Novel Ki Dunya
June 21, 2025 at 01:38 PM
#ایک_ستم_محبت_کا #ازقلم_زینب_سرور #قسط_نمبر_17 " میری اس لڑکی سے کوئی دشمنی نہ تھی تب ہی یہ کیا ۔۔۔ اسہی لئے میں نے اسے معاملے سے دور کردیا ۔۔" وہ آنکھیں بند کئے اب خود سے باتیں کر رہا تھا۔ اسکی عادت تھی کچھ بھی کر گزرنے کے بعد خود سے وضاحتیں کرنا ۔ ' اور حرم سے کون سی دشمنی ہے ؟ اس سے تو محبت تھی ناں ' اب یہ اسکا ضمیر تھا جو اندر سے اسے پکارنے لگے تھا۔ انسان کا ضمیر اسے ہمیشہ سب سے پہلے آکر جھنجھوڑ دیتا ہے ۔ کچھ بھی غلط کرنے سے پہلے ضمیر ملامت کرتا ہے ۔ اب یہ انسان پر ہے کہ وہ اس آواز کو سنتا بھی ہے یا نہیں ۔ یہاں سرمد نے وہ آواز بخوبی سن لی تھی ۔۔ " ہاں تھی مگر اب نہیں کرتا ۔۔ اور اس کے بھائی نے جو میرے بھائی کو مار کر کیا ۔ " ' لیکن بعد میں سب واضح تھا کہ ان دونوں کی لڑائی ہوئی تھی اور پھر اگر تمہارا بھائی نہیں بچا تو حرم کا کون سا زندہ ہے ۔۔ ؟ ' اب کی بار وہ آنکھیں کھول کر سیدھا ہوگیا گاڑی کے شیشے چڑھے ہوئے تھے اس نے تیزی سے کھولے جیسے سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہو ۔۔ ' یوں بھاگنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ تم صرف ضد لگائے بیٹھے جیسے چھوٹے بچے ضد کرتے ہیں بالکل ویسے ہی ۔ حرم کا معاملہ تو کب کا ختم ہوچکا تھا نہ ۔ تم بھول چکے تھے نہ سب ۔۔۔ ' اس نے ایک لمبی سانس لی اور سنہری آنکھیں زور سے بند کیں ۔۔ ' نہیں سرمد اسکی باتوں پر دھیان نہ دو ۔ بدلہ بدلہ ہوتا ہے اور بدلہ لینے کا جب بھی موقع ملے وہ لے لیا جاتا ہے ۔ ' یہ وہ آواز ہے جو ہمیشہ دائیں جانب سے آتی ہے ۔ انسان کے اندر پلتے ہوئے شیطان کی آواز ۔ جو ہمیشہ بھڑکاتا ہے ۔۔ " ہاں میں ۔۔۔ میں اب وہی کروں گا جو مجھے بہت پہلے کر لینا چاہئیے تھا۔۔۔ " اور یہاں اس پر شیطان حاوی ہوگیا ۔ اندر کہیں چھپا ہوا شیطان دھیمے سے مسکرایا شاہد اسے یہ اپنی جیت نظر آتی تھی ۔۔ ' سرمد بلوچ تم اپنے ضمیر کو نہیں مار سکتے ۔۔ حرم کا کوئی قصور نہیں ۔۔ ' وہ اب جیپ میں سے فون نکال رہا تھا ۔ سانس بھرتے وہ ساری سوچیں سب آوازیں نظر انداز کر رہا تھا۔ ' تم پچھتاؤ گے ۔ یہ مت کروں اب بھی وقت ہے ۔ بھائی کا کوئی بدلہ نہیں ہے ۔ وہ دونوں اپنے اپنے بدلوں کے ساتھ مر چکے ہیں ۔۔ ' اسکے ہاتھ اب بلوٹوتھ فون سے کنیکٹ کر رہے تھے ۔ گاڑی کے شیشے واپس اونچے کر دئیے گئے تھے ۔۔ ' سرمد اس کا کوئی قصور نہیں ۔ تم اسے بھلا چکے تھے ۔ اس کی ایک بچی ۔۔۔ ' ضمیر کی ملامت بھری آواز کان میں لگے آلہ سے نکلتے شور کے آگے دب گئیں ۔۔ دور کہیں شیطان بیٹھا اپنی جیت پر مسکراتا رہا ۔۔ 🖤__________~ سعید آفندی صاحب نے بدر اور باقی سارے گھر والوں کو یک جا کر کے آگاہ کردیا تھا کہ ۔۔۔ " سانیہ کی شادی تک اس معاملے کو ہوا نہ دو ۔۔ جو ہونا تھا ہوگیا ۔ اب شادی ختم ہوجانے کے بعد دیکھیں گے ۔ خدیجہ کو ویسے بھی کچھ نہیں یاد تو اس سے اور زاہرہ سے بھی اب اس قسم کی کوئی بات نہیں ہونی چاہئیے ۔۔ اب سب کھانا کھاؤ اور پھر کچھ دیر آرام کر کے تیاری کریں ۔۔ " یہ بات انہوں نے کھانے سے پہلے کی تھی جس پر سب نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔ اب ساڑھے چار بجے کا وقت تھا جب بدر کمرے میں آیا ۔ وہ باہر کے انتظامات دیکھ کر ہی آرہا تھا جو مکمل ہونے کے در پر تھے ۔۔۔ نور ہاتھ میں ٹیب پکڑے بیڈ پر پیر پھیلائے بیٹھی ہوئی تھی جبکہ اس کے آگے کچھ نور کے ڈریسز اور کچھ حرم کے جوڑے پھیلے ہوئے جبکہ حرم ایک مہندی رنگ کا گوٹے کے کام والا جوڑا ہاتھ میں تھامی ہوئی تھی ۔ پھر نظر بدر کی جانب گھومی تو اس نے ہاتھ نیچے کیا اور بیڈ تلک آئی ۔۔ " یہ سب دیکھ کر مجھے پتا ہے کیا لگ رہا ہے ؟" بدر ایک جوڑا سائڈ کر کے نور کے برابر میں بیٹھا ۔۔ جبکہ حرم نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔۔ " کیا لگ رہا ہے تمہیں ؟ " اس نے ہاتھ میں پکڑا جوڑا بیڈ پر ڈالا اور کمر پر پہلے بال دونوں ہاتھوں سے اٹھائے لپیٹنے لگی۔ " مجھے یہ لگ رہا ہے جیسے فنکشن پر صرف تم دو جاؤ گی ۔۔ نہیں مطلب میرے کپڑے کہاں ہیں ۔ " بدر کی بات پر نور نے سر اٹھا کر دیکھا ۔۔ " دیڈو آپ کا دریس واں ہے ۔ " نور نے سب سے پہلے بتانا فرض سمجھا ۔۔ اسکے ہاتھ کا اشارہ دیکھتے وہ ہنسی چھپا گیا ۔۔ " نہیں مطلب نونو اور اسکی مما کے اتنے کپڑے اور ڈیڈو کا صرف ایک ۔۔ " اسکی بات اب نور نے ہاتھ میں کیا ٹیبل سائڈ میں رکھ دیا اور سوچتے ہوئے پہلے ماں کو دیکھا جو اس طرح دیکھ رہی تھی جیسے کہہ رہی " نور اب تم ہی بتاؤ اپنے ڈیڈو کو ۔ " ۔۔۔ " اف او دیڈو ۔۔۔ " نور نے نزاکت سے منہ بنائے سر پر ہاتھ مارا جس کی توقع حرم کو پہلے سے ہی تھی جب ہی وہ ہنس پڑی ۔۔ بدر نے بے اختیار نظر اسکی جانب گھمائی ۔۔ جس کے ہنستے ہوئے ہاتھ نیچے آنے سے بال واپس لہرا گئے ۔۔ " ام بھی تو اونلی ون دریس وئیر کرے گیں ناں ۔" ایک طرف سے لب پھیلائے وہ بھنویں سکیڑے بدر کو کہہ رہی تھی ۔ حرم نے اپنی جانب دیکھتے پایا تو ہنسی مسکراہٹ میں بدل گئی ۔ اور نجانے کیوں نگاہیں نیچے بیڈ پر کرلیں ۔ بدر دھیمے سے مسکرایا اور نور کے بوسہ دیا ۔ " ڈیڈو پرنسس کو تنگ کر رہے تھے ۔ ایسے منہ نہ بناؤ ۔۔" نور نے خاموش کمرے میں کھلکھلاہٹ بکھیری ۔۔ " ویسے آج تو بدر کی جان نے سب کو چونکا دینا ہے اس ڈریس میں ۔۔ " وہ نور کی جانب دیکھتے ہوئے حرم کا مہندی رنگ والا جوڑا اٹھائے کہہ رہا تھا ۔۔ " یہ تو مما کا دریس ہے دیڈو ۔۔ " نور نے اپنا ڈریس آگے کرتے ہوئے کہا جس پر بدر نے ایک نظر حرم کو دیکھا جو اسکی چھپی ہوئی بات سمجھ چکی تھی ۔ " ہاں یہ رہا نور کا ڈیڈو بھی نہ کچھ بھی کردیتے ہیں " نور کے ہاتھ سے فراک لیتے اس نے نور کو ہنساتے ہوئے کہا ۔۔ " آہ ٹھیک ہے پھر نور ڈیڈو کے پاس بیٹھو میں ذرا یہ پریس کر لوں ۔ " اس نے تیزی سے وہ جوڑا اٹھایا اور ساتھ والے ڈریسنگ روم میں چلی گئی ۔ پیچھے سے بدر نجانے کب تک یونہی مسکراتا رہا ۔۔ " بدر کی جانم ۔۔ " محبت کا اثر کبھی زائل نہیں جاتا ۔۔ _-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_ وقت تھا کوئی رات کے گیارہ بجے کا جب وہ لوگ مہندی کے فنکشن سے لوٹ رہے تھے ۔ سب خوش تھے گھر کی رونق دوبالا ہوگئی تھی۔ مہندی میں چونکہ دلہن تو جاتی نہیں اسلئے سانیہ کے پاس خدیجہ اور زاہرہ آپا تو گھر پر تھیں ہی ۔ ویسے بھی انکی طبیعت اب ہی سنبھلی تھی تو وہ گھر ہی رک گئیں ۔ " جی جی امی ۔۔ ہاں میں نے سب چیزیں رکھوا دی تھیں فکر نہ کریں ۔ " بدر لاونج میں کھڑا ممتاز بیگم سے بات کر رہا تھا جنہوں ریشمی کامدار جوڑا پہن رکھا تھا ۔۔ وہ لوگ بس ابھی ابھی ہی گھر میں داخل ہوئے تھے ۔ سانیہ جو اوپر کھڑی سب کی راہ تَک رہی تھی ۔ ان سب کو آتا دیکھ کمرے میں بھاگی ۔ زارا اور سارا نے ایک دوسرے کو دیکھ ہنسی دبائی وہ دونوں اسے دیکھ چکی تھیں ۔ اور اب اوپر چل دیں ۔ " بس کرو برخودار صبح بہت کام ہیں جا کر سو جاؤ ۔۔ " سعید صاحب نے اندر آتے ہوئے حمزہ کو ٹوکا ۔ جو نور کو گود میں چڑھائے سیلفی لیتے نہ تھک رہا تھا ۔ حرم بھی ہاتھ جھاڑتی کچن سے نکلی وہ کچھ تھال وغیرہ رکھنے گئی تھی ۔۔ " نو دیڈو کے دیڈی ۔ بڈی اول نونو سیفی لے رے ہیں ۔۔ ( نو ڈیڈو کے ڈیڈی ۔ بڈی اور نونو سیلفی لے رہے ہیں ) " نور نے آنکھیں بڑی کرتے ہوئے ہاتھ سے روکا ۔۔ جیسے وہ اسے بڈی کی گود سے ہی اتار دیں گے ۔ " ڈیڈ نور نے بھی کہہ دیا اب تو لینے دیں ۔ وہاں تو فنکشن ہی لڑکیوں کا تھا عجیب مطلب ہمیں کیا سیٹ پر چپکانے کے لئے بلایا گیا تھا ۔ یا پھر ڈھیٹوں کی طرح سب کو دیکھنے کے لئے ۔۔ اور سب اندر جا کی ایسے شور مچا رہے تھے جیسے " اس نے تیزی سے اندر دبی بات نکال دی ۔ سعید صاحب نے سر افسوس سے ہلایا ۔۔ " اچھا بس بھی کرو اب چلو اندر ۔۔ " " کیا ڈیڈ نہیں بلکہ ایک کام کریں آپ بھی آجائیں ۔۔ " اس نے منہ بناتے ہوئے ان کا ہاتھ پکڑا ۔ نور نے بھی پہلے حمزہ کو دیکھا جس کے پاس سے اٹھتی خوشبو واقع بہت تیز تھی مگر اب تو اسکو عادت سی ہوگئی تھی ۔۔ " یش دیڈو کے ڈیڈی ۔۔ کم آن" حمزہ کو دیکھتے ہوئے وہ بھی اب سعید صاحب کا وہی ہاتھ پکڑے بلانے لگی ۔۔ جبکہ دونوں کا التجائی چہرہ دیکھ سعید صاحب نے ہنسی روکی تھی ۔ اسکی آواز پر اب ممتاز بیگم اور بدر بھی یہیں دیکھ رہے تھے۔ " آج کل کے بچے بھی بس ۔ چلو لو سیلفی " اسکے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے انہوں نے ہاتھ میں پکڑے فون کی جانب نگاہ کی ۔۔ " ڈونٹ وری ڈیڈ آپ کے ہی ہیں ۔ چلو سب یہاں دیکھو ۔۔ " اس نے بروقت ہاتھ تھوڑا اور اونچا کیا جبکہ اس کے اِس طرح کہنے پر پیچھے سے آتی حرم نے بھی نگاہ اٹھائی اور یوں ان تمام کی ایک یادگار تصویر بن گئی ۔ " واؤ کیا ٹائمنگ ہے بھابھی ۔ آل اِن وَن فریم " وہ تصویر دیکھتے ہوئے کہنے لگا ۔ حرم ہلکا سا مسکرا دی ۔ حمزہ نے نور کو گود سے اتارا تو وہ بدر سے آکے لگ گئی ۔ جس پر اس نے گال کھینچتے ہوئے گود میں اٹھایا جب تک ممتاز بیگم بھی کمرے میں چلی گئیں تھیں ۔ " چلو اب سب سونے ۔ اور صبح وقت پر اٹھ جانا سمھجہ آئی ۔ " سعید صاحب کی آواز پر وہ موبائل میں دیکھتے ہوئے سر ہلا گیا ۔ سعید صاحب سانس بھر کے رہ گئے پھر کمرے میں چل دئیے ۔ 🖤___________~ سارے گھر میں اس وقت خاموشی کا راج تھا ۔ قریباً رات کے ایک بجے کا وقت تھا جب حرم کمرے میں ٹرے لئے داخل ہوئی ۔ کمرا بھی خاموش پڑا تھا کیونکہ نور بیڈ پر پورے دن کی تھکی ہوئی الٹی پڑی تھی ۔ حرم نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا پھر نیم روشنی کا سہارا لئے صوفوں کے پاس جا کر ٹرے ٹیبل پر رکھی جبکہ کھلی ہوئی کھڑکی سے باہر کھڑا صاف نظر آرہا تھا ۔ اس نے کچھ سوچتے ہوئے دونوں چائے کے کپ اٹھائے اور ٹیرس تک گئی اب کھلی کھڑکی میں سے بدر کے بالکل ساتھ کھڑی حرم بھی نظر آرہی تھی۔ نیچے جاتے وقت اس نے کسی ملازم سے چائے کا کہا تھا ۔ لیکن چونکہ اسے زاہرہ آپا یا حرم کے علاؤہ کسی کی چائے پسند نہیں تو وہ خود ہی بنا کر لے آئے ۔ اب اتنا تو وہ کر ہی سکتی تھی ناں ؟ یا نہیں کر سکتی ؟ " تمہاری چائے ۔ " حرم کی آواز پر وہ چونک کر پلٹا کچھ اِس طرح کے چائے پر ہاتھ لگ جاتا ۔ " اوہ سوری ۔ " اسکے ہاتھ سے چائے کا کپ لیتے ہوئے وہ واپس نظریں آسمان پر ٹکا گیا ۔ آسمان جو اِس وقت واقع قابلیت ستائش تھا ۔ اس نے ایک گھونٹ بھر کے سکون کا سانس لیا . " مجھے اِس کی واقع ضرورت تھی" ۔۔ حرم نے کپ ویسے ہی پکڑے اسے بغور دیکھا ۔۔ اسکے ماتھے پر بل کے نشان تھے کیا وہ کسی سوچ میں لگتا تھا ۔ " تمہاری چائے ٹھنڈی ہوجائے گی حرم پی لو ۔ " شاید اسے معلوم تھا کہ وہ اسے ہی دیکھ رہی ہے ۔ بدر نے دیکھے بغیر ہی کہا مگر اس نے نظریں نہ ہٹائیں ۔ ایک سیکنڈ دو ، تین ، چار ، پانچ ، چھ ۔۔۔۔ اس نے اب بھی نظریں نہ ہٹائیں تو بدر نے ایک لمبا سانس کھینچا اور بل آخر اسکی جانب دیکھا ۔ اسکا گورے رنگ سا حسین چہرہ آج بھی بدر کو ہر بار کی طرح دل موہ لینے کی حد تک پیارا لگا ۔ اِن بھوری کانچ سی آنکھوں میں آج کچھ نیا سا تھا ۔ کیونکہ اسے پہلے والی کھڑوس بیوی اب حرم میں دیکھائی نہ دے رہی تھی ۔ کیا وہ بدل رہی تھی ؟ پگھل رہی تھی ۔ کیا دل پتھر ہوجانے کے بعد بھی موم ہوجایا کرتے ہیں ؟ " ایک بات پوچھوں ؟" آخر کار اس نے نظروں کا زاویہ بدل ہی ڈالا ۔ اور سیدھی ہوئی جیسے پہلے بدر کھڑا تھا ۔ " پوچھو ۔ " اس نے بھی یک لفظی جواب دیا اور اس کی طرح واپس سیدھا ہوگیا ۔ اب ایک کی نظریں بھاپ اڑاتے کپ پر تھیں تو دوسرے کی بادلوں میں اُڑتے چاند پر ۔ " تمہیں مجھ سے چڑ نہیں ہوتی ؟ کیا میں اپنے رویے سے تمہیں کبھی بری نہیں لگی ؟ " اسکے سوال پر وہ جو کپ لبوں سے لگانے جا رہا تھا وہیں ٹہر گیا ۔ پھر اسے دیکھا جو سوال کر کے نظریں جھکائی ہوئی تھی ۔ بدر کے ہاتھ آہستہ سے نیچے ہوئے کپ کی نچلی سطح آواز کے ساتھ گرل کی لکڑی پر رکی۔ پھر جیسے اس نے سوال کے سحر سے نکلتے ہوئے سر جھٹکا اور ہلکا سا ہنسا ۔ حرم نے اسے دیکھا جو اب اپنا نچلا لب دبائے ہنسی روک رہا تھا۔ " غالباً میں نے سنجیدہ سوال پوچھا ہے ۔ پھر تم کیوں ہنس رہے ہو .. " وہ سیدھا نہ ہوا بلکہ نظریں ہوتی ہوئیں اسکے ہاتھوں پر کا ٹھہریں جہاں آج بھی اسکی پہنائی ہوئی انگوٹھی پہلے کی طرح ہی اسکے ہاتھوں کی زینت بنی ہوئی تھی ۔ " پاگل ! محبوب سے کس کم بخت کو چِڑ ہونے لگی ؟ " اسکے جواب میں اب بھی ہنسی اور حیرانگی ملی ہوئی تھی۔ " بیوی سے تو ہوتی ہے ناں ۔ " اس نے پھر سے سوال قندا ۔ بدر نے سانس کھینچتے ہوئے سے دیکھا ۔ چہرے پر حیرانگی و محبت پھوٹ رہی تھی۔ پھر گلا کھنکھار کر اسکے پاس ہوا ۔ یوں کے پیچھے بنتے دونوں کے سائے آپس میں جا ملے ۔ " اب دوسروں کا تو مجھے نہیں پتا مگر اتنا معلوم ہے کہ میری بیوی میری محبوب ہے " اسکے کان میں سرگوشی کئے وہ پیار سے بولا ۔ ایک نظر اسے دیکھتی وہ نظریں چرا گئی ۔ چائے کا کپ اب ٹھنڈا ہونے لگا تھا ۔ لیکن اس نے اب تک پینا گوارا نہ کیا ۔ " ویسے کیا ارادہ ہے پھر کے شادی کے بعد کا ؟ " بدر نے اسے پہلو بدلتے دیکھ سوال کر ڈالا جس کو سمھجنے کے بعد حرم کا دل ڈوب کہ ابھرا تھا ۔ " کیا مطلب کیا ارادے ہونگے " دل کو تھامے ہوئے اس نے مضبوطی سے جواب دیا تھا ۔ پھر دھیان بھٹکانے کے لئے ایک گھونٹ تیزی سے حلق میں اتارا ۔ وہ بس اسکو ہی دیکھ رہا تھا ۔۔ " مطلب شادی ختم ہوتے ہی کیا واپس چلی جاؤ گی ؟ " حلق سے چائے کا وہ گھونٹ نیچے بھی نہ اترا تھا کہ بدر کی سے اندر تک کڑواہٹ گھل گئی۔ اس نے آنکھیں بند کر کے کھولیں اور منہ بند کئے ہی واپس جانے لگی جب بدر نے ہاتھ پکڑ کے روکا ۔ " اسکا جواب ہاں یا ناں میں دے سکتی ہو وضاحت تو مانگی نہیں ہے ۔ " اسکے قریب آتے وہ اسکے تاثرات دیکھنا چاہتا تھا ۔ چائے کا کپ وہ لکڑی پر رکھ چکا تھا۔ " بدر مجھے کوئی جواب نہیں دینا تم سب جانتے ہو یوں مت کرو " اپنا ہاتھ چھڑواتی وہ اسے دیکھنے لگی ۔ جو اسکے مقابل کھڑا سنجیدہ تھا ۔ " ہمم صحیح کہا ۔ معاف کرنا ، میں بھول گیا تھا ۔ شب بخیر ۔۔ " دھیمے سے بول کر وہ اسکے گال کو چھوتا اندر کو چلا گیا ۔ پیچھے حرم کتنی دیر خود سے جنگ لڑتی رہی ۔ 🖤__________~ وہ گھر کا پیچھے والا حصہ تھا جب کوئی اندر کو کودا ۔ اور دھیمے دھیمے چلتے ہوئے کچن کے دوسرے دروازے سے اندر آیا ۔ سارے میں کافی اندھیرا تھا وہ صحیح دیکھ نہ سکا ۔ صرف آگے کو ایک روشن دان سے چاند کی روشنی آرہی تھی۔ وہ آگے ہی آیا تھا لیکن پھر اچانک کوئی ٹکرایا۔ " آہ چو۔۔۔ " اس سے پہلے کے وہ کچھ بولتی اسکی آواز بھاری ہتھیلی تلے دب گئی۔ سرمد دو قدم آگے ہوا تو چاندنی میں اسکا چہرہ واضح ہوا ۔۔ اسنے فوراً ہاتھ ہٹایا ۔ جس پر وہ سانس بھرتی سیدھی ہوئی ۔ " تم یہاں کیا کر رہی ہو وہ بھی اتنی رات کو ۔ " اس نے ہلکی مگر کڑک آواز میں کہا ۔ " یہ تو مجھے پوچھنا چاہئیے ناں۔ آپ یہاں کر رہے ہیں ؟ " سرمد نے اسکی آواز میں ملی بہادری جانچی تو واہ میں ائبرو اٹھائیں ۔ " واہ ڈرپوک لڑکی گھر میں ہونے پر بہادر بھی بن گئی ۔خیر اچھا ہی ہوا جو تم یہیں مل گئیں ۔۔ " " کیوں آپ کو مجھ سے کیا کام ؟ " وہ دوبدو بولی ۔ سرمد نے آنکھیں چھوٹی کر کے دیکھا جو اسے بھی ویسے ہی دیکھ رہی تھی ۔ " تم سے ہی تو ہیں اب سارے کام۔۔ " اسکے چہرے پر آئی لٹ کو چھوتے وہ اسکا بحال ہوا کانفیڈینس توڑ چکا تھا ۔ اسکی معنیٰ خیز آواز پر وہ بدک کر پیچھے ہوتی ہوئی اسے ہنسی روکنے پر مجبور کر گئی ۔ " دیکھیں ۔ بتائیں اس طرح رات گئے کیوں آئے ہیں آپ ؟" " خیر تمہیں بتانا ضروری نہیں ۔ ویسے تمہارا نام کام خراب کرنے والی ہونا چاہئیے تھا ہمیشہ بیچ میں آجاتی ہو ۔ " وہ نجانے کیوں اس پر کڑی نظریں جمائے بول رہا تھا ۔۔ " مگر کیوں آپ ۔۔۔ " اسکی بولتی زباں کو وہ انگلی سے چپ کرا گیا پھر سیدھا ہوا ۔۔ " چپ ہوجاؤ ۔ اور یہ بتاؤ کسی کو کچھ بولا تو نہیں ناں تم نے ؟ ورنہ بُل ڈاگ تو یاد ہی ہوگا اور پھر یہ بھی دیکھ لو کہیں بھی آجا سکتا ہوں میں ۔۔ " اسنے مسکراتے ہوئے کہا خدیجہ کے حلق میں گلٹی ابھری اور معدوم ہوئی ۔۔ " نہیں میں کیوں بتاؤں گی .. میں چلتی ہوں " وہ بول کر تیزی سے واپس بھاگی لیکن پھر قوتِ سرمد کے تحت رک گئی ۔۔ _-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_ خدیجہ نے سانس روک کر پیچھے دیکھا اور پھر سوالیہ نظریں جمائے سرمد کو ۔ چاند کی روشنی کھڑکی سے آتی ان دونوں کو اندھیرے کچن میں واضح کر رہی تھی ۔ کھڑکی سے چاند دونوں کے مقابل نظامِ شمسی پر براجمان تھا ۔ " مجھے کیوں روکا ہے ؟ " خدیجہ کی آواز میں یکدم سنجیدگی دوڑ آئی ۔ اور سرمد وہ جیسے اپنے اِس عمل پر حیران تھا ۔ چونک کر اسکا ہاتھ چھوڑا اور بے اختیار نظریں چرائے زمین پر کرلیں ۔ اس نے ایسا کیوں کیا تھا ؟ وہ تو یہاں کسی اور مقصد سے آیا تھا ناں ! ' مگر میری غلطی تو نہیں وہ خود سامنے آئی ۔ ' خدیجہ نے ذرا سے گردن جھکائی جیسے آنکھیں نیچی کر کے اسکا چہرہ دیکھنا چاہ رہی ہو ۔ سرمد نے نگاہ اٹھائی تو وہ سیدھی ہوئی ۔ " میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی مگر پانچ تک کی گنتی سے پہلے پہلے چلے جائیں گھر سے نہیں تو ۔۔۔ " اس نے جملہ جان بوجھ کر ادھورا چھوڑ دیا ۔ اور ہاتھ باندھے دروازے کی جانب دیکھنے لگی ۔ " نہیں تو کیا ؟ کیا کرلو گی ؟ " سرمد نے بھی اپنے گلٹ کو سائڈ میں رکھ کہ اسکی بہادری کو للکارا ۔ خدیجہ نے ہونٹ ٹیڑھے کئے اسکی جانب دیکھا ۔ جو آئبرو اچکائے اسے ہی دیکھ رہا تھا کہ جیسے کہہ رہا ہو " ہاں بولو کیا کروگی ؟ " " کچھ بھی کرلوں گی اس میں کیا ہے چیخ کے بلا لوں گی سب کو " بول کر واپس اکڑ سے چہرہ موڑا لیا جبکہ اندر سے بھیگی بلی کانپ رہی تھی ۔ سرمد دو قدم بڑھا تو اسکے دوسری جانب مڑے ہوئے چہرے پر ڈر کی لہر دوڑ گئی ۔ پرفیوم کی خوشبو یکدم تیزی سے سانسوں میں شامل ہونے لگی تھی ۔ " ہمم تو تم کچھ کہہ رہی تھیں ۔ دوبارہ بولنے میں نے سنا نہیں تھا ٹھیک سے ۔ " وہ جو آہستہ سے باہر کھسک رہی تھی ایک ہاتھ کو پھیلائے اسکا راستہ روکے وہ سنجیدگی سے پوچھنے لگا ۔ " میں پانچ تک کی گنتی میں چلی جاؤں گی ۔ " بولتے ہی وہ جھکی اور اس کے ہاتھ کے نیچے سے نکل کر دروازے باہر چلی گئی۔ سرمد نے آنکھیں چھوٹی کئے دیکھا ۔ وہ باہر کھڑی ہاتھ مڑوڑ رہی تھی ۔ " آپ بھی چلے جائیں ۔۔ " جملہ اسے یہاں وہاں دیکھتے ہوئے کہا اور پھر تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔ پیچھے سے سرمد آئبرو میچے دیکھے گیا ۔ پھر سانس کھینچا اور واپس مڑا ۔ وہ کس کام سے آیا تھا یہ تو وہ بھول ہی گیا تھا یا شاید اب وہ کر نہیں سکتا تھا ۔۔۔ ایک آخری بار اس نے واپس پیچھے دیکھا اور آنچل جھولتا دیکھ سر ہلاتے نکل گیا ۔۔ 🖤____________~ جاری ہے !
❤️ 👍 😮 😢 😂 🙏 197

Comments