
Mufti Wasim Akram Razavi
6.6K subscribers
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

*اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق بے جا سوالات: ایک علمی وضاحت* بعض غیر مسلم مسلمانوں کو الجھانے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ سے متعلق سوالات کرتے ہیں، جیسے: اللہ کیسا ہے؟ اللہ کہاں ہے؟ اللہ کب سے ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ باری تعالیٰ کی ذات سے متعلق یہ سوالات ہی غلط ہیں۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن سے متعلق سوال کرنا ہی بے معنی ہوتا ہے، جبکہ وہی سوال کسی اور چیز کے بارے میں کیا جائے تو درست ہوسکتا ہے۔ *سوال کے صحیح یا غلط ہونے کا تعین ہمیشہ "جس چیز کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے" (مسؤول عنہ) کی نوعیت کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔* مثال کے طور پر، اگر کوئی چھوٹا بچہ، جو ابھی بولنا سیکھ رہا ہے، آپ سے یہ سوال کرے: *گلاب کی خوشبو کس رنگ کی ہوتی ہے؟* *خوشبو کا سائز کتنا بڑا ہوتا ہے؟* *خوشبو گول ہوتی ہے یا چوکور؟* *خوشبو کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے، میٹھا یا کڑوا؟* تو آپ کیا جواب دیں گے؟ یہی کہ یہ سوال ہی غلط ہے! بچہ اپنی کم عقلی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے اس طرح کے سوالات کر رہا ہے۔ جیسے جیسے اس کی سمجھ بڑھے گی، وہ خود ہی جان لے گا کہ خوشبو سے متعلق اس طرح کے سوالات بے معنی ہیں۔ اسی طرح، اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق بعض سوالات انسانی سمجھ سے بالاتر ہیں، اور ان کے متعلق بحث کرنا ہی بے جا ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کی صفات پر ایمان لائیں، جیسا کہ قرآن و حدیث میں بیان کیا گیا ہے، اور اپنی عقل کی محدودیت کو پہچانتے ہوئے غیر ضروری سوالات سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات سے متعلق صحیح عقیدہ ہمیں انبیاء و رسل علیہم السلام کی تعلیمات سے معلوم ہوا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو نہ بھیجا ہوتا، تو انسان اپنی محدود عقل سے کبھی یہ نہ جان پاتا کہ: اللہ تعالیٰ کی صفات کیا ہیں؟ اس کی عبادت کا درست طریقہ کیا ہے؟ کون سی چیزیں اس کی شان کے لائق نہیں؟ یہ سب حقائق ہمیں وحی کے ذریعے معلوم ہوئے، اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انبیاء و رسل کو بھیجا تاکہ وہ ہمیں صحیح راستہ دکھائیں۔ لہٰذا، بجائے بے جا سوالات میں الجھنے کے، ہمیں قرآن و حدیث سے ملنے والے علم پر یقین رکھتے ہوئے اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔ *✍️:محمد وسیم اکرم رضوی* ٹٹلاگڑھ بلانگیر اڈیشہ ہند

*اور اللہ پاک نے توبہ کی توفیق بخشی* یہ کوئی تین سال پرانی، 2022 کی بات ہوگی جب میں حیدرآباد کے جامعۃ المدینہ میں تدریس کر رہا تھا۔ عشا کی اذان ہو چکی تھی، میں تیسری منزل پر اساتذہ والے کمرے میں وضو کر رہا تھا کہ اچانک ہمارے جامعۃ المدینہ کے ایک ذمے دار کی کال آئی۔ انہوں نے کہا: "حضرت! نیچے کمرے میں ذرا جلدی آئیں، ورنہ ہاتھا پائی کی نوبت آ جائے گی!" میں نے پوچھا: "مسئلہ کیا ہے؟" تو بتایا کہ "ایک مولانا صاحب، جو امامت کورس کے لیے آئے ہوئے ہیں، اور دوسرے جو امامت کورس کے معلم ہیں، ان کے درمیان حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے متعلق کچھ باتیں ہوئیں، جو بہت آگے بڑھ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ اشرف علی تھانوی سے متعلق بھی کچھ عجیب و غریب باتیں کر رہے ہیں۔" میں نے اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لیا اور نیچے امام صاحب کے حجرے کے بغل والے کمرے میں داخل ہوا۔ دیکھا تو وہ مولانا غصے میں لال پیلے ہو رہے تھے اور تخت پر بڑے تن کر بیٹھے تھے۔ ان کی سانس تیز چل رہی تھی۔ میں ان کے سامنے والے تخت پر بیٹھا اور پوچھا: "کیا مسئلہ ہے؟" وہ کچھ دیر خاموش رہے، پھر میں نے دوبارہ پوچھا: "بتائیں، مسئلہ کیا ہے؟" تب وہ بولے: "امیر معاویہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے متعلق یوں کیا تھا، تو یوں کیا تھا..." وغیرہ وغیرہ۔ وہی عام اعتراضات، جو روافض کیا کرتے ہیں۔ میں نے پوچھا: "اور کچھ؟" انہوں نے ذرا سوچا اور کہا: "فلاں کتاب میں یہ بھی ہے، تو وہ بھی ہے۔" میں نے پھر پوچھا: "اور کچھ؟" اب وہ خاموش ہو گئے اور کہنے لگے: "بس!" میں نے کہا: "چلیں، میں مزید آپ کی تائید میں بتاتا ہوں کہ تاریخ کی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے، یہ بھی لکھا ہے اور مزید یہ بھی مذکور ہے۔" وہ کہنے لگے: "نہیں، یہ میں نے نہیں پڑھا!" میں نے کہا: "آپ ان سب کو بھی اپنے اعتراضات میں شامل کر لیں۔" پھر میں نے ان سے سوال کیا: "اچھا یہ بتائیں کہ اگر کوئی شخص وضو کرے اور وضو سے پہلے بسم اللہ شریف نہ پڑھے، تو کیا اس کا وضو ہو گا یا نہیں؟" وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگے کہ "یہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے متعلق گفتگو چل رہی تھی اور اب وضو کا مسئلہ کہاں سے آ گیا؟" خیر، انہوں نے جواب دیا: "ہو جائے گا، کیونکہ وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا سنت ہے، فرض نہیں۔" میں نے کہا: "کیوں ہو جائے گا؟ حالانکہ صحیح حدیث موجود ہے: لَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ (جس نے وضو سے پہلے بسم اللہ نہ پڑھی، اس کا وضو ہی نہیں ہوتا۔) (سنن ابی داود، حدیث: 101) پھر میں نے دوسرا سوال کیا: "اچھا یہ بتائیں کہ اگر کوئی شخص نماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھے، بلکہ کوئی اور سورت پڑھ لے، تو کیا اس کی نماز ہو جائے گی؟" انہوں نے جواب دیا: "نماز ہو جائے گی، البتہ ترکِ واجب کی وجہ سے مکروہ ہوگی۔" میں نے کہا: "نماز کیسے ہو جائے گی؟ حالانکہ صحیح سند سے حدیث موجود ہے: لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ (جس نے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی، اس کی نماز ہی نہیں ہوتی۔) (صحیح بخاری، حدیث: 756) اس پر وہ خاموش ہو گئے۔ پھر میں نے کہا: "اس کا جواب آپ یہی دیتے ہیں کہ کتاب اللہ میں وضو سے متعلق آیت مطلق ہے:" يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ (اے ایمان والو جب نماز کو کھڑے ہونا چاہو تو اپنے منہ دھوؤ اور کہنیوں تک ہاتھ اور سروں کا مسح کرو اور گٹوں تک پاؤ ں دھوؤ) (سورۃ المائدہ، 6) اسی طرح، قراءت سے متعلق آیت بھی مطلق ہے: فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ (اب قرآن میں سے جتنا تم پر آسان ہو اتنا پڑھو۔) (سورۃ المزمل،:20) ہم اصولِ فقہ میں پڑھ چکے ہیں کہ کتاب اللہ کے مطلق کو اس کے اطلاق پر باقی رکھا جائے گا۔ اگر اس کے مقابل میں خبر واحد آ جائے، تو تطبیق ممکن ہو تو دی جائے گی، ورنہ کتاب اللہ پر عمل کیا جائے گا اور خبر واحد کو چھوڑ دیا جائے گا۔" پھر میں نے کہا: "اب سنیں، اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں صحابہ کرام سے متعلق ارشاد فرماتا ہے: *لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ-اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاؕ-وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ- (تم میں برابر نہیں وہ جو فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کر چکے، وہ مرتبہ میں اُن سے بڑے ہیں جو بعد فتح کے خرچ اور جہاد کر چکے، اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرما لیا ہے۔) (سورۃ الحدید، 57:10) اللہ تعالیٰ جن کے لیے "حسنٰی" (بھلائی) کا وعدہ فرمائے، ان کی شان قرآن خود بیان کرتا ہے: اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَۙ لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚ-وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ (بیشک وہ جن کے لیے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہوچکا وہ جہنم سے دُور رکھے گئے ہیں۔وہ اس کی بھنک نہ سنیں گے اور وہ اپنی من مانتی خواہشوں میں ہمیشہ رہیں گے۔) (سورۃ الأنبیاء،101/102) "اب آپ غور کریں! جب ہم صحیح حدیث کے مقابل بھی قرآن کو نہیں چھوڑتے، تو بھلا یہ چنو منو تاریخی واقعات کے مقابل قرآن کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟" میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ بالکل خاموش ہو گئے۔ میں نے پھر پوچھا: ’’اس پر اور کوئی اعتراض؟‘‘ اس پر انہوں نے ایک اور واقعہ بتایا، جس پر میں نے پوچھا: ’’یہ کہاں ہے؟‘‘ کہنے لگے: ’’وہی تاریخی واقعہ۔‘‘ میں نے پھر پوچھا: ’’اب کوئی اعتراض؟‘‘ اب وہ بالکل مطمئن ہو چکے تھے، کہنے لگے: ’’اب کچھ بچا ہی نہیں۔‘‘ میری تمام گفتگو سے وہ کافی مطمئن لگ رہے تھے اور شرمندہ بھی۔ پھر میں نے پوچھا: ’’اشرف علی کا کیا مسئلہ ہے؟‘‘ جناب نے اس کی تکفیر سے متعلق اپنے شکوک کا اظہار کیا۔ میں نے اس کی کفریہ عبارت زبانی سنائی (نقلِ کفر، کفر نہ باشد)۔ جب سنانے لگا تو اس گندی اور گھناؤنی عبارت پر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے (یہ گستاخی والی عبارت یہاں میں نقل نہیں کر رہا)۔ پھر میں نے انہیں مزید سمجھانے کے لیے سوال کیا: ’’اگر میں آپ سے پوچھوں کہ آپ کے والد کیا کرتے ہیں؟‘‘ جناب نے جواب دیا: ’’فلاں کام کرتے ہیں۔‘‘ اس پر میں نے کہا: ’’فلاں کام کرنے میں آپ کے والد کی کیا تخصیص؟ ایسا کام تو ایک چمار بھی کر لیتا ہے۔‘‘ پھر میں نے پوچھا: ’’آپ کے والد صاحب کے کام پر میرا یہ تبصرہ کرنا آپ کو اچھا لگا؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’اس سے بھی کہیں زیادہ گھٹیا تبصرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتِ علم سے متعلق اشرف علی نے کیا! جب ایک حلالی بیٹا اپنے والد پر ایسا تبصرہ برداشت نہیں کر سکتا، تو ایک غیرت مند امتی کیسے سن سکتا ہے؟‘‘ میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’کیا ہم اسی دن کے لیے زندہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اس طرح کی گستاخیاں ہمارے کانوں میں آئیں؟‘‘ اب وہ بھی رونے لگے، اور پھر ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ وہ زار و قطار روتے رہے۔ دل تو پہلے ہی تائب ہو چکا تھا۔ اسی کیفیت میں انہوں نے مجھ سے کہا: ’’توبہ کرا دیں۔‘‘ اللہ پاک کی رحمت سے انہیں توبہ کی توفیق ملی۔ اسی مجلس میں روتے ہوئے انہوں نے اپنے گھر پر کال کی اور اپنی اہلیہ سے کہا کہ وہ اپنے نکاح کے لیے راقم الحروف کو وکیل بنائیں۔ میں وکیل بنا، اور پھر ان کا تجدیدِ نکاح کیا۔ یقیناً یہ بہت بڑی سعادت کی بات ہے جو انہیں نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ انہیں استقامت عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے، بے ادبی سے بچائے، اور بے ادبوں و گستاخوں سے محفوظ رکھے۔ اللہ کرے کہ ہماری نسل در نسل میں کوئی گستاخ و بدمذہب نہ ہو۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔ *✍️: محمد وسیم اکرم رضوی* ٹٹلاگڑھ بلانگیر اڈیشہ 21/شعبان المعظم/1446 20/فروری/2025

*ALLAH paak Se Jude Bekar Sawal – Ek Aasan Samajh* Kuchh gair-Muslim log Musalmanon ko uljhaane ke liye ALLAH Paak se jude sawal karte hain, jaise: *ALLAH kaisa hai?* *ALLAH kahan hai?* *ALLAH kab se hai?* Asal me, ALLAH Paak ki zaat se jude ye sawal hi galat hain. Kuchh cheezein aisi hoti hain jin ke baare me sawal karna bekaar hota hai. Sawal sahi hai ya galat, ye is par nirbhar karta hai ki sawal kis cheez ke baare me kiya ja raha hai. Ek aasan misaal: Agar koi chhota bachcha, jo abhi bolna seekh raha hai, aapse ye sawal kare: *Gulaab ki khushbu ka rang kaisa hota hai?* *Khushbu ka aakar kaisa hota hai?* *Khushbu gol hoti hai ya chaukore?* *Khushbu meethi hoti hai ya teekhi?* To aap kya jawab denge? Yehi ki sawal hi galat hai! Bachcha apni samajh ki kami ki wajah se aise sawal kar raha hai. Jaise-jaise uski samajh badhegi, wo khud samajh jaayega ki khushbu se jude aise sawal bekaar hain. Isi tarah, ALLAH Paak ki zaat se jude kuchh sawal insani aql se bahar hain. Aise sawalon par behas karna fizool hai. Hamara kaam ye hai ki hum ALLAH aur uski sifaat par imaan laayen, jaisa ki Quran wa Hadees me bataya gaya hai, aur gair-zaroori sawalon se bachen. Sahi Aqeedah Kahaan Se Milta Hai? ALLAH Paak ke baare me sahi jaankari humein Nabiyon aur Rasoolon se mili hai. Agar ALLAH Paak ne apne Nabi na bheje hote, to insaan kabhi bhi ye nahi jaan paata ki: ALLAH ke sifaat kya hain? Uski ibaadat karne ka sahi tareeqa kya hai? Kaun-si baatein ALLAH Paak ke shaan ke laayaq nahi hain? Ye sab baatein hamein wahi Rasoolon ke zariye maaloom hui hain. Yahi wajah hai ki ALLAH Paak ne apne Nabiyon ko bheja, taaki wo hamein sahi raasta dikhaayen. Isliye humein gair-zaroori sawalon mein ulajhne ke bajaay, Quran wa Hadees ki baatein maankar apni zindagi ko sahi raaste par chalana chahiye. *✍️ Muhammad Wasim Akram Razavi* Titlagarh, Balangir, Odisha

*अल्लाह पाक से जुड़े बेकार सवाल – एक आसान समझ* कुछ गैर-मुस्लिम लोग मुसलमानों को उलझाने के लिए अल्लाह पाक से जुड़े सवाल करते हैं, जैसे: *अल्लाह कैसा है?* *अल्लाह कहां है?* *अल्लाह कब से है?* असल में, अल्लाह पाक की ज़ात से जुड़े ये सवाल ही गलत हैं। कुछ चीजें ऐसी होती हैं जिनके बारे में सवाल करना बेकार होता है। *सवाल सही है या गलत, यह इस पर निर्भर करता है कि सवाल किस चीज़ के बारे में किया जा रहा है।* एक आसान मिसाल: अगर कोई छोटा बच्चा, जो अभी बोलना सीख रहा है, आपसे ये सवाल करे: *गुलाब की खुशबू का रंग कैसा होता है?* *खुशबू का आकार कैसा होता है?* *खुशबू गोल होती है या चौकोर?* *खुशबू मीठी होती है या तीखी?* तो आप क्या जवाब देंगे? यही कि सवाल ही गलत है! बच्चा अपनी समझ की कमी की वजह से ऐसे सवाल कर रहा है। जैसे-जैसे उसकी समझ बढ़ेगी, वह खुद समझ जाएगा कि खुशबू से जुड़े ऐसे सवाल बेकार हैं। इसी तरह, अल्लाह पाक की ज़ात से जुड़े कुछ सवाल इंसानी अक़्ल से बाहर हैं। ऐसे सवालों पर बहस करना फिजू़ल है। हमारा काम यह है कि हम अल्लाह और उसकी सिफात पर ईमान लाएं, जैसा कि कु़रआन व हदीस में बताया गया है, और गैर-ज़रूरी सवालों से बचें। सही अक़ीदा कहां से मिलता है? अल्लाह पाक के बारे में सही जानकारी हमें नबियों और रसूलों से मिली है। अगर अल्लाह पाक ने अपने नबी न भेजे होते, तो इंसान कभी भी यह नहीं जान पाता कि: *अल्लाह के सिफात क्या हैं?* *उसकी इबादत करने का सही तरीका क्या है?* *कौन-सी बातें अल्लाह पाक के शान के लायक नहीं हैं?* ये सब बातें हमें वही रसूलों के ज़रिए मालूम हुई हैं। यही वजह है कि अल्लाह पाक ने अपने नबियों को भेजा, ताकि वे हमें सही रास्ता दिखाएं। इसलिए हमें गैर-ज़रूरी सवालों में उलझने के बजाय, कुरआन व हदीस की बातें मानकर अपनी जिंदगी को सही रास्ते पर चलाना चाहिए। *✍️ मुहम्मद वसीम अकरम रज़वी* टिटलागढ़, बलांगीर ओड़िशा

*सास-बहू और भाभियों में कौन ज़ालिम?* अक्सर सुना जाता है कि सास और बहू की नहीं बनती, ननद और भाभी में नहीं पटती, या दो भाभियों के बीच हमेशा तनाव रहता है। लेकिन हकीकत यह है कि न कोई पूरी तरह ज़ालिम होता है और न ही कोई पूरी तरह मज़लूम। बल्कि ज़्यादातर औरतें खुद अपनी ज़िंदगी को मुश्किल बना लेती हैं। समस्या कहाँ होती है? असल में, समस्या तब पैदा होती है जब हर इंसान की सोच और प्राथमिकताएँ (ज़रूरी चीज़ें) अलग-अलग होती हैं। जैसे: ननद चाहती है कि घर का आँगन साफ-सुथरा रहे, लेकिन उसे रसोई की सफाई उतनी ज़रूरी नहीं लगती। भाभी के लिए रसोई की सफाई सबसे अहम होती है, लेकिन आँगन पर ज़्यादा ध्यान नहीं देती। अब जब ननद को गंदा आँगन दिखेगा, तो उसे परेशानी होगी। वहीं, जब भाभी को बिखरी हुई रसोई नज़र आएगी, तो वह परेशान होगी। जबकि दोनों अपने-अपने हिसाब से सही कर रही होती हैं। सास और बहू की कहानी भी यही है। सास चाहती है कि घर के पुराने नियम और परंपराएँ बनी रहें। बहू चाहती है कि वह अपनी नई सोच और तरीके से ज़िंदगी गुज़ारे। अगर दोनों एक-दूसरे की सोच को समझने की कोशिश करें, तो बहुत से झगड़े खुद-ब-खुद खत्म हो सकते हैं। समाधान क्या है? हम जिन चीज़ों को ज़रूरी समझते हैं, अगर कोई दूसरा भी उन्हीं बातों को अहमियत दे, तो वह हमें अच्छा लगता है। लेकिन अगर किसी की प्राथमिकताएँ हमसे अलग होती हैं, तो हमें उससे शिकायत होने लगती है। जबकि ज़रूरी नहीं कि वह व्यक्ति लापरवाह हो। हो सकता है कि वह किसी और अहम चीज़ पर ध्यान दे रहा हो। अगर हम जल्दी नाराज़ होने के बजाय दूसरों की प्राथमिकताओं को समझने की कोशिश करें, तो घर का माहौल बहुत खुशनुमा हो सकता है। *✍️ मोहम्मद वसीम अकरम रज़वी* टिटलगढ़, बलांगीर, ओडिशा, भारत 🗓 तारीख़: 27 फरवरी 2025 | 28 शाबान अल-मुअज़्ज़म 1446

*ساس بہو میں ظالم کون؟ اسی طرح بڑی اور چھوٹی بھابھی میں ظالم کون؟* یہ جملے آپ نے کئی بار سنے ہوں گے کہ ساس بہو کی نہیں بنتی، بھابھی اور نند کی آپس میں نہیں پٹتی، یا دو بھابیوں کے درمیان ہمیشہ کھنچاؤ رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ کوئی سراسر ظالم ہے اور نہ کوئی مکمل مظلوم۔ بلکہ اکثر عورتیں خود اپنی ذات پر ظلم کر رہی ہوتی ہیں۔ دراصل، مسئلہ وہاں کھڑا ہوتا ہے جہاں ترجیحات میں فرق آتا ہے۔ انسان کو زیادہ تکلیف تب ہوتی ہے جب وہ اپنی ترجیحات کو ضائع ہوتا دیکھتا ہے۔ مثلاً، نند کو گھر کا آنگن صاف ستھرا رکھنے کی زیادہ فکر ہے، لیکن کچن کی صفائی اس کے نزدیک اتنی اہم نہیں۔ جبکہ بھابھی کے لیے کچن صاف رکھنا اولین ترجیح ہے اور آنگن پر اس کی زیادہ توجہ نہیں۔ اب نند جب گندا آنگن دیکھتی ہے تو پریشان ہوتی ہے، اور بھابھی بکھرا ہوا کچن دیکھ کر الجھتی ہے۔ یہی حال ساس بہو کا بھی ہے۔ ساس چاہتی ہے کہ گھر کے اصول و روایات برقرار رہیں، جبکہ بہو اپنی سوچ اور طریقے سے زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ اس فرق کو اگر سمجھا جائے تو کئی مسائل خود بخود حل ہو سکتے ہیں۔ عموماً ہم جس کام کو خود ضروری سمجھتے ہیں، اگر ہمیں کوئی ایسا شخص مل جائے جو انہی باتوں کو اہمیت دے، تو وہ ہمیں اچھا لگتا ہے۔ لیکن اگر کسی کی ترجیحات ہم سے مختلف ہوں تو ہمیں اس سے شکایت ہونے لگتی ہے۔ حالانکہ ضروری نہیں کہ وہ شخص لاپروا ہو، ممکن ہے کہ جن چیزوں کو ہم اہم سمجھ رہے ہیں، اس سے کہیں زیادہ اہم کسی اور پہلو پر اس کی توجہ ہو۔ لہٰذا، بدظن ہونے سے پہلے دوسروں کی ترجیحات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اگر باہمی تعلقات میں برداشت ہو تو گھر کا ماحول خوشگوار رہے گا۔ *✍️: محمد وسیم اکرم رضوی* ٹٹلاگڑھ بلانگیر اڈیشہ ہند تاریخ: 28/شعبان المعظم/1446 27/فروری/2025

سنیوں میں چھپے رافضیوں سے ایک سوال | https://www.lubaab.com/2025/02/Sunniyuon-mai-chupe-razfziyon-se-ik-sawal.html