
NIDA-E-HAQ
1.5K subscribers
About NIDA-E-HAQ
*قحط الرجال کا زمانہ ہے ،ایسے رجال تیار کرنے کی اک جستجو،جو محبوب امت کو پستی سے اٹھا کر بلندیوں تک لے جائیں* *تحاریر و نصائح امت کے نوجوانوں کے نام* *اے باصلاحیت مسلمانو!اللہ کے لیے خود کو تولو...اور پھر اپنا سارا وزن دین کےکاموں پر خرچ کر ڈالو..آگر تمہارے چلنے سے کوہی کام ہوتا ہے تو بغیر تھکے چلتے رہو خواہ ٹانگیں ٹوٹ جاہیں آگر تمہارے بولنے سے کچھ کام ہوتا ہے تو بولتے رہو خواہ سینہ پھٹ جاۓ. . . آگر تمہارے جاگنے سے کچھ کام ہوتا ہے تو جاگتے رہو خواہ تمہارا دماغ تھک جاے. . . اور سنو ! اگر تمہارے مرنے سے کام ہوتا ہے تو مر جاٶتب رب کریم خود استقبال فرماتا ہے اور یاد رکھنا! زندہ رہنے والے تمہاری موت کو رشک کی نگاہ سے دیکھیں گے*
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

*WhatsApp پر NIDA-E-HAQ چینل کو فالو کریں:* *https://whatsapp.com/channel/0029VavzmhD89innQQh24E3n*

بسم اللہ الرحمن الرحیم <مکتوب خادم> *”محبت اور احترام سے لبریز“* *”شکریہ“* السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته.. اللہ تعالی ہر اس مسلمان کو اپنی مغفرت، رحمت، عافیت، برکت اور جزائے خیر عطاء فرمائیں…جس نے ہمارے ساتھ کوئی بھی....دینی، دنیوی، ظاہری اور باطنی بھلائی کی ہے..کوئی بھی احسان فرمایا ہے..کبھی بھی کوئی خیر پہنچائی ہے... ..”جزاہم اللہ خیرا...اللهم اغفر لهم وارحمهم وبارك لهم فی ما رزقتهم..واتهم في الدنيا حسنۃ وفي الآخره حسنۃ وقهم عذاب النار“.. (۱) ہمارے مرکز پر دشمنوں نے حملہ کیا..کئی محبوب اقارب، پیارے بچے اور عزیز رفقا شہید ہوئے...اس وقت اللہ تعالی نے ”اہل ایمان“ کے دلوں میں ”محبت“ کا نور چمکایا..وہ ان ”شہداء کرام“ کی نماز جنازہ کے لیے بے خوف و خطر آگے بڑھے..بہت دور دور سے..بڑی مشقت اٹھا کر..یہ سب تشریف لائے..انہوں نے میری شہیدہ باجی جان کو..اپنی ”باجی جان“ سمجھا..ہمارے معصوم بچوں کو اپنا بچہ سمجھا..اہل ایمان کا اتنا بڑا مجمع گزشتہ دہائیوں میں..بہاولپور میں کسی نے نہیں دیکھا..نماز جنازہ میں شریک ہر فرد کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ..اور دل سے اٹھنے والی ڈھیروں دعائیں..(۲) ان شہداء کرام کے ”ایصال ثواب“ کی درخواست عرض کی گئی..اسمیں باقاعدہ شرکت کرنے والوں کی تعداد سوا لاکھ سے زائد تھی..ان سب کا عمیق قلب سے شکریہ (۳) تہنئت، تعزیت اور حوصلہ افزائی کے لیے دور دراز سے وفود آئے..ہر ایک نے دعائیں دیں..یکجہتی کا اظہار فرمایا...تصویر و تشہیر کی پابندی کے باوجود نامور اور با اثر شخصیات بھی تشریف لائیں..ان ہزاروں افراد اور درجنوں محترم قائدین کا نہایت محبت و احترام کے ساتھ شکریہ.. (۴) جامع مسجد سبحان اللہ شریف کے خوبصورت، دلربا اور شہید گنبدوں کی طرح..وہاں کے کئی مکین بھی مکمل طور پر اجڑ گئے..غم پر غم..اور ساتھ یہ کہ تن پر پہنے کپڑوں کے سوا کچھ نہ بچا..اہل ایمان نے نصرت کی..اپنے گھروں میں ٹھکانے دیئے..غریب سے غریب رفقا نے بھی ”مؤاخات“ کا حق ادا کیا..اُن سب کا تہہ دل سے شکریہ..اللہ تعالی کا اپنے مجاہد بندوں پر ”فضل“..اور اپنے فدائیوں کے لیے ”غیرت“ دیکھیں کہ..اتنے بڑے حادثے کے باوجود..نہ کسی کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑا..نہ چندے کی اپیلیں ہوئیں..نہ متاثرین کے کیمپ لگے..الحمدللہ..اللہ تعالی نے اپنے مجاہد بندوں کی عزت اور شان..محض اپنے فضل اور احسان سے سلامت رکھی..و الحمدللہ رب العالمین (۵) بے شمار مسلمانوں نے اس موقع پر خود کو ہر قربانی کے لیے پیش کیا..میرے پاس خطوط کا انبار ہے اور ہر خط میں غیرت و انتقام کی آگ ہے..کئی مسلمانوں نے ”جامع مسجد سبحان اللہ“ کی مکمل بحالی کے لیے مالی خدمات پیش کرنے کی اجازت مانگی...خواتین اسلام کا جذبہ مردوں سے دو قدم آگے رہا..ہم نے فی الحال سب کو صبر، استقامت اور انتظار کا عرض کیا ہے..ان سب اہل ایمان کی ”غیرت ایمانی“ کو سلام اور ان سب کا ”محبت بھرا شکریہ“.. اور سب سے بڑھ کر...دل کی محبت اور احترام کے ساتھ ان کا شکریہ جو نہ ڈرے، نہ پیچھے ہٹے..نہ خوفزدہ ہوئے اور نہ گھبرائے..دین اسلام کی ناقابل شکست چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے....اپنے حق کام میں مگن..اپنی مہمات اور ذمہ داریوں میں مشغول..بلکہ پہلے سے زیادہ پرجوش، غضبناک اور راستے پر قائم....ماشاءاللہ، ماشاءاللہ، ما شاءاللہ لا قوۃ الا باللہ..ایسی مضبوطی اور ایسی استقامت صرف اللہ تعالی کے محبوب بندوں کو ہی نصیب ہوتی ہے...اللہ تعالی کا شکر..بے انتہا شکر..میں نے اس پورے حادثے میں ”غمزدہ“ افراد تو دیکھے...مگر ”خوفزدہ“ ایک بھی نہیں دیکھا....ماشاءاللہ، لا حول ولا قوۃ الا باللہ..و الحمدللہ رب العالمین..ابھی بہت سے ”طبقات“ اور ”افراد“ کا ”شکریہ“ نہیں آسکا....ہو سکا تو مکتوب میں آجائے گا..ورنہ دل اور دعاء میں تو موجود ہے.. والسلام خادم.....لااله الاالله محمد رسول الله *WhatsApp پر NIDA-E-HAQ چینل کو فالو کریں:* *https://whatsapp.com/channel/0029VavzmhD89innQQh24E3n*

صبح سے اب تک 10 گھنٹے میں 134 شہید۔ 72 گھنٹوں میں 500 سے متجاوز *WhatsApp پر NIDA-E-HAQ چینل کو فالو کریں:* *https://whatsapp.com/channel/0029VavzmhD89innQQh24E3n*

*ڈاکٹر زکریا السنوار کی زندگی بحال ہو گئی ہے۔* … ان کی شہادت کے اعلان کے بعد جب میت کو مردہ خانے میں منتقل کیا جا رہا تھا تو علامات ظاہر ہوئیں کہ ان کی نبض اور زندگی کے آثار تھے۔ وہ اس وقت انتہائی خطرناک حالت میں ہے اور زخمی ہے۔ اے اللہ، عرش عظیم کے مالک، مجھے اللهم رب العرش العظيم، اشفه شفاءً لا يغادر سقما. *WhatsApp پر NIDA-E-HAQ چینل کو فالو کریں:* *https://whatsapp.com/channel/0029VavzmhD89innQQh24E3n*


*یحیی السـ.ـنـ.ـوار کے بھائی شہـ.ـید نہیں، شدید زخمی...!* زکریا السـ.ـنـ.ـوار کو ڈاکٹروں نے پہلے مردہ قرار دیا مگر جب اسے مردہ خانہ منتقل کیا جا رہا تھا تو اس میں زندگی کے آثار پائے گئے، اس وقت ان کی حالت انتہائی تشویشناک ہے، دعا فرمائیں کہ اللّٰه تعالی انہیں شفا نصیب فرمائے۔ *WhatsApp پر NIDA-E-HAQ چینل کو فالو کریں:* *https://whatsapp.com/channel/0029VavzmhD89innQQh24E3n*

*حق جغرافیائی حدود میں محدود ہونے کے لیے نہیں آیا۔ نہ ہی حق یہ قبول کرتا ہے کہ جغرافیہ دانوں نے جو محدود سرحدیں متعین کر دی ہیں اسلام کو اس میں محدود کر دیا جائے۔ یہ حق تو انسانوں کی عقلِ سلیم کو للکارتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ تم ہی بتاؤ یہ کیا منطق ہوئی کہ ایک چیز فلاں پہاڑی یا فلاں نہر کے دائیں جانب ہو تو حق ہو لیکن وہی چیز بائیں جانب چلی جائے تو وہی باطل قرار دی جائے۔ کیا کوئی سلیم عقل بھی اس کو تسلیم کرتی ہے۔* `شيخ عبدالله عزام شهيد رحمۃ اللہ` *WhatsApp پر NIDA-E-HAQ چینل کو فالو کریں:* *https://whatsapp.com/channel/0029VavzmhD89innQQh24E3n*

> باطل کا انجام قریب ہے! `﴿سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ﴾` *"لشکر شکست کھائے گا، اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا!" (القرآن)* *یہ کوئی سیاسی نعرہ نہیں،یہ ربِ ذوالجلال کا فیصلہ ہے جو اٹل ہے* *نہ ٹینک بچائیں گے، نہ طیارے،نہ ہی عالمی حمایت کام آئے گی،کیونکہ جب قہار و جبار اعلانِ جنگ کرے،تو تخت الٹتے دیر نہیں لگتی۔۔جنہوں نے خون بہایا، وہ خود اپنے لہو میں ڈوبیں گے،جنہوں نے بستیوں کو جلایا، وہ خود خاک ہو جائیں گے۔۔ فتح ان شاء اللہ مظلوموں کی ہے اور وقت قریب ہے…جب آنکھوں سے وعدۂ الٰہی کا ظہور ہوگا!* *WhatsApp پر NIDA-E-HAQ چینل کو فالو کریں:* *https://whatsapp.com/channel/0029VavzmhD89innQQh24E3n*

اللہ تعالیٰ مجاہدین اسلام کی نصرت فرمائیں۔۔۔فتح اور غلبے سے ہم کنار فرمائیں۔۔۔دارین کی سعادتوں برکتوں سے نوازیں۔۔۔یہ امت کے بڑے قیمتی نگینے ہیں۔۔۔بڑی عظیم ہستیاں۔۔۔جن سے پورا عالم کفر پریشان ہے۔۔۔کوئی ان کے سر کی قیمت ہزاروں ڈالر لگاتا ہے۔۔۔تو کوئی ہزاروں پاؤنڈ۔۔۔سبحان اللہ کیا ہی عمدہ جواہرات ہیں۔۔۔دنیا میں بھی سرمایہ دار اپنا سارا سرمایہ ان کو کھوجنے میں صرف کرنا چاہتا ہے۔۔۔مگر رب تعالیٰ نے انہیں ایسا حفاظتی کوج پہنا رکھا ہے۔۔۔جس تک رسائی پانے والا۔۔۔یا تو مٹ جاتا ہے۔۔۔فنا ہو جاتا ہے۔۔۔یا جل کر راکھ بن جاتا ہے۔۔۔مگر ان کو چھو نہیں پاتا۔۔۔آخر کیا وجہ ہے۔۔۔؟ کفر ان سے بوکھلاہٹ کا شکار کیوں ہے۔۔؟ کفر اتنا بڑا سرمایا کیوں لگا رہا ہے۔۔۔؟ ان سب کی وجہ ایک ہی ہے۔۔۔یہ مجاہد رب کے قانون کی پاسداری چاہتا ہے۔۔۔ساری دنیا کو وحدت ڈھنکے کی چوٹ پر سمجھانے کیلیے۔۔۔اپنی قیمتی جان پر کھیل جاتا ہے۔۔۔کسی مظلوم کا خون بہتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔۔۔کسی مظلوم کی عزت پامال ہونے کو برداشت نہیں کرتا۔۔۔کسی مظلوم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے نہیں دیتا۔۔۔دنیائے کفر کو مسلم امت کے خون بہانے کی پادائیش میں۔۔۔انہیں موت کے گھاٹ اتار کر سبق سیکھاتا ہے۔۔۔آج دنیا کے عجوبے۔۔۔ان مجاہدین کے رحم و کرم پر پلنے والے۔۔۔منہ پھاڑ پھاڑ کر مجاہدین کے خلاف ہلے بازیوں میں مصروف عمل ہیں۔۔۔لیکن وہ شاید اس بات سے بے خبر ہیں۔۔۔ہر دور میں جب بھی کسی نے ان امت کے رکھوالوں کیخلاف پروپیگنڈہ کرنے کی کوشش کی ۔۔۔اللہ تعالی نے اسے نیست ونابود کر دیا۔۔۔اسکا تذکرہ کسی کوڑا دان کا ڈھیر بنا دیا۔۔۔اسکا وجود صفائے ہستی سے مٹا دیا۔۔۔اللہ تعالٰی نے مجاہد کے نام کو باقی رکھا۔۔۔مجاہد کے مقام کو باقی رکھا۔۔۔مجاہد کے کام(جہاد فی سبیل اللہ)کو باقی رکھا۔۔۔اور مجاہد کے نام،مقام اور کام نے باقی رکھنا ہے ان شاءاللہ۔۔۔کیونکہ نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)بتا کر گئے تھے۔۔۔جہاد قیامت کی صبح تک جاری رہے گا۔۔۔آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) غزوۃ الہند کی بشارتیں سنا کر گئے ہیں۔۔۔امام مھدی علیھم رضوان کے تشریف لانے۔۔۔عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کے ہاتھوں دجال کے قتل کی نوید سنا کے گئے ہیں۔۔۔میرے آقا(صلی اللّٰہ علیہ وسلّم)نے جو فرما دیا۔۔۔وہ سچ ہوتا رہا ہے۔۔۔یہ ارض و سماء اس بات کے عین شاہد رہے ہیں۔۔۔اور دنیا دیکھے گی آنے والے زمانے میں بھی سچ ہو کر رہے گا۔۔۔اور چپے چپے پر دین اسلام کا پرچم لہرائے گا۔۔۔ان شاءاللہ والسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد علی کاشمیری *WhatsApp پر NIDA-E-HAQ چینل کو فالو کریں:* *https://whatsapp.com/channel/0029VavzmhD89innQQh24E3n*

🌹 *شہدائے جموں کشمیر* ✍️ *جنید صحرائی شہیدؒ — جہدِ آزادیِ کشمیر کا روشن باب* جنید صحرائی شہیدؒ کا نام مقبوضہ کشمیر کی تاریخِ حریت میں ایک روشن اور ناقابلِ فراموش باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ صرف ایک سپوت نہیں تھے، بلکہ ایک نظریہ تھے ۔ ایسا نظریہ جو ظلم ، جبر اور غلامی کے خلاف آزادی، وقار اور خودارادیت کی علامت بن گیا۔ جنید صحرائیؒ نے ایک تعلیم یافتہ اور باوقار خاندان میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد محمد اشرف صحرائیؒ خود ایک صاحبِ کردار رہنما اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے ستون تھے۔ جنیدؒ نے نوجوانی ہی میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ صرف کتابوں اور تقریروں سے نہیں ، بلکہ عمل سے جدوجہد کریں گے۔ اگرچہ جنید صحرائیؒ نے عسکری راستہ اپنایا، لیکن ان کی پہچان صرف ایک مجاہد کی نہیں بلکہ ایک باشعور ، بہادر اور ایمان سے لبریز نوجوان کی تھی۔ ان کا ہتھیار صرف بندوق نہیں تھا ، بلکہ ان کا یقین ، استقلال اور قربانی کا جذبہ تھا۔ 19 مئی 2020ء کو جب بھارتی افواج نے اُنہیں شہید کیا، تو وہ سمجھ رہے تھے کہ ایک مزاحمت ختم ہو گئی۔ مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ جنیدؒ کی شہادت نے نئی تحریکوں کو جنم دیا۔ ان کے خون کا ایک ایک قطرہ کشمیری عوام کے شعور کو جِلا دیتا رہا۔ "غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے صرف نعرے نہیں ، قربانی کی ضرورت ہوتی ہے" ۔ جنید صحرائیؒ کا یہی پیغام آج بھی نوجوانوں کے دلوں میں زندہ ہے ، وہ ان کے کردار میں جھلکتا ہے ، ان کے خوابوں میں بستا ہے۔ جنید صحرائی شہیدؒ ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام ہے۔ اُن کا وجود اُن کی جدوجہد اور اُن کی قربانی ، تاریخِ کشمیر میں سنہری الفاظ سے لکھی جائے گی۔ وہ جہدِ آزادی کا وہ روشن باب ہیں ، جسے وقت کی گرد بھی مٹانے سے قاصر ہے۔ 🌹➖🍁➖🌹➖🍁➖🌹 *ہمیں اکیلے چھوڑ کر کہاں چلے جنید اب* *سجا کے انجمن یہاں کہاں چلے جنید اب* 🌹➖🍁➖🌹➖🍁➖🌹 *◼️ کمانڈر جنید اشرف صحرائی عرف عمار بھائی شہیدؒ* *◼️طارق احمد شیخ عرف غازی بابا شہیدؒ* *🗒️ تاریخ شہادت : 19 مئی 2020ء* *📍 مقام شہادت : کنی مزار نواکدل سرینگر*


*عرباتِ جدعون کی حربِ زبون* *ضیاء چترالی* قیامت کا سماں ہے، ہر سو چیخ و پکار ہے، زمین دہک رہی ہے اور دھوئیں کے مرغولوں سے آسمان سیاہ ہو چکا ہے۔ ہوا میں بارود کی بُو رچی ہے اور دیواروں پر آنسوؤں کی نمی بسی ہے۔ غزہ کے گلی کوچوں میں موت کا رقص کناں ہے۔ جہاں کبھی بچوں کی ہنسی گونجتی تھی، آج وہاں بس آہ و فغاں ہے۔ ظلم و ستم کی راہوں میں اک حشر بپا ہے۔ کہاں گئی انسانیت، کہاں وفا ہے؟ کسی باپ کے بازو میں بیٹے کی لاش ہے، تو کسی ماں کی گود خالی ہے، پر آنکھیں پتھرائی ہوئی ہیں، شاید آنسو بھی ختم ہو چکے ہیں۔ کسی کھنڈر میں دبے ہوئے ہاتھ میں ایک پرانا کھلونا ہے، جس سے ابھی زندگی لپٹی ہوئی تھی۔ کوئی بچی اپنی ماں کو آوازیں دے رہی ہے، جو ملبے کے نیچے ہمیشہ کے لیے سو گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پورا شہر ایک اجتماعی قبر میں بدل چکا ہے، جہاں سانس لینا بھی جرم ہے۔ غزہ میں زندگی کی تعریف بدل گئی ہے، زندہ وہ نہیں جو سانس لے رہا ہے، بلکہ وہ ہے جس کی لاش کو دفنانے کی جگہ مل گئی ہو۔ دنیا تماشائی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے کاغذوں پر قراردادیں گرد اُڑا رہی ہیں، جبکہ بچوں کی چیخیں زمین پر لکھا جانے والا سب سے خاموش احتجاج بن چکی ہیں۔ بچے کھچے قدسیوں کو بھی ختم کرنے کے لیے فیصلہ کن آپریشن "عرباتِ جدعون" شروع ہو چکا ہے۔ اسپتالوں میں لاشوں اور زخمیوں کی اور قبرستانوں میں میتوں کی گنجائش ختم۔ صرف36 گھنٹے میں555 بے جاں وجود ادویہ و سہولیات سے خالی برائے نام شفاخانوں میں لائے جاچکے۔ جو زندہ ہیں ان کے دو ہی مشغلے ہیں، صبح شام پیاروں کی تدفین، پھر جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے نوالے کے حصول کی تگ ودو۔ کبھی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر بھی خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔19مارچ سے محصور پٹی میں آب و دانہ کی رسائی مسدود۔ راستوں پر سنگینوں کے پہرے۔ پانی کی بوتل یا دوا کی شیشی بھی پٹی میں داخل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے بھوک، پیاس اور افلاس مجسم ہو کر الگ سے لاغر وجودوں کو کھا رہا ہے۔ 65 ہزار بچے غذائی قلت سے موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ "بے بسی" بھی ان کی بے بسی کو بیان کرنے سے بے بس۔ حقیقی معنوں میں زمین تنگ ہوچکی۔ کلیجے منہ کو آرہے ہیں۔ مگر فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ اب تو فریاد کی بھی سکت نہیں رہی۔ دنیا کی ایسی سنگ دلی کا ایک قوم پہلی دفعہ مشاہدہ کر رہی ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ کیمروں کے سامنے اور دنیا کی نگاہوں کے آگے ایک قوم کی نسل مٹائی جا رہی ہے۔ مگر ہر طرف سکوت مرگ طاری ہے۔ جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اس لیے دنیا سے مایوس ہو کر ایک سادہ مگر سنجیدہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ہم پر ایٹم بم برسا دو۔ یہ تمہارا احسان ہوگا تاکہ اس اذیت ناک اور سسکتی زندگی سے نجات ملے! یہ کوئی مبالغہ نہیں، بلکہ بین الاقوامی خبر رساں ادارے ''انٹر پریس سروس" (آئی پی ایس) نے مظلومانِ قدس کے اس مطالبے پر رپورٹ شائع کی ہے۔ صورتحال اتنی ناگفتہ بہ ہو چکی ہے کہ اب قدسی کسی روشنی کی توقع نہیں رکھتے۔ اب جسے موت اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، اسے خوش قسمت سمجھا جاتا ہے۔ یوں غزہ میں موت بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ بھوک کے مارے بچے جب امدادی اداروں کے مراکز سے اپنے برتن خالی لے کر واپس لوٹتے ہیں تو جابجا بکھری قبروں کے پاس گزرتے ہوئے وہ آپس میں سرگوشی کرتے ہیں کہ "احمد شہید" کتنا خوش قسمت ہے، وہ جنت کے میوے کھا رہا ہوگا اور ہم یہاں ایک نوالے کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کاش کہ ہم بھی جلد شہید ہو جائیں۔ غزہ دردوں کا دَر اور دکھوں کا گھر ہے۔ اس کا نوحہ لکھنے کے لیے بھی کسی ابوالکلام کا قلم درکار ہے۔ وہ بھی شاید اس تکلیف کو الفاظ کا جامہ نہ پہنا سکے، جس سے اہل غزہ گزر رہے ہیں۔ الجزیرہ کے نمائندے انس الشریف نے جمعہ کی صبح سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لکھی کہ "مجھے پتہ ہے آپ لوگ مزے سے سوئے ہوں گے۔ مگر ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔" صہیونی فوج نے غزہ کو مکمل طور پر ملیامیٹ کرنے کے آپریشن "عرباتِ جدعون" کا آغاز کر دیا ہے۔ ہفتہ کے روز اس خوفناک مہم کی شروعات کا آفیشلی اعلان کر دیا گیا۔ یہ کئی ہفتوں کی مسلسل تیاریوں کے بعد شروع کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد بے خانماں فلسطینیوں کو دربدر کرکے غزہ پر مکمل قبضہ اور حماس سمیت دیگر مزاحمتی قوتوں کا مکمل صفایا ہے۔ واضح رہے کہ اس آپریشن کا آغاز عین ہفتہ کے روز کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہودی مذہب میں ہفتہ کا دن (سبت) بہت مقدس ہے۔ اس دن کوئی کام بالخصوص جنگ کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ عرباتِ جدعون؟ اسرائیل نے اہل غزہ کو بے دخل کرنے کے لیے ہفتے کے روز عربات جدعون (Gideon's Chariot) کے نام سے نیا آپریشن شروع کیا ہے۔ عبرانی روایات کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک اہلیہ قطورہ کی اولاد خلیج عقبہ کے مشرقی ساحل پر آباد ہوگئی اور یہ علاقہ مدین کہلایا۔ کچھ عرصے بعد مدین لٹیروں اور ڈاکوؤں کا مسکن بن گیا۔ ترازو میں ڈنڈی مارنے کی شیطانی روایت کا آغاز بھی مدین سے ہوا تھا۔ قرآن کریم کے مطابق اہل مدین کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ توریت کے باب یا سورہ Judges کے مطابق ایک خدا ترس جنگجو جدعون 300 سپاہیوں کا مختصر لشکر لے یہاں آیا اور اس نے ان بے ایمانوں کو شکست دے کر مدین پر دوبارہ فلسفہ ابراہیمی کے تحت منصفانہ حکومت قائم کر دی تھی۔ اسرائیل کی جانب سے نہتے اور بھوکے پیاسے فلسطینیوں کے قتل عام کو خدا ترس مجاہدین سے منسوب کرنے کا تصور ہی شرمناک ہے۔ صہیونیوں نے فتح مبین حاصل کرنے کے لیے اس آپریشن کا نام جدعون سے موسوم کیا ہے۔ اسرائیل میں اکثر فوجی کارروائیوں کو بائبلی یا علامتی نام دیئے جاتے ہیں تاکہ اہلکاروں کو تاریخی، مذہبی اور نفسیاتی تاثر کے تحت جنگ پر آمادہ کیا جائے تاکہ وہ اسے خالص مذہبی جذبے سے لڑیں۔ پھر "جدعون" کا نام اس لیے بھی چنا گیا ہے کہ وہ ایک چھوٹے گروہ کے ساتھ دشمن کی بڑی فوج کو شکست دینے والا رہنما تھا، یعنی یہ ایک ماہرانہ فوجی حکمتِ عملی کی علامت ہے۔19 ماہ کی مسلسل جنگ کے باوجود جب اسرائیل فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیموں کو شکست نہ دے سکا تو آخر میں یہ جدعون کے نام سے یہ آپریشن لانچ کیا گیا۔ آپریشن کی تکمیل کے بعد غزہ میں یہودی آبادگاروں کو بسایا جائے گا۔ بالخصوص امریکا سے آنے والے صہیونیوں کو۔ اس آپریشن کے تحت فضائی کارروائیوں کا آغاز چار دن پہلے ہی ہوگیا تھا، پھر ایک ساتھ زمینی اور بحری کارروائیاں شروع کی گئی ہیں۔ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے اس بائبلی نام کی حامل فوجی کارروائی کے نتیجے میں حماس کو شکست دینے کے ساتھ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرایا جائے گا۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کے شمالی حصوں، خاص طور پر بیت لاہیا اور جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں شدید فضائی اور زمینی حملے شروع کیے ہیں، جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد شہید ہو چکے ہیں۔ جمعہ کی صبح تک 36 گھنٹوں کے دوران250 سے زاید لاشیں اسپتالوں میں پہنچائی گئیں۔ جبکہ بے شمار لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ شدید بمباری کے باعث نہ تو امدادی ٹیمیں ان تک پہنچ سکتی ہیں اور نہ ہی ان کے پاس اتنے آلات ہیں کہ وہ ملبہ ہٹا کر لاشوں کو نکال سکیں۔ ہفتہ کی صبح آپریشن عربات جدعون کے آغاز کے بعد چند گھنٹوں کے دوران 140 فلسطینی شہید ہوگئے۔ جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نسل کشی کی مشین کس تیزی کے ساتھ حرکت میں آگئی ہے۔ فوجی حکمت عملی: اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں غزہ کے تمام شہریوں کو شمالی سے جنوبی حصوں میں منتقل کیا جائے گا تاکہ حماس سے علیحدگی ممکن ہو سکے۔ اس کے علاوہ، اسرائیلی فوج ہر قبضہ شدہ علاقے میں مستقل موجودگی کے لیے اپنے مراکز قائم کرے گی تاکہ حماس کی واپسی کو روکا جا سکے۔ شمالی غزہ کے باسیوں کو فی الفور علاقہ خالی کرکے جنوب کی طرف منتقل ہونے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ لیکن جو لوگ بے سروسامانی کے عالم میں ٹوٹے پھوٹے گھروں اور خیموں کو چھوڑ کر جان بچانے کے لیے نکلتے ہیں تو اسرائیلی طیارے انہیں بھی نشانہ بناتے ہیں۔ یہ آپریشن تین مراحل میں مکمل کرنے کا پلان ہے۔ پہلا مرحلہ شدید فضائی بمباری سے شروع کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بحری اور زمینی حملوں کا بھی آغاز کیا گیا۔ اسی مرحلے میں شہریوں کو جنوب میں منتقل کرنے کی کوشش بھی جاری ہے۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں زمینی افواج کو آگے بڑھانا ہے اور غزہ کے علاقوں پر قبضہ اور ممکنہ طویل مدتی فوجی موجودگی کی تیاری کرنی ہوگی اور تیسرے و آخری مرحلے میں ایک اسرائیلی سیکورٹی انتظامیہ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ پھر فلسطینی آبادی کو دیگر مقامات (شاید بین الاقوامی سرزمین یا لیبیا) پر "رضاکارانہ" منتقلی کی اسکیم کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ فلسطینی کہاں جائیں گے؟ منصوبے کے تحت تباہ کن بمباری سے غزہ کے باشندوں کو رفح میں جمع کیا جائے گا۔ پھر صحرائے نقب کے قریب رامون ہوائی اڈے کے قریب واقع پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کیا جائے گا۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس حوالے سے امریکی نیوز چینل "این بی سی نیوز" نے پانچ باخبر ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایک منصوبے پر کام کر رہی ہے، جس کے تحت ایک ملین(10لاکھ) فلسطینیوں کو مستقل طور پر غزہ سے لیبیا منتقل کیا جائے گا۔ دو باخبر افراد اور ایک سابق امریکی اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ یہ منصوبہ اتنا سنجیدہ ہے کہ امریکہ نے اس پر لیبیا کی قیادت کے ساتھ بات چیت بھی کی ہے۔ مزید یہ کہ فلسطینیوں کو دوبارہ آباد کرنے کے بدلے میں امریکہ وہ اربوں ڈالرز کی رقم جاری کرے گا جو واشنگٹن نے 10 سال سے زائد عرصے سے منجمد کر رکھی ہے۔ ایک طرف غزہ میں قیامت کا یہ سماں ہے اور فلسطینیوں کے بھوکوں مرنے کا خطرہ اب ہر گزرتے دن کے ساتھ حقیقت کا روپ دھاتا جا رہا ہے تو دوسری جانب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر عرب حکام کی طرف سے دولت کی بارش نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اسرائیل کو امریکی صدر کے دورۂ خلیج کے دوران ملنے والی حمایت سے غیر معمولی حوصلہ ملا ہے۔ اس لیے "عربات جدعون" آپریشن کو وقت سے پہلے ہی شروع کیا گیا۔ عبرانی ذرائع نے اطلاع دی تھی کہ افرادی قوت کی قلت کے باعث یہ آپریشن اگلے ماہ کے وسط تک شروع کرنا تھا۔ اب اسرائیل کو یقین ہوگیا ہے کہ عرب ممالک غزہ سے مکمل لاتعلق ہو چکے ہیں اور ان کی تمام تر دلچسپی امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات پر مرکوز ہے۔ اسرائیل نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر غزہ کو صاف کرنے کا فیصلہ کن آپریشن شروع کر دیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کے قتل عام میں شریک ہونے کے باوجود ٹرمپ کو خلیج میں جو پذیرائی ملی ہے، اس سے امریکی اتحادی اسرائیل کو بھی شہہ ملی ہے۔ انوسٹمنٹ کے نام پر ٹرمپ نے خلیجی "اتحادیوں" سے جتنی وصولی کی ہے، اس کی مثال شاید ہی انسانی تاریخ میں مل سکے۔ یک مشت، صرف3دن میں3320ارب ڈالرز۔ بقول برادرم عارف انیس کے اتنی بڑی آگراہی سکندر اعظم، امیر تیمور، چنگیز و ہلاکو خان اپنی تمام تر مار دھاڑ کے باوجود نہ کر سکے تھے، جو ٹرمپ نے پیار پیار میں کر دکھایا۔ ایسی لوٹ مار کے لیے برطانوی سامراج کو ہندوستان پر190سال تک حکومت کرنی پڑی تھی۔ معروف معاشی ماہر اتسا پٹ نائیک کی تحقیق کے مطابق1765ءسے1938ء تک انگریز نے جو رقم لوٹ کر برطانیہ منتقل کی، اس کا اندازہ تقریباً45کھرب ڈالر لگایا گیا ہے اور ٹرمپ نے صرف3دن میں اتنی رقم جمع کی کہ تاریخ رقم ہوگئی۔3320ارب ڈالر کو اگر ہم پاکستانی کرنسی میں دیکھنا چاہیں تو یہ تقریباً925کھرب روپے بنتی ہے۔ کتنی؟925,284,000,000,000روپے۔ جس کی تفصیل یوں ہے: سعودیہ عرب:720ارب ڈالر قطر:1200ارب ڈالر یو اے ای:1400ارب ڈالر یعنی ان عرب ممالک نے کل ملا کر امریکا سے3320ارب ڈالر انوسٹمنٹ کے معاہدے کیے ہیں۔ پچھلے سات دن میں، مودی کی پشت میں شرلی چھوڑنے کے علاوہ ٹرمپ نے سعودیہ، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دوروں میں تقریباً تین ٹریلین ڈالرز کے باہمی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ اب امریکا کو عظیم بنانے کا رستہ عرب کے ریگزاروں سے ہو کر جاتا ہے۔ اس کا آدھا بھی سچ ہو جائے تو اگلے پچاس برس تک، امریکا دنیا کے سینے پر ایسے ہی مونگ دلتا رہے گا۔ باقی سب اپنی جگہ مگر آرٹ آف ڈیل کے مصنف صدر ٹرمپ نے اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا بیوپاری ثابت کر دکھایا۔ معاشی ماہرین کے بقول یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ تقریباً چار سال تک امریکا کے دفاعی بجٹ کے لیے کافی ہے۔ حالانکہ امریکا دنیا میں دفاع پر خرچ کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ سالانہ تقریباً8سو ارب ڈالر۔ جبکہ اس سے آکسفورڈ جیسی 200 یونیورسٹیاں بنا کر5سال تک چلائی جاسکتی ہیں اور پاکستان جیسا ملک تقریباً نصف صدی (48برس) تک اپنا پورا بجٹ اس رقم سے بناسکتا ہے۔ خلیجی حکام کی دریا دلی کی یہ خبر جب میڈیا پر آئی تو غزہ میں کھانے کے حصول کے لیے لمبی قطار میں کھڑے ایک فلسطینی بڑے جذباتی انداز میں میڈیا سے مخاطب تھا کہ ہم ایک ایک نوالے کو ترس رہے ہیں اور عرب حکام ٹرمپ کو ایک ایک ہزار ارب ڈالر دے رہے ہیں۔ حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔