
اہل دل کی دل آویز باتیں 📙
437 subscribers
About اہل دل کی دل آویز باتیں 📙
”میں نے اس شہر میں ایسے لوگ دیکھے ہیں جن میں عیب نہیں تھے مگر وہ لوگوں کی عیب جوئی کرتے تھے، تو ان کے اپنے عیوب آشکار ہو گئے۔ اور ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جن میں بڑے عیب تھے مگر وہ لوگوں کے عیبوں پر خاموش رہتے تھے، تو ان کے عیب بھی بھلا دییے گئے۔“ (امام دار الهجرة مالك بن أنس رحمه الله)
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

پس تنبیہ اور ہوشیاری کی تمام تدبیریں ہو چکیں، اور ایک سوتے ہوتے کو جگانے کے لئے جو کچھ کیا جاسکتا تھا، وہ سب کچھ کیا جا چکا، پر افسوس کہ تمہاری آنکھیں بند ہیں، تمہاری غفلت کا نشہ کسی طرح نہیں اترتا، اور تمہاری موت کی نیند کسی طرح بھی نہیں ٹوٹتی۔ دنیا میں انسان کے لئے عقل و بصیرت ہے، عقلاء کی دانائیاں ہیں، ہادیوں کی ہدایتیں ہیں، واعظوں کے وعظ ہیں، خدا کے مقدس فرشتے ہیں اور رسولوں کی بتلائی ہوئی تعلیمات ہیں، پھر حوادث و تغیّرات ہیں، انقلابات و تبدّلات ہیں، آثار و علائم ہیں، استنباط و استشهاد ہے، لیکن آہ، وہ قوم جس کی غفلت کے لئے یہ سب کچھ بیکار ہے، نہ دنیا کے گزرے ہوئے واقعات میں اس کے لئے کوئی اثر ہے، نہ حال کے حوادث و تغیّرات میں اس کے لئے کوئی پیغام ہے، نہ اللہ کے کلام سے ڈرتی اور کانپتی ہے اور نہ بندوں کی ہدایتوں سے عبرت پکڑتی ہے۔ ابوالکلام آزاد رحمه الله

اپنے من پسند شخص کی آوازیں ریکارڈ کرلیں اور اُنہیں اچھی طرح سے کہی محفوظ کرلیں یہ نہ پوچھیں کہ کیوں میرے ہمدم وقت بہت ظالم ہے ۔

ایک بیوی کا اپنے خاوند کو خط : جب میں مر جاؤں تو میری قبر پہ ضرور آنا، اور جب آؤ تو شام کے اندھیرے میں آنا اور آتے ہوئے سفید گلاب لے کر آنا ـ پھر قبر پر ہاتھ پھیرنا اور میری کہی وہ سب باتیں دھرانا جو کبھی تمہارے مسکرانے کی وجہ بنی تھی ۔تم سے ہوئی ساری باتیں دھرانا اور ان ناموں سے مخاطب کرنا جن سے تم کیا کرتے تھے اور میں چاہتی ہوں تم ہر اس شام میرے پاس آؤ جس شام مجھے سپردخاک کیا گیا ہو ۔ اور میں چاہتی ہوں کہ تمہیں ہمیشہ میری موت کا دن یاد رہے اور اس دن تم ساری دنیا کے کام چھوڑ کر میرے پاس آؤ اور پھر بتاؤ مجھے کہ تم نے کس کس شخص میں میرا عکس تلاشنے کی کوشش کی ( لیکن ان میں مجھے تلاش نہ کرسکے) اور بتاؤ ہر وہ راز جو سینے میں دفن کر رکھیں ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ میری محبت کا یہ صلہ دیا جائے ۔ والسلام

قبر میں جسم سلامت رہ جائے یہ خالق کی عطا ہوتی ہے اور اگر کیڑے مکوڑے جسم سے اپنا رزق لینے آئیں تو وہ دماغ کی یاداشت کے ان خلیوں کو بھی اپنا رزق بنا لیں گے جن میں کبھی اس دنیا کے وہ کردار بھی رہے ہوں گے جن کی ملاقات کیلیے زندگی سو بار تڑپ جایا کرتی ہے۔۔۔ وہ خلیے بھی ان کیڑوں کی خوراک ہونگے جن خلیوں میں دنیا میں جیتے ہوئے وہ خواب بھی ملاقات کرنے آئے ہوں گے کہ جن خوابوں کا ٹوٹنا مقدر تھا۔ اور آنکھوں کی سفیدی کو بھی چیونٹیاں آٹا سمجھ کر اپنا رزق بنا لیں گی جن آنکھوں کے سامنے کچھ منظر صرف منظر ہی رہے، کبھی حقیقت نہ بنے۔ المختصر یہ کہ کیڑے خوابوں اور قریبی کرداروں کو ہرگز نہ کرید سکیں گے جن کو کوئی انسان لاچارگی کیساتھ اپنی موت کے وقت اپنے دل و دماغ میں ادھورا چھوڑ جاتا ہے۔