
پاکستان تحریک انصاف
385 subscribers
About پاکستان تحریک انصاف
پاکستان تحریک انصاف کاغذ پر ایک سیاسی جماعت ہے، لیکن یہ اس سے کہیں بڑی ہے، یہ ایک خوشحال پاکستان کا خواب ہے جہاں ہمیشہ مرد اور عورت کی عزت نفس بلند ہو اور انسانیت کے اصولوں کے مطابق ساتھی شہریوں کا خیال رکھا جائے۔ قوم کی وحدت کی علامت بانی تحریک انصاف عمران خان کا مقصد سب کے لیے انصاف کو یقینی بنانا ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ایک انصاف پسند معاشرے میں کامیابی کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر، پی ٹی آئی صرف اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ ہم اپنی قوم کا بہترین ورژن ہوں اور اپنے لیے ایک نام بنائیں۔ اس دنیا میں ہمیں یقین ہے کہ پاکستان بہت ہی اسپیشل ملک ہے، قدرتی وسائل سے مالا مال اور مخلص اور ذہین لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ مزید http://insaf.pk/what is pti پر
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

مراد سعید ۸ فروری کے احتجاج کی تیاری میں مختلف حلقوں میں کارنر میٹنگز اور فلیش پروٹیسٹ ہورہے ہیں۔ آئندہ آنے والے دنوں میں آپ کو ان میں مزید تواتر دیکھنے کو ملے گا۔ اس کے علاوہ آئی ایس ایف او یوتھ کی ممبر سازی مہم کا بھی آغاز کردیا گیا ہے۔ گذشتہ رکنیت سازی مہم کے نتیجے میں بننے والے ۲۷ لاکھ ممبران کو فعال کرنے کے لیے ان سے رابطے اور پارٹی سطح پر ممبر شپ مہم کا بھی جلد آغاز کیا جائیگا۔ ہماری تحریک اس وقت پاکستانی قوم کی آئین و قانون کی بحالی، جمہور کی حکمرانی اور ملک کے روشن مستقبل کی اکلوتی امید ہے۔ اس لیے جہاں گراؤنڈ پر احتجاج کی تیاری جاری ہے وہیں سوشل میڈیا ایکٹویسٹس اور بیرون ملک مقیم پاکستانی یہ سوال اٹھاتے رہیں کہ #گولی_کیوں_چلائی اور اسی شدت کے ساتھ ناحق اسیران کی رہائی کے لیے اپنی آواز بلند کرتے رہیں۔ اپنے آج اور اپنی جانوں کو داؤ پر لگا کر یہ ہمارےمستقبل کے لیے نکلے تھے، ان شہیدوں اور ان اسیران کو انصاف دلانا ہمارا فرض ہے۔ گرفتار کارکنان کی رہائی کے لیے پارٹی سطح پر اور انفرادی کوششیں ہورہی ہیں۔ اسلام آباد سے گرفتار متعدد کارکنان رہا ہوچکے ہیں تاہم پنڈی ریجن سے گرفتار ہونے والے افراد آج بھی اٹک اور جہلم وغیرہ کی جیلوں میں مقید ہیں۔ ان کارکنان کے خلاف ایک ایک فرد پر ۷-۸ مقدمے درج کیے گئے ہیں۔ ان کی رہائی کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ان کے اہل خانہ کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے لیے بھی اپنے تئیں ٹیمیں تشکیل دی ہیں جو ان سے رابطے میں ہیں۔ آپ کی معلومات کے لیے بتا دوں کہ ۲۶نومبر کے قافلوں میں شریک گاڑیاں جن میں بیشتر کو یا تو رینجرز اور سیکیوریٹی فورسز نے توڑ دیا تھا یا انہیں آگ لگا دی گئی تھی، ان کی علاوہ جن گاڑیوں کو قبضے میں لیا گیا تھا ان کی واپسی کے لیے پہلے پیسے مانگے گئے۔ اور جب قانونی راستے سے ان کی واپسی کا حکم نامہ حاصل کیا گیا تو ان گاڑیوں کے پارٹس یہاں تک کہ ٹائرز تک چرا لیے گئے۔ یہ قتل و غارتگری یہ ننگی فسطائیت، یہ بدمعاشی صرف اور صرف آپ کا حوصلہ توڑنے کی کوشش ہے۔ آپ کو کبھی دہشتگرد، کبھی انتشاری، کبھی ملک دشمن کہہ کر ہر پریس کانفرنس ہر ٹاک شو میں نشانہ اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ تمام بڑے چینلز پر اپنی اجارہ داری قائم کرکے اربوں روپے کا پراپگینڈہ اور ریاستی مشینری کا استعمال بھی آپ کے بولے اس سچ کے سامنے ہیچ ہے جس کی ترویج کے لیے نہ فالس فلیگ کرنے پڑتے ہیں، نہ چادرو چاردیواری پامال کی جاتی ہی نہ ماورائے قانون اغوا اور گرفتاریاں کی جاتی ہیں۔ ارشد شریف نے کیا خوب کہا تھا ”یہ تو آئینہ ہے، اگر اس میں آپ کی شکل بری نظر آرہی ہے تو آئینہ مت توڑیں۔ اپنے خدوخال درست کریں“۔ جہاں غاصب مافیہ کے لیے مناسب ہوگا کہ اس تلقین پر غور کر لے (کیونکہ جبر سے جمہور کیا زیر ہونا تھا اپنے نقش مٹنے کی نوبت آگئی ہے) وہاں آپ بھی اپنی طاقت کا ادراک کریں۔ اپنا نشانہ درست اور توجہ منزل پر مرکوز رکھیں۔ سفر طویل ضرور ہوگیا ہے مگر بے منزل نہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی اڈیالہ جیل میں وکلاء اور میڈیا سے گفتگو: “پاکستان اس وقت ٹاوٹس کے قبضے میں ہے۔ ایک ایسا ٹاوٹ سکندر سلطان راجہ بھی تھا جو 2024 الیکشن چوری کا سرغنہ ہے اور اس پر آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی ہونی چاہیے تا کہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے۔ محسن نقوی کے پاس ایسی کون سی گیڈر سنگھی ہے جو اس پر عہدوں کی بارش کی گئی ہے۔ اشاروں پر ناچنے والا ایک عقل سے عاری شخص کرکٹ سے لے کر خارجہ اور داخلہ امور سمیت سیکورٹی معاملات کا ماہر کیسے ہو سکتا ہے؟ پاکستانی قوم اپنے مینڈیٹ پر ڈالے گئے تاریخی ڈاکے کے خلاف 8 فروری کو پورے ملک میں نکلے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروائے- صرف 17 نشستیں جیتنے والی پارٹی کو اقتدار دے کر “اردلی حکومت” ملک پر مسلط کر دی گئی جو پاکستان کے ہر ادارے کو تباہ کر رہی ہے- میں عدلیہ کی آزادی کے لیے دی گئی 10 فروری کی پاکستان بھر کی بار ایسوسی ایشنز اور وکلاء کی کال کی بھی حمایت کرتا ہوں۔ ملک میں قانون کی حکمرانی کے بغیر کسی قسم کا استحکام ممکن نہیں ہے اور قانون کی حکمرانی آزاد عدلیہ کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔ جس طرح چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی غرض سے ملک میں آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں اس کے خلاف پاکستانی عوام میں شدید نفرت پائی جا رہی ہے۔ جو حالات ہیں اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ موجودہ نظام جمہوریت کے خلاف باقاعدہ برسر پیکار ہے، اور روز ایک ایسا نیا اقدام اٹھایا جاتا ہے جو جمہوریت کی روح کے عین منافی ہو۔ روایتی میڈیا تو پہلے ہی بوٹوں کے نیچے ہے۔ اب پیکا کا کالا قانون منظور کر کے عوام کے حق رائے دہی کا واحد ذریعہ یعنی سوشل میڈیا پر بھی مارشل لاء لگا دیا گیا۔ یہ زبان بندی کی قبیح ترین کوشش ہے اور پاکستان کو بین الاقوامی پابندیوں سے قریب تر کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ پیکا کا قانون اگر لاگو کرنا ہی ہے تو سب سے پہلے شہباز شریف پر لاگو کیا جائے جنہوں نے ملکی تاریخ کے سب سے دھاندلی زدہ انتخابات کو فری اینڈ فئیر قرار دیا ہے۔ انہوں نے 26 نومبر کے قتل عام کو بھی جھٹلایا اور یہ کہا کہ کوئی گولی نہیں چلی نہ ہی کوئی شہادت ہوئی لہذا پیکا قانون کے تحت سب سے پہلی سزا شہباز شریف کو ملنی چاہیئے۔ بددیانت لوگ کبھی نیوٹرل امپائرز نہیں چاہتے۔ رجیم کیونکہ خود 26 نومبر اور نو مئی کے واقعات میں ملوث ہے اس لیے ان سے شفاف جوڈیشل کمیشن کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ ہم جوڈیشل کمیشن کا قیام صرف اس لیے چاہتے ہیں کیونکہ ہم انصاف کے متلاشی ہیں۔ جو مجرم ہیں وہ نہیں چاہتے کہ حقیقت سامنے آئے۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت کسی بھی صوبے کے آئی جی اور چیف سیکرٹری کی تقرری صوبائی حکومت کی صوابدید ہے۔ ایک مرتبہ پھر آئین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے صوبائی حکومت کے دئیے گئے تین ناموں کو اپنے “پاکٹ لاز” کے ذریعے ردی کی ٹوکری میں پھینک کر خیبر پختونخوا میں وفاق کی مرضی کا آئی جی انسٹال کر دیا گیا۔ میں علی امین کو خصوصی ہدایت کر رہا ہوں کہ صوبے کی عوام کے حقوق کا تحفظ آپ کی ذمہ داری ہے۔ ملک کے باقی تینوں صوبوں میں پہلے ہی ہمارے کارکنان کے خلاف ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے اگر خیبرپختونخوا میں بھی ہمارے کارکنان کو یہ سب برداشت کرنا پڑا تو اس کی ذمہ دار ی صوبائی حکومت بھی اور وزیراعلیٰ پر ہو گی۔ ہمارے کسی ورکر کے خلاف کوئی زیادتی ہوئی تو فوری ایکشن لے کر آئی جی کو فارغ کرنا ہے۔”

عمران خان کے یہ چار الفاظ بہت مختصر لیکن لرزہ خیز ہیں۔جب آپ کو معلوم ہو کہ آپ کے پیچھے عوام کھڑے ہیں اور آپ ووٹ کی طاقت سے آ سکتے ہیں تو آپ ایسے ہی مطمئن اور پر یقین ہوتے ہیں۔مجھے تو یہ بیان پڑھ کر بے ساختہ ادریس بابر کا یہ شعر یاد آ گیا۔ میں جنہیں یاد ہوں اب تک یہی کہتے ہونگے شاہ زادہ کبھی ناکام نہیں آ سکتا

لورالائی بلوچستان سے تحریک انصاف کے سینئیر رہنما اسفند یار خان کو پرامن احتجاج کے پیش نظر کل بھرپور فسطائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا اور آج انہیں ہتھکڑیوں میں جکڑ کر مجرموں کی طرح عدالت پیش کیا گیا، اسفند یار کی تضحیک کر کے باقی بلوچستان کے نوجوانوں کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ آپ خاموش رہیں گے آپکو سیاست کا کوئی حق نہیں ہے، اگر آپ نظام کے خلاف جدوجہد کریں گے تو یا تو آپ کو لاپتہ کر دیا جائے گا یا پھر آپکو بھی نشان عبرت بنا دیا جائے گا، فوجی قیادت کی انہیں غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام اور فوج کے درمیان خلیج میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، بہتر ہے #اپنا_ادارہ_ٹھیک_کرو