
ملفوظات حکیم الامت رحمہ اللہ
51 subscribers
About ملفوظات حکیم الامت رحمہ اللہ
تمام دوستوں کو اس گروپ میں خوش آمدید کہتا ہوں اس گروپ میں حضرت حکیم الامت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے ملفوظات کو ریکارڈ کر کے اور تصویر یا تحریر کی شکل میں بھیجا جائے گا جو ہم سب کی دینی و دنیوی تربیت کے لئے انشاءاللہ مفید ثابت ہوں گے آپ حضرات مناسب وقت میں عمل کی نیت سے اس کو سنیں اور دیکھیں تاکہ بھرپور فائدہ ہو
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

*ملفوظاتِ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ* *ایصالِ ثواب کا طریقہ* ارشاد فرمایا کہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مُردوں کو برابر ثواب پہنچتا ہے، تقسیم ہو کر نہیں پہنچتا۔ پھر فرمایا کہ ادب یہ ہے کہ کچھ پڑھ کر علیحدہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ مبارک کو ثواب بخش دیا کرے، خواہ زیادہ کی ہمت نہ ہو مثلاً تین بار سورۂ اخلاص پڑھے، ایک کلام مجید کا ثواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور تمام انبیاء و صلحاء و عام مسلمین و مسلمات کو جو مرچکے ہیں یا موجود ہیں یا آئندہ پیدا ہوں سب کو بخش دیتا ہوں اور کسی خاص موقع پر کسی خاص مُردے کے لیے بھی کچھ پڑھ کر علیحدہ بخش دیتا ہوں۔ پوچھنے پر فرمایا کہ زندوں کو بھی عبادت کا ثواب پہنچتا ہے۔ (۳۱۳ اشرفی جواہرات، صفحہ ۱۱۰)

*ملفوظاتِ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ* *اپنے آپ کو ضرر سے بچانا جائز ہے* ایک مسئلہ پوچھا گیا کہ اگر باوجود جاننے کے کوئی شہادت نہ دے محض اس خیال سے کہ کچہری میں وکلاء وغیرہ تنگ کرتے ہیں، جائز ہے یا نہیں؟ ارشاد فرمایا کہ اپنے آپ کو ضرر سے بچانا جائز ہے۔ عرض کیا گیا کہ چاہے دوسرے کا بھلا ہوتا ہو؟ فرمایا کہ ہمارا جو برا ہوتا ہے۔ دوسرے کے نفع کے لیے اپنے آپ کو مضرت میں ڈالنے کا آدمی مکلف نہیں۔ (۳۱۳ اشرفی جواہرات، صفحہ ۱۱۴)

*ملفوظاتِ حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانامحمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ* *رمضان کی برکت* حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:*ان لربكم نفحات في الدهر فتعرضوا لها* ( ترجمہ: بے شک تمہارے رب کے لئے زمانہ کے اندر فیوض کے جھونکے ہیں، پس تم اس کی جستجو کرو) انسان کو چاہئے کہ ایسے زمانہ کو بہت غنیمت سمجھے۔ جن کی آنکھیں کھلی ہیں وہ رمضان المبارک کے برکات کو کھلی آنکھوں محسوس کرتے ہیں اور جو غافل ہیں ان کو یہ مہینہ اور دوسرے مہینے یکساں معلوم ہوتے ہیں۔ رمضان آیا، اپنی برکات اور انوار کا مینہ (بارش) برسایا اور چلا گیا، ان کو کچھ خبر بھی نہیں۔ ان لوگوں کی ایسی مثال ہے کہ جیسے کوئی شخص مکان کے اندر (سخت گرمی میں) بیٹھا ہے اور باہر یہ حالت ہو کہ ابر آیا اور ٹھنڈی ہوائیں چلیں اور بارش ہوئی اور لوگ اس سے خوش ہوئے۔ ابر برس کر چلا گیا اور آسمان صاف ہوگیا اور یہ حضرت مکان کے اندر ہی رہے۔ ان کو کچھ بھی خبر نہیں کہ باہر کیا سے کیا ہوگیا۔ رمضان میں تو یہ برکات اور انوار ہوتے ہی ہیں، اور زمانوں میں بھی بعض وقت ایسا ہوتا ہے کہ اس وقت اگر کوئی طالب ہو تو وہ ان برکات سے کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے۔ پس کسی وقت غفلت نہ کرنا چاہئے۔ حق تعالیٰ سے ایک پل بھر بھی غافل نہ ہو۔ ممکن ہے کہ کسی وقت وہ تم پر توجہ فرمائیں اور تم بے خبر ہو۔ سو غفلت اور بے توجہی میں وہ الطاف و عنایات تمہارے حال پر نہ ہوں گی۔ (احکام رمضان صفحہ ۲۸)

*ملفوظاتِ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ* *ایک بیماری کے ساتھ کئی راحتیں آتی ہیں* ارشاد فرمایا کہ بیماری میں اگر حق تعالیٰ ایک تکلیف دیتے ہیں تو اس کے ساتھ پچاس راحتیں بھی مہیا کر دیتے ہیں۔ ہر شخص کو ہمدردی ہوجاتی ہے، ناز نخرے اٹھانے والے بہت سے ہو جاتے ہیں، اگر کوئی خفگی یا ترشی بیمار کی طرف سے ہو تو کوئی خیال نہیں کرتا کہ بیماری کی وجہ سے مزاج چڑ چڑا ہوگیا ہے۔ پھر فرمایا کہ بیماری میں تیزی نہیں رہتی خستگی اور شکستگی پیدا ہوجاتی ہے، متانت اور وقار بھی آجاتا ہے، چھچھور اپن نہیں رہتا۔ (۳۱۳ اشرفی جواہرات، صفحہ ۱۲۳)

*ملفوظاتِ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ* *غم ہلکا کرنے کے لیے عجیب تعلیم* ارشاد فرمایا کہ غم کے ہلکا کرنے کے لیے یہ عجیب تعلیم ہے کہ خدا تعالیٰ کے یہاں کی چیزیں باقی ہیں اور وہی رغبت کے قابل ہیں۔ پھر یہ بھی سوچو کہ آدمی مر کر جاتا کہاں ہے تو اب تو وہ ماعند اللہ میں داخل ہو گیا ہے، پہلے وہ ما عندکم کا مصداق تھا (یعنی اب اللہ کے پاس ہے، پہلے وہ تمہارے پاس تھا) اس وقت وہ فانی تھا اور اب باقی ہوگیا ہے۔ کیونکہ اس موت کے بعد پھر موت نہیں تو اب تو وہ مرنے کے بعد پہلے سے اچھی حیات میں پہنچ گیا، وہ پہلی فانی تھی اور دوسری باقی ہے، پس ہمیں مرغوب شے (مثلاً) اپنے محبوب) سے محبت اس حیثیت سے زیادہ ہونی چاہیے کہ وہ خدا کے پاس ہے، بہ نسبت اس حیثیت کے کہ وہ ہمارے پاس ہے۔ چنانچہ اس مضمون کو ایک بدوی نے خوب سمجھا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے انتقال پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تسلی یوں کی : "اے ابن عباس صبر پر تم کو فانی کے عوض اجر باقی ملا، اور عباس فانی اب عباس باقی ہوگئے یعنی اور زیادہ مرغوب حالت میں ہوگئے تو نہ تمہارا کچھ نقصان ہوا نہ ان کا، پھر کس بات کا غم۔

*ملفوظاتِ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ* *دعا کا طریقہ* ارشاد فرمایا کہ آدمی کو چاہیے کہ حق تعالیٰ سے اپنے مقاصد میں کامیابی یا رفعِ پریشانی کی دعا کرے، اس طرح کہ حتی الامکان حضورِ قلب اور عاجزی کے ساتھ مانگے کہ یااللہ ! میرا یہ کام کردے اور ایک مضمون کو تین تین بار کہے۔ کام ہو یا نہ ہو دعا کو سکونِ قلب میں عجیب تاثیر ہے۔ (۳۱۳ اشرفی جواہرات، صفحہ ۱۲۸)

*ملفوظاتِ حکیم الامت مجددالملت حضرت مولا نا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ* *رمضان شریف میں سب سے بڑی عبادت تلاوتِ قرآن ہے* فرمایا کہ رمضان شریف کو تو قرآن شریف پڑھنے ہی کے لئے رکھنا چاہئے۔ میں تو اگر کسی کو ذکر و شغل شروع کراتا ہوں تو رمضان میں نہیں کراتا بلکہ رمضان کے بعد کراتا ہوں۔ رمضان میں تو وہی عبادت ہونی چاہئے جو مأثور اور منقول ہے، جس کو مقدمات لگا کر عبادت بنانا نہ پڑے۔ اشغالِ مروجۂ صوفیہ مقدمۂ عبادت ہیں۔ اصل عبادت وہی ہے جو مأثور اور منقول ہو۔ (مجالسِ حکیم الامت، جلد ۲۴، صفحہ ۱۶۵)

*ملفوظاتِ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ* *نیک کام میں دُھن سے لگے رہو* ارشاد فرمایا کہ نیک کام کرتے رہو، جیسے بھی ہو لشٹم پشٹم کئے جاؤ۔ کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ اول اول انتظام سے نہیں ہوتا، جی نہیں لگتا تو اس کی پرواہ مت کرو، جیسے ہو کرو، جس دن توفیق ہو کرو۔ یہ خیال نہ کرو کہ کل تو کیا نہیں، آج کرنے سے کیا فائدہ ہوگا، جیسے بھی بنے کئے جاؤ۔ دُھن ہونی چاہیے، اگرچہ عمل میں کوتاہی ہوجائے ہونے دو، ممکن نہیں کہ راہ پر نہ آؤ۔ (۳۱۳ اشرفی جواہرات، صفحہ ۱۱۷)

*ملفوظاتِ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ* *صالح شخص سے مخلوقات کو محبت ہوجاتی ہے* ارشاد فرمایا کہ ایمان و عملِ صالح سے قبولیت و محبوبیت اس کے لیے عوام میں پیدا ہوتی ہے یعنی جن لوگوں کو اس شخص سے کسی قسم کا تعلق نہ ہو، نہ نفع کا نہ نقصان کا، ان کے دل میں محبت پڑجاتی ہے بشرطیکہ سلیم الطبع ہوں۔ حتیٰ کہ وہ کفار بھی جن کے دل میں دشمنی نہ ہو، ان کے قلب میں بھی ایسے لوگوں کی عظمت ہوتی ہے۔ انسان کیا معنی جانور تک محبت کرنے لگتے ہیں۔ چنانچہ حضور ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ ایک دفعہ قافلہ سے الگ ہو کر راستہ بھول گئے تھے۔ رات کو جنگل میں ایک شیر ملا تو آپ نے اس سے کہا "اے شیر! میں سفینہ غلام ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا"۔ یہ سن کر وہ دُم ہلا کر خوشامدیں کرنے لگا اور پھر آپ کے آگے آگے ہولیا۔ تھوڑی دیر میں آپ کو قافلہ کے قریب پہنچا کر دُم ہلاتا ہوا ایک طرف کو چل دیا۔ یہ تو مخلوق کی محبت کا ظہور ہوا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا ظہور اس طرح ہوتا ہے کہ اس شخص کو بس آواز تو نہیں آتی مگر بقسم کہتا ہوں کہ محبتِ حق کا اثر اس کے دل میں موجود ہوتا ہے۔ ہر وقت واقعات میں اس کی امداد اور اعانت ہوتی ہے اور قلب پر علوم و واردات و کلامِ حق کا ایسا القا ہوتا ہے جیسے حق تعالیٰ اس سے باتیں کرتے ہوں، بس آواز تو نہیں آتی اور سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ دل سے خوب جانتا ہے کہ حق تعالیٰ مجھے چاہتے ہیں، پھر اس کی لذت کا کیا پوچھنا۔ باقی کامل ظہور اس محبت کا آخرت میں ہوگا۔ (۳۱۳ اشرفی جواہرات، صفحہ ۱۰۱)