
Jamaat-e-Islami Hind (JIH)
7.7K subscribers
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

*असम सरकार का 'चुनिंदा' क्षेत्रों में हथियार लाइसेंस जारी करने का फैसला चिंताजनक : जमाअत उपाध्यक्ष* *नई दिल्ली, 30 मई 2025:* जमाअत-ए-इस्लामी हिंद के उपाध्यक्ष मलिक मोतसिम खान ने असम सरकार के 'कमजोर' क्षेत्रों में हथियार लाइसेंस जारी करने के फैसले पर गंभीर चिंता व्यक्त की है। मीडिया को जारी एक बयान में जमाअत उपाध्यक्ष ने कहा, "हम असम कैबिनेट द्वारा कथित रूप से राज्य के 'असुरक्षित और दूरदराज' क्षेत्रों में रहने वाले 'मूल निवासियों और स्वदेशी भारतीय नागरिकों' को हथियार लाइसेंस जारी करने के हालिया फैसले पर गंभीर चिंता व्यक्त करते हैं। मुख्यमंत्री हेमंत बिस्वा सरमा द्वारा घोषित यह नीति एक प्रतिगामी और खतरनाक कदम प्रतीत होती है, जो सामाजिक तनाव को बढ़ा सकती है और कानून के शासन को कमजोर कर सकती है। नागरिकों को चुनिंदा रूप से हथियार देने का निर्णय, ऐसी नीति के इरादे और निहितार्थ पर गंभीर प्रश्न उठाता है।इन क्षेत्रों को 'असुरक्षित' घोषित करना तथा चुनिंदा समूहों को शस्त्र लाइसेंस देकर सशक्त बनाना, अल्पसंख्यक समुदायों को हाशिए पर डालने तथा उन्हें डराने के उद्देश्य से प्रतीत होता है।'मूल निवासियों' को परिभाषित करने के लिए असम सरकार के मानदंड अस्पष्ट बने हुए हैं, जिससे शस्त्र लाइसेंस जारी करने में मनमाने और भेदभावपूर्ण व्यवहार को बढ़ावा मिलने की संभावना है।" मलिक मोतसिम खान ने आगे कहा, "इस कदम को असम सरकार की हालिया कार्रवाइयों के व्यापक संदर्भ में देखा जाना चाहिए, जिसमें बंगाली भाषी मुसलमानों को बिना उचित प्रक्रिया के 'विदेशी' करार देकर हिरासत में लेना और अल्पसंख्यक समुदायों को असंगत रूप से प्रभावित करने वाली नीतियों को लागू करना शामिल है। इस तरह के उपायों से भय का माहौल पैदा होता है, पुलिस, बीएसएफ और अन्य कानून प्रवर्तन एजेंसियों की भूमिका कमजोर होती है, तथा क्षेत्र में दिन-प्रतिदिन हिंसा में बढोतरी हो सकती है। जमात-ए-इस्लामी हिंद असम सरकार से आग्रह करती है कि वह इस अत्यधिक प्रतिगामी निर्णय को तत्काल वापस ले तथा सुरक्षा संबंधी चिंताओं को दूर करने के लिए सभी हितधारकों के साथ समावेशी वार्ता करे तथा हिंसा भड़काने वाले या सामाजिक एवं सांप्रदायिक विभाजन को गहराने वाले उपाय न करे। हम नागरिक समाज संगठनों, मानवाधिकार निकायों और न्यायपालिका से इस निर्णय की जांच करने और यह सुनिश्चित करने का आह्वान करते हैं कि असम में सभी समुदायों के अधिकार और सुरक्षा सुरक्षित रहें।”

" مسلمان کے اندر قربانی کی وہی روح، اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت و وفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔ اگر کوئی شخص محض ایک جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس روح سے خالی رہتا ہے تو وہ ناحق ایک جانور کا خون بہاتا ہے۔ خدا کو اس کے خون اور گوشت کی کوئی حاجت نہیں، وہاں تو جو چیز مطلوب ہے وہ دراصل یہ ہے کہ جو شخص کلمہ ’ لاالہ الا اللہ ‘ پر ایمان لائے وہ مکمل طور پر بندۂ حق بن کر رہے ،، کوئی تعصب، کوئی دلچسپی ، کوئی ذاتی مفاد، کوئی دباؤ اور لالچ ، کوئی خوف اور نقصان ، غرض کوئی اندر کی کمزوری اور باہر کی طاقت اس کو حق کے راستے سے نہ ہٹا سکے۔" مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ


*آسام کے منتخبہ علاقوں میں اسلحہ لائسنس جاری کرنے کا فیصلہ انتہائی تشویشناک: ملک معتصم خان، نائب امیر جماعت اسلامی ہند* *نئی دہلی:* جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے آسام حکومت کے اس فیصلے پر اپنی گہری تشویش ظاہر کی ہے جس کے تحت ریاست کے 'حساس' علاقوں کے لیے اسلحہ لائسنس جاری کئے جائیں گے ۔ میڈیا کے لیے جاری اپنے بیان میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر نے کہا کہ ہم آسام کابینہ کے حالیہ فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں جس کے مطابق ریاست کے ان علاقوں میں، جنہیں 'حساس اور دور دراز' کہا گیا ہے، ‘ اصل باشندوں اور مقامی بھارتی شہریوں' کو اسلحہ لائسنس جاری کئے جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کے اعلان کردہ اس پالیسی کو ہم ایک متعصبانہ اور خطرناک قدم سمجھتے ہیں۔ یہ فیصلہ ریاست میں سماجی کشیدگی میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے اور اس سے قانون کی بالادستی کمزور ہوگی۔ ملک معتصم خان نے کہا کہ شہریوں کو منتخب انداز میں مسلح کرنے کے فیصلے کے حوالے سے حکومت کی منشاء اور اس کے ممکنہ اثرات پر کئی سنگین سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔ منتخبہ علاقوں کو ’حساس‘ قرار دے کر مخصوص گروہوں کو اسلحہ لائسنس دینا اقلیتوں کو حاشیے پر ڈالنے اور انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ آسام حکومت کی طرف سے ’اصل باشندوں‘ کی تعریف بھی نہایت مبہم ہے جو اسلحہ لائسنس کے اجرا میں من مانی اور امتیازی سلوک کو جنم دے سکتی ہے۔ ملک معتصم خان نے مزید کہا اس اقدام کو آسام حکومت کے ان حالیہ رویوں کے پس منظر میں بھی دیکھنا ضروری ہے ۔ جن میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو 'غیر ملکی' قرار دے کر بغیر کسی قانونی عمل کے حراست میں لینا اور ایسی پالیسیاں نافذ کرنا شامل ہیں جو اقلیتی برادریوں کو غیر مناسب طور پر متاثر کرتی ہیں۔ ایسے اقدامات سماج میں خوف کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ پولیس، بی ایس ایف اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو کمزور کرتے ہیں اور روزمرہ کی زندگی میں انتہائی درجے کے تشدد کا باعث بن سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند آسام حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس متعصابانہ فیصلے کو فوری طور پر واپس لے اور تمام متعلقہ فریقوں کو اعتماد میں لیکر ان سے بات چیت کرے تاکہ سلامتی کے مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکے۔ ملک معتصم خان نے کہا کہ تشدد کو ہوا دینے یا سماجی و فرقہ وارانہ تقسیم کو گہرا کرنے کے بجائے باہمی اعتماد کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عدلیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ اس فیصلے کا باریک بینی سے جائزہ لیں اور آسام کی تمام برادریوں کے حقوق اور سلامتی کو یقینی بنائیں۔

عشرہ ذوالحجہ: اللہ سے قریب ہونے کا وقت

Every year, especially during Eid ul-Adha, the politics of forced vegetarianism attempts to dominate public discourse. In this video, Salman Ahmad debunks the myths surrounding vegetarian supremacy and explains why the politics of enforced vegetarianism in India is built on weak and unfounded arguments. *Watch and share widely.* https://youtu.be/RTK7vk-LBDw