
URDU NOTES OFFICIAL CHANNEL
894 subscribers
About URDU NOTES OFFICIAL CHANNEL
"Urdu Notes Official Channel: Yahan par aapko Urdu Adab ke Notes, Urdu Poetry , Urdu Questions and answers aur bhi bht Saari mufeed maloomat dastiyaab krai jaengi. Humara Maqsad Urdu ki Taleem ko Asan aur Innovative banana hai. Follow karein aur faida uthayein!" Aap hamare saath jude rahen aur apne taleemi safar ko behtar banayen."👇🏻 Website: www.urdunotes.com
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

اسلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ 🌸 *_تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْك_* 🌸 * عید الاضحی کی پرخلوص مبارکباد 💐💐💐 اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ عید کے اس پرُمسرت موقع پر ہم سب پر اپنی رحمتیں و برکتیں نازل فرمائے، ہم سب کی قربانیوں اور عبادات کو قبول فرمائےاور ہم سب کے اعمال صالحہ کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔...... آمین ثم آمین

رجا (امید)تین طرح کی ہے ١) کوئی شخص اچھا کام کرے اس کی قبولیت کی امید رکھے ٢) جو شخص برا کام کرے پھر توبہ کرے اور وہ مغفرت کی امید رکھتا ہو ٣) جھوٹا شخص جو گناہ کرتا چلا جائے اور کہے میں مغفرت کی امید رکھتا ہوں، پہلی دو قسم کی رجا (امید)محمود جب کہ آخری دو قسم کی رجا مزموم ہے جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے"یعنی احمق وہ ہے جو اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرے پھر اللہ تعالی سے جنت کی تمنا رکھے"

ہندوستان میں ایک جگہ مشاعرہ تھا۔ ردیف دیا گیا: "دل بنا دیا" اب شعراء کو اس پر شعر کہنا تھا۔ سب سے پہلے حیدر دہلوی نے اس ردیف کو یوں استعمال کیا: اِک دل پہ ختم قدرتِ تخلیق ہوگئی۔ سب کچھ بنادیا جو مِرا دل بنادیا۔ اس شعر پر ایسا شور مچا کہ بس ہوگئی، لوگوں نے سوچا کہ اس سے بہتر کون گرہ لگا سکے گا؟ لیکن نجمی نگینوی نے ایک گرہ ایسی لگائی کہ سب کے ذہن سے حیدر دہلوی کا شعر محو ہوگیا۔ انہوں نے کہا: بےتابیاں سمیٹ کر سارے جہان کی۔ جب کچھ نہ بَن سکا تو مِرا دل بنادیا۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ حیدر دہلوی اپنے وقت کے استاد تھے اور خیام الہند کہلاتے تھے۔ نجمی کے کلام کو سنتے ہی وہ سکتے کی کیفیت میں آگئے، نجمی کو گلے سے لگایا، ان کے ہاتھ چومے اور وہ صفحات جن پر ان کی شاعری درج تھی نجمی کے پاوں میں ڈال دئے۔ اس واقعے سے قبل دہلی کے لال قلعہ میں ایک طرحی مشاعرہ تھا۔ قافیہ " دل" رکھا گیا تھا۔ اُس وقت تقریبا سبھی استاد شعراء موجود تھے۔ان میں سیماب اکبرآبادی اور جگر مرادآبادی بھی تھے۔ سیماب نے اس قافیہ کو یوں باندھا۔۔۔۔۔ خاکِ پروانہ، رگِ گل، عرقِ شبنم سے۔ اُس نے ترکیب تو سوچی تھی مگر دل نہ بنا۔ شعر ایسا ہوا کہ شور مچ گیا کہ اس سے بہتر کوئی کیا قافیہ باندھے گا؟۔ سب کی نظریں جگر پر جمی ہوئی تھیں۔ معاملہ دل کا ہو اور جگر چُوک جائیں۔۔وہ شعر پڑھا کہ سیماب کا شعر لوگوں کے دماغ سے محو ہوگیا۔ زندگانی کو مرے عقدۂ مشکل نہ بنا۔ برق رکھ دے مرے سینے میں، مگر دل نہ بنا۔ اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانا ہے یہ کس کا تصور ہے یہ کس کا فسانا ہے جو اشک ہے آنکھوں میں تسبیح کا دانا ہے دل سنگ ملامت کا ہر چند نشانا ہے دل پھر بھی مرا دل ہے دل ہی تو زمانا ہے ہم عشق کے ماروں کا اتنا ہی فسانا ہے رونے کو نہیں کوئی ہنسنے کو زمانا ہے وہ اور وفا دشمن مانیں گے نہ مانا ہے سب دل کی شرارت ہے آنکھوں کا بہانا ہے شاعر ہوں میں شاعر ہوں میرا ہی زمانا ہے فطرت مرا آئینا قدرت مرا شانا ہے جو ان پہ گزرتی ہے کس نے اسے جانا ہے اپنی ہی مصیبت ہے اپنا ہی فسانا ہے کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے آغاز محبت ہے آنا ہے نہ جانا ہے اشکوں کی حکومت ہے آہوں کا زمانا ہے آنکھوں میں نمی سی ہے چپ چپ سے وہ بیٹھے ہیں نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانا ہے ہم درد بہ دل نالاں وہ دست بہ دل حیراں اے عشق تو کیا ظالم تیرا ہی زمانا ہے یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے اے عشق جنوں پیشہ ہاں عشق جنوں پیشہ آج ایک ستم گر کو ہنس ہنس کے رلانا ہے تھوڑی سی اجازت بھی اے بزم گہ ہستی آ نکلے ہیں دم بھر کو رونا ہے رلانا ہے یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے خود حسن و شباب ان کا کیا کم ہے رقیب اپنا جب دیکھیے اب وہ ہیں آئینہ ہے شانا ہے تصویر کے دو رخ ہیں جاں اور غم جاناں اک نقش چھپانا ہے اک نقش دکھانا ہے یہ حسن و جمال ان کا یہ عشق و شباب اپنا جینے کی تمنا ہے مرنے کا زمانا ہے مجھ کو اسی دھن میں ہے ہر لحظہ بسر کرنا اب آئے وہ اب آئے لازم انہیں آنا ہے خودداری و محرومی محرومی و خودداری اب دل کو خدا رکھے اب دل کا زمانا ہے اشکوں کے تبسم میں آہوں کے ترنم میں معصوم محبت کا معصوم فسانا ہے آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگرؔ لیکن بندھ جائے سو موتی ہے رہ جائے سو دانا ہے جگر مراد آبادی

سب کی "بانو آپا" کی آج 5 فروری کو آٹھویں برسی ہے۔ وہ 28 نومبر، 1928ء کو فیروزپور میں زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ نام قدسیہ رکھا گیا. اُن کے والد چودھری بدرالزماں چٹھہ زراعت کے گریجویٹ اور ایک گورنمنٹ فارم کے ڈائریکٹر تھے. ان کا 31 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔ اس وقت ان کی والدہ ذاکرہ بیگم کی عمر صرف 27 برس تھی اور قدسیہ ساڑھے تین برس کی تھیں. انھیں بچپن سے ہی کہانیاں پڑھنے اور لکھنے کا شوق تھا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور آ گئیں۔لاہور آنے سے پہلے وہ دھرم شالا میں زیر تعلیم رہیں۔ اُن کی والدہ مسز چٹھہ محکمہ تعلیم سے وابستہ تھیں۔ قدسیہ چٹھہ نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور سے اور ریاضی اور اقتصادیات میں گریجویشن کنیئرڈ کالج لاہور سے کی ۔ 1949 میں انھوں نے گورنمٹ کالج لاہور میں ایم اے اُردو میں داخلہ لیا اور 1951ء میں ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کرلی۔ گورنمنٹ کالج میں کلاس فیلو اشفاق احمد سے دوستی ہوئی ، بعد میں انہوں نے شادی کرلی۔ایک سال بعد میاں بیوی نے ایک ادبی رسالہ ’’داستان گو‘‘ جاری کیا، جس کا تمام کام خود کرتے تھے، رسالے کا سرورق بانو قدسیہ کے بھائی پرویز چٹھہ بناتے تھے

اور وہ ایک دستی مشین سے چھاپا جاتا تھا۔ یہ خوبصورت رسالہ چار سال چلا. بانو قدسیہ کا پہلا افسانہ ’’واماندگی شوق‘‘ 1950 میں ’’ادبِ لطیف‘‘ میں شایع ہوا تھا۔ ٹی وی پر بانو قدسیہ کی پہلی ڈراما سیریل ’’سدھراں‘‘ تھی. ٹی وی کے لیے ان کے سیریلز اور طویل ڈراموں میں ’دھوپ جلی‘، ’خانہ بدوش‘، ’کلو‘ اور ’پیا نام کا دیا‘ شامل ہیں. 1981 میں شایع ہونے والا ناول ’’راجہ گدھ‘‘ بانو قدسیہ کی شناخت بنا. اس کے کئی ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں. 1983ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے بانو قدسیہ کو ستارۂ امتیاز اور 2010ء میں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا ۔ 2012ء میں کمالِ فن ایوارڈ دیا گیا۔ بانو قدسیہ کی تصانیف آتش زیر پا آدھی بات ایک دن امر بیل آسے پاسے بازگشت چہار چمن چھوٹا شہر، بڑے لوگ دست بستہ دوسرا دروازہ دوسرا قدم فٹ پاتھ کی گھاس حاصل گھاٹ ہوا کے نام ہجرتوں کے درمیاں کچھ اور نہیں لگن اپنی اپنی مرد ابریشم موم کی گلیاں ناقابل ذکر پیا نام کا دیا پروا پروا اور ایک دن راجہ گدھ سامانِ وجود شہرِ بے مثال شہر لازوال آباد ویرانے سدھراں سورج مکھی تماثیل