
الدرویش نیوز
19 subscribers
About الدرویش نیوز
Breaking News, Current affairs, Analysis, Predictions, Off the record Gossips 🇵🇰
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

چیرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ سجاد غنی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا

ایران کی جانب سے کچھ دیر پہلے اسرائیل پر بڑا حملہ کیا گیا 20 کے قریب میزائل اسرائیل کے شہروں پر گرے اسرائیل کا دفاعی نظام ناکام ہوچکا ہے

خیبرپختونخوا — یکم جنوری سے 3 جون 2025 تک دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن "البدر" کے دوران خیبرپختونخوا کے مختلف حساس علاقوں میں مجموعی طور پر 673 دہشت گرد ہلاک کیے گئے۔ آپریشنز شمالی و جنوبی وزیرستان، سوات، باجوڑ اور دیگر شورش زدہ علاقوں میں کیے گئے، جن میں کئی مطلوب اور اہم دہشت گرد کمانڈرز بھی مارے گئے۔ کارروائیوں کے دوران بھاری مقدار میں اسلحہ، گولہ بارود اور بارودی مواد بھی برآمد کر لیا گیا۔


--- 🔹 1. اسرائیل نے ایران کو کیا اسلحہ دیا؟ اسرائیل نے خفیہ طور پر ایران کو درج ذیل اشیاء فراہم کیں: امریکی نژاد اسلحہ کے پرزے جیسے F-4 Phantom اور F-5 لڑاکا طیاروں کے اسپئر پارٹس، جو ایران نے 1970 کی دہائی میں امریکہ سے خریدے تھے۔ اینٹی ٹینک اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل الیکٹرانکس اور رڈار سسٹمز گولہ بارود اور مارٹر شیلز یہ تمام تر سامان اسرائیل کے ذریعے یا تیسرے ممالک کے راستے سے ایران تک پہنچایا گیا۔ --- 🔹 2. "ایران-کانٹرا اسکینڈل" کیا تھا؟ یہ ایک خفیہ معاہدہ تھا جو 1985–1987 کے درمیان سامنے آیا: اسرائیل نے امریکی اسلحہ ایران کو بیچا — امریکا نے اجازت دی۔ اسلحہ کی قیمت سے حاصل شدہ رقم نکاراگوا میں کانٹرا باغیوں کو دی گئی، جنہیں امریکی کانگریس نے سرکاری امداد دینے سے منع کر رکھا تھا۔ یہ ایک خلافِ قانون اور خفیہ آپریشن تھا، جس کے انکشاف پر امریکی سیاست میں بڑا ہنگامہ ہوا۔ --- 🔹 3. ایران میں اس پر کیا ردعمل ہوا؟ یہ بہت دلچسپ اور تضاد بھرا معاملہ تھا: ایرانی عوام اور حکومت اسرائیل کو "غاصب" اور "شیطان" کہتے تھے، لیکن جنگ کے حالات میں عملی مفادات کو ترجیح دی گئی۔ ان تعلقات کو مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا — صرف 1990 کے بعد صحافت اور leaked دستاویزات سے حقیقتیں سامنے آئیں۔ --- 🔹 4. اسرائیل نے ایسا کیوں کیا؟ عراق کا عروج اسرائیل کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا۔ اسرائیل کو خدشہ تھا کہ اگر عراق، ایران کو شکست دیتا ہے تو وہ خطے میں ایک سپر پاور بن جائے گا۔ اسرائیل نے 1981 میں عراق کے اوسیراک نیوکلیئر ری ایکٹر پر حملہ (Operation Opera) بھی اسی وجہ سے کیا — تاکہ عراق جوہری طاقت نہ بن سکے۔

وفاقی حکومت کا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا پٹرول کی قیمت میں 4 روپے 80 پیسے فی لیٹر اضافہ کا فیصلہ، نوٹیفیکیشن ڈیزل کی قیمت میں 7 روپے 95 پیسے فی لیٹر اضافہ کا فیصلہ، نوٹیفیکیشن پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کا اطلاق آج رات 12 بجے سے ہوگیا ہے


ڈرونز بالخصوص چھوٹے کامیکازی ڈرونز اس وقت میدان جنگ میں بڑے خطرے کا روپ دھار چکے ہیں اور انکو انٹرسیپٹ کرنا بھی کافی زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ انکا چھوٹا سائز اور نچلی سطح پر پرواز کرنے کی صلاحیت ریڈاروں کے لیے انکو ڈیٹیکٹ اور ٹریک کرنا مشکل بناتی ہے اسکے علاوہ روایتی ائیر ڈیفینس سسٹمز سے انکی انٹرسیپشن بہت زیادہ مہنگی پڑتی ہے اس وجہ سے مائیکرو ویو اور لیزر ائیر ڈیفینس سسٹمز بنائے جا رہے ہیں جو کہ کم خرچے میں ان ڈرونز کو مار گرانے کا کام کر سکتے ہیں پر اسکے باوجود روایتی ائیر ڈیفینس سسٹمز کی ضرورت ختم نہیں ہوتی ایسے ڈرونز کو کم رینج پر مار گرانے کے لیے شارٹ رینج ائیر ڈیفینس سسٹمز کو مؤثر ترین طریقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور چین کے کئی ائیر ڈیفینس سسٹمز کی لسٹ میں ایک ایسا ائیر ڈیفینس سسٹم بھی موجود ہے جسکو Type 625A/E کہتے ہیں اسکو چینی کمپنی Norinco اور CSGC(china south industries group corporation) نے مل کر بنایا ہے اور چین اسکو ایکسپورٹ مارکیٹ کے لیے بھی آفر کر رہا ہے یہ ایک شارٹ رینج پوائنٹ ائیر ڈیفینس سسٹم ہے جو کہ حرکت کرتے فوجی قافلوں اور دیگر سائیٹس کی لاسٹ لائن آف ڈیفینس کے طور پر کام کر سکتا ہے یہ ائیر ڈیفینس سسٹم مختلف قسم کے فضائی خطرات جیسا کہ ڈرونز کامیکازی ڈرونز گائیڈڈ بموں آرٹلری پروجیکٹائلز کروز میزائلوں ہیلی کاپٹروں اور لو فلائنگ لڑاکا طیاروں کو مار گرانے کی صلاحیت کا حامل ہے یہ سسٹم ایک 8x8 آرمرڈ گاڑی پر نصب ہے اور مکمل سسٹم میں ایک سرچ ریڈار ایک ٹارگٹ ٹریکنگ اینڈ فائیر کنٹرول ریڈار الیکٹرو آپٹیکل سسٹم اینٹی ائیر کرافٹ گن اور میزائل لانچر شامل ہیں چین اس ائیر ڈیفینس سسٹم کو پہلی بار سن 2022 میں منظر عام پر لے کر آیا تھا اس سسٹم میں دو طرح کے میزائل استعمال کیے جا سکتے ہیں جن میں سے پہلا FN 16 میزائل ہے جبکہ دوسرا FB 10 میزائل ہے پہلے میزائل کی رینج چھ کلومیٹر تک ہے جبکہ دوسرا میزائل دس کلومیٹر کی رینج کا حامل ہے اور یہ پندرہ میٹر سے لے کر پانچ ہزار میٹر تک کی بلندی پر موجود اہداف کو انٹرسیپٹ کر سکتا ہے اسکے علاوہ اس سسٹم میں چھ بیرلز پر مشتمل Gatling سٹائل گن بھی موجود ہے جو کہ پچیس ملی میٹر کی گولیاں فائر کرتی ہے اور یہ ڈھائی کلومیٹر کی دوری اور دو کلومیٹر کی بلندی پر موجود اہداف کو انٹرسیپٹ کر سکتی ہے یہ سسٹم 360 ڈگری کی کوریج رکھتا ہے اور کسی بھی سمت سے آ رہے ہدف کو ڈیٹیکٹ ٹریک اور انٹرسیپٹ کر سکتا ہے اسکے ریڈاروں کی بات کریں تو یہ AESA ٹیکنالوجی کے حامل ہیں جس کی وجہ سے یہ الیکٹرانک جیمنگ کے خلاف مزاحمت رکھتے ہیں اور یہ سسٹم ہر طرح کے موسم میں اپنا کام بخوبی سرانجام دے سکتا ہے اس کے علاوہ اس سسٹم کی گن فضائی اہداف کے علاوہ زمینی اہداف جیسا کہ بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں وغیرہ کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے یہ گن دونوں طرز کا یعنی کہ ائیر برسٹ اور اینٹی آرمر ایمونیشن فائر کرنے کی صلاحیت کی حامل ہے زیر نظر تصاویر میں اس سسٹم کو دیکھا جا سکتا ہے


عراق-ایران جنگ (1980–1988) کے دوران اسرائیل نے ایران کی حمایت کی، اگرچہ یہ حمایت خفیہ اور غیر رسمی تھی۔ تفصیل: جنگ کے دوران، ایران اسلامی انقلاب (1979) کے فوراً بعد سیاسی طور پر تنہا ہو گیا تھا، لیکن اس کے باوجود اسرائیل نے عراق کو ایک بڑا خطرہ سمجھا، خاص طور پر صدام حسین کے زیرِ قیادت۔ اسرائیل کو خدشہ تھا کہ اگر عراق طاقتور ہوتا ہے تو وہ خطے میں اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، خاص طور پر اس کے جوہری عزائم کے باعث۔ اسرائیلی اقدامات: اسلحہ کی فراہمی: اسرائیل نے ایران کو اسلحہ اور پرزہ جات خفیہ طور پر فراہم کیے۔ اس میں امریکی نژاد اسلحہ بھی شامل تھا، جسے ایران انقلاب سے پہلے خریدا تھا۔ "ایران-کانٹرا اسکینڈل": 1980 کی دہائی میں امریکا اور اسرائیل نے خفیہ طور پر ایران کو اسلحہ فروخت کیا اور اس سے حاصل ہونے والی رقم نکاراگوا میں کانٹرا باغیوں کو دی گئی۔ یہ اسکینڈل بعد میں سامنے آیا اور "Iran-Contra Affair" کے نام سے مشہور ہوا۔

جی ہاں، ایران نے ابتدا میں اسرائیل کو تسلیم کیا تھا — لیکن صرف "de facto" (عملی طور پر)، "de jure" (قانونی طور پر مکمل طور پر) نہیں۔ 🟢 تفصیل: ✅ 1. شاہِ ایران کے دور میں (پہلے تسلیم کیا گیا): ایران نے اسرائیل کو 1950 میں de facto تسلیم کیا، جب محمد رضا شاہ پہلوی کی حکومت تھی۔ ایران ان چند مسلم ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اسرائیل سے خاموش اور پسِ پردہ سفارتی و تجارتی تعلقات رکھے۔ 1960 کی دہائی تک: ایران میں اسرائیلی سفارتی مشن موجود تھا (اگرچہ رسمی سفارتخانہ نہیں کہلاتا تھا)۔ دونوں ممالک کے درمیان تیل، تجارت، فوجی اور انٹیلیجنس تعاون بھی جاری تھا۔ موساد (اسرائیل) اور ساواک (ایران) کے درمیان قریبی انٹیلیجنس تعلقات تھے۔

*🔴 تہران چھوڑنے والے ایرانیوں کی بڑی تعداد سے رش لگ گیا۔*