
SIMOMIN1970
May 24, 2025 at 01:59 PM
*دینی علوم سے محرومی کا سبب بن سکتی ہے، اُردو سے دوری!*
`مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ`
انقلاب: 23 مئی 2025ء
نئی نسل کو اُردو زبان سے نابلد رکھنے والے والدین اُس کا بہت نقصان کر رہے ہیں۔ یا تو اُردو سے تعلیم دلائی جائے یا گھر میں اُردو سکھائی جائے، کوئی تیسرا متبادل نہیں ہے۔ دینی علوم و معارف کا بہت بڑا حصہ اُردو زبان میں ہے، اس لیے بچوں کو اردو سکھانے پر بھی توجہ ضرور دیں۔ اُردو کے دو مشہور شعرا، جو مشرق اور مغرب دونوں کے بادہ خواروں میں تھے اور انگریزی زبان اور مغربی علوم پر ماہرانہ نظر رکھتے تھے، نے مسلمانوں کو للکارا تھا اور اس جدید نظامِ تعلیم کے فتنے سے ان کو باخبر کرنے کی کوشش کی تھی؛ وہ تھے اکبر اِلٰہ آبادی اورڈاکٹر علامہ اقبال۔ یہ کوئی مولوی اور دینی مدارس کے فیض یافتگان میں سے نہیں تھے۔ ان کی پوری تعلیم اسی درس گاہ میں ہوئی جو اس زمانے میں مغرب کی نمائندہ تھی؛ بلکہ اقبالؔ نے تو یورپ کے قلب میں پہنچ کر علم حاصل کیا اور اس نظامِ تعلیم کو سر کی آنکھوں سے دیکھا اور کہہ اُٹھے:
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
ایک موقع پر اقباؔل نے کیا تیکھی تنقید کی ہے :
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روشِ مغربی ہے مدِ نظر
وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گناہ
اقبالؔ زندہ ہوتے تو وہ اعتراف کرتے کہ پردہ اُٹھ چکا ہے اور جس الحاد کا انتظار تھا وہ اب نگاہوں کے سامنے پوری طرح بے لباس ہے۔
جن لوگوں نے اس نظامِ تعلیم پر تنقید کی ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ تحقیق و سائنس کے خلاف ہوں، سائنس تو کائنات میں چھپی ہوئی حقیقتوں سے پردہ اُٹھا تی ہے، اگر اس سے لوگوں کو نفع پہنچے تو کوئی سمجھ دار شخص کیسے اس کی مخالفت کر سکتا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ ہر قوم کا نظامِ تعلیم اس کے افکار اور سماجی ماحول سے ہم آہنگ ہونا چاہیے، وہ علم کے ساتھ ساتھ اسے اپنے عقیدے پر پختگی دے، اپنی تہذیب و ثقافت سے اس کی وابستگی کو بر قرار رکھے اور اپنے بارے میں احساسِ کمتری کا شکار نہ ہو۔ ہندوستان کو جو ناظمِ تعلیم اپنے مغربی آقاؤں سے ملا، وہ اس خوبی سے محروم ہے، وہ دیسی شہریوں کو اپنی زبان، اپنی تہذیب، اپنے ادب اور اپنی سماجی قدروں کے بارے میں احساسِ کمتری میں مبتلا کرتا ہے، اور اس کی اہم وجوہ میں ایک یہ ہے کہ ہم نے انگریزی کو بہ حیثیت ایک زبان پڑھنے کے بجائے اسی کو ’’ذریعۂ تعلیم‘‘ بنالیا، کہ ہمارے بچے ابتدا ہی سے انگریزی میں بولنا، انگریزی میں لکھنا اور انگریزی میں سوچنا شروع کردیں۔ انگریزی کی عظمت کچھ اس طرح ہمارے دل و دماغ پر مسلط ہوئی کہ ہم نے اس کو علم کی معراج سمجھ لیا، اور اس چیز نے ہمارے بچوں کو ذہنی اعتبار سے بھی اور صحتِ جسمانی کے اعتبار سے بھی، بہت نقصان پہنچا یا ہے۔ غور کیجیے کہ ابتداءل ہی سے انگریزی ذریعۂ تعلیم قرار پائی، ہندوستان میں قومی زبان کی حیثیت سے اسے ہندی بھی پڑھنی ہے اور چوں کہ یہ ایک ’’مختلف اللسانی‘‘ خطہ ہے اس لیے ہر علاقے کی اپنی اپنی زبانیں اس کے سوا ہیں، طالبِ علم اسے بھی پڑھے گا، اگر ہندی ریاستوں میں کوئی اور مقامی زبان نہیں تو اب قوم پر سنسکرت مسلط کی جارہی ہے، ان کے علاوہ مسلمانوں کو اپنے سماجی رابطے اور مذہبی ورثے سے وابستگی کے لیے اُردو بھی پڑھنی ہے، اس طرح ہمارے بچے ابتدا سے چار چار زبان سیکھتے ہیں۔
طبّی اعتبار سے نو عمر بچوں کے لیے یہ ایک بارِ گراں ہے، بالخصوص ان حالات میں کہ فی زمانہ چار سال کی عمر سے ہی بچوں کی تعلیم شروع کرادی جاتی ہے اور ابھی زبان کا تلفظ بھی درست نہیں ہوتا کہ کتابوں کا ضخیم بستہ پشت پر رکھ دیا جاتا ہے۔ دوسرے کسی بھی انسان کے اندر اپنی زبان کو بے تکلف سمجھنے اور ادا کرنے کی جو صلاحیت ہوتی ہے، اجنبی زبان کو اس طریقے پر پڑھنا پڑھانا دشوار ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اصل مضمون کو سمجھنے اور اس میں فکری ترقی حاصل کرنے کے بجائے اس کا ذہن چند انگریزی فقروں کے گرد گھومتا رہتا ہے اور اصل فن پر اس کی توجہ کم ہوتی ہے۔ اسی لیے دنیا کی جتنی ترقی یافتہ قومیں ہیں، انھوں نے علوم و فنون کو اپنی مادری زبان کا جامہ پہنایا ہے اور وہ اپنے بچوں کو اسی زبان میں تعلیم دیتے ہیں۔
فرانس اور جرمنی جغرافیائی اعتبار سے برطانیہ سے کتنے قریب ہیں؟ لیکن ان کے یہاں ذریعۂ تعلیم فرانسیسی اور جرمنی ہے، چین اور جاپان دنیا کے ترقی یافتہ اور معاشی اور صنعتی اعتبار سے طاقت ور ترین ممالک میں ہیں؛ لیکن ان کے یہاں ذریعۂ تعلیم چینی اور جاپانی ہے، روس میں جب کمیونسٹ انقلاب آیا اور اس نے ترقی کی نئی کروٹ لی، تو سب سے پہلے مغربی علوم کو روسی زبان میں منتقل کیا؛ لیکن ہمارے ذہنوں پر انگریزی کا ایسا سحر طاری رہا کہ ہم دیسی زبانوں میں عصری تحقیقات کو منتقل کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے اور بجائے اس کے کہ دیگر علوم کو اپنی زبان میں لاتے ہم نے اپنی ہی زبان سے منہ موڑ لیا۔
مسلمان جب فاتحانہ یورپ تک پہنچے اور یورپ میں ان کو حکمت و دانش کا ورثہ ملا تو نہایت بے تعصبی کے ساتھ اسے گلے لگایا اور سر آنکھوں پر رکھا؛ لیکن جلد سے جلد اس علمی سرمایے کو عربی زبان میں منتقل کر لیا، عباسی دور میں اس سلسلے میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے گئے وہ کسی صاحبِ علم کے لیے محتاجِ اظہار نہیں، ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے مادری زبان سے محرومی کا ایک اور بڑا نقصان یہ ہے کہ ہمارے دینی علوم و معارف کا بہت بڑا حصہ اُردو زبان میں ہے، انگریزی یا دوسری مقامی زبانوں میں اسلام پر جو کچھ کام ہوا ہے، وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں، ان حالات میں اگر ہماری نسلیں اردو سے نابلد اور ناواقف رہیٖں تو یہ براہِ راست دین و ایمان سے ان کا رشتہ کاٹ دینے جیسا ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اُردو ذریعۂ تعلیم کے معیاری مدارس قائم کریں، بچوں کو مادری زبان میں کم سے کم میٹرک تک تعلیم دیں اور انگریزی کو بھی ایک زبان کی حیثیت سے پڑھائیں؛ تاکہ وہ اصل فن میں آگے بڑھ سکیں اور جو صلاحیت محض سمجھنے اور سمجھانے میں صرف ہوتی ہے، وہی صلاحیت اصل مضمون میں استعمال ہو، یہ ان شاء اللہ ان کی تعلیمی ترقی کا ضامن ہوگا۔ اگر آپ ہر سال رینک لانے والے طلبہ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ وہ ہیں جنھوں نے مادری زبان میں تعلیم حاصل کی۔ مہاراشٹر میں بحمدللہ کئی سال سے مسلم طلبہ اُردو سے تعلیم پا کر امتیازی کامیابی حاصل کر رہے ہیں اور رینک لا رہے ہیں۔ انگلش میڈیم کا جو طوفان اس وقت آیا ہوا ہے اور غالباً مسلمان اس کے زیادہ شکار ہیں، وہ جہاں معاشی اعتبار سے متوسط خاندان کے لوگوں کی کمر توڑ رہا ہے، وہیں یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ بہت سے بچوں کے لیے یہ تعلیم ایسا بوجھ ثابت ہوتی ہے کہ وہ چند قدم چل کر تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنا تعلیمی سفر مکمل نہیں کر پاتے۔ اس کے علاوہ اُردو زبان سے ناواقفیت اُنھیں سماج سے بھی کاٹ دیتی ہے، وہ اپنے خاندان کے بزرگوں سے کسی اہم موضوع پر مؤثر گفتگو نہیں کر سکتے اور دین و مذہب سے جو ان کا رشتہ کمزور ہوتا ہے وہ نقصان تو سب سے سوا ہے، اس لیے اُردو ذریعۂ تعلیم کی درس گاہیں قائم کرنا، اپنے تعاونِ عمل سے اُنھیں مستحکم کرنا اور ان کو تقویت پہنچانا وقت کی اشد اور اہم ضرورت ہے اور اسی میں ہمارے مذہب اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت ہے۔
👍
2