Novel Ki Dunya
June 21, 2025 at 02:57 AM
#ایک_ستم_محبت_کا
#ازقلم_زینب_سرور
#قسط_نمبر_15
" یہ دل تم سے آج بھی اتنی ہی محبت کرتا ہے حرم ۔ میں تم سے کبھی کوئی شکوہ نہیں کرونگا ۔ بلکہ کبھی کر ہی نہیں سکتا کہ تم تو سب سے اچھی ہو ۔ سب سے اچھی ۔ " اسکے بالوں پر جھکتے وہ حرم کے سونے کا فائدہ اٹھا گیا ۔ اور پھر اسکا دائیاں ہاتھ پکڑ کر اپنے دل کے مقام پر رکھ لیا جس سے وہ مڑ کر اسکی جانب گھوم گئی ۔ حرم کا چہرہ اسکے اندر چھپا ہوا تھا اسکے چہرے پر آئے بالوں کو آہستہ سے پیچھے کرتے وہ بھی آنکھیں موند گیا ۔ یہ احساس زندگی میں سب سے خوبصورت تھا سب سے زیادہ ۔ اسکی محبت اسکی حرم اسکی آغوش میں تھی ۔ وہ جانتا ہے اسکی باتوں سے حرم سوچ میں پڑ چکی ہوگی اور یہ چپ رہ کر بدر کی قربت سے نہ بھاگنا اس ہی کا نتیجہ ہے ۔
" بدر کی دنیا ڈیڈو کی جان ۔ " سامنے بیڈ پر لیٹی نور کو دیکھ وہ مسکراتے ہوئے بولا ۔۔ پھر نظریں حرم پر کیں جس کا ہاتھ بدر کے گرد حائل ہوگیا تھا ۔ لگتا ہے سوتے ہوئے وہ بدر کو نور سمھجہ گئی ہے ۔
" بدر کی جانم ۔ شب بخیر ۔۔۔ " اور پھر وہ سکون سے واپس آنکھیں موند گیا ۔
🖤_________~
وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا ہوا فون اسکے آگے بڑھا رہا تھا ۔ خدیجہ نے ایک نظر فون کو دیکھا پھر نظر اپنے پیروں سے ہوتی ہوئی کھلے دروازے پر گئی ۔ باہر سے روشنی اندر کو جھانک رہی تھی ۔ اس نے ایک بار پھر سرمد کی جانب کے دیکھا جو آئبرو اچکائے اسے فون پکڑنے کا اشارہ کر رہا تھا ۔ فون کی جلتی روشنی بند ہوئی تو خدیجہ نے اچانک سرمد کو دھکا دیا اور اٹھ کے دروازے کے جانب بھاگی ۔ سرمد نے کچھ دیر تو دھکا لگنے کے باعث جس طرح جھکا تھا ویسے ہی بیٹھے رہا ۔ پھر بے زاری سے نگاہ باہر ڈالی جہاں سے وہ بھاگی تھی اور سانس بھرتے اٹھا ۔
" کس عجوبے کو لا کر چھوڑ دیا اس جاہل نے ۔۔ " خضر کو بولتے ہوئے وہ باہر نکلا جہاں خدیجہ سامنے کھڑی یہاں وہاں دیکھتے جیسے باہر جانے کا رستہ تلاش کر رہی تھی ۔ اس نے جب اپنے پیچھے آہٹ محسوس کی تو ڈر کر مڑی جس پر سرمد نے بیزاری سے دیکھتے سر نفی میں ہلایا ۔
" تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے نہ ۔ پہلے سے ہی پاگل ہو یا اغواء ہوجانے کے غم میں ہوگئی ہو ؟ " سرمد اسے اچنبھے پن سے دیکھتے ہوئے کہی رہا تھا جیسے اسے اسکی دماغی حالت پر شک ہوا ہو ۔
" کیا .. کیا مطلب ؟ " اٹکتی ہوئی آواز میں کہتی وہ اپنے دوپٹہ مضبوط سے اپنے گرد جمانے لگی ۔ نظریں کبھی بائیں تو کبھی دائیں جانب گھما کر دیکھتی کہ شاید کہیں سے اسے باہر جانے کا راستہ ہی مل جائے گا ۔
" مطلب یہ کہ کمرے سے تو اس طرح بھاگ کر نکلی ہو جیسے کبھی کوئی فلم یا ڈرامے میں اغواء کاروں کا طریقہ نہ دیکھا ہو ۔ چلو وہ ہوتے ہونگے بیوقوف کہ باہر جانے کا راستہ چند موٹے چوکیدار پر چھوڑ دیں جو کبھی بھی سو جاتے ہیں ۔ لیکن سرمد بلوچ کے پلان میں جھول نہیں ہوتے ۔ بھاگ کر کیا تمہیں باہر کا راستہ مل گیا ؟ " اس نے آس پاس نظروں سے اشارہ کرتے کہا۔ پھر وہ خدیجہ کے نفی میں سر ہلانے پر آگے ہوا تو وہ دیوار سے چپک گئی ۔
" اور یہ ڈر تو ایسے رہی ہو جیسے نجانے میں نے کتنے مظالم کئے ہوں تم پر ۔ " اس نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے تنگ آتے کہا ۔ یہ کس قسم کی ڈرپوک لڑکی کو گلے سے باندھ گیا وہ خضر ۔
" کال کروگی اپنے گھر یا نہیں ؟ " آنکھیں اسکی جانب کئے اس نے آرام سے انداز میں پوچھا ۔ وہ اس سے چیخ کر تو بات ویسے بھی نہیں کر رہا تھا البتہ اسے کوفت ضرور ہورہی تھی ۔ خدیجہ نے زور سے نفی میں سر ہلایا تو وہ لب بھینچ گیا ۔
" بیوقوف لڑکی یہ معلوم ہے کہ تمہیں بیہوش کس نے کیا تھا ؟ " نجانے کیوں اس نے ایک اور سوال کیا ۔ خدیجہ نے پھر سے سر نفی میں ہلایا ۔ اب کی بار سرمد نے منہ پر ہاتھ پھیرا جیسے خود کی بیزاری دور کر رہا ہو۔
" لڑکی یہ پتا ہے کہ تم یہاں کیوں لائی گئی ہو ؟ پوچھا اب تک مجھ سے ؟ " پھر سے سر نفی میں ہلا دیا گیا اور اب کی بار سرمد نے صدمے سے دوچار ہو کہ سر پیٹ لیا ۔ وہ اس سے اِس طرح پوچھ رہا تھا جیسے وہ اغواہ کار نہیں بلکہ اس لڑکی کا انویسٹیگر ہو ۔
" اتنی بیوقوف شروع سے تھیں یا بعد میں ڈپلومہ حاصل کیا ہے ۔ مطلب بس باہر جانے کی لگی ہے ۔ عقل و شعور سے کوئی کام نہیں کرنا ۔ " اب کی بار وہ برس پڑا تھا ۔ اسے الجھن تھی ڈرپوک لوگوں سے اور یہ لڑکی تو توبہ ۔ جبکہ ایک بار پھر نفی میں ہلتا سر دیکھ وہ اسکا ہاتھ پکڑ کے وہاں سے لے گیا ۔ اور ایک کمرے میں لے آیا جو وہیں پاس میں تھا ۔
سرمد کے لائٹ جلانے پر کمرہ واضح ہوا جہاں خدیجہ کی نظر سامنے دیوار پر گئی جہاں ہر طرف صرف حرم کی تصویریں آویزاں تھیں ۔
" یہ ۔۔۔ یہ تو حرم آپی ۔۔۔ " وہ اب تک شوکڈ میں دیوار دیکھ رہی تھی۔ حرم کے یونیفارم پہننے سے لے کر آج تک کی ساری تصویراں وہاں لگی ہوئی تھیں ۔
" یہ ہے وجہ ۔۔۔ یہ چاہیے مجھے اسلئے ہو تم یہاں " بولتے ہوئے وہ اسکے پاس آیا ۔ پھر مسکراتے ہوئے رکا ۔
" اور لڑکیوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے نڈر ، بے خوف ، مضبوط" اسکے کان میں کہتے وہ پیچھے ہوا ۔ خدیجہ نے اب کی بار تھوک نگلتے ہوئے اسے دیکھا ۔ وہ واقعی حسین تھا بالکل ویسے ہی جیسے میگزین پر اس دن خدیجہ نے دیکھا جب وہ سب ناشتہ کر رہے تھے اور وہ میگزین دیکھنے میں مصروف تھی ۔
" خیر مت کرو تم فون ۔ دفع کرتے ہیں فون کو " اس نے فون دور اچھالا تو وہ ایک انچ اچھلی ۔ سرمد نے افسوس سے اسے دیکھ کر بھنویں سکیڑیں ۔
" خیر اب جب تک یہاں ہو سکون سے رہتی رہو ۔ صبح دیکھے گیں کیسے نہیں لگتا حرم کو فون ۔ " بولتے ہوئے وہ جانے لگا جب خدیجہ کی " نہیں " کی آواز آئی ۔ سرمد چونک کہ مڑا ۔
" تم بولتی بھی ہو سچ میں ۔ " مصنوئی خوشی چہرے پر لائے وہ ایک پل کے لئے خدیجہ کے تاثرات بھی ناراضی سے کر گیا ۔
" مجھے گھر جانے دیں اکیلے ڈر لگتا ہے رات م۔۔۔ " وہ کچھ اور بولتی پر سرمد کی آنکھیں دیکھ کہ چپ ہوگئی ۔
" میں تمہیں اغواء کیا ہے پارٹی کا انویٹیشن نہیں دیا ۔" وہ سچ میں برا پھنس گیا تھا ۔ خدیجہ کے پھر سے نفی میں سر ہلانے پر سرمد نے غصے پیر پٹخا اور تیزی سے باہر نکل گیا ۔
" آنے دو ذرا اس خضر کو اس کی گردن تو میں دبوچتا ہوں ۔ وبالِ جاں دے گیا ہے ۔ " بڑبڑاتا ہوا وہ ایک قدم اور بڑھتا جب اندر سے چیخ کی آواز آئی ۔۔۔۔
_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_
سرمد نے اب کی بار بے زاری سے پیچھے نہ دیکھا بلکہ چہرہ سنجیدہ ہوگیا اور وہ واپس الٹے قدم لیتا کمرے تک گیا ۔ پھر دروازے تک آیا ، سر پیچھے کیا اور ایک نظر اندر کو جھانکا ۔ جہاں وہ دیوار کے ساتھ چپکی ہوئی نظر آئی۔ ہاتھ چہرے پر رکھے شاید وہ کسی چیز سے ڈر رہی تھی ؟
" باہر آؤ ۔۔ " سرمد کی آواز کو سماعت کرتی اس نے ہاتھ میں حرکت پیدا کی اور آنکھوں کو گھمانے کی زحمت کی ۔
" وہاں کچھ ۔۔ وہاں کچھ ہے ۔ " با مشکل دو لفظ اٹکتے ہوئے منہ سے نکلے تو بے ساختہ سرمد نے لب بھینچے ۔
" میں نے کہا باہر آؤ! " اب کی بار ایک دھاڑ سننے کی دیر تھی ۔ اسکی آواز کا رعب دیکھتے وہ ڈر کر تیزی سے باہر آئی ۔ اسکے ہاتھ و لب لرز رہے تھے ، پیکر جمال آنکھیں نم ناک تھیں اور وہ لمبی سانسیں لیتی اب بھی ڈر سے اندر دیکھ رہی تھی ۔
" وہ ایک معمولی سا بُل ڈاگ ہے ۔ ہر دوسرے گھر میں پایا جاتا ہے ۔ ویسے تو باہر کھڑا ہوتا ہے آج کچھ وجوہات کی وجہ سے اندر رکھا ہوا ہے " سرمد نے آرام سے کہا ویسے بھی وہ ڈری ہوئی تھی ۔
" تو تو اپنے ۔۔ کتوں کو کوئی کھلا چھوڑتا ہے کیا ؟ " خدیجہ نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا سرمد نے بھنویں سمیٹیں جیسے اسکی بات سمھجہ نہ آئی ہو ۔
" پہلی بات تو یہ کہ وہ ' کتا ' نہیں ہے بُل ڈاگ ہے ۔ دوسری بات ہم اپنے کتوں کو یونہی کھلا چھوڑتے ہیں" اسنے کتوں پر زور ڈالا۔۔۔۔
" تاکہ تم جیسی لڑکی ڈر جائے اور ہمیں معلوم ہوجائے کہ تم کتنی ڈر پوک ہو ۔۔ " آخر میں لبوں کو پھیلائے اس نے جیسے چڑانے والے انداز میں کہا تھا ۔ کیونکہ وہ خود خدیجہ کے ڈر سے چڑ رہا تھا ۔ اس نے ناراضی بھری نگاہ ڈالی۔
" ہاں تو اتنا آنکھیں پھاڑ کر اچانک سامنے آئے گا تو کوئی بھی ڈر جائے گا ۔ " آخر میں وہ بولتی ہوئی رک گئی ۔ سرمد بغور دیکھ رہا تھا ۔۔ پھر آگے آیا جس پر وہ ہمیشہ کی طرح ایک قدم پیچھے ہوئی مگر اب کی چہرے پر پہلے والا خوف نہ تھا ۔۔۔
" پیر آگے کرو۔ "
" کیا ؟ " سرمد کی آواز پر اس نے سوالیہ نظروں سے سوال داغا۔ پیر کیوں آگے کرے وہ ؟
" میں نے کہا نہ آگے کرو پیر! " سرمد نے کوفت سے کہا مگر ظاہر نہ کیا۔ خدیجہ نے نفی میں سر ہلایا تو وہ غصے سے نیچے بیٹھا اور اسکا پیر پکڑ کے تھوڑا اونچا کیا ۔ جبکہ خدیجہ کو اس کی جان سولی پر لٹکتی محسوس ہوئی ۔۔ ' کہیں یہ میرا پیر تو نہیں کاٹنے والے ؟ یا پھر ' از نے دل میں سوچا ۔۔
" کیا آپ مجھے الٹا لٹکائیں گے ؟ پلیز مجھے گھر جانے دیں ( منمناتے ہوئے کہا ) " اسے شاید کچھ سمھجہ نہ آیا اس لئے تیزی سے بول گئی۔ سرمد نے اب کی اشتعال انگیز سرخ آنکھیں اس پر گاڑیں ۔
" میرا دماغ خراب ہوگیا ہے نہ جو آدھی رات کو اپنا سکون برباد کرواؤں گا تمہیں الٹا لٹکا کر ۔ یہ جو پہن کر گھوم رہی ہو نہ پیروں میں اس کو اتارو فوراً ۔ " اس نے پیروں میں ڈلی پازیب کی جانب اشارہ کریا اور جھٹکے سے پیر چھوڑ کر اٹھا کھڑا ہوا ۔
" اِس کی چھنکار کی وجہ سے ہی وہ تمہارے پاس آیا ہے اتارو اسے اور یہ سامنے والے کمرے میں جاؤ فوراً اور ہاں بغیر آواز کئے سوجاؤ ۔۔۔ " وہ حکمیہ لہجے میں کہہ رہا تھا ۔ خدیجہ نے پوری بات میں اب تک پہلی بار سر ہاں میں ہلایا۔
" ہمم اچھی بات ہے جاؤ اب اور آواز نہ آئے یاد رہے . " وہ چپ چاپ اس کمرے تک چلی گئی دروازہ کھولتے ہوئے ایک بار پیچھے دیکھا تو وہ وہیں کھڑا ہوا اسے گھور رہا تھا۔
" بھاگنے کی بیوقوفی کروگی تو وہ بُل ڈاگ باہر کی گھوم رہا ہے ۔ تمہاری اس چھن چھن نے اسے جگا دیا ہے ۔ اسلئے صبح ہونے تک مجھے اور خود کو بخشو ۔۔۔ جاؤ اب اندر .. " آخری ڈانٹ پر وہ تیزی سے اندر چلی گئی۔ اور دروازہ بند کرلیا۔ سرمد آگے بڑھا اور آہستگی سے باہر کا لاک گھما دیا۔
" اب کم از کم صبح تک واپس نہیں آئے گی ۔ " نظریں شیشے کے دروازے پر جمائے وہ واضح محسوس کرسکتا تھا کہ وہ اب تک دروازے سے لگی کھڑی ہے ۔ یہ دروازہ الٹی طرف سے لگایا گیا تھا جس کی وجہ سے اندر کا سب کچھ باہر نظر آتا تھا مگر باہر کا اندر نہیں آسکتا تھا ۔۔
🖤__________~
وہ جس کھڑکی میں سے رات تک چاندنی پر پھیلا رہی تھی ۔ اب باہر پھیلا آسمان سورج کے سہارے نیلا ہونے لگا تھا ۔ مگر فجر قضاء ہونے میں اب بھی گھنٹہ باقی تھا ۔ نور جس کو رات میں بیڈ کے بیچ میں لٹایا گیا تھا وہ اب دائیں جانب پیر اور دوسرے رخ پر سر لے گئی تھی۔ نیند میں وہ کہاں سے کہاں چلی جاتی تھی یہ صرف حرم ہی جانتی تھی ۔
جبکہ حرم چہرے پر اطمینان لئے بدر پر اس طرح سورہی تھی جیسے ان دونوں میں بے شمار پیار ہو ۔ جیسے کبھی ایک دوسرے کو گھور کر بھی نہ دیکھا ہو ۔ دور کہیں سے مسجد میں دعاؤں کی آواز آئی تو حرم کے اعصاب تنے ۔ اپنی سستی اتارتی وہ بازوؤں کو بدر کے گرد نیند میں مزید تنگ کر گئی ۔ پھر اسکے اعصاب جو برسوں سے فجر میں اٹھنے کے عادی تھے اسے جگانے لگے ۔ دھیرے دھیرے سے پہلے آنکھیں کھلیں تو وہ سامنے نور کو دیکھ کر مسکرائی ۔
" چلو نور اٹھ جاؤ نماز پڑھیں ۔ آذان ہوگئی۔۔۔ " وہ بات مکمل ہی کرتی جب نظر گھڑی پر پڑی جہاں سوئیاں وقت تیزی سے بڑھا کر اسے آگاہ کر رہی تھیں ۔ پھر نظر واپس بیڈ پر سوئی نور پر گئیں تو اسنے جانچا نور وہاں ہے تو وہ یہاں کیسے ؟
آنکھیں اپنے ساتھ سوئے بدر پر کیں اس نے دھیرے دھیرے نفی میں سر ہلایا ماتھے پر بل نمایا تھے اور چہرے کے آثار ایسے تھے جیسے کوئی غلطی سر زد ہوگئی ہو ۔۔۔۔
" نہیں نہیں ۔۔ یہ خواب ہوگا " اس نے فوراً سے آنکھیں بند کرلیں ۔۔ " مگر میرے خواب میں بدر اس طرح کیوں آنے لگا ؟ اللّٰہ ۔۔ " اب وہ پریشانی سے بول رہی تھی جبکہ اپنے گرد ہلچل پر بدر نے کسمسا کر آنکھیں کھولیں ۔۔ اور پھر اسکی کیفیت جانچتا مسکرا گیا۔
" ہممم گڈ مارننگ بی کی جانم ۔ " اپنے کان میں ہوئی سرگوشی پر اس نے زور سے سر کو ہلایا جیسے ان لفظوں کو ذہن سے جھاڑ رہی ہو ۔۔
" یا اللّٰہ یہ کیسا خواب ہے میں اٹھ کیوں نہیں رہی ۔ مجھے اٹھا دیں بس بہت سو گئی میں " اسکے عمل اور باتوں پر بدر بے اختیار ہنس دیا۔ جس سے حرم نے پٹ سے آنکھیں کھولیں ۔ سامنے لیٹی نور بھی اب کروٹ بدل رہی تھی ۔ اس نے آہستہ سے پہلے آنکھیں اور پھر گردن بدر کی جانب گھمائی۔ اسکی معنی خیز نگاہیں اور وہ مسکراہٹ ۔ اُف یہ کیا کیا حرم۔
" یہ خواب نہیں ہے اور تم مجھ سے پہلے کی اٹھ چکی ہو ۔ " وہ سیدھا ہوا جبکہ حرم تو شاکڈ میں ہل جل بھی نہ رہی تھی ۔
" تمہیں شرم نہیں آتی ناں میرے ساتھ سوتے ہوئے بندہ لحاظ ہی کرلیتا ہے اور ۔۔۔ " وہ آگے کچھ بولتے بولتے رکی بدر نے بھنویں اچکائیں ۔ نہیں یہ وہ کیا بولنے لگی ہے کچھ بھی ۔ ' اُف حرم تم سب کچھ غلط ہی کرنا ۔۔ '
" میرا مطلب ہے کہ ۔۔ وہ ۔۔ " بدر پھیکا سا مسکرایا اور ذرا سا آگے ہوا اسکی آنکھوں میں دیکھتا رہا جہاں اب بھی چونک جانے کے اثرات نمایاں تھے ۔ اس نے دھیرے سے اسکے بالوں کو چھوا اور پھر بائیں جانب سے کان کے پیچھے کر ڈالے ۔ حرم نے تھوک نگلتے ہوئے کندھے پیچھے کی جانب کئے ۔ اور تب ہی بدر اٹھ کھڑا ہوا ۔
" مما ۔۔ " نور کے سوتے ہوئے میں آئی آواز پر اس نے نیچے کی ہوئی نگاہیں اٹھائیں ۔۔ پھر اٹھ کر اسکے پاس گئی اور جگ سے پانی نکالا ۔۔ بدر بھی بیڈ کے کنارے پر بیٹھا اب دور سے اسکی چوٹ کا معائنہ کر رہا تھا جو پٹی میں چھپی ہوئی تھی ۔
" یہ لو اٹھ کے بیٹھو نور ۔ " وہ سوتے ہوئے مما کہہ کر صرف پانی مانگا کرتی تھی ۔ بدر نے نور کو اٹھایا ، اسکے بال پیچھے کئے اور حرم سے گلاس لے کر اسکے آگے کیا ۔ حرم بھی ان دونوں کے قریب گئی ۔
" اب کیسی ہے میری جان ۔ ہاں ؟ " بدر کے پوچھنے پر اس نے باپ کے گرد بازو حائل کر لئے ۔
" نونو مِش یو دیڈی ۔ "
" آہ میری جان مِس کیا ۔۔ سوری ڈیڈو کو ذرا کام آگیا تھا نہ ۔۔ " اس نے بھی اسے خود میں سمویا ۔ حرم مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
" میں نماز پڑھ لوں ذرا ۔۔ " بدر نے سر ہلایا تو وہ اٹھ کر واشروم میں چلی گئی ۔۔
" ڈیدی نونو کو بی پرنی نماز ۔۔ " بدر نے دھیرے سے ہنستے ہوئے اسکے گال چوم لئے ۔
" مگر ڈیڈو کی جان کے ابھی چوٹ لگ گئی ہے نہ آپ اٹھو گی بیٹھو گی تو درد ہوگا ۔ " اسکی بات پر نور نے معصومیت سے دیکھا ۔۔
" ہاہاہا ایسے تو نہ دیکھو اچھا چلو آپ مما اور ڈیڈو کے ساتھ بیٹھ کر تسبیح پڑھ لینا اوکے نور ۔" بدر کی بات سنتے وہ یاسیت سے مسکرائی ۔ بدر نے رشک بھری نگاہوں سے اپنی ننھی سی جان کو دیکھا جس نے چوٹ کا درد صرف نماز کے لئے بھلا دیا تھا ۔
پھر ان تینوں نے ساتھ جائے نمازیں بچھا کر نماز ادا کی ۔ جبکہ نور نے ایک سیدھا رکھ کر تسبیح کے دانے گرائے اور ساتھ ساتھ اپنے دونوں ماں باپ کو دیکھتے بار بار مسکراتی جاتی ۔ کیونکہ آج پہلی بار وہ ان دونوں کو اس طرح دیکھ رہی تھی ۔
🖤____________~
" آپ کیا کہہ رہی ہیں ایسے کیسے نہیں مل کہاں جا سکتی ہے ۔ " سانیہ نے پریشانی سے زاہرہ آپا سے کہا جن کا تو رو کر برا حال ہو رہا رہا تھا ۔ حرم اور بدر بھی نور کے ساتھ نیچے آئے تو پریشانی سے سب کی جانب بڑھے ۔۔
" کیا ہوا ہے سب ٹھیک تو ہے زاہرہ آپا کیا ہوا ؟ یہ تو کیوں رہی ہیں ۔" حرم نے آگے بڑھ کر انہیں کندھا دیا جو ایک طرف سے پہلے سے ہی سانیہ کے سہارے تھیں۔
" آنٹی کا کہنا ہے کہ خدیجہ کہیں نہیں مل رہی ہم نے بھی پورا گھر اور اس پڑوس چھان مارا ہے ۔ وہ ایسے بغیر بتائے کہیں جاتی بھی نہیں ۔ " سارا نے آگے ہوتے ہوئے کہا ۔ سب ہی پریشان ہوگئے تھے کیونکہ آج سے پہلے واقعی وہ تو دروازے سے آگے قدم نہیں بڑھاتی تھی ۔ سعید آفندی صاحب اور حمزہ وغیرہ صبح سے کسی کام سے باہر چلے گئے تھے اسلئے انہیں اس معاملے کی ابھی بھنک نہ تھی ۔
" ہاں وہ تو رات کو فنکشن پر بھی نہیں تھی ۔۔ " حرم نے یاد کرتے ہوئے کہا ۔
" میں نے تو اسے تیار ہو کر جاتے دیکھا تھا اسکے بعد میں دوا کھا کر سوگئی کہ وہ آجائے کی کمرے میں مگر صبح سے ڈھونڈ رہی ہوں میری بچی ۔۔۔ " ان سے بولا تک نہ جا رہا تھا ۔ دونوں بہنیں بھی سر پکڑ کر بیٹھی ہوئی تھیں ۔ یہ انکے گھر کا معاملا تھا کوئی گھر میں آکر اگر اسے لے گیا ہے تو گلہ انکا پکڑا جائے گا ۔
" میں پولیس ٹیشن جارہا ہوں آپ لوگوں کو پہلے بتانا تھا فکر مت کریں ۔۔ " بدر نے نور کو زارا اور ممتاز بیگم کے پاس بیٹھایا صوفے پر اور باہر ہی جانے لگا جب خضر دروازے سے آتا ہوا دکھائی دیا ۔
" چلو خضر اچھا ہوا تم آگئے ہمیں خدیجہ کی رپورٹ لکھوانی ہے چلو فوراً ۔۔ " اسکی بات سنتے خضر نے بدر کو روکا ۔
" رکو رکو تو وہ واقعی بھاگ گئی ہے ! " بدر کے ساتھ ساتھ سب نے اسے چونک کر دیکھا ۔۔
" کیا مطلب ہے تمہارا کیا کہہ رہے ہو ؟ " بدر سے پہلے حرم کی آواز ہال میں گونجی ۔
" وہی کہہ رہا ہوں جو رات کو دیکھا تھا مجھے لگا میرا وہم ہے مگر نہیں وہ خدیجہ ہی ہوگی جو رات کو کسی کے ساتھ بھاگتے ہوئے دکھی مجھے ۔ "
جاری ہے ۔۔۔
❤️
👍
😢
😮
🙏
😂
193