔ پھر پتا نہیں آج ایسا کیوں ہوگیا ۔
دو منٹ ہی گزرے تھے کہ نور سوگئی تھی ۔ بچی تھی وہ درد پر رو رہی تھی مگر نیند کو تو نہیں روک سکتی تھی نہ ۔ جبکہ حرم اب آنکھیں بند کئے بیڈ سے ٹیک لگائے پیر سیدھے کئے بے آواز رو رہی تھی ۔ سب کے سامنے رونا تو اسے پہلے بھی نہ آتا تھا ۔ اور اب اوپر وہ نور کو دیکھ کے نہیں تو سکی ۔ کہ اگر وہ ماں کو روتا دیکھتی تو اور درد محسوس کرتی ۔
" میرے پاس تو ماں باپ ہو کر بھی نہیں ہیں ۔ میں کس کے پاس جا کر روؤں ۔ کس کو بتاؤں کہ نور کی چوٹ نہیں دیکھی گئی مجھ سے ۔ باہر سے مضبوطی کا خول چڑھا تو لیا ہے مگر اندر کے دل کو کیسے سمجھاؤں ۔ ایسی بھی کیا غلطی کردی میں نے امی جو مجھ سے ملتے بھی نہیں ۔ " اب وہ بولتے ہوئے اور تیزی سے آنسوں بہا رہی تھی ۔ جب بدر کمرے میں آیا تھا ۔ اور اسکے اس طرح کہنے پر اسکے دل کو جیسے دھچکا لگا۔
' نور ٹھیک کہتی ہے اسکی مما چھپ کر روتی ہیں اپنے ڈیڈو یاد کر کے ۔ ' وہ سانس بھرتے دھیرے سے بیڈ تک چلتا ہوا آیا ۔ دروازہ بند کرتے ہوئے بھی حرم محسوس نہ کرسکی تھی کہ کوئی اندر آیا ہے ۔ تبھی اب وہ چپ سادھے صرف آنسو بہانے میں مصروف تھی ۔
" آگئے تم ۔ " وہ جیسے ہی نور کو پیار کرنے کے لئے جھکا حرم کی آواز سنتے چونک کر اوپر دیکھا ۔ جو اب چہرہ صاف کرتی اٹھنے لگی تھی ۔
" تم رونے میں مصروف تھیں تو ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا ۔۔ بہت گہری چوٹ ہے کیا ؟ ڈاکٹر کے لے چلیں ۔ " اس نے پیار کرنا ترک کرتے خود کی پشت بیڈ سے لگائی اور بغور نور کو دیکھا ۔ سوتی ہوئی نور کے چہرے پر واضح رونے کی دلیل تھی ۔
" میں نے پٹی کردی ہے تم اس کے پاس ہی بیٹھو میں چینج کر کے آئی۔ " وہ چلتی ہوئی واشروم جانے لگی جب پیچھے سے بدر تیزی سے اٹھا اور اسے روکا ۔
" رکو ذرا ۔ " وہ ٹہر کر پیچھے دیکھنے لگی اور پھر بدر کی آنکھیں آہستہ آہستہ قریب آتی محسوس ہوئیں ۔
🖤____________~
کمرے میں اب بھی جا بجاں اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ خدیجہ نڈھال سی پڑی تھی جب دروازہ آہستگی سے کھلا ۔۔ تیز روشنی آنکھوں میں پڑتے ہی اس نے سسکی بھری ۔ اسکا سر چکرا رہا تھا ۔ آنکھیں سہی سے کھل نہ پا رہی تھیں ۔ سر تھامتے ہوئے وہ بامشکل اٹھی اور دروازے سے آتے وجود کو خود کے پاس پایا ۔
" مجھے گھر جانے دیں ۔ کون ۔ کون ہو تم ۔۔۔ " اسکے حلق سے پہلے تو آواز ہی نہیں نکل رہی تھی اب نکلی تو اتنی دھیمی اور اٹکی ہوئی کہ سرمد کو ٹھیک سنائی نہ دیا ۔
" کون لایا مجھے ۔۔ یہاں کون لایا ۔ " سرمد کا چہرہ واضح ہوا تو وہ دیوار سے جا لگی ۔ اور منہ پر ہاتھ رکھے ڈر کر اسے دیکھا ۔ اسے خضر یاد نہیں تھا کیونکہ مجھے سے کسی نے اسے کلوروفارم سے بے ہوش کیا تھا جبکہ یہاں پر بھی وہ جب تک رہا خدیجہ بے ہوشی میں تھی ۔
" تم حرم کو جانتی ہو نہ ؟ " سرمد کی بھاری آواز پر اسنے ڈر کر سر ہلایا پھر اپنی غلطی سمھجہ کہ نفی میں سر ہلانے لگی ۔ سرمد اس حرکت پر نا دیکھنے کے برابر مسکرایا ۔ اور اسکے ساتھ دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھ گیا ۔
" مجھے حرم چاہئے اور اسے تم یہاں بلاؤ گی ... " اسکی نظریں اب خدیجہ کے پیروں کی جانب تھیں وہ اسے دیکھ نہ رہا تھا۔
" مجھے گھر جانا ہے مجھے امی کے پاس ۔۔ "
" بھیج دوں گا لیکن پہلے حرم کو بلاؤ ۔۔ یہ لو ۔۔ " اس نے جیپ سے فون نکالتے اسکے آگے کیا جس کو خدیجہ نے مدھم روشنی میں ٹٹولا ۔
" کیا سوچ رہی ہو لو بلاؤ یہاں ۔۔۔ " اب کی اس نے زور سے بولا جس پر وہ سہم کر رہ گئی۔ ۔
_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_
وہ اب اسکے مقابل کھڑا ہوا تھا ۔ اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامے ۔ حرم کے چہرے پر میک اپ زیادہ تو نہ تھا البتہ دائیں آنکھ کا لائینر کنارے سے بہہ گیا تھا ۔ بدر نے ہاتھ بڑھایا اسکے گالوں تک ، پھر انگلیوں کے پوروں کو کنارے پر لایا اور آہستہ سے وہ صاف کیا ۔ پھیلا ہوا سیاہ لائنر مٹ گیا ۔ حرم نے محسوس کیا اسکی ہتھیلی آج بھی ہمیشہ کی طرح گرم تھی ۔ اس نے آنکھیں بند کیں تو ایک یاد ذہن میں تیزی سے کودی ۔۔۔۔
( وہ چھٹی کا وقت تھا اسٹوڈینٹس کا جھنڈ باہر کی جانب نکل رہا تھا ۔ اور اس ہی اسناحہ میں حرم گرتے گرتے بچی ۔ بدر نے بروقت اسے ہاتھ پکڑ کر سہارا دیا جس پر حرم نے بجائے شکریہ کہنے کہ اسے ہی گھورا ۔
بدر نے نفی میں سر ہلاتے ہاتھ چھوڑا ۔ وہ جانتا تھا کہ یہ گھوری کس سلسلے میں دی جا رہی ہے ۔ حرم کو گر جانا تو پسند ہے مگر وہ نا محرم کا ہاتھ نہیں پکڑے گی ۔
" ویسے تمہیں پتا ہے جس کی ہتھیلیاں گرم رہتی ہیں ناں وہ بہت باوفا ہوتے ہیں ۔ " تھوڑا آگے جاتے اس نے بدر کو مسکراتے ہوئے کہا جبکہ نظریں نیچی تھیں ، راستے کی جانب کی ہوئی ۔ بدر نے ہلکی سی ہنسی کے ساتھ اسے دیکھا جو گلابی اسٹالر لپیٹے ہمیشہ کی طرح اسکے دل میں اتر رہی تھی ۔
" تم اور تمہاری یہ سپر نیچرل باتیں " حرم نے چلتے ہوئے ہی منہ بنایا ۔
" خیر تم سے کروں گا ناں وفا آخری سانس تک ۔ " حرم نے ٹہر کر دیکھا ۔ بدر ہمیشہ ایسی باتیں کر کے اسکا صبر آزماتا تھا ۔ وہ کچھ نہ بولی اور چلتی گئی ۔۔۔۔ )
" حرم ! رو کیوں رہی تھیں ؟ " بدر کی آواز پر اس نے آنکھیں کھولیں اسکا ہاتھ اب حرم کے دائیں گال پر تھا ۔ جو رونے کے باعث ٹھنڈا برف تھا جبکہ اسکے برعکس بدر کا گرم لمس سکون بخش رہا تھا ۔ جو وہ لینا نہ چاہ رہی تھی ۔
" تم تو ایسے پوچھ رہے ہو جیسے کچھ معلوم ہی نہ ہو ۔" ایک آہ بھرتے ہوئے وہ بولی ۔ اور نہ چاہتے ہوئے بھی اسکا ہاتھ نیچے کیا ۔ جس پر بدر نے اسکا نیچے کرتا ہاتھ تھام لیا ۔
" اِ دھر آؤ میرے ساتھ ۔ " وہ اب اسے ساتھ لے جانے لگا جبکہ حرم رک گئی۔
" مجھے چینج کرنا ہے ۔ "
" میں کہہ رہا ہوں نہ اِدھر آؤ ۔۔ آؤ! " اسے اپنے ساتھ لے جاتے وہ سامنے رکھے صوفے تک لے آیا جس کے پیچھے بنی کھڑکی آج روزمرہ کے برعکس کھلی ہوئی تھی ۔ باہر سے چاند کی چاندنی صوفے کے اوپری حصے کو چمکا رہی تھی ۔ جبکہ کمرے کی ڈِم لائٹ اور میز پر رکھے گلدان میں مہکتے گلاب اور سفید پھول ماحول معنیٰ خیز بنا رہے تھے ۔ لیکن اُن دونوں کے درمیاں تو ایسا کچھ نہ تھا ۔ کیا یہ زرد روشنی ، یہ کھڑکی سے آتی ٹھنڈی ہوائیں ان کے اوپر پڑتی چاندنی اور یہ گلاب کا پھول ! کیا یہ سب مل کر کچھ کر پائیں گے ؟
اسے اپنے ساتھ بیٹھاتے ہوئے وہ اسکے ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گیا ۔ حرم نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا ۔ بدر نے اس پر ایک نظرِ معائنہ ڈالی تو چاندنی میں واضح حرم کا چہرہ اس قدر حسین نظر آیا کہ وہ صبر کر کے رہ گیا ۔
" حرم ! سانیہ کی بارات میں کتنے دن رہتے ہیں ؟ " اسکے سوال پر حرم نے چونک کر دیکھا وہ تو کسی وہ تو بدر سے ہر بار کی طرح کسی معنی خیز بات یا سوال کی توقع کر رہی تھی مگر یہ کیا ۔۔۔
" تم۔۔ یہ "
" بتاؤ تو کتنے دن رہ گئے ہیں ۔؟ " اسکی بات کو بیچ میں کاٹتے ہوئے وہ مزید آگے ہو کر بولا ۔ حرم نے اسکی آنکھوں میں دیکھا وہ سنجیدہ سا بیٹھا پوچھ رہا تھا ۔
" کل مہندی پھر مایوں اور تین دن بعد بارات ہے ۔ " اس نے آنکھیں بدر کے کندھوں تک لے جاتے ہوئی کہا ۔
" ہممم تو بس پھر تین دن رہ گئے ہیں تمہیں سچ پتا چلنے میں ۔ اسلئے اب رونا نہیں ۔ روتی ہوئی بالکل اچھی نہیں لگتیں ۔۔ " اسکے چہرے و کندھے پر آئے بالوں کو شہادت کی انگلی سے پیچھے دھکیلا جبکہ حرم سمھجہ نہ سکی کون سا سچ ۔۔
" کون سا سچ ؟ " اس نے اٹک کر کہا جس پر بدر دھیرے مسکرا دیا اور اسے اپنے ساتھ کیا ۔ اپنا ایک ہاتھ اسکے پیچھے سے لے جاتے کندھے پر رکھا اور دوسرا سامنے سے لے جاتے پیچھے والے ہاتھوں کی انگلیوں سے پھنسا لیا ۔ پھر سامنے دیکھتے ہوئے اسکی سماعتوں تک ہونٹ لے جاتے بولنے لگا۔
" وہی جو تم پچھلے چار سالوں سے جاننا چاہتی ہو ۔ وہی جو ہماری دوری کی وجہ ہے ۔ " اسکی دھیمی دھیمی آواز کو سماعت کرتی حرم نے گردن موڑی تو اسکا آدھا چہرہ اپنے قریب تر دکھائی دیا وہ شاید سامنے بیڈ کی جانب دیکھ رہا تھا ۔ پھر وہ چہرہ حرم کی طرح اسکی جانب کرنے لگا جس پر حرم نے واپس رخ موڑ لیا ۔ آفر ایسا نہ کرتی تو یقین ان دونوں کا تصادم ہوجاتا ۔ وہ اسکی حرکت پر مسکرا کر رہ گیا۔
" کچھ دیر یوں ہی رہ جاؤ ۔ تمہیں کسی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ شوہر کا کندھا بے سکونی دور کردیتا ہے ؟ " حرم سر اپنے کاندھے پر ٹکاتے اس نے حصار کم تر کیا ۔ وہ کچھ بولی نہیں شاید وہ شش و پنج میں مبتلا ہوگئی تھی ۔ اسکی باتوں سے ، اسکی تین دن بعد ہونے والی آگاہی سے وہ سوچوں میں گھیر گئی تھی ۔
" آنکھیں بند کرلو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔ نور کی چوٹ بھی ۔۔۔ اور یہ رشتہ بھی ۔ " آخری جملہ دل میں کہتا وہ اسکی آنکھیں اپنے ہاتھوں سے بند کر گیا ۔ وہ اس پر بھی کچھ نہ بولی بس آنکھ سے ایک آنسو گر گیا اور ایک لمبی سانس بھری ۔ بدر نے سر پیچھے صوفے سے ٹکایا اور اسکے آدھے چہرے کو دیکھتے مسکرانے لگا ۔ دو منٹ یوں ہی دیکھتے گزر گئے تو اسے احساس ہوا کہ اب وہ بھاری سانسیں لینے لگی ہے ۔
جاری ہے
❤️
👍
😢
🙏
😂
😮
197