خوبصورت معلومات 👇🖊️📚 WhatsApp Channel

خوبصورت معلومات 👇🖊️📚

63 subscribers

About خوبصورت معلومات 👇🖊️📚

یہاں پر اسلامی معلومات، واقعات، کہانیاں اور صحیح معلومات کے ساتھ وظائف ،احادیث مبارکہ ،شیئر کی جائیگی ۔ان شاءالله

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
5/25/2025, 1:48:46 PM
Post image
Image
خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
5/25/2025, 10:12:07 AM

جنگ کا نام قرآن سے لیا جائے تو ایسی فتح ہوتی ہے اگر مکمل قرآن کا نظام نافذ ہو جائے تو کتنی فتوحات ہونگی۔

خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
5/26/2025, 12:58:13 AM

*گھر کا ملازم چکن کڑاہی کھا رہا تھا کہ مالکن آ گئی اور غصے سے چلا کر بولی،* "شرفو! تمہیں کہا تھا کہ آج کے بعد گھر میں گوشت نہیں پکے گا بلکہ صرف دال پکے گی کیوں کہ صاحب بے روزگار ہو گئے ہیں۔" ملازم سکون سے بوٹی نوچتے ہوئے بولا، "بی بی جی، شور مت مچائیں۔ آپ کے لیے دال ہی بنی ہے۔ یہ چکن میرے لیے ہے۔ بےروزگار صاحب ہوئے ہیں، میں نہیں۔" تان سے تان پنجاب اسمبلی اراکین کی تنخواہ 76 ہزار سے بڑھا کر 4 لاکھ جبکہ منسٹرز کی تنخواہ 9 لاکھ کر دی گئی جبکہ عوام کے لیے بجلی مہنگی، گیس مہنگی، سلیب گردی، دھڑادھڑ ٹیکسز کہ ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، *کیونکہ ملکی حالات صرف عوام کے لیے خراب ہیں* 'عوام کے خادموں کے لیے نہیں*

خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
5/26/2025, 12:57:28 AM
Post image
Image
خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
5/25/2025, 9:53:25 AM

ایک ٹکڑا پیاز پاکستانی روپوں کے 1500 روپے کے برابر فروخت ہو رہا ہے، ایک کلو آٹا 5300 روپے کا ہوگیا مزید تفصیلات: https://urdu.geo.tv/latest/404894-

Post image
Image
خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
5/26/2025, 12:57:57 AM

مٹی کے برتن کا استعمال مٹی کے برتن میں کھانا آہستہ آہستہ پکتا ہے اس کے برعکس سِلور، سٹیل، اور پریشر کُکر میں کھانا جلدی جلدی تیار ہوتا ہے لیکن یہ کھانا پکتا نہیں بلکہ گلتا ھے، تو سب سے پہلے اپنے برتن بدلیں، جن لوگوں نے برتن بدل لیے، اُن کی زِندگی بدل گئی، 2- کُوکِنگ آئل کوکنگ آئل وہ استعمال کریں، جو کبھی نہ جَمے، دُنیا کا سب سے بہترین تیل جو جمتا نہیں، وہ زیتون کا تیل ہے، لیکن یہ مہنگا ھے، ہمارے جیسے غریب لوگوں کے لیے سرسوں کا تیل ہے، سرسوں کا تیل جمتا نہیں، یہ وہ واحد تیل ہے، جو ساری عُمر نہیں جمتا، اور اگر جم جائے تو سرسوں نہیں ہے، ہتھیلی پر سرسوں جمانے والی بات بھی اسی لیے کی جاتی ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے سرسوں کے تیل کی ایک خوبی یہ بھی ھے کہ اس کے اندر جس چیز کو بھی ڈال دیں گے، اس کو جمنے نہیں دیتا، اس کی زِندہ مِثال اچار ہے جو اچار سرسوں کے تیل کے اندر رہتا ہے اس کو جالا نہیں لگتا، اور اِن شاءالله جب یہ سرسوں کا تیل آپ کے جسم کے اندر جاۓ گا تو آپ کو کبھی بھی فالج، مِرگی یا دل کا دورہ نہیں ہوگا، أپ کے گُردے فیل نہیں ہونگے، پوری زندگی آپ بلڈ پریشر سے محفوظ رہیں گے، اِن شاء الله کیونکہ سرسوں کا تیل نالیوں کو صاف کرتا ہے، جب نالیاں صاف ہوجاٸیں گی تو دل کو زور نہیں لگانا پڑے گا، سرسوں کے تیل کے فاٸدے ہی فاٸدے ہیں، ہمارے دیہاتوں میں جب جانور بیمار ہوتے ہیں تو بزرگ کہتے ہیں کہ ان کو سرسوں کا تیل پلاٸیں، أج ہم سب کو بھی سرسوں کے تیل کی ضرورت ہے، 3- نمک (نمک بدلیں) نمک ہوتا کیا ھے؟ نمک اِنسان کا کِردار بناتا ھے، ہم کہتے ہیں بندہ بڑا نمک حلال ھے، یا پھر بندہ بڑا نمک حرام ھے نمک انسان کے کردار کی تعمیر کرتا ھے، ہمیں نمک وہ لینا چاہیٸے جو مٹی سے آیا ہو، اور وہ نمک أج بھی پوری دنیا میں بہترین پاکستانی کھیوڑا کا گُلابی نمک ھے، پِنک ہمالین نمک 25 ڈالر کا 90 گرام یعنی 4000 روپے کا نوے گرام اور چالیس ہزار روپے کا 900 گرام بِکتا ھے، اور ہمارے یہاں دس تا بِیس روپے کلو ھے، بدقسمتی دیکھیں ہم گھر میں آیوڈین مِلا نمک لاتے ہیں، جس نمک نے ہمارا کردار بنانا تھا، وہ ہم نے کھانا چھوڑ دیا۔ اس لٸے میری أپ سے گذارش ھے کہ ہمیشہ پتھر والا نمک استعمال کریں، 4- مِیٹھا ہم سب کے دماغ کو چلانے کے لٸے میٹھا چاہیٸے، اور میٹھا الله نے مٹی میں رکھا ہے ، یعنی گَنّا اور گُڑ، اور ہم نے گُڑ چھوڑ کر چِینی کھانا شروع کر رکھی ہے ، خدارا گُڑ استعمال کریں گڑ 5- پانی انسان کے لیے سب سے ضروری چیز پانی ہے ، جس کے بغیر انسان کا زندہ رہنا ممکن نہیں، پانی بھی ہمیں مٹی سے نِکلا ہُوا ہی پینا چاہیٸے، پوری دنیا میں زمزم کا پانی سب سے بہترین پانی ہے، اس کے بعد پھر پنچاب اور وادئ ھزارہ کا پانی ہے ، اہم بات کبھی بھی گندم کو چھان کر استعمال نہ کریں، گندم جس حالت میں آتی ہے، اُسے ویسے ہی استعمال کریں، یعنی سُوجی، میدہ اور چھان وغیرہ نکالے بغیر کیونکہ ہمارے آقا کریم حضرت محمد بغیر چھانے أٹا کھاتے تھے، تو پھر طے یہ ہوا کہ ہمیں یہ پانچ کام کرنے چاہٸیں، 1- مٹی کے برتن، 2- سرسوں کا تیل، 3- گُڑ، 4- پتھر والا نمک، اور 5- زمین کے اندر والا پانی، یاد رہے یہ پانی مٹی کے برتن میں رکھ کر مٹی کے گلاس یا پیالے میں پئیں، اس کے علاوہ گندم کا ان چھنا آٹا، اب سوال یہ ہے کہ ہم یہ ساری چیزیں کیوں لیں ؟ یہ ساری چیزیں ہم نے اس لیے لینی ہیں کہ اسی میں ہماری صحت ہے، ہم پیدا بھی مٹی سے ہوئے ہیں اور واپس دفن بھی اسی مٹی میں ہونا ہے۔۔۔!!!

خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
5/26/2025, 1:50:58 PM

بھینس کی قربانی نومبر 9, 2022admin Urdu Articles از: مفتی محمد عبیداللہ قاسمی بہرائچی استاذ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد عہد نبوی اورعہد صحابہ میں جزیرة العرب میں بھینس نہیں پائی جاتی تھی؛ اس لیے بھینس کی قربانی آپ … اور صحابہ سے نہ تو عملاً ثابت ہے اور نہ ہی آپ … نے صراحتاً بھینس کی قربانی کے بارے میں کوئی حکم صادر فرمایا ہے، اس کو بنیاد بنا کر غیر مقلدین حضرات یہ کہتے ہیں : چوں کہ ”جاموس“ (بھینس ) کی قربانی کا تذکرہ قرآن و حدیث میں نہیں ہے اورنہ ہی عملاً آپ … اور صحابہ سے ثابت ہے؛ اس لیے بھینس کی قربانی جائز نہیں؛جبکہ دوسری طرف بر صغیر پاک و ہند وغیرہ میں جس طرح مسلمان گائے، بکرا اور دنبہ وغیرہ کی قربانی کرتے ہیں، اسی طرح بھینس کی قربانی بھی بکثرت کرتے ہیں اور تمام علماء اہل السنة والجماعة بالاتفاق اسے جائز قرار دیتے ہیں اور بعض علماء غیر مقلدین بھی بھینس کی قربانی کے جواز کے قائل ہیں؛ کیوں کہ قرآن و حدیث میں قربانی کے باب میں جاموس (بھینس ) کا تذکرہ نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ قربانی جائز نہ ہو، ورنہ توزمانہٴ موجودہ کی بہت ساری اشیاء (موبائل، کمپیوٹر، جہاز اور ٹرین وغیرہ) جن کا ذکر قرآن واحادیث میں نہیں ہے، ان سب کا استعمال ناجائز ہوگا ؛ حالا نکہ ایسا نہیں ہے؛ اس لیے یہ دیکھا جائے گا علماء امت کا بھینس کی قربانی کے سلسلہ میں کیا موقف اور عمل رہا ہے ؟فقہاء اور محدثین نے بھینس کی قربانی کو کس بنیاد پر جائز قرار دیا ہے؟ وہ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟ اہل لغت کی کیا رائے ہے؟ اسی طرح بعض علماء غیرمقلد ین اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟۔ تو واضح رہے کہ تمام فقہاء، محدثین، اور اہل لغت حتی کہ بعض علماء غیر مقلدین نے بھی بھینس (جاموس)کو گائے (بقر)کی جنس سے مانا ہے؛ بلکہ اس پر اجماع ہے، یعنی بھینس گائے ہی کی ایک نوع اور ایک قسم ہے اور جب گائے کی قربانی جائز ہے، تو بھینس جو اسی کی ایک نوع ہے اس کی بھی قربانی جائز ہوگی۔ذیل میں بھینس کی حقیقت وماہیت ذکر کرنے کے بعد ہر ایک کی تفصیل نقل کی جارہی ہے۔ بھینس کی حقیقت وماہیت بھینس/ بھینسا : بر صغیر میں کثرت سے پایا جانے والا ایک مشہور چوپایہ ہے، جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے اور جو گائے سے تھوڑا بھاری بھرکم اور مضبوط ہوتا ہے۔اردو اور ہندی میں اس کے مادہ کو بھینس اور نر کو بھینسا کہا جاتا ہے۔(فیروز اللغات اردو جامع، ص: ۲۴۳، ط: فیروز سنز لمیٹڈ لاہور ) فارسی میں اسے ”گاؤ میش“ کہا جاتا ہے، جو دو لفظوں یعنی : ”گاؤ“ اور ”میش “سے مرکب ہے اور ”گاؤ “کے معنی گائے اور بیل کے ہیں؛ جب کہ میش کے معنی : بھیڑ، مینڈھا اور دنبہ وغیرہ کے ہیں۔ (گویا جو چوپایہ گائے اور بھیڑ کے مشابہ ہو،اسے بھینس کہتے ہیں )۔ (فیروز اللغات اردو جامع، ص: ۱۰۸۰-۱۳۳۰، ط: فیروز سنز لمیٹڈ لاہور ) اور اسی لفظ ِ” گاؤ میش “سے عربی زبان میں بھینس کا نام ” جاموس رکھا گیا، یعنی یہ اصلاًعربی زبان کا لفظ نہیں ہے؛ بلکہ اہل عرب نے اسے فارسی سے عربی میں معرب کر لیا ہے اور گاف کو جیم سے اور سین کو شین سے بدل دیا، پھر تسہیل کرتے ہوئے ” فاعول“ کے وزن پر” جاموس“ بنا دیا، جس کی جمع جوامیس آتی ہے۔ علامہ محمد بن محمد زبیدی رحمہ اللہ” تاج العروس“ میں لکھتے ہیں : الجاموس ․․․․ معروف، معرّبُ ”کاومیش“، وھي فارسیة، ج: الجوامیس، وقد تکلمت بہ العرب․ ( تاج العروس، ۱۵/۵۱۳، دارالہدایة) بعض اہل لغت فرماتے ہیں کہ : ” جاموس “اصلا عربی زبان ہی کا لفظ ہے اور یہ ” جمس “سے مشتق ہے جو اپنے معنی کے اعتبار سے جمود اور ٹھوس پن پر دلالت کرتا ہے، اس معنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے جب اہل عرب اس چوپائے سے متعارف ہوئے، تو انھوں نے اس کی ہیئت و جسامت اور مضبوطی کو دیکھتے ہوئے اسے جاموس کا نام دے دیا۔ علامہ احمد بن محمد فیومی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : جَمسَ الودک جموسا، من باب قعد جمد، والجاموس نوع من البقر، کأنّہ مشتق من ذلک؛ لأنّہ لیس فیہ لین البقر في استعمالہ في الحرث والزرع والدیاسة․ وفي التہذیب: الجاموس دخیل، والجمع: الجوامیس تسمیہ الفُرس ”کاومیش“․ (المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر، ۱/۱۰۸، ط: المکتبة العلمیة بیروت) ترجمہ : ”جمس الودک جموسا “ کے معنی ہیں چکنائی جم گئی، باب ” قعد “سے ” جمد “ کے معنی میں ہے اور جاموس گائے ہی کی ایک قسم ہے، گویا کہ یہ لفظ اسی سے مشتق ہے؛ کیونکہ ہل چلانے، کھیتی کرنے اور اناج روندنے کے کام میں بھینس کے اندر گائے والی نرمی نہیں ہوتی۔ گویا بھینس گائے ہی ایک قسم ہے جس میں گائے اور بھیڑ دونوں کی مشابہت ہوتی ہے۔ اجماع وأجمعوا علی أنّ حکم الجوامیس حکم البقر․ اس پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کے حکم میں ہے۔ (الإجماع لابن المنذر،۱/۴۵، رقم: ۹۱، ط: دارالمسلم للنشر والتوزیع) علامہ ابوالولید بن رشدالحفیدبدایة المجتہد میں لکھتے ہیں : أجمع العلماء علی جواز الضحایا من جمیع بہیمة الأنعام․ (بدایة المجتہد،۲/۱۹۲، ط: دارالحدیث القاہرة) ترجمہ: تمام چوپایوں کی قربانی کے جواز پرعلماء کا اجماع ہے۔(اور بھینس کا بہیمة الانعام میں سے ہونا اظہر من الشمس ہے، گویا بھینس کی قربانی کے جواز پر بھی علماء کا اجماع ہے ) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا بھینس کی قربانی میں سات حصے ہو سکتے ہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا : مجھے اس میں کسی کے اختلاف کا علم نہیں( یعنی اس پر احماع ہے)۔ قلت: الجوامیس تجزئ عن سبعة؟ قال: لا اعرف خلاف ہذا․ (مسائل الإمام أحمد وإسحاق بن راہویہ، ۸/۴۰۲۷، رقم: ۲۸۶۵، ط: عمادة البحث العلمي الجامعة الاسلامیة بالمدینة المنورة) حافظ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لا خلاف في ہذا نعلمہ، وقال ابن المنذر: أجمع کل من یحفظ عنہ من أھل العلم، ولأنّ الجوامیس من أنواع البقر․(المغنی لابن قدامة، ۲/۵۹۴) ہمیں اس مسئلہ (بھینس کی قربانی کے مسئلہ) میں اختلاف کا علم نہیں ہے اور ابن منذر نے فرمایا: اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے اور اس لیے بھی کہ بھینس گائے ہی کہ ایک قسم ہے۔ جب بھینس کی قربانی کے جواز پر اجماع ہے اور اجماع بھی دلیل شرعی ہے، تو گویا بھینس کی قربانی کے جواز پر بھی دلیل شرعی موجود ہے۔ محدثین امام مالک بن انس مدنی رحمہ اللہ ” مؤطا امام “مالک میں فرماتے ہیں: إنّما ہي بقر کلّہا․ (مؤطا امام مالک، باب ما جاء في زکاة البقر،۲/۳۶۶، ط: مؤسسة زاید بن سلطان آل نہیان، أبو ظبی الإمارات) ترجمہ: یہ بھینس گائے ہی ہے۔ اور ایک مقام پر فرماتے ہیں : الجاموس والبقر سواء․ (کتاب الأموال لابي عبید، ۲/۳۶، رقم: ۹۹۴، ط: دارالہدي النبوي مصر و جارالفضیلة السعودیة) گائے اور بھینس برابر ہیں۔ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” تحسب الجوامیس مع البقر“․ (مصنف عبد الرزاق، ۴/۲۴، رقم الحدیث: ۶۸۵۱، المکتبة الاسلامی بیروت) ترجمہ: بھینسوں کو گائے کے ساتھ شمار کیا جائے گا۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الجوامیس بمنزلة البقر․ (مصنف ابن ابی شیبہ، ۷/۶۵، رقم: ۱۰۸۴۸،ط: شرکة دارالقبلة، مؤسسة علوم القرآن) ترجمہ: بھینس گائے کے درجے میں ہے۔ فقہاء احناف فقہ حنفی کی تمام کتب میں بھینس کو گائے کی جنس اور نوع سے قرار دے کر قربانی کو جائز قرار دیا گیا ہے؛ چنانچہ صاحب بدائع لکھتے ہیں : أمّا جنسہ فہو أن یکون من الأجناس الثلاثة : الغنم، أوالإبل، أوالبقر، ویدخل في کلّ جنس نوعہ والذکر والأنثی منہ والخصي والفحل لانطلاق اسم الجنس علی ذلک، والمعز نوع من الغنم، والجاموس نوع من البقر؛ بدلیل أنّہ ینضم ّذلک إلی الغنم والبقر في باب الزکاة․ (بدائع الصنائع،کتاب التضحیة، فصل في محلّ إقامة الواجب، ۶/۲۹۸، دارالکتب العلمیة بیروت․ ردالمحتار، کتاب الأضحیة، ۹/۴۶۶، ط: زکریا دیوبند․ الفتاوی الہندیة، کتاب الأضحیة، الباب الخامس في بیان محلّ إقامة الواجب، ۵/۳۶۷، ط: زکریا دیوبند) مالکیہ ومن البقر ثلاثون، ومن البقر أربعون، وتضمّ أصناف النوع الواحد إلی بعضہا، فیضمّ الجاموس إلی البقر، والمعز إلی الغنم الضأن․ (فقہ العبادات علی المذہب المالکي، الباب الثاني، الفصل الأول، ۱/۲۷۳، مطبعة الإنشاء دمشق سوریا) قولہ: (في البقر): مرادہ ما یشمل الجاموس، فالأصل فیہا الذبح․ (حاشیة الصاوي علی الشرح الصغیر، باب في بیان حقیقة الذکاة، ۲/۱۵۳، دارالمعارف․ حاشیة الدسوقي علی الشرح الکبیرللشیخ الدردیر، باب الذکاة ۲/ ۱۰۷،ط: دارالفکر) شوافع النعم: ہي الإبل، والبقر ویشمل الجاموس، والغنم ویشمل المعز والضأن․ (فقہ العبادات علی المذہب الشافعي، الباب الثاني، زکاة الغنم، ۲/۸۴) ویتناول لحم البقر جاموسا، وبقروحش، فیحنث بأکل أحدہما من حلف لا یأکل لحم بقر․ قال صاحب حاشیة الجمل: (قولہ: یتناول لحم البقر جاموسا) لأنّ البقر جنس یتناول العراب والجوامیس بخلاف ما لو حلف لا یأکل جاموسا فإنّہ لا یتناول لحم البقر العراب فلا یحنث بہ؛ لأنّ الجاموس نوع من البقر․ (حاشیة الجمل علی شرح المنہج، ۵/۳۰۸، دارالفکر) حنابلہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا بھینس کی قربانی میں سات حصے ہو سکتے ہیں، تو انھوں نے فرمایا : مجھے اس میں کسی کے اختلاف کا علم نہیں۔ قلت: الجوامیس تجزئ عن سبعة، قال لا اعرف خلاف ہذا، قال الحسن تذبح عن سبعة، قال إسحاق کما قال․ (مسائل الإمام أحمد وإسحاق بن راہویہ، ۸/۴۰۲۷، رقم : ۲۸۶۵) علماء غیر مقلدین حتی کہ بعض بڑے غیر مقلدعلماء بھی بھینس کو گائے ہی کی ایک قسم مان کر قربانی کو جائز قرار دیتے ہیں۔ (۱) چنانچہ غیر مقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی اپنے فتوے میں لکھتے ہیں : اور سن بکری کا ایک سال یعنی ایک سال پورا اور دوسرا شروع، اور گائے اور بھینس کا دو سال یعنی دو سال پورے اور تیسرا شروع الخ۔آگے لکھتے ہیں: ویدخل في البقر الجاموس لانہ من جنسہ انتہی ما في الہدایة․ ترجمہ : گائے میں بھینس داخل ہے؛ اس لیے کہ بھینس گائے ہی کی ایک جنس ہے۔ (فتاوی نذیریہ، ۳/۲۵۷، ۲۵۸، اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور ) (۲) مفتی عبد الستار صاحب ایک سوال کے جوب میں لکھتے ہیں : سوال : کیا بھینس کی قربانی جائز ہے ؟ جواب : جائز ہے؛ کیوں کہ بھینس اور گائے کا ایک حکم ہے۔( فتاوی ستاریہ، ۳/ ۲) (۳) غیر مقلدین کے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری فتاوی ثنائیہ میں قرآن کریم کی آیت ” قل لا أجد فیما أوحي أليّ الخ“ کی تشریح کے تحت لکھتے ہیں: حجاز میں بھینس کا وجود ہی نہ تھا، پس اس کی قربانی نہ سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتی ہے نہ تعامل صحابہ سے، ہاں اگر اس کو جنس بقر (گائے کی جنس)سے مانا جائے، جیسا کہ حنفیہ کا قیاس ہے (کما فی الہدایة)یا عموم بہیمة الانعام پر نظر ڈالی جائے تو حکم جواز قربانی کے لیے یہ علت کافی ہے۔ (مستفاد: فتاو ی ثنائیہ، ۱/۸۰۹، ۸۱۰) (۴) فتاوی علماء اہل حدیث کے مؤلف مولانا ابوالحسنات علی محمد سعیدی سے بھینس کی قربانی کے جواز کے سلسلے میں سوال کیا گیا، تو انھوں نے جواب دیا : جائز ہے؛ چوں کہ گائے اور بھینس کا ایک ہی حکم ہے۔بعینہ یہی جواب مفتی عبد الستار صاحب نے بھی دیا ہے۔ (فتاوی علماء اہل حدیث، ۱۳/۹۴۶۔ فتاوی ستاریہ،۳/۲) (۵)مولانا عبد القادر حصار وی صاحب ساہیوال لکھتے ہیں : خلاصہ بحث یہ ہے کہ بکری، گائے کی قربانی مسنون ہے، تاہم بھینس بھینسا کی قربانی بھی جائز اور مشروع ہے اور ناجائز کہنے والے کا مسلک درست نہیں ہے۔ (فتاوی حصاریہ و مقالات علمیہ، ۵/۴۴۶) (۶ )حافظ زبیر علی زئی کا فتوی : اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری کی قربانی کتاب و سنت سے ثابت ہے اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ بھینس گائے کی ایک قسم ہے، اس پر ائمہ اسلام کا اجماع ہے۔ (فتاوی علمیہ، ۲/ ۱۸۲) (۷) محدث العصر حافظ گولندوی کا فتوی : بھینس بھی بقر میں شامل ہے، اس کی قربانی جائز ہے۔ ( ہفت روزہ الاعتصام لاہور، ج: ۲۰، شمارہ نمبر : ۹، ص: ۲۹) (۸) قاضی محمد عبد اللہ ایم۔اے۔ایل۔ ایل۔بی، خانپوری بھینس کی قربانی کے جواز پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے اخیر میں لکھتے ہیں : پس خلاصہ اس کا یہ ہے کہ : (۱) بھینس مسلمہ طور پر گائے کی ایک قسم ہے۔ (۲) بھینس گائے سے زیادہ قیمتی ہے اور جسامت بھی عام گائے سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور اس سے نفع بمقابلہ عام گائے کے زیادہ ہے؛ اس لیے اس میں ثواب بھی زیادہ ہے۔ (۳) کم از کم بھینس کی قربانی کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔ ( ہفت روزہ الاعتصام لاہور، ج: ۲۰، شمارہ نمبر : ۴۲- ۴۳، ص: ۹-۱۰) (۹)مولانا امین اللہ پشاوری ایک مفصل فتوے میں جواز کے دلائل پر بحث کراے ہوئے لکھتے ہیں: جب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ لغت میں لفظ ” البقر “ ” الجاموس “کو بھی شامل ہے، تو شرعا بھی اس کا یہی حکم ہوگا، لہذا اس کی قربانی کا ثبوت قرآن مجید اور سنت صحیحہ سے مل گیا، اب اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ یہ قیاسی مسئلہ ہے، یا وضاحت کے ساتھ ثابت نہیں، جیسا کہ اس طرح کی باتیں کچھ جاہل قسم کے لوگ سے سنی جا رہی ہیں، جو قرآن و سنت سے استدلال کے طریقوں سے نابلد، ان کی معرفت سے نا آشناء اور ان کے قواعد سے ناواقف ہیں۔عقل و بصیرت رکھنے والوں کے لیے یہ ایک دلیل کافی ہے، جاہل اور بیکار لوگوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ( فتاوی الدین الخالص، ۶/۴۹۳) (۱۰) جماعت غرباء اہل حدیث کے نائب مفتی مولانا عبد القہار صاحب کا فتوی : صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ شرعاً بھینس چوپایہ جانورں میں سے ہے اور اس کی قربانی درست ہے؛ کیوں کہ گائے کی جنس سے ہے، اس لیے بھینس کی قربانی جائز اور درست ہے۔اس دلیل کو اگر نہ مانا جائے، تو گائے کے ہم جنس بھینس کے دودھ اور اس کے گوشت کے حلال ہونے کی دلیل بھی مشکوک ہو جائے گی۔ ( بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ، ص: ۲۳۷، ط: اسلامک سینٹر ملتان ) غیر مقلد عالم مولوی نعیم الحق ملتانی نے اس موضوع پر ایک مفصل کتاب لکھی ہے ” بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ “اس میں اس طرح کے اور بہت سے علماء غیر مقلدین کے اقوال ذکر کیے ہیں، جنھوں نے بھینس کی قربانی کو جائز کہا ہے، تفصیل کے لیے اس کا مطالعہ فرمائیں۔ اہل لغت (۱) ”الجاموس: ضرب من کبار البقر“․ (المنجد، ص: ۱۰۱، مرتب لوئیس معلوف) ترجمہ: بھینس بڑی گایوں کی ایک قسم ہے۔ (۲) ”الجاموس: حیوان أھلي من جنس البقر․․․․ والجمع: جوامیس“․ (معجم الوسیط، ص: ۱۳۴، فیصل دیوبند) ترجمہ: بھینس گائے کی جنس سے ایک پالتو جانور ہے۔ (۳) ”جاموس: نوع من البقر ضخم الجثة، جمع: جوامیس“․ ( معجم الرائد کما في المعاني) ترجمہ: بھینس،بھاری جسم والی گائے کی ایک قسم ہے۔ (۴) لسان العرب، مغرب وغیرہ میں بھی بھینس کوگائے کس قسم مانا ہے۔ الجاموس نوع من البقر․ (لسان العرب،۶/ ۴۳، دار صادر بیروت․ المغرب في ترتیب المغرب، ۱/۸۹، ط: دارالکتاب العربي بیروت) ترجمہ : بھینس گائے کی ایک قسم ہے۔ (۵) لغت کی مشہور کتاب ” تاج العروس “ اور دیگر کتب لغت میں بھی بھینس کو گائے کی قسم مانا ہے۔ الجاموس ․․․․ معروف، معرّبُ ”کاومیش“، وھي فارسیة، ج: الجوامیس، وقد تکلمت بہ العرب․ ( تاج العروس، ۱۵/ ۵۱۳، ط: دارالہدایة) ترجمہ : ” جاموس ایک مشہور چوپایہ ہے، جو گاومیش کا معرب ہے اور گاومیش فارسی زبان کا لفظ ہے، جسے اہل عرب نے کچھ تبدیلی کے ساتھ” جاموس “بنا لیا ہے اور ”جاموس“ کی جمع ” جوامیس “ آتی ہے۔ جب تمام فقہاء ومحدثین، اہل لغت حتی کہ بعض بڑے غیر مقلدعلماء نے بھی بھینس کو گائے کی جنس سے مانا ہے، تو جس طرح گائے کی قربانی درست ہے، اسی طرح بھینس کی قربانی بھی درست ہوگی، اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں، گویا قرآن وحدیث میں گائے کے ضمن میں بھینس کا بھی تذکرہ ہے، اور اگر بھینس کو گائے کی ایک قسم نہیں مانیں گے، تو بھینس کا گوشت، دودھ، دہی اور گھی کا تذکرہ بھی قرآن و حدیث میں نہیں ہے، اس بنیاد پر انھیں بھی حرام اور ناجائز ہونا چاہیے؛ حالانکہ مذکورہ چیزوں کی حلت کے سبھی قائل ہیں اور کوئی اختلاف نہیں ہے،تو جس بنیاد پر مذکورہ چیزیں حلال اور جائز ہیں، اسی بنیاد پر بھینس کی قربانی بھی جائز ہو گی، ورنہ ” تخلف الحکم عن العلة“ لازم آئے گا جو کہ درست نہیں۔ اسی طرح تمام ائمہ و فقہاء نے بھینس کو گائے کی جنس سے مان کربھینس پر بھی زکات فرض کی ہے؛ جب کہ قرآن وحدیث سے بھینس کی زکات ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی صحابہ نے بھینس کی زکات وصول کی ہے۔( اور وجہ یہ تھی کہ عرب میں بھینس پائی نہیں جاتی تھی اور آج بھی نہیں ہے) اگر قربانی کو ناجائز کہیں گے، تو زکات کو بھی ناجائز کہنا پڑے گا؛ اس لیے جس طرح بھینس کی زکات صحیح ہے، اس کے گوشت، دودھ، دہی اور گھی کا استعمال درست ہے، اسی طرح قربانی بھی صحیح ہے۔ ————————————– دارالعلوم ‏، شمارہ : 7، جلد:106‏، ذی الحجہ 1443ھ مطابق جولائی 2022ء

خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
5/26/2025, 12:58:19 AM

* *موبائل نہ رکھنے والی ماں چاہیے* *پانچویں جماعت* *کے طلباء* *سے بات* *کرنے کے بعد، استاد* نے *انہیں ایک مضمون لکھنے کو کہا کہ انہیں کیسی "ماں پسند ہے"؟* *سب نے اپنی* *ماں کی کتنی تعریف کی، اور اس پر مضمون* لکھا۔ *لیکن ایک* *بچے نے مضمون* *کے* *عنوان میں لکھا* : *" آف لائن ماں* " * *مجھے "ماں" چاہیے، لیکن مجھے آف لائن چاہیے۔ مجھے اَن پڑھ ماں چاہیے، جو "موبائل" استعمال نہ کرتی ہو، لیکن جو میرے ساتھ کہیں بھی جانے کے لیے تیار اور پُرجوش ہو۔* *مجھے نہیں لگتا کہ "ماں" کو "جینز" اور "ٹی شرٹ" پہننی چاہیے... بلکہ ماں کا لباس حیاء والا ڈھیلا کرتا شلوار ہونا چاہیے۔ مجھے ایسی ماں چاہیے جو بچے کی طرح مجھے گود میں سر رکھ کر سلائے۔* *مجھے "ماں" چاہیے، لیکن "آف لائن"۔* *اس کے پاس "میرے اور میرے پاپا کے لیے" موبائل" سے زیادہ وقت ہونا چاہیے۔* *آف لائن "ماں" ہوگی تو پاپا سے جھگڑا نہیں ہوگا۔ جب میں شام کو سونے جاؤں گا، تو وہ مجھے ویڈیو گیم کھیلنے کے بجائے ایک کہانی سنائے گی اور سلائے گی۔* *ماں، آن لائن پیزا آرڈر نہ کرو۔ گھر میں کچھ بھی بنا لو؛ پاپا اور میں مزے سے کھا لیں گے۔ مجھے بس آف لائن "ماں" چاہیے۔* *اتنا پڑھنے کے بعد پوری کلاس میں مانیٹر کے رونے کی آواز سنائی دی۔ ہر طالب علم اور کلاس کے استاد کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔* *ماں، جدید بنو لیکن اپنے بچے کے بچپن کا خیال رکھو۔ موبائل کی وجہ سے بچوں سے دور نہ جاؤ۔ یہ بچپن کبھی واپس نہیں آئے گا۔* یہ تحریر ان نام نہاد جدید *"ماؤں"* کے نام ہے جو اپنے بچوں کا بچپن چھین رہی ہیں! *یہ کہانی نہیں، ایک حقیقت ہے*..

👍 1
خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
5/25/2025, 10:08:17 AM

وہ قصہ جو آپ کی آنکھوں کو نم کردے گا 😰😰 ابو العاص نبی کریم ﷺ کے پاس بعثت سے پہلے گئے اور کہا: "میں آپ کی بڑی بیٹی زینب سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔" ( ادب ) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "میں ایسا نہیں کروں گا جب تک اس سے اجازت نہ لے لوں۔" ( شرع ) نبی کریم ﷺ زینب کے پاس گئے اور فرمایا: "تمہارے خالہ زاد بھائی تم سے نکاح کا کہتے ہیں، کیا تم اسے اپنے لیے پسند کرتی ہو؟" زینب کا چہرہ سرخ ہو گیا اور وہ مسکرا دی۔ ( حیا ) زینب نے ابو العاص بن ربیع سے شادی کی، جس سے ایک محبت بھری کہانی کا آغاز ہوا، اور انہوں نے علی اور امامہ کو جنم دیا۔ ( خوشی ) پھر ایک بڑی دشواری پیدا ہوئی ، جب نبی کریم ﷺ کو نبوت ملی، اور ابو العاص سفر پر تھے۔ جب وہ واپس آئے تو معلوم ہوا کہ ان کی بیوی مسلمان ہو چکی ہیں۔ ( عقیدہ ) زینب نے انہیں اپنے اسلام کی خوش خبری سنائی، تو ابو العاص ان سے دور ہٹ گئے۔ ( احترام ) زینب حیران ہوئیں اور ان کے پیچھے گئیں۔ انہوں نے کہا: "میرے والد نبی بن گئے ہیں، اور میں مسلمان ہو گئی ہوں۔" ابو العاص نے کہا: "کیا آپ نے مجھے پہلے بتایا یا مجھ سے اجازت لی ؟" زینب نے جواب دیا: "میں اپنے والد کو جھوٹا نہیں کہہ سکتی، وہ صادق اور امین ہیں۔ اور میں اکیلی نہیں ہوں؛ میری ماں، میرے بھائی، میرے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب، تمہارے چچا زاد بھائی عثمان بن عفان، اور تمہارے دوست ابو بکر صدیق بھی مسلمان ہو چکے ہیں۔" ابو العاص نے کہا: "میں نہیں چاہتا کہ لوگ کہیں کہ اس نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا اور اپنے آباؤ اجداد سے بے وفائی کی صرف اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیے۔ اور تمہارے والد پر الزام لگانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا تم میری بات سمجھ سکتی ہو؟" ( تعمیری مکالمہ ) زینب نے کہا: "اگر میں نہ سمجھوں گی، تو کون سمجھے گا؟ لیکن میں تمہاری بیوی ہوں، اور تمہیں حق پر آنے میں مدد دوں گی جب تک تم اس کے لیے تیار نہ ہو جاؤ۔" ( سمجھداری اور برداشت ) زینب نے اپنے وعدے کو بیس سال نبھایا۔ ( اللہ کے لیے صبر ) ابو العاص اپنی کفر کی حالت پر قائم رہے، پھر ہجرت کا وقت آیا۔ زینب نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں اور پوچھا: "کیا آپ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دیتے ہیں؟" ( محبت ) نبی ﷺ نے اجازت دے دی۔ ( رحمت ) زینب مکہ میں رہیں، یہاں تک کہ غزوہ بدر کا واقعہ پیش آیا۔ ابو العاص قریش کے لشکر کے ساتھ جنگ کے لیے نکلے، اور زینب دعا کرتی رہیں: "یا اللہ! میں ڈرتی ہوں کہ ایسا دن نہ آئے جس میں میرے بچے یتیم ہو جائیں یا میں اپنے والد کو کھو دوں۔" ( حیرت اور دعا ) ابو العاص غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور قید ہو گئے۔ جب زینب کو پتا چلا تو انہوں نے پوچھا: "میرے والد نے کیا کیا؟" انہیں بتایا گیا: "مسلمان جیت گئے۔" انہوں نے شکرانے کے طور پر سجدہ کیا۔ پھر انہوں نے پوچھا: "میرے شوہر کا کیا ہوا؟" جواب ملا: "انہیں قیدی بنا لیا گیا۔" زینب نے کہا: "میں اپنے شوہر کی رہائی کے لیے فدیہ بھیجوں گی۔" ( عقل مندی ) زینب کے پاس قیمتی چیز کچھ نہ تھی، تو انہوں نے اپنی ماں خدیجہ رضی اللہ عنہا کا وہ ہار نکالا جو وہ ہمیشہ پہنتی تھیں، اور اسے ابو العاص کے بھائی کے ساتھ نبی ﷺ کے پاس بھیج دیا۔ نبی کریم ﷺ نے فدیہ وصول کرتے وقت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ہار دیکھا تو رو پڑے اور پوچھا: "یہ ہار کس کا فدیہ ہے؟" جواب دیا گیا: "یہ ابو العاص بن ربیع کا ہے۔" ( وفا ) نبی ﷺ نے کہا: "یہ شخص دامادی کے رشتے میں کبھی برا نہیں نکلا۔ کیا تم اسے آزاد کر دو گے بلافدیہ ؟ اور زینب کو ان کا ہار واپس کر دو۔" ( انصاف اور تواضع ) صحابہ نے کہا: "ہاں، یا رسول اللہ۔" ( صحابہ کا ادب ) نبی ﷺ نے ابو العاص کو ہار دیا اور فرمایا: "اپنی بیوی کو کہنا، خدیجہ کے ہار کی حفاظت کرے۔" ( اعتماد ان کے اخلاق پر باوجود کے وہ حالت کفر میں ہیں ) پھر نبی ﷺ نے ابو العاص سے کہا: "کیا تم زینب کو میرے پاس واپس بھیج سکتے ہو؟" ابو العاص نے کہا: "ہاں۔" ( مردانگی ) زینب ابو العاص کو مکہ کے دروازے پر خوش آمدید کرنے آئیں، جہاں انہوں نے کہا: "میں جا رہا ہوں، لیکن تمہیں اپنے والد کے پاس جانا ہوگا۔" ( وعدہ نبھانا ) زینب نے کہا کیا آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں گے کہا نہیں سو وہ خاموشی سے بیٹے اور بیٹی کو لے کر مدینۃ منورہ آگئیں ( فرمانبرداری ) چھ سال تک زینب کے رشتے آتے رہے لیکن انہوں نے ہر رشتے کے لیے انکار کیا، ابو العاص کے لوٹنے کی امید پر۔ ( وفاداری ) چھ سال بعد، ابو العاص قافلے کے ساتھ شام جا رہے تھے۔ صحابہ نے قافلہ قبضے میں لے لیا، لیکن ابو العاص نکلنے میں کامیاب ہوگئے ، اور ابو العاص رات کے وقت زینب کے دروازے پر پہنچے۔ دروازے بجایا: ( اعتماد ) زینب نے پوچھا: "کیا تم مسلمان ہو گئے؟" ( امید ) انہوں نے کہا: "نہیں، میں بھاگ کر آیا ہوں۔" زینب نے کہا: "کیا تم اسلام قبول کر لو گے؟" ( اصرار اور وعدہ ) ابو العاص نے جواب دیا: "نہیں۔" زینب نے کہا: "فکر نہ کرو، خالہ زاد بھائی کے بیٹے، اور علی و امامہ کے والد، خوش آمدید۔" ( فضل اور عدل ) فجر کی نماز کے بعد، نبی کریم ﷺ نے سنا کہ مسجد کے آخر سے زینب کی آواز آ رہی ہے: "میں نے ابو العاص بن ربیع کو پناہ دی ہے۔" ( شجاعت ) نبی کریم ﷺ نے صحابہ سے فرمایا: "کیا تم نے وہ سنا جو میں نے سنا؟" صحابہ نے کہا: "جی، یا رسول اللہ۔" زینب نے کہا: "یا رسول اللہ، اگر ابو العاص سے دور کارشتہ شمار کروں تو وہ خالہ زاد ہیں، اور اگر قریبی رشتہ ہو تو میرے بچوں کے والد ہیں۔ میں نے انہیں پناہ دی ہے۔" نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "یہ شخص سسرالی رشتے میں برا نہیں نکلا، وعدہ کرتا تھا تو پورا کرتا تھا، اور بات کرتا تھا تو سچ کہتا تھا۔ اگر تم اس کے مال کو واپس کر دو اور اسے چھوڑ دو تو یہ مجھے پسند ہے، لیکن فیصلہ تمہارا ہے، اور تمہارے حق میں ہے۔" ( مشورہ ) صحابہ نے کہا: "ہم اس کا مال واپس کریں گے، یا رسول اللہ۔" ( صحابہ کا ادب ) نبی کریم ﷺ نے زینب سے کہا: "اپنے خالہ زاد بھائی کی مہمان نوازی کرنا، لیکن یاد رکھو، ان کی قربت تمہارے لیے حلال نہیں۔" ( رحمت اور شریعت ) زینب نے کہا: "جی، یا رسول اللہ۔" ( اطاعت ) زینب نے ابو العاص کو خوش آمدید کہا اور کہا: "کیا تمہارے لئے ہم سے جدا رہنا آسان ہے؟ کیا تم اسلام قبول کر کے ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتے؟" ( محبت اور امید ) ابو العاص نے جواب دیا: "نہیں۔" انہوں نے اپنا مال لیا اور مکہ واپس چلے گئے۔ مکہ پہنچ کر، ابو العاص نے لوگوں سے کہا: "یہ لو تمہارا مال، کیا کسی کا کچھ باقی رہ گیا ہے؟" ( امانت داری ) لوگوں نے کہا: "نہیں، تم نے بہترین وفا کی ہے۔ تمہیں اسکا بہترین بدلہ ملے " ( فطرت ) پھر ابو العاص نے کہا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔" ( ہدایت اور نعمت ) ابو العاص فوراً مدینہ روانہ ہوئے اور فجر کے وقت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: "یا رسول اللہ، آپ نے مجھے کل پناہ دی تھی، آج میں ایمان لے کر آیا ہوں۔" ( خوبصورتی سے ہدایت دینا ) پھر ابو العاص نے عرض کیا : یارسول اللہ کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں زینب کے پاس جاوں؟ ( محبت اور ازدواجی تعلقات ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی العاص کو ساتھ لیا اور زینب کا دروازے کھٹکھٹایا اور زینب باہر آئیں تو ان سے کہا تمہارے خالہ زاد بھائی تمہاری طرف لوٹنا چاہتے ہیں کیا تم انہیں قبول کرتی ہو ( والد اور کفیل ) زینب کا چہرہ سرخ ہوگیا اور وہ مسکرا دیں ( رضامندی ) اس واقعہ کے سال بعد زینب کا انتقال ہوگیا ، ابوالعاص بہت شدت سے روئے یہاں تک کہ لوگوں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے آنسو صاف کررہے ہیں اور تسلی دے رہے ہیں ابو العاص نے کہا یا رسول اللہ زینب کے بعد میرے لئے اس دنیا میں کوئ رغبت نہیں (رفیقہ حیات کی محبت ) اس حادثہ کے سال بعد ابو العاص بھی انتقال کرگئے ( پاکیزہ روحوں کا ملن ) اگر آپ یہ قصہ مکمل کر چکے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل و اصحاب پر درود و سلام بھیجیں جزاکم اللہ خیرا کثیرا

خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
خوبصورت معلومات 👇🖊️📚
5/25/2025, 9:52:37 AM

اسرائیل نے امدادی ٹرکوں کو خطرناک راستوں پر دھکیل کر لوٹ مار کی راہ ہموار کی، غزہ 84ویں روز بھی فاقہ کشی کا شکار ہے: غزہ میڈیا آفس غزہ (قدس نیوز نیٹ ورک) — غزہ میں سرکاری میڈیا آفس نے خبردار کیا ہے کہ صیہونی قابض افواج امدادی قافلوں کو ایسے خطرناک راستوں پر مجبوراً گزار رہی ہیں جہاں اسرائیل کے حمایت یافتہ مسلح گروہ لوٹ مار کرتے ہیں۔ یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب غزہ مکمل ناکہ بندی کے 84ویں روز میں داخل ہو چکا ہے۔ صیہونی ریاست نے تمام سرحدی گزرگاہیں بند کر رکھی ہیں اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ترسیل کو روکے رکھا ہے۔ ایندھن کی فراہمی بند ہونے کے باعث اسپتال، تندور اور دیگر اہم سروسز مفلوج ہو چکی ہیں۔ بین الاقوامی اپیلوں کے باوجود اسرائیل صرف معمولی مقدار میں امداد غزہ میں داخل ہونے دے رہا ہے۔ حکام کے مطابق، تین ماہ میں کل ملا کر صرف 100 سے بھی کم امدادی ٹرک داخل ہو سکے ہیں، جو ضرورت کا صرف 1 فیصد ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے جمعہ کے روز کہا کہ اسرائیل نے غزہ میں صرف “چائے کے چمچ” کے برابر امداد جانے دی ہے، جو بحران کو کم کرنے کے لیے قطعی ناکافی ہے۔ میڈیا آفس کا کہنا ہے: "یہ محض قحط نہیں، بلکہ منصوبہ بند قحط ہے۔" رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بیشتر تندور ایندھن اور آٹے کی کمی کے باعث بند پڑے ہیں۔ جو چند ٹرک غزہ میں داخل ہو بھی رہے ہیں، ان میں صرف معمولی مقدار میں دوا اور آٹا لایا جا رہا ہے، جو 23 لاکھ افراد کی آبادی کے لیے ناکافی ہے۔ غزہ میڈیا آفس کے مطابق اسرائیل امدادی ترسیل پر سخت کنٹرول رکھے ہوئے ہے، اور جو امدادی ٹرک داخل ہوتے ہیں، انہیں ڈرون کی نگرانی والے ایسے راستوں پر بھیجا جاتا ہے جہاں مسلح غنڈے ان پر حملہ کر کے سامان لوٹ لیتے ہیں۔ کل عالمی خوراک پروگرام (WFP) نے تصدیق کی کہ جنوبی غزہ میں اس کے 15 امدادی ٹرک لوٹ لیے گئے، یہ اس وقت ہوا جب صیہونی افواج نے امداد کی حفاظت پر مامور چھ فلسطینی پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا۔ میڈیا آفس کے مطابق اسرائیل نہ صرف امدادی کارکنوں کو نشانہ بنا رہا ہے بلکہ عالمی امدادی اداروں کو غزہ کے شہریوں کو براہ راست کھانا تقسیم کرنے سے بھی روک رہا ہے، جس سے خواتین، بچے اور بیمار سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ انسانی بحران کی تازہ صورتحال درج ذیل ہے: 58 افراد بھوک سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ 242 مزید افراد خوراک و ادویات کی کمی کے باعث جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں اکثریت بزرگوں کی ہے۔ 26 گردے کے مریض مناسب طبی خوراک نہ ملنے پر انتقال کر چکے ہیں۔ 300 سے زائد حاملہ خواتین غذائی قلت کے باعث حمل ضائع کر چکی ہیں۔ میڈیا آفس نے کہا: "یہ قحط منظم ہے، ناکہ بندی مکمل ہے، اور دنیا کی خاموشی مہلک ثابت ہو رہی ہے۔" بیان میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا: "نسل کشی روکو، راستے کھولو، امداد کو آنے دو!"

Post image
Image
Link copied to clipboard!