
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
June 12, 2025 at 02:49 PM
"Bir Ask Hekayesi"
Hania Noor Asad
" بیر اشک ہیکے ایسی "
میری محبت کی کہانی
قسط نمبر 28
پانچواں باب
"رنگ بدلے جہاں کیسے کیسے"
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کمرے میں گہرا سکوت چھایا ہوا تھا۔ دو لوگ آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے بول کوئی نہیں رہا تھا۔ خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھا جا رہا تھا۔
"مسٹر احمد اکبر اور مسز اسوہ اکبر کو بتانے سے کیوں منع کیا تم نے مریم؟" عدل نے اچانک سے سوال کیا۔ وہ دونوں زمین پر بیٹھی ہوئی تھیں ۔ اپنے اپنے سنگل بیڈ کی پائنتی سے ٹیک لگائے۔
"کیوں بتایا جائے کسی کو؟" مریم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔ وہ کافی ٹائم بعد بولی تھی۔ آواز رندھی ہوئی تھی۔
"They were siblings."
عدل نے کندھے اچکائے اور بولی۔ مریم نے چہرہ موڑ لیا۔ جیسے گفتگو نا کرنا چاہتی ہو۔
"مریم ۔۔۔ تم اداس ہو؟" عدل نے سوال کیا اور مریم نے جواب نہیں دیا۔ یہ عدل اتنی پاگل کیوں تھی؟ کیوں ایسے سوال پوچھتی تھی؟ اسکے اندر کا مچیور انسان کیوں نہیں جاگتا تھا؟ کیوں بچی تھی وہ؟
وہ دونوں اسی طرح بیٹھی تھیں جب عدل کا فون بجا۔ اس نے موبائل اٹھایا اور نام پڑھا۔ نا جانے کیوں کچھ دھڑکنوں نے ترتیب آگے پیچھے کی تھی۔
"میں میران کو لے کر آیا ہوں ، رات کو لے جاؤں گا۔۔۔ آ کر اسے پارکنگ لاٹ سے لے جاؤ ." گھمبیر آواز اسپیکر پر گونجی تھی ۔ مریم نے سن کر بھی بات نہیں سنی تھی اور عدل بے ساختہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
اگلے کچھ منٹوں میں وہ ارحام کرابے کو دور سے آتی ہوئی نظر آئی تھی۔ وائٹ ٹراؤزر پر وائٹ کی بٹنوں والی شرٹ پہنے ، بالوں کو اونچی پونی میں قید کیے وہ اپنے سائز سے بڑے سلیپرز پہنے بمشکل چل رہی تھی۔۔۔ اسکی نظریں ارحام کو ادھر اُدھر تلاش کر رہی تھیں۔
وہ اچھی لگتی تھی بہت زیادہ نہیں تو بہت کم بھی نہیں! ارحام کرابے نے سودہ آرگن کے بعد اگر کسی لڑکی کو آنکھیں بھر کر دیکھا تھا تو وہ عدل تھی۔ وہ نا ہی اس سے محبت کا دعویدار تھا نا ہی اس سے ارحام کا کوئی رشتہ تھا، پر وہ اسے بچانا چاہتا تھا ، اسے سنبھال کر رکھنا چاہتا تھا، اسے ہر نظر سے بچا کر اپنی نظروں کے سامنے رکھنا چاہتا تھا۔
"میں نے اپنا ہم سفر چننے میں غلطی کی تھی۔۔۔ شاید تبھی میں خسارے میں ہوں." بے ساختہ اسکے ذہن میں یہ خیال آیا تھا اور اگلے ہی پل وہ حیران ہوا تھا خود پر۔ یہ ارحام کرابے کو کیا ہو رہا تھا ؟
"عدل۔۔۔۔۔۔" میران عدل کو دیکھ چکا تھا ۔ ارحام سے ہاتھ چھڑا کر وہ عدل کی جانب دوڑا ۔ عدل بھی اسکی آواز سن کر خوشی سے اس کی جانب لپکی ، مگر اگلے ہی پل اسکا سلیپر پیر میں بری طرح اٹکا اور وہ دھڑام سے زمین پر جا گری ۔
یہ سب اتنا جلدی ہوا کہ ارحام کو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا وہ اپنی جگہ فریز کھڑا رہا ۔
"عدل۔۔۔۔ اووو۔۔۔۔ بلڈ.." میران آگے بھاگا اور عدل کی ہتھیلی پر ننھی ننھی خون کی بوندیں دیکھ کر پریشان ہوا۔
"اٹس اوکے بے بی ۔۔۔ " عدل نے وائٹ شرٹ سے اپنی ہتھیلیاں لاپرواہی سے رگڑیں اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ (اف یہ لاپرواہ عدل، کب بڑی ہوگی).
ارحام کرابے نے اسکی یہ حرکت بخوبی دیکھی تھی ۔ ایک مسکراہٹ خود ہی لبوں پر امڈ آئی تھی۔۔اس سے پہلے وہ اسے چھپاتا عدل کی نظریں اسکے چہرے پر ٹکی تھیں۔
"ہنس لیں ۔۔۔ گر تو کوئی بھی سکتا ہے۔۔۔ جب آپ گریں گے تب میں بھی ہنسوں گی۔" اسے افسوس ہوا تھا۔
"میں دیکھ کر چلتا ہوں اور اپنے سائز سے بڑے جوتے نہیں پہنتا۔" وہ بلکل شستہ اردو میں تو نہیں بولا تھا پر یمان اور براک جیسی اردو بول لیتا تھا۔ ترکش کی جھلک والی اردو۔
"یہ براک کے سلیپرز ہیں ۔۔۔" وہ اپنے پیروں کو دیکھ کر بڑبڑائی۔ "اپنے کہاں ہیں آپ کے؟" ارحام نے پوچھا۔
"وہ فیونرل پر گم ہو گئے تھے." اس نے یاد کرنے کی کوشش کی۔ ارحام نے اپنا ہاتھ بالوں میں پھیرتے ہوئے ہنس کر اسے دیکھا۔ "فیونرل؟... کیا تم کہہ رہی ہو کسی مہمان نے تمہاری چپل چرا لی؟"
"ہممم۔۔۔۔ مہمان نہیں ۔۔۔ مطلب کسی نے ۔۔۔ " وہ تذبذب کا شکار ہوئی۔ آخر وہ کیوں باتوں کو نہیں سمجھتا؟
"یعنی تم مجھ پر الزام لگا رہی ہو!۔۔۔ گڈ.." ارحام نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔
"نہیں ۔۔۔ میں نے یہ تو نہیں کہا." وہ فوراً نفی میں سر ہلا گئی۔
"تب تو صرف وہاں میں ہی آیا تھا اور میرے ملازم ۔۔۔ ملازم تو میرے قابلِ بھروسہ ہیں ۔۔۔۔ یعنی پھر میں۔۔۔۔؟" ارحام نے بات اُدھوری چھوڑ دی۔
"میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔۔۔ آپ جائیں یہاں سے ۔۔۔ مجھے اور میران کو بہت کام ہیں۔۔۔ فارغ نہیں ہوتے ہم۔۔۔ ہے ناں میران ؟" عدل نے میران سے تائید چاہی۔ "یس۔۔۔۔" وہ بھی زور زور سے گردن ہلاتے ہوئے بولا تھا ۔
"آئی نو کیا کام ہیں۔۔۔ رنگوں کو بری طرح مکس کر کے الٹی سیدھی پینٹنگز بنانا، وہ ٹیڑھے میڑھے منہ والے بدنما کارٹون دیکھنا۔۔۔ نوڈلز اور پوپ کارن پر ہاتھ صاف کرنا اور الٹے سیدھے جوکس جن پر بندہ مسکرائے بھی ناں ۔۔۔ ان پر قہقہے لگانا۔۔۔ گڈ جاب۔۔۔ چار اور بیس سال کی عمر ہی دونوں بچے پاگل ہو گئے ہیں ! اوہ گاڈ." ارحام یہ کہتا جانے کے لیے مڑ گیا۔
عدل نے میران کا ہاتھ پکڑا اور اپنے اپارٹمنٹ کی جانب جلدی جلدی قدم بڑھائے ۔ اسے دروازے سے اندر کرنے کے بعد اپنے سلیپرز اتار کر جاگرز پہنے اور مریم کو آواز لگائی ۔
"مریم۔۔۔۔ میران کو اندر لے جاؤ میں آ رہی ہوں.۔۔۔ میران ویٹ ۔۔۔ میں ابھی آئی ۔" یہ کہہ کر وہ دروازہ لاک کر کے باہر کی جانب بھاگی ۔
پارکنگ لاٹ سے ارحام کرابے کی گاڑی جا چکی تھی ۔ اس نے ادھر اُدھر دیکھا ۔ اسے گاڑی سوسائٹی گیٹ سے نکلتی دکھائی دی ۔ وہ سرپٹ دوڑی ۔۔۔ گاڑی کے پیچھے تیز تیز ۔۔۔ بڑے بڑے ڈگ بھرتی۔
"مسٹر کرابے ۔۔۔۔ سٹااااپ۔۔۔" بمشکل چالیس سیکنڈ دوڑنے کے بعد وہ چلائی تھی۔ ارحام نے اسکی آواز سنی اور بیک ویو مرر کی طرف نظریں اٹھائیں۔ سڑک کے بیچ و بیچ وہ کھڑی ہانپ رہی تھی۔
"کتنی بڑی اڈیٹ ہے یہ۔۔۔۔" ارحام نے گاڑی کو سائیڈ پر کر کے بریک لگا دی۔ اب وہ مدہم قدموں سے چلتی اسکی جانب آ رہی تھی۔ اسکا چہرہ دوڑنے کے باعث سرخ ہو چکا تھا۔
"اسٹوپڈ ۔۔۔" ارحام نے گہری سانس لی اور سیٹ بیلٹ کھول کر گاڑی سے نکلا۔ عدل نے اسے آتے دیکھا تو قدم روک لیے۔ استہزایہ ارحام نے اسکے پیچھے خالی سڑک کو دیکھا۔ اس لڑکی کا کیا بھروسہ تھا۔۔۔ کیا پتا اپنے ساتھ میران کو بھی دوڑا رہی ہوتی؟ ۔
"تم پاگل ہو کیا؟ کوئی کام تھا تو کال کر لیتی یا اسی وقت روک لیتی یہ کون سا..." ارحام اس سے دو قدم دور کھڑا بول ہی رہا تھا جب وہ اپنے وجود کو بے جان کرتی سارا وزن اس پر ڈال گئی تھی ۔ ارحام کی دونوں کہنیوں کو پکڑے وہ گردن جھکائے گہرے سانس لے رہی تھی۔ اپنا سارا ویٹ اسکی کہنیوں پر ڈالے وہ پرسکون ہو رہی تھی۔ ارحام خاموش ہو گیا۔ اسے لگ رہا تھا ابھی اس کے بازو کہنیوں سے جدا ہو جائیں گے۔ وہ دیکھنے میں ہی چھوٹی تھی ۔ ویٹ کافی تھا اسکا۔ یہ ارحام کو آج پتا لگا تھا۔
اسکے چہرے پر پسینہ تھا۔تھوڑا سا دوڑنے کے بعد ہی حالت خراب ہو گئی تھی۔ ارحام نے کچھ دیر اس کی پیشانی پر نمایاں ہوتی پسینے کی بوندیں دیکھیں۔۔۔ پھر اپنا ایک ہاتھ چھڑا کر جیب سے رومال نکالتے ہوئے اس کا ماتھا اور پھر چہرہ صاف کیا۔ عدل نے چہرہ اٹھایا تھا اور ارحام نے نظریں۔
آنکھیں آنکھوں سے ملی تھیں، الفاظ خاموش ہو چکے تھے۔ سرمئی شام استنبول پر چھا رہی تھی اور کچھ تھا جو سڑک کنارے کھڑے دو لوگوں کے آس پاس حصار بنا رہا تھا، ایک دائرہ ، ایک حدود ، بے معنی سے نظروں کو معنی ملنے کو تھے۔
ہوا کے جھونکے نے نظروں کے سحر کو توڑ ڈالا۔ وہ لڑکی اس سے دور ہو کر کھڑی ہوگئی اور وہ بھی دو قدم پیچھے ہٹا۔ پھر دو قدم اور پھر مڑ گیا۔
"گاڑی میں آ کر بات کرو، لوگ دیکھ رہی ہیں۔" مڑتے ہوئے اس نے کہا تھا اور وہ میکانکی انداز میں اس کے حکم کی تعمیل کرتے اسکے پیچھے چل دی۔
اب سناٹے نے گاڑی میں اپنا کردار نمایاں کیا تھا۔ فرنٹ سیٹ اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے دونوں انسان خاموشی سے باہر نظر آتی سرمئی سڑک اور سرمئی شام کو دیکھ رہے تھے۔
"کیوں آئی تم میرے پیچھے؟ جبکہ میرا بیٹا تم سے ملنے آیا تھا۔" گاڑی میں ارحام کی بھاری آواز آئی تھی اور عدل کی دھڑکنوں نے پھر سر پٹخنا شروع کر دیا تھا۔
"م۔۔۔ مج۔۔ مجھے ۔۔۔ نہیں معلوم... مجھے خود بھی نہیں پتا ۔۔۔ میں کیوں آئی تھی؟" اس نے سچ کا ساتھ دیتے ہوئے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا تھا اور ارحام نے اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی تھی۔ کوٹ پہلے ہی وہ اتارے ہوئے تھا۔ اگلے ہی پل وہ سفید شرٹ کے کف لپیٹ رہا تھا۔ وہ کیا کر رہا تھا ؟ کیوں عدل کو اسکا ہر انداز دل پر لگ رہا تھا؟ وہ شخص کیوں ایک نئے احساس سے آشنا کروا رہا تھا۔
"عدل اکبر ۔۔۔ میں نے جو تمہیں پرپوز کیا اور تم سے ہسپتال میں کہا۔۔۔ اس سب کو بھول جاؤ ۔۔۔ نا میں نے کبھی تمہیں اپنانے کا سوچا ہے اور نا کبھی سوچوں گا ۔۔ میں اکثر باتیں کہہ جاتا ہوں جنکا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔۔۔ ان باتوں کو بھی انہیں باتوں میں سمجھو ۔۔۔ اور اگر کوئی فضول خیالات دل میں پیدا ہو رہے ہیں تو انہیں نکال باہر پھینکو ۔۔۔ تمہاری زندگی میں اور بھی بہت مسائل ہیں ۔۔۔" وہ اسٹیرنگ پر ہاتھ جمائے گاڑی اسٹارٹ کرنے والا تھا۔ عدل کی نظریں اسکے ہاتھوں پر تھیں۔ گورے ہاتھ، بہت گورے ہاتھ ، جن کے سامنے عدل کو اپنے گورے ہاتھ سانولے لگے تھے۔ مضبوط گورے ہاتھ جن پر لال اور نیلی ابھری ہوئی نسیں اور اسکے علاؤہ لڑکیوں کے ناخنوں جیسی گلابی مائل ناخن ، جو بہت تھوڑے ایک لائن کی جتنے بڑھے ہوئے تھے۔ یعنی گلابی ناخن کے آگے سفید باؤنڈری ۔ اسکے ہاتھ بھی کتنے پیارے تھے ناں یا بلیک اسٹیرنگ پر رکھے پیارے لگ رہے تھے؟ عدل فیصلہ نہیں کر پائی تھی۔
"عدل سن رہی ہو؟" ارحام نے اسے حرکت نا کرتے دیکھ کر کہا۔ عدل نے سر اٹھا کر اسکے چہرے کو دیکھا۔ "ہممم۔۔۔ نہیں سن رہی ۔۔" وہ نفی میں گردن ہلا گئی۔ ارحام نے ایک آئبرو اٹھا کر اسے گھورا۔ "کیوں نہیں سن رہی؟"
"آپ کی ایکس وائف سے آپکی لو میرج ہوئی تھی؟" عدل ایک اور غیر متوقع حرکت کر بیٹھی تھی ۔ ارحام لمحے بھر کو حیران ہوا پھر نارمل ۔ بھئی سامنے عدل تھی ، کبھی بھی کہیں بھی کچھ بھی۔
"جی بلکل ۔۔۔" اس نے فرمابرداری سے سر ہلا کر کہا۔ عدل کے چہرے کی جوت بجھ سی گئی۔ پر اگلا سوال تیار تھا۔ "ان میں آپ کو کیا اچھا لگتا تھا؟" ارحام نے سوچا بھی نہیں تھا اور نا لمحوں کا وقفہ کیا تھا۔ جواب دیا تھا وہ بھی صاف گوئی سے۔ "وہ ساری ساری کی ساری میری تھی۔ اور مجھے میری چیزیں پوری کی پوری پسند ہیں، ہر گناہ، ہر غلطی، ہر برائی، ہر کمی ، ہر عیب کے ساتھ!" عدل نے اس کی نیلی آنکھوں میں جذبات دیکھے تھے۔ وہ اپنی بیوی کے ذکر پر جذباتی ہوا تھا۔ عدل کو ناجانے کیوں ایک الجھن سی ہوئی تھی۔ دل میں ہوک سی اٹھی تھی وہ اگلے ہی پل بے چین ہو کر گاڑی کا دروازہ کھول گئی۔ "میں چلتی ہوں." یہ کہہ کر وہ رکی نہیں تھی۔
ارحام کرابے نے بھی نہیں روکا تھا وہ بیک ویو مرر سے پھر اڈے دیکھ رہا تھا جو کچھ دیر پہلے دوڑ کر آئی تھی وہ اب مردار قدموں کی چال چلتے ہوئے واپس جا رہی تھی ۔ ارحام نے سر جھٹک کر گاڑی آگے بڑھا دی۔
√√√
❤️
👍
🆕
😮
😘
🫶
19