
🦋࿇━✥◈ اردو تحاریر ◈✥━࿇🦋
1.1K subscribers
About 🦋࿇━✥◈ اردو تحاریر ◈✥━࿇🦋
🅦🅔🅛🅒🅞🅜🅔 🅣🅞 🅒🅗🅐🅝🅝🅔🅛 چنیدہ تحاریر ۔۔۔۔ پڑھنے والوں کے لیے https://whatsapp.com/channel/0029VaCw6Du5kg73UVozKm3A
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

اوور تھنکنگ سے کیسے بچیں ۔۔۔؟👑


عورتیں چھوڑ کر چلی جاتی ہیں جب انہیں کسی مرد سے فائدہ حاصل نہ ہورہا ہو اس چیز کو سمجھو کیونکہ لا علم شخص یہ نہیں سمجھتا اگر آپ اپنی جاب نوکری کاروبار کھو دیتے ہیں تو وہ آپ کو چھوڑ کر جانے میں ذرا دیر نہیں لگائے گی اگر آپ اپنا پیسہ اس کو امپریس کرنے میں ضائع کرتے ہیں اور اس دوران معاشی طور پر تباہ ہوجاتے ہیں تو وہ آپ کو چھوڑ دے گی اگر آپ اس کو مادی چیزیں دینے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں تو وہ آپ کو چھوڑ دے گی اگر وہ اپنے نزدیک کوئی ایسا مرد پاتی ہے جو آپ سے بہتر ہو، تو وہ آپ کو چھوڑ کر چلی جائے گی عورت اثاثوں کے مالک سے محبت کرتی ہے، جبکہ مرد صرف محبت برائے محبت کرتا ہے عورت کے وجود میں اس کی شخصیت میں یہ چیز پائی ہی نہیں جاتی کہ وہ محبت کو اپنے غرض اور مفادات پر ترجیح دے . اس کی محبت اس مرکز کے گرد گھومتی ہے کہ اس کو مرد سے کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ نہ کہ وہ مرد کو کیا دے سکتی ہے! اس لیے میں آپ کو تنبیہ کرتا ہوں…. اگر عورت کا معاملہ ہو تو بے رحم بن جاؤ؛ یہ نہیں جانتی کہ ایک عام آدمی کیسا ہوتا ہے، یہ ذرہ رحم نہیں کرتی ایک عام آدمی کو درشتگی سے جج کرنے میں اور اسے کوئی بھی سزا دینے میں. اہک عورت سے محبت کے دوران اپنا فوکس مت کھو دو، وہ تمہیں پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں دے گی کسی عورت کو امپریس کرنے یا اس کو سہارا دینے میں خود مت ٹوٹ کے بکھر جاؤ، تم پچھتاؤ گے اور وہ مالی استحکام کے لئے تمہاری داستان بطور مثال اپنے بھائی کو اور اپنے نئے چاہنے والوں کو سنائے گی اپنے مقاصد پلان اس سے بچا کر رکھو، اپنی دولت اس سے بچا کر رکھو، اور اپنی جائداد اس سے بچا کر رکھو کیونکہ یہ چور ان سب کو چرانے آئے گا. ہوشیار بنو اور اس نصیحت کو پلے سے باندھ لو، مستقبل میں یہ تمہارے کام آئے گی. تحریر: Musa Pasha


رشتے کی راکھ سے اٹھتی صدائیں, ایک دردناک شادی کی مکمل کہانی! - بلال شوکت آزاد بند آنکھوں میں جب ماضی کی سکرین چلتی ہے تو کچھ مناظر آنکھوں کے پپوٹوں پر کانٹے بن کر چبھتے ہیں۔ کچھ صدائیں دل میں زلزلہ پیدا کرتی ہیں، اور کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں سن کر سماج کی منافقانہ دیواریں لرزنے لگتی ہیں۔ یہ کہانی ایک ایسے نوجوان کی ہے جو باپ کے ہاتھوں ٹوٹا، سماج کے ہاتھوں مسلا گیا، محبت کے لیے ترسا، عزت کے لیے لڑا، اور جب شادی کی دہلیز پر قدم رکھا تو امید تھی کہ اب زندگی پھولوں کا بستر ہوگی... لیکن وہ دہلیز جہنم کا دروازہ ثابت ہوئی۔ یہ کہانی ہے ایک ایسے لڑکے کی جو چھ بھائیوں اور چار بہنوں میں منجھلا تھا۔ وہ بچپن سے باپ کے پیار اور لاڈ سے محروم رہا۔ بلکہ یوں کہیے کہ اس کی زندگی کی پہلی درسگاہ مار، گالی، اور مسلسل نفسیاتی جبر سے شروع ہوئی۔ والد کی جانب سے بیجا تشدد، بے بنیاد الزامات اور ہر وقت کی مارپیٹ نے اس کے اندر ایک مسلسل خوف اور بے یقینی کو جنم دیا۔ یہ بچہ غیر معمولی ذہانت کا مالک تھا۔ دینی و دنیاوی دونوں علوم میں کمال درجے کی مہارت حاصل کی۔ لیکن یہ ذہانت اس کے دل کے زخموں پر مرہم نہ رکھ سکی۔ دورانِ تعلیم وہ بڑی عمر کے لڑکوں سے اپنائیت تلاش کرتا، اُن میں ایک بڑا بھائی، ایک دوست یا شاید ایک سایہ ڈھونڈتا جس سے اسے وہ تحفظ ملتا جو باپ نے چھین لیا تھا۔ مگر بدقسمتی سے، یہ معاشرہ جسے کچھ سمجھ نہ آئے، اُسے "ہم جنس پرست" کے خانہ میں ڈال دیتا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ تدریس سے منسلک ہوا۔ وہ خوبصورت تھا، وجیہہ تھا، باوقار تھا۔ دورانِ تعلیم اور پھر دورانِ تدریس، محلے کی لڑکیاں، کلاس فیلوز اور سٹوڈنٹس تک اس کی شخصیت سے متأثر ہوتی رہیں۔ مگر نہ کبھی اس نے کسی لڑکی سے تعلق قائم کیا، نہ کسی لڑکے سے۔ وہ ایک پاکیزہ مزاج انسان تھا، جس کا دامن کردار کے ہر دھبے سے پاک تھا۔ ادھر، ایک اور دنیا میں، ایک لڑکی پروان چڑھ رہی تھی۔ وہ چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی، والدین کی آنکھوں کا تارا، لاڈ و محبت میں پلی بڑی۔ مگر گھر کا ماحول ایسا کہ جیسے ایک نفسیاتی تجربہ گاہ ہو۔ والد ایک شدید نفسیاتی مرض میں مبتلا، ماں خاندانی دشمنیوں اور انا کی آگ میں جھلستی ہوئی، خاندان سے کٹی ہوئی۔ اس ماحول نے لڑکی کو حساس، جذباتی اور شدید ردعمل دینے والی بنا دیا۔ وہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی۔ ایم فل سکالر، گورنمنٹ کالج کی لیکچرار۔ مگر دل میں جذبات کی آندھیاں برپا رہتیں۔ دوران تعلیم ایک کلاس فیلو کی جانب دل کا جھکاؤ ہوا۔ مگر لڑکا ایک دن اچانک رخصت ہوا، اور لڑکی کو جذباتی ملبے تلے دبا گیا۔ وہ صدمہ اتنا شدید تھا کہ چھ ماہ بستر سے لگ گئی۔ ماں دولت پرست تھی، لیکن لڑکی شریف، غیرت مند اور عفیفہ۔ جب رشتہ آیا، تو ماں نے روکنے کی کوشش کی، مگر لڑکی نے ماں کی بات نہ مانی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ شادی کرے گی، اپنی مرضی سے، عزت سے۔ شادی ہو گئی۔ پہلے نکاح ہوا، پھر بات چیت۔ لیکن وہ بات چیت جس میں شوخی تھی، کھلا پن تھا، بے ساختگی تھی۔ لڑکی کھل کر بولتی تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ نکاح کے بعد اب شوہر سے کھل کر اظہار محبت کرنا عیب نہیں۔ مگر لڑکا بچپن کے زخموں، جذباتی بے یقینی، اور ماضی کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔ لڑکی کی بے باکی اس کے لیے کشش نہ رہی، بلکہ الجھن بن گئی۔ رخصتی ہوئی، ازدواجی زندگی شروع ہوئی، مگر لڑکا محبت نہ دے سکا۔ نہ دل سے، نہ جسم سے۔ وہ جذباتی طور پر منجمد ہو چکا تھا۔ لڑکی چاہتی تھی محبت، قربت، ایک شوہر کا پیار۔ مگر جو شوہر بچپن میں باپ کی محبت نہ پا سکا، وہ خود کیسے محبت دے سکتا تھا؟ لڑکی کا ماضی پہلے ہی اسے جذباتی طور پر شکستہ کر چکا تھا، اب شوہر کی جذباتی بےرخی اور جسمانی بےتوجہی نے اسے نفسیاتی اذیت میں مبتلا کر دیا۔ لڑکا چاہتا تھا کہ بیوی نوکری کرے، اس لیے نہیں کہ وہ پیسہ کمائے، بلکہ اس لیے کہ وہ اس کی قابلیت کو ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مگر لڑکی چاہتی تھی شوہر کا پیار، اس کی توجہ، ایک پُرامن گھر۔ ایک بیٹا ہوا۔ مگر لڑکے کی سرد مہری وہی رہی۔ نہ جذباتی سپورٹ، نہ شراکت داری۔ لڑکی خاموشی سے سب سہتی رہی۔ پھر جب باپ بننے کے بعد لڑکے کا دل بدلنے لگا، تب تک لڑکی نفسیاتی طور پر دور جا چکی تھی۔ اب جب شوہر گرمجوشی دکھاتا، وہ نظر انداز کرتی۔ یہ محبت کا نہیں، ردعمل کا وقت تھا۔ تین سال کی شادی میں لڑکی کو اکثر میکے بھیجا جاتا رہا۔ شوہر کے ماضی کی بھولی بسری باتیں جب جب سامنے آئیں، لڑکی کا دل مزید ٹوٹتا رہا۔ وہ اسے زانی اور ہم جنس پرست سمجھ کر حقارت سے دیکھنے لگی۔ جھگڑے معمول بن گئے۔ کئی بار صلح ہوئی، کئی بار نئی شروعات ہوئی۔ ایک بار شوہر نے علیحدہ گھر لے کر بیوی کو ہر آسائش فراہم کی۔ اب وہ محبت بھی کرنے لگا۔ لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔ لڑکی ایک سال سے میکے ہے۔ ماں طلاق کے لیے زور ڈال رہی ہے۔ لڑکی خرچہ اور تحائف تو لیتی رہی، بلکہ یکمشت پانچ لاکھ بھی لیے، مگر واپس آنے سے انکار کرتی رہی۔ ادھر ایک پرانا "دوست", جو لڑکے پر غصہ تھا, لڑکی کو فون کر کے اسے جھوٹے قصے سناتا رہا۔ لڑکی اس کی باتوں میں آ گئی۔ لڑکا اسے منع کرتا رہا کہ اس شخص سے بات نہ کرے، ورنہ "تم میرے لیے نامحرم ہو جاؤ گی۔" اب لڑکی اس جملے کو طلاق سمجھ رہی ہے۔ وہ کسی مفتی سے فتویٰ لے کر بیٹھی ہے کہ طلاق ہو چکی ہے۔ لڑکا چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ طلاق نہیں دی۔ اگر طلاق بائن بھی مان لیں، تب بھی صرف ایک طلاق ہوئی، اور وہ رجوع کر چکا ہے۔ اب لڑکی طلاق کے لیے بضد ہے، دوسری شادی کرنا چاہتی ہے۔ لڑکا محبت میں تڑپ رہا ہے، ہر حد تک جانے کو تیار ہے۔ مگر لڑکی نفسیاتی، جذباتی، اور سماجی دباؤ میں پس چکی ہے۔ کہانی کے پہلے حصے میں ہم نے ایک مرد اور ایک عورت کی ازدواجی کہانی دیکھی. ایک ایسا رشتہ جو اپنی ساخت میں مکمل تھا، مگر جذبات میں ادھورا، قربت میں قریب مگر ذہنی سطح پر بعید۔ اب اس دوسرے حصے میں ہم اس کہانی کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کریں گے، جیسے ایک ماہرِ نفسیات کرے، جیسے ایک لائف کوچ حل نکالنے کی سعی کرے، اور جیسے ایک ماہرِ ازدواجیات جذبات کے گورکھ دھندے میں سے محبت، سچائی اور فہم کی لکیر نکالے۔ خیر یہ کوئی عام ازدواجی جھگڑا نہیں تھا۔ یہ دو وجودوں کی اس قدر گہری نفسیاتی شکست و ریخت کا قصہ ہے جہاں ہر فریق اپنے بچپن، ماحول، سماجی دباؤ، اور ذاتی عدمِ تحفظات کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ لڑکے کی نفسیاتی تشکیل: ایک ایسا بچہ جو باپ کے سائے میں پناہ نہیں بلکہ تشدد، خوف اور ڈر کا تجربہ لے، وہ بڑا ہوکر اپنی شناخت تلاش کرتا ہے۔ اس کے اندر شدید "validation craving" پیدا ہوتی ہے۔ جب اس کی جوانی کے دنوں میں وہ اپنی ہم عمروں سے جذباتی لگاؤ تلاش کرتا ہے تو لوگ اسے "ہم جنس پرست" سمجھ لیتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف تعلق، اپنائیت، اور قبولیت کا خواہاں ہوتا ہے۔ یہی نوجوان، جب خوبصورتی اور ذہانت سے مالا مال ہو، تو اسے خواتین کی توجہ ملتی ہے۔ مگر جذباتی طور پر وہ ہمیشہ اندر سے پیاسا ہی رہتا ہے۔ محبت کا مفہوم اس کے لیے تحفظ اور گہری وابستگی ہے، نہ کہ صرف جسمانی تعلق۔ چنانچہ جب بیوی بیباک انداز میں بات کرتی ہے، وہ اس کے لیے ناقابلِ قبول بن جاتا ہے۔ وہ intimacy کو sexual attraction سے زیادہ emotional safety سے مشروط دیکھتا ہے، اور یہاں وہ safety اُسے نظر نہیں آتی۔ لڑکی کی نفسیاتی پرتیں: لڑکی ایک لاڈلی بچی کے طور پر پلی بڑھی، لیکن ایسے گھر میں جہاں باپ ذہنی مریض ہو اور ماں دنیا سے برسرِ پیکار ہو، وہاں نفسیاتی توازن باقی نہیں رہتا۔ جب ایسے ماحول میں پہلی محبت میں دھوکہ ملے تو وہ ٹراما جسم میں نہیں، روح میں بیٹھتا ہے۔ اور جب اس کے بعد کا شوہر اُسے جسمانی طور پر اہمیت نہ دے، تو وہ خود کو دوہرا مسترد شدہ محسوس کرتی ہے, پہلے دل کے ہاتھوں، پھر جسم کے ہاتھوں۔ یہی مسترد ہونا اسے "hyper vigilant" اور "over reactive" بنا دیتا ہے۔ پھر شوہر کا بچپن کا ماضی، دوسرے مرد کا اس پر الزام، سب کچھ مل کر اس کے ذہن میں ایک نیا بیانیہ تشکیل دیتا ہے: "میں ایک ہم جنس پرست مرد کے ساتھ بندھی ہوں، جو مجھے نہ عزت دے رہا ہے، نہ محبت۔" اور یہاں سے وہ نفسیاتی حد عبور ہو جاتی ہے۔ ازدواجی سائیکوڈائنامکس: یہ شادی اصل میں دو جذباتی یتیموں کا بندھن تھی۔ لڑکا باپ کی محبت سے محروم، لڑکی جذباتی سکیورٹی سے محروم۔ دونوں کو ایک دوسرے کی نہایت شدید ضرورت تھی، مگر دونوں اپنی اندرونی ٹوٹ پھوٹ میں اس قدر گرفتار تھے کہ دینے کے قابل نہ رہے۔ محبت دینے سے نہیں، وصول نہ ہونے سے مرتی ہے۔ یہاں لڑکا دینا چاہتا تھا، مگر دیر سے۔ لڑکی لینا چاہتی تھی، مگر صبر نہ کرسکی۔ اور جب وقت نے دونوں کو ایک دوسرے کی طرف پلٹنے کی دعوت دی، تو دونوں اپنی اپنی خندقوں میں بہت دور جا چکے تھے۔ شرعی اور قانونی زاویہ: اب سوال یہ ہے کہ جو جملہ لڑکے نے کہا: "اس لڑکے سے بات کی تو تم میرے لیے نامحرم ہو جاؤ گی", کیا یہ طلاق ہے؟ علمائے کرام کی رائے میں: 1. اگر یہ بات دھمکی یا تنبیہ کے طور پر کہی گئی تھی، یعنی مشروط، تو یہ طلاق نہیں ہوتی۔ 2. اگر دل میں نیت طلاق کی نہ ہو اور الفاظ صریح نہ ہوں تو یہ طلاق نہیں ہوتی۔ 3. اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ طلاقِ بائن تھی، تو بھی ایک طلاق ہے، اور رجوع کا حق باقی ہے۔ لہٰذا شرعی اعتبار سے لڑکا اگر رجوع کا اعلان کرچکا ہے اور لڑکی محض کسی مفتی کے فتویٰ پر انکار کر رہی ہے، تو وہ ظلم کر رہی ہے, اپنے بیٹے پر، اپنے شوہر پر اور اس رشتے پر۔ ایک ماہر ازدواجیات کا نکتہ نظر: 1. دونوں افراد کو ابتدائی ایامِ شادی میں Couple Therapy کی ضرورت تھی۔ 2. لڑکے کو Childhood Trauma Therapy درکار تھی۔ 3. لڑکی کو Rejection Trauma & Abandonment Syndrome کا علاج چاہیے تھا۔ 4. دونوں کو Attachment Styles پر کام کرنا چاہیے تھا۔ یہ سب اگر ابتدائی دنوں میں ہوتا تو آج رشتہ کہیں اور ہوتا۔ ایک ماہر نفسیات کا تجزیہ: 1. لڑکے کی Avoidant Personality لڑکی کی Anxious Attachment سے ٹکراتی رہی۔ 2. لڑکی کا overthinking and emotional hypersensitivity اسے جذباتی طور پر non-functional بناتی گئی۔ 3. دونوں کو Cognitive Behavioral Therapy (CBT) کے تحت اپنا ذہنی سانچہ بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ بطور لائف کوچ مشورہ: 1. زندگی میں ہر رشتہ "complete" نہیں ہوتا، مگر وہ "healing" ضرور دے سکتا ہے۔ 2. یہ دونوں افراد اپنی ناکامی کو اپنی پہچان نہ بنائیں۔ 3. لڑکی اگر دوسری شادی کرنا بھی چاہے، تو بھی reconciliation اور معافی کے مراحل سے گزرنا لازم ہے، ورنہ نیا رشتہ بھی بکھر سکتا ہے۔ 4. لڑکا اگر دوبارہ رشتہ قائم کرنا چاہے، تو اسے محبت سے پہلے اعتماد، اور اعتماد سے پہلے احترام واپس دینا ہوگا۔ ممکنہ حل: 1. فوری کرنے والا کام (Immediate Mediation): دونوں خاندانوں کو ایک معالج، ایک عالم، اور ایک ماہرِ ازدواجیات کی موجودگی میں مذاکرات کروانے چاہئیں۔ 2. فیصلے سے قبل علاج (Therapy Before Decision): کسی بھی فیصلے سے پہلے دونوں افراد 3 ماہ کی نفسیاتی و جذباتی تھراپی لیں۔ 3. بچے کے مستقبل کا تحفظ (Parenting Plan): بچے کے مستقبل کو مرکزِ بحث بنایا جائے, تاکہ کوئی بھی فیصلہ اس معصوم کی بنیاد پر ہو، نہ کہ انا کی بنیاد پر۔ 4. حتمی مرحلہ کے اقدمات (Financial & Emotional Closure): اگر علیحدگی ہی فیصلہ ہو، تو مکمل مالی، قانونی، اور جذباتی بندوبست کے ساتھ ہو, بغیر گالی گلوچ، بغیر الزام تراشی کے۔ میری نظر میں کہانی کا تجزیہ: کبھی کبھی ایک مکمل اور خوبصورت زندگی محض اس لیے برباد ہو جاتی ہے کہ ہم اپنی آواز سننے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ہم وہ سننا چاہتے ہیں جو ہمارا غصہ، ہمارے زخم اور ہمارے تعصبات ہمیں سنانا چاہتے ہیں، وہ نہیں جو حقیقت ہم سے کہہ رہی ہوتی ہے۔ اور اس کہانی میں، مرد اور عورت دونوں کی آوازیں موجود تھیں، لیکن وہ ایک دوسرے کے کانوں تک نہ پہنچ سکیں۔ اس کہانی میں مرد اور عورت دونوں مظلوم ہیں، دونوں مجرم بھی۔ دونوں سچے بھی اور دونوں دھوکے میں بھی۔ مگر اس ظلم، جرم اور دھوکے کے پیچھے کوئی مخصوص نیت نہیں تھی، بلکہ وہ خراشیں تھیں جو دونوں نے اپنے ماضی سے چنی تھیں، وہ ادھورے پن کے داغ تھے جنہیں بچپن نے، خاندان نے، اور سماج نے دونوں کے اندر گہرا کر دیا تھا۔ لڑکا، ایک ایسا شخص جو باپ کے تشدد کے سائے میں پل کر بڑا ہوا، جس نے محبت، شفقت، اور تحفظ کا مفہوم کبھی جانا ہی نہیں، جو ہر عمر میں کسی 'اپنے' کی تلاش میں رہا، مگر ہر بار دھتکارا گیا، ہر بار غلط سمجھا گیا۔ وہ ذہین تھا، باصلاحیت تھا، لیکن اس کی ذہانت پر بچپن کے زخموں کا ایسا پردہ چڑھ چکا تھا کہ وہ کسی کو بھی خود سے قریب آنے نہیں دیتا تھا۔ وہ جسمانی طور پر پاکیزہ رہا، مگر جذباتی طور پر مفلوج۔ اور لڑکی، جو ایک ایسے ماحول میں پلی بڑھی جہاں اس کا باپ نفسیاتی مریض تھا، ماں ضدی، خودغرض اور دنیا کے خلاف جنگ میں مصروف۔ اسے پیار تو ملا، لیکن وہ پیار ایک بگاڑی ہوئی ماں کی جھولی سے ملا، جس نے اس کی جذباتی ساخت کو مسخ کر دیا۔ وہ ایک بار جذباتی طور پر دھوکہ کھا چکی تھی، اور دوسری بار جسمانی طور پر مسترد ہوئی۔ دونوں بار اسے ایسا لگا جیسے کوئی اس کی عزتِ نفس کو مٹی میں ملا رہا ہے۔ یہ دو افراد، جو بظاہر مکمل تھے، اندر سے ٹوٹے ہوئے تھے۔ ان کا نکاح، ایک سمجھوتہ نہیں بلکہ ایک امید تھی۔ مگر امیدوں کی فصل بھی اسی زمین پر اگتی ہے جو جذباتی زرخیز ہو، اور ان دونوں کی زمینیں بنجر تھیں۔ لڑکی نے محبت دی، مگر لڑکا اسے قبول نہ کر سکا۔ لڑکا محبت دینے لگا، تو لڑکی کی محبت مر چکی تھی۔ وہ وقت، جب مرد نے عورت کے قدموں کی طرف پلٹنا چاہا، وہ وقت عورت کے دل سے اس کے قدم ہٹانے کا تھا۔ وقت کی یہ الٹی ترتیب ہی اصل سانحہ تھی۔ لیکن کیا صرف وقت قصوروار ہے؟ نہیں۔ اصل قصور عدم فہم، ناقص تربیت، اور شعور کی کمی کا ہے۔ یہ واضح طور پر "چائلڈ ہوڈ ٹراما بونڈنگ" اور "افیکشن ڈیفیسٹ سنڈروم" کا کیس ہے۔ لڑکے کی شخصیت میں بظاہر کوئی مسئلہ نہیں، مگر جذباتی طور پر وہ ایک منجمد انسان ہے۔ ایسا شخص جس نے کبھی پیار پایا ہی نہ ہو، وہ پیار دینا کیسے سیکھے گا؟ اس نے اپنے اندر ایک ایسی دیوار کھڑی کر لی ہے جو بظاہر عزت اور پاکیزگی کی علامت لگتی ہے، لیکن اصل میں وہ اس کے اندر کے خوف، بے یقینی اور عدم اعتماد کا غلاف ہے۔ جبکہ لڑکی، جو کہ ہائپر ایموشنل ٹائپ ہے، اس نے اپنی جذباتی زندگی کا مرکز دوسروں کی رائے اور رویے کو بنایا۔ جب ایک کلاس فیلو نے مسترد کیا، تو اس نے اپنی خودی کی سولی پر چڑھ کر چھ ماہ بستر پکڑ لیا۔ جب شوہر نے جسمانی قربت سے اجتناب کیا، تو اس نے خود کو مردود تصور کیا۔ یہ دونوں افراد اپنے جذبات کے قیدی تھے، اور ان قید خانوں میں کسی کو راستہ دکھانے والا کوئی باشعور رشتہ، بزرگ، استاد یا دوست نہ تھا۔ یہ رشتہ جن بنیادوں پر قائم ہوا، وہ جذباتی طور پر خستہ حال تھی۔ ایک طرف لڑکی تھی جو جسمانی اور جذباتی سطح پر قربت کی طلب گار تھی، اور دوسری طرف لڑکا تھا جو صرف نکاح کو ایک قانونی، مذہبی ذمہ داری سمجھتا رہا۔ شادی کو 'محبت' میں بدلا نہیں گیا، بلکہ اسے 'تقدیر' سمجھ کر برداشت کیا گیا۔ جب مرد نے عورت کی بیباکی سے خوف محسوس کیا، تب ہی اسے احساس ہونا چاہیے تھا کہ وہ اس رشتے کے لیے تیار نہیں۔ اسی طرح، جب عورت نے شوہر کی عدم دلچسپی دیکھی، تو اسے چاہیے تھا کہ وہ بروقت کسی بڑے، کسی معالج، کسی دانشور یا کسی بزرگ سے رجوع کرتی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں شادی صرف نکاح کے دو بول نہیں، بلکہ دو زخمی روحوں کے درمیان ایک دائمی معاہدہ ہوتا ہے۔ لیکن ہم اس معاہدے میں جذباتی ذہانت، صبر، اور شعور لانا بھول جاتے ہیں۔ یہ معاملہ کسی طلاق، کسی دوسری شادی، یا کسی مالی لین دین سے حل نہیں ہوگا۔ یہاں ضرورت ہے: 1. دونوں افراد کو تھراپی کی اشد ضرورت ہے۔ 2. عورت کو چاہیے کہ وہ کسی معالج سے رابطہ کرے اور اپنے ہسٹریا، ڈپریشن، اور ہائپر اینگر کے مسائل کا علاج کروائے۔ 3. مرد کو اپنی جذباتی ناپختگی کا ادراک ہو چکا ہے، وہ اب رجوع چاہتا ہے، اسے بھی سائیکوتھراپی کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود کو بحال کرے۔ 4. اگر بچہ موجود ہے، تو اس کی فلاح کے لیے دونوں کو کم از کم ایک دوستانہ رشتہ ضرور برقرار رکھنا ہوگا۔ یہ کہانی محض ایک جوڑے کی نہیں، بلکہ ایک معاشرتی زوال کی تصویر ہے۔ جہاں ماؤں کو اپنی بیٹیوں کے لیے شوہر میں دولت اور ملازمت سے آگے کچھ نظر نہیں آتا، اور باپ بیٹوں کو پیار دینا جرم سمجھتے ہیں۔ جہاں تھراپی کو پاگلوں کا علاج سمجھا جاتا ہے، اور جہاں نکاح صرف ایک تقریب بن چکا ہے۔ یہ وقت ہے شعور کی روشنی میں رشتے استوار کرنے کا۔ یہ وقت ہے جذباتی تعلیم کو لازمی قرار دینے کا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ وقت ہے خاموشی توڑنے کا، تاکہ جو لوگ ٹوٹ رہے ہیں وہ خود کو جوڑ سکیں۔ یہ ایک کہانی نہیں، ایک نسل کا المیہ ہے۔ ہم سب ایسے رشتے بنتے اور بکھرتے دیکھتے ہیں، مگر کبھی اس کے اندر کے زخم نہیں دیکھتے۔ یہ دونوں کردار نہ اچھے ہیں نہ برے۔ یہ بس انسان ہیں، جنہیں بروقت ہمدردی، رہنمائی، اور علاج نہ ملا۔ اگر آپ بھی کسی رشتے میں ہیں، تو یاد رکھیں: "محبت صرف جسم کا نہیں، روح کا تعلق ہے۔ اور روحیں جب زخمی ہوں، تو پہلے ان کا علاج کریں. ورنہ وہ خود کو نہیں، سب کو زخمی کرتی ہیں۔" اختتام یہ نہیں کہ طلاق ہو یا رجوع، اختتام یہ ہے کہ دونوں خود کو پہچانیں، خود کو سنواریں، تاکہ آئندہ نسلیں ایسی کہانیاں نہ دوہرائیں۔


جب ایک نر ڈولفن جال میں پھنسی مادہ کے لئے مدد مانگنے پہنچا: افسانوی شہرت کے حامل اٹلی کے غوطہ خور "انزو میالیورکا" سسلی کے قریب سیراکوسا کے ساحل پر غوطہ خوری کی مشق کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی بیٹی "روسانا" بھی تھی، جو کشتی پر ہی رکی ہوئی تھی۔ اچانک پانی کے اندر انزو کو اپنی پشت پر ایک نرم سا لمس محسوس ہوا۔ جب انہوں نے پلٹ کر دیکھا تو ایک ڈولفن سامنے تھی، مگر وہ کھیلنے کے لیے نہیں آئی تھی بلکہ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔ ڈولفن نیچے کی طرف غوطہ لگاتی گئی، اور انزو اس کے پیچھے پیچھے گیا۔ قریب پندرہ میٹر گہرائی میں ایک اور ڈولفن پھنسی ہوئی تھی، جو ایک پرانے مچھلی پکڑنے والی جال میں الجھ چکی تھی اور زندگی کی جنگ لڑ رہی تھی۔ انزو نے فوراً اپنی بیٹی کو آواز دی کہ وہ غوطہ خوری کا چاقو دے، اور اس نے جلدی سے جال کاٹ کر ڈولفن کو آزاد کر دیا۔ وہ ڈولفن اتنی نڈھال ہو چکی تھی کہ ڈوبنے کے قریب تھی، اور ایک چیخ نکالی ایک ایسی چیخ جو انزو کے مطابق تقریباً انسانی لگ رہی تھی۔ ڈولفن زیادہ سے زیادہ دس منٹ تک سانس روک سکتی ہے، اور یوں وہ اپنی آخری حد پر تھی۔ انزو اور اس کی بیٹی نے مل کر اسے پانی کی سطح تک پہنچایا۔ سطح پر پہنچنے کے فوراً بعد یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ وہ ڈولفن حاملہ تھی، اور کچھ ہی دیر بعد اس نے ایک ننھے بچے کو جنم دیا۔ تب اسکا ساتھی ڈولفن جو غالباً جوڑے کا نر تھا جس نے مدد کے لئے انزو کو بلایا تھا، پانی میں ان کے گرد تیرنے لگا۔ پھر اس نے انزو کی طرف بڑھ کر اس کے گال کو چھوا جیسے شکرگزاری سے بوسہ دے رہا ہو، اور پھر وہ اپنی ننھی سی فیملی کے ساتھ سمندر کی وسعتوں میں گم ہو گیا۔ اس واقعے کے بعد انزو نے سوچ میں ڈوب کر کہا: "جب تک انسان فطرت کا احترام کرنا اور جانوروں کی زبان سمجھنا نہیں سیکھے گا، وہ زمین پر اپنا اصل مقام کبھی نہیں جان پائے گا۔" یہ واقعہ ہمیں فطرت کی ذہانت اور ہماری اس ذمہ داری کی یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اسے بچانا ہے، سنبھالنا ہے۔ ترجمہ طاہر راجپوت تصویر میں انزو اور اسکی بیٹی


ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﯿﮑﺲ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ. پاکستان میں مردوں کی عمومی طور پر شادی کی عمر پچیس سے لیکر تیس سال کی سمجھی جاتی ہــــــے عام طور پر اسکی وجہ مرد کے روزگار اور کمائی کو سمجھا جاتا ہــــے کہ جب تک ایک نوجوان اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوتا اسکی شادی لٹکی رہتی ہـــے اور دیکھا جائے تو یہ ایک ٹھوس اور مثبت جواز بھی ہـــــے. جب مرد بیوی اور بچوں کی کفالت کی بڑی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہی نہ ہو تو شادی کرکے خود کو مزید پریشانی میں ڈالنے والی بات ہے۔اور لڑکیوں کی تعلیم بھی مکمل ہوتے، اچھے رشتے ملتے اتنی عمر گزر جاتی ہے۔۔ جبکہ آج کل بارہ سال کے بچے بچیاں بالغ ہو رہے ہیں، بلوغت اور شادی کے درمیان یہ دس پندرہ سال شدید ترین جنسی خواہش کے ہوتے ہیں ۔ نقصان اسکا لیکن بہت بڑا ہــــے جسکو والدین، خاص کر بطور ایک مرد، نوجوان کا والد بہت اچھی طرح سمجھتا ہـــے کیوںکہ وہ اسی پرائم ٹائم سے گزر چکا ہوتا ہے لیکن بوجہ مختلف مجبوریوں کے حالات کے بوجھ تلے دبا چپ رہتا ہـــــے ایک مرد کیلئے یہ ایک بلکل سیدھی اور آسانی سے سمجھ میں آنے والی بات ہــــے کہ اسکی جنسی طاقت، جنسی طلب، جنسی کشش اور جسمانی طاقت اور قوت اسکے عمر کے اٹھارہ بلکہ کبھی کبھی سترہ سال سے لیکر چوبیس یا پچیس سال کی عمر کی بیچ میں سر چڑھ کر بولتی ہے اور اس عمر میں جوانی کا بھر پور نشہ چڑھا ہوتا ہے اور یہی عمر شادی کرنے کیلئے سب سے موزوں عمر ہے۔ اسلام بھی اس عمر میں شادی کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ تیس سال کے بعد دھیرے دھیرے جنسی اور جسمانی طاقت میں کمی آنے لگتی ہے اور چالیس سال تک خوش قسمت اور صحتمند مرد پھر بھی جسمانی طور پر شکایت تو نہیں کرتے لیکن اسے اندر کی تبدیلی کا احساس ضرور ہوتا ہے اور کہیں نہ کہیں وہ تبدیلی جسے کمزوری بھی کہہ سکتے ہیں اسے کٹھکتی بھی ہے۔ چالیس سال کے بعد جنسی کمزوری کا لاحق ہونا ایک بالکل عام سی بات ہے جو تقریبا ہر مرد کا مسئلہ رہتا ہے چاہــــــے وہ کتنا بھی پہلوان بننے کا دعوہ کرے۔ ہمارے قبائلی رواج کے مطابق، خاص طور پر دور دراز پہاڑوں میں رہنے والے لوگ اپنے بچوں کی 18 سے 20 اور بچیوں کی 14 سے 16 سال میں شادیاں کروا کر ذمہ داری سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ لڑکا 25 سے 28 کی عمر تک تین یا چار بچوں کا باپ ہوتا ہے اور اسکے بعد وہ عملی زندگی شروع کرنے نکلتا ہے۔ باپ 40 کی عمر تک پہنچتا ہے تو اسکے بچے بھی کمائی اور روزگار کے قابل ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو انکے لئے یہی طریقہ کار بہترین ہے کہ پہاڑوں میں بسنے والے لوگ قدرتی ماحول کے زیادہ قریب رہنے کی وجہ سے جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ﺳﯿﮑﺲ ﯾﺎ ﺷﮩﻮﺕ ایک ہی چیز کا نام ہے۔۔ اس پر بات کرنا ہمارے معاشرے میں گناہ سمجھا جاتا ہــــــے لیکن موقع ملے تو چھوڑتا کوئی بھی نہیں۔ ﺍﺱ کﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ حقیقت پسند کہتے ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﯿﮑﺲ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ یہیں ﺑﮭﻮﮎ ﻣﺮﺩ اور ﻋﻮﺭﺕ کو نو عمری سے نو بڑھاپے تک ﺗﻨﮓ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﮎ حلال طریقے ﺳﮯ ﻧﮧ ﻣﭩﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ حرام ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ لہذا نکاح کو آسان بنائیں. اگر معاشی حالات اجازت دیں تو اپنے بچوں کی شادیاں کرانے میں دیر نا کریں۔ نا صرف جنسی کمزوری یا جنسی طاقت کی وجہ سے بلکہ اسلئے بھی کہ بیوی کے میسر آنے کے بعد نوجوان مرد بہت سارے گناہوں اور غلط کاریوں سے بچا رہتا ہـــــــے بلکہ عورت کیلئے بھی یکساں مفید فارمولہ ہـــــے۔ آپ اس موضوع پر کیا رائــــے رکھتے ہیں؟ . .


بڑے بیٹے کا المیہ: اے ٹی ایم مشین، کولہو کا بیل اور جرمِ وفا! - بلال شوکت آزاد وہ جو سب سے پہلے پیدا ہوتا ہے، جس کی پیدائش پر باپ کے چہرے پر مردانگی کی خوشی، ماں کے چہرے پر غرورِ تخلیق، اور پورے خاندان کے ہاں شکرانے کی دعا ہوتی ہے… وہی بچہ وقت کے ساتھ ساتھ صرف ایک عدد "بڑا بیٹا" بن کر رہ جاتا ہے۔ اور "بڑا بیٹا" ہونا ہمارے معاشرے میں کوئی رتبہ یا مقام نہیں، بلکہ ایک خاموش سزائے عمر قید ہے. بغیر کسی جرم کے، بغیر کسی فیصلے کے، بغیر کسی اپیل کے۔ یہ "بڑا بیٹا" کولہو کا وہ بیل ہے جس کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی جاتی ہیں، نہ اس سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ تھک گیا ہے، نہ اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ جا کہاں رہا ہے۔ وہ بس گھومتا ہے، دن رات کی تمیز کے بغیر، اپنی جوانی کو خاندان کا بوجھ ڈھونے کی نذر کر دیتا ہے اور پھر بھی اس کا شکریہ نہیں، صرف مطالبے، فقط طعنے اور بد دعائیں! بڑا بیٹا وہ خزانچی ہے جس کی تنخواہ خاندان کی ملکیت ہوتی ہے، وہ ادھار جسے واپس لوٹانے کا کوئی رواج نہیں۔ شادی سے پہلے اس کی جیب خالی، اور شادی کے بعد اس کا دل اور جھولی۔ دونوں صورتوں میں وہ خالی ہاتھ ہی رہتا ہے۔ کیونکہ گھر والوں کی محبت، بہن بھائیوں کی چاہت، ماں باپ کی شفقت، سب مشروط ہوتی ہے, اس کی آمدنی اور سر جھکانے سے۔ جب تک اس کی جیب بھری ہو تو سب سلام کرتے ہیں، جونہی اس کے حالات بدلیں تو وہی لوگ اجنبی بن جاتے ہیں، بلکہ دشمن۔ اور پھر ایک وقت آتا ہے جب وہ بڑا بیٹا اپنے حق میں فیصلہ کرتا ہے۔ شادی کرتا ہے، خود کا سوچتا ہے، زندگی کی اونچی نیچی راہوں پر قدم رکھتا ہے۔ تو یہی خاندان، یہی رشتہ دار، یہی بہن بھائی، اسی پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ اسے بے وفا، خود غرض، مطلبی، اور نافرمان کہا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ صرف خود کو تھامنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ اتنا سب اٹھا لینے کے بعد وہ اگر ٹوٹ گیا تو صرف خود نہیں ٹوٹے گا، اس کی بیوی، اس کے بچے، اس کا مستقبل، سب بکھر جائیں گے۔ ہمارے معاشرے میں چھوٹے بھائی بہنوں کو لاڈ پیار اور وراثت کی پناہ ملتی ہے۔ ان کے نخرے، ان کی آزادی، ان کی مرضی، ان کا حق۔ لیکن بڑے بیٹے کو صرف ایک مقام ملتا ہے, ذمہ داری۔ وہ یہ ذمہ داری نبھائے یا نہ نبھائے، اس کا حق نہیں کہ وہ تھکے، اس کا اختیار نہیں کہ وہ انکار کرے، اس کی اجازت نہیں کہ وہ جیے۔ اور ستم ظریفی دیکھیے کہ اسے بڑے بھائی کے طور پر مانا ضرور جاتا ہے، لیکن اس کی بات، اس کی مرضی، اس کی رائے… سب کو روند دیا جاتا ہے۔ فیصلے پہلے ہو چکے ہوتے ہیں، بس اسے اطلاع دی جاتی ہے۔ اگر وہ اختلاف کرے تو کہا جاتا ہے، "نہیں پسند تو گھر چھوڑ دو"۔ گویا اس کا وجود صرف اس وقت تک معتبر ہے جب تک وہ جھکتا رہے، دیتا رہے، سہتا رہے۔ جب بہنوں کی شادیاں ہوتی ہیں تو رخصت ہو کر بھی ان کا "اثر و رسوخ" گھر سے نہیں جاتا۔ وہ سسرال سے بیٹھ کر بھی گھر کے فیصلوں میں دخل دیتی ہیں۔ اور اگر کبھی بڑا بھائی اس پر سوال کرے، تو اس پر فتویٰ لگایا جاتا ہے کہ وہ بہنوں کا دشمن ہے۔ اس کی حساس طبیعت اس کی کمزوری سمجھی جاتی ہے۔ وہ اگر عدل کی بات کرے، تو منافقت اور نافرمانی کے طعنے سننے پڑتے ہیں۔ وہ اگر انکار کرے تو ناشکری کا تمغہ اس کی پیشانی پر ٹانک دیا جاتا ہے۔ یہ وہی بڑا بیٹا ہے جس نے بچپن میں کھلونے نہیں خریدے تاکہ چھوٹے بہن بھائیوں کے چپس اور بسکٹ آ جائیں۔ جس نے جوانی میں اپنی پڑھائی بیچ کر گھر کی ضروریات پوری کیں۔ جس نے نوکری ملنے پر سب سے پہلے ماں باپ کی دعائیں سمیٹیں، اور تنخواہ ملنے پر سب سے پہلے بہنوں کی فرمائشیں پوری کیں۔ لیکن جب اسے کچھ چاہیے ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے: "تم بڑے ہو، تمہیں برداشت کرنا ہوگا۔" یہ وہی بڑا بیٹا ہے جس نے بہنوں کے جہیز کے لئے قرضے لیے، بھائی کی فیسیں ادا کیں، اور اپنے بچوں کے لئے جیب میں کچھ نہ بچایا۔ اور جب تھک ہار کر وہ الگ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے تو کہا جاتا ہے: "دیکھو، کیسا خود غرض نکل آیا!" "بیوی کے پیچھے چل پڑا!" لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ یہ وہ خود غرض ہے جس نے بچپن سے قربانی دی، جوانی میں قربانی دی، اور شاید بڑھاپے میں بھی قربانی ہی دے گا۔ اس کے دل میں جو زخم ہیں وہ تب تک دکھتے رہیں گے جب تک وہ زندہ ہے، اور شاید اس کے جانے کے بعد بھی اس کے بچوں کو اس کے بڑے ہونے اور ذمہ دار ہونے کی سزا ملتی رہے گی۔ مگر وہ جو بڑا بیٹا ہے… وہ ایک دن ہمت کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے، "بس! اب نہیں!" وہ علیحدگی اختیار کرتا ہے۔ وہ اپنی دنیا بسانا چاہتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کے لیے وہ سب کچھ دینا چاہتا ہے جو اسے نہیں ملا۔ لیکن یہ علیحدگی بھی آسان نہیں ہوتی۔ اسے بددعائیں، طعنے، الزامات اور دشمنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسے احساس جرم کا شکار کیا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ صرف وہی کر رہا ہوتا ہے جو ہر ذی شعور شخص کو کرنا چاہیے — اپنے لیے جینا۔ اور اگر اس کی فطرت میں عدل ہو، تو وہ ان طعنوں سے مرعوب نہیں ہوتا۔ وہ جانتا ہے کہ رشتہ داریاں اگر انصاف سے محروم ہوں تو صرف خونی رشتے رہ جاتی ہیں، روحانی رشتہ نہیں بنتے۔ وہ جانتا ہے کہ ہر انسان کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارے، بغیر اس بوجھ کے جسے مقدر کہہ کر اس پر لاد دیا جائے۔ ایسے معاشرے میں بڑا بیٹا ہونا واقعی ایک زہر ہے۔ ایک بوجھ۔ ایک خاموش اذیت۔ اور اگر آپ کی فطرت میں حساسیت ہے تو سمجھ لیجیے، آپ کو جینے کا کوئی حق نہیں۔ آپ کے ہر جذبے کو کمزوری سمجھا جائے گا، آپ کے ہر انکار کو گستاخی، آپ کے ہر سوال کو بغاوت۔ مگر وقت بدل رہا ہے۔ اب بڑے بیٹے بھی بول رہے ہیں۔ اب وہ صرف اے ٹی ایم مشین یا کولہو کے بیل نہیں بنیں گے۔ اب وہ اپنے جذبات، اپنی زندگی، اپنے خوابوں کا حق مانگیں گے, اور اگر نہیں ملا، تو چھین لیں گے۔ کیونکہ زندگی کسی کی خوشنودی کے لیے قربان کرنے کا نام نہیں، بلکہ خود کو پہچاننے اور اپنی شناخت کے ساتھ جینے کا نام ہے۔ اور اگر اس معاشرے کو کچھ سیکھنا ہے تو بس ایک سبق یاد رکھے: بڑے بیٹے بھی انسان ہوتے ہیں, ان کا دل بھی ہوتا ہے۔ ان کے جذبات بھی ہوتے ہیں۔ اور ان کی زندگیاں بھی صرف دوسروں کے لیے وقف کرنے کے لیے نہیں ہوتیں۔ یہ تحریر ہر اس شخص کے لیے ہے جو بڑا بیٹا ہے، تھا یا بننے والا ہے… خدارا، جینے کا حق صرف دوسروں کو نہ دیجیے, خود کو بھی دیجیے۔ بلال شوکت آزاد
