𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔 WhatsApp Channel

𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔

233 subscribers

About 𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔

ہم مہیا کریں گے آپ کو شعر و شاعری اور طنز و مزاح سے بھرپور چینل.......

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
5/24/2025, 6:28:23 AM

Follow the 𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔 channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029VaDvsFm3bbV0NNCfrT18 ✍🏻 *سرمایہ دارانہ جمہوریت یا خلافتِ اسلامیہ؟* دنیا میں ہمیشہ تین ہی بڑے دین رہے ہیں: اسلام، کمیونزم، اور کیپیٹلزم۔ کمیونزم اپنی موت آپ مر چکا، اب صرف دو قوتیں رہ گئی ہیں: اسلام اور کیپیٹلزم۔ اسلام ایک مکمل دین ہے، ایک طریقۂ زندگی، جو زندگی کے ہر پہلو کو عقیدے کے تابع کرتا ہے۔ جبکہ کیپیٹلزم صرف مادی مفاد، آزادی، اور طاقت کے اصول پر قائم ہے۔ کیپیٹلزم میں عقیدے کا خاتمہ کیپیٹل نظام میں عقیدہ، یعنی زندگی کے پہلے اور بعد کے مرحلے سے جڑنے والی سوچ، قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ ریاست مذہب سے الگ کر دی گئی ہے۔ آج کے دور میں حکومت کہتی ہے: خدا کو مانو یا نہ مانو، یہ ذاتی معاملہ ہے ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں قانون وہ ہوگا جو انسان خود بنائے گا، چاہے وہ شراب کو جائز کرے یا ہم جنس پرستی کو اس کا مطلب ہے: انسان اپنے لیے خود خدا بن بیٹھا ہے۔ کیپیٹلزم میں جمہوریت: مفاد پرستی کا نظام کیپیٹلزم میں جمہوریت ایک ایسا ڈھانچہ ہے جو عوام کو صرف ظاہری شرکت کا احساس دلاتی ہے، جبکہ اصل میں تین اصولوں پر کام ہوتا ہے: فلاحی کام عوام کے نمائندوں کی مرضی پر عوام کے ووٹوں سے یا بغیر ووٹوں کے جو ایم پی ایز یا نمائندے آتے ہیں، وہ اپنی مرضی سے عوام کے نام پر جو چاہیں فلاحی منصوبے شروع کرتے ہیں — چاہے ان کی کوئی حقیقی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ قانون سازی انسانی رائے پر مبنی چند گنے چنے لوگ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر وہ قانون بناتے ہیں جو ان کو مناسب لگے — چاہے وہ اللہ کے حکم کے خلاف ہو۔ عوام کا کردار صرف خاموشی سے اس قانون کو تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ مفاد پر مبنی فیصلے ریاست اور ادارے وہی کام کرتے ہیں جن سے خود کو فائدہ ہو۔ اصول نہیں، بلکہ مفاد فیصلوں کی بنیاد ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاقتور اور سرمایہ دار ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں، غریب ہمیشہ پس جاتے ہیں۔ خلافت: وحی پر مبنی نظام اب آئیں خلافت کی طرف، جو صرف ایک سیاسی نظام نہیں بلکہ اللہ کی حاکمیت کا اعلان ہے۔ قانون صرف شریعت کا ہوگا خلیفہ خود بھی قرآن و سنت کا پابند ہوتا ہے۔ وہ چاہ کر بھی کسی قانون کو نہ بدل سکتا ہے اور نہ اس میں کمی بیشی کر سکتا ہے۔ فلاحی امور عوام کی رائے سے سڑک بنانی ہو، اسپتال قائم کرنا ہو، اسکول، پل، یا دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کرنی ہوں — یہ سب عوام کی ترجیح پر ہوں گے۔ ان امور میں عوام کی شرکت ہوتی ہے۔ ترقیاتی منصوبے: عقل و علم کے تحت جہاں ریاست کو بڑے سائنسی منصوبے شروع کرنے ہوں — جیسے نیوکلیئر پلانٹ، ڈیم، یا صنعتی منصوبے — وہاں خلیفہ ماہرینِ سائنس، انجینئرز اور ماہرینِ معیشت سے مشورہ لے کر فیصلہ کرے گا۔ معاشی فرق: خلافت vs کیپیٹلزم (تفصیلاً) کیپیٹلزم میں: بنیادی ضروریات (روٹی، علاج، تعلیم، بجلی) ریاست کی ذمہ داری نہیں تیل، پانی، گیس، بجلی — سب نجی یا حکومتی کنٹرول میں، اور ان پر منافع کمایا جاتا ہے خلافت میں: ان سب وسائل کو عوامی ملکیت قرار دیا گیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "المسلمون شركاء فی ثلاث: فی الماء والكلأ والنار" (ابو داؤد، حدیث: 3477) ترجمہ: "تمام مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی، چراگاہ اور آگ (ایندھن)۔" اس کا مطلب: پانی = آج کی بجلی، آبی وسائل چراگاہ = زمین، معدنیات، زراعتی وسائل آگ = تیل، گیس، کوئلہ، ایندھن یہ سب چیزیں عوامی ملکیت ہیں — نہ کوئی فرد، نہ کوئی کمپنی، نہ حکومت ان پر منافع کما سکتی ہے۔ "بغیر منافع" کا مطلب کیا ہے؟ "بغیر منافع" کا مطلب یہ نہیں کہ چیز مفت ہو گی، بلکہ یہ کہ: اگر بجلی پانی سے بنے گی، تو صرف پیداوار کی لاگت کے مطابق قیمت لی جائے گی تیل و گیس سے اگر کوئی سہولت حاصل ہو رہی ہے، تو صرف خرچ کی قیمت دی جائے گی — اس پر کوئی منافع، ٹیکس، یا کمیشن نہیں لیا جا سکتا حکومت خود بھی ان وسائل سے منافع کمانے کی حقدار نہیں خاتمہ: واحد نجات دہندہ نظام — خلافت جمہوریت کے خوشنما پردے میں چھپا سرمایہ دارانہ نظام انسانیت کو دھوکہ دیتا ہے۔ یہ نظام: عقیدے کو ذاتی مسئلہ بناتا ہے قانون سازی کو انسانی خواہشات پر چھوڑتا ہے اور فیصلے مفادات کی بنیاد پر کرتا ہے اسلامی خلافت: اللہ کی حاکمیت پر مبنی ہے عدل، فلاح، اور مشاورت پر استوار ہے اور عوام کو ہر سطح پر بااختیار کرتی ہے اسلام صرف ایک مذہب نہیں، بلکہ ایک مکمل، زندہ، عالمی نظامِ حیات ہے — جو ہر دور میں انسانیت کی نجات کے لیے آیا ہے۔

𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
5/24/2025, 6:29:00 AM

Follow the 𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔 channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029VaDvsFm3bbV0NNCfrT18 ✍🏻 السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ مجھے دعا کرنے کا اصل طریقہ ایک ٹرینر نے سکھایا تھا‘ یہ جسمانی ورزش کا استاد تھا اور میرے جیسے ’’مڈل ایج‘‘ لوگوں کو ایکسرسائز کے طریقے سکھاتا تھا۔ میں اکثر سوچتا تھا ہم میں سے اکثر لوگ پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں‘ اﷲ تعالیٰ ہمیں گھنی داڑھی رکھنے کی توفیق بھی دیتا ہے‘ ہم وضو میں بھی رہتے ہیں‘ ہم عمرے بھی کرتے ہیں‘ حج کی سعات بھی کثرت سے حاصل کرتے ہیں اور زکوٰۃ بھی دیتے ہیں لیکن اس عبادت اور ریاضت کا ہماری ذات پر کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ ہم چالیس چالیس سال کی نمازوں کے بعد بھی متشدد ہوتے ہیں۔ ہم شیعہ اور سنی ہوتے ہیں‘ ہم جاہل بھی رہتے ہیں‘ ہم جی بھر کر منافع بھی کھاتے ہیں‘ ہم ذخیرہ اندوزی بھی کرتے ہیں‘ ہم کم بھی تولتے ہیں‘ ہم کم بھی ناپتے ہیں‘ہم دودھ میں پانی بھی ڈالتے ہیں‘ہم جعلی ادویات بھی بناتے ہیں اور ہم اپنے ملازمین کا حق بھی مارتے ہیں۔ میں سوچتا تھا ہماری نمازیں‘ روزے اور حج ہماری ذات پر اثر کیوں نہیں چھوڑتے جب کہ اﷲ تعالیٰ دعویٰ کرتا ہے مومن بے ایمان نہیں ہو سکتا۔ مومن سخت گیر بھی نہیں ہو سکتا‘ مومن بے انصاف اور منافق بھی نہیں ہو سکتا اور مومن متشدد اور انتہا پسندبھی نہیں ہو سکتا لیکن مومن ہونے کے باوجود ہم میں اسلام کی کوئی صفت دکھائی نہیں دیتی‘ کیوں؟ ہم اپنے اسلام سے اپنے بھائیوں اور بہنوں تک کو متاثر کیوں نہیں کر پاتے؟میں اکثر سوچتا تھا‘ پریشان ہوتا تھا اور پھردوسرے بے بس اور کم عقل مسلمانوں کی طرح اسے ایمان کی کم زوری قرار دے کر خاموش ہو جاتا تھا لیکن پھر مجھے وہ ٹرینر ملا اوراس نے میرے ذہن کی ساری گرہیں کھول دیں۔ اس نے بتایا ایکسرسائز کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے آپ جب کسی مسل کی ایکسرسائز کریں تو آپ دوران ایکسر سائز اس مسل کے بارے میں سوچیں۔ اس کا کہنا تھا مثلاً آپ اگربازوئوں کی ایکسرسائز کر رہے ہیں‘ آپ بازوئوں کی مدد سے وزن اٹھارہے ہیں تو آپ کو اپنی ذہنی یکسوئی بازوئوں پر رکھنی چاہیے‘آپ کے بازوئوں کے مسل بہت جلد ڈویلپ ہو جائیں گے‘ اسی طرح آپ چھاتی کی ایکسرسائز کر رہے ہوں تو آپ ایکسر سائز کے دوران چھاتی کے بارے میں سوچیں‘ آپ کی چھاتی کے مسل پھیل جائیں گے۔ اس کا کہنا تھا ہمارا دماغ طاقت کا ہیڈ کوارٹر ہوتا ہے‘ ہم جب اس ہیڈ کوارٹر کے بغیر ایکسرسائز کرتے ہیں تو ہمارے مسلز پر وزن‘ بوجھ یا کھچائو تو آتا ہے لیکن انھیں طاقت نہیں ملتی چناںچہ یہ اس رفتار سے نہیں بڑھتے جس رفتار سے ہم انھیں بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا ہم جب اپنے بازوئوں پر وزن ڈالتے ہوئے بازوئوں کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے ہیڈ کوارٹر میں جمع طاقت بازوئوں پر شفٹ ہو جاتی ہے اور یوں بازوئوں کو اندر اور باہر دونوں طرف سے طاقت ملتی ہے اور ہمارے بازوئوں کے مسل پھیلنے لگتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا یکسوئی کے بغیر بھی مسل پھیلتے ہیں لیکن ان کے پھیلنے کی شرح محض 30 فیصد ہوتی ہے اور ہم اگر اس 30فیصد میں دماغ یا یکسوئی کا 70فیصد شامل کر لیں تو ہمارے نتائج سو فیصد ہو جائیں گے۔ یہ لیکچر محض ایکسرسائز کے بارے میں تھا لیکن اس لیکچر کے دوران مجھ پر عبادت اور دعا کی رمز بھی کھل گئی‘ میں جان گیاہم چالیس چالیس سال عبادت کرنے کے باوجود اس عبادت کے اثرات سے ’’محفوظ‘‘ کیوں رہتے ہیں‘ ہم نیکی اور پارسائی کے دریا میں غوطے لگانے کے باوجود سوکھے کیوں رہتے ہیں‘ پارسائی اور عبادت ہماری ذات پر اثر کیوں نہیں کرتی؟ اس کی وجہ صرف اور صرف یکسوئی ہوتی ہے ‘عبادت کا تعلق روح کے ساتھ ہوتا ہے اور انسان کی تمام اچھائیاں بھی روح ہی میں اسٹور ہوتی ہیں۔ علم ہو‘ سچ ہو‘ ایمان ہو‘ صفائی ہو‘ شائستگی ہو‘ تہذیب ہو‘ اخلاق ہو اور سماجی‘ معاشی اور کاروباری اخلاقیات ہوں یہ سب انسانی روح میں جمع ہوتی ہیں‘ ہمیں ان میں سے چند اچھائیاں‘ چند خوبیاں درکارہوتی ہیں‘ ہم اگر عبادت کے دوران درکار اچھائیوں کے بارے میں سوچتے رہیں‘ ہم انھیں اپنی یکسوئی کا حصہ بنا لیں تو مسلز کی طرح ہماری یہ اچھائیاں بھی مضبوط ہونے لگتی ہیں اور یہ چند دنوں‘ چند برسوں میں حقیقت بن کر ہمارے سامنے آ جاتی ہیں۔ مثلاً اگر کسی شخص کو علم چاہیے اوریہ نماز کے دوران اللہ سے علم مانگنا شروع کر دے۔ یہ ذہن میں علم کو رکھ کر نماز شروع کرے‘ یہ تسبیح کے دوران بھی اللہ سے علم مانگتا رہے‘ یہ وضو کرتے ہوئے‘ صدقہ کرتے ہوئے ‘ دوسرے لوگوں کو راستہ بتاتے ہوئے اور روزے کے دوران اللہ سے علم مانگے تو اس کی روح میں چھپی طاقت اس کی دعا کے ساتھ شامل ہوجائے گی اور یوں اس پر علم کے دروازے کھل جائیں گے ‘ اسی طرح کوئی دکان دار ایمان دار ہونا چاہے‘ یہ ناپ‘ تول اور لین دین میں کھرا ہونا چاہے‘ یہ جعل سازی اور فراڈ سے بچنا چاہے تو یہ اس نیت کو اپنی نماز‘ اپنی عبادت کا حصہ بنا لے۔ یہ کوئی بھی تسبیح کرے لیکن نیت میں ایمان داری رکھے تو اﷲ تعالیٰ اس پر ایمان داری کا سبب کھول دیتا ہے ۔ اسی طرح کوئی شخص صاف ستھرا رہنا چاہتا ہے لیکن اس کا کام بدبودار یا گندا ہے‘ یہ شخص تسبیح یا نماز کے دوران صفائی کی نیت کر لے اور پوری نماز کے دوران اﷲ تعالیٰ سے صفائی مانگتا رہے تواﷲ تعالیٰ اس پر بھی صفائی کے اسباب کھول دے گا لیکن یہ تمنا‘ یہ خواہش نیت کی شکل میں ہونی چاہیے الفاظ یا فقروں کی صورت میں نہیں ہونی چاہیے کیوںکہ لفظوں اور فقروں میں بناوٹ آ جاتی ہے اور اﷲ تعالیٰ بناوٹ کو پسند نہیں کرتا۔ میں نے اس نقطے کی آگہی کے بعد قرآن مجید‘ احادیث مبارکہ اور سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا پورا قرآن مجید‘ احادیث اور سیرت اسی نقطے کے ارد گرد پھیلی ہے‘ پوری نماز‘ پورے روزے‘ پورے عمرے اور پورا حج اسی نقطے کے گرد گھومتا ہے‘ نماز کی زبان عربی ہے اور عرب نماز کے دوران اﷲ تعالیٰ سے وہ کچھ مانگتے ہیں جن کی ان کو ضرورت ہوتی ہے اور اﷲ تعالیٰ ان پر اسباب کھول دیتا ہے۔ ہماری زبان عربی نہیں چناںچہ ہم نے نماز رٹ رکھی ہے اور ہم یہ رٹی ہوئی نماز مکینیکل انداز میں پڑھ کر واپس آ جاتے ہیں‘ آپ آج سے غور کریں‘ ہم میں سے اکثر لوگوں کا دماغ نماز کے دوران مختلف سمتوں میں بھٹکتا ہے‘ ہم نماز کے دوران دماغ میں کسی نہ کسی کے ساتھ مکالمہ کرتے ہیں‘ ہم کچھ نہ کچھ سوچ رہے ہوتے ہیں‘ہم پرانے حساب جوڑنے میں لگ جاتے ہیں یا بچپن کے بچھڑے ہوئے دوستوں کو یاد کرنے لگتے ہیں۔ ہم اگر اپنی اس سوچ کی زبان پر غور کریں تو یہ زبان ہماری مادری زبان نکلے گی‘ گویا ہم نماز عربی میں پڑھتے ہیں لیکن سوچ اردو، پنجابی‘ سندھی‘ بلوچی یا پشتو میں رہے ہوتے ہیں اور ہماری یہ سوچ کیا ہوتی ہے؟ یہ جو بھی ہو یہ طے ہے اس کا تعلق نماز کے ساتھ نہیں ہوتا چناںچہ نماز کے دوران ہماری سوچ بھٹکتی رہتی ہے اور ہم اس دوران روبوٹ کی طرح مکینیکل نماز ادا کرتے رہتے ہیں۔ ہم امام صاحب کے پیچھے خود کار نظام کے تحت رسومات ادا کرتے جاتے ہیں اور مادری زبان میں دنیاداری کے بارے میں سوچتے جاتے ہیں اور یوں ہم خود کو بہتر بنانے کا موقع کھو دیتے ہیں‘ ہمارے پاس اپنی عبادت کو بہتر بنانے یا اس سے زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں‘ ہم نماز کو پوری طرح سمجھ کر ادا کریں‘ ہمیں ایک ایک لفظ کی سمجھ آ رہی ہو اور ہم اپنی خواہشوں‘ اپنی نیتوں کو ان لفظوں کے ساتھ جوڑرہے ہوں۔ ہم علم‘ خوش حالی‘ ایمان داری اور صفائی کو سورۃ کوثر کے ساتھ شامل کر رہے ہوں تو مجھے یقین ہے ہمارے لیے اسباب کھل جائیں گے۔ دوسرا ہم نماز عربی میں ادا کریں لیکن اپنی خواہش‘ اپنی نیت اور اپنی دعا کو اپنی مادری زبان میں اس کے ساتھ جوڑ دیں‘ ہم خیال کو زیادہ نہ بھٹکنے دیں‘ ہم اسے اپنی دعا کے قریب قریب رکھیں‘ہم اگر علم چاہتے ہیں تو ہم اس علم کی نیت لے کر مسجد جائیں اور نماز کے دوران اپنی اس نیت کو تازہ رکھیں‘ ہماری سوچیں‘ ہمارے خیالات اس نیت کے ساتھ جڑے رہیں‘ اللہ تعالیٰ کرم کرے گا۔ میں اﷲ کے کرم سے پچھلے 20برس سے اس فارمولے کے تحت تسبیحات کر رہا ہوں اور میں نے ان تسبیحات کے دوران اﷲ تعالیٰ سے جو بھی مانگا، اﷲتعالیٰ نے کرم کیا اور مجھے عنایت کر دیا اور اس عنایت میں ایسی ایسی خامیوں سے چھٹکارا بھی شامل ہے جن کے بارے میں میرا خیال تھا یہ میری فطرت کا حصہ ہیں اور انسانی فطرت تبدیل نہیں ہوتی۔ اﷲ تعالیٰ نے میری ان خامیوں کو خوبی میں بدل دیا چناںچہ آپ میرے تجربے کی بنیاد پر یہ فارمولا استعمال کر سکتے ہیں‘ اﷲ تعالیٰ آپ پر بھی کرم کرے گا۔ منقول

𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
5/24/2025, 6:26:39 AM

Follow the 𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔 channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029VaDvsFm3bbV0NNCfrT18 ✍🏻 💥 *مائیں غور سے سمجھ لیں* 💥 🔹 وہ ماں جو مرچ مصالحے والے کھانے پکانے کی عادی *ہو،اُس کے بچے بڑے ہو کر مرچ مصالحہ پسند کریں گے۔* 🔹 اور وہ ماں جو کم نمک والے کھانے پکاتی ہو، *اُس کے بچے کم نمک والے کھانے پسند کریں گے۔* 🔹 *اور وہ ماں جو دوسروں کی* *برائی کرتی ہو، اپنے شوہر، سسرال یا پڑوسیوں کی غیبت* *کرتی ہو؛* *اُس کے بچے غیبت کو معمول سمجھیں گے۔* 🔸 *اور وہ ماں جو اپنے بچوں کوے محبت اور شفقت سے بھر دیتی ہو،اُس کے بچے جذباتی طور پر مستحکم ہوں گے۔* 🔹 اور وہ ماں جو بچوں کے سامنے چوری کرتی ہو، *اُس کے بچے بڑے ہو کر چوری کو جائز سمجھیں گے۔* 🔸 اور وہ ماں جسے کچھ بھی پسند نہ آئے اور ہر چیز پر تنقید کرے، اُس کے بچے ماں کو خوش کرنے کی کوشش ترک کر دیں گے۔ 🔹 اور وہ ماں جو بچوں کے سامنے جھوٹ بولتی ہو، *اُس کے بچے بڑے ہو کر جھوٹ کو جائز سمجھیں گے۔* 🔸 اور وہ ماں جو بچوں کے سامنے باپ سے جھگڑا کرتی ہو، اور سب کے سامنے جھگڑا کرتی ہو، *اُس کے بچے اعتماد سے محروم اور کمزور شخصیت کے حامل بنیں* *گے* ۔ 🔹 *اور وہ ماں جو نماز کے وقت ہاتھ کا کام چھوڑ دیتی ہے،اُس کے بچے نماز کی اہمیت کو سمجھیں گے۔* 🔸 اور وہ ماں جس کی زبان شیریں ہو،اُس کے بچے بڑے ہو کر اُس سے محبت کریں گے اور اُس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ 🔹 *اور وہ ماں جو اللہ کا خوف رکھتی ہے، کسی کی غیبت نہیں* *کرتی، کسی کا مذاق نہیں اُڑاتی* ، *اُس کے بچے اُسی جیسی نیک سیرت کے حامل ہوں گے۔* 🔹 سادہ لفظوں میں: *بچوں کی تربیت سے پہلے اپنی ذات کی تربیت ضروری ہے۔* *یہ الفاظ غور و فکر کے قابل ہیں ہر وہ شخص جس پر یہ باتیں صادق آتی ہوں، وہ اپنی بری عادات کو بدلنے کی کوشش کرے عورت اپنے بچوں کی نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔* *انہیں خوب اچھی طرح سمجھیں۔۔۔* ➖♻️➖ ▪️ *بچوں کی تربیت کیلئے اس پیغام کو اپنے پیاروں، اور مقامی گروپس میں شئیر ضرور کریں تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے*

𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
5/24/2025, 6:27:53 AM

Follow the 𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔 channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029VaDvsFm3bbV0NNCfrT18 ✍🏻 جُستَجُو کھوئے ہوؤں کی عُمر بَھر کرتے رہے چاند کے ہم رَاہ ہم ہر شَب سفر کرتے رہے راستوں کا عِلم تھا ہم کو نہ سِمتوں کی خبر شہر نا معلوم کی چاہت مگر کرتے رہے ہم نے خُود سے بھی چُھپایا اور سارے شِہر کو تیرے جانے کی خبر دیوار و دَر کرتے رہے وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اُس شام بھی اِنتظار اُس کا مگر کُچھ سُوچ کر کرتے رہے آج آیا ہے ہمیں بھی اُن اُڑانوں کا خیال جِن کو تیرے زُعْم میں بے بال و پر کرتے رہے ____!! شاعرہ: #پروین شاکرجُستَجُو کھوئے ہوؤں کی عُمر بَھر کرتے رہے چاند کے ہم رَاہ ہم ہر شَب سفر کرتے رہے راستوں کا عِلم تھا ہم کو نہ سِمتوں کی خبر شہر نا معلوم کی چاہت مگر کرتے رہے ہم نے خُود سے بھی چُھپایا اور سارے شِہر کو تیرے جانے کی خبر دیوار و دَر کرتے رہے وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اُس شام بھی اِنتظار اُس کا مگر کُچھ سُوچ کر کرتے رہے آج آیا ہے ہمیں بھی اُن اُڑانوں کا خیال جِن کو تیرے زُعْم میں بے بال و پر کرتے رہے ____!! شاعرہ: #پروین شاکر

𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
5/24/2025, 6:26:59 AM

Follow the 𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔 channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029VaDvsFm3bbV0NNCfrT18 ✍🏻 *تربوز🍉 یورک ایسڈ کیسے کم کرتا ہے؟* ••••••••••••••••••••••••••• تربوز میں تقریباً 92 فیصد پانی ہوتا ہے جو جسم سے فاضل مادوں کو خارج کرنے میں مدد دیتا ہے۔ جب بات یورک ایسڈ کو کم کرنے کی ہو تو زیادہ تر لوگ دواؤں کی طرف رجوع کرتے ہیں، لیکن قدرت نے ہمیں کئی ایسی غذائیں عطا کی ہیں جو نہ صرف مزے دار ہیں بلکہ صحت بحال کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک ہے تربوز، گرمیوں کا ٹھنڈا، میٹھا اور رسیلا تحفہ۔ یورک ایسڈ جسم میں موجود پیو رینز (Purines) کے ٹوٹنے سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے، لیکن جب یورک ایسڈ کی مقدار بڑھ جائے تو یہ جوڑوں کے درد، گٹھیا (gout)، اور دیگر صحت کے مسائل کا باعث بنتا ہے۔ تربوز یورک ایسڈ کی سطح کو کم کرنے میں مندرجہ ذیل طریقوں سے مددگار ہے، *ہائیڈریشن میں اضافہ* تربوز میں تقریباً 92 فیصد پانی ہوتا ہے جو جسم سے فاضل مادوں کو خارج کرنے میں مدد دیتا ہے۔ زیادہ پانی یورک ایسڈ کو گردوں کے ذریعے فلٹر کر کے پیشاب کے راستے باہر نکالتا ہے۔ *پوٹاشیئم سے بھرپور* تربوز میں موجود پوٹاشیئم جسم کے pH لیول کو بیلنس کرتا ہے اور یورک ایسڈ کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس سے یورک ایسڈ کرسٹ نہیں بنتے، جو گٹھیا کا سبب بنتے ہیں۔ *اینٹی آکسیڈنٹس کا خزانہ* تربوز میں موجود ’لائکوپین‘ اور ’وٹامن سی‘ سوزش کو کم کرتے ہیں اور جوڑوں کے درد میں آرام دیتے ہیں۔ *قدرتی ڈیٹوکس* تربوز کا استعمال جسم کے لیے ایک قدرتی ڈیٹوکس کا کام دیتا ہے، خاص طور پر گردے اور مثانے کے افعال کو بہتر بناتا ہے، جس سے یورک ایسڈ کی اضافی مقدار خارج ہونے لگتی ہے۔ *تربوز کو روزمرہ زندگی میں کیسے شامل کریں؟* * ناشتے میں تربوز کے ٹکڑے * تربوز کا جوس بغیر چینی * فروٹ سلاد میں شامل کریں * گرمیوں میں تربوز کو فریج میں رکھ کر ٹھنڈا استعمال کریں اگر آپ ذیابیطس کے مریض ہیں تو تربوز کا استعمال محدود مقدار میں کریں کیونکہ اس میں قدرتی مٹھاس بھی ہوتی ہے۔ تربوز نہ صرف ایک لذیذ پھل ہے بلکہ یورک ایسڈ کو قدرتی طور پر کم کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اگر آپ صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو دواؤں کے ساتھ قدرتی نعمتوں کو بھی اپنی خوراک میں شامل کریں۔ ••••••••••••••••••••••••••••

𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
5/24/2025, 6:26:19 AM

Follow the 𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔 channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029VaDvsFm3bbV0NNCfrT18 ✍🏻 السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہ انگلی تلاش میں ۔ کسی کامل ولی کے بارے میں مشہور تھا وہ انگلی لگا کر پتھر کو سونا بنا دیتے ہیں‘ یہ خبر اڑتی اڑتی کسی انتہائی غریب شخص تک پہنچ گئی اور وہ دھکے ٹھڈے کھاتے کھاتے اس ولی تک پہنچ گیا۔ بابا جی اس وقت پہاڑی راستے پر واک کر رہے تھے‘ انھیں اپنے پیچھے کسی کے پائوں کی آواز آئی‘ وہ مڑے اور سامنے وہ ضرورت مند کھڑا تھا‘ اس نے باباجی کے پائوں پکڑ لیے اور اپنی غربت کا رونا‘ رونا شروع کر دیا‘ بابا جی نے ہنس کر پوچھا ’’میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں؟‘‘ ضرورت مند نے ایک پتھر اٹھایا اور باباجی کو پکڑا کر بولا ’’آپ اسے سونے کا بنا دیں‘ یہ میرے لیے کافی ہوگا‘‘۔ بابا جی نے پتھر کو اپنی شہادت کی انگلی سے چھوا اور وہ آناً فاناً سونے میں تبدیل ہوگیا‘ ضرورت مند نے بابا جی کا شکریہ ادا کیا اور واپس چل پڑا‘ بابا جی نے دوبارہ واک شروع کر دی‘ تھوڑی دیر بعد انھیں محسوس ہوا ان کے پیچھے اب بھی کوئی شخص چل رہا ہے‘ انھوں نے مڑ کر دیکھا تو وہی ضرورت مند ان کے پیچھے کھڑا تھا۔ بزرگ نے حیرت سے پوچھا ’’اب کیا مسئلہ ہے؟‘‘ وہ بولا ’’حضور سونے کا یہ پتھر میرے لیے کافی ہے لیکن میرے بعد میرے بچوں کا کیا بنے گا؟ آپ تھوڑی سی مزید مہربانی فرما دیں تاکہ میرا خاندان بھی خوش حالی دیکھ سکے‘‘ بزرگ نے راستے کے ساتھ موجود چٹان کو چھوا اور وہ بھی چند سیکنڈ میں سونے میں تبدیل ہوگئی‘ بزرگ نے اس کے بعد ہنس کر کہا ’’لے بھئی کرم داد یہ دولت اب تمہاری سات نسلوں کے لیے کافی ہے‘‘ وہ یہ کہہ کر دوبارہ آگے چل پڑے لیکن تھوڑی دیر بعد انھیں پھر محسوس ہوا وہ ضرورت مند ابھی تک ان کے پیچھے چل رہا ہے۔ بزرگ نے درشت لہجے میں پوچھا ’’اب کیا مسئلہ ہے؟‘‘ ضرورت مند لجاجت سے بولا ’’جناب میں دنیا کا سب سے امیر شخص بننا چاہتا ہوں‘ آپ نے اتنی مہربانی فرما دی ہے تو ذرا سی مزید نوازش کر دیں‘‘ بزرگ کو ہنسی آگئی اور انھوں نے ہنستے ہنستے اپنی انگلی دائیں بائیں پھیرنا شروع کر دی اور ذرا سی دیر میں پورا پہاڑ سونے کا ہوگیا۔ بزرگ نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’لو بیٹا تم دنیا کے سب سے امیر شخص بن چکے ہو‘ اب جائو‘‘ وہ اس کے بعد آگے چل پڑے لیکن چند منٹ بعد انھیں ایک بار پھر اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی‘ انھیں شدید غصہ آگیا‘ وہ واپس مڑے اور دیکھا وہ ضرورت مند ایک بار پھر دانت نکال کر ان کی طرف دیکھ رہا تھا‘ بزرگ نے ڈنڈا اٹھا لیا اور پوچھا ’’اب تمہیں کیا چاہیے؟‘‘ ضرورت مند نے دائیں بائیں دیکھا‘ تھوڑا سا شرمایا اور بزرگ کی انگلی کو ہاتھ لگا کر بولا ’’جناب مجھے آپ کی یہ انگلی چاہیے‘‘۔ یہ کسی اور کی نہیں یہ ہم سب کی کہانی ہے‘ ہم انسانوں کو آخر کتنی دولت چاہیے ہوتی ہے‘ ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کرسکے‘ کیوں؟ کیوں کہ ضرورت کی ایک حد ہوتی ہے جب کہ خواہش اور ہوس کا کوئی انت نہیں ہوتا‘ یہ وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ انسان وہ انگلی بھی مانگ لیتا ہے جس سے دولت پھوٹ سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کیا انگلی کے حصول کے بعد خواہش رک جاتی ہے؟ جی نہیں ‘یہ یہاں بھی نہیں رکتی‘ یہ اس کے بعد بھی آگے بڑھتی رہتی ہے یہاں تک کہ انسان ختم ہوجاتا ہے۔ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ہم آج تک اپنی خواہشوں کا تخمینہ نہیں لگا سکے‘ یہ لامتناہی ہوتی ہیں تاہم انسان نے اپنی ضرورتوں کا تخمینہ ضرور لگا لیا ہے اور یہ تخمینہ ہے 65 ہزار ڈالر سے لے کر 95 ہزار ڈالر سالانہ تک یعنی آپ اگر دنیا کی واحد سپر پاور امریکا میں رہائش پذیر ہیں‘ آپ کا خاندان چار افراد پر مشتمل ہے اور آپ کی آمدنی سالانہ 65 ہزار ڈالر سے 95 ہزار ڈالر ہے تو آپ فائیو اسٹار زندگی گزار سکتے ہیں‘ آپ کی پھر کوئی خواہش ادھوری نہیں رہے گی۔ آپ گھر‘ گاڑی‘ خوراک‘ علاج‘ بچوں کی تعلیم اور سال میں دو مرتبہ چھٹیوں کی سہولت انجوائے کرسکیں گے‘ آپ اس کے بعد دنیا کی کسی نعمت سے محروم نہیں رہیں گے‘ معاشی ماہرین کا خیال ہے 95 ہزار ڈالر سالانہ کے بعد دولت کی کوئی اہمیت نہیں رہتی‘ یہ صرف فگر اور اکائونٹ بن کر رہ جاتی ہے‘ ہم اگر 95 ہزار ڈالر کو ماہانہ میں تبدیل کر دیں تو یہ تقریباً 8 ہزار ڈالر بنتے ہیں اور یہ رقم آج کے ایکس چینج ریٹ کے مطابق 22 لاکھ روپے بنے گی اور یہ حقیقت ہے اس رقم کے ساتھ پاکستان میں بھی فائیو اسٹار زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ یہ پیک ہے لیکن سوال یہ ہے لوگ اس ہدف کے بعد بھی انتہائی خوف ناک‘ مایوس اور بیمار زندگی کیوں گزارتے ہیں؟ ہماری ’’مائینڈ چینجر کمیونٹی‘‘ نے اس پر بہت ریسرچ کی اور ہمیں اس ریسرچ کے بعد معلوم ہوا ہم میں سے زیادہ تر لوگ ضرورتیں پوری ہونے کے بعد انگلی کے پیچھے پیچھے چل پڑتے ہیں‘ یہ ہوس میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور دائیں بائیں دیکھے سنے بغیر دوڑ پڑتے ہیں اور آخر میں دوسروں کے پائوں تلے کچلے جاتے ہیں اور یوں زندگی کا سفر ختم ہوجاتا ہے۔ میں اکثر اپنے دوستوں سے کہتا ہوں آپ اگر 8 ہزار ڈالرز کا مستقل انتظام کرلیں‘ آپ کوئی ایسی پراپرٹی بنا لیں جس کا کرایہ 8 ہزار ڈالر ہو یا آپ کوئی ایسا کاروبار شروع کر لیں جو آپ کو گھر بیٹھے ہر مہینے 8 ہزار ڈالر دے دے یا آپ اپنی رقم اسٹاک ایکسچینج یا بینک میں رکھ کر ہر مہینے 8 ہزار ڈالر کمانے لگیں تو آپ فوراً ریٹائرمنٹ لے لیں اور اپنی مرضی کی زندگی گزارنا شروع کر دیں۔ آپ روزانہ دو اڑھائی گھنٹے ایکسرسائز کریں‘ دو تین گھنٹے کتابیں پڑھیں یا اہل علم کی محفل میں بیٹھیں‘ فنون لطیفہ سے حظ اٹھائیں اور آپ اگر یہ پسند نہیں کرتے تو آپ تلاوت سنیں‘ آج کے مذہبی ایشوز پر ریسرچ کریں‘ کتابیں لکھیں‘ سیمینارز میں جائیں‘ شہر شہر‘ ملک ملک پھریں‘ نئے فوڈ ٹرائی کریں‘ یوگا اور سوئمنگ سیکھیں‘ اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ کھیلیں‘ سورج کو نکلتے اور غروب ہوتے دیکھیں‘ غریب لوگوں کے بچوں کو پڑھائیں اور کالج اور یونیورسٹی میں دوبارہ داخلہ لے لیں‘ اپنے آپ کو روزگار کی چکی سے نکال لیں‘ یہ بات سن کر زیادہ تر لوگ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ میرے پاس چند دن قبل ایک صاحب تشریف لائے‘ یہ بھی گزارا نہیں ہوتا جیسی صورت حال سے گزر رہے تھے‘ میں نے ان سے پوچھا‘ آپ کا ماہانہ خرچ کتنا ہے‘ یہ بولے‘ ایک لاکھ روپے‘ میں نے ان سے پوچھا یہ رقم سالانہ کتنی بنتی ہے‘ یہ بولے 12 لاکھ روپے‘ میں نے کہا‘ آپ اسے 20 سے ضرب دے دیں تو یہ کتنی بنے گی‘ یہ بولے دو کروڑ 40 لاکھ روپے‘ میں نے کہا گویا اگر آپ کے پاس دو کروڑ 40 لاکھ روپے ہوں تو آپ 20 سال گھر میں بیٹھ کر زندگی گزار سکتے ہیں۔ آپ کی عمر اس وقت 50 سال ہے‘ آپ 20 سال بعد 70 سال کے ہوں گے اور یہ رقم آپ کے بڑھاپے تک کافی ہوگی‘ وہ بولے ’’جناب یہ 20 سال بعد ڈی ویلیوایشن کی وجہ سے آدھی رہ جائے گی‘ میں نے ہنس کر جواب دیا‘ آپ اسے ڈبل کر لیں‘ آپ کے پاس اگر 4 کروڑ 80 لاکھ روپے ہوں تو یہ ڈی ویلیوایشن کے باوجود 20 سال کے لیے کافی ہوں گے‘ آپ اب دیکھیں کیا آپ کے پاس کوئی ایسا اثاثہ ہے جسے بیچ کر آپ اتنی رقم حاصل کرسکتے ہیں‘ یہ فوراً بولے ہاں میری آبائی زمین اتنے میں بک جائے گی۔ میں نے ہنس کر جواب دیا تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ آپ انگلی کے پیچھے کیوں دوڑ رہے ہیں؟ زمین بیچیں‘ پیسے انویسٹ کریں۔‘ ٹینشن کس چیز کی ہے؟ یہ بولے ’’آپ کی بات درست ہے لیکن۔۔۔۔‘‘ وہ اس کے بعد خاموش ہوگئے‘ مجھے معلوم تھا اس لیکن کے ساتھ انگلی کی خواہش چپکی ہوئی ہے اور یہ بھی خود کو انگلی سے الگ نہیں کرسکیں گے مگر سوال یہ ہے کیا ساری دنیا ہماری طرح انگلی کے پیچھے دوڑ رہی ہے؟ جی نہیں‘ میں بیسیوں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے دس پندرہ سال پہلے اپنی ضرورت کے مطابق رقم جمع کی اور اس کے بعد انھوں نے کبھی تنکا بھی دہرا نہیں کیا‘ یہ روز صبح اپنی مرضی سے اٹھتے ہیں اور مرضی سے سوتے ہیں‘ تین تین گھنٹے ایکسرسائز کرتے ہیں‘ ستر سال کی عمر میں بھی 40 سال کے دکھائی دیتے ہیں اور گھوم پھر کر مزے سے زندگی گزارتے ہیں جب کہ انگلی کے پیچھے دوڑنے والے لوگ 40 سال کی عمر میں 70 سال کے لگتے ہیں اور دس دس قسم کی دوائیں کھاتے ہیں لیکن اس کے باوجود انھیں نیند نہیں آتی۔ ہم انسانوں کو پورا سال گزارنے کے لیے 23 چیزیں چاہیے ہوتی ہیں لیکن ہم لوگ اوسطاً تین لاکھ چیزیں خریدتے ہیں‘ یہ چیزیں غیر ضروری ہوتی ہیں اور ہم ان غیر ضروری چیزوں کے لیے عمر بھر انگلی کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں اور یہ وہ حماقت ہے جو ہمیں زندہ ہونے کے باوجود زندہ نہیں رہنے دیتی لہٰذا میرا مشورہ ہے آپ جو بھی ہیں اور آپ جو بھی کر رہے ہیں آپ چند لمحوں کے لیے رکیں۔ اپنے آج کے اخراجات کو بارہ سے ضرب دیں‘ پھر اس کو 20 سے ضرب دیں اور آخر میں اسے دو سے ضرب دے کر اتنی رقم کا بندوبست کر لیں اور اس کے بعد پیسے کے لیے کام بند کر دیں‘ آپ صرف وہ کام کریں جس سے آپ یا دوسروں کو خوشی ملتی ہے‘ آپ یقین کریں آپ کے لیے یہ دنیا جنت بن جائے گی ورنہ دوسری صورت میں آپ باقی زندگی بھی انگلی کی تلاش میں ضایع کر بیٹھیں گے اور آخر میں آپ کے ہاتھ میں خواہشوں کی ٹوکری کے سوا کچھ نہیں ہوگا‘ زندگی کا سفر ضائع ہوجائے گا۔ [بشکریہ روزنامہ ایکسپریس]

𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
5/24/2025, 6:25:31 AM

Follow the 𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔 channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029VaDvsFm3bbV0NNCfrT18 ✍🏻 کسی امیر کے گھر شادی تھی وہاں تمام لوگ اثر و رسوخ والے ہی تھے شادی والے اس گھر میں اجازت کے بغیر کسی کا وہاں جانا ناممکن تھا ہائے غربت ۔۔۔ ایک فیملی کئی دنوں سے بھوکی تھی تو اس گھر کا کفیل اپنے بچوں کی بھوک نا دیکھ سکا تو شادی والے گھر جا پہنچا جو کھانا بنانے والے تھے ان سے التجاء کی کے مجھسے جو کام چاہے کرا لو میں کرونگا بدلے میں مجھے بس ایک دو دن کا کھانا ڈال دینا مزدوری بھلے نا دینا تو صاحب ترس کھا گئے اور آگ جلانے والی جگہ کھڑا کر دیا کڑاکے کی گرمی تھی جیسے آج کل پڑ رہی ہے وہ بیچارہ ایک جگہ آگ بڑھاتا تو آواز آتی جلدی سے دوسری طرف آؤ دوسری بھاگتا تو لکڑیاں بھی دور تھیں وہ اٹھانے جاتا واپس آتا تو آگے پھر دھیمی ہو جاتی خیر ڈانٹ ڈپٹ ساتھ چلتی رہی پانی بھی ابلا ہوا ملتا مطلب گرم ٹب میں سے پانی پی لیتا اب جب کھانا تیاری کے مراحل میں داخل ہوا تو اس شخص کی حالت ایسی تھی ہے ابھی گرمی سے بیہوش ہو جائے گا پکوان صاحب نے پھر ترس کھایا اور کہا جاؤ چھاؤں میں کچھ لمحے آرام کر آؤ اس نے شکر ادا کیا اور جا کر کچھ دیر کیلئے بیٹھ گیا اب کھانا تقریباً تیار تھا امیر زادوں نے چکر لگایا اور آرڈر کیا کے کھانا تیار ہے تو لگانا شروع کریں مہمان آ گئے ہیں بس آرڈر کی بجا آوری ہوئی اور کھانا لگانے کا وقت آ گیا پکوان صاحب نے سب کو اکٹھا کیا اور کہا سرووِنگ کا وقت آ گیا ہے اب محنت کا صلہ ملنا ہے تو زرا دھیان سے سب نے کام کرنا ہے کہیں کمی بیشی نا رہے بس نئے شخص کو کچھ پتا کم تھا تو دوڑ شروع ہوگئی اب جو صبح سے دن تین بجے تک آگ جلانے میں مصروف رہا اس کی پہلے ہی بس ہو چکی تھی تو اس کیلئے بھی آرڈر آیا کے کھانا میزوں پر لگواو بھوکا اپنی فیملی کی بھوک خاطر پھر سے شروع ہوگیا تمام مہمان میزوں پر تھے کھانے آرہے تھے فلنگ ہورہی تھی تو نئے آدمی سے سالن کسی صاحبِ بصیرت پر جا گرا غلطی اسکی تھی پر کسی کو یہ نظر نا آیا کے وہ دن بھر کا جھلسا ہوا ہے اس وقت اس کا مزید کام کرنا کسی جنگ سے بڑھ کر نہیں ہے خیر مالک تک گل جا پہنچی اس نے آتے ہی دائیں دیکھا نا بائیں گالیاں دیں اور اس کو مارتا مارتا پیلس(شادی ہال) کے گیٹ تک لے گیا اس کے ہاتھ میں وہی سالن کچھ گرا ہوا تھا تو کچھ باقی ساتھ ہی تھا گیٹ پر پہنچتے ہی کیا دیکھا کے اس کی بیوی بھوکے بچوں کیساتھ باہر کھڑی ہے حالت دیکھ کر وہ شوہر کی طرف بڑھی تو شوہر نے آواز دے کر کہا ۔۔۔۔ "وہیں رک جاؤ یہ دیکھو مجھے کھانا مل گیا ہے بہت اچھے لوگ ہیں مجھے کھانا دے دیا ہے بچوں کیلئے لے کر آرہا ہوں ان سے کہو بس پانچ منٹ اور انتظار کریں کئی دن کی بھوک مٹ جائے گی وہ مجھ سے ذرا کام میں غلطی ہو گئی تھی تو اس لئے صاحب غصہ کررہے ہیں باقی سب ٹھیک ہے میں کھانا لے کر آرہا ہوں تم باہر ہی رہو" افففف ۔۔ یہ دل دہلا دینے والا منظر اس وقت پورا پیلس دیکھ رہا تھا جو شخص غریب پر تھپڑ برسا رہا تھا ایک دم سے اس کے ہاتھ رک گئے آس پاس کے سبھی مہمان جو گاڑیوں پر آئے تھے سب کی آنکھوں میں آنسو تھے صرف اس شخص کی ان چند باتوں کی وجہ سے جو وہ سچ بول رہا تھا یاد رکھیں سچ کو کسی صفائی کی ضرورت نہیں ہوتی تو ہاتھ اٹھانے والے شخص نے جب اس غریب کی آنکھوں میں دیکھا تو مارے شرم کے اس کا سر جھک گیا اس نے اب کیا کرنا تھا معافی ۔۔۔ نہیں وہ کیسے مانگے گا اس کی شان میں تو حرف آ جائے گا نا اس نے کیا کیا ۔۔۔ آواز لگائی کے اس کو کھانا دو اور گھر بھیجو بھوکا اپنی بھوک بھول چکا تھا بچوں کی شکلیں دیکھ کر اس نے پھر کہا نہیں صاحب یہ جو میرے ہاتھ میں ہے یہ بہت ہے ویسے بھی میں نے نقصان کر دیا کھانا گرا دیا وہ شاید میرا ہی حصہ تھا تو جو میری قسمت میں نہیں وہ میں نہیں لے سکتا کہانی ختم ۔۔۔۔ تو ساری بات کا اخیر کیا ہے سبق کیا ہے غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے پر امیری میں کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کے وہ جس پر اپنا رعب جھاڑ رہا ہے وہ سہنے والا اس سے کئی زیادہ امیر ہے میری نظر میں ساری کہانی کا پس منظر دیکھیں تو امیر وہ نہیں جس نے لاکھوں لگا کر پیلس میں پکوانوں کے انبار لگائے امیر تو یہ ہے جس نے محنت کی مار سہی اور بدلے میں سبق دے گیا کے وہ حق پر ہے بس سوچنے سمجھنے کی توفیق اگر کسی میں ہو تو ہم میں سے اکثر لوگ ایسا ہی کرتے ہیں دروازے بند کر دیتے ہیں بن پوچھے لوگوں کو داخل نہیں ہونے دیتے ٹھیک ہے ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن جب ولیمے کے ختم ہونے پر ہم ضائع شدہ کھانے میزوں پر دیکھتے ہیں روٹی کے ٹکڑے زمین پر گرے دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ احساس لازمی ہوتا ہے کے لوگ کتنا ضائع کر گئے میں یہی کہنا چاہوں گا کے صاف شفاف نا سہی وہ جو جھوٹھا کھانا ہوتا ہے وہی غریبوں کو دے دیں کھانا ضائع کرنے کے بجائے کسی بھوکے ضرورت مند کے پیٹ میں چلا جائے تا دعائیں ہی ملیں گی آخرت سنور جائے گی

𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
5/24/2025, 6:25:02 AM

Follow the 𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔 channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029VaDvsFm3bbV0NNCfrT18 ✍🏻 *میاں بیوی کے اختلافات کے اولاد پر برے اثرات* خاندان ایک ایسا ادارہ ہے جس کی بنیاد محبت، اعتماد، قربانی اور ہم آہنگی پر رکھی جاتی ہے۔ میاں بیوی اس ادارے کے بنیادی ستون ہیں، اور ان کے درمیان تعلق کا معیار پورے خاندان، خصوصاً اولاد کی تربیت پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ زندگی میں اختلافِ رائے ایک فطری امر ہے، مگر اس اختلاف کو کس طرح سنبھالا جائے، یہی اصل دانشمندی ہے۔ جب میاں بیوی اپنے اختلافات کو اولاد کے سامنے لاتے ہیں، تو درج ذیل منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں 1. اولاد میں احساسِ عدم تحفظ: جب بچے ماں باپ کو آپس میں جھگڑتے یا ایک دوسرے پر تنقید کرتے دیکھتے ہیں، تو ان کے دل میں یہ خوف بیٹھ جاتا ہے کہ کہیں والدین الگ نہ ہو جائیں۔ *یہ احساس ان کی ذہنی و جذباتی نشوونما کو متاثر کرتا ہے* اور وہ خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے۔ 2. *والدین کی عزت میں کمی*: اگر والدین ایک دوسرے کی برائیاں بچوں کے سامنے کریں تو: بچے الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں وہ نہ ماں کو صحیح سمجھ پاتے ہیں نہ باپ کو نتیجتاً، ان کے دل میں عزت اور اعتماد کم ہو جاتا ہے 3. *تربیت میں خلل* *بچے جو دیکھتے ہیں، وہی سیکھتے ہیں* اگر روزمرہ کے ماحول میں: طعنہ زنی غصہ بدتمیزی عام ہو جائے، تو بچوں کی شخصیت میں بھی یہی رویے پروان چڑھنے لگتے ہیں۔ 4. *ذہنی دباؤ اور تعلیم پر اثر*: گھریلو جھگڑے بچوں کے دماغی سکون کو تباہ کر دیتے ہیں وہ نہ تعلیم پر توجہ دے پاتے ہیں، نہ اپنی خود اعتمادی قائم رکھ پاتے ہیں نتیجتاً، وہ گم سم ، ضدی یا گھمبیر مزاج کے ہو جاتے ہیں *کیا کرنا چاہیے؟* اختلافات کو تنہائی میں بیٹھ کر محبت، حکمت اور افہام و تفہیم سے حل کریں اولاد کے سامنے بردباری اور صبر کا مظاہرہ کریں ایک دوسرے کی عزت کریں تاکہ بچے بھی ادب و اخلاق سیکھیں اختلافات کو وقتی سمجھ کر درگزر کرنا سیکھیں انا کو چھوڑ کر خاندان کی سالمیت کو ترجیح دیں یاد رکھیں *اولاد وہ آئینہ ہے جس میں والدین کی تربیت اور کردار صاف جھلکتا ہے* اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد نیک، باشعور اور خوشحال بنے، تو ہمیں اپنی گھریلو زندگی کو مثالی بنانا ہوگا۔ اختلافات کو چپکے سے سلجھانا اور بچوں کے سامنے خوشگوار ماحول فراہم کرنا ہی ایک بہترین والدین کی پہچان ہے *تحریر کو صدقہ جاریہ اور اللہ کی رضا کی نیت سے اپنے پیاروں کے ساتھ شیئر کیجئے ہو سکتا ہے آپ کی تھوڑی سی محنت یا کوشش کسی کی زندگی بدلنے کا ذریعہ بن جائے*

𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
5/24/2025, 6:25:51 AM

Follow the 𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔 channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029VaDvsFm3bbV0NNCfrT18 ✍🏻 عمر گزرے گی امتحان میں کیا داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا میری ہر بات بے اثر ہی رہی نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں ہم غریبوں کی آن بان میں کیا خود کو جانا جدا زمانے سے آ گیا تھا مرے گمان میں کیا شام ہی سے دکان دید ہے بند نہیں نقصان تک دکان میں کیا اے مرے صبح و شام دل کی شفق تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا بولتے کیوں نہیں مرے حق میں آبلے پڑ گئے زبان میں کیا خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا آ رہا ہے مرے گمان میں کیا دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہت خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا ہے نسیم بہار گرد آلود خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا جون ایلیا

𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔
5/24/2025, 6:27:28 AM

Follow the 𝙐𝙍𝘿𝙐 𝙒𝘼𝙇𝘼 𝙋𝙊𝙀𝙏𝙍𝙔 channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029VaDvsFm3bbV0NNCfrT18 ✍🏻 بیڈ_فورڈ بسوں کے ہارن سے پتہ چل جاتا تھا کہ اس کا نمبر کیا ھے جب کبھی دوران کلاس ھارن بجتا تو ٹیچر کی موجودگی میں بھی کان میں سر گوشی کر دیتے 2766 آئی اے۔۔۔ہن 1785 بولی اے۔۔۔۔اس زمانے میں بس ڈرائیور کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور سب استاد جی کے نام سے بلاتے تھے علاقے میں چنیدہ لوگ ہی اس منصب پر فائز ھوتے تھے۔ استاد جی کے اپنے ٹشن ھوتے استری شدہ سوٹ ،کھلے بٹن بنیان نظر آتی تھی اگرچہ میلی ھوتی تھی چونکہ استاد جی کا زیادہ زور کپڑوں کی استری پر زیادہ ھوتا،کھلی چپل،کھلے پائنچے،انگلیوں کے درمیان سلگتا ھوا مارون کا سگریٹ جو بیڈ فورڈ کے ڈیزل کی بو کیساتھ ملکر الٹی کرنے اور سر چکرانے کیلئے اکساتا تھا۔ بس اسٹارٹ ھونے کے بعد 20 سے 25 ھارن بجانا استاد جی کے فرائض منصبی میں شامل تھا۔کچھ بسیں ایسے جدید ھارن کی بھی حامل تھی کہ استاد جی کو بار بار ھارن کا بٹن پریس کرنے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑتی تھی ایک ھی بار پریس کرتے تو کم از کم 5 منٹ تک خود بخود بجتا رہتا اور استاد جی داد طلب نگاہوں سے مسافروں کی طرف دیکھتے، فرنٹ سیٹ مخصوص افراد کیلئے مختص ھوتی بعض اوقات تو دو دو دن ایڈوانس فرنٹ سیٹ بک کروا دی جاتی لیکن استاد جی کے پاس ویٹو پاور بھی تھی کسی بھی منظور نظر کو کسی وقت بھی نواز سکتے تھے۔ #استاد جی کا پورا علاقہ اس طرح قدر کرتا تھا جیسے #css🤣 کر کے ابھی ابھی چارج سنبھالا ھو۔عموما استاد جی غصے والے ھوتے تھے جو سواریوں کی موجودگی میں کنڈیکر کو ڈانٹنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ کنڈیکر سے یاد آیا، کنڈیکر کی بھی تین اقسام ھوتی تھی ایک غریب نادار جو فقط مزدوری کیلئے آتے تھے دوسری قسم جو ہشیار ھوتے تھے مسافروں پر جگھتیں لگاتے اور ان کے تیور بھی بتا رھے ھوتے کہ آئندہ 15 سے 20 سال کی محنت شاقہ سے یہ بھی منصب استاد جی پر براجمان ہونگے ۔ تیسری قسم وہ کنڈیکر ہیں جن کی اپنی بس ھوتی یا مامے،چاچے کی بس ھوتی تھی ان کے نام کیساتھ نائیک جی کا لاحقہ بھی لگا ھوتا۔ہر کسے باشد انھیں نائیک جی کے نام سے پکارتا تو اس لمحے آدھا فٹ وہ فضا میں معلق ھو جاتے خواہ پکا سگریٹ نہ بھی لگایا ھو ان کیساتھ ایک سب کنڈیکر بھی ھوا کرتا تھا۔ بس کی گیلری میں 20/25 لوگ کھڑے ھوتے اتنے ھی پوہڑی اور سائیڈ پر ،طلباء کو خاص اہمیت حاصل تھی ان کیلئے بس کا چھت مختص ھوتا کیونکہ کرائے کی ادائیگی سے اکثر وہ مثتثنی با حکم از خود ھوتے تھے۔ رستے میں کوئی سواری ہاتھ دے اور استاد جی بس نہ روکیں سوال ھی پیدا نہیں ھوتا اگرچہ گنجائش پیدا کر ھی لی جاتی اگر خاتون مسافر ھوتی تو کنڈیکر با آواز بلند کہتا لیڈی سواری کیلئے جگہ خالی کرو تو ہر کوئی بلا توقف اپنی سیٹ چھوڑنے کو آمادہ ھو جاتا۔ استاد جی بس چلاتے ساتھ سگریٹ کے کش لگاتے کئی لوگ سگریٹ اور ڈیزل کی ملی جلی بو کی وجہ سے الٹیاں بھی کرتے لیکن کیا مجال کہ استاد جی کو تمباکو نوشی سے کوئی روکنے کی جسارت کرے۔ اس کے ساتھ عطااللہ،لتا منگیشکر،رفیع اور صبح کا وقت ھو عزیز میاں و ہمنوا اودھم مچاتے رہی سہی کسر بیڈ فوڈ چڑھائی میں اپنے انجن کی صوت بالا سے پوری کر کے سماعتوں کو صبر جمیل عطا فرماتی۔ استاد جی سے تعلق اور واقفیت ایسے ھی بلند مرتبت سمجھی جاتی جیسے DCO سے شناسائی ھو استاد جی اگر کسے جاننے والے پر نظر التفات فرماتے تو وہ شخص پھولا نہ سماتا اسے اپنے پاس بیٹھنے کیلئے اشارہ کرتے تو موصوف باقی مسافروں کو پھلانگتے ھوئے استاد جی کے قریب پڑے ٹول بکس پر اپنی آدھی تشریف کیساتھ ھی براجمان ھو جاتے موڑ ملتے ھوتے اس توازن کو برقرار رکھنا خاصہ مشکل مرحلہ ھوتا لیکن موصوف نہ صرف توازن برقرار رکھتے بلکہ اپنی گردن لمبی کر عطااللہ کا گیت اور بیڈ فورڈ بس کے انجن کی تیز آواز کے استاد جی سے گپ شپ کی سعی کرتے پھر داد طلب نگاہوں سے مسافروں کی طرف دیکھتے یہ سلسلہ اختتام سفر تک جاری رہتا۔ جب مسافر کے اترنے کا وقت آتا تو بھی دو طریقے اختیار کیے جاتے اگر کوئی صاحب ثروت یا پھنے خان ھے تو استاد جی بریک کا پورا استعمال کرتے تا دم مسافر اتر نہ جائے اور اگر کوئی عام مسافر ھوتا تو استاد جی بریک کا تھوڑا آسرا کرتے باقی کسر کنڈیکر ان کو جُگتیں لگا کر گیٹ سے جلدی چھلانگ لگانے پر آمادہ کر لیتا اور پھر اونچی آواز میں کہتا۔۔۔چلے۔۔۔۔جان دے۔۔!! منقول

Link copied to clipboard!