
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
June 12, 2025 at 02:49 PM
"Bir Ask Hekayesi"
Hania Noor Asad
"بیر اشک ہیکے ایسی"
میری محبت کی کہانی
قسط نمبر 27
پانچواں باب
"رنگ بدلے جہاں کیسے کیسے"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
"بلجیک تمہیں واپس جانا چاہیے ، عدل اکیلی ہے وہاں۔" سیرہ کرابے ڈائننگ ٹیبل کے پاس کھڑی بولی تھیں۔ بلجیک ساتھ ہی کھڑی دوسری ملازماؤں کے ساتھ کھانے کے برتن اٹھا رہی تھی۔
"سیرہ میم وہ فلیٹ سے جا چکی ہے، کیا آپ کو کرابے نے نہیں بتایا؟" بلجیک تھوڑی سی حیران ہوئی۔
"نہیں۔۔۔ کرابے میرا فون نہیں اٹھا رہا۔" وہ اپنے گولڈن بالوں کی پونی کی ایک لٹ کو انگلی سے گھماتے ہوئے بولیں۔
"میم ۔۔۔ وہ عدل کی آنٹی کی ڈیتھ ہو گئی ہے ۔۔۔ کرابے وہیں پر ہیں۔" بلجیک نے بتایا۔
"کون آنٹی ؟"
"اسکے فادر کی بہن تھیں۔۔محترمہ خدیجہ ۔"
"اوہ۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ تم جاؤ میڈیسینز کمرے میں بھجوا دینا۔" وہ یہ کہتی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئیں۔
اپنے کمرے میں پہنچ کر انہوں نے خود کو سر سے پیر تک دیکھا تھا۔ وہ خوبصورت تھیں، جوان تھیں، مگر کینسر کی مریضہ ۔۔۔ جنکے پاس زندگی بہت کم تھی۔
کچھ دیر بعد ملازمہ انہیں میڈیسینز دے کر چلی گئی۔ میڈیسینز لینے کے بعد وہ ڈریسنگ روم کی جانب بڑھیں اور ساتھ ایک نمبر اپنے موبائل پر ڈائل کیا۔
"پروفیسر پندرہ منٹ میں انقرہ کے لیے نکل رہی ہوں میں ۔۔۔ بتاؤ کیا سامان چاہیے؟" یہ کہہ کر دوسری طرف کی بات سننے لگی۔
"ٹھیک ہے ۔۔۔ اور ہاں زہر نے اثر دکھایا وہ عورت مر گئی۔۔۔" فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ سیرہ نے کہا اور ڈریسنگ ٹیبل سے ڈیپ ریڈ کلر کی لپ اسٹک اٹھا کر لبوں پر لگانا شروع کر دی ۔ وہ بہت گہری لپ اسٹک لگاتی تھی۔
"اوکے ۔۔۔۔ مل کر بات کرتے ہیں۔۔۔ ٹھیک ہے دیکھ لوں گی۔" یہ کہتے ہوئے اس نے فون رکھا اور انٹرکام تک آئی ۔
"بلجیک اوپر آؤ ۔" اب وہ تیار ہونے لگی تھی۔ بلیک چست جینز کے اوپر سلک کی سلیو لیس شرٹ اور بلیک ہائی ہیلز پہنے بالوں کی اونچی پونی بنائے وہ تھوڑی ان کمفرٹیبل سی ہوئی تھی۔ کیونکہ لمبے بالوں والی وگ سے تھوڑا سا گنجا سر نظر آیا تھا ۔
وہ گنجی تھی۔ سارے بال جھڑے ہوئے تھے ۔ وہ ہائی ڈرگز کے سہارے پر تھی۔ ورنہ اسکا جسم انکا ساتھ چھوڑے ہوئے تھا۔ اس نے وگ کو ٹھیک کیا تبھی بلجیک اندر آئی ۔
"ملازموں کو کواٹر میں بھیجو ہم بیسمنٹ میں جائیں گے۔۔۔ زرا دیکھیں تو ہماری پیاری سی سودہ آرگن کیا کر رہی ہیں؟" وہ دل جلا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ بولی اور بلجیک اثبات میں سر ہلا کر کمرے سے نکل گئی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
"اسے نہیں معلوم اسکا شوہر کہاں گیا؟ انسپکٹر مجھے اسی پر شک ہے ۔۔۔ اسی عورت نے غائب کروایا ہے میرے بیٹے کو۔" نگہت بیگم کا رو رو کر برا حال ہو چکا تھا۔ وہ پچھلے ایک ہفتے سے سفیر کے لیے تڑپ رہی تھیں اور پریشے کے گھر پر ہی تھیں۔ زبیر صاحب اور سفیر کی دادی کا بھی یہی حال تھا۔
جبکہ احمد اکبر اور اسوہ اکبر بھی کئیں چکر لگا چکے تھے۔ روشان کے بھی دن رات سفیر کو ڈھونڈنے میں ہی صرف تھے۔
ابھی انسپکٹر طلال نگہت بیگم سے سوالات و جوابات کرنے آئے تھے جب انہوں نے دہائیاں دیتے ہوئے سارا الزام پریشے پر لگا دیا تھا جو پچھلے ایک ہفتے سے بلکل لاپرواہ بنی بیٹھی تھی ۔ اسے سفیر کے جانے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑا ہو جیسے۔
پر فرق اسے ہی تو پڑا تھا۔ وہ خوش تھی بہت خوش ، اور ہر وقت اپنے کمرے میں ہی رہتی تھی۔ اسکی طرف سے جو بھی گھر پر جو بھی یہاں سے جائے اسے کوئی پرواہ ہی نہیں تھی۔ وہ کھا رہی تھی پی رہی تھی پہن رہی تھی سو رہی تھی۔ انجوائے کر رہی تھی آزادی کو۔
ابھی بھی اسے باہر سے نگہت بیگم کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی سن رہی تھی۔ باہر اسکے والدین بھی موجود تھے۔
"اسی نے غائب کروایا ہے میرے بچے کو ۔۔۔۔ اسکے علاؤہ کوئی نا خوش نہیں تھا میرے بیٹے سے۔"نگہت بیگم کی آواز آئی ۔
"کیا آپ کی بہو کی اور آپ کے بیٹے کی آپس میں نہیں بنتی تھی؟" انسپکٹر طلال نے پوچھا۔
"لو میرج تھی ۔۔۔۔ بہت محبت کرتا تھا وہ اس سے ۔۔۔" کافی دیر بعد یہ آواز آئی تھی اور آواز سفیر کی نہیں پریشے کی ماں کی تھی ۔ پریشے بے یقینی سے کچھ دیر کمرے کے دروازے کو دیکھتی رہی پھر مسکرا کر کروٹ موڑ گئی۔
"میرے پاس فون ہوتا تو یمان کو کال کر لیتی۔۔۔۔ اب مجھے بس ایک فون کی ضرورت ہے۔" وہ پر سوچ لہجے میں خود سے بولی۔
"کوئی بات نہیں ۔۔۔۔اب تو سب ٹھیک ہونے والا ہے ۔۔۔ بہت جلد یمان اور میں ایک ساتھ ہوں گے ۔۔۔ ایک اچھی اور خوبصورت زندگی گزاریں گے ۔۔۔ جہاں دور دور تک کوئی سفیر نہیں ہو گا ." وہ مسکرا کر خود کو تسلی دی گئی۔
اسے پچھلے دنوں میں صرف اور صرف اپنے والدین کے رویے پر دکھ ہوا تھا انہوں نے اس سے سلام دعا تک نہیں کی تھی۔ دونوں نے اسے نظر انداز کر دیا تھا اور وہ جو سوچتی تھی کہ کہیں اگر ڈیڈ نظر آئے تو جا کر انکے سینے سے لگ جائے گی اور ان سے ساری شکایتیں کرے گی۔
پر ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ ڈیڈ کی آنکھیں ہی بدل گئی تھیں اور مومی؟ وہ تو جیسے اسے جانتی ہی نہیں تھیں۔
صرف روشان نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا تھا اور تسلی دی تھی۔ "فکر مت کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا ." اسکے بعد پریشے کو روشان بھی نہیں دکھا تھا۔ پتا نہیں کہاں چلا گیا تھا ۔
وہ ابھی سوچوں میں گم تھی جب ادھ کھلے دروازے کے باہر سے آواز آئی ۔
"کہاں جا رہے ہو طلال؟" یہ روشان اکبر کی آواز تھی۔
"پریشے سفیر سے سوالات کرنے ہیں اے سی پی صاحب ۔"
"کیسے سوالات؟" روشان نے پوچھا۔ "سر ابھی تک سفیر کی بیوی سے کوئی سوالات نہیں کیے گئے اور گھر کے افراد کو ان پر شک ہے۔"
"گھر کے افراد کون ؟"
"زبیر صاحب ، نگہت صاحبہ ، مسٹر اینڈ مسز اکبر اور سفیر صاحب کی دادی کو بھی۔۔۔" انسپکٹر طلال نے بتایا روشان نے گہری سانس لی ۔
"ٹھیک ہوا۔۔۔۔تم باہر جاؤ میں اپنی بہن سے خود بات کروں گا۔۔۔۔ جب تک میں ہوں اندر کوئی نہیں آئے گا۔۔۔" ساتھ ہی روشان کے بھاری قدموں کی آواز آئی تھی ۔
پریشے اٹھ بیٹھی تھی دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ غیر معمولی طور پر اس سے ابھی تک کسی نے کوئی سوال جواب نہیں کیے تھے ۔ اب اسے ڈر لگ رہا تھا ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جاری ہے۔
❤️
👍
🆕
😍
🫶
13