Novel Ki Dunya
June 22, 2025 at 04:36 AM
#ایک_ستم_محبت_کا #ازقلم_زینب_سرور #قسط_نمبر_18 صبح کے سات بجے کا وقت تھا سب ناشتے کی تیاری کر رہے تھے ۔ جب زارا کمرے میں آئی ۔ سیڑھیوں کے ساتھ والا کمرہ انکے ہی زیرِ استعمال تھا ۔ جس کا رنگ جامنی تھا کمرے میں دو بیڈ لگے تھے بیچ میں ایک سائڈ ٹیبل تھی ۔ ایک دیوار کی جانب لمبا صوفہ لگا تھا ساتھ میں کارنر شو پیس ۔ جبکہ بیڈ کے بیچ کے حصے میں باہر گارڈن میں بڑی کھڑکی کھلتی تھی۔ جس کے آگے پردے ڈلے تھے ۔ زارا نے چھوٹے پردے کھسکا کر سنہری دھوپ کو کمرے میں دعوت دی ۔ سلمہ بیگم کمرے کے ساتھ بنے واشروم سے شاید فریش ہو کہ نکلی تھیں جب نظر بیٹی پر پڑی تو مسکرا دیں ۔۔ وہ بھی اپنی بہن کی طرح ہی خوبصورت تھیں ۔ کالی کانچ سی آنکھیں زارا نے اپنی ماں سے ہی لی تھیں مگر خوبصورت خضر چرا لے گیا تھا ۔ " اچھے سے تیار ہوا کرو ۔ ویسے بھی سانیہ کی شادی ختم ہی ہونے والی ہے " انہوں نے باہر نکلتے صوفے سے دوپٹہ اٹھایا اور اسکی تہہ کو کھولا ۔ زارا اچنبھے سے انکی جانب مڑی ۔ " کیا مطلب ۔ میرے تیار ہونے شادی ختم ہونے سے کیا تعلق ؟ " وہ اپنی ماں کی بات سمھجہ نہ پائی ۔ " ارے بھئی سانیہ کی شادی کے فوراً بعد تمہاری اور بدر کی بات پکی کرنی ہے " " امی ! " اسے انکی اِس بات سے شاکڈ لگا تھا ۔ اسکے امی کہنے پر وہ جو دوپٹہ باندھ رہی تھیں ٹہر کر دیکھا ۔۔ " ایسا کیا کہہ دیا ہے میں نے ۔ اور اب یہ نہ کہنا کہ وہ بڑے بھائیوں کی طرح ہے پہلے تو تم بھی یہی چاہتی تھیں ۔ " زارا سانس بھر کر رہ گئی ۔۔ " پہلے کی بات اور تھی امی اور میں نے اس دن بھی آپ کو بولا تھا کہ اس بات کو بھول جائیں مت نکالیں اب جو ہوچکا اسے تسلیم کریں اور اس شادی والے خیال سے نکل آئیں " وہ سر تھامے بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔ " زارا ٹھیک کہہ رہی ہے سلمہ .. " اس نے نگاہ اٹھائی تو سامنے ممتاز بیگم کھڑی نظر آئیں وہ خالہ کو دیکھ مسکرا دی ۔ " مگر پہلے تو آپ بھی ۔۔ " " سلمہ پہلے کی بات اور تھی کیا تم دیکھ نہیں رہیں نور کس قدر اٹیچ ہے ماں سے ۔ میں نے ہر پہلو سے سوچا ہے اور پھر آخر کو ہمارا ہی فیصلہ غلط ثابت ہوتا ہے ۔۔ " وہ بھی چلتی ہوئی زارا کے پاس آ بیٹھیں ۔۔ تو اس نے انکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ممتاز بیگم کی بات پر ہامی بھری ۔۔ " پھر آپ نے ہمیشہ مجھے کیوں روکے رکھا کہ زارا کو کہیں اور نہ رخصت کرنا ۔۔ " سلمہ بیگم نے ناراضی سے کہا اور سامنے والے بیڈ پر آبیٹھیں ۔۔ " ہاں تو اب کون سا مکر گئی ہوں اپنی بات سے ۔ یقین جانو خدا کے فیصلے بہتر نہیں بہترین ہوتے ہیں ۔ اور ہاں بہو تو زارا میری ہی بنے گی ۔۔ " " کیا مطلب ؟ " انکی بات پر وہ چونک گئیں شاہد سمھجہ نہ سکی تھیں ۔۔ جبکہ خالہ نے بھانجی کو جس طرح دیکھا تھا اور زارا نے جو اشاروں میں ہامی بھری سلمہ بیگم نے آنکھیں چھوٹی کئے دیکھا۔۔ " یہ کیا کھچڑی پک رہی ہے آپا ؟ " " کھچڑی کو چھوڑو بتا دوں گی مطلب بھی ۔۔ خیر اب تم سن لو سلمہ اپنی بیٹی کا کسی سے موازنہ مت کرنا ۔ وہ جیسی ہے ویسے ہی اچھی ہے ۔۔ اور رہی بات حرم کی تو شادی سے پہلے لاکھ اختلافات سہی مگر اب اسے جانا ہے تو مجھے نہیں لگتا اس سے بہتر بدر کو کوئی مل سکتا ہے ۔۔ " وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھیں ۔۔ اگر یہ بات بدر سن لیتا تو خوشی سے جھوم اٹھتا۔ " خالہ مجھے اب امی کی اِن باتوں اثر نہیں ہوتا دل پر نہیں لیتی میں ۔۔ ہر کوئی اپنے آپ میں مکمل ہوتا ہے " وہ اپنی ماں کو دیکھے کہہ رہی تھی جنہیں کچھ کچھ سمھجہ لگ چکی تھی ۔۔ " میں تو بس ۔۔۔ " سلمہ بیگم سے بولا نہ گیا شاہد ندامت کا دامن جلدی تھام لیا تھا ۔۔ " خیر اب سب اپنا موڈ ٹھیک کرو ۔ اور چلو میرا ہاتھ بٹواؤ ۔۔ " انہوں کھڑے ہوتے ہوئے چھوٹی بہن کے کندھے پر مارا زارا حیرانی سے دیکھے گئی ۔۔ " تمہاری ماں شروع سے ہی کام چور رہی ہے زارا گھر پر بھی اماں سے ڈانٹ کھاتی تھی ۔۔ آؤ ہم چلیں ۔۔" وہ اسکے ہمراہ بولتی ہوئی چلی گئیں زارا کا قہقہ اونچا نکلا ۔ پیچھے سے سلمہ بیگم بھی مسکرا دیں ۔۔ " آپا بھی ناں بڑھاپا آگیا ہے لیکن ۔۔ " وہ بھی بولتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئیں ۔۔ کچھ مائیں ہوتی ہیں ایسی جو اپنے بچوں کو بہتر بنانے کی کوشش میں دوسروں سے موازنہ کرنے والا رستہ چن لیتی ہیں ۔ انکو لگتا ہے کہ بچے دوسروں کو دیکھ سیکھے گیں بہتر بنے گیں ۔ مگر کبھی کبھی الٹ ہوجاتا ہے یا یہ کہیں کہ ہر بچہ اتنا سمجھدار اور دانشمند نہیں ہوتا کہ اس موازنہ کو دل پر نہ لے بلکہ ماں کی بات سمجھ لے ۔ لیکن پھر میں یہ کہوں گی کہ ان بالغ اور شعور مند بچوں کو چاہئیے کہ ماں کی بات کا غلط مطلب نہ نکالیں۔ ماں باپ کا مرتبہ تو بہت اونچا ہے نہ پھر کیا ہم ماں کی ذرا سی ندانی میں کہی بات کو دل پر لینے کے بجائے بہتر نہیں بن سکتے ؟ اور ایک اور بات ! ہمارے اردگرد بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن کے خود کے پاس تو کوئی خاص صلاحیت ہوتی نہیں جبکہ ہمیشہ دوسروں کو نیچا دکھانے کو اپنا شیوہ بنایا ہوا ہوتا ہے ۔ ایسے لوگوں کی باتوں کو کبھی بھی دل پر نہ لیا کریں ۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو بنے ہی اس بوسٹر کی طرح ہیں جو آپ کا کانفیڈینس لیول کم کردیتا ہے تو بس خود پر اعتماد رکھیں اللّٰہ پر توکل و کامل یقین ۔۔ پھر کیا ہے جس کو آپ زیر نہیں کرسکتے ! 🖤__________~ کمرا نیم تاریکی میں ڈوبا تھا نارنج پیلی رنگ کی روشنی والا بلب چھت میں نسب نیچے تک لٹک رہا تھا۔ وہ ہاتھ میں گلوز پہنے ۔ سینڈو میں ملبوس جو پسینے سے جگہ جگہ سے تر ہونے لگی تھی ،کسرتی بازو و جسم بھی جھلک رہا تھا ۔ بال بکھرے بکھرے سے تھے جبکہ پسینے کی بوندیں ماتھے پر چمک رہی تھیں۔ اس پر کمرے پنچنگ بیگ پر پڑتے مکوں کی برسات ایک الگ آواز پیدا کر رہی تھی ۔ اس نے سانس بھرا اور اپنی گھنی پلکیں اٹھائیں ۔۔ " آ جاؤ ۔۔ " اسکے کہتے ہی دروازہ آہستگی سے کھلا اور خضر دھیمی چال چلتا اندر آیا ۔ وہ ہشاش بشاش سا نظر آرہا تھا جبکہ ماتھے پر لگی چوٹ پر پٹی لگی ہوئی تھی۔ " اب کیا لینے آئے ہو ۔ یا کل کی مار سے پیٹ نہیں بھرا " گلوز اتارتے ہوئے اس نے ایک کڑی نگاہ خضر پر ڈالی۔ " پتا ہے میں کل یہاں سے جانے کے بعد کیا سوچتا رہا ؟" وہ پیچھے رکھی کرسی پر مسکراتے ہوئے بیٹھا۔ ۔ " مجھے غرض نہیں تم کچھ بھی سوچو کچھ بھی کرو ۔ " " کہ سرمد بلوچ کو سردار سرمد بلوچ کو ۔۔۔ " اس نے اونچا کہا جیسے حیرت سے کہہ رہا ہو ۔۔ سرمد نے بھنویں سمیٹیں ۔۔ " یعنی تمہیں محبت کیسے ہو سکتی ہے ؟ اب تو غالباً اُس حرم دی پروفیسر سے بھی نہیں تھی ناں ۔۔ " اسکی بات سن سرمد نے مٹھی بھنچ لی ۔۔ " مجھے کسی سے بھی کوئی محبت نہیں ہے ۔ تم نکل جاؤ یہاں سے نہیں تو ۔ " " نہیں تو اس چھوٹی سی لڑکی کے لئے دوبارہ مارو گے ؟ " خضر بول کر اٹھا بلکہ شیر کو للکار کر اٹھا تھا ۔۔سرمد ایک پل کے لئے ساکت ہوا اور پھر جو نگاہ اسکی جانب اٹھائی تو دنیا بھر کی سختی لئے وہ آنکھیں سرخ کر چکا تھا ۔ اس نے آگے بڑھ کر خضر کا گریبان جکڑا ۔ " ایک بھی لفظ منہ سے نہ نکلے سمجھ آئی .." وہ چبا کر بولا ۔ " گارڈز ! گارڈز ! " اس نے چیخ کر بلند آواز میں کہا جس پر خضر مسکراہٹ دبائے دروازے تک جا پہنچا ۔۔ " جارہا ہوں ان لوگوں کو زحمت نہ دو ۔۔ " اسکی جلا دینے والی مسکراہٹ دیکھ سرمد نے زور سے دیوار میں مکا مارا ۔ دروازہ بند ہوا تو اس نے گہرے سانس بھرے ۔ رگیں پھول کر واضح ہونے لگی تھیں ۔ " بکواس کرتا ہے گھٹیا آدمی ۔۔ " ہاتھ سے نکلتا خون ٹپ ٹپ بہنے لگا اس نے سر جھٹکا اور پاس میں پڑا رومال ہاتھ پر لپیٹ لیا ۔ یوں کہ خون اب اس میں جذب ہونے لگا ۔ پھر ایک زور دار مکا پنچنگ بیگ پر مارا ۔ ' تم کسی سے محبت نہیں کرتے سرمد ۔ تم اگر کروگے بھی تو حرم سے نفرت کرو گے بس ۔ ' اسکے اندر کا شیطان ایک بار پھر اسے وسوسوں میں ڈالنے لگا ۔ دوسرا مکا بیگ کو واپس دور لے گیا ۔ پھر تیسرا اور چوتھا ۔۔۔ لگاتار یہی عمل دھرا کر وہ دیوار سے ٹیک لگائے نیچے بیٹھ گیا ۔ " مر جاؤں گا لیکن کسی سے محبت نہیں کر سکتا ۔ " بول کر اسنے آنکھیں بند کیں تو ایک آنچل لہرایا ۔۔ وہ کس کا آنچل تھا ؟ ' نہیں تو اس چھوٹی سی لڑکی کے لئے دوبارہ مارو گے ؟' کان میں کہیں دور سے آواز گونجی وہ چونک کہ اٹھ گیا ۔ " افف میرا دماغ خراب کر گیا ہے ۔ " اب وہ یہاں نہیں بیٹھ سکتا تھا اسے باہر جانا تھا اور وہ باہر چلا گیا ۔ہاتھ میں لپٹا رومال اب مکمل سرخ ہوچکا تھا۔ 🖤____________~ " نور تمہیں پتا ہے یہ میرے ڈیڈی ہیں ۔۔ " حمزہ نے صوفے پر سعید صاحب کے ساتھ بیٹھی نور کو چڑاتے ہوئے کہا ۔ سعید صاحب کوئی بِل وغیرہ فون کے ذریعے ادا کر رہے تھے اس لئے اوپر نگاہ اٹھا کر نہ دیکھا ۔ " نو ! نونو کے ڈیدی ہیں ۔" اس نے بھی غصّہ چہرے پر لائے حمزہ کو کہا ۔ " نو نونو کے نہیں ہیں مائی ڈیڈی ۔۔ " اب کی بار اس نے آنکھیں مٹکا کر پہلو میں بیٹھے سعید صاحب کے پیچھے ایک لے جا کر رکھا ۔ " نو نونو کے مائین دیڈی ۔ " وہ صوفے سے اتری اور چلتی ہوئی انکے پاس جا کھڑی ہوئی ۔۔ حمزہ نے ہنستے ہوئے منہ چڑایا تو وہ منہ کھولے پہلے دیکھنے لگی پھر آنکھیں چھوٹی کئے سعید صاحب کا بازو پکڑ لیا۔ " مائیں ڈیدو ۔۔ نونو ڈیدو " اب کی بار اس نے رونی آواز میں کہا ۔ تاکہ سعید صاحب اسے ڈانٹیں ۔ " کیا کررہے ہو حمزہ مت تنگ کرو اسے ۔ " انہوں نے اسے گود میں اٹھا کر اپنے پاس بیٹھایا جس پر نور حمزہ کو زبان چڑائی ۔ " ڈیڈ آپ کی پوتی بہت چالاک ہوتی جا رہی ہے ۔۔ " اس نے حیرت سے اسکی حرکت دیکھی اور کانوں کو چھوا۔۔۔ _-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_ سعید صاحب نے پہلے نور کو دیکھا جو اسکو منہ چڑا رہی تھی پھر خود کی جانب دیکھتے پایا تو معصوم سنجیدہ سی شکل بنا لی ۔ حمزہ کی جانب دیکھا تو وہ اشارے نور کی جانب کر رہا تھا کہ دیکھیں اپنی پوتی کو ۔۔ " آہ اب کوئی تنگ نہ کرے ہماری ہوتی کو ۔۔ " سعید صاحب نے اسکو اپنے ساتھ لگایا تو وہ کوئی سنجیدہ دیوی کی طرح منہ بنائے انکے سینے سے لگ گئی ۔ جیسے بڈی نے اسے بہت تنگ کیا ہو ۔ " توبہ اتنی نوٹنکی تو مجھ میں بھی نہیں ہے ۔ بھائی بھابھی تو ہیں ہی صدا کے معصوم یہ بیٹی کس پر چلی گئی رے بابا ۔۔ " اس نے اٹھتے ہوئے جان بوجھ کر اسکا گال کھینچا جس پر سعید صاحب کو دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو روکیں ۔ " حمزہ ! " انہوں نے بھی سر ہلاتے نور کو واپس سر رکھنے کو کہا اور حمزہ کو پکارا ۔ " اچھا ناں نہیں کر رہا آپ بھی نہ بس پوتی کی سائڈ پر ہی رہنا ۔ " " خیر تم ذرا جاؤ اور ایک بار پھر کیٹرنگ والے کے در پر الارم دو تاکہ وہ ہاتھ تیز چلائے " سعید صاحب کی بات پر وہ سر ہلاتے چلا گیا ۔ جبکہ نور آنکھیں بند کئے انکے سینے پر سر ٹکائی ہوئی اب شاید سونے لگی تھی ۔ انہوں نے بھی مسکراتے ہوئے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر فون ملا کر کان پر رکھا ۔ " ہاں سرمد " ۔۔۔۔ 🖤_____________~ حرم نے دن بھر یہاں وہاں کے کام ختم کئے ۔ نور پہلے تو سعید صاحب کے پاس تھی پھر انہیں کہیں جانا تھا تو اس نے نور کو کمرے میں لیٹا دیا اس دوران بدر سے اسکی ملاقات بھی کھانے کے وقت ہی ہوئی تھی ۔ پھر وہ باہر کے انتظامات کو دیکھنے میں لگ گیا ۔۔ گھر کے سارے انتظامات مکمل ہو چکے تھے ۔ اور اب بس سب تیار ہونے کے لئے اپنے اپنے کمرے کا رُخ کر چکے تھے ۔ سانیہ بھی گھر میں ہی تیار ہورہی تھی ۔ کیونکہ مایو کی تقریب میں ویسے بھی انکے خاندان میں دلہن میک اپ نہیں کرتی تھی۔ رات کے ساڑھے سات بجے کا وقت تھا مغرب قضاء ہوچکی تھی جبکہ آسمان اپنی نیلاہٹ چھوڑ چکا تھا ۔ فضا میں آج کل کے مقابلے زیادہ خنکی تھی ۔ حرم نے سب کی پرزور فرمائش پر زارا ، خدیجہ اور سارا کی طرح ہی لہنگا پہنا تھا جو کہ سرسوں ( مسٹرڈ ) کے رنگ کا تھا ۔۔ جبکہ وہ لہنگا کم اور گھیر والی فراک کی طرح کا نظارہ زیادہ پیش کر رہا تھا ۔ نیچے گھیر کے کناروں پر سفید اور ہلکے گلابی رنگ کا کام تھا بالکل اسہی طرح آستینیں ، گلے اور دوپٹہ کے کناروں پر بھی تھا ۔ وہ جوڑا پہنی باہر ڈریسنگ کے سامنے آئی تو پیچھے نور تیار کھڑی ملی ۔ وہ اسے تیار کر کے ہی خود کپڑے تبدیل کرنے گئی تھی ۔ " واؤ مما یو کی فراک اِش پریتی ناں ۔ ( واؤ مما یو کی فراک اِز پریٹی ناں ) " اپنی چھوٹی سی پیلی چولی کے نیچے پہنا ہوا گھاگھرا سنبھالتی ہوئی حرم تک آئی ۔ جبکہ وہ بے اختیار ہنس پڑی ۔ " یو کی نہیں بولتے یورز بولتے ہیں جانم ۔ " آخری لفظ بولتے اسکی ہنسی کو بریک لگا تھا ۔ پھر اس نے کن اکھیوں سے اپنی ننھی پری کو دیکھا جو کھڑی منہ پر ہاتھ رکھے ہنس رہی تھی ۔ ' پوری باپ پر گئی ہے موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ' حرم نے آنکھیں چھوٹی کئے ہی اسے دیکھا ۔۔۔ " ایشے نہ دیکیں ( دیکھیں ) مما دیڈو کو لَو ہو جائے گا ۔۔ " اسکی بات پر اب وہ پوری طرح نور کی جانب مڑی ۔ " یہ ڈیڈو کو لَو کیوں ہونے لگا ؟ گھور تو میں تمہیں رہی ہوں ۔ " حرم نے ائبرو اچکائیں تو نور بھی سوچ میں پڑ گئی ۔ پھر سر کھجانے والی ایکٹنگ کرنے کے لئے اس نے ہاتھ بالوں پر رکھا ہی تھا کہ حرم نے روک لیا ۔ " بس بس ہوگئی نور کی ایکٹنگ بال نہ خراب کرنا بڑی مشکل سے رکتے ہیں ۔ " اس کی بات پر نور نے آنکھیں پیار سے بند کرتے کندھے اچکائے اور سانس بھر کر واپس کھولیں ۔۔ " افف میرا چھوٹا سا بے بی کتنا آوور ایکٹنگ ہوتا جا رہا ہے ۔ " حرم کے کہنے پر اسنے ناراضی سے دیکھا ۔۔ " مما بت نونو تو لرکی ( لڑکی ) ہے نہ تو چوٹی ( چھوٹی ) سی ہوئی ۔۔ " اسکی تصحیح کرنے پر وہ مسکراتے ہوئے سر ہلا گئی ۔۔ " ہاں بھئی چھوٹی سی لڑکی ۔ ہاہاہا اب جاؤ باہر دیکھو سب کیا کر رہے ہیں سانیہ آنی تیار ہوگئیں یا نہیں جب تک مما تیار ہوجائیں اوکے ۔ " وہ اپنے بال کھولتے ہوئے اسے سمجھانے لگی ۔ جس پر وہ سر مٹکاتے باہر کی جانب چل دی ۔ پھر دروازے کی جانب رک کر حرم کی جانب گھومی ۔۔ " بائے بائے مما ۔۔ " اس نے ایک ہاتھ اٹھا کر ہوا میں ہلایا ۔ " بائے مما کی جان ۔۔ " وہ مسکرا کے کہتی شیشے میں دیکھنے لگی ۔ " کہاں جا رہی ہے ڈیڈی بی کی جان ۔ " بدر جو ابھی ابھی ہی اندر آیا تھا اپنی ننھی سی گڑیا کو گود میں اٹھا گیا ۔ اور پھر آہستہ سے اسکا گال کھینچا ۔ " بڈی کے پاش ۔ " اس نے بھی اپنے ڈیڈی کی داڑھی کو چھوتے ہوئے کہا ۔ بدر نے ایک نظر اس طرف ڈالی جہاں وہ اب رُخ موڑے کھڑی کنگا کر رہی تھی ۔۔ " اچھا ٹھیک ہے بڈی یہ باہر ہی کھڑا ہے سانیہ کے کمرے کی جانب وہاں چلی جاؤ اس ہی کے ساتھ رہنا اوکے ۔ " اس نے اب کی ڈیڈی کی بات پر بھی سر ہاں میں ہلا دیا جس پر اس نے بوسہ لیتے اسے باہر تک چھوڑا اور پھر اندر آیا جبکہ کھلا دروازہ وہ بند کرچکا تھا۔ " میرے کپڑے کہاں رکھے تھے حرم ۔ " اب وہ برش رکھے مصروف سے انداز میں کوئی باکس نکال رہی تھی جب بدر کی آواز آئی ۔ " ہمم ہاں وہ ہینگ ہیں سب کپڑوں کے ساتھ دیکھ لو ۔ " وہی مصروف سے انداز میں کہتی اب وہ یقیناً اپنے حسن کو نکھارنے کی تیاری میں تھی۔ بدر نے آئبرو " واہ " میں اٹھائی ۔۔ اتنی فرمانبرداری والے انداز میں جواب ملنے توقع نہیں تھی۔ تھوڑی دیر میں ہی وہ کپڑے بدل کر نکلا جو سفید کُرتا شلوار تھا جس کے اوپر اس نے مسٹرڈ رنگ کی ہی واسکٹ پہن رکھی تھی ۔گیلے بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ اسکے ساتھ آ کھڑا ہوا ۔ پھر پاس میں رکھا ہئیر ڈرائیر اٹھا کر آن کیا ۔ حرم جو ڈریسنگ پر جھکی مسکارا لگانے میں مصروف تھی اسے ایک نظر بھی نہ دیکھا ۔ کیوں دیکھتی بھلا ، مسکارا زیادہ ضروری ہے بھئی۔ اس نے ہئیر ڈرائیر آن کیا اور گرم ہوا بالوں پر مارنے لگا وہ اسکی آواز سے بھی نہ پلٹی تو بدر نے جان کر ڈرائیر کا رُخ اسکی جانب کیا جس سے سارے بال اڑتے ہوئے آگے پیچھے ہونے لگے ۔ " آہ کیا کیا یہ اسے تو بند کرو ناں ۔ " اس نے منہ کھولے مسکارے کا کیپ بند کرتی ہوئی بولی ۔ جبکہ چہرے پر ناراضی نمایا ہوگئی تھی ۔ " اب ایک ہی شیشہ ہے تو ایسے ہی گزارا کرنا ہوگا ۔۔ اور ڈرائیر ہی تو ہے اتنا بھی کیا چلانا ۔ " بدر نے کندھے اچکاتے ہوئے اسے واپس رکھا اور سوئچ بند کردیا ۔ حرم نے منہ ٹیڑھا کئے شیشے کی جانب واپس چہرہ موڑا تو منہ وا میں کھل گیا ۔۔ " یہ دیکھو کیا ہوگیا تمہاری وجہ سے " بدر نے لاپرواہی سے ایک نگاہ ڈال کر سرہلایا ۔ " کچھ بھی تو نہیں ہوا مجھے تو اچھی بھلی حسین لگ رہی ہو ۔ " " یہ یہ دیکھو ۔ " اس نے شیشے میں دیکھتے چہرے کی جانب اشارہ کیا جہاں گال پر مسکارا کی لکیر بن چکی تھی ۔ بال اڑنے کی وجہ سے مسکارا پھیل گیا تھا ۔ " کہاں اِدھر دکھانا ذرا ۔ " انجان بنتے وہ ذرا پاس ہوا حرم نے منہ پھلائے اپنا گال آگے کیا ۔ " یہ دیکھو اپنا کارنامہ ۔۔ کام خراب کرنے کو دے دو بس اونہہ " ناراضی لئے وہ اب بھی شیشے میں دیکھا پھر منہ بنائے پھیلے ہوئے مسکارا پر اوپر اوپر سے لوشن لگایا اور پھر ٹشو نکالا ۔ " ایسے منہ نہ بناؤ دکھاؤ مجھے ۔ " اس سے ٹشو پیپر پکڑتا ہوا وہ بولا مگر اسکو نہ دینے پر ٹشو پیپر بیچ سے دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا ۔ " خیر ابھی ہوجاتا ہے صاف ۔ " لوشن کو ٹشو پوچھا تو جلد سے مسکارا ساتھ ہٹتا گیا ۔ حرم نے آنکھیں سکیڑیں ۔ " میں خود کرلوں گی تم ۔۔ " وہ جو بولنے لگی تھی اسکو انگلی رکھے چپ کروا کر اب وہ آہستہ آہستہ صاف کرنے لگا ۔ ایک ہاتھ کی انگلی ہونٹوں پر تھی تو دوسری سے اوہ اسکا مسکارا مصروف سے انداز میں صاف کر رہا تھا ۔ یہ شخص پھر اسکے اتنے پاس آگیا تھا کہ وہ خود کو پیچھے دھکیلنے لگی تھی۔ نہیں وہ ماضی نہیں یاد کرے گی سب ٹھیک ہے ۔ سب ہوجائے گا ۔ بدر کی آنکھیں بغور دیکھتے خود کو سمجھا رہی تھی ۔ " ہمم ہوگیا ۔۔" سانس بھرتے وہ پیچھے ہوا تو وہ سیدھی ہوئی ۔ جبکہ مڑوڑتی انگلیاں وہ بخوبی دیکھ چکا تھا ۔ " ہوجاؤ تیار حرم مجھے کچھ نہیں کرنا ۔۔۔ " اپنی گھڑی پہنتا وہ تھوڑی دیر بعد خود ہی اس سے مخاطب ہوا جو تب سے ہی بس یونہی چیزوں کو ادھر اُدھر کرنے میں مصروف تھی ۔ " ویسے بھی دیر ہورہی ہے۔ " وہ پاس میں رکھا کھیڑی کا ڈبہ اٹھائے بیڈ پر بیٹھا تو حرم نے لب کاٹے شیشے سے اسے دیکھا جو آج بھی تیار ہو کر اتنا ہی پیارا لگ رہا تھا جتنا پہلے لگا کرتا تھا ۔ ایک آخری بار شیشے کے پاس جاکہ اپنا پرفیوم اٹھایا اور اسے دیکھے بغیر ہی دور ہوتے خود پر چھڑک لیا ۔ پھر ہاتھ بڑھا کہ رکھا اور دروازے سے چلتا چلا گیا۔ اس نے نگاہ اٹھائی دروازے کی جانب دیکھا اور پھر سیٹ پر بیٹھ گئی ۔۔ ' یہ کس نے کہا کہ میں نے تم سے کبھی محبت کرنا چھوڑ دی ہے ؟ ' اس نے ایک لمبا سانس خارج کیا اور پنک لپسٹک اٹھائی ۔ ' یہ سجنا سنورنا تمہارے لئے ہی تو ہے ۔ کیونکہ ایک سہاگن اپنے شوہر کے لئے ہی تیار ہوتی ہے ۔ ' گلابی لب لپسٹک لگنے کے بعد مزید واضح ہوگئے تھے ۔ اسکی آنکھیں اس وقت چمک رہی تھیں ۔ ' میں نے تو تمہیں اس ہی رات معاف کردیا تھا بدر جب تم میری اور میری بچی کی زندگی میں واپس آئے تھے .' بالوں کو آہستہ سے ٹوئسٹ کر کے اس نے ایک پن پیچھے لگا لی تھی۔ بال جو گھنے کالے اور لچکدار تھے ۔ صاف پتا چلتا تھا کہ وہ انکی کئیر میں کمی نہیں چھوڑتی ۔ ' ہاں یہ ظاہری لبادہ اوڑھے رکھنا اس لئے ہے کہ تم خود مجھے سب سچ بتا دو نہ کہ کسی اور سے کچھ معلوم ہو ۔ ' بالوں کو باندھ کر ان پر دھیرے دوپٹہ ٹکایا اور سلیقے سے اوڑھ لیا ۔ جاری ہے
❤️ 👍 😢 😮 🙏 185

Comments