Novel Ki Dunya
June 22, 2025 at 12:56 PM
#ایک_ستم_محبت_کا
#ازقلم_زینب_سرور
#قسط_نمبر_19
' میں نے تم سے ہمیشہ محبت کی ہے بدر آفندی ۔ چار سال تم سے دور رہنے کی کوشش بس اس لئے تھی کہ کہیں تم پھر چھوڑ کر نہ چلے جاؤ ۔ تمہارے ساتھ اس گھر میں نہ آنے کی وجہ نور سے دوری کا ڈر نہیں تھا بلکہ وہ ڈر تم پر اپنی محبت آشکار ہوجانے کا تھا ۔ کیونکہ اگر وہ ہوگئی تو شاید تم مجھے اس ایک سال کا راز نہ بتاؤ ۔ ' ہاتھوں میں مزین انگوٹھیاں ڈالتی وہ کھڑی ہوئی تھی ۔ بدر صحیح کہتا تھا وہ واقع خوبصورت ہے ۔
' مجھے نہیں لگتا کہ کوئی شخص بھی ایسا ہوگا دنیا میں جو تم جیسے محبت کرنے والے شخص سے بدلے میں محبت نہ کرے ۔۔ بالکل ! کوئی نہیں ہو سکتا ۔ ' سیدھی کلائی میں بھوری گھڑی باندھتی وہ ایک نظر خود پر ڈالنے لگی ۔
' آہ یہ راز بھی تم پر ایک دن آشکار ہوجائے گا کہ حرم آفندی نے شروع دن سے بدر سے ایک سی محبت کی ہے ۔ ڈرتی ہوں اس وقت شدت پسندی کا مظاہرہ کروگے ۔ خیر اب یہ تو تم پر ہے کہ تم کب اور کیسے یہ سب ٹھیک کروگے ۔ ' پرفیوم چھڑکتی وہ اپنا پرس اٹھا کر باہر جانب چلنے لگی ۔ پھر دروازے کے ساتھ میں رکھی اپنی ہیلز پیر میں ڈالیں ۔
' مجھے پورا یقین ہے بدر تم ایک دن سب ٹھیک کروگے ۔ میں نہیں جانتی کیسے مگر میرا دل کہتا ہے ۔ پھر میں ہونگی تم اور ہماری بیٹی ۔ پھر نہ اسے اپنے ڈیڈی سے دور رہنا پڑے گا نہ ہی تمہیں اپنی جانم سے ۔۔ ' وہ اب مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر نکلتی چلی گئی ۔ جبکہ پیچھے کمرے کا منظر دھندلاتا گیا ۔۔
_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_
آفندی ہاؤس کا لان آج روشنیوں اور پیلے پھولوں سے مہکا ہوا تھا ۔ چار سو جگمگاتے قمقموں کی روشنیاں پھوٹ رہی تھیں ۔ نصرت بیگم ( دادی جان ) یعنی نور کی بڑی دادی آج ہی ہاسپٹل سے ایک دن بعد واپس آئیں تھیں ۔ اور اب نور جو ان سے اتنے دن بعد مل رہی تھی ۔ باتیں کرتے نہ تھک رہی تھی ۔ سب نے تیاری میں کمی نہ چھوڑی تھی ۔ دولہے والے ابھی آئے نہ تھے اسلئے سب یونہی گھوم رہے تھے ۔ جب حرم نے گھر کے مین گیٹ پر بنی اینٹرنس پر قدم رکھا ۔ مایوں کے فنکشن میں چونکہ پارٹیشن کیا ہوتا ہے مہندی لگانے کی رسم کی وجہ سے ۔ مگر ابھی کوئی آیا نہ تھا تو بدر وہی پر تھا جبکہ بیچ سے پردہ بھی اٹھا ہوا تھا ۔ ثانیہ سارا اور زارا کے ہمراہ سٹیج پر پہلے ہی بیٹھ چکی تھی ۔
" السلام و علیکم ۔ " بدر کو حرم کی آواز آئی تو وہ بے اختیار نظریں اوپر کو اٹھا گیا دیکھا تو وہ کسی آنے والے کو سلام کر رہی تھی ۔ آنے والی مہمان اندر کو چلی گئیں جب حرم سے اسکی نظروں کا تصادم ہوا ۔ ایک پل کے لئے تو دونوں ٹہر گئے مگر پھر سارا کی آواز گونجی جو اسکے پاس ہی آرہی تھی ۔
" بھابھی اچھا ہوا جلدی آگئیں ۔ " سارا کے آجانے پر اس نے سر جھٹکا تھا ۔
" آپ نے گجرے نہیں پہنے ناں پتا تھا مجھے سب کام مجھے ہی کرنے ہیں ۔۔ رکیں ذرا ۔ " اس نے منہ بسورے کہا تو حرم اسکی بات پر ہنس دی ۔ پھر سارا نے یہاں وہاں نظریں دوڑائیں ۔
" بھائی وہاں کیا کھڑے ہیں گجرے لائیں بلکہ اپنی بیگم کو خود ہی پہنا دیں۔ " اسکی بات پر پہلے تو وہ ٹیبل سے گجرے لے کر آنے لگا پھر دونوں ایک دوسرے کو عجب سے دیکھا ۔
" جلدی کریں سب آنے والے ہونگے ۔ آپ کی ہی بیوی ہیں بھائی ایسے کیا دیکھ رہے ہیں ۔ " وہ جس طرح دیکھ رہا تھا سارا کی چلتی زبان نہ رک سکی ۔
" اب پہنا بھی دیں ۔ چلیں میں ایک یادگار بھی بنا لیتی ہوں ۔ " وہ چلتے ہوئے حرم کے سامنے آیا تو سارا نے اپنا کیمرہ آن کیا ( دراصل وہ کیمرہ اس نے حمزہ کے ہاتھ سے چھینا تھا ۔ )
" میں پہن لوں گی خود ۔ " حرم نے منمناتے ہوئے کہا کہ صرف بدر تک اسکی آواز پہنچے ۔ جس پر اس نے بغیر اجازت چاہے ہی حرم کا ہاتھ پکڑا اور پھولوں سے بھرے گجرے اسکے ہاتھ میں پہنا دئیے تبھی کلک کی آواز کے ساتھ ایک تصویر کیمرے میں قید ہوگئی ۔
" ہاؤ رومینٹک ۔ چلو بھوتنی نمبر ون میرا کیمرہ واپس کرو کب سے ڈھونڈ رہا ہوں ۔ " حمزہ اسکے پیچھے سے آیا سارا کے ہاتھ سے کیمرہ چھین لیا ۔ حرم نے اپنا ہاتھ واپس کھینچا تو وہ بھی سانس بھر کے پیچھے مڑا ۔
" بدر ! سب مہمان آرہے ہیں سرمد کو ویلکم کرو چلو ۔۔ " سعید صاحب کی آواز پر سب سے پہلے بدر نے بھونیں سکیڑیں اور چلا گیا جبکہ سامنے سے آتی ہوئی خدیجہ بالکل حرم کی طرح چونکی اور دوسری جانب دیکھا ۔
" پر فنکشن میں اس شخص کو کیوں بلانا ۔ " منہ میں بڑبڑاتی وہ خدیجہ کے پاس سے ہوتی ہوئی گزری جب پارٹیشن کی دوسری جانب سے دو آنکھیں اِس ہی منظر کو دیکھنے لگیں ۔ وہ صرف اسکی پشت دیکھ کر ہی پہچان چکا تھا کہ وہ حرم ہے جو وہاں سے گزری ہے جب نظر اضطراب میں کھڑی خدیجہ پر گئی ۔ ایک پل کے لئے تو اس نے اسے مکمل دیکھا ۔ پھر خدیجہ کے اس کو دیکھتے ہوئے پاکر مڑ جانے پر وہ بھی اس ہی سنجیدگی سے مڑ گیا ۔
" توبہ ظالم شخص نے مجھے دیکھ لیا ۔ خیر ۔۔ اچھا آئی اماں ۔۔" وہ پیچھے مڑ کر آنکھیں بند کرتی ہوئی بڑبڑائی پھر اپنی ماں کی آواز پر وہاں سے دوڑ لگا گئی۔
🖤__________~
مایوں کا فنکشن اچھے سے اختتام پزیر ہوا ۔ رات وہ لوگ دیر تک فنکشن میں تھک جانے کے بعد جلدی سوگئے اور اب رات سے صبح اور صبح سے اگلا دن کیسے گزرا پتا ہی نہ چلا ۔۔ آج صبح سے ہی حرم کا دل مچلا رہا تھا جیسے کچھ انہونی ہونے کو ہے ۔ یا پھر بہت کاموں کی وجہ سے ایسا لگ رہا ہو ۔ وہ کچن سے نکلی ہی تھی جب چکر کھا کر گرتے گرتے بچی ۔
" حرم ! ٹھیک تو ہو کیا ہوا ہے ۔۔ " بدر اس ہی کے پاس ایک کپ چائے کا بولنے کے لئے آرہا تھا مگر اسے گِرتا دیکھ فوراً بھاگ کر سنبھالا ۔ حرم نے آنکھیں میچتے سر پر ہاتھ رکھا ۔
" اِدھر آؤ ۔ کھانا کھایا تھا تم نے ۔ ہاں ؟ " اسے صوفے تک لایا پھر بٹھاتے ہوئے فکر مندی سے پوچھا ۔ دراصل آج ان لوگوں نے ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھایا تھا کام ہی اتنے تھے بارات کا دن تھا کاموں کا انبار کیسے نہ ہوتا ۔
" نہیں میں کپڑے پریس کروا رہی تھی اب کھاتی ہی مگر بھوک بھی نہیں ۔ " بدر نے اسے گھور کر دیکھا ۔ مگر وہ لمبا سانس بھرنے لگی ۔ باہر سے دھوپ ہلکی ہورہی تھی ۔ عصر کو قضاء ہوئے وقت ہوچکا تھا ۔
" چلو کمرے میں چلو میں کچھ منگواتا ہوں اور پلیز آگے سے بحث نہ کرنا چلو جلدی میں آیا ۔ " وہ سچ میں آگے سے اسے روکتی مگر بدر تو اسے سیڑھیوں تک لے جاتے خود کچن میں چلا گیا ۔ حرم نے ایک نظر کچن کی جانب دیکھا جہاں سے اسکی پشت نظر آرہی تھی ۔ سنہری دھوپ اسکے پیچھے سے آرہی تھی مگر اس وقت حرم کی آنکھیں کسی اور احساس کی وجہ سے چمکیں ۔ پھر وہ سر مسلتے اوپر چلی آئی جہاں کمرے میں نور بیٹھی آج پھر اپنے کپڑے پھیلائی ہوئی تھی ۔
" مما نونو ویت کر ری تھی آپکا ۔۔ " حرم کو دیکھتے ہی وہ ایک ڈریس لیے اس تک آگئی ۔
" اچھا جی کیوں کر رہی تھیں نونو مما کا ویٹ ۔ " وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔ اور نور اسکا ایک ہاتھ تھامے بیڈ پر چڑھی ۔
" یہ دیکیں مما اِش پریتی آر ناٹ ۔ " اسکے اس طرح اپنے کپڑے دکھانے پر وہ ہلکا سا ہنس دی ۔
" جو میری بیٹی پہنے گی وہ پریٹی ہی لگے گا ناں ۔ اِدھر آؤ مما کے پاس ۔ " پیار سے کہتی اس نے ایک ہاتھ اونچا کیا جسکو پکڑے وہ ماں کی گود میں آکر بیٹھ گئی ۔
" مما کی پیاری سی چھوٹو سی ڈول ۔ " اس نے زور سے اسکے گال پر بوسہ لیا تو نور نے آواز نکالی ۔
" نونو چوتو سی نئی ہے مما ۔ "
" ہاہاہا اچھا بھئی بڑی سی ہے نونو ۔ مما کی زندگی، ڈیڈو کی جان ۔ دادو کی خوشی ۔ آنی کی پرنسس " وہ اسکو سینے سے لگائے آنکھیں موندے بس بولتی چلی جا رہی تھی جب دروازے سے بدر اندر آیا ۔ اور اسکے اِس طرح کہنے پر وہ دھیما سا مسکرا دیا ۔
" چلو اب سب کی لاڈلی کی اماں جی یہ کھا لو ۔ پھر بہت سے کام دیکھنے ہیں ۔۔ " اسے عجب طریقے سے مخاطب کرتے وہ ٹرے سامنے رکھ کر اُدھر ہی بیٹھ گیا۔ حرم نے آنکھیں کھولیں تو مسکراہٹ مدھم نہ ہوئی بلکہ وہ یوں ہی نور کو جھلاتی ہوئی مسکراتی رہی ۔
" چلو نور آؤ یہ کھائیں ۔ نور کے ڈیڈو کیا بنا کے لائے ہیں ۔ " اس نے ٹرے آگے کی اور نور کو سائڈ میں بٹھایا ۔ مائیکرو ویو میں بریانی گرم کر کے لے آیا تھا ۔ اب جلدی میں یہی کو سکتا تھا ۔
" واؤ برجانی ( بریانی) ڈیڈو کھیلائے نونو کو ۔ " اس نے مزے سے بریانی کہا اور پھر ایک انگلی منہ کھولے کھانے کا اشارہ دینے لگی ۔
" ہاہاہا آؤ کھلاؤں میں اپنی جان کو ۔۔ برجانی " بدر نے آخر میں اسکی " برجانی " کو الگ سے واضح کیا جس پر حرم نے مسکراتے ہوئے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر کھانے لگی ۔ یہ اسکے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے ۔ جب بھی وہ کھانے میں لاپرواہی کرتی تو بعد اسکے اسے سر درد اور چکر آنے لگتے تھے ۔۔ کمرے میں آتی دھوپ کی کرنیں چھٹنے لگیں ۔ سورج کہیں چھپ رہا تھا ۔ اور وہ تینوں یونہی اس پل میں بیٹھے نور کی " برجانی " کھاتے رہے ۔۔۔
🖤__________~
اور وہ دن بھی آگیا جس دن کا سب کو بے صبری سے انتظار تھا ۔ ثانیہ کی بارات والی رات ۔ جس دن ایک راز فاش ہونے کو تھا ۔
چاندنی رات میں ڈوبا سماء
پھولوں سے مہکا تھا پورا یہ جہاں
ہجومِ انساں تھا چاروں اطراف
کھنکتی چوڑیوں کی وہ چھنکار
کہیں تھا آنکھوں میں نمکین پانی
کہیں تھی قہقہوں کی برسات نرالی
ایک دلہن کی آج بارات تھی آئی
گھر میں خوشیوں کی دعوت ہے آئی ۔
" حرم ! ۔۔ حرم تیار ہوگئیں ۔ سب چلے گئے ہیں یار نور کو بھی بھیج دیا امی لوگوں کے ۔۔۔ " وہ اجلت میں کمرے میں آیا ۔ اپنی دھن میں کہتا ہوا وہ اس سے ٹکرایا اور جب نظریں جاناں ملی تو باقی باتیں ادھوری رہ گئیں ۔ حرم نے وہی مرون رنگ کی میکسی پہنی تھی جو ثانیہ نے اسے مال سے زبردستی بارات والے دن کے لئے دلوائی تھی ۔۔
اس نے گولڈن ہیلز کام کے مطابق پہنی تھیں جبکہ گھنی پلکوں کے ساتھ سموکی آئیز وہ نازک مزاج حسن اور لپسٹک سے سرخ کئے ہونٹ ۔۔۔
' آہ اب میں اتنا بھی مضبوط نہیں حرم ..' دل میں اس سے مخاطب ہوئے وہ بظاہر ہکا بکا لگ رہا تھا ۔
" میں آ ہی رہی تھی نیچے وہ بس ۔۔ " بدر کا ہاتھ بے اختیار اسکی جانب اٹھا ۔ جس پر آنکھیں کھولے دیکھنے لگی ۔۔
" اچھی لگ رہی ہو ۔۔ " اسکے ہیوی جوڑے سے نکلتے بالوں کی چند لٹوں کو چھوتے وہ ہنکارہ بھر کہ رہ گیا ۔۔
" چلیں۔ " حرم کے کہنے پر اس نے ایک نظر پھر اسے دیکھا اور پھر سر ہلاتے ہاتھ آگے کیا اس امید سے کہ شاید آج تو حرم اسکا ہاتھ تھام لے گی ۔ وہ جو ہر چار سال سے خود پر خودداری اور کھڑوس بیوی کا خول چڑھائے ہوئی ہے کیا آج اسکا ۔۔
اور اس نے کچھ سوچے سمجھے بدر کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا۔ جہاں حرم نے سنجیدگی ظاہر کئے دل کی بے ترتیبی کو روکا وہیں بدر نے مسکراتے ہوئے ہاتھ پر گرفت مضبوط کی اور وہ دونوں چل دئیے ۔
جو بھی ہے وہ ٹھیک ہے جو ہو چکا وہ گزر گیا اور جو ہوگا وہ ٹھیک ہوگا ۔۔
" بدر ! " وہ لوگ گاڑی میں بیٹھے ہال تک جا رہے تھے انکے گھر سے کوئی دس منٹ کی ڈرائیو پر وہ عالیشان بینکوئیٹ واقع تھا جہاں آج ثانیہ کی بارات منعقد تھی ۔
" کیا ہوا کچھ چاہئیے " اس نے ایک نظر حرم پر ڈالی جو عجیب سی کیفیت کا شکار تھی ۔
" مجھے پتا نہیں ۔۔ میرا دل گھبرا رہا ہے ۔ " وہ اٹکتے ہوئے بولی ۔ بدر نے ایک ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا ۔۔
" میں سمجھ رہا ہوں تم ٹینشن نہ لو ۔۔ " اسکی بات پر حرم نے اچھنبے سے اسے دیکھا ۔۔
" کیا مطلب تم۔۔۔۔ "
" ہال آگیا چلو ۔ زیادہ سوچو نہیں سب ٹھیک ہونے والا ہے ۔ " اور اسکے یہ الفاظ حرم کی گھبراہٹ میں مزید اضافہ کر گئے ۔
🖤__________~
سب مہمان آہستہ آہستہ آرہے تھے ۔ کبھی کوئی آتا کبھی کوئی سب اس سے بھی ایک ایک کر کے خصوصی طور پر مل رہے تھے اور وہ سب سے اچھے سے مل کر بعد میں لمبی لمبی سانسیں لیتی ۔۔ اسے واقع گھبراہٹ ہورہی تھی جو دور بیٹھی دادی نے بھانپ لیا اور پھر اشارے سے اسے اپنے پاس آنے کو کہا ۔
" کیا ہوا ہے میری بیٹی کو طبیعت نہیں ٹھیک کیا ؟" انہوں نے شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اور اپنے پاس سیٹ پر بٹھایا۔
" نہیں دادی بس پتا نہیں کیوں صبح سے گھبراہٹ ہورہی ہے عجیب سا لگ رہا ہے جیسے کچھ ۔۔ "
" ارے تم اتنا نہ سوچو ۔ میں دم کردیتی ہوں ۔ کل اتنی پیاری لگ رہی تھیں ناں ضرور سب کی نظر لگ گئی ہوگی ۔ " انکی اس بات پر اسکی آنکھیں نم ہوگئیں۔
" امی بھی یہی کہتی تھیں۔ " اس نے سر جھکا لیا ۔ دادی نے ہاتھ پر دباؤ دیا جیسے کہہ رہی ہوں سب ٹھیک ہے ہم سب ہیں ناں یہاں ۔۔
اس نے آنکھیں بند کرلیں اور دادی نے چند صورتوں کا ورد پڑھا پھر چند لمحے بعد اپنے اوپر اسے گرم ہوا محسوس ہوئی ۔۔۔
" بھابھی بھابھی دیکھیں آپ سے کون ملنے آیا ہے ۔" سارا کی آواز پر اس نے بند آنکھیں پٹ سے کھولیں ۔ سامنے دادی بیٹھی دوسری جانب خوشی سے دیکھ رہی تھیں اس نے بھی آہستہ سے دھڑکتے دل کے ساتھ اس جانب دیکھا اور ۔۔۔
اور اس کی سانسیں جہاں تھیں وہیں رک گئی آس پاس کا سارا منظر ساکت ہوگیا ۔
" امی ! " اور اس نے اتنی زور سے کہا کہ اس پاس جو کھڑا تھا انکی جانب دیکھنے لگا ۔
جاری ہے
❤️
👍
😂
😢
68