
Hafiz Usama
25 subscribers
About Hafiz Usama
تفسیر ، حدیث ، سیرت اور بہت سی اہم تعلیمات
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

*”مومن کو اپنے گناہوں پر جو درد و تکلیف ہوتی ہے وہ ایک پرندے کی تکلیف سے کئی زیادہ ہوتی ہے، کہ جب اسے کہیں پٹکا جائے یا پھینکا جائے“* عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہ [الزهد والرقائق لإبن المبارك(٦٣)]

”اگر تمہارا کپڑا کسی کِیل میں اَڑ جائے تو تم پیچھے کو چلتے ہو تاکہ کپڑے کو چھڑا سکو۔ تمہارا دل بھی گناہوں پر اصرار کے کِیل میں اَڑ گیا ہے، دو اُلٹے قدم ندامت کے چلو تو خلاصی ہو جائے!“ (المدهش لابن الجوزي : ٢٧٩/١)

انسانی تنگ ظرفی قرآن حکیم کی خصوصیت ہے کہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں انسانی نفسیات تک پر بحث کی گئی ہے اور بتایا ہے کہ اس کی لغزش اور گمراہی کے منابع کون کون ہیں ۔ فرمایا کہ انسان کا دل اتنا چھوٹا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اس کو مال و دولت سے نوازتے ہیں تو پھر یہ آپے میں نہیں سماتا ۔ تبخیر اور غرور می ڈوب جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھ پر میرے رب کا بڑا فضل ہے اور جب مال و دولت کو چھین لیتا ہے اور تنگی اور عسرت سے بسر ہونے لگتی ہے تو بےقرار ہوکر کہہ اٹھتا ہے کہ خدا نے میری بڑی توہین کی ہے ۔ گویا مال و دولت کے وقت اس نے اس کا صحیح استعمال کیا تھا ۔ اور اب چھن جانے پر اس درجہ متاسف ہے ۔ حالانکہ جب اس کے پاس سرمایہ تھا ۔ اس وقت یہ نفس کی ضروریات کو پورا کرتا تھا ۔ مگر مسکینوں اور حاجت مندوں کو کھانا کھلانے کی توفیق اسے کبھی مرحمت نہیں ہوئی ۔ بلکہ اس حرص وآز کی کیفیت یہ تھی کہ جو پاتا اور جہاں پاتا کھاجاتا ۔ اور اس میں جائز وناجائز کی کوئی تمیز روا نہ رکھتا اور دولت کا تو اسے عشق تھا ۔ حالانکہ یہ چاہیے تھا کہ دولت کے وقت حد سے زیادہ خوش نہ ہوتا اور اس کو اللہ کی امانت سمجھ کر مستحقین میں صرف کرتا اور جب اللہ تعالیٰ دولت سے محروم کردیتے ۔ اس وقت صبر اور شکر سے کام لیتا اور قناعت اختیار کرتا ۔ واضح رہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے مال و دولت کی محبت اگر اندازے کے مطابق ہو تو ممنوع نہیں ۔ بلکہ بعض حالات میں ضروری ہے ۔ اگر اندازے سے زیادہ ہو اور بےجا غرور اور خواہشات نفس کی تکمیل کے جذبات پیدا کردے تو ناجائز اور ممنوع ہے ۔ فی نفسہٖ یہ چیز نہ بری ہے اور نہ اچھی ۔ اس کا اچھا استعمال محمود ہے اور برا استعمال مذموم ۔ فرمایا کہ منکرین یہاں سیم وزر کے انباروں پر نازوکبر کا اظہار کررہے ہیں ۔ مگر انھیں معلوم نہیں کہ قیامت کے دن جب فرشتے اس کے حضور میں صف بستہ کھڑے ہوں گے ۔ اس وقت ان کو احساس ہوگا کہ اے کاش دنیا میں ہم نے یہاں کے لیے کچھ بھیجا ہوتا *۔