Novel Ki Dunya
June 21, 2025 at 08:18 AM
#ایک_ستم_محبت_کا
#ازقلم_زینب_سرور
#قسط_نمبر_16
خضر کے جملے نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ زاہرہ آپا کا تو دل ہی بیٹھ سا گیا تھا ۔ انہیں چکر آیا ۔۔۔ غش کھا کر نیچے گِر جاتیں اگر حرم نے انہیں پکڑا ہوا نہ ہوتا ۔
" زاہرہ آپا۔۔ کیا ہوا۔۔۔ سانیہ تم انہیں کمرے لے جاؤ پلیز ۔۔ " انہیں بے جان ہوتے دیکھ حرم نے سانیہ کو آواز دی ۔ پھر اسکے حوالے کر وہ آگے بڑھی ۔ زارا نور کو بھی اپنے ساتھ لے گئی اسکا یہاں بیٹھنا اب ٹھیک نہ تھا ۔۔۔
" ہاں تو کیا کہہ رہے ہو تم ۔ الزام لگاتے ہوئے شرم نہیں آتی ؟ " اسنے ہاتھ بازوؤں پر لپیٹے اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔ تبھی سلمہ بیگم پیچھے سے کھڑی ہوئیں ۔
" لڑکی یہ کیا کہی جا رہی ہو ۔ جب وہ کہہ رہا ہے اس نے دیکھا ہے تو پھر ۔ " حرم آہستہ سے پیچھے مڑی ۔ ہاتھ کھولے اور ایک نظر خضر کو دیکھا جس کے چہرے پر اس وقت غضب کی شیطانی مسکراہٹ تھی ۔
" پہلی بات تو خدیجہ ایسا کر نہیں سکتی ۔ اسلئے میں نہیں جانتی آپ کا بیٹا جھوٹ کیوں بول رہا ہے ؟ اور رہی بات خدیجہ کی تو یہ معلوم ہو ہی جائے گا کہ وہ یہاں سے کیسے اور کہاں گئی ۔ " اس نے آخری جملہ خضر پر نظریں جمائے کہا تھا جیسے وہ بچ نہیں پائے گا اپنی اس گستاخی پر ۔
" خیر تم سب بحث نہ کرو ۔ بدر تمہارے بابا کو آجانے دو ۔ ہو سکتا ہے تب تک خدیجہ کا بھی کچھ پتا چل جائے اس طرح پولیس نہ جاؤ لڑکی ذات ہے بدنامی ہی ہوگی ۔۔۔ " معاملے کی نزاکت پرکھتے ہوئے ممتاز بیگم آگے بڑھیں اور بہن کا ہاتھ تھامے بدر سے کہنے لگیں ۔ تمام اختلافات ایک طرف اور گھر کا امن ایک طرف تھا انکے لئے ۔
" مگر صرف ڈیڈ کے آجانے تک انتظار کریں گے امی ہوسکتا ہے اسے کسی نے اغواء کر لیا ہو یا پھر ۔۔۔ بس اللّٰہ رحم کرے ۔ " بدر نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا دل تو اسکا بھی اندر تک ڈر گیا تھا ۔ بچپن سے وہ یہیں اپنی ماں کے ساتھ رہی ہے ۔ چھوٹے سے بڑا ہوتا دیکھا ہے اسے وہ انکی بہنوں کی طرح تھی آفندی ہاؤس کی ہی بیٹی تھی ۔ سب کیسے نہ پریشان ہوتے ۔ خضر خالہ کو دیکھا تو انہوں اسے اشارے سے جانے کا کہا جس پر وہ جس طرح آیا تھا اس ہی طرح واپس چلا گیا ۔
حرم نے سر ہلایا اور زاہرہ آپا کے پاس بیٹھ گئی جو نیم بیہوشی کی حالت میں تھیں۔
" دیکھیں بھابھی لگتا ہے بی پی لو ہوگیا ہے ۔ "
" ہاں تم بیٹھو ذرا اور میں کچن سے بوسٹر بنا کے لاتی ہوں ۔ " حرم کچن میں چلی گئی ۔ بدر بھی باہر کو نکلا گیا ہوسکتا ہے وہ کہیں سے آ ملے ۔
🖤__________~
وہ رات گئے تو بیڈ کے کنارے لگی بیٹھی رہی تھی ۔ نیند تو اسکو آتی بھی نہیں پہلی بات تو یہ کہ وہ اکیلے کمرے میں تھی اور دوسرا وہ اغواہ ہوچکی تھی یعنی گھر سے دور جس کا احساس پچھلی رات سرمد اسے اچھے سے کروا گیا تھا ۔ ابھی بھی وہ بیٹھی ہوئی اونگ ہی رہی تھی ۔ دوپٹہ سر پر نماز کی طرح لپیٹا ہوا تھا یعنی وہ کچھ پڑھتے پڑھتے ہی گنودگی میں چل دی ۔
دروازے کے باہر سرمد آہستہ سے آکر کھڑا ہوا ۔ اسکے بال نم سے تھے اور سیاہ قمیض شلوار سلوٹ و گرد سے پاک تھا ۔ وہ تازہ دم لگ رہا تھا ۔ غالباً ناشتہ بھی کر رکھا ہوگا یا نہیں ؟
خیر اس نے اس ہی بلی کی چال چلتے دروازہ کھولا دروازے کے کھلنے سے آواز نہ نکلتی تھی ۔ وہ اندر آیا تو بند دروازے کے آگے پردہ گرا لیا ۔
اسے کچھ سمھجہ نہ آیا کہ کس طرح پکارے کافی دیر تو یہی سوچنے میں نکل گیا ۔ کیونکہ نام تو اسے خدیجہ کا یاد ہی نہ تھا ۔ " اٹھو ۔ " بڑی مشکلوں سے اسے پکارا مگر وہ یونہی سر کو بیڈ سے ٹکائے سوتی رہی ۔ یقیناً وہ نیند میں جا چکی تھی ۔ کمرہ اے سی چلنے کے باعث ٹھنڈا بھی تھا ماربل کا فرش یقیناً اس وقت برف ہورہا ہوگا اور وہیں لیٹی ہوئی اس معصوم پر اس وقت سرمد کو بہت رحم آیا ۔ اس نے آگے بڑھ کر زور سے کھڑکی کھولی کہ شاید وہ اس کی آواز سے اٹھ جائے مگر بے سود ۔ کھڑکی سے آتی دھوپ اس کے دوپٹہ کو چمکانے لگی مگر وہ ہلی تک نہیں ۔
" اُف اب کیسے اٹھاؤں ۔ " اس نے سانس بھری اور سر یونہی دائیں جانب کیا تو نظر ٹیبل پر رکھی پازیب پر گئی ۔ اس نے کچھ سوچتے ہوئے وہ اٹھائی تو ہلکی سی چھنکار خاموش کمرے میں ہلچل کر گئی۔ پھر خدیجہ کے پاس بیٹھتے وہ ہاتھ کو اسکے کانوں کے قریب لے کے گیا جو دوپٹہ میں چھپے ہوئے تھے ۔ جبکہ گٹھنہ جو فرش پر ٹکایا تو وہ واضح طور پر ماربل کی ٹھنڈک محسوس کر رہا تھا ۔ تب ہی ایک زور کی چھنکار کمرے میں گونجی ۔
" ہاں ہاں اٹھ جاؤ ۔۔ " اسکی بند آنکھوں میں اور سوجے سے چہرے پر بیداری کی علامت چھلکی ۔ ایک بار پازیب کے گھنگروؤں نے آواز بکھیری ۔ دوسری ، تیسری اور چوتھی بار اس نے آنکھیں کھول ہی لیں ۔ آہستہ آہستہ بیدار ہونے پر اسکے سامنے منظر صاف ہوا اور ہوش میں آتی وہ اچھل کر کھڑی ہوگئی ۔
" شکر ہے اٹھ گئیں ۔" سرمد کو اس سے یہی توقع تھی وہ بولتے ہوئے اٹھا جس پر وہ ایک قدم دور ہوئی "ویسے کیا اس بیڈ پر واقع کاٹے لگے ہیں ؟ " سرمد نے بیڈ کی جانب اشارہ کیا تو وہ اپنی خفت دور کرنے کے لئے انگلیاں مڑوڑنے لگی ۔
" انگلیوں کو بعد میں توڑ لینا ابھی یہاں بیٹھ جاؤ ۔ کہو تو پہلے ناشتہ منگوا دیتا ہوں لیکن اسکے بعد حرم کو کال ملانی ہے تم نے ۔ " وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھا اور ہاتھ میں پکڑی پازیب تکیہ کے پاس اچھال دیں ۔
" میں میں کوئی مہمان ۔۔ بن کر کوئی آئی ہوں جو ۔۔ " اسکا جملہ ادھورا رہ گیا سرمد نے نگاہ اٹھا کر اس طرح اسے دیکھا ۔
" ایک تو تم یہ جو فوراً بزدلوں والی ڈرپوک حرکت کرتی ہونہ ۔ مجھے بہت چڑ ہوتی ہے پلیز ڈرنا بند کرو کھا نہیں جاؤں گا میں اور اتنا ہی تمہیں کھانے شوق ہوتا تو رات کو یہ کام آرام سے کیا جا سکتا تھا ۔ " اس نے تنک کر بولا سرمد کو یہ بزدلی اور ڈرپوک ہونا بالکل نہ پسند تھا۔
" مجھے گھر جانا ہے۔ " پھر وہی رات والی رٹ شروع کرتے وہ اسے کھڑا ہونے پر مجبور کرگئی ۔ سرمد نے اسکا ہاتھ پکڑا اور غصے سے بیڈ پر بٹھایا ۔
" خبردار جو ایک بات کی رٹ لگائی ۔۔ ناشتہ آرہا ہے ناشتہ کرو ۔ ظالم انسان نہیں ہوں میں ۔ بیوقوف " اس نے بولتے ہوئے ایک بٹن دبایا جس پر باہر سے ہلکی سی آواز آتی سنائی دی اور پھر ایک ملازم ٹرے سجائے اندر آیا ۔ ملازم ٹرے سامنے رکھ کر گیا تو اس نے بغور ٹرے میں رکھے ناشتے کو دیکھا گویا اوپر سے کسی نے زہر نہ چھڑک دیا ہو ۔ سرمد نے افسوس سے سر اسے دیکھا ۔
" ایک الفاظ منہ سے نہ نکلے کوئی زہر نہیں ملایا اس میں کھا لو جلدی ۔ میں واپس آؤں تو تمہارا ناشتہ ہوجانا چاہئیے ۔ سمھجہ آئی ۔ " اسکی اتنے سخت لہجے پر وہ تیزی سے ہلا گئی آواز تو نکلنے سے پہلے ہی دب گئی تھی ۔ سرمد دروازے تک جاکہ رکا اور اسکو دیکھا جس نے اب تک سینڈوچ صرف پکڑا تھا ۔
" ڈرپوک لڑکی ۔ " دل میں اسے لقب نوازتا وہ باہر نکلا تو خدیجہ نے بھی سکھ کا سانس لیا ۔
" اونہہ کہتے ہیں ظالم نہیں ہیں شکل سے نہیں لگتے تو کیا ہوا ۔۔ اور بھلا اغواء ہونے کے بعد ناشتہ کون کرتا ہے ۔۔ " اس نے سینڈوچ کو منہ بسورے دیکھا ۔۔
" تم کروگی نہ ناشتہ چلو اب آواز نہ آئے فون بھی کرنا ہے ۔ " اسکے تو وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ سرمد دروازے کے پار ہی کھڑا ہوگا ۔ آنکھیں خود سے پھیلائے ایک نظر دروازے کو دیکھا اور پھر جلدی سے کھانے لگی ۔ اب حلق سے تو اتارنا ہی تھا ۔ سرمد جو باہر سے دیکھ رہا تھا دھیرے سے مسکرا دیا ۔
" ڈرپوک لڑکی ۔ " ۔۔۔
🖤__________~
" زارا ! نور نے ناشتہ کر لیا نہ بھابھی پوچھ رہی تھیں ۔" سارا کمرے میں آتی ہوئی کہنے لگی ۔ سامنے ہی بیڈ پر نور پیر پھیلائے بیٹھی تھی جبکہ زارا اسکے برابر میں بیٹھی ٹرے سائڈ ٹیبل پر رکھ رہی تھی ۔
دراصل حرم باہر زاہرہ آپا کے پاس ہی تھی ۔ اسلئے نور کا ناشتہ اس نے کمرے میں بھجوا دیا تھا کہ زارا کروا دے گی ۔ وہ کل رات سے ہی اس کے ساتھ یکدم ٹھیک تعلق رکھتے ہوئی تھی ۔ پہلے جیسی بات اب نہ تھی ۔ شاید معاملہ کی نزاکت ہی یہی تھی کہ وہ اختلاف بھول جائے ویسے بھی ان دونوں کی کبھی روبرو کوئی لڑائی بحث نہ ہوئی ہے ۔ سب ذہنوں میں بھرے گئے برائیاں ہی ہیں ۔
" ہاں اور بہت اچھے سے کیا ہے ۔ " اس نے مسکراتے ہوئے کہا سارا بھی اب ان دونوں کے سامنے آ بیٹھی ۔
" مما ڈیدو کا ہیں اپیاہ ۔۔۔ " وہ اپیا ( سارا کو دیا ہوا نام ) کو ذرا کھینچ کر لمبا کر کے بولتی تھی ۔
" ڈیڈو گئے ہیں کام سے اور آپ کی مما زاہرہ آپا کے پاس ہیں انکی طبیعت خراب ہے نہ ۔" اس نے نور کے بال سہی کرتے ہوئے کہا جس پر نونو نے چونک کر منہ کھولا ۔
" آہ تو کا انیں بی ڈاکٹر کے پاش لے گئے ۔۔ " اس نے آنکھیں بڑی کرتے کہا جیسے بہت ہی چونکنے والی بات ہو ۔ سارا نے ہنسی دبائی ۔
" نہیں بھئی نونو کی مما ہیں نہ وہ ڈاکٹر سے کم کوئی ہیں۔ " اس نے زارا کو دیکھتے ہوئے کہا جس کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے ہوئے تھے۔ سارا نے سکھ کا سانس لیا اسے بولنے بعد ڈر لاحق ہوا تھا کہ کہیں سارا نے مائینڈ نہ کرلیا ہو ۔
" اپیا پیاہ ۔۔۔ " اس نے تیزی سے سارا کو اپنی طرف توجہ دلائی ۔
" جی جی اپیا کی جان بولو ۔"
" ڈاکٹر اگجیشن لاتے ہیں ناں ؟ " اس کی بات پر وہ دونوں ایک ساتھ ہنسیں ۔ اسے لگا نجانے کیا کہنے کی بے تابی ہوئی ہے نور کو۔
" ہاہاہا ہاں بھئی تمہارا ' اگجیشن ' لگاتے ہیں ڈاکٹر ۔ " زارا نے اسکے ٹوٹے لفظ کو زور دے کر دھرایا ۔
" اچھا بس اب آپ یہ باتیں چھوڑو نہیں تو اپیا کی نور کو بھی کہیں ڈاکٹر انجیکشن نہ لگا دے ۔۔۔ " سارا نے سر کو ہلاتے کہا ۔
" تیوں ۔۔۔ایشے کیشے نونو تو دیڈو پاش بھاگ جائی گی ۔ " اس نے سارا کی بات پر بھنویں سمیٹیں اور اور پھر انہیں اچکاتے ہوئے کہا ۔ جیسے کہہ رہی ہو نور تو بھاگ جائے گی بچو ۔۔
" بہت سمارٹ ہوتی جارہی ہے نونو تو ہاں بھئی ۔" زارا کی تعریف پر اسنے ہمیشہ کی طرح معصومانہ منہ بنائے مسکراہٹ اچھالی ۔ گٹھنے کا درد وہ اب بھول چکی تھی ۔ صرف چلنے کے وقت درد ہورہا تھا اسلئے اس ان لوگوں نے اسے باتوں میں گھیرے رکھا ۔ اور خود اس کی سنگت سے لطف اندوز ہوتی رہیں ۔
🖤__________~
قریباً دن کے بارہ بجنے کو تھے جب سعید آفندی صاحب حمزہ کے ہمراہ گھر میں داخل ہوئے ۔ گھر کے لاؤنج میں جابجا خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ حرم کے بوسٹر سے زاہرہ آپا اب اپنے ہوش میں تھیں ۔ مگر صوفے سے اٹھنے کی ہمت انکے پیروں نے اب تک نہ دی تھی ۔ بدر سعید صاحب کے ساتھ سامنے صوفے پر بیٹھا سب کچھ بیان کررہا تھا ۔ اور انکے برابر میں ہی ممتاز بیگم بیٹھی تھیں ۔۔ سانیہ اور حمزہ دونوں صوفوں کے بیچ میں کھڑے کبھی ادھر دیکھتے تو کبھی اُدھر ۔
" ہمم اگر اب تک اغواء کاروں کا فون بھی نہیں آیا ہے تو دیر نہیں کرنی چاہئیے ۔ پولیس ٹیشن ہی ایک آخری حل ہے ۔ " سعید صاحب نے گہری سوچ میں ڈوبی آواز کے ساتھ کہا ۔
" بدر تم نے بتایا نہیں خضر کیا کہہ رہا تھا ۔ " سلمہ بیگم نے اب بھی چپ ہونے کی نہیں ٹھانی ۔ انکی بات پر سعید صاحب نے بدر کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا ۔
" خضر نمونے نے بھی کچھ کیا ہے کیا ؟ " حمزہ نے سانیہ کے کان میں سرگوشی کی ۔ جس پر اس نے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔
" خود تو پوری کہانی ایسے سن رہی ہو جیسے تم تھیں ہی نہیں ۔ " اسکی دوبارہ آواز پر سانیہ نے گھوری سے نوازا ۔
" چپ ہو جاؤ بڑے بات کر رہے ہیں ۔" حمزہ نے بہن کو منہ بنائے دیکھا اور پھر واپس باپ کی جانب متوجہ ہوا ۔
" کچھ نہیں اسکو وہم ہوا تھا ڈیڈ ۔ " بدر نے بات بنائی ۔
" بتاؤ مجھے کیا کہا تھا ۔ " حرم نے سانس بھری اور بدر کو اشارہ کیا کہ بول دے ۔
" اسکا کہنا ہے کہ کل رات اس نے کسی کو جاتے ہوئے دیکھا مطلب یہ کہ اسکے مطابق خدیجہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ۔ مگر ۔۔۔ "
" اسلام و علیکم ۔۔ " وہ آگے کچھ اور کہتا جب دروازے سے ایک بھاری آواز ابھری ۔ سب نے یک جا ہوتے دیکھا تو پہلے تو اچھنبے سے سرمد کو اندر آتے دیکھا لیکن پھر ۔۔۔
" خدیجہ ۔۔ " حرم نے زور سے پکارا ۔ وہ سرمد کے بالکل پیچھے کھڑی تھی ۔ سب شاکڈ کے عالم میں تھے ۔
" سچ نکلی نہ میرے بیٹے کی بات ۔۔ " حرم کو آگے بڑھتے ہوئے سلمہ بیگم کی آواز اچھے سے سنائی دی تھی جسے اس نے نظر انداز کردیا ۔
_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_
" سرمد بلوچ! یہاں " سعید صاحب نے حیران ہوتے ہوئے کہا ۔ جبکہ حرم سب کچھ بھلائے سیدھی خدیجہ کے پاس گئی جو گم سم سی کھڑی ہوئی اب بھی سرمد کی پشت کو گھور رہی تھی ۔
" تم ٹھیک ہو نہ ۔کہاں چلی گئیں تھیں ۔۔ " اس نے خدیجہ کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تو وہ اسکے گلے لگ گئی ۔ بے آواز آنسوؤں کی بوچھاڑ ہونے لگی ۔
" اچھا چلو پہلے بیٹھو ساری باتیں بعد میں ۔ " ایک نظر سرمد کی طرف ڈالتی وہ اسے زاہرہ آپا کے پاس لے گئیں ۔
" اماں۔۔ " اس نے ماں کو پکارا جو سر ہاتھوں میں دئیے بیٹھی تھیں ۔ انہوں نے اوپر نہ دیکھا ۔ خدیجہ کی ہچکی بند گئی ۔ حرم نے اسے چپ ہو کر بیٹھنے کو کہا ۔۔
" سب ٹھیک ہے ۔ انکی طبیعت نہیں ٹھیک تم بیٹھو ۔ " اس نے فلوقت اسے وہیں بٹھایا اور اب سب کی طرح اسکی توجہ بھی سرمد کی جانب تھی ۔ جو اب تک پرسوچ نگاہیں لئے ادھر ہی دیکھ رہا تھا۔
" مجھے افسوس کے ساتھ ساتھ بہت ہی حیرانی بھی ہے کہ آپ کے گھر میں یہ واقع ہوا۔ " اسنے اب ہاتھوں کی انگلیوں کو باہم ملایا اور نظریں سعید صاحب کی جانب کیں ۔ حمزہ بدر کے ساتھ آکر کھڑا ہوگیا تھا اور نے سانیہ خدیجہ کی جانب رُخ کیا ۔
" پہلے یہ بتاو وہ تمہارے پاس کیا کر رہی ہے ؟ " بدر نے وہیں کھڑے کھڑے پوچھا ۔ اسکے لہجے میں کوئی نرمی نہ تھی ۔ اور یہ بہت ہی نہ مناسب چیز تھی جو سب نے نوٹ کری کیونکہ سرمد سے تو انکے بزنس کی وجہ سے کافی اچھے تعلقات ہیں ۔
" میرے پاس کچھ نہیں کر رہی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ اِس گھر سے وہ غائب کیسے ہوئی ۔ "
" آپ پہیلیاں کیوں بجھا رہے ہیں ۔ صاف صاف بتائیے خدیجہ آپ کو کیسے ملی اور کہاں ؟ " حرم نے آہستگی سے کہا ۔ سرمد کی آنکھوں میں یونہی چمک ابھری گہری مونچھوں تلے لب ہلکے سے تلخ مسکراہٹ چھوا کہ سنجیدہ ہوگئے ۔
" اوہ تو خدیجہ نام ہے ۔ اسے اغواء کرلیا گیا تھا ۔ میرے کچھ تعلقات ہیں انکے نیچے اس ہی طرح کے کیسز حل ہوتے ہیں ۔ بس یہ کہو کہ اتفاق ایسا ہوا کہ وہ مجھے مل گئی ۔ اور میں نے شناسا چہرہ دیکھ اسے وہاں نہیں چھوڑا ۔ ورنہ سیدھا پولیس کیس بن رہا ہے ۔۔ " سرمد کے آخری جملے پر بدر لب بھینچ کر رہ گیا۔ پھر سرمد سعید صاحب کو لیتے ذرا کنارے ہوا ۔
" دیکھیں میں پتا کروا چکا ہوں کہ کس نے اغواء کروایا تھا ۔ ہمارے کچھ دشمن ہی ہیں جنہوں نے یہ کام کیا ۔ "
" کیا مطلب کون کون ہیں ؟ " سعید صاحب نے ایک نظر پاس میں ڈالی جہاں سب انہیں تفشیشی نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔
" سعید صاحب معاملے کی سنگینی یہی کہتی ہے کہ فلحال اسے یہیں دفن کردیں ۔ اور رہی بات آپ کے ڈر کی کہ پھر ایسا کچھ نہ ہو جائے تو اسکی فکر آپ نہ کریں ۔ " اس نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔
" فکر کیسے نہ کروں شادی کا گھر ہے ۔ اور یہ سب کسی کو پتا چل گیا تو الگ تماشہ لگے گا ۔ کہ سعید آفندی کے گھر میں یہ کیسے ہوگیا ؟ سب باتیں بنائیں گے ۔ " اور یہی سچ تھا ۔ یہ خبر اگر ذرا سی بھی باہر جاتی تو سب سے پہلے تو شہر کے مشہور اخباروں کے فرنٹ کور کی زینت بن جاتی ۔ اور پھر وہ جو باہر اپنا کاروبار پھیلانے کے لئے اقدام کر رہے تھے یہ خبر آڑے آجاتی ۔ سرمد نے سمھجتے ہوئے سر ہلایا ۔
" میں یہی سب سوچ کر آپ کو کہہ رہا ہوں ۔ پولیس کے پاس نہ جائیں ویسے بھی خدیجہ تو گھر آہی گئی ہے ۔ اس معاملے کی مزید تہہ تک ہم آپ کی بیٹی کی شادی کے بعد جائیں گے ۔ " انکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے وہ اپنا منصوبہ کامیاب کر رہا تھا ۔ سعید صاحب نے سر اثبات میں ہلایا ۔ ان کا دماغ بھی یہی کہہ رہا تھا ۔
" اور ہاں شادی تک ساری سیکیورٹی کی ذمہ داری میری ہے آپ فکر نہ کریں ۔۔ شہر میں سب ہی جانتے ہیں ۔ ہماری سروسز کے بارے میں ۔" اب انہوں نے قدم بڑھایا تھا اور وہ لوگ واپس صوفوں کی جانب بڑھ رہے تھے ۔
" ہاں تم نے تو میرے منہ کی بات چھین لی ۔ میں یہی کہنے والا تھا ۔۔ شکریہ سرمد ۔۔ " اس کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کرتے وہ واپس اپنی جگہ پر بیٹھے جبکہ سب کی سوالیہ نگاہیں خود پر مرکوز پا کر وہ سانس بھر کر دیکھنے لگے ۔۔ " شکریہ کی بات نہیں ۔ "
" ڈیڈ کچھ بتائیں گے کیا ۔۔ " بدر آگے بھی بولتا مگر انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا ۔۔
" بتا دوں گا ۔۔ حرم بیٹا انہیں اندر لے جاؤ ۔۔ اور کچھ ۔۔" آخر میں انہوں نے سرمد کی مہمان نوازی کی جانب اشارہ کیا تھا جس پر وہ سر ہلاتی چل دی ۔۔ زاہرہ آپا آٹھ کے چلی گئیں سلمہ بیگم ممتاز بیگم کے ساتھ پہلے ہی جا چکی تھیں جب وہ لوگ بات کر رہے تھے ۔ اب سامنے خدیجہ تھی جس کی ماں کے پاس جانے کی ہمت نہ ہو رہی تھی ۔ سرمد نے ایک نظر دیکھا وہ صوفے کو مضبوطی سے تھامے اپنی فرسٹریشن اتار رہی تھی ۔
" خیر میں چلتا ہوں پھر ۔۔ " وہ بیٹھے بغیر ہی جانے کا کہنے لگا ۔۔ بدر اب حمزہ کے ساتھ بیٹھ گیا وہ یہاں سے تب ہی جائے گا جب بات معلوم ہوجائے گی۔
" ارے رک جاؤ کھانا کھا کر جانا ۔ تم نہ ہوتے تو نجانے ہماری بچی کیسے ملتی ۔۔ " سعید صاحب کی بات پر خدیجہ نے نظریں اوپر اٹھائیں تو بقول اس کے سرمد جیسے ظالم شخص سے جا ملیں ۔ ' ڈرپوک لڑکی '
" نہیں نہیں مجھے کچھ ضروری کام ہے ۔۔ پھر کبھی سہی ۔۔ "
" اچھا پھر رات کی تقریب میں میں تو شرکت کر ہی لینا منع نہ کرنا میں تمہیں پہلے ہی انوائیٹ کر چکا ہوں اچھا ۔۔ " انہوں نے اس طرح کہا کہ وہ ہلکا سا ہنس دیا ۔
" چلیں ٹھیک ہے ۔۔ اوکے پھر چلتا ہوں ۔ " سرمد آگے بڑھا اور مسکراتے ہوئے حمزہ اور بدر سے مصافحہ کیا ۔ پھر سعید صاحب سے ملتے ہوئے وہ نکلتے گیا ۔ آنکھوں پر کالا چشمہ ٹکائے وہ گھر سے باہر نکلا تو چہرے پر مزین مسکراہٹ تھی ۔ تیز سورج کی روشنی چشمے سے ٹکراتے ہوئے بکھر رہی تھی ۔ وہ باہر تک آیا تو ایک گارڈ نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور سر کو خم دئیے اسکے بیٹھنے کے بعد بند کردیا۔
" آہ اسے کہتے ہیں ایک تیر سے دو نشانے ۔ ہر طرف سے فایدہ میرا ہی ہوگا . اب دیکھتا ہوں جاوید صدیقی بیٹی کو کیسے چھپاتے ہیں مجھ سے ۔ ان کے تو خود کے تعلقات استوار نہ ہوئے اب تک ۔ " چلتی گاڑی سے باہر کا نظارہ دیکھتے وہ دل ہی دل میں کہہ رہا تھا ۔۔ گاڑی سیدھے روڈ پر چل رہی تھی اسلئے کوئی جھٹکے نہ لگ رہے تھے ۔
" ڈرپوک دنیا کے ڈرپوک لوگ ۔۔ " اب وہ سر پیچھے سیٹ سے لگا گیا ۔۔۔ جب صبح خضر اسکے پاس اپنا کارنامہ بتانے آیا تبھی وہ اس پر چڑ گیا ۔۔ اور کسی طوفان کی طرح خضر پر دیر تلک برسا ۔۔ اس نے تو بہت مزاحمت کی مگر بچ نہ سکا ۔۔ پولیس کو اگر اطلاع ہو بھی جاتی تو وہ سرمد کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی مگر پھر اسے خیال آیا کہ خدیجہ کے لئے مسئلہ ہو جائے گا ویسے بھی اسکی اس ڈرپوک لڑکی سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ پھر اس نے خدیجہ کو بھی اعتماد میں لیتے ہوئے یہی کہنے کا کہا کہ وہ گھر پر کسی کو کچھ نہ بتائے ۔۔
جاری ہے
❤️
👍
😢
😮
😂
🙏
159