
اسلامی اشعار
326 subscribers
About اسلامی اشعار
اچھے اشعار کا مطالعہ کیا جائے تو وہ انسان کو بھلائی کے راستے پر لگاتے ہیں لیکن اس کے برعکس اگر لغویہ،محبتوں،محض ذکرِ بُتاں اور تذکرۂ شراب و کباب والے اشعار ہوں تو وہ انسان کو تباہی تک لے جاتے ہیں۔
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

کیا حسن نےسمجھا ھے، کیا عشق نےجانا ھے ہم خـاک نشینوں کی، ٹھـوڪر میں زمـانا ھے آغــاز محبت ھـے ـــــــــــ آنا ھـے نـہ جــانا ھے اشڪوں کی حڪومت ھے، آہوں کا زمانا ھے یا وہ تھے خفـا ہم سے، یا ہم ہیں خفـا ان سے ڪل ان کا زمـانہ تھـا ــــــــ آج اپنـا زمـانا ھـے یہ عشـق نہیں آســاں، بس اتنا سمجھ لیجـے اک آگ کا دریا ھـے اور ڈوب ڪے جــانا ھـے خودداری و محرومی، محـرومی و خودداری اب دل ڪو خدا رڪھـے، اب دل کا زمـانا ھے اشڪوں کے تبسـم میں، آہوں کـے ترنـم میں معـصــوم محبت کا ــــــ معصـوم فســانا ھـے آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگر لیکن بندھ جائےسو موتی ھے، رہ جائےسو دانا ھے

دربار میں حاضر ہے اک بندہ آوارہ آج اپنی خطاؤں کا لادے ہوۓ پشتارہ سرگشتہ و درماندہ بے ہمت و ناکارہ وارفتہ و سرگرداں بے مایہ و بے چارہ شیطان کا ستم خوردہ اس نفس کا دکهیارا ہر سمت سے غفلت کا گهیرے ہوۓ اندهیارا جذبات کی موجوں میں لفظوں کی زباں گم ہے علم ہے تحیر کا یاراۓ بیاں گم ہے مضمون جو سوچا تها وہ جانے کہاں گم ہے آنکهوں میں بهی اشکوں کا اب نام و نشاں گم ہے سینے میں سلگتا ہے رہ رہ کے اک انگارہ آیا ہوں تیرے در پر خاموش نوا لے کر نیکی سے تہی دامن انبار خطا لے کر لیکن تیری چوکهٹ سے امید سخا لے کر اعمال کی ظلمت میں توبہ کی ضیا لے کر سینے میں طلاطم ہے دل شرم سے صد پارا دربار میں حاضر ہے اک بندہ آوارہ امید مرکز یہ رحمت سے بهرا گهر ہے اس گهر کا ہر ذرہ رشک مہ و اختر ہے محروم نہیں کوئ جس در سے یہ وہ در ہے جو اس کا بهکاری ہے قسمت کا سکندر ہے یہ نور کا قلزم ہے یہ امن کا فوارہ دربار میں حاضر ہے اک بندہ آوارہ یہ کعبہ کرشمہ ہے یارب تیری قدرت کا ہر لمحہ یہاں جاری میزاب ہے رحمت کا ہر آن برستا ہے ہن تیری سخاوت کا مظہر ہے یہ بندوں سے خالق کی محبت کا اس عالم بستی میں عظمت کا یہ جو بارا دربار میں حاضر ہے اک بندہ آوارہ یارب مجهے دنیا میں جینے کا قریہ دے میرے دل ویراں کو الفت کا خزینہ دے سیلاب معاصی میں طاعت کا سفینہ دے ہستی کے اندهیروں کو انوار مدینہ دے پهر دہر میں پهیلا دے ایمان کا اجیارا دربار میں حاضر ہے اک بندہ آوارہ یا رب میری ہستی پر کچھ خاص کرم فرما بخشے ہوۓ بندوں میں مجھ کو بهی رقم فرما بهٹکے ہوۓ راہی کا رخ سوۓ حرم فرما دنیا کو اطاعت سے گلزار ارم فرما کر دے میرے ماضی کے ہر سانس کا کفارہ دربار میں حاضر ہے اک بندہ آوارہ


*🌴فکرِ آقا اور ہم* میرے آقا نے غمِ دین میں کیا کیا دیکھا کبھی طائف کی مشقت،کبھی فاقہ دیکھا آہ!ہجرت کی گھڑی دل پہ کیا گزری ہوگی بڑی پُر اشک نگاہوں سے جو کعبہ دیکھا کتنا صدمہ دلِ آقا نے سہا ہوگا جب دامنِ جبلِ اُحد ٹکڑوں میں حمزہ دیکھا محل والوں کےحسیں محل ہوئے بےوقعت جب تصور میں شہءِ دیں تیرا ہُجرہ دیکھا آؤ کعبے سے لپٹ جائیں اِسی کعبے نے غمِ اُمت میں پریشاں رُخِ زیبا دیکھا اُمتی ہوتے ہوئے ہم نے مدینے میں فقط فکرِ آقا کو نہیں گنبدِ خِضریٰ دیکھا ہم نے آقا کے غلاموں کے دلوں میں ہُدہُد شوق دنیا کا نہیں بس غمِ عُقبی دیکھا (صلی اللہ علیہ وسلم)

*فصحاءُ في بسط الشكوىٰ،* *أعاجمُ في ذكر النعم!* شکایت میں ہم فصاحت کے دریا بہاتے ہیں، اور شکر میں گونگے بن کر بیٹھ جاتے ہیں!

دل کو اب تیری محبت سے نکھر جانا ہے یاد میں تیری مجھے حد سے گزر جانا ہے خانۂ دل ہے تری یادوں سے اب تابندہ ذکر سے فکر سے اور سوز سے ہے خندیدہ رفتہ رفتہ ہی سہی دل کو سنور جانا ہے یاد میں تیری مجھے حد سے گزر جانا ظلمتِ شب کے نظارے ہیں ترے جلوہ کناں مطربانِ چمن اور چرخِ کہن وجد کناں وادئ عشق ہے اور جاں سے گزر جانا ہے یاد میں تیری مجھے حد سے گزر جانا ہے دلِ ناداں ہے کہ اس کنجِ قفس سے نالاں وجہِ تسکینِ جگر نا رہا روئے جاناں زندگی کیا ہے یہ لمحوں میں گزر جانا ہے یاد میں تیری مجھے حد سے گزر جانا ہے دل کو لازم ہے تری یاد میں رہنا ہر دم بزمِ ماتم ہو بہاروں کا خزاں کا موسم گل تو کیا چیز ہے خاروں کو نکھر جانا ہے یاد میں تیری مجھے حد سے گزر جانا ہے میکدے میں بھی سکوں تیرے تصور سے ملا زندگی کیا ہے یہ جوہر بھی ترے در سے ملا خستہ دل تشنہ جگر تیرے نذر جانا ہے یاد میں تیری مجھے حد سے گزر جانا ہے

کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ وہی اقبالؔ جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر فراق طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ


*میں حاضر ہوں* اے ربِ ملائک و جن و بشر، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں خدمت میں تری شرمندہ نظر، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں جو تیری ثنا کے لائق ہو، اک حرف بھی ایسا پاس نہیں کیا تابِ سخن، کیا عرضِ ہنر، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں قطرے کی نگاہِ حیراں پر دریا کی حقیقت کیسے کھلے میں جانتا ہوں یہ بات مگر،میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں میرے چاروں طرف ہیں دروازے، میرا سرمایہ کچھ اندازے مجھ بے خبرے کو بخش خبر،میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں یہ ارض وسما کی پہنائی،یہ میری ادھوری بینائی ہے شوقِ سفر ہی زادِ سفر،میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں مرے کان تری آہٹ سے سجیں ، مرے سانس تری خوشبو میں پلیں مری آنکھیں اپنے خواب سے بھر ، میں حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں اے نورِ ازل ، اے حسنِ ابد، سبحان اللہ سبحان اللہ رہیں روشن تیرے شمس و قمر میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں


*"مالي سوى طرقي لبابك حيلةٌ* *فلئِنْ رُدِدت فأيُّ بابٍ أطرقُ."* "میرے پاس تیرے دروازے پر دستک دینے کے سوا کوئی سہارا نہیں، پس اگر تُو مجھے رد کر دے، تو پھر میں کون سا در کھٹکھٹاؤں؟" _امام الشافعی رحمہ اللّٰہ_

کبھی زخم دل کا سجا لیا ، کبھی کوئی اشک بہا لیا یہی حال تھا میرا روز و شب کہ نبی ﷺ نے در پہ بلا لیا وہ جو بار ہجر تھا ٹل گیا میں غریب شہر سنبھل گیا تیرے شہر خلد صفات میں میرا بوجھ کس نے اٹھا لیا تیری رحمتوں کے جوار میں ،تیری عاطفت کے حصار میں میں گنہگار پہنچ گیا ، کوئی کام آیا دیا لیا میں مثالِ کاہ تھا راہ میں ، میں گھرا ھوا تھا گناہ میں تیری بزمِ چرخِ پناہ میں ،مجھے کس نے پاس بٹھا لیا


گُفتَم چه چِیــزم از غـمِ گیتـی کُنَد خَلاص عِشقــم خِطاب کـــرد کــه طَـــرزی فنا فنا (طرزی شَبِستَری) مَیں نے کہا: "کیا چِیز مُجھے غمِ دُنیا سے خَلاصی دِلائے گی؟" عِشق مُجھ سے مُخاطِب ہُوا کہ: "اے طَرزی! فَنا، فَنا!"