
مارخور (جہاد ظلم کے خلاف)
4.8K subscribers
About مارخور (جہاد ظلم کے خلاف)
نیکی و اسلام کی خاطر بنا یہ گروپ۔ معاشی و معاشرتی و روزمرہ کی ایک۔خبریں شئیر کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ گولڈ و دیگر انوسٹمنٹس بارے بھی اب اس گروپ میں تفصیل سے بات کی جایا کرے گی۔۔ کیونکہ کاروبار اور حالات حاضرہ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ حالات نا ٹھیک ہوں تو کاروبار نہیں چلتا اور کبھی کاروبار نا ہو تو حالات ٹھیک نہیں رہتے۔
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

سائیں لیاقت حسین مجذوب #محمداصف سائیں لیاقت سے بہت سی کہانیاں منسوب تھیں سچی یا جھوٹی اللہ جانے ۔۔ البتہ یہ مظفر اباد کا وہ مجذوب تھا جسے مظفر آباد میں سب جانتے تھے اور بے حد عزت کرتے تھے۔ سائیں جسے خود بلا لیتے یا کچھ مانگ لیتے،،، تو وہ اپنی خوش بختی پر ناز کرتا مگر کوئئ انہیں نا خود سے بلاتا تھا نا وہ کسی کی سنتے تھے۔ اور سب سے بڑی شاہی سواری سائیں اور اس کے پتیلے کی ہوتی تھی۔ جج، وزیر، وزیر اعظم، صدر آزاد کشمیر کسی میں جرات نا تھی کہ انہیں ہٹا کر اپنی گاڑی گزار لیتا۔ پولیس والے کہیں آنے جانے سے انہیں روکتے نہیں تھے۔۔۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ مظفرآباد کے ہی ایک علاقہ گوجرہ کے رہایشی تھے۔جو جوانی میں ہی جذب کی کیفیت میں رہا کرتے تھے۔ گھر والوں نے اس ڈر سے کہ یہ لوگوں کو تنگ کرے گا اور شاید مارے گا ، اسے ایک کمرے میں بند کر دیا ۔ لیکن یہ دوسرے دن پھر باہر روڈ پر تھا ۔ اس بات کی تسلی کے لئے کہ شاید کوئی دروازہ کھول دیتا ہوگا خادم کو زنجیر سے باندھا گیا ۔۔اگلی صبح زنجیر بھی ویسے ہی رہی اور دروازے پر تالا بھی پڑا رہا لیکن یہ کیا ؟ لیاقت پھر روڈ پر تھا۔ اس دن کے بعد گھر والوں نے اسے کبھی گھر میں قید کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لوگ بتاتے ہیں کہ اسے ہم نے تند و تیز دریائے نیلم کو چلتے ہوئے پار کرتے بھی دیکھا ہے۔ لیکن سائیں لیاقت کے مشھور ہونے کی وجہ اسکا یہ دیگچا یا دیگ تھا۔ جسے یہ ہر روز ایک ہی دکان سے لیتا تھا، اور ہر روز اسی سائز کا ایک نیا دیگچا دوکاندار اسے تار باندھ کر دیتا ہے ۔ جسے وہ سارا دن مظفر آباد کی سڑکوں پر گھسیٹتا کرتے تھے۔ دوکاندار کا کہنا ہے کہ لیاقت میرے پاس پہلی بار تب آیا جب میری چھوٹی سی دکان میں چند ہزار کے کچھ برتن اور اس سائز کے دو ہی دیگچے تھے ۔ جن میں سے ایک سائیں لیاقت نے مانگ لیا اور میں نے دے دیااور اگلے دن وہ نئے دیگچے کی طرف اشارہ کرتے ہوے پھر دکان پر تھا، یوں یہ سلسلہ روزانہ کے بنیاد پر چل پڑا ۔۔ دوکاندار کا کہنا ہے کہ ایک سارے دن کی کمائی کی قیمت کا یہ دیگچا ہر روز دینے کے باوجود میری ہٹی، دکان اور پھر دکان سے ہول سیل ڈیلر میں تبدیل ہوگٸی۔ میں حیران بھی تھا اور ساتھ والے دوکاندار جو اب سائیں لیاقت حسین کی منتیں کرتے تھے دیگچہ لینے کے لئے پریشان تھے اور جلتے تھے ۔ لیکن وہ صرف میرے پاس ہی آتا ہے۔ راہ چلتے کسی شخص کو اسکی پیٹھ پر تھپڑ نما تھپکی دینا لوگ سعادت سمجھتے ہیں۔ اسکے آگے آگے چلتے ہیں، اسکے سامنے جھکتے ہیں کہ لیاقت تھپکی دے لیکن لیاقت ایسا اپنی مرضی سے ہی کرتے ہے اور کبھی کبھار ہی کرتے ہیں۔

https://www.facebook.com/share/p/16611PYiPu/ تمام دوست فیس بک کی اس پوسٹ کو اپنی وال پر لازمی شئیر کریں


سائیں لیاقت کا مزار۔ مظفر اباد کی سڑکوں پر پتیلا باندھ کر پھرنے والا مجذوب سائیں لیاقت مر گیا لیکن مری کے عباسیوں اور کشمیر کے لوگوں میں ایک بہت بڑا جھگڑا شروع کر گیا۔ کشمیر کے باسیوں اور اہلیان مری کے ہنر مند باخوبی جانتے ہیں سائیں لیاقت مرا ہوا وہ ہاتھی ہے جو انکی نسلیں سنوار دے گا۔ دونوں اطراف سے ڈیڈ باڈی کےحصول کیلئے تنازعہ اس قدر بڑھ گیا ہے گزشتہ شب اسلام اباد انتظامیہ نے ڈیڈ باڈی دوبارہ ایک فریق سے لے کر پمز ہسپتال کے مردہ خانہ میں جمع کرا دی ۔ مظفر آباد کے تاجروں کا ایک وفد چار اشخاص سائیں لیاقت کا چچا اور بھتیجے ظاہر کر کے گزشتہ روز پمز پہنچا اور سائیں لیاقت کی ڈیڈ بادی تدفین کیلئے حاصل کر لی۔ یہ لوگ بقول ان کے سائیں لیاقت کے مزار کیلئے جگہ کا تعین کر چکے تھے تاہم اس بات پر بھی تنازعہ ہے کہ "ازاد کشمیر کے متعدد شہروں میں سائیں لیاقت کے مزار کے دعوے کئے جا رہے ہیں" سائیں لیاقت کی ڈیڈ باڈی ابھی قافلے کے ساتھ روانہ نہیں ہوئی تھی مری کی عباسی برادری کا ایک بڑا گروپ پمز پہنچ گیا اور یہ کہہ کر ڈیڈ باڈی پر قبضہ کر لیا مرحوم مری کے عباسی ہیں جو تیس سال پہلے گھر سے چلے گئے تھے۔ دونوں گروپوں میں شدید جھگڑے کے بعد پولیس طلب کر لی گئی اور سائیں لیاقت کی ڈیڈ باڈی مارچری منتقل کر دی گئی۔ دونوں گروپ مزار بنانا چاہتے ہیں اور مزار کے مجاور بننے کے خواہاں ہیں۔ دونوں گروپوں کو یقین ہے مزار سے ماہانہ لاکھوں روپیہ کی امدن ہو گی اور اطراف میں دوکانیں بنا کر بھر پور بزنس ہو گا۔ فریقین میں سے جو بھی کامیاب ہوا وہ سونے کی کان حاصل کرے گا۔

https://www.facebook.com/share/v/19D8YHdn2F/


https://www.facebook.com/share/p/1RBn1p6sMX/ مینگو پاکستانیوں کب تک سیاسی گینگ سے لتر کھاتے رہا کرو اوئے اپنے حقوق کے لئے بول نہیں سکتے تو کم از کم جو بول رہا ہے اس کی آواز ہی اگے پہنچا دو۔۔۔ کہ بس مران نواز کی پوسٹوں کو ہی فارورڈ کرنا ثواب سمجھتے ہو ؟؟؟؟


سخت گرمی ہو یا سردی جب دل چاہا تو ننگے پاوں پتیلا لے کے گلی گلی سڑک سڑک من کی موج میں پھرتا سائیں۔۔۔۔ جسے بڑی بڑی گاڑیوں والے اپنی گاڑی میں بٹھانے کی خواہش یا کوشش کرتے۔۔۔ کچھ تو پھل، کھانا دکھا کے بھی للچاتے مگر وہ جو جانے کون تھا کسی کو لفٹ نا کرواتا۔۔۔ اور کبھی خود ہی کسی گاڑی والے بناء چھوٹی بڑی دیکھے بناء روک لیتا،،،، تھپکی دیتا یا کھانے پینے کو کچھ مانگتا یا پھر ویسے ہی فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کی فرمائش کردیتا،، کبھی سڑک کنارے پتیلا پارک کرتا اور کسی راہ چلتے یا دوکان میں بیٹھے بچے، جوان یا شخص کو عجیب معرفت بھری باتیں بتانے لگ جاتا۔۔۔۔ بہترین خوراک لے کے پیچھے پھرنے والے عقیدت مند کو چاہے دیکھے نا دیکھے کھائے نا کھائے،، پر جب چاہے تو کسی سوکھی روڑی کھاتے مزدور سے وہی روٹی مانگ لے۔۔۔۔ پھر دو تین لقمے کھائے یا پوری روٹی یا بناء کھائے تھپکی دے کے آگے بڑھ جائے یہ اس کی مرضی مگر اردگرد کے لوگ اس مزدور یا شخص کی قسمت پر ناز کرتے۔۔۔۔۔ کون تھا وہ سائیں لیاقت اللہ جانے جو دل آتا تو بڑے بڑوں کو لفٹ نا کرواتا اور دل آتا تو چھوٹے بچوں ہا ٹوٹے پھوٹے گھر کا ہی مہمان بن جاتا۔۔۔ اللہ جانے کون تھا وہ۔۔۔۔ کون تھا وہ !!!! جی ہاں مظفرآباد شہر کا سائیں سائیں لیاقت دارفنا سے دار بقاء کی جانب کوچ کر گیا!!! اناللہ واناالیہ راجعون