
Poetry By Umm E Hala 📚🦋🗝️
June 12, 2025 at 02:50 PM
" Bir Ask Hekayesi "
Hania Noor Asad
بیر اشک ہیکے ایسی
میری محبت کی کہانی ۔
قسط نمبر 29
پانچواں باب
رنگ بدلے جہاں کیسے کیسے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
"یہ سب کیا ہے روشان؟" غیر متوقع طور پر کمرے کا دروازہ دھڑام سے کھول کر اندر داخل ہونے والی اسوہ بیگم تھیں جبکہ روشان کو احمد اکبر کا انتظار تھا۔
"کیا سب کیا ہے ممی؟" روشان جو بیڈ پر نیم دراز تھا اٹھ کھڑا ہوا اور انکے برابر آ کھڑا ہوا۔
"تم نے سفیر کا چیپٹر کلوز کروا کر میرے شوہر کو ٹینس کر دیا میں خاموش رہی پر تم نے میری بیٹی کو گھر سے نکال دیا؟ میں کیسے خاموش رہوں۔" وہ اتنے زور سے چلائیں کے روشان نے حقارت سے انہیں دیکھا۔
"آپکی بیٹی ایک ہفتہ دوبئی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ گزار کر آئی ہے۔۔۔ سوری میں ایسی عورت کو برداشت نہیں کر سکتا." روشان نے کہا۔
"تم بکواس کر رہے ہو ۔۔۔۔ میری بیٹی کے بارے میں ایسے لفظ استعمال کیے تو زبان ہی کھینچ لوں گی تمہاری ۔۔۔۔" وہ اسکا گریبان پکڑ کر دہاڑی تھیں۔
"آپ کی بیٹی سے مجھے اب کوئی رشتہ نہیں رکھنا.۔۔ میں نے نا کبھی موقع دیا ہے نا کبھی معاف کیا ہے ۔۔۔ مجھے یہ خبر دیر سے ملی پر مل گئی۔۔۔ اب میں لمحہ بھر اس عورت کے ساتھ نہیں گزار سکتا۔۔۔۔ آپ بھی مہربانی کر کے تشریف لے جائیے یہاں سے۔" اس نے نرمی سے کہتے ہوئے سختی سے اسوہ اکبر کے ہاتھ جھٹک دئیے۔
"تم بہت بڑے بے غیرت اور احسان فراموش انسان ہو روشان اکبر!" وہ نخوت سے چلائیں۔
"احسان ؟ کونسا احسان ؟ میرے باپ کے پیسے پر آپ کا شوہر ناگ بن کر بیٹھا ہوا ہے یہ ہے آپ کا احسان ؟ یا آپ کی بیٹی مجھے دھوکا دے رہی ہے یہ ہے احسان؟ اگر احسانات انہیں کا نام ہے تو براہ مہربانی مجھ پر نا کریں اور میرا پیچھا چھوڑ دیں ۔۔۔ اگلی بار مت آئیے گا یہاں ممی ۔۔ ورنہ مجبوراً گارڈز کی ہیلپ لینی پڑے گی۔" وہ غصے سے کہتا ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا۔ اسکے چہرے پر غصے سے سرخی گھل چکی تھی۔ اسوہ اکبر وہاں سے چلی گئیں ۔۔
روشان واش بیسن کے سامنے کھڑا خود پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مار رہا تھا۔ دماغ ابل رہا تھا جیسے۔ پچھلے ایک ہفتے میں اس نے کئیں فیصلے کیے تھے۔
وہ پریشے کو ترکی بھجوا چکا تھا۔ تمام تر حقائق اسکے گوش و گزار کرنے کے بعد ۔ پریشے کو یہ جان کر بلکل حیرت نہیں ہوئی تھی کہ وہ احمد اکبر اور اسوہ بیگم کی بیٹی نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ حقیقت اس پر اسی دن عیاں ہو گئی تھی جب اسکی شادی سفیر سے ہوئی تھی۔
پریشے سے روشان نے کوئی لمبی چوڑی گفتگو نہیں کی تھی۔ وہ کمرے میں گیا تھا اور اس سے پوچھا تھا کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ جس کے جواب میں پریشے نے کہا تھا کہ وہ یمان نوریز کے پاس جانا چاہتی ہے۔ روشان نے اگلے دن ہی اسے تمام تر کیسوں سے دستبردار کرتے ہوئے ترکی روانہ کر دیا تھا ۔
پریشے کے جاتے ہی اسے اپنے غیر ملکی دوست کی طرف سے رحام کی کچھ تصاویر ملی تھیں۔ جن میں وہ کسی شخص کے ساتھ شراب نوشی میں مصروف تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب روشان اکبر کی محبت ساتویں آسمان سے زمین کی آخری تہہ میں آ گری تھی۔
اسے نفرت محسوس ہوئی تھی خود سے ۔ دوسری مرتبہ ۔اسے پہلی مرتبہ اسے خود سے نفرت کچھ عرصے پہلے ہوئی تھی جب اس پر یہ حقیقت کھلی تھی کہ عدل اسکی سوتیلی بہن ہے۔ اس پل اسے خود سے بہت نفرت ہوئی تھی کیونکہ وہ لمحوں کو سہی پر عدل کے سحر میں کھویا تھا اور عدل نا جانے کیا کیا سوچتی رہی تھی ۔
دوسری بار اسے خود سے نفرت رحام کو جان لینے کے بعد ہوئی تھی۔ وہ عورت اس کو بری لگی تھی بہت بری ۔ تبھی اس نے ملازموں اور گارڈوں سے کہہ کر اس کا داخلہ ممنوع کروا دیا تھا۔ وہ کل رات آفس سے لوٹی تو اسے گارڈز نے اندر داخل نہیں ہونے دیا۔ اور آج صبح ہی صبح اسوہ بیگم پہنچ گئی تھیں۔
پچھلا ایک ہفتہ ایک فلم کی طرح روشان کے دماغ میں چل رہا تھا۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنی گن کی ساری گولیاں "ساحر رندھاوا" کے سینے میں گھونپ دے ۔ جو رحام روشان اکبر سے محبت کا دعویدار تھا اور روشان کے دھمکانے پر بھی پیچھے نہیں ہٹ رہا تھا۔ اسے کسی کا خوف نہیں تھا بس رحام چاہیے تھی اور رحام کسی صورت روشان کسی کو نہیں دے گا ۔ یہ تو طے تھا ۔
√√√
ائیر پورٹ پر کھڑی لڑکی بہت ڈری سہمی ہوئی تھی۔ آس پاس سے اور ہر شناخت سے ناآشنا وہ صرف "پریشے" تھی۔ اسے روشان نے بھیجا تھا ۔ سب کچھ روشان نے کروایا تھا۔ فلائٹ ، پیکنگ ، سفارش ، ہر چیز۔ اسے پتا بھی نہیں چلا تھا اور وہ ترکی پہنچ گئی تھی۔
سفید فلیپر پر پرپل لمبی قمیص پہنے ، اپنے گرد سفید دوپٹے کو اچھی طرح لپیٹے وہ کمر پر جھولتے بالوں کو کھولے ہوئے تھی۔ جو بال پہلے وہ کندھوں سے نیچے نہیں آنے دیتی تھی وہ اب کمر پر جھول رہے تھے۔
کچھ ہی دیر وہ ویٹنگ ایریا میں کھڑی تھی جب اسے اپنے عقب سے کسی کی آواز آئی تھی ."ایکسکیوزمی...." وہ اس آواز کو کروڑوں کے مجمع میں پہچان سکتی تھی۔ اک وہی تو آواز تھی جسے سننے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتی تھی۔ ٹھوکر لگنے کے بعد محبت اور بھی پختہ ہو گئی تھی ۔ وہ مڑی اور سامنے دیکھا۔
بلیک سوٹ پینٹ پر وائٹ شرٹ پہنے، بازو کہنیوں تک فولڈ کیے وہ Gucci کی ڈائمنڈ واچ والا ہاتھ بیگ تھامنے کے لیے آگے بڑھائے ہوئے تھا۔
اس کا قد کافی اونچا تھا۔ پریشے اسکے سینے تک آئی تھی۔ اسکی کرسٹل گرے آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔ پریشے کو وہ نہیں دیکھ رہا تھا۔ پریشے اسے دیکھتی گئی۔ چہرے پر اس نے بلیک ماسک لگا رکھا تھا۔ صرف سحر زدہ آنکھیں ، بھورے بالوں سے جھلکتی پیشانی اور بڑے بڑے کونوں سے سرخ ہوتے کان نظر آ رہے تھے۔ پریشے اسے دیکھ نہیں گھور رہی تھی ، سب کچھ بھلا کر سب کچھ چھوڑ کر ۔
انقرہ کے ائیر پورٹ پر سرمئی شام پھیل رہی تھی ۔ پر پریشے کو سرمئی شام نہیں دلچسپ لگی تھی اسے سرمئی آنکھوں میں دیکھ کر سکون ملا تھا۔ کتنی خوبصورت آنکھیں تھیں ناں؟ جن میں حیا تھی۔ بھلا مرد کی حیادار جھکی ہوئی آنکھوں سے خوبصورت بھی کوئی آنکھیں ہو سکتی ہیں؟ وہ پاگل ہوئی تھی اسے دیکھ کر اسے نہیں پتا چلا تھا لمحے کیسے سرکے تھے۔ بالآخر یمان نوریز نے آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ سے بیگ لیا تب وہ ہوش میں آئی اور اسکی نظریں چہرے سے نیچے گردن تک آئیں ۔
یہاں بھی نظریں ٹہری تھیں اور پھر بے ساختہ اسکے ہاتھ یمان کی گردن کی جانب بڑھے تھے۔
"یہ۔۔۔۔ یہ میرا ہے۔۔۔ یہ کھو گیا ۔۔۔ تھا ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔ میں نے ۔۔۔ بنوایا تھا۔۔۔۔" وہ اسکے گلے میں لٹکی " Y " والی چین دیکھ کر دبی دبی چلائی تھی ۔ یمان نے نرمی سے اس کے ہاتھ گریبان سے ہٹائے اور اس کا سلیو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ چلانے لگا۔ وہ بھی کسی معمول کی طرح چل پڑی ۔
ائیر پورٹ پر ہزاروں کی تعداد میں گزرتے لوگ پریشے کے لیے معنی نہیں رکھتے تھے ۔ اگر معنی رکھتا تھا تو وہ شخص جو اسکی کلائی نہیں اسکی شرٹ کا بازو پکڑ کر اسے اپنے برابر برابر چلا رہا تھا ۔ وہ قدم رکھتی تو وہ قدم اٹھاتا کہ کہیں پریشے سے آگے قدم نا بڑھ جائے ۔ پانچ منٹ کے بعد وہ دونوں گاڑی میں آ بیٹھے تھے۔
پریشے فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی اور یمان نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی تھی۔ وہ سامنے دیکھتا نارمل اسپیڈ میں گاڑی چلا رہا تھا۔ پریشے ذرا سا مڑی تھی اور پھر اسے دیکھنے لگی تھی ۔ اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی اسے بس اس شخص کو جی بھر کے دیکھنا تھا۔
یمان کب سے اسکی نظریں خود پر محسوس کر رہا تھا اور آج یمان نوریز پر انکشاف ہوا تھا کہ وہ شرماتا بھی ہے ۔ اسے شرم آتی ہے جب اسکی محبت اسے دیکھتی ہے اور ہاں اسکے کان آج سردی کی وجہ سے نہیں شرم کی وجہ سے کونوں سے سرخ ہو رہے ہیں ۔ وہ کب کا ماسک ہٹا دیتا پر اسے لگ رہا تھا اسکے گال سرخ ہو رہے ہونگے جو پریشے دیکھ لے گی ۔
طویل ڈرائیو کے بعد گاڑی ایک مسجد کے آگے رکی تھی۔ شیشوں کی بنی ایک خوبصورت مسجد "المحمدیہ". یمان گاڑی سے اترا تھا اور پریشے کی طرف کا دروازہ کھولا تھا۔ پریشے نے ایک نظر اسے پھر مسجد کو دیکھا تھا۔
"م۔۔۔ مسج۔۔۔ جد کیوں؟" وہ حیرت سے کبھی اسے کبھی مسجد کو دیکھ رہی تھی۔
"نکاح کے لیے..." یمان نے بہت آہستگی سے دوسری آواز نکالی تھی۔ پہلے بھی سوائے ایکسکیوزمی کے کچھ نہیں بولا تھا۔
"نن۔۔۔ نہیں ۔۔۔ نکاح نہیں ۔۔۔ میں سفیر کے نکاح میں ہوں." وہ سہم کر پیچھے ہٹی تھی۔
"اترو گاڑی سے۔" یمان نے تھوڑا سا اونچا کہا مگر وہ مزید سمٹ کر بیٹھ گئی۔ اور نفی میں گردن ہلانے لگی ۔
"باہر نکلو گاڑی سے۔۔۔ دماغ نا گھماؤ میرا۔۔۔" یمان نے اسکی چادر کو مٹھی میں پکڑا۔
"تم زبردستی نہیں کر سکتے۔۔۔ میں روشان کو فون کر دوں گی ۔۔۔ دور ہٹو ۔۔۔ یہ سب غلط ہے ۔۔۔ میں نکاح میں ہوں کسی کے ." وہ پیچھے ہوتے ہوئے بول رہی تھی۔ یمان کا دل کر رہا تھا اس لڑکی کو دو تھپڑ جڑ دے۔ اسے وہ کس اینگل سے بیوقوف لگتا تھا جو نکاح پہ نکاح کرتا۔
"نہیں رہا وہ تمہارا نامرد شوہر." وہ غرایا تھا اور پریشے کی چھٹی حس نے اسے محتاط کیا تھا۔
"کک۔۔۔ کیا مطلب؟؟؟" وہ آنکھیں پھاڑ کر اسے گھورنے لگی۔ "جو سنا تم نے." سپاٹ لہجے میں جواب آیا ۔
"یہ۔۔ یمان ۔۔۔ پھر بھی مجھے عدت ۔۔۔ پوری کرنی ۔۔۔ ہوگی۔۔۔ یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔" وہ رو پڑی تھی۔ اور یمان کا پارہ ہائی ہونے لگا تھا۔
"مجھے مت مجبور کرو کہ میں تمہیں نا چاہتے ہوئے بھی بنا نکاح کیے ہاتھ لگاؤں۔۔۔ سیدھی طرح اٹھ کر باہر آؤ نہیں تو میں لمحے نہیں لگاؤں گا تمہیں بانہوں میں اٹھا کر اندر لے جاتے ہوئے۔" یمان نے اس قدر سختی سے کہا تھا کہ پری لمحے بھر کو ساکت رہ گئی پر اگلے ہی لمحے وہ گاڑی سے اتر چکی تھی اور اب ٹسوے بہا رہی تھی۔
"چلو ۔۔۔" گاڑی لاک کر کے وہ اس کے سامنے آیا اور بولا۔ مگر وہ اب سڑک پر منجمد ہو چکی تھی۔
"مم۔۔ مجھے ۔۔۔ نہیں کرنی آپ سے شادی ۔۔۔ میں ایک درندے سے بچ کر دوسرے کے حوالے نہیں ہونا چاہتی ۔۔۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔" پریشے اب دوپٹے سے ناک رگڑ رگڑ کر لال کر رہی تھی۔ بال اڑ کر بکھر چکے تھے۔
"ڈائیلاگ بازی بعد کے لیے رکھ دو ۔۔۔ بیوی بن کے یہ سب کام آئے گا۔ فی الحال اندر چلو ۔۔۔ مسجد والے ویٹ کر رہے ہیں۔"
یمان نے پھر اسی سختی سے کہا۔
"کیوں کاٹ کھانے کو دوڑ رہے ہیں؟ اگر غصہ نکالنے کے لیے بیوی بنا رہی ہیں تو نہیں بننا میں نے." وہ بری طرح چٹخ کر بولی تھی یہ بندہ کچھ زیادہ ہی رعب جما رہا تھا۔
"ان ڈایریکٹلی کتا کہہ رہی ہو مجھے؟" یمان نے پہلی بار سخت آنکھوں سے اسے گھورا تھا۔ "یہ۔۔۔ کب کہا میں نے؟"
"کاٹ کھانے کو دوڑنے والا کون ہوتا ہے؟" یمان نے سوال کیا۔
"شش۔۔۔ شیر ۔۔۔ ہاں شیر ۔۔۔ آپ تو شیر ہیں ۔۔۔ میں یہ کہہ رہی تھی۔" وہ لمحوں کو بھی اسکی سخت آنکھیں خود پر برداشت نہیں کر پائی تھی اور لائن پر آئی تھی ۔
"تم اندر چلو گی یا اندر والوں کو باہر بلاؤں ؟" یمان نے اسکا جملہ اگنور کرتے ہوئے پوچھا۔
"آ رہی ہوں ۔۔۔ یمان میری سارے گناہوں کی سزا آپ کے حصے میں آئے گی۔" وہ آہستگی سے قدم آگے بڑھاتے ہوئے بولی۔
"تم سے بڑی بھی کوئی سزا ہے بھلا؟" یمان نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ اسے گھور کر آگے چلنے لگی۔
مسجد کے دروازے سے ذرا پیچھے یمان رک گیا۔۔ پریشے بھی رک گئی ۔ اور اگلے ہی پل وہ مسجد کی راہداری میں پریشے کے سامنے زمین پر گھٹنا ٹکائے بیٹھ چکا تھا۔ پینٹ کی جیب سے اس نے ایک سرخ مخملی ڈبیا نکالی تھی اور کھول کر آگے بڑھائی تھی۔
"پریشے! کیا تم پریشے یمان نوریز بنو گی ؟" وہ اب بھی آنکھیں جھکائے ہوئے تھا۔ پریشے نے ڈبیا کو نہیں دیکھا تھا نا اسے کوئی دلچسپی تھی۔
وہ حیران تھی شدید حیران ۔۔۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یمان نوریز اسکے قدموں میں بیٹھا ہوا ہے۔ کیا یمان نوریز بھی کسی کے قدموں میں بیٹھ سکتا ہے؟ کیا پریشے نے کبھی ایسا سوچا تھا۔ وہ آنکھوں میں آنسو لیے اسے دیکھنے لگی۔ ماحول فسوں خیز تھا۔ سرد ہوائوں کے بیچ دھڑکنوں کا مدہم سا شور ۔
"میری ٹانگیں دکھ رہی ہیں پریشے ۔۔۔ یس کرو جلدی ۔" یمان نے اسے مخاطب کیا۔
پریشے ڈبیا کی طرف مڑی اور پھر اسکے ہونٹ خود بخود مسکراہٹ میں ڈھل گئے۔ اس ہاتھ بڑھا کر بہت ہی آرام سے ڈبیا میں زرا سی اٹکی ہوئی ڈائمنڈ رنگ کو چپکے سے اٹھا کر مٹھی میں دبا لیا۔ اور چہرے پر ناراضگی سجا لی۔
"باکس میں رنگ نہیں ہے یمان!" اس نے بہت نروٹھے لہجے میں کہا اور یمان نے باکس کو اپنی جانب موڑا واقع ہی رنگ نہیں تھی۔
"ابھی یہیں تھی۔۔۔کہاں گئی؟" وہ ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ دو تین منٹ تلاش کرتا رہا پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ "ہم نئی لے لیں گے."
"کیا آپ تیسری بار میرے لیے ڈائمنڈ رنگ لیں گے؟" پریشے نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔
"تئیسویں بار بھی لے لوں گا۔۔۔۔ فی الحال آپکا اب پریشے یمان نوریز بننے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔۔۔ چلیے۔" وہ آگے بڑھا تھا پریشے بھی ساتھ بڑھ گئی تھی۔ "پری دوپٹہ سر پر رکھ لو." یمان کے کہنے پر اس نے دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھا تھا۔
کچھ ہی منٹوں کے بعد پریشے ، پریشے یمان نوریز بن چکی تھی۔ یمان نوریز خود کو آسمانوں پر اڑتا محسوس کر رہا تھا۔ سامنے بیٹھے کالر نے انہیں دعا دی تھی اور سروں پر زعفران کا تیل لگایا تھا۔ یہ کوئی ترک رسم تھی۔
پریشے خوش یا مطمئن نہیں ہو رہی تھی۔ ناجانے کیوں وہ مطمئن بھی تھی اور نہیں بھی۔ دل مطمئن دماغ غیر مطمئن یا دماغ مطمئن دل غیر مطمئن ۔
پریشے اٹھ کر باہر نکل آئی تھی۔ مسجد میں ایک خوبصورت لان بنا ہوا تھا۔ پھولوں سے سجا ایک خوبصورت سا منظر ۔ پریشے کی آنکھیں برس رہی تھی۔
"پریشے آر یو اوکے؟" یمان اسکے پیچھے آیا تھا۔ اس نے مڑ کر یمان کو دیکھا وہ ماسک اتار چکا تھا۔ ہلکی بئیرڈ والا چہرہ مسجد کی روشن لائٹس میں صاف ظاہر ہوا تھا۔ اسکے چہرے پر طمانیت تھی جو پریشے محسوس نہیں کر پا رہی تھی۔
"یمان ۔۔۔۔ میں سفیر کے نکاح۔۔۔" وہ بولی ہی تھی کہ یمان نے آگے بڑھ کر اسے بانہوں سے پکڑ لیا تھا۔ "کسی کا نکاح نہیں ہوا تھا تم سے، بھول جاؤ سب میری تھی اور میری ہوگئی ہو ۔۔ بس!" یمان اسکی آنکھوں میں جھانکا ۔
"یمان سب بہت غلط ہو رہا ہے۔۔۔ بہت غلط !۔" وہ چلائی تھی دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ کر ۔ یمان نے اسے دیکھا اور پھر سر جھٹک کر نرمی سے سینے میں بھینچ لیا۔
"وہ ساڑھے چار ماہ پہلے تمہیں طلاق دے چکا ہے پریشے ۔۔۔ اس نے یہ جانتے ہی کہ اسکی بیوی اسپکٹ کر رہی ہے تمہیں طلاق دے دی تھی اور یہ اسکی بیوی کی خواہش تھی۔۔۔ اسی لیے وہ تم سے دور رہنے لگا تھا اور تمہارے والے گھر میں بھی نہیں آتا تھا ۔ تم صرف ڈیڑھ ماہ اس کے نکاح میں رہی ہو ۔ اور اس ڈیڑھ ماہ کا حساب وہ دے چکا ہے ۔۔۔ پریشے پلیز سب کچھ بھلا دو ۔۔۔ مجھے میری پریشے واپس چاہیے." وہ اسکا سر سینے پر رکھے ہلکے ہلکے تھپک رہا تھا ۔ پریشے اسکی بات کے مکمل ہونے سے پہلے دور دور ہو رہی تھی پر بات مکمل ہوتے ہی اسکے گرد اپنے بازو لپیٹ چکی تھی۔ "ایک اور ظلم جو اسکی ذات پر ہوا اسے بے خبر رکھتے ہوئے."
"آج رو لو جتنا رونا ہے۔۔۔ آئندہ نہیں رونے دوں گا یاد رکھنا." یمان نے لب اسکے سر پر رکھ دئیے تھے۔
"ی۔۔ یمان ۔۔۔ میں ۔۔۔ بہت ۔۔۔ بری ۔۔ ہوں۔۔ آپ کے قابل ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ " وہ ہچکیوں کے درمیان بمشکل بولی ۔ یمان نے اسے خود سے علیحدہ کیا اور اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھاما جو آنسوؤں سے تر تھا۔
"جیسی بھی ہو میری ہو. اور مجھے جان سے زیادہ پیاری ہو." وہ انگلیوں کے پوروں سے اسکے آنسو صاف کرتا باری باری اسکی آنکھوں پر لب رکھ گیا تھا۔ پھر جھکا اور اسکے دونوں گالوں کو باری باری چوم لیا۔ پریشے چپ چاپ اسے دیکھ رہی تھی۔ اب کے جھکا تو ٹھوڑی کو چوم لیا۔ اور پھر سیدھے کھڑے ہو کر ماتھے پر لب رکھ دئیے۔ اگلے ہی پل زور سے سینے سے لگایا اور پریشے کے رگ و پے میں سکون سرایت کر گیا۔ اتنا سکون جتنا کبھی سوچا بھی نہیں تھا اور یمان ؟ اسے لگ رہا تھا وہ آج جی اٹھا ہے۔
"آپ پیار کرتے ہیں مجھ سے؟" سینے سے لگے لگے سوال کیا۔
"میری زندگی ہو تم." وہ جذبات سے چور لہجے میں فوراً بولا۔
"محبت کرتے تھے تو بتاتے کیوں نہیں تھے؟" پریشے نے اس کی وائٹ شرٹ سے اپنا بہتا ناگ رگڑا تھا۔
"اپنا ثواب جانے دیتا؟ پہلے ہی اتنا گناھگار بندہ ہوں." یمان اسکی حرکت پر مسکرایا۔
"میں سمجھی نہیں ۔" وہ بولی۔ "نکاح کے بعد اظہار محبت بھی ثواب ہے پری!" یمان نے اسکی سر پر چپت لگائی ۔
"مجھے لگا تھا آپ مجھے میری پہلی شادی کے بعد ایکسپٹ نہیں کریں گے۔ " وہ اب نظریں جھکائے اسکے سامنے کھڑی تھی۔
"تم تو ہو ہی صدا کے بیوقوف عورت." وہ ہنس پڑا تھا۔ آج تو دل بھی قہقہے لگا رہا تھا۔ پریشے مسکرا دی ۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا وہ۔
"چلیں پسندیدہ عورت ؟" اس نے ہاتھ پریشے کے سامنے بڑھایا۔
"ہممم۔۔۔" وہ مسکرا کر اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھ گئی۔
"اللّٰہ کے گھر میں کھڑے ہو کر محبت کا اظہار کیا ہے تم سے میں نے پریشے اور تمہیں اپنے نکاح میں لیا ہے ۔۔۔ میری ریکوسٹ ہے کہ مجھے کبھی مایوس مت کرنا اور اب ۔۔۔ مجھ سے دور مت جانا۔"اسے اسکی طرف کی سیٹ پر بٹھاتے ہوئے وہ گاڑی کے دروازے میں کھڑے ہو کر بولا تھا۔ پریشے کی آنکھیں تشکر کے مارے بہہ پڑی تھیں۔ اس نے بنا کچھ سوچے سمجھے آگے ہو کر یمان کی پیشانی چوم لی تھی۔ یمان اس کے لمس پر آنکھیں موند گیا۔ وہ اسکی تھی یہ احساس ہی سوہانِ روح تھا۔
گاڑی چلاتے ہوئے یمان نے پریشے کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ اب شرمانے کی باری پریشے کی تھی۔
"شرماؤ مت دیکھو مجھے ۔۔۔ جیسے پہلے دیکھ رہی تھی ۔ بے شرم لڑکی ۔۔۔ نا محرموں کو کوئی ایسے گھورتا ہے؟" یمان نے اسے مصنوعی غصہ کیا۔
"جب گھورنا ہوا تو گھور لوں گی ۔۔۔۔ فی الحال مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے ۔۔۔" وہ بات بدل گئی تھی۔
"پیٹ نہیں بھرا تمہارا ؟ اتنا سارا پیار کیا تو ہے ابھی میں نے!" یمان نے حیران ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے اسے دیکھا۔
"آپ کھڑوس اور نکچڑے ہیں یہ تو پتا تھا پر بے شرم بھی ہیں یہ نہیں پتا تھا۔ " وہ سرخ چہرہ ونڈ اسکرین کی جانب موڑ گئی تھی اور یمان نوریز کا قہقہہ بلند ہوا تھا۔
√√√
🆕
❤️
👍
❤
🍴
😘
😮
🙏
🥰
🥹
61